Thursday, August 26, 2010

آٹھویں فصل ماہ صفر کے اعمال

(آٹھویں فصل ) --------------------------------------- ماہ صفر کے اعمال
یہ مہینہ اپنی نحوست کے ساتھ مشہور ہے اور نحوست کو دور کرنے میں صدقہ دینے ،دعا کرنے اور خدا سے پناہ طلب کرنے سے بہتر کوئی اور چیز وارد نہیں ہوئی اگر کوئی شخص اس مہینے میں وارد ہونے والی بلاؤں سے محفوظ رہنا چاہے تو جیسا کہ محدث فیض اور دیگر بزرگوں نے فرمایا ہے، وہ اس دعا کو ہر روز دس مرتبہ پڑھتا رہے :
یَا شَدِیدَ الْقُویٰ وَیَا شَدِیدَ الْمِحالِ یَا عَزِیزُ یَا عَزِیزُ یَا عَزِیزُ ذَ لَّتْ بِعَظَمَتِکَ جَمِیعُ
اے زبردست قوتوں والے اے سخت گرفت کرنے والے اے غالب اے غالب اے غالب تیری بڑائی کے آگے تیری ساری
خَلْقِکَ فَاکْفِنِی شَرَّ خَلْقِکَ، یَا مُحْسِنُ یَا مُجْمِلُ یَا مُنْعِمُ یَا مُفْضِلُ
مخلوق پست ہے پس اپنی مخلوق کے شر سے بچائے رکھ اے احسان والے اے نیکی والے اے نعمت والے اے فضل والے
یَا لاَ إلہَ إلاَّ ٲَنْتَ سُبْحانَکَ إنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ فَاسْتَجَبْنا لَہُ وَنَجَّیْناہُ
اے کہ نہیں کوئی معبود سوائے تیرے تو پاک تر ہے بے شک میں ظالموں میں سے ہوں پس ہم نے اسکی دعا قبول کی اور اسے نجات
مِنَ الْغَمِّ وَکَذلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِینَ، وَصَلَّی اﷲُ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ الطَّیِّبِینَ الطَّاھِرِینَ
دے دی اور ہم مومنوں کو اسی طرح نجات دیتے ہیں خدا محمد(ص) اور ان کی آل(ع) پر رحمت نازل کرے جو پاک و پاکیزہ ہیں ۔
سید نے اس مہینے کا چاند دیکھنے کے وقت کی ایک دعا بھی نقل کی ہے :
پہلی صفر کادن
37ھ میں اس دن امیرالمؤمنین- اور معاویہ کے درمیان جنگ صفین لڑی گئی ،ایک قول کے مطابق 61 ھ میں،اس دن امام حسین- کا سر مبارک دمشق پہنچایا گیا جس سے بنی امیہ کو خوشی ہوئی اور انہوں نے عید منائی یہی وجہ ہے کہ اس روز رنج و غم تازہ ہو جاتا ہے ،اس دن عراق کے مومنین کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہوتی ہے اور شام میں بنی امیہ اس کو عید قرار دے رہے ہوتے ہیں اس دن یا ایک قول کے مطابق ۱۲۱ھ میں تیسری صفر کے دن امام زین العابدین (ع)کے فرزند زید کو شہید کیا گیا ۔

تیسری صفر کا دن
سید ابن طاؤس ہمارے علمائ کی کتابوں سے نقل کرتے ہیں کہ اس دن دو رکعت نماز پڑھنا مستحب ہے اس کی پہلی رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد سورئہ انا فتحنا اور دوسری رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد سورئہ توحید پڑھے پھر سو مرتبہ صلوات پڑھے اور سو مرتبہ کہے :
اَللَّھُمَّ الْعَنْ آَلَ اَبِیْ سُفْیَانَ۔
اے اللہ! آل ابو سفیان پر پھٹکار بھیج ۔
اس کے بعد سو مرتبہ استغفار کرے اور اپنی حاجات طلب کرے ۔

ساتویں صفر کا دن
شہید اور کفعمی کے قول کے مطابق ۷ صفر 128ھ ÷ کو مکہ مدینہ کے درمیان ابوائ کے مقام پر حضرت امام موسیٰ کاظم -کی ولادت باسعادت ہوئی ۔

بیسویں صفر کا دن
یہ امام حسین- کے چہلم کا دن ہے، بقول شیخین، امام حسین -کے اہل حرم نے اسی دن شام سے مدینہ کی طرف مراجعت کی، اسی دن جابر بن عبداللہ انصاری حضرت امام حسین- کی زیارت کیلئے کربلا معلی پہنچے اور یہ بزرگ حضرت امام حسین- کے اولین زائر ہیں، آج کے دن حضرت امام حسین- کی زیارت کرنا مستحب ہے، حضرت امام حسن عسکری - سے روایت ہوئی ہے کہ مومن کی پانچ علامتیں ہیں، ﴿۱﴾رات دن میں اکاون رکعت نماز فریضہ و نافلہ ادا کرنا، ﴿۲﴾زیارت اربعین پڑھنا ﴿۳﴾دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، ﴿۴﴾سجدے میں پیشانی خاک پر رکھنا، ﴿۵﴾اور نماز میں بہ آواز بلند بِسْمِ اﷲِ الرَحْمنِ الرَحیمْ پڑھنا، نیز شیخ نے تہذیب او ر مصباح میں اس دن کی مخصوص زیارت حضرت امام جعفر صادق -سے نقل کی ہے جسے ہم انشائ اللہ باب زیارات میں درج کریں گے ۔

اٹھائیسویں صفر کا دن
۱۱ ھ 28 صفر سوموار کے دن رسول اکرم کی وفات ہوئی ،جبکہ آپ کی عمر شریف تریسٹھ 63 سال تھی ۔
چالیس سال کی عمر میں آپ تبلیغ رسالت کیلئے مبعوث ہوئے ،اس کے بعد تیرہ سال تک مکہ معظمہ میں لوگوں کو خدا پرستی کی دعوت دیتے رہے ترپن برس کی عمر میں آپ نے مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور پھر ان کے دس سال بعد آپ نے اس دنیائ فانی سے رحلت فرمائی امیرالمؤمنین- نے بنفس نفیس آپ کو غسل و کفن دیا حنوط کیا اور آپ کی نماز جنازہ پڑھی پھر دوسرے لوگوں نے بغیر کسی امام کے گروہ در گروہ آپ کا جنازہ پڑھا، بعد میں امیرالمؤمنین- نے آنحضرت کو اسی حجرے میں دفن کیا، جس میں آپ کی وفات ہوئی تھی ۔
انس ابن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ کے دفن کے بعد جناب سیدہ = میرے قریب آئیں اور فرمایا اے انس ! تمہارے دلوں نے یہ کس طرح گوارا کیا کہ آنحضرت کے جسد مبارک پر مٹی ڈالی جائے ۔پھر آپ نے روتے ہوئے فرمایا :
یٰا اَبَتَاہُ اَجٰابَ رَبّاً دَعٰاہُ
یَا اَبَتَاہُ مِنْ رَبِہِ مَا اَدْنٰاہُ
بابا جان نے رب کی آواز پر لبیک کہا
بابا جان آپ اپنے رب کے کتنے قریب ہیں

ایک معتبر روایت کے مطابق بی بی = نے آنحضرت کی قبر مبارک کی تھوڑی سی مٹی لے کر آنکھوں سے لگائی اور فرمایا:
مَاذا عَلَی الْمُشْتَمِّ تُرْبَۃَ ٲَحْمَدٍ
ٲَنْ لاَ یَشَمَّ مَدَی الزَّمانِ غَوالِیا
جو احمد مجتبی کی تربت کی خوشبو سونگھے
وہ تا زندگی دوسری خوشبو نہ سونگھے گا

صُبَّتْ عَلَیَّ مَصائِبٌ لَوْ ٲَنَّھا
صُبَّتْ عَلَی الْاََیّامِ صِرْنَ لَیالِیا
مجھ پر وہ مصیبتیں پڑی ہیں اگر وہ
دنوں پر آتیں تو وہ کالی راتیں بن جاتے
شیخ یوسف شامی نے درالنظیم میں نقل کیا ہے کہ جناب سیدہ =نے اپنے والد بزرگوار پر یہ مرثیہ پڑھا :
قُلْ لِلْمُغَیِّبِ تَحْتَ ٲَطْباقِ الثَّریٰ
إنْ کُنْتَ تَسْمَعُ صَرْخَتِی وَنِدائِیا
خاک پردوں میں غائب ہونے والے سے کہو
اگر تو میری فریاد اور پکار سن رہا ہے

صُبَّتْ عَلَیَّ مَصائِبٌ لَوْ ٲَنَّھا
صُبَّتْ عَلَی الْاََیَّامِ صِرْنَ لَیالِیا
مجھ پر وہ مصیبتیں پڑی ہیں کہ اگر وہ
دنوں پر آتیں تو وہ کالی راتیں بن جاتے

قَدْکُنْتُ ذاتَ حِمیً بِظِلِّ مُحَمَّدٍ
لاَٲَخْشَی مِنْ ضَیْمٍ وَکانَ حِمیً لِیا
میں محمد(ص) کی حمایت کے سائے میں تھی
مجھے کسی کے ظلم کا ڈر نہ تھا ان کی پناہ میں

فَالْیَوْمَ ٲَخْضَعُ لِلذَّلِیلِ وَٲَتَّقِی
ضَیْمِی وَٲَدْفَعُ ظالِمِی بِرِدائِیا
لیکن آج پست لوگوں کے سامنے حاضر ہوں
ظلم کا خوف ہے اپنی چادر سے ظالم کو ہٹاتی ہوں

فَ إذا بَکَتْ قُمْرِیَّۃٌ فِی لَیْلِھا
شَجَناً عَلی غُصْنٍ بَکَیْتُ صَباحِیا
رات کی تاریکی میں جب قمری شاخ پر روئے
میں شاخ پر صبح کے وقت روتی ہوں

فَلاَََجْعَلَنَّ الْحُزْنَ بَعْدَکَ مُؤنِسِی
وَلاَََجْعَلَنَّ الدَّمْعَ فِیکَ وِشاحِیا
بابا آپ کے بعد میں نے غم کو اپنا ہمدم بنا لیا
آپ کے غم میں اشکوں کے ہار پروتی ہوں

شہید اور کفعمی کے بقول 50ھ میں اٹھائیسویں صفر کو امام حسن- کی شہادت ہوئی جبکہ جعدہ بنت اشعث نے معاویہ کے اشارے پر آپ کو زہر دیا تھا ۔
صفر کا آخری دن
شیخ طبرسی وابن اثیر کے بقول 203ھ میں اسی دن امام علی رضا -کی شہادت اس زہر سے ہوئی جو آپ کو انگور میں دیا گیا ۔جب کہ آپ کی عمر ۵۵ برس تھی آپ کا روضہ مبارک سناباد نامی بستی میں حمید بن قحطبہ کے مکان میں ہے ،جو طوس کا علاقہ ہے اب وہ مشہد مقدس کے نام سے مشہور ہے جہاں لاکھوں افراد زیارت کو آتے ہیں ،ہارون الرشید عباسی کی قبر بھی وہیں ہے ۔
(نویں فصل ) --------------------------------------- ماہ ربیع الاول کے اعمال

پہلی ربیع الاول کی رات
بعثت کے تیرھویں سال اسی رات حضرت رسول کی مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کو ہجرت کا آغاز ہوا ،اس رات آپ غار ثور میں پوشیدہ رہے اور حضرت امیر-اپنی جان آپ پر فدا کرنے کیلئے مشرک قبائل کی تلواروں سے بے پرواہ ہو کر حضور کے بستر پر سو رہے تھے ۔ اس طرح آپ نے اپنی فضیلت اور حضور کے ساتھ اپنی اخوت اور ہمدردی کی عظمت کو سارے عالم پر آشکار کردیا ۔پس اسی رات امیرالمؤمنین- کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَائِ مَرْضَاْتِ اﷲِ۔
اور لوگوں میں کچھ ایسے ہیں جو رضاالہی حاصل کرنے کیلئے جان دے دیتے ہیں ۔

پہلی ربیع الاول کا دن
علمائ کرام کا فرمان ہے کہ اس دن رسول اکرم اور امیرالمؤمنین- کی جانیں بچ جانے پر شکرانے کا روزہ رکھنا مستحب ہے اور آج کے دن ان دونوں ہستیوں کی زیارت پڑھنا بھی مستحب ہے ۔سید نے کتاب اقبال میں آج کے دن کی دعا بھی نقل کی ہے ،شیخ و کفعمی کے بقول آج ہی کے دن امام حسن عسکری -کی شہادت ہوئی ،لیکن قول مشہور یہ ہے کہ آپ کی شہادت اس مہینے کی آٹھویں کو ہوئی ،لہذا ممکن ہے کہ پہلی کو آپ کے مرض کی ابتدا ہوئی ہو ۔
آٹھویں ربیع الاول کا دن
قول مشہور کے مطابق 260ھ میں اسی دن امام حسن عسکری -کی وفات ہوئی اور آپ کے بعد امام العصر عجل اللہ فرجہ منصب امامت پر فائز ہوئے اس لئے مناسب ہے کہ اس روز ان دونوں بزرگواروں کی زیارت پڑھی جائے ۔

نویں ربیع الاول کا دن

آج کا دن بہت بڑی عید ہے ،کیونکہ مشہور قول یہی ہے کہ آج کے دن عمر ابن سعد واصل جہنم ہوا جو میدان کربلا میں امام حسین- کے مقابلہ میں یزیدی لشکر کا سپاہ سالار تھا ،روایت ہوئی ہے کہ جو شخص آج کے دن راہ خدا میںخرچ کرے تو اس کے گناہ معاف کردئیے جائیں گے نیز یہ کہ آج کے دن برادر مومن کو دعوت طعام دینا اسے خوش و شادمان کرنا اپنے اہل و عیال کے خرچ میں فراخی کرنا، عمدہ لباس پہننا ،خدا کی عبادت کرنا اور اس کا شکر بجا لانا سبھی امور مستحب ہیں، آج وہ دن ہے کہ جس میں رنج و غم دور ہوئے اور چونکہ ایک دن قبل امام حسن عسکری -کی شہادت ہوئی، لہذا آج امام العصر ﴿عج﴾کی امامت کا پہلا دن ہے لہذا اسکی عزت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

بارھویں ربیع الاول کا دن
کلینی و مسعودی کے قول ،نیز برادران اہل سنت کی مشہور روایت کے مطابق اس دن رسول اللہ کی ولادت باسعادت ہوئی ،اس روز دورکعت نماز مستحب ہے کہ جس کی پہلی رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد تین مرتبہ سورئہ کافرون اور دوسری رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد تین مرتبہ سورئہ توحید پڑھے یہی وہ دن ہے جس میں بوقت ہجرت رسول اللہ وارد مدینہ ہوئے اورشیخ نے فرمایا کہ 231ھ میں اسی دن بنی مروان کی حکومت و سلطنت کا خاتمہ ہوا۔

چودھویں ربیع الاول کا دن
64ھ میں اسی دن رسوائے عالم یزید بن معاویہ واصل جہنم ہوا ،اخبار الدول میں لکھا ہے یزید ملعون دل اور معدے کے درمیانی پردے کی سوجن ﴿ذات الجنب ﴾میں مبتلا تھا جس سے وہ مقام حوران میں مرا وہاں سے اس کی لاش دمشق لائی گئی اور باب صغیر میں دفن کر دی گئی پھر لوگ اس جگہ کوڑا، کرکٹ پھینکتے رہے ۔وہ جہنمی 73 سال کی عمر میں موت کا شکار ہوا اور اس کی ظالم و باطل حکومت محض تین سال نو ماہ رہی ۔

سترھویں ربیع الاول کی رات
یہ رسول اللہ کی ولادت باسعادت کی رات ہے اور بڑی ہی بابرکت رات ہے سید نے روایت کی ہے کہ ہجرت سے ایک سال قبل اسی رات رسول اللہ کو معراج ہوا ۔

سترھویں ربیع الاول کادن
علمائ شیعہ امامیہ میں یہ قول مشہور و معروف ہے کہ یہ رسول اللہ (ص)کا یوم ولادت ہے اور انکے درمیان یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ آپکی ولادت باسعادت روز جمعہ طلوح فجر کے وقت اپنے گھر میں ہوئی جب کہ عام الفیل کا پہلا سال اور نوشیرواں عادل کا عہد حکومت تھا نیز 83ھ میں اسی دن امام جعفر صادق - کی ولادت باسعادت ہوئی لہذا اس دن کی عظمت و بزرگی میں اور بھی اضافہ ہوا ۔
خلاصہ یہ کہ اس دن کو بڑی عظمت عزت اور شرافت حاصل ہے اس میں چند ایک اعمال ہیں:
﴿۱﴾غسل کرنا۔
﴿۲﴾آج کے دن روزہ رکھنے کی بڑی فضیلت ہے ،روایت ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دن کا روزہ رکھنے والے کو ایک سال کے روزے رکھنے کا ثواب عطا فرمائے گا ،آج کا دن سال کے ان چار دنوں میں سے ایک ہے کہ جن میں روزہ رکھنا خاص فضیلت و اہمیت کا حامل ہے :
﴿۳﴾آج کے دن دور و نزدیک سے حضرت رسول اللہ کی زیارت پڑھے :
﴿۴﴾اس دن حضرت امیرالمؤمنین- کی وہ زیارت پڑھے ،جو امام جعفر صادق -نے پڑھی اور محمد بن مسلم کو تعلیم فرمائی تھی انشائ اللہ وہ زیارت باب زیارات میں آئے گی۔
﴿۵﴾جب سورج تھوڑا سا بلند ہو جائے تو دو رکعت نماز بجا لائے جس کی ہر رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد دس مرتبہ سورئہ قدر اور دس مرتبہ سورئہ توحید پڑھے ۔نماز کا سلام دینے کے بعد مصلےٰ پر بیٹھا رہے اور یہ دعا پڑھے :
اَللَّھُمَّ اَنْتَ حَيُّ، لاَ تَمُوْتُ ...الخ
اے اللہ ! تو وہ زندہ ہے جسے موت نہیں
یہ دعا بہت طویل ہے اور اس کی سند بھی کسی امام معصوم(ع) تک پہنچتی دکھائی نہیں دیتی اس لئے یہاں ہم نے اسے نقل نہیں کیا ،تاہم جو شخص اس کو پڑھنا چاہے وہ علامہ مجلسی کی زادالمعاد میں دیکھ لے ۔
﴿۶﴾آج کے دن مسلمانوں کو خاص طور پر خوشی منانی چاہیے ،وہ اس دن کی بہت تعظیم کریں ،صدقہ و خیرات دیں اور مومنین کو شادمان کریں ۔نیز ائمہ طاہرین٪ کے روضہ ہائے مقدسہ کی زیارت کریں سید نے کتاب اقبال میں آج کے دن کی تعظیم و تکریم کا تفصیلی تذکرہ کیا اور فرمایا ہے کہ نصرانی اور مسلمانوں کا ایک گروہ حضرت عیسٰی -کی ولادت کے دن کی بہت یاد کرتے ہیں، لیکن مجھے ان پر تعجب ہوتا ہے کہ کیوں وہ آنحضرت کے یوم ولادت کی تعظیم نہیں کرتے کہ جو حضرت عیسٰی -کی نسبت بلند مرتبہ ہیں اور ان سے بڑھ کر فضیلت رکھتے ہیں ۔

(دسویں فصل ) ----------------------------------ربیع الثانی، جمادی الاول اور جمادی الثانی کے اعمال

سید ابن طاؤس نے ان تینوں مہینوں میں سے ہر ایک کے پہلے دن کیلئے ایک دعا نقل کی ہے شیخ مفید نے ۲۳۲ھ میں 10 ربیع الثانی کو امام حسن عسکری -کی ولادت باسعادت ذکر کی ہے، لہذا یہ بہت بابرکت دن ہے اور اس نعمت کے شکرانے میں اس دن روزہ رکھنا مستحب ہے ۔
تیرھویں ،چودھویں ،اور پندرھویں جمادی الاول کے تین دنوں میں جناب سیدہ = کی زیارت کرنا اور ان روایتوں میں آیا ہے کہ آپ اپنے والد گرامی کے بعد پچھتر 75 دن اس دنیا میں زندہ رہیں اور پھر آپ شہادت پا گئیں بنا بر مشہور رسول اللہ کی وفات 28 صفر کو ہوئی، اس صورت میں ان مظلومہ و محرومہ بی بی =کی شہادت انہی تین دنوں میں سے کسی دن ہوئی ہو گی۔
۶۳ ھ میں 15 جمادی الاول کو امیرالمؤمنین- جنگ جمل میں غالب آئے اور بصرہ فتح ہوا، اسی سال اسی دن امام زین العابدین- کی ولادت باسعادت ہوئی ،پس اس دن ان ہر دو بزرگواروں کی زیارت پڑھنا مناسب ہے ۔جمادی الثانی کے اعمال کے ضمن میں سید ابن طاؤس نے نقل کیا ہے کہ اس ماہ میں جس وقت بھی چاہے چار رکعت نماز دو دو کر کے بجا لائے پہلی رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد ایک مرتبہ آیۃ الکرسی اور پچیس مرتبہ سورئہ قدر دوسری رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد ایک مرتبہ سورئہ تکاثر اور پچیس مرتبہ سورئہ توحید ،اور پھر آخری دو رکعت میں پہلی رکعت میں سورئہ الحمد کے بعدایک مرتبہ سورئہ کافرون اور پچیس مرتبہ سورئہ فلق،دوسری رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد ایک مرتبہ سورئہ نصر اور پچیس مرتبہ سورئہ ناس پڑھے اور نماز کے بعد ستر مرتبہ کہے :
سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُ ﷲِ وَلَا اِلَہَ اِلَّااﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ۔ ستر مرتبہ کہے : اَللَّھُمَّ صَلِّ
اللہ پاک تر ہے حمد اللہ ہی کیلئے ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ بزرگتر ہے اے معبود! رحمت
عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّدٍ۔ تین مرتبہ کہے: اَللَّھُمَّ اغْفَرِ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ۔ پھر سجدہ
نازل فرما محمد(ص) و آل محمد (ع)پر اے معبود! مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو بخش دے
میں جاکر تین مرتبہ یہ کہے : یَا حَيُّ یَا قَیُّومُ یَا ذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ یَا اَﷲُ یَا رَحْمَانُ یَا
اے زندہ اے پائیندہ اے جلالت اور بزرگی کے مالک اے اللہ اے بڑے رحم والے اے مہربان
رَحَیْمُ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ۔
اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے ۔
اس کے بعد اپنی حاجات طلب کرے ،کیونکہ جو شخص یہ عمل کرے حق تعالیٰ آیندہ سال تک اسکو اس کے مال کو اس کے اہل خاندان اور اس کی اولاد کو اس کے دین و دنیا کو محفوظ و مامون رکھے گا ۔اگر وہ شخص اس سال کے دوران مر جائے تو اس کو شہید کے برابر ثواب عطا کیا جائے گا۔

تیسری جمادی الثانی کا دن
ایک قول کی بنا پر ۱۱ھ میں اس دن جناب سیدہ = کی شہادت ہوئی، لہذا شیعہ مسلمانوں کو اس دن ان بی بی = کی صف ماتم بچھانا اور آپ کی زیارت پڑھنا چاہیے ،نیز آپ پر ظلم کرنے والوں اور آپ کا حق غصب کرنے والوں پر نفرین کرنا چاہیے ۔سید ابن طاؤس نے کتاب اقبال میں آج کے دن ان محرومہ و مغمومہ بی بی = کی زیارت یوں نقل فرمائی ہے :
اَلسَّلامُ عَلَیْکِ یَا سَیِّدَۃَ نِسائِ الْعالَمِینَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکِ یَا والِدَۃَ الْحُجَجِ عَلَی
سلام ہو آپ (ع)پر اے جہانوں کی عورتوں کی سردار سلام ہو آپ (ع)پر اے ان کی والدہ جو لوگوں پر خدا
النَّاسِ ٲَجْمَعِینَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکِ ٲَیَّتُھَا الْمَظْلُومَۃُ الْمَمْنُوعَۃُ حَقَّھاپھر یہ کہو: اَللّٰھُمَّ صَلِّ
کی حجتیں ہیں سلام ہو آپ (ع)پر اے وہ مظلومہ جس کا حق چھین لیا گیا اے معبود! رحمت نازل فرما
عَلَی ٲَمَتِکَ وَابْنَۃِ نَبِیِّکَ وَزَوجَۃِ وَصِیِّ نَبِیِّکَ صَلاۃً تُزْلِفُھا فَوْقَ زُلْفی عِبادِکَ
اپنی کنیز اپنے نبی کی دختر اور اپنے نبی کے وصی (ع)کی شریکئہ حیات پر ایسی رحمت جو نزدیک کرے اسکو بڑھ کر تیری عزت والے بندوں
الْمُکَرَّمِینَ مِنْ ٲَھْلِ السَّمَاواتِ وَٲَھْلِ الْاََرَضِینَ۔
کی نسبت جو آسمانوں میں رہنے والے اور زمین میں بسنے والے ہیں ۔
روایت میں آیا ہے کہ آج جو شخص جناب سیدہ = کی یہ زیارت پڑھے اور اپنے گناہوں کی معافی کا طالب ہو تو خدائے تعالیٰ اس کے گناہ بخش دے گا اور اس کو جنت میں داخل کرے گا ۔
مؤلف کہتے ہیں کہ سید ابن طاؤس(رح) کے فرزند نے بھی اس زیارت کو زوایدالفوائد میں درج کیا اور کہا ہے کہ یہ زیارت جناب زہرا = کے یوم وفات کے لئے خاص ہے کہ جو تیسری جمادی الثانی کو ہوئی تھی انہوں نے آپ کی زیارت کی کیفیت اس طرح بیان کی ہے کہ دو رکعت نماز زیارت بجا لائے یا نماز جناب سیدہ فاطمۃالزہرا ﴿س﴾پڑھے جو کہ دو رکعت ہے اور اس کی ہر رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد ساٹھ مرتبہ سورئہ توحید پڑھے اگر اس قدر نہ پڑھ سکے تو پھر پہلی رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد ایک مرتبہ سورئہ توحید اور دوسری رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد ایک مرتبہ سورئہ کافرون پڑھے اور سلام کے بعد مذکورہ بالا زیارت پڑھے :

بیسویں جمادی الثانی کا دن
پانچویں یا دوسرے سال بعثت میں اس دن جناب سیدہ =کی ولادت باسعادت ہوئی اور اس کے چند عمل ہیں ۔
﴿۱﴾روزہ رکھنا۔
﴿۲﴾محتاج مومنین کو صدقہ و خیرات دینا۔
﴿۳﴾جناب سیدہ = کی زیارت پڑھنا آپ کی زیارت کی کیفیت باب زیارات میں آئے گی :

(گیارہویں فصل ) ----------------------------- ہر نئے قمری مہینے ،عید نوروز اوررومی مہینوں کے اعمال

جب بھی نیا چاند نظر آئے ۔تو یہ چند اعمال بجا لائے :
﴿۱﴾سب سے پہلے تو چاند دیکھنے کی دعا پڑھے اور سب سے مناسب صحیفہ کاملہ کی تینتالیسویں دعا ہے کہ جو پہلی رمضان کے اعمال میں بھی ذکر ہو چکی ہے ۔
﴿۲﴾آنکھوں کے درد سے حفاظت کیلئے سات مرتبہ سورئہ الحمد پڑھے :
﴿۳﴾پنیر کھائے ،یہ چیز ایران و عراق میں ہوتی ہے اور اسے دودھ سے تیار کیا جاتا ہے، روایت ہوئی ہے کہ جو شخص ہر قمری مہینے کی پہلی شب میںپنیر کھاتا رہے تو اس مہینے میں اس کی کوئی دعا رد نہیں ہو گی ۔
﴿۴﴾چاند رات میں دو رکعت نماز پڑھے جس کی ہر رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد سورئہ انعام کی قرائت کرے ،نماز کے بعد حق تعالیٰ سے دعا کرے کہ وہ اسے ہر درد وخوف سے بچائے رکھے اوراس مہینے میں اسے کوئی ایسا معاملہ درپیش نہ ہو جس کو وہ پسند نہ کرتا ہو ۔
﴿۵﴾ہر قمری مہینے کی پہلی کے دن دو رکعت نماز ادا کرے جس کی پہلی رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد تیس مرتبہ سورئہ توحید اور دوسری رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد تیس مرتبہ سورئہ قدر پڑھے اور نماز کے بعد صدقہ دے اگر ایساکر لیا گیا تو گویا اس نے حق تعالیٰ سے اس مہینے میں اپنی سلامتی خرید لی ہے ۔
بعض روایات میں منقول ہے کہ اس نماز کے بعد یہ دعا پڑھے :
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ وَمَا مِنْ دَابَّۃٍ فِی الْاََرْضِ إلاَّ عَلَی اﷲِ رِزْقُھا
خدا کے نام سے شروع جو رحمن و رحیم ہے اورنہیں زمین میں حرکت کرنے والی کوئی چیز مگر یہ کہ اسکی روزی خدا کے ذمہ ہے وہ اس کی
وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّھا وَمُسْتَوْدَعَھا کُلٌّ فِی کِتابٍ مُبِینٍ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ وَ إنْ
قیام گاہ اور مقام حرکت کو جانتا ہے یہ سب کچھ واضح کتاب میں درج ہے خدا کے نام سے شروع جو رحمن و رحیم ہے اور اگر
یَمْسَسْکَ اﷲُ بِضُرٍّ فَلا کَاشِفَ لَہُ إلاَّ ھُوَ وَ إنْ یُرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلا رادَّ لِفَضْلِہِ
خدا کسی وجہ سے تجھے کوئی نقصان پہنچائے تو سوائے اسکے کوئی اسے دور نہیں کرسکتا اگر وہ تیری بھلائی کا ارادہ کرے تو کوئی اس کے
یُصِیبُ بِہِ مَنْ یَشائُ مِنْ عِبادِہِ وَھُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ، بِسْمِ اﷲِ
فضل کو روک نہیں سکتا وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے نوازتا ہے اور وہ بڑا معاف کرنے والا مہربان ہے خدا کے نام سے شروع
الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ سَیَجْعَلُ اﷲُ بَعْدَ عُسْرٍ یُسْراً مَا شائَ اﷲُ لاَ قُوَّۃَ إلاَّ بِاﷲِ حَسْبُنَا
جو رحمن و رحیم ہے بہت جلد خدا سختی کے بعد آسانی عطا کرے گا جو اللہ چاہے وہ ہوگا نہیں کوئی قوت سوائے اللہ کے کافی ہے ہمارے
اﷲُ وَ نِعْمَ الْوَکِیلُ وَٲُ فَوِّضُ ٲَمْرِی إلَی اﷲِ إنَّ اﷲَ بَصِیرٌ بِالْعِبادِ لاَ إلہَ إلاَّ ٲَنْتَ
لئے اللہ وہ بہترین کارساز ہے اور میں اپنا ہر کام اللہ کے سپرد کرتا ہوں بے شک خدا اپنے بندوں کو خوب جانتا ہے تیرے سوا کوئی معبود
سُبْحانَکَ إنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ، رَبِّ إنِّی لِما ٲَ نْزَلْتَ إلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیرٌ، رَبِّ لاَ
نہیں تو پاک تر ہے بے شک میں ہی قصور وار تھا اے پروردگارتو مجھ کو جو بھی نعمت عطا کرے گا میں اس کی حاجت رکھتا ہوں میرے
تَذَرْنِی فَرْداً وَٲَ نْتَ خَیْرُ الْوارِثِینَ۔
رب مجھ کو اکیلا نہ چھوڑ جب کہ بہترین وارث تو ہی ہے ۔

اعمال عید نوروز
امام جعفر صادق - نے معلی بن خنیس کو عید نوروز کے اعمال کی یوں تعلیم فرمائی کہ جب نوروز کا دن آئے تو غسل کرے، پاکیزہ لباس پہنے خوشبو لگائے اور اس دن کا روزہ رکھے جب نماز ظہر و عصر اور انکے نافلہ سے فارغ ہو تو چار رکعت نماز دو دو کر کے پڑھے انکی پہلی رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد دس مرتبہ سورئہ قدر اور دوسری رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد دس مرتبہ سورئہ کافرون اور پھر آخری دو رکعت میں سے پہلی رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد دس مرتبہ سورئہ توحید اور دوسری رکعت میں سورئہ الحمد کے بعد دس مرتبہ سورئہ فلق اور دس مرتبہ سورئہ ناس کی قرائت کرے نماز تمام کرنے کے بعد سجدہ شکر کرے اور اس میں یہ دعا پڑھے :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ الْاََوصِیائِ الْمَرْضِیِّینَ، وَعَلَی جَمِیعِ ٲَ نْبِیائِکَ
اے معبود! محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) پر رحمت نازل فرما جو پسند کیے ہوئے اوصیائ (ع)ہیں اور اپنے تمام نبیوں
وَرُسُلِکَ بِٲَفْضَلِ صَلَواتِکَ وَبارِکْ عَلَیْھِمْ بِٲَفْضَلِ بَرَکاتِکَ وَصَلِّ عَلَی ٲَرْواحِھِمْ
اور رسولوں پر رحمت نازل کر اپنی بہترین رحمت سے اور انہیں برکت دے اپنی بہترین برکتوں سے اور ان کی روحوں پر
وَٲَجْسادِھِمْ۔ اَللّٰھُمَّ بارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَبارِکْ لَنا فِی یَوْمِنا ھذَا الَّذِی
اور ان کے جسموں پر رحمت فرما اے معبود! محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) پر برکت نازل کر اور ہمیں آج کے دن برکت دے جس کو تو نے
فَضَّلْتَہُ وَکَرَّمْتَہُ وَشَرَّفْتَہُ وَعَظَّمْتَ خَطَرَہُ۔ اَللّٰھُمَّ بارِکْ لِی فِیما ٲَنْعَمْتَ بِہِ عَلَیَّ
بڑائی دی عزت دی بلندی دی اور اسے اونچی شان عطا کی اے معبود! برکت دے مجھے اس نعمت میں جو تو نے مجھے عطاکی ہے اتنی
حَتَّی لاَ ٲَشْکُرَ ٲَحَداً غَیْرَکَ، وَوَسِّعْ عَلَیَّ فِی رِزْقِی یَا ذَا الْجَلالِ وَالْاِکْرامِ ۔ اَللّٰھُمَّ
کہ سوائے تیرے کسی کا شکر گزار نہ ہوں اور میرے رزق میں فراوانی عطا فرما اے جلالت اور بزرگی کے مالک اے معبود! جو کچھ مجھ
مَا غابَ عَنِّی فَلا یَغِیبَنَّ عَنِّی عَوْنُکَ وَحِفْظُکَ، وَمَا فَقَدْتُ مِنْ شَیْئٍ فَلا تُفْقِدْنِی
سے غائب ہو سو ہو جائے لیکن تیری مدد اور تیری حفاظت مجھ سے ہرگز غائب نہ ہو اور میری جو چیز گم ہو سو ہو جائے لیکن تیری
عَوْنَکَ عَلَیْہِ حتَّی لاَ ٲَتَکَلَّفَ مَا لاَ ٲَحْتاجُ إلَیْہِ یَا ذَا الْجَلالِ وَالْاِکْرامِ﴿۱﴾
مدد وحمایت مجھ سے کبھی بھی گم نہ ہو یہاں تک کہ جس چیز کی ضرورت نہیں اس کے لئے رنج نہ کروں اے جلالت اور بزرگی کے مالک۔
جو شخص یہ عمل بجالائے گا تو اسکے پچاس برس کے گناہ معاف ہو جائیں گے نیز یہ باکثرت کہا کرے :
یَا ذَا لْجَلَالِ وَالْاِکْرَمِ۔
اے جلالت و بزرگی کے مالک۔

﴿۱﴾کتب مشہورہ کے سوا دیگر غیر معروف میںلکھا ہے کہ وقت تحویل بہ کثرت اور بعض نے کہا ہے اس دعا کو 663مرتبہ پڑھے :
یَا مُحَوِّلَ الْحَوْلِ وَالْاَحْوَالِ حَوِّلْ حَاَلَنَا اِلیٰ اَحْسَنِ الْحَالِایک اور روایت میں ہے کہ اس طرح
اے زمانے اور حالتوں کو بدلنے والے ہمارے حال کو اچھے حال میں بدل دے ۔
پڑھے :یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ وَالْاَبْصَارِ یَا مُدَبِّرَ الْلَیْلِ وَالنَّھَارِ یَا مُحَوِّلَ الی آخر دعاجیسا کہ علامہ
اے دلوں اور آنکھوں کے پلٹانے والے اے دن رات کی ترتیب قائم رکھنے والے اے پلٹانے والے ۔
مجلسی کی زاد المعاد میں آیا ہے ۔

رومی مہینوں کے اعمال
خواص آب نیساں
اس موضوع میں یہاں ہم وہی کچھ بیان کریں گے ،جو زادالمعاد میں مذکور ہے ،سید جلیل علی ابن طاؤس سے روایت ہے کہ صحابہ کا ایک گروہ کسی جگہ بیٹھا ہوا تھا کہ رسول اللہ بھی وہاں تشریف لے آئے ،آپ نے سلام کیا اور صحابہ نے سلام کا جواب دیا تب آپ نے فرمایا آیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں وہ دوا بتاؤں جس سے جبرائیل -نے مجھے آگاہ کیا ہے اور اس کے بعد تم دوا میں طبیبوں کے محتاج نہ رہو گے ۔مولاامیر- اور سلمان فارسی وغیرہ نے آپ سے پوچھا کہ حضور(ص) وہ کونسی دوا ہے ؟آنحضرت(ص) نے مولاامیر- کو مخاطب کر کے فرمایا ،کہ رومی مہینے نیساں میں ہونے والی بارش کا پانی لیں اور اس پر ستر مرتبہ الحمد سترمرتبہ آیۃالکرسی ستر مرتبہ سورئہ توحید ستر مرتبہ سورئہ فلق ستر مرتبہ سورئہ ناس اور ستر مرتبہ سورئہ کافرون پڑھیں ایک اور روایت کے مطابق ستر مرتبہ سورئہ قدر ستر مرتبہ اللہ اکبر ستر مرتبہ لاالہ الااللہ اور ستر مرتبہ محمد(ص) و آل محمد (ع)پر صلوات بھی اس پر پڑھیں پھر سات دن تک ہر روز صبح اور عصر کے وقت اس پانی میں سے پیتے رہیں ،قسم ہے مجھے اس ذات کی ،جس نے مجھے برحق مبعوث کیا ہے کہ جبرائیل (ع)نے مجھ سے کہا ہے کہ جو شخص اس پانی میں سے پیئے گا ۔
حق تعالیٰ ہر وہ درد دور کردے گا جو اس کے جسم میں ہوگا خدائے تعالیٰ اس کو آرام و عافیت عطا کرے گا ،اس کے بدن اوراس کی ہڈیوں سے درد کو نکال دے گا اور اگرلوح میں اس کے لئے درد لکھا بھی ہوا ہو تو اسے وہاں سے محو کردے گا ۔مجھے اس خدا کے حق کی قسم کہ جس نے مجھے بھیجا ہے ،جس کے یہاں فرزند نہ ہوتا ہو اور فرزند کی خواہش رکھتا ہو تو اس پانی کو اس نیت سے پیئے پس حق تعالیٰ اس کو فرزند عطا کرے گا، اگر عورت بانجھ ہو گئی ہو کہ اس کے ہاں بچہ نہ ہوتا ہو تو وہ اس نیت کے ساتھ اس پانی میں سے پیئے تو اس کا بچہ ہوگا اور اگر شوہر یا زوجہ بیٹا یا بیٹی چاہتے ہوں تو وہ بھی اس پانی میں سے پئیں،ان کا یہ مقصد پورا ہوجائے گا ،جیسا کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے ۔
یَھَبُ لِمَنْ یَشائُ إناثاً وَیَھَبُ لِمَنْ یَشائُ الذُّکُورَ ٲَو یُزَوِّجُھُمْ ذُکْراناً وَ إناثاً وَیَجْعَلُ
وہ جسے چاہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہے بیٹے عطا کرتا ہے یا بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی دیتا ہے اور جسے چاہے
مَنْ یَشائُ عَقِیماً۔
بے اولاد رکھتا ہے ۔
اس کے بعد آنحضرت (ص)نے فرمایا جس کے سر میں درد ہو وہ اس پانی میں سے پیئے خدا کی قدرت سے اس کا درد جاتا رہے گا اگر کسی کی آنکھ میں درد ہو تو اس پانی کا ایک قطرہ آنکھ میں ڈالے اس میں سے پی بھی لے اور اپنی آنکھوں کواس پانی سے دھوئے تو بہ حکم خدا شفا مل جائے گی اس پانی کے پینے سے دانتوں کی جڑیں پختہ ہوتی ہیں یہ دانتوں میں خوشبو پیدا کرتا ہے لعاب دھن کم ہوتا اور بلغم بھی گھٹ جاتا ہے اس پانی کے پینے سے پیٹ میں کھانے پینے کا بوجھ نہیں ہوگا ۔درد قولنج سے بچا رہے گا کمر اور پیٹ کا درد نہ ہوگا زکام کی تکلیف نہ آئے گی دانتوں میں درد نہ ہوگا معدے کا درد اور کیڑے ختم ہوجائیں گے اس شخص کو خون نکلوانے کی ضرورت نہ رہے گی بواسیر خارش دیوانگی برص جذام نکسیر اور قے سے بھی نجات ہو گی اور وہ شخص اندھا گونگا لنگڑا اور بہرا نہیں ہو گا اس کی آنکھ میں سیاہ پانی نہیں اترے گا وہ درد لاحق نہیں ہوگا جو روزہ چھوڑ دینے اور نماز ناتمام پڑھنے کا موجب ہوتا ہے اور شیطان و جن کے وسوسوں سے بچا رہے گا ۔
اس کے بعد آنحضرت (ص)نے فرمایا جو شخص اس پانی میں سے پیئے گا اگر اس کے بدن میں سب لوگوں جتنے درد ہوں تو بھی شفا پائے گا ،جبرائیل (ع)نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ،جو شخص اس پانی پر پہلے ذکر کی گئی آیات پڑھے گا تو حق تعالیٰ اس کے دل کو نور سے بھر دے گا ،اس کی زبان پر حکمت کو رواں کر دے گا اس کے قلب کو فہم و ذکائ سے پر کردے گا اوراس پر اتنی مہربانیاں کریگا جو دنیا میں کسی پر بھی نہ کی ہوں گئیں اس کو ہزار رحمت اور ہزار مغفرت سے نوازے گا نیز فریب کاری بددیانتی غیبت حسد ظلم تکبر بخل اور حرص وغیرہ کو اس کے قلب سے دور کردے گا اس کو لوگوں کی طرف سے دشمنی ،ان کی بدگوئی سے بچائے گا اور یہ پانی اس کے لئے تمام بیماریوں سے شفا یابی کا سبب ہو گا ۔
مؤلف کہتے ہیں کہ اس روایت کا سلسلہ سند عبداللہ بن عمر پر ختم ہوتا ہے اسلئے یہ روایت بہ لحاظ سند ضعیف ہے لیکن میں نے اسے بقلم شہید دیکھا کہ انہوں نے اسے امام جعفر صادق - سے روایت کیا ہے اور اس میں یہی خواص اور صورتیں ذکر کی ہیں لیکن آیات اور اذکار کی روایت اس طرح ہے کہ اس آب نیساں پر سورئہ فاتحہ ،آیۃ الکرسی ،سورئہ کافرون ، سورئہ اعلی،سورئہ فلق ، سورئہ ناس ، اور سورئہ توحید ستر ستر مرتبہ پڑھے ،پھر ستر مرتبہ کہے لاالہ الااللہ ،ستر مرتبہ کہے اللہ اکبر اور ستر مرتبہ کہے :
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّدٍ پھر ستر مرتبہ پڑھے: سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُ ﷲِ وَلَا اِلَہَ
اے معبود!محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما پاک تر ہے اللہ اور حمد اللہ ہی کے لئے ہے اور اللہ کے سوا
اَلاَّ اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ۔
کوئی معبود نہیں اور اللہ بزرگتر ہے ۔
علاوہ ازیں اس پانی کے خواص میں یہ بھی ہے اگر کوئی قید خانے میں بند ہو اور وہ اس پانی میں سے پیئے تو قید سے رہائی پائے گا سردی اس کی طبیعت پر غلبہ نہ کرے گی اس کے دیگر خواص وہی بیان ہوئے ہیں جو سابقہ روایت میں مذکور ہیں ۔ پھر بارش کا پانی تو مطلق طور پر بابرکت اور فائدہ بخش ہوتا ہے چاہے وہ نیساں کے مہینے میں لیا گیا ہو یا کسی اور مہینے میں لیا ہو جیسا کہ ایک معتبر حدیث میں امیرالمؤمنین- سے نقل ہوا ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا آسمان کے پانی کو پیا کرو کہ وہ جسم کو پاک کرنے والا اور دردوں کو ہٹانے والا ہے ،جیسا کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے :
وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِنَ السَّمائِ مائً لِیُطَھِّرَکُمْ بِہِ وَیُذْھِبَ عَنْکُمْ رِجْزَ الشَّیْطانِ وَلِیَرْبِطَ
اور اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی اتارتا ہے تاکہ تم کو پاک کرے اور شیطان کے وسوسوں کو تم سے دور کرے اور تمہارے
عَلی قُلُوبِکُمْ وَیُثَبِّتَ بِہِ الْاََقْدامَ۔
دلوں کو مضبوط کرے اور تمہارے قدم جمائے رکھے۔
نیساں کا عمل کرنے میں بہتر یہ ہے کہ ایک گروہ مل کر ان اذکار کو ستر ستر مرتبہ پڑھے کہ اس میں پڑھنے والوں کیلئے بہت فائدہ اور اجروثواب ہے ۔موجودہ سالوں میں نوروز سے 23 دن گزرنے کے بعد نیساں کا رومی مہینہ شروع ہوتا ہے اور یہ رومی مہینہ تیس دن کا ہوتا ہے امام جعفر صادق - سے نقل ہوا ہے کہ ماہ حزیراں کی سات کو پچھنے لگوایا کرو ،اگر اس دن نہ ہو سکے تو پھر اس کی چودھویں تاریخ کو لگوایا کرو۔ماہ حزیران کی پہلی قریباً نوروز سے چوراسی دن بعد ہوتی ہے اور یہ مہینہ بھی تیس دن کا ہوتا ہے ۔یہ نحوست کا مہینہ ہے ۔جیسا کہ ایک معتبر حدیث میں ہے کہ امام جعفر صادق - کے سامنے ماہ حزیران کا ذکر ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ وہی مہینہ ہے جس میں حضرت موسیٰ -نے بنی اسرائیل پر نفرین کی اور ایک ہی دن میں بنی اسرائیل کے تین لاکھ افراد مرگئے تھے ۔نیز معتبر سند کے ساتھ آپ ہی سے نقل ہوا ہے کہ حق تعالیٰ اس مہینے میں قضائ واجل کو نزدیک تر کردیتا ہے ۔چنانچہ اس مہینے میں بہت زیادہ موتیں واقع ہوتی ہے ۔یہ یاد رہے کہ رومی مہینوں کی بنیاد سورج کی حرکت پر ہے۔ یہ بارہ مہینے ہیں اور ان کی ترتیب کچھ اس طرح ہے۔ تشرین اول ،تشرین الآخر ،کانون اول ،کانون الآخر ،شباط ،آذر ،نیساں ، ایار، حزیران ، تموز، اب اور ایلول ،ان میں یہ چار مہینے تیس دن کے ہوتے ہیں یعنی تشرین الآخر ، نیساں ،حزیراں ،اور ایلول ، باقی آٹھ مہینے ماسوائے شباط کے اکتیس دن کے ہوتے ہیں اور شباط کو تین سال تک آٹھائیس دن کا اور چوتھے سال ﴿یعنی سال کبیسہ میں﴾ انتیس دن کا قرار دیتے ہیں۔ رومی سال ۱/۴۔ 563 دن کا ہوتا ہے اور اس کی ابتدائ تشرین اول کے مہینے سے ہے اور اس دن سورج برج میزان کے انتیسویں درجے میں ہوتا ہے ۔اس کی تفصیل بحار الانوار میں مذکور ہے چونکہ احادیث میں ان مہینوں کا ذکر آیا ہے ۔ لہذا ہم نے یہاں مختصراً ان کا تذکرہ کردیا ہے ،یہ رومی مہینے اس وقت عراق کے دفاتر میں رائج ہیں اور ان کا نظام حکومت انہی مہینوں کے مطابق چلتا ہے ۔

No comments: