Tuesday, April 28, 2009

توبہ آغوش رحمت۸

سیّئات اور برائیاں

سیّئات اور برائیاںیا گناھان کبیرہ و صغیرہ یا فحشاء و منکر اس قدر زیادہ ھیں کہ قرآن اور حدیث کی روشنی میں ان کا بیان کرنا اس کتاب کی گنجائش سے باھر ھے۔

کتاب کے اس حصہ میں گزشتہ کی طرح کہ جھاں پر حسنات ، نیکی اورمعنوی زیبائیوں کی طرف بطور نمونہ توجہ دلائی ھے یھاں پر بھی نمونہ کے طور پر چند مسائل کو بیان کرتے ھیں جن کی تفصیل آپ تفصیلی کتابوں میں ملاحظہ کرسکتے ھیں۔

معنوی زیبائیوں سے مزین ھونے اور معنوی برائیوں سے دوری اختیار کرنے سے انسان ایک کامل او ررشید موجود میں تبدیل ھوجاتا ھے اور دنیا و آخرت کی سعادت اس کے قدم چومتی ھوئی نظر آتی ھے۔

معنوی زیبائیوں کے ذریعہ رحمت حق نازل ھوتی ھے اور انسان رضوان الٰھی میں داخل ھوجاتا ھے، اسی طرح برائیوں کے انجام دینے سے خداوندعالم ناراض ھوتا ھے جس سے انسان کی شخصیت تباہ و برباد ھوجاتی ھے، اور انھیں کی وجہ سے انسان روز قیامت میں درد ناک عذاب میں مبتلا ھوگا۔

قرآن مجید کے فرمان کے مطابق روز قیامت حسنات اور نیکیوں کا بدلہ جنت الفردوس ھوگی، اور برائیوں کے بدلے جہنم میں دردناک عذاب ھوگا، دوسرے الفاظ میں یوں کہئے کہ حسنات او رنیکیوں کے ذریعہ جنت کی عمارت تعمیر ھوتی ھے اور برائیوں کے ذریعہ جہنم کا کنواں کھودا جاتا ھے۔

آئےں اور اس عمر جیسی فرصت کو غنیمت شمار کریں اور اس اپنی زندگی میں نیکیوں سے مزین ھوں اور برائیوں سے دوری کریں تاکہ ھمیشہ کے عذاب سے محفوظ اور جنت میں خداوندعالم کے دسترخوان سے فیضیاب ھوسکیں۔

جھوٹ

جھوٹ بولنا، بھت ھی ناپسند کام اور شیطانی صفت ھے۔

قرآن مجید کی بھت سی آیات میں جھوٹ کو گناھان کبیرہ میں شمار کیا ھے اور جھوٹ بولنے والے کو مستحق لعنت قرار دیا ھے، اور جھوٹے اور جھٹلانے والوں کو دردناک عذاب کا وعدہ دیا گیا ھے۔

قرآن مجید نے نجران کے عیسائیوں کو جھوٹوں کے عنوان سے یاد کیا اور لعنت خدا کا مستحق قرار دیا ھے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بحث و گفتگو کے لئے مدینہ میں آئے تھے، اور آخر کار رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مباھلہ ھونا طے پایا۔

جی ھاں، جھوٹ کا گناہ اس قدر سنگین ھے کہ انسان کو لعنت خدا کا مستحق بنادیتا ھے۔

(( ۔۔۔ ثُمَّ نَبْتَھل فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ))۔[233]

اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قراردیں“۔

خداوندعالم نے قرآن مجید میں جھوٹ اور جھوٹے کو منافقین کے کی صفت سے یاد کیا ھے جو کہ دو زبان رکھتے (یھاں کچھ کھتے ھیں اور منافقین کے ساتھ بیٹھ کر کچھ اور باتیں کرتے ھیں)اور خود خداوندعالم ان کی جھوٹے ھونے کی گواھی دیتا ھے:

(( ۔۔۔ وَاللهُ یَشْہَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِینَ لَکَاذِبُونَ))۔[234]

۔۔۔اللہ گواھی دیتا ھے کہ یہ منافقین اپنے دعوی میں جھوٹے ھیں“۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ھے:

کَبُرَتْ خِیانَةً اَنْ تُحَدِّثَ اَخاکَ حَدِیثاً ھُوَلَکَ مُصَدِّقٌ وَاٴَنْتَ بِہِ کاذِبٌ“۔[235]

اپنے دینی بھائی کے ساتھ سب سے بڑی خیانت اس سے جھوٹ بولنا ھے جبکہ وہ تمھیں سچا مانتا ھو“۔

حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ھے:

تَحَفَّظُوا مِنَ الْکِذْبِ ،فَاِنَّہُ مِن اَدْنَی الْاٴَخْلاقِ قَدْراً،وَھُوَ نَوُعٌ مِنَ الْفُحْشِ وَضَرْبٌ مِنَ الدَّناءَ ةِ“۔[236]

اپنے کو جھوٹ سے بچاؤ کیونکہ یہ سب سے پست اخلاقی مرتبہ ھے ، جھوٹ ایک بُرا عمل اور ذلت کی ایک قسم ھے“۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ھے:

اَعْظَمُ الْخَطایَا اللِّسانُ الْکَذوبُ“۔[237]

زبان کی سب سے بڑی خطا جھوٹ کا اپنی حد سے گزرجاناھے“۔

حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ھے:

اِذاکَذَبَ الْعَبْدُ کِذْبَةً تَباعَدَ الْمَلَکُ مِنْہُ مَسیرَةَ میلٍ مِنْ نَتْنِ ما جَاءَ بِہِ“۔[238]

جب انسان ایک جھوٹ بولتا ھے تو اس جھوٹ کی بُری بو کی وجہ سے فرشتہ ایک میل دور ھوجاتا ھے!“۔

حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:

اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ جَعَلَ لِلشَّرِّ اَقْفالاًوَجَعَلَ مَفاتِیحَ تِلْکَ الْاَقْفالِ الشَّرابَ،وَالْکِذْبُ شَرٌّ مِنَ الشَّرابِ“۔[239]

خداوندعالم نے بُرائیوں کے کچھ تالے مقرر کئے ھیں اور ان تالوں کی کنجی شراب ھے اور جھوٹ شراب سے بھی بدتر ھے“۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ھے:

اَلْکِذْبُ بابٌ مِنْ اَبْوابِ النِّفاقِ“۔[240]

جھوٹ ، نفاق کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ھے“۔

تھمت

واقعاً کتنی بُری بات ھے کہ انسان کسی پاکدامن مرد یا عورت کو لوگوں کے درمیان ذلیل و رسوا کرے، کتنا بُرا عمل ھے کہ انسان کسی کے سر ایسا گناہ تھونپے جس سے اس کا دامن پاک ھو، اور کس قدر ناپسند ھے کہ انسان ھوا و ھوس اور بے ھودہ چیزوں کی بنا پر کسی محترم انسان کوذلیل و رسوا کرے۔

کسی بے گناہ پر تھمت لگانا، اور پاکدامن انسان کو متھم کرنا بدترین کام ھے۔

(( وَمَنْ یَکْسِبْ خَطِیئَةً اٴَوْ إِثْمًا ثُمَّ یَرْمِ بِہِ بَرِیئًا فَقَدْ احْتَمَلَ بُھتانًا وَإِثْمًا مُبِینًا))۔[241]

اور جو شخص بھی کوئی غلطی یا گناہ کرکے دوسرے بے گناہ کے سر ڈال دیتا ھے وہ بھت بڑے بھتان اور کھلے گناہ کا ذمہ دار ھوتاھے “۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ بَھَتَ مُوٴْمِناً اَوْ مُوٴْمِنَةً قالَ فِیہِ مَا لَیْسَ فِیہِ اَقَامَہُ اللّٰہُ تَعالیٰ یَوْمَ الْقِیامَةِ عَلیٰ تَلٍّ مِنْ نارٍ حَتّیٰ یَخْرُجَ مِمّا قَالَہُ فِیہِ“۔[242]

جو شخص کسی مومن پر تھمت لگائے یا اس کے بارے میں وہ چیز کھے جو اس میں نہ پائی جاتی ھو، تو ایسے شخص کو خداوندعالم آگ کی ایک بلندی پر کھڑا کرے گاتاکہ وہ اپنے مومن بھائی کی شان میں کھی جانے والی بات کو ثابت کرے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ھے:

مَنْ باھَتَ مُوٴْمِناً اَوْ مُوٴْمِنَةً بِما لَیْسَ فِیھِمَا،حَسَبَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ یَوْمَ الْقِیامَةِ فِی طِینَةِ خَبالٍ حَتّیٰ یَخْرُجَ مِمّا قَالَ۔قُلْتُ: وَمَا طِینَةُ خَبالٍ؟ قالَ:صَدیدٌ یَخْرُجُ مِنْ فُروجِ الْمُومِساتِ - یَعْنِی الزَّوانِیَ“۔[243]

جو شخص کسی مرد مومن یا مومنہ پر تھمت لگائے اور ان کے بارے میں ایسی بات کھے جو ان میں نہ پائی جاتی ھو، تو خداوندعالم اس کو روز قیامت خَبال کی طینت میں مقید کردے گا تاکہ وہ اپنے کھے کو ثابت کرے، راوی کھتا ھے : میں نے حضرت سے سوال کیا: طینت خَبال کیا ھے؟ تو آپ نے فرمایا: وہ خون اور گندگی جو زناکرنے والوں کی شرمگاہ سے نکلتی ھے!“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اَلْبُھْتانُ عَلَی الْبَری ءِ اَثْقَلُ مِنَ الْجِبالِ الرّاسیاتِ“۔[244]

کسی پاکدامن مومن پر تھمت لگانا مستحکم ترین پھاڑوں سے بھی زیادہ سنگین و بھاری ھے“۔

غیبت

دوسروں کی پیٹھ پیچھے برائی کرنا پست ترین اور بری صفت ھے۔

جو صفات انسان میں پائے جاتے ھیں لیکن وہ ان کو دوسروں کے سامنے بیان ھونے پر ناراض ھوتا ھو تو اس کو غیبت کھتے ھیں۔

قرآن مجید نے تمام لوگوں کو غیبت سے منع کیا ھے، اور اس کو اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے کے برابر شمار کیا ھے:

(( ۔۔۔ وَلاَیَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا اٴَیُحِبُّ اٴَحَدُکُمْ اٴَنْ یَاٴْکُلَ لَحْمَ اٴَخِیہِ مَیْتًا فَکَرِھتمُوہُ وَاتَّقُوا اللهَ۔۔۔))۔[245]

۔۔۔دوسرے کی غیبت بھی نہ کرو کہ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے یقینا تم اسے بُرا سمجھو گے ،تو اللہ سے ڈرو۔۔۔“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابوذر سے فرمایا:

یا اباذَرٍّ ،اِیّاکَ وَالْغیبَةَ ،فَاِنَّ الْغیبَةَ اَشَدُّ مِنَ الزِّنا ۔قُلْتُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَمَا الْغیبَةُ قَالَ:ذِکْرُکَ اَخاکَ بِمَا یُکْرَہُ۔قُلْتُ:یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَاِنْ کانَ فِیہِ ذاکَ الَّذِی یُذْکَرُ بِہِ؟قَالَ:اِعْلَمْ اِنَّکَ اِذا ذَکَرْتَہُ بِما لَیْسَ فِیہِ بَھَتَّہُ“۔[246]

اے ابوذر! غیبت سے پرھیز کرو، بے شک غیبت زنا سے بدتر ھے، میں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا: غیبت کیا ھے؟ تو آنحضرت نے فرمایا: اپنے دینی بھائی کی شان میں ناپسندیدہ الفاظ کہنا۔ میں نے کھا: اس کی پیٹھ پیچھے ایسی بات کہنا جو اس میں پائی جاتی ھو؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جان لو کہ اگر اس کے بارے میں وہ چیز کھو جو اس میں نھیں پائی جاتی تو وہ تھمت ھے“۔

نہ صرف یہ کہ غیبت کرنا حرام ھے بلکہ غیبت کا سننا بھی حرام اور گناہ ھے۔

حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ھے:

اَلسّامِعُ لِلْغیبَةِ کَاْلمُغْتابِ“۔[247]

غیبت کا سننے والا (بھی) غیبت کرنے والے کی طرح ھے“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ھے:

مَنِ اغْتیبَ عِنْدَہُ اَخُوہُ الْمُسْلِمُ فَاسْتَطاعَ نَصْرَہُ وَلَمْ یَنْصُرْہُ خَذَلَہُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیا وَالْآخِرَةِ“۔[248]

اگر کوئی شخص کسی کے سامنے اپنے مسلمان بھائی کی غیبت کرے اور وہ اس کا دفاع کرسکتا ھو لیکن دفاع نہ کرے تو خداوندعالم اس کو دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا کردے گا“۔

استہزاء اور مسخرہ کرنا

دوسرے لوگوں کو ذلیل کرنا اور ان کی تحقیر کرنا بھت بُرا کام اور عظیم گناہ ھے۔

کسی انسان کا مسخرہ اور اس کو ذلیل نہ کیا کروچونکہ اس کا اولیائے خدا اور اس کے خاص بندوں میں سے ھونے کا امکان ھے۔

قرآن مجید نے شدت کے ساتھ ایک دوسرے کا مذاق اڑانے اور مسخرہ کرنے سے منع کیا ھے اور کسی کو ذلیل کرنے کی بھی اجازت نھیں دی ھے۔

(( یَااٴَیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا لاَیَسْخَرْ قَومٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَی اٴَنْ یَکُونُوا خَیْرًا مِنْھم وَلاَنِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَی اٴَنْ یَکُنَّ خَیْرًا مِنْہُن۔۔۔))۔[249]

ایمان والو! خبردار کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اڑائے کہ شاید وہ اس سے بھتر ھو اور عورتوں کی بھی کوئی جماعت دوسری جماعت کا مسخرہ نہ کرے شاید وھی عورتیں ان سے بھتر ھوں۔۔۔“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کا مسخرہ کرنے والوں اور مومنین کو ذلیل کرنے والوں کے بارے میں فرمایا:

اِنَّ الْمُسْتَھْزِئینَ یَفْتَحُ لِاَحَدِھِمْ بابُ الْجَنَّةِ فَیُقالَ:ھَلُمَّ،فَیَجیءُ بِکَرْبِہِ وَغَمِّہِ ،فَاِذا جاءَ اُغْلِقَ دُونَہُ“۔[250]

مسخرہ کرنے والوں کے لئے جنت کا ایک دروزاہ کھولا جائے گا اور ان سے کھا جائے گا: جنت کی طرف آگے بڑھو، جیسے ھی وہ لوگ اپنے غم و غصہ کے عالم میںبہشت کے دروازہ کی طرف بڑھيں گے تووہ فوراًبند ھوجائےگا“۔

جی ھاں، مومنین کا مسخرہ کرنے والوں کا روز قیامت مسخرہ کیا جائے گا اور مومنین کو ذلیل کرنے والوں کو ذلیل کیا جائے گا تاکہ اپنے برے اعمال کا مزہ چکھ سکیں۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

لَاتُحْقِرَنَّ اَحَداً مِنَ الْمُسْلِمِینَ،فَاِنَّ صَغِیرَھُمْ عِنْدَاللّٰہِ کَبِیرٌ“۔[251]

کسی بھی مسلمان کا مسخرہ نہ کرو، بے شک ایک چھوٹا مسلمان بھی خدا کے نزدیک بزرگ ھے“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ھے:

حَسْبُ ابْنِ آدَمَ مِنَ الشَّرِّ اَنْ یُحْقِرَ اَخَاہُ الْمُسْلِمَ“۔[252]

انسان کی بدی اورشر کے لئے بس یھی کافی ھے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کا مذاق اڑائے“۔

جھوٹی قسم کھانا

بعض لوگ اپنے مادی اور خیالی مقاصد تک پہنچنے کے لئے جھوٹی قسم کھاتے ھیں اور خدا کی ذات اقدس کی بے احترامی کرتے ھیں۔

قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:

(( وَلاَتَجْعَلُوا اللهَ عُرْضَةً لِاٴَیْمَانِکُمْ اٴَنْ تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَیْنَ النَّاسِ وَاللهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ))۔[253]

خبردار خدا کو اپنے قسموں کا نشانہ نہ بناوٴ کہ قسموں کو نیکی کرنے ،تقویٰ اختیار کرنے اور لوگوں کے درمیان اصلاح کرنے میں مانع بنا دو اوراللہ سب کچھ سننے اورجاننے والا ھے“۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امام علی علیہ السلام سے فرمایا:

لَا تَحْلِفْ بِاللّٰہِ کاذِباً وَلاصادِقاً مِنْ غَیْرِ ضَرورَةٍ وَلَا تَجْعَلِ اللّٰہَ عُرْضَةً لِیَمینِکَ ،فَاِنَّ اللّٰہَ لَایَرْحَمُ وَلَا یَرْعیٰ مَنْ حَلَفَ بِاسْمِہِ کاذِباً“۔[254]

خدا وندعالم کی جھوٹی قسم نہ کھاؤ، اور ضرورت کے بغیر سچی قسم سے بھی اجتناب کرو، خداوندعالم کو اپنی قسم کا ہدف نہ بناؤ، کیونکہ جو شخص خداوندعالم کے نام کی جھوٹی قسم کھاتا ھے خدا اس کو اپنی رحمت سے محروم کردیتا ھے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

مَنْ حَلَفَ عَلیٰ یَمینٍ وَھُوَ یَعْلَمُ اَنَّہُ کاذِبٌ فَقَدْ بارَزَاللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ“۔[255]

جو شخص خدا کی قسم کھائے اور جانتا ھو کہ اس کی قسم جھوٹی ھے تو گویا ایسا شخص خداوندعالم سے جنگ کے لئے آمادہ ھے“۔

حرام شھوت

انسان جو کچھ بھی اپنے شکم، جنسی لذت اور خیالی لذت کے لئے چاھتا ھے اور وہ رضائے الٰھی کے خلاف ھو تو اس کو حرام شھوت کھا جاتا ھے۔

انسان کو یاد خدا، قیامت پر توجہ رکھنا چاہئے اور انجام گناہ پیش کے نظر اپنے نفس کو ھوا و ھوس اور حرام شھوتوں سے محفوظ رکھناچاہئے کیونکہ ان چیزوں سے محفوظ رہنے کی جزا جنت کے علاوہ کچھ نھیں ھے۔

(( وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھوَیٰ۔فَاِنَّ الْجَنَّةَ ھِیَ الْماٴْوَیٰ))۔[256]

اور جس نے اپنے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ھے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ھے۔تو جنت اس کا ٹھکانا اور مرکز ھے“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ھے:

طوبیٰ لِمَنْ تَرَکَ شَھْوَةً حَاضِرَةً لِمَوْعِدٍ لَمْ یَرَہُ“۔[257]

خوش نصیب ھے وہ شخص جو موجودہ لذت کو نہ دیکھے ھوئے وعدہ (جنت) کی وجہ سے ترک کردے!“

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ھے:

ثَلاثٌ اَخافُھُنَّ بَعْدِی عَلیٰ اُمَّتِی:الضَّلالَةُ بَعْدَ الْمَعْرِفَةِ ، وَمَضَلّاتُ الْفِتَنِ ،وَشَھْوَةُ الْبَطْنِ وَالْفَرْجِ“۔[258]

میں اپنے بعد اپنی امت کے لئے تین چیزوں سے ڈرتا ھوں: معرفت کے بعد گمراھی، گمراہ کرنے والے فتنے، اور شکم و جنسی شھوات“۔

حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ھے:

عَبْدُ الشَّھْوَةِ اَذَلُّ مِنْ عَبْدِ الرِّقِّ“۔[259]

شھوت کی غلامی ، دوسروںکی غلامی سے زیادہ ذلیل و رسوا کرنے والی ھے“۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اَلْحَقُّ ثَقیلٌ مَرٌّ،وَالْباطِلُ خَفیفٌ حُلْوٌ ،وَرُبَّ شَھْوَةِ ساعَةٍ تُورِثُ حُزْناً طَوِیلًا “۔[260]

حق ثقیل اور کڑوا ھے اور باطل سبک اور شیرین ھے، بعض اوقات ایک گھڑی کی شھوت سے بھت زیادہ حزن و ملال پیدا ھوجاتا ھے“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ھے:

مَنْ عَرَضَتْ لَہُ فاحِشَةٌ اَوْ شَھْوَةٌ فَاجْتَنَبَھا مِنْ مَخافَةِ اللّٰہِ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ النّارَ،وَآمَنَہُ مِنَ الْفَزَعِ الْاَکْبَرِ۔ “[261]

جس شخص کے لئے گناہ یا لذت کا راستہ ھموار ھو لیکن وہ خوف خدا کی بنا پر اس سے پرھیز کرے تو خداوندعالم اس پر آتش جہنم کو حرام کردیتا ھے، اور روز قیامت کے عظیم خوف و وحشت سے امان عطا کردیتا ھے“۔

ظلم و ستم

ظلم و ستم اور حقوق الناس پر تجاوز کرنا، دوسروں کو اپنے حقوق تک پہنچنے میں مانع ھونا، یا مومنین کے دلوں میں ناحق اعمال اور بری باتوں کا ڈالنا، قانون شکنی، بدعت گزاری، حقوق کا پامال کرنا، بدمعاشی کرنا وغیرہ یہ سب ظلم و ستم کے مصادیق ھیں۔

قرآن مجید نے ظلم و ستم کرنے والوں کو ہدایت کے قابل نھیں سمجھا ھے۔

(( وَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ افْتَرَی عَلَی اللهِ الْکَذِبَ وَہُوَ یُدْعَی إِلَی الْإِسْلاَمِ وَاللهُ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ))۔[262]

اور اس سے بڑا ظالم کون ھوگا جو خدا پر جھوٹا الزام لگائے جب کہ اسے اسلام کی دعوت دی جارھی ھو اور اللہ کبھی ظالم قوم کی ہدایت نھیں کرتا ھے“۔

قرآن مجید نے ظلم و ستم کو ھلاکت و نابودی کا سبب قرار دیا ھے، اور ظلم و ستم کرنے والے معاشرہ کو بلاء و حوادث کا مستحق قرار دیا ھے۔

(( وَلَمَّا جَائَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاہِیمَ بِالْبُشْرَی قَالُوا إِنَّا مُھلکُو اٴَھل ہَذِہِ الْقَرْیَةِ إِنَّ اٴَھلھا کَانُوا ظَالِمِینَ))۔[263]

اور جب ھمارے نمائندہ فرشتے ابراھیم کے پاس بشارت لے کر آئے اور انھوں نے یہ خبر سنائی کہ ھم اس بستی والوں کو ھلاک کرنا چاھتے ھیں کیونکہ اس بستی کے لوگ بڑے ظالم ھیں“۔

قرآن مجید نے ظلم و ستم کرنے والوں کو شفاعت سے محروم قراردیا ھے اور یہ لوگ قیامت میں بے کسی اور تنھائی کے عالم میں عذاب الٰھی میں گرفتار ھوں گے:

(( وَاٴَنذِرْھم یَوْمَ الْآزِفَةِ إِذْ الْقُلُوبُ لَدَی الْحَنَاجِرِ کَاظِمِینَ مَا لِلظَّالِمِینَ مِنْ حَمِیمٍ وَلاَشَفِیعٍ یُطَاعُ))۔[264]

اور پیغمبر انھیں آنے والے دن کے عذاب سے ڈرایئے جب دم گھٹ گھٹ کر دل منھ کے قریب آجائیں گے اور ظالمین کے لئے نہ کوئی دوست ھوگا اور نہ شفاعت کرنے والا جس کی بات سن لی جائے“۔

قرآن مجید نے ظلم و ستم کرنے والوں کو ھمیشہ کے لئے مستحق عذاب قرار دیا ھے اور ان کے تابع افراد کے لئے آتش جہنم میں جگہ معین کی ھے:

(( ۔۔۔ إِنَّ الْخَاسِرِینَ الَّذِینَ خَسِرُوا اٴَنفُسَھم وَاٴَھلیھم یَوْمَ الْقِیَامَةِ اٴَلاَإِنَّ الظَّالِمِینَ فِی عَذَابٍ مُقِیمٍ))۔[265]

گھاٹے والے وھی افراد ھیں جنھوں نے اپنے نفس اور اھل کو قیامت کے دن گھاٹے میں مبتلا کردیا ھے ،آگاہ ھو جاوٴ کہ ظالموں کو بھر حال دائمی عذاب میں رہنا پڑے گا“۔

آخر کار قرآن مجید نے یہ اعلان کیا ھے کہ خداوندعالم ظالمین کو دوست نھیں رکھتا،اور یہ بات معلوم ھے کہ جس گروہ سے خداوندعالم محبت نہ کرتا ھو تو ایسے لوگ دنیا و آخرت کی بلاؤں میں گرفتار ھوتے ھیں!

(( ۔۔۔ إِنَّہُ لاَیُحِبُّ الظَّالِمِینَ))۔[266]

۔۔۔وہ یقینا ظالموں کو دوست نھیں رکھتا ھے“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ھے:

بَیْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ سَبْعُ عِقابٍ اَھْوَنُھَا الْمَوْتُ۔وَقالَ اَنَسٌ:قُلْتُ:یا رَسولَ اللّٰہِ !فَمَا اَصْعَبُھا؟ قالَ:الْوُقوفُ بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ اِذْ تَعَلَّقَ الْمَظْلُومُونَ بِالظّٰالِمینَ“۔[267]

جنت و جہنم کے درمیان سات خطرناک مقام ھیں،جن میں سب سے آسان تر موت کا وقت ھے، انس کھتے ھیں: میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا: ان میں سے سخت ترین کونسا مقام ھے؟ تو آنحضرت نے فرمایا: بارگاہ خداوندی میں کھڑا ھونا کہ جب مظلومین ، ظالموں سے اپنے حق لینے کے لئے قیام کریں گے“۔

ایک حدیث قدسی میں بیان ھوا ھے:

اِشْتَدَّ غَضَبی عَلیٰ مَنْ ظَلَمَ مَنْ لَایَجِدُ ناصِراًغَیْرِی“۔[268]

میرا غیظ و غضب اس ظالم کی کی نسبت شدید تر ھے جو ایسے شخص پر ظلم و ستم کرے جس کا میرے علاوہ کوئی ناصر و مددگار نھیں ھے“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ھے:

اِتَّقُواالظُّلْمَ فَاِنَّہُ ظُلُماتُ یَوْمَ الْقِیامَةِ“۔[269]

ظلم و ستم سے پرھیز کرو کیونکہ روز قیامت ،ظلم و ستم کی تاریکی اور ظلمت نمایاں ھو گی“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اَلْعامِلُ بِالظُّلْمِ وَالْمُعینُ عَلَیْہِ وَالرَّاضی بِہِ شُرَکاءُ ثَلاثَة“۔[270]

ظلم کرنے والا، ظالم کی مدد کرنے والا اور ظلم پر راضی رہنے والا ؛ھر ایک ظلم میں شریک ھے“۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

وَاللّٰہِ لَوْ اُعْطیتُ الْاقالیمَ السَّبْعَةَ بِما تَحْتَ اَفْلاکِھا عَلیٰ اَنْ اَعْصِیَ اللّٰہَ فی نَمْلَةٍ اَسْلُبُھا جُلْبَ شَعِیرَةٍ ما فَعَلْتُہُ“۔[271]

خدا کی قسم، اگر ساتوں اقلیم اور جو کچھ افلاک کے نیچے ھے وہ سب مجھے دیا جائے تاکہ ایک چیونٹی کے منھ میں موجود چھلکاچھین لوں تو میں اس ظلم کا مرتکب نھیں ھوں گا!“۔

غیظ و غضب

بلا وجہ غیظ و غضب سے کام لینا، بے جا غصہ ھونا یااھل و عیال اور رشتہ داروں کی غلطی کی بناپر یا دینی بھائیوں کی غفلت و جھالت کی وجہ سے غیظ و غضب اختیار کرنا واقعاًایک شیطانی حالت، ابلیسی منصوبہ اور ناپسند عمل ھے۔

لہٰذا غیظ و غضب اور غصہ سے پرھیز کرنا ھر مسلمان کے لئے لازم و ضروری ھے، کیونکہ انسان غیظ و غضب کے عالم میں بھت سے گناھوں کا مرتکب ھوجاتا ھے اور ممکن ھے کہ ایسے اعمال کا مرتکب ھوجائے جس کی تلافی ناممکن اور محال ھو ۔

غیظ و غضب کو پی لینا اور لوگوں کے ساتھ عفو و بخشش سے کام لینا، ان کے ساتھ نیکی کرنا تقویٰ کی نشانی ھے جس سے خداوندعالم کے نزدیک محبوبیت پیدا ھوتی ھے۔

(( ۔۔۔ وَالْکَاظِمِینَ الْغَیْظَ وَالْعَافِینَ عَنْ النَّاسِ وَاللهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ))۔[272]

۔۔۔اور یہ لوگ غصہ کو پی جاتے ھیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ھیں اور خدا احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اِذَا غَضِبَ اَحَدُکُمْ وَھُوَ قائِمٌ فَلْیَجْلِسْ ،فَاِنْ ذَھَبَ عَنْہُ الْغَضَبُ وَاِلاَّ فَلْیَضْطَجِعْ“۔[273]

جب تم میں سے کوئی شخص غصہ ھوجائے تو اگر وہ کھڑا ھوا ھے تو بیٹھ جائے، اور اگر بیٹھنے کی حالت میں غصہ ختم ھوجائے تو کیا کہنا ورنہ تو پھلو کے بل لیٹ جائے“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم امیر المومنین علیہ السلام سے سفارش فرماتے ھیں:

لَا تَغْضَبْ فَاِذَا غَضِبْتَ فَاقْعُدْ ،وَ تَفَکَّرْ فِی قُدْرَةِ الرَّبِّ عَلَی الْعِبادِ وَحِلْمِہِ عَنْھُمْ وَاِذَا قِیلَ لَکَ،اتَّقِ اللّٰہَ فَانْبِذْ غَضَبَکَ، وَارْجِعْ حِلْمَکَ“۔[274]

”(تم لوگ غصہ نہ کیا کرو، اگر غصہ ھوگئے تو بیٹھ جاؤ، اور بندوں کی نسبت خدا کی قدرت اس کے حلم کے بارے میں غور و فکر کرو، اور اگر اس حال میں تم سے کھا جائے: خدا کا لحاظ رکھو، تو تمھارا غیظ و غضب ختم ھوجائے، اور حلم و بردباری کی طرف پلٹ جاؤ“۔

حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا:

اِیّاکَ وَالْغَضَبَ ،فَاَوَّلُہُ جُنونٌ ،وَآخِرُہُ نَدَمٌ“۔[275]

غیظ و غضب اور غصہ سے پرھیز کرو کیونکہ اس کی ابتداء دیوانہ پن اور انجام پشیمانی ھوتی ھے“۔

حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:

مَنْ کَظَمَ غَیْظاً وَھُوَ یَقْدِرُ عَلیٰ اِمْضائِہِ حَشَا اللّٰہُ قَلْبَہُ اَمْناً وَاِیماناً“۔[276]

جو شخص غیظ و غضب اور غصہ پر قابو پالے جب کہ غیظ و غضب سے کام لینے پر قدرت رکھتا تو خداوندعالم اس کے دل کو امن وایمان سے بھر دیتا ھے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

اَلْغَضَبُ مِفْتاحُ کُلِّ شَرٍّ“۔[277]

غیظ و غضب اور غصہ ھر فساد کی جڑ ھے“۔

بغض و کینہ

بغض و کینہ رکھنا اور کسی سے شرعی دلیل کے بغیر دشمنی کرنا، ممنوع اور حرام ھے۔

بغض و کینہ رکھنے والا اپنے کینہ کو ختم کرنے کے لئے مجبور ھے کہ ظلم و ستم کا سھارا لے اور بعض گناھوں کو انجام دے۔

کینہ رکھنے والا دوسروں پر مھربانی نھیں کرتا، اسی وجہ سے قرآن مجید کی آیات اور احادیث معصومین علیھم السلام کی رو سے ایسا شخص دنیا و آخرت میں خدا کی رحمت اور اس کے لطف سے محروم رھتاھے۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

اَلْحِقْدُ اٴلْاٴمُ الْعُیوبِ“۔[278]

بغض و کینہ ، ھر برائی کی جڑ ھے“۔

نیز امام علیہ السلام ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتے ھیں:

اَلْحِقْدُ مِنْ طَبایِعِ الْاَشْرارِ“۔[279]

بغض و کینہ ،شریر لوگوں کی فطرت ھوتی ھے“۔

نیز آپ ھی کا فرمان ھے:

اَلْحِقْدُ نارٌ کامِنَةٌ ،لَا یُطْفیھا اِلّا مَوْتٌ اَوْ ظَفَرٌ“۔[280]

بغض و کینہ ایک ایسی مخفی آگ ھے جو مرنے سے پھلے یا مدّمقابل پر کامیابی کے بغیر خاموش نھیں ھوتی“۔

نیز یہ کلام بھی آپ سے منقول ھے:

اُحْصُدِ الشَّرَّ مِنْ صَدْرِ غَیْرِکَ بِقَلْعِہِ مِنْ صَدْرِکَ“۔[281]

بغض و کینہ کو اپنے سینہ سے نکال کر دوسروں کے دلوں سے بھی ختم کردو“۔

امام علیہ السلام نے ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

سَبَبُ الْفِتَنِ الْحِقْدُ“۔[282]

بغض و کینہ، فتنہ و فساد کی جڑ ھے“۔

نیز امام علیہ السلام نے فرمایا:

مَنِ اطَّرَحَ الْحِقْدَ اسْتَراحَ قَلْبُہُ وَلبُّہُ“۔[283]

جو شخص بغض و کینہ کو اپنے دل سے نکال پھینکے تو اس کے دل و دماغ کو سکون ملتا ھے“۔

ایک دوسری جگہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:

لَیْسَ لِحَقُودٍ اِخْوَةٌ“۔[284]

کینہ کرنے والے کے لئے کوئی اخوت (بھائی چارگی) نھیں ھوتی“۔

جیسا کہ ھم دعائے ندبہ میں پڑھتے ھیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد لوگوں نے جو مصائب آپ کے اھل بیت علیہم السلام پرڈھائے، اور جتنے فتنہ و فساد برپا ھوئے اور دین ودنیا میں جو انحرافات ایجاد ھوئے کہ جن کی تلافی قیامت تک محال ھے، ان کی وجہ حاسدوں کے دل میں بغض و حسد تھا۔

بخل

بخل اس حالت کا نام ھے جو انسان کو مال، مقام اور عزت کو راہ خدا میں خرچ کرنے سے مانع ھوتی ھے، انسان کو مشکلات میں گرفتاراور دردمندوں اورکمزوں کی مدد کرنے سے روکنے والی حالت کو بخل کھتے ھیں۔

بخل شیطانی حالت، ابلیسی اخلاق، ناپاک، شریراور حاسدوں کے اوصاف میں سے ھے۔

بخل اور بخل کرنے والوں کی قرآن مجید نے شدت کے ساتھ مذمت کی ھے، اور روزقیامت بخل کرنے والوں پر دردناک عذاب کی خبر دی ھے۔

(( وَلاَیَحْسَبَنَّ الَّذِینَ یَبْخَلُونَ بِمَا آتَاھم اللهُ مِنْ فَضْلِہِ ہُوَ خَیْرًا لَھم بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَھم سَیُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔۔۔))۔[285]

اور خبردار جو لوگ خدا کے دیئے ھوئے مال میں بخل کرتے ھیں ان کے بارے میں یہ نہ سوچنا کہ اس بخل میں کچھ بھلائی ھے۔یہ بھت بُرا ھے اور عنقریب جس مال میں بخل کیا ھے وہ روز قیامت ان کی گردن میں طوق بنادیا جائے گا۔۔۔“۔

(( ۔۔۔وَالَّذِینَ یَکْنِزُونَ الذَّھب وَالْفِضَّةَ وَلاَیُنفِقُونَھا فِی سَبِیلِ اللهِ فَبَشِّرْھم بِعَذَابٍ اٴَلِیمٍ ۔ یَوْمَ یُحْمَی عَلَیْھا فِی نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوَی بِھا جِبَاہُھم وَجُنُوبُھم وَظُہُورُھم ہَذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاٴَنفُسِکُمْ فَذُوقُوا مَا کُنتُمْ تَکْنِزُونَ))۔[286]

۔۔۔اور جو لوگ سونے چاندی کا ذخیرہ کرتے ھیں اور اسے راہ خدا میں خرچ نھیں کرتے ، اے پیغمبر آپ انھیں دردناک عذاب کی بشارت دیدیں۔جس دن وہ سونا چاندی آتش جہنم میں تپایا جائے گا اور اس سے ان کی پیشانیوں اور ان کے پھلووٴں اور پشت کو داغا جائے گا کہ یھی وہ ذخیرہ جوتم نے اپنے لئے جمع کیا تھا اب اپنے خزانوں اور ذخیروں کا مزہ چکھو“۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اَقَلُّ النّاسِ راحَةً الْبَخِیلُ“۔[287]

لوگوں کے درمیان بخیل سب زیادہ پریشان رھتا ھے“۔

حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ھے:

اَلْبُخْلُ جامِعٌ لِمَساوِیءِ الْعُیوبِ ،وَھُوَ زِمامٌ یُقادُ بِہِ اِلیٰ کُلِّ سُوءٍ“۔[288]

بخل کی وجہ سے تمام بُرائیاں جمع ھوجاتی ھيں، یھی وہ لگام ھے جس کے ذریعہ انسان کو ھر بُرائی کی طرف کھینچ کر لے جاتا ھے“۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں:

اَلْبَخِیلُ مَنْ بَخِلَ بِمَا افْتَرَضَ اللّٰہُ عَلَیْہِ“۔[289]

بخیل وہ شخص ھے جو خداکے واجب کردہ اعمال کو انجام دینے میں بخل سے کام لے“۔

احتکار

احتکاریعنی لوگوں کی ضروری چیزوں مخصوصاً غذائی سامان کو مہنگا بیچنے کی غرض سے جمع کرنا، یہ واقعاً ایک ظلم ھے خصوصاً معاشرہ کے غریب اور کمزور لوگوں پر بھت بڑا ستم ھے۔

احتکار کرنے والا اپنی بے رحمی کی بنا پر اپنے آپ کو دنیا و آخرت میں رحمت خدا سے محروم کرلیتا ھے۔

احتکار کے ذریعہ حاصل کئے ھوئے مال کا بیچنا حرام اور ایسے پیسے کا کھانا قرآن مجید کی لحاظ سے قابل مذمت ھے۔

احتکار کے ذریعہ حاصل کئے ھوئے ناجائز مال کے سلسلہ میں قرآن مجید ارشاد فرماتا ھے:

((وَمَنْ یَفْعَلْ ذَلِکَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیہِ نَارًا وَکَانَ ذَلِکَ عَلَی اللهِ یَسِیرًا))۔[290]

اور جو ایسا اقدام حدود سے تجاوز اور ظلم کے عنوان سے کرے گا ھم عنقریب اسے جہنم میں ڈال دیں گے اور اللہ کے لئے یہ کام بھت آسان ھے“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ جَمَعَ طَعاماً یَتَرَبَّصُ بِہِ الْغَلاءَ اَرْبَعِینَ یَوْماً فَقَدْ بَرِیٴَ مِنَ اللّٰہ وَ بَرِیٴَ اللّٰہُ مِنْہُ“۔[291]

جو شخص بازاری اجناس کو مہنگی ھونے کے لئے چالیس دن تک احتکار کرے تو ایسا شخص خدا سے بیزار اور خدا بھی اس سے بیزار ھے“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ھے:

مَنِ احْتَکَرَ طَعاماً اَرْبَعِینَ یَوْماً وَ تَصَدَّقَ بِہِ لَمْ یُقْبَلْ مِنْہُ“۔[292]

جو شخص لوگوں کے کھانے پینے کی چیزوںکو چالیس دن تک احتکار کرے اور پھر رہ خدا میں اس کو صدقہ دےدے، تو اس کا صدقہ قبول نھیں ھے“۔

ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

بِئْسَ الْعَبْدُ الْمُحْتَکِرُ اِنْ اَرْخَصَ اللّٰہُ الْاِسْعارَ حَزِنَ ،وَاِنْ اَغْلاَھَا اللّٰہُ فَرِحَ“۔[293]

احتکار کرنے والا بُرا آدمی ھے، اگر خداوندعالم اس مال کی قیمت کو کم کردے تو غمگین ھوجاتا ھے اور اگر مہنگا کردے تو خوش ھوجاتا ھے“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا رشاد ھے:

یُحْشَرُ الْحَکاّرُونَ وَقََتَلَةُ الْاَنْفُسِ اِلیٰ جَھَنَّمَ فِی دَرَجةٍ“۔[294]

احتکار کرنے والے اور لوگوں کا قتل کرنے والے، جہنم کے ایک درجہ میں رھيں گے“۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

اَلْاِحْتِکارُ شِیَمُ الْاَشْرارِ“۔[295]

احتکار کرنا اشرار اور برے لوگوں کی عادت ھے“۔

حبّ دنیا

دنیا کو معقول اور جائز حد تک چاہناتاکہ انسان ایک پاک و سالم زندگی گزار سکے، تو یہ ایک پسندیدہ امر ھے۔

لیکن اگر انسان میں دنیا کی محبت حرص و لالچ اور ھوا و ھوس کی بنا پر ھو اور انسان ھر طریقہ سے مال حاصل کرے ،حرام طریقہ سے لذت کی آگ بجھائے تو ایسی دنیا کی محبت نامعقول اور نامشروع ھے جس سے انسان کی آخرت تباہ و برباد ھوجاتی ھے اور ھمیشہ کے لئے لعنت و عذاب کا مستحق بن جاتا ھے۔

اگر ھم دیکھتے ھیں کہ قرآن مجید اور احادیث معصومین علیھم السلام میں دنیا یا دنیا کی محبت کو مذمت کی ھے تو اس سے ناجائز اور نامشروع کاموں کے ذریعہ مال جمع کرنا اور حرام طریقہ سے جسمانی لذت حاصل کرنا مراد ھے، جو واقعاً ظلم و ستم اور خیانت ھے۔

قرآن مجید میں دنیا کے بارے میں اس طرح کے مضامین بیان ھوئے ھیںکہ دنیا متاع غرور ھے، دنیاوی زندگی لھو لعب کے علاوہ کچھ نھیں ھے، دنیا کا مال قلیل ھے، دنیاوی زندگی کی زینت قابل توجہ نھیں ھے وغیرہ وغیرہ ،یہ تمام چیزیں اس وقت کے لئے ھیں جب دنیا کی محبت حرص و لالچ اور جھل و غفلت کی بنا پر ھو۔

جی ھاں، دنیا کے چاہنے والے اور دنیا کے عاشق اس دنیا کے لالچ میں اپنی آخرت کو خراب کرلیتے ھیں، اور خدا کا قھر و غضب اور اس کی نفرت خرید لیتے ھیں اور ھمیشہ کے لئے رضائے الٰھی اور جنت سے محروم ھوجاتے ھیں۔

انسان کا دل ،عرش خدا اور حرم الٰھی ھوتا ھے اس کو دنیا کی محبت سے آلودہ ھونے سے محفوظ کیا جائے، کہ یہ محبت طمع و لالچ کا ثمرہ ھے۔

قرآن مجید اور احادیث معصومین علیھم السلام میں بیان شدہ صورت میں ھی دنیا سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔

جائز طریقہ سے مال و دولت جمع کی جائے، اس کو زندگی سنوارنے اور راہ خدا میں خرچ کیا جائے۔

چنانچہ دنیا سے ایسا تعلق رکھنا،خداوندعالم پسند کرتا ھے جس سے انسان کی آخرت آباد ھوتی ھے، لیکن دنیا سے نامعقول محبت انسان کے لئے دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کا باعث ھے۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اِنَّہُ ما سَکَنَ حُبُّ الدُّنْیا قَلْبَ عَبْدٍ اِلّا الْتاطَ فِیھا بِثَلاثٍ:شُغْلٍ لَا یَنْفَدُ عناوٴُہُ وَ فَقْرٍ لَا یُدْرَکُ غِناہُ ، وَاَمَلٍ لَا یُنالُ مُنْتَھاہُ“۔[296]

جس شخص کے دل میں دنیا کی محبت پیدا ھوجاتی ھے وہ تین چیزوں میں مبتلا ھوجا ھے: ایسا کام جس کا رنج ختم نہ ھوتا ھو، ایسی غربت جو کبھی ختم نہ ھو، اور ایسی آرزو جو کبھی پوری نہ ھو۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

حَرامٌ عَلیٰ کُلِّ قَلْبٍ یُحِبُّ الدُّنْیا اَنْ یُفارِقَہُ الطَّمَعُ“۔[297]

جس دل میں دنیا کا عشق پیدا ھوجائے تو اس سے لالچ کبھی دور نھیں ھوسکتا“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:

مَنْ اَحَبَّ الدُّنْیا جَمَعَ لِغَیْرِہِ“۔[298]

دنیا کا عاشق دوسروں کے لئے مال و دولت جمع کرتا ھے“۔

کیونکہ دنیا کے عشق کی وجہ سے وہ خرچ بھی نھیں کرتا، اور انسان کا کام صرف مال جمع کرنا، اور اس کو دوسروں کے لئے چھوڑکر مرجانا ھے!

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

فَمَنْ اَحَبَّھا اَوْرَثَتْہُ الْکِبْرَ، وَمَنِ اسْتَحْسَنَھا اَوْرَثَتْہُ الْحِرْصَ، وَمَنْ طَلَبَھا اَوْرَدَتْہُ الطَّمَعَ ،وَمَنْ مَدَحَھا اَکَبَّتْہُ الرِّیاءُ، وَمَنْ اَرادَھا مَکَّنَتْہُ مِنَ الْعُجْبِ، وَمَنِ اطْمَاٴَنَّ اِلَیْھا رَکَّبَتْہُ الْغَفْلَةَ“۔[299]

دنیا کا عاشق ھونے والا شخص غرور و تکبر کا شکار ھوجاتا ھے، اور دنیا کو اچھا ماننے والا لالچ کا شکار ھوجاتا ھے، اور جو شخص دنیا کا طالب ھوجائے وہ طمع کا شکار ھوجاتا ھے، اور جس نے دنیا کی مدح کی وہ ریاکاری کا شکار ھوجاتا ھے، اور جو شخص دنیا سے محبت کرے تو وہ خودپسندی کا شکار ھوجاتا ھے، اور جو شخص اس سے مطمئن ھوجائے وہ غفلت کا شکار ھوجاتا ھے“۔

خیانت

لفظ ”خیانت“ ،امانت کے مقابل اور ”خائن“ امین کے مقابلہ میں ھے، لہٰذا جو شخص امانات الٰھی اور دوسرے لوگوں کی امانتوں میں ناجائز تصرف کرے نیز اگر کوئی شخص کسی کو امین سمجھتا ھو اور وہ اس کے ساتھ خیانت کرے تو ایسے شخص کو ”خائن“ کھا جاتا ھے۔

خیانت بھت ھی ناپسند کام اور شیطانی صفت ھے نیز خیانت ،بے دین اور کمزور عقائد رکھنے والوں کی خصوصیت ھے۔

قرآن کریم کی آیات میں خیانت کے بارے میں اشارہ ملتا ھے مثلاً: آنکھوں کی خیانت (نامحرم کو دیکھنا) خود اپنے ذات کے ساتھ خیانت کرنا، (اپنی انسانی شخصیت کو خراب کرنا، اور آخرت کو تباہ و برباد کرنا)، امانت میں خیانت (چاھے الٰھی امانات ھوں جیسے اعضاء و جوارح اور دل و جان کی استعداد اور قابلیت، یا دوسروں کے مال اور اسرار میں خیانت ھو) کاروباری مسائل میں خیانت وغیرہ ، نیز قرآن مجید میں اعلان ھوا ھے کہ خداوندعالم خیانت کرنے والے اور ناشکر انسان کو دوست نھیں رکھتا۔

((وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَةً فَانْبِذْ اِلَیْھِمْ عَلَیٰ سَوَاءٍ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْخَائِنِینَ))۔[300]

اورا گر کسی قوم سے کسی خیانت یا بد عہدی کا خطرہ ھے تو آپ بھی ان کے عہد کی طرف پھینک دیں کہ اللہ خیانت کاروں کو دوست نھیں رکھتا ھے“۔

خداوندعالم چونکہ خیانت سے بھت زیادہ نفرت کرتا ھے اسی وجہ سے مومنین کو خدا و رسول اور امانات میں خیانت سے سخت منع فرماتا ھے:

((یَا اٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللّٰہَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا اٴَمَانَاتِکُمْ وَاٴَنْتُمْ تَعْلَمُونَ))۔[301]

ایمان والو! خداو رسول اور اپنی امانتوں کے بارے میں خیانت نہ کرو جب کہ تم جانتے بھی ھو “۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

لَیْسَ مِنّا مَنْ خَاَن مُسْلِماً فِی اَھْلِہِ وَمالِہِ“۔[302]

جو شخص کسی مسلمان کے مال یا اس کے اھل و عیال کے ساتھ خیانت کرے تو وہ مسلمان نھیں ھے“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اِفْشاءُ سِرِّ اَخِیکَ خِیانَةٌ ،فَاجْتَنِبْ ذٰلِکَ“۔[303]

کسی مسلمان برادر کے راز کو فاش کرنا خیانت ھے، لہٰذا اس سے اجتناب کرو“۔

اسی طرح ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرماتے ھیں:

لَا تَخُنْ مَنْ خَاَنَک فَتَکُنْ مِثْلَہُ“۔[304]

جس شخص نے تمھارے ساتھ خیانت کی ھے اس کے ساتھ خیانت نہ کرو، کیونکہ اگرتم نے خیانت کی تو تم بھی اسی کی طرح ھوجاؤگے“۔

نیز آپ ھی کا فرمان ھے:

چار چیزیں جس گھر میں بھی پائی جائیں وہ تباہ و برباد ھوجاتا ھے:

خیانت، چوری، شرابخوری اور زنا“۔[305]

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ھے:

اَلْمَکْرُ وَالْخَدِیعَةُ وَالْخِیانَةُ فِی النّارِ“۔[306]

فریب کاری (کرنے والا)، دھوکہ (دینے والا)اور خیانت( کرنے والا) آتش جہنم میں ھے“۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

اَلْخِیانَةُ دَلیلٌ عَلیٰ قِلَّةِ الْوَرَعِ وَعَدَمِ الدِّیانَةِ“۔[307]

خیانت کرنا ،تقویٰ کی قلت اور دیانت نہ ھونے کی دلیل ھے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

یُجْبَلُ الْمُوٴْمِنُ عَلیٰ کُلِّّ طَبِیعَةٍ اِلّا الْخِیانَةَ وَالْکِذْبَ“۔[308]

مومن ھر فطرت پر پیدا ھوسکتا ھے سوائے خیانت اور جھوٹ کے “۔

شرابخوری

اسلامی تعلیمات کے پیش نظر شراب بنانے والا اور شراب خوری کی بنیاد ڈالنے والا ابلیس ھوتاھے۔

ھم نھیں سمجھتے کہ شراب خوری کا ضرر اور نقصان کسی پر مخفی ھو یھاںتک کہ شراب پینے والے پر بھی مخفی نھیں ھے۔

شر اب اور ھر مست کرنے والی چیز انسانی عقل و قدرت تفکر پر ایک کاری ضرب لگاتی ھے، اور آہستہ آہستہ انسان نابود ھوجاتا ھے۔

خداوندعالم کی ھر نعمت جو بدن کو خدا کی عبادت اور بندگان خدا کی خدمت کے لئے عطا کی گئی ھے اس قدرت کو شراب یا دوسری مست کرنے والی چیز کے ذریعہ نابودکرنا بھت ھی ناپسند کام اور گناہ عظیم ھے۔

شراب بنانے کے لئے انگور ،خرمہ اور دوسری چیزوں کو بیچنا حرام ھے اور ایک ناپسند امر ھے اور یہ خدا وندعالم اور انسانیت کے ساتھ مقابلہ ھے۔

شراب بنانا، ادھر ادھر لے جانا، بیچنے میں واسطہ بننا، شراب کے کارخانہ میں کام کرنا اور شراب پینا یہ تمام چیزیں حرام اور موجب غضب الٰھی ھیں اور روز قیامت دردناک عذاب کا باعث ھيں۔

(( یَااٴَیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاٴَنصَابُ وَالْاٴَزْلاَمُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ۔ إِنَّمَا یُرِیدُ الشَّیْطَانُ اٴَنْ یُوقِعَ بَیْنَکُمْ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللهِ وَعَنْ الصَّلاَةِ فَھل اٴَنْتُمْ مُنتَہُونَ))۔[309]

اے ایمان والو! شراب ،جوا،بت،پانسہ یہ سب گندے شیطانی اعمال ھیں لہٰذا ان سے پر ھیز کرو تاکہ کامیابی حاصل کر سکو۔شیطان تو بس یھی چاھتا ھے کہ شراب اور جوے کے بارے میں تمھارے درمیان بغض اور عداوت پیدا کردے اور تمھیں یادِ خدا اور نماز سے روک دے تو کیا تم واقعاً رک جاوٴگے“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ھے:

شارِبُ الْخَمْرِ لَا تُصَدِّقُوہُ اِذَا حَدَّثَ ،وَلَاتُزَوِّجُوہُ اِذَا خَطَبَ ،وَلَا تَعُودُوہُ اِذَا مَرِضَ وَلَا تُحْضِرُوہُ اِذَا مَاتَ،وَلا تَاٴْمَنُوہُ عَلیٰ اَمانَةٍ“۔[310]

شراب پینے والے کی باتوں کی تصدیق نہ کرو، اور اس سے اپنی بیٹی کی شادی نہ کرو، جب بیمار ھوجائے تو اس کی عیادت کے لئے نہ جاؤ، اور جب مرجائے تو اس کے جنازہ میں شریک نہ ھو اور اس کو دی ھوئی امانت پر مطمئن نہ ھو“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

یَخْرُجُ الْخَمّارُ مِنْ قَبْرِہِ مَکْتُوبٌ بَیْنَ عَیْنَیْہِ :آیِسٌ مِنْ رَحْمَةِ اللّٰہِ“۔[311]

جس وقت شراب پینے والا روز قیامت قبر سے باھر آئے گا تو اس کی پیشانی پر لکھا ھوگا: رحمت خدا سے مایوس“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ھے:

اَلْخَمْرُ اُمُّ الْفَواحِشِ ،وَاَکْبَرُ الْکَبائِرِ“۔[312]

شراب خوری تمام ھی گناھان کبیرہ کا سرچشمہ ھے“۔

نیز رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ھے:

لَعْنَ اللّٰہُ الْخَمْرَ وَعاصِرَ ھا وَغَاِرسَھا وَ شارِبَھا وَساقِیَھاوَ بائِعَھا وَمُشْتَرِیَھا وَآکِلَ ثَمَنِھا وَحامِلَھا وَالْمَحْمُولَةَ اِلَیْہِ“۔[313]

خداوندعالم شراب، شراب بنانے والے،شراب بننے والے درختوں کو لگانے والے، شراب پینے والے ، شراب پلانے والے، شراب خریدنے والے اور شراب بیچنے والے، اس کی تجارت سے حاصل کرنے والے، اس پیسہ کو لے جانے والے، اور (شراب )کو اٹھانے والے، سب پر خداوندعالم نے لعنت کی ھے“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک بھت اھم روایت میں فرماتے ھیں:

مَنْ کانَ یُوٴْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلاَ یَجْلِسْ عَلیٰ مائِدَةٍ یُشْرَبُ عَلَیْھا الْخَمْرُ “۔[314]

جو شخص خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ھے تو اس کے لئے سزاوار نھیں ھے کہ شراب کے دسترخوان بیٹھے“۔

مفضل کھتے ھیں: میں نے امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ خداوندعالم نے مست کرنے والی چیز کو کیوں حرام کیا ھے؟

تو امام علیہ السلام نے فرمایا: کیونکہ اس سے فتنہ و فساد اور نقصان ھوتا ھے، شراب خور کے بدن میں رعشہ پیدا ھوجاتا ھے، اس کے دل سے نور ختم ھوجاتا ھے، اس کی مروت ختم ھوجاتی ھے، گناہ کرنے پر جراٴت پیدا ھوجاتی ھے، خونریزی کرتا ھے، زناکار ھوجاتا ھے، مستی کی حالت میں اپنے محرم پر تجاوز کرتا ھے، اور اپنی عقل کو گنوادیتا ھے اور اس کی برائیوں اور شر میں اضافہ ھوتاجاتا ھے۔![315]

گالیاں اور نازیبا الفاظ

لوگوں کو نازیباالفاظ کہنا اور گالیاں دینابھت ھی زیادہ بُری بات ھے ، جو اخلاق سے دوری کی نشانی ھے، نیز دیندار ی اور انسانی وقار کے برخلاف ھے۔

قرآن مجید نے مومنین کو سبّ وشتم اور گالیوں کی اجازت دشمنان خدا تک کے لئے نھیں دی ھے، نیز روایت و احادیث میں لوگوں کو حیوانات اور دوسری اشیاء کے بارے میں ناسزا کہنے سے منع کیا گیا ھے۔

((وَلاَتَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ فَیَسُبُّوا اللهَ عَدْوًا بِغَیْرعلمٍ۔۔۔))۔[316]

اور خبر دار تم لوگ انھیں بُرا بھلا نہ کھو جن کو یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارتے ھیں کہ اس طرح یہ دشمنی میں بغیر سمجھے بوجھے خدا کو بُرا بھلا کھیںگے۔۔“۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

لَا تَسُبُّوا النّاسَ فَتَکْسِبُوا الْعَداوَةَ بَیْنَھُمْ۔[317]

لوگوں کو گالیاں نہ دو، کیونکہ اس سے دشمنی پیدا ھوتی ھے“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ھی کا فرمان ھے:

سِبابُ الْمُوٴْمِنِ فُسُوقٌ،وَقِتالُہُ کُفْرٌ،وَاَکْلُ لَحْمِہِ مِنْ مَعْصِیَةِ اللّٰہِ۔[318]

مومن کو گالی دینا فسق ھے، اور اس کا قتل کفر ھے اور اس کی غیبت کرنا خدا کی معصیت ھے“۔

ایک دوسری حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

لَا تَسُبُّوا الشَّیْطانَ،وَتَعَوَّذُوبِاللّٰہِ مِنْ شَرِّہِ“۔[319]

شیطان تک کو گالی نہ دو، صرف شیاطین کے شر سے خدا سے پناہ مانگو

نیز فرمایا:

لاَ تَسُبُّوا لرِّیاحَ ،فَاِنَّھا مَاٴْمُورَةٌ،وَلَا تَسُبُّوا الْجِبالَ وَلَا السَّاعاتِ وَلَا الْاَیّامَ وَلاَ اللَّیالِیَ فَتَاْثَمُوا وَتَرْجِعْ اِلَیْکُمْ“۔[320]

ھوا کو گالی نہ دوکیونکہ یہ خدا کی طرف سے ھے، پھاڑوں ، وقت اور روز و شب کے بارے میں ناسزا نہ کھو، چونکہ یہ کام گناہ ھے، اور گناھوں کا نقصان خود تم کو پہنچے گا“۔

اسراف (فضول خرچی(

کھانے پینے، لباس، معاشرت و محبت، دنیاوی عشق اوربخشش و انفاق میں زیادہ روی کرنا اسراف کے مصادیق میں سے ھے، اور اسراف قرآن و حدیث کی نظر میں قابل مذمت اور بُرا عمل ھے۔

اسراف اس قدر بُرا کام ھے کہ خداوندعالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ھے کہ اسراف کرنے والے کو خدا دوست نھیں رکھتا۔

(( ۔۔۔َکُلُوا وَاشْرَبُوا وَلاَتُسْرِفُوا إِنَّہُ لاَیُحِبُّ الْمُسْرِفِینَ))۔[321]

۔۔۔کھاوٴپیوٴ مگر اسراف نہ کرو کہ خدا اسراف کرنے والوں دوست نھیں رکھتا ھے“۔

اسراف کرنے والا، فضول خرچی کرنے والا اور مال و دولت کو تباہ و برباد کرنے والا؛ قرآن مجید کی نظر میں اسراف کرنے والاھے اور اسراف کرنے والے شیطان کے بھائی ھوتے ھیں:

(( إِنَّ الْمُبَذِّرِینَ کَانُوا إِخْوَانَ الشَّیَاطِینِ وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِرَبِّہِ کَفُورًا))۔[322]

اسراف کرنے والے شیاطین کے بھائی بند ھیں اور شیطان تو اپنے پروردگار کا بھت بڑا انکا ر کرنے وا لاھے“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ھے:

اِنَّ مِنَ السَّرَفِ اَنْ تَاکُلَ کُلَّ مَا اشْتَھَیْتَ “۔[323]

جس ھر چیز کو دل چاھے ان کا کھانا اسراف ھے“۔

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ھیں:

اِنَّ لِلسَّخاءِ مِقْداراً فَاِنْ زادَ عَلَیْہِ فَھُوَ سَرَفٌ“۔[324]

سخاوت کی بھی ایک حد ھے اگر انسان اس حد سے گزر جائے تو اسراف ھے“۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

وَیْحَ الْمُسْرِفِ ،مَا اَبْعَدَ ُہ عَنْ صَلَاحِ نَفْسِہِ وَاسْتِدْراکِ اَمْرِہِ“۔[325]

افسوس ھے اسراف کرنے والے پر، کہ وہ اپنے نفس کی اصلاح کرنے اور اپنی زندگی کو درک کرنے سے کس قدر دور ھے “۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

لِلْمُسْرِفِ ثَلاَثُ عَلاماتٍ:یَشْتَری مَا لَیْسَ لَہُ،وَیَلْبِسُ مَا لَیْسَ لَہُ،وَیَاٴْکُلُ مَا لَیْسَ لَہُ،“[326]

اسراف کرنے والے کی تین نشانیاں ھیں: ایسی چیزیں خریدتا ھے، پہنتا ھے اور کھاتا ھے جو اس کی شان کے مطابق نھیں ھے“۔

نیز امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ھے:

اِنَّ الْقَصْدَ اَمْرٌ یُحِبُّہُ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ،وَاِنَّ السَّرَفَ یُبْغِضُہُ اللّٰہُ،حَتّی طَرْحَکَ النَّواةَ، فَاِنَّھا تَصْلُحُ لِشَیْءٍ وَحَتّی صَبَّکَ فَضْلَ شَرابِکَ“۔[327]

بے شک میانہ روی ایک ایسی حقیقت ھے جس کو خداوندعالم دوست رکھتا ھے اور اسراف کرنے والے کو دشمن رکھتا ھے ، خرمہ کی بوئی جانے والی گٹھلی کو دور پھینک دےنا اور اپنی ضرورت سے زیادہ پانی بھانا، اسراف اور فضول خرچی ھے“۔

حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ھے:

مَنْ کانَ لَہُ مالٌ فَاِیّاہُ وَالْفَسادَ،فَاِنَّ اِعْطائِکَ الْمالَ فِی غَیْرِ وَجْھِہِ تَبْذِیرٌ وَاِسْرافٌ وَھُوَ یَرْفَعُ ذِکْرَ صاحِبِہِ فِی النّاسِ،وَیَضَعُہُ عِنْدَ اللّٰہِ“۔[328]

جو شخص صاحب مال ودولت ھو اس کو فساد سے پرھیز کرنا چاہئے، بے شک اسراف و تبذیر یہ ھے کہ اپنے مال ودولت کو بلا وجہ صرف کرے، اس طرح خرچ کرنا صاحب مال کے نام کو مٹادیتا ھے، اور ایسا کرنے والا انسان خدا کے نزدیک ذلیل و رسوا ھوجاتا ھے“۔

ملاوٹ اور دھوکہ بازی کرنا

کسی بھی کام میں دھوکہ بازی کرنا اور بیچنے والی چیزوں میںملاوٹ کرنا مثلاً عیب دار چیز کو بے عیب بناکر بیچنا وغیرہ ، یا اسی طرح کے دوسرے کام غشّ اور دھوکہ بازی کے مصادیق ھیں۔

ملاوٹ اور دھوکہ بازی کے سلسلہ میں اقتصادی مسائل سے متعلق آیات میں قرآن مجید نے بیان فرمایا ھے، اسی طرح احادیث میں بھی اس بُرے کام کے سلسلہ میں تفصیل کے ساتھ بیان ملتا ھے۔

بے شک قرآن مجید اور حدیث کی روشنی میں ملاوٹ ایک حرام کام اور لوگوں کے ساتھ خیانت ھے۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت ھے:

اَلْمُسْلِمُ اَخُو الْمُسْلِمِ وَلاَ یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ اِذا باعَ مِنْ اَخِیہِ بَیْعاً فِیہِ عَیْبٌ اَنْ لاَ یُبَیِّنَہُ“۔[329]

مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ھیں، ایک مسلمان کے لئے جائز نھیں ھے کہ اپنے عیب دار مال کو فروخت کرتے وقت اس کے عیب کو نہ بیان کرے اور دوسرے مسلمان کو بیچ دے“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

مَنْ غَشَّ الْمُسْلِمِینَ حُشِرَ مَعَ الْیَھُودِ یَوْمَ الْقِیامَةِ ،لِاَ نَّھُمْ اَغَشُّ النّاسِ لِلْمُسْلِمینَ“۔[330]

جو شخص مسلمانوں کے ساتھ ملاوٹ اور دھوکہ سے کام لے تو خداوندعالم اس کو روز قیامت یھودی محشور کرے گا کیونکہ دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ سب سے زیادہ خیانت یھودی ھی کرتے ھیں“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ھے:

مَنْ باعَ عَیْباً لَمْ یُبَیِّنْہُ لَمْ یَزَلْ فِی مَقْتِ اللّٰہِ ،وَلَمْ تَزَلِ الْمَلَائِکَةُ تَلْعَنُہُ“۔[331]

جو شخص کسی عیب دار چیز کو فروخت کرے لیکن اس کے عیب کو نہ بیان کرے تو ھمیشہ اس پر غضب پروردگار ھوتا رھتا ھے، اور فرشتے ھمیشہ لعنت کرتے رھتے ھیں“۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

مَنْ غَشَّ النّاسَ فِی دِینِھِمْ فَھُوَ مُعانِدٌ لِلّٰہِ وَ رَسُولِہِ“۔[332]

جو شخص اپنے مومن بھائی کے ساتھ ملاوٹ اور دھوکہ بازی سے کام لے تو ایسا شخص خدا و رسول کا دشمن ھے“۔

نیز حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ھے:

اِنَّ اَعْظَمَ الْخِیَانَةِ خِیَانَةُ الْاُمَّةِ،وَافْظَعَ الْغِشَّ غِشُّ الْاَئِمَّةِ“۔[333]

بے شک سب سے بڑی خیانت ؛ امت (مسلمہ) کے ساتھ خیانت کرنا ھے اور سب سے بڑی دھوکہ بازی (دینی) رھبروں کے ساتھ دھوکہ بازی ھے“۔

ربا (سود(

لوگوں سے سود لینے کی غرض سے قرض دینا، یا کوئی پست چیز دے کر اچھی چیز لینے کی غرض سے معاملہ کرنا جیسے دس کیلو گھٹیا گیھوں، چاول یا خرمادے کر ۸ گلو بھترین گیھوں،چاول یا خرما لینا ،یہ بھی ربا، سود کے مصداق اور گناھان کبیرہ میں سے ھے ، جس کے سلسلہ میں خدا وندعالم نے قطعی عذاب کا وعدہ دیا ھے:

(( یَااٴَیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَذَرُوا مَا بَقِیَ مِنْ الرِّبَا إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ۔فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَاٴْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنْ اللهِ وَرَسُولِہِ۔۔۔))۔[334]

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرواور جو سود باقی رہ گیا ھے اسے چھوڑ دو اگر تم صاحبان ایمان ھو۔اگر تم نے ایسا نہ کیا تو خداو رسول سے جنگ کرنے کے لئے تیار ھو جاوٴ۔۔“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

شَرُّالْمَکاسِبِ کَسْبُ الرِّبَا“۔[335]

سب سے بُرا کسب معاش ، سود کے ذریعہ کسب معاش ھے“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ھے:

مَنْ اَکَلَ الرِّبا مَلَاٴَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بَطْنَہُ مِنْ نارِ جَھَنَّمَ بِقَدْرِ مَا اَکَلَ،وَاِنِ اکْتَسَبَ مِنْہُ مَالاً لَایَقْبَلِ اللّٰہُ مِنْہُ شَیْئاً مِنْ عَمَلِہِ،وَلَمْ یَزَلْ فِی لَعْنَةِ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَةِ ماکانَ عِنْدَہُ قِیراطٌ“۔[336]

جو شخص جس قدر سود خوری کرتا ھے خداوندعالم اسی مقدار میں اس کے پیٹ کو آتش جہنم میں بھر دیتا ھے ، اگر انسان رباخوری کے ذریعہ دولت کمائے تو خداوندعالم روز قیامت اس کا کوئی عمل قبول نھیں کرے گا، اور سود کا ایک پیسہ بھی اس کے پاس ھوتو خداوندعالم اور فرشتہ ھمیشہ اس پرلعنت کرتے رھتے ھیں“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

دِرْھَمُ رِبَا اَعْظَمُ عِنْدَاللّٰہِ مِنْ سَبْعِینَ زِنْیةً بِذاتِ مَحْرَمٍ فِی بَیْتِ اللّٰہِ الْحَرامِ“۔[337]

سود کا ایک پیسہ خدا کے نزدیک اس سے کھیں زیادہ بُرا ھے کہ خانہ خدا میں اپنے محرم (ماں بہن)سے ۷۰/بار زنا کیاھو“۔

نیز امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَعَنَ آکِلَ الرِّبا وَمُوٴْکِلَہُ وَکاتِبَہُ وَشاھِدَیْہِ“۔[338]

خداوندعالم ، سود لینے والے، سود دینے والے، سود کے معاملہ کو لکھنے والے اور اس معاملہ پر گواہ ھونے والے پر لعنت کرتا ھے“۔

تباھی و ھلاکت کے اسباب

قرآن مجید نے بھت سی آیات میں گزشتہ امتوں کی ھلاکت و تباھی اور ان کے مختلف عذاب کے اسباب و علل بیان کئے ھیں۔

اگر انسان قرآن مجید کی ان آیات پر غور و فکر کرے جو گزشتہ امتوں کے عذاب کی وجوھات بیان کرتی ھیں تو انسان میں نفسانی کمال پیدا ھوجائیں اور ھلاکت و تباھی سے دور ھوجائے۔

قرآن مجید نے درج ذیل عناوین کو گزشتہ امتوں کی ھلاکت اور ان کے عذاب کے اسباب بتایا ھے:

اپنے نفس پر ظلم، دوسروں پر ظلم، اسراف، حق کا انکار و کفر، فسق، طغیان، غفلت اور جرم۔[339]

حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

اَمَّاالْمُھْلِکاتُ:فَشُحٌّ مُطاعٌ،وَھَویً مُتَّبِعٌ ،وَاِعْجابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِہِ“۔[340]

ھلاک کرنے والی چیزیں یہ ھے: ھمیشہ بخل کرنا، ھوائے نفس کی پیروی کرنا، اور انسان کی خود غرضی “۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اِنَّ الدّینارَ وَالدِّرْھَمَ اَھْلَکا مَنْ کانَ قَبْلَکُم وَھُما مُھْلکاکُمْ“۔[341]

بے شک درھم و دینار نے گزشتہ قوموں کو ھلاک کردیااور یھی چیز تم لوگوں کو بھی ھلاک کرنے والی ھے“۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

مَنِ اسْتَبَدَّ بِرَاٴْیِہِ ھَلَکَ“۔[342]

جو شخص اپنی رائے میں استبداد کرے اور قوانین الٰھی اور عاقل لوگوں سے مشورہ نہ کرے تو ھلاک ھوجائے گا“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

ھَلَکَ مَنْ لَمْ یَعْرِفْ قَدْرَہُ“۔[343]

جو شخص اپنی قدر و منزلت نہ پہچانے اور اپنی موقعیت اور حالت سے آشنا نہ ھو وہ ھلاک ھوجاتا ھے“۔

نیز امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

یُھْلِکُ اللّٰہُ سِتّاً بِسِتٍّ :الْاُمَراءَ بِالْجَوْرِ ،وَالْعَرَبَ بِالْعَصَبِیَّةِ، وَالدَّھاقِینَ بِالْکِبْرِ ،وَالتُّجارَ بِالْخِیانَةِ ،وَاَھْلَ الرُّسْتاقِ بِالْجَھْلِ ، وَالْفُقَھاءَ بِالْحَسَدِ“۔[344]

خداوندعالم نے چھ گرھوں کو چھ چیزوں کے ذریعہ ھلاک کیا: حکام کو ظلم و ستم کی وجہ سے، عرب کو تعصب کی وجہ سے، روٴسا کو تکبر کی وجہ سے، تاجروں کو خیانت کی وجہ سے، دیھاتیوں کو جھالت کی وجہ سے اور (علماء و)فقھاء کو حسد کی وجہ سے

تکبر

تکبر ، شیطانی صفت، خدا کے مدمقابل قرار دینے والی وجہ اور لوگوں کو ذلیل و خوار سمجھنے والی شئے ھے۔

تکبر چاھے خدا، قرآن انبیاء اور ائمہ علیھم السلام کی نسبت ھو یا دوسرے لوگوں کی نسبت ھو (جو شاید اس سے بھتر ھوں) تو تکبر کرنے والا شیطانی گروہ اور ابلیس کا ساتھی ، خدا کی طرف سے ملعون اور اس کی رحمت سے محروم ھے۔

جیسا کہ قرآن مجید کے فرمان کے مطابق[345] ابلیس اپنے تکبر اور غرور کی وجہ سے خدا کی بارگاہ سے نکال دیا گیا اور لعنت کاطوق ھمیشہ ھمیشہ کے لئے اس کی گردن میں ڈال دیا گیا، اسی طرح تکبر کرنے والا شخص اپنے تکبر و غرور کی وجہ سے انسانیت اور مقام آدمیت کو کھوبیٹھتا ھے۔

قرآن مجید نے تکبر کرنے والوں اور تکبر کی عادت رکھنے والوں کو روز قیامت کے د ردناک عذاب کا مستحق قرار دیا ھے:

(( ۔۔۔ وَاٴَمَّا الَّذِینَ اسْتَنکَفُوا وَاسْتَکْبَرُوا فَیُعَذِّبُھم عَذَابًا اٴَلِیمًا وَلاَیَجِدُونَ لَھم مِنْ دُونِ اللهِ وَلِیًّا وَلاَنَصِیرًا))۔[346]

۔۔۔اور جن لوگوں نے انکار کیا اور تکبر سے کام لیا ھے ان پر دردناک عذاب کرے گا اور انھیں خدا کے علاوہ نہ کوئی سرپرست ملے گا اور نہ مدد گار“۔

قرآن مجید نے تکبر کرنے والوں کو خدا کی محبت سے خارج قرار دیتے ھوئے خدا کی لعنت کا مستحق قرار دیا ھے:

(( ۔۔۔ إِنَّہُ لاَیُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِینَ))۔[347]

۔۔۔وہ مستکبرین کو ھرگز پسند نھیں کرتا ھے“۔

روز قیامت تکبر کرنے والوں کو سختی کے ساتھ حکم دیا جائے کہ جہنم کے دروازوں سے داخل ھوجاؤ۔

(( ادْخُلُوا اٴَبْوَابَ جَہَنَّمَ خَالِدِینَ فِیھا فَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِینَ))۔[348]

اب جہنم کے دروازوں سے داخل ھوجاوٴ اور اسی میں ھمیشہ رھو کہ اکڑنے والوں کا ٹھکانہ بھت بُرا ھے“۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ھے:

اِجْتَنِبُوا الْکِبْرَ ،فَاِنَّ الْعَبْدَ لَا یَزالُ یَتَکَبَّرُ حَتّی یَقُولَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ:اکْتُبُوا عَبْدِی ھٰذا فِی الْجَبَّارِینَ“۔[349]

تکبر سے اجتناب کرو، بے شک جب انسان ھمیشہ تکبر سے کام لیتا ھے تو خداوندعالم فرماتا ھے : میرے اس بندے کانام جباروں میں لکھ دیا جائے“۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

اِیّاکَ وَالْکِبْرَ،فَاِنَّہُ اَعْظَمُ الذُّنُوبِ،وَاَلْاٴَمُ الْعُیوبِ ،وَھُوَحِلْیةُ اِبْلِیسَ“۔[350]

تکبر سے پرھیز کرو، کیونکہ یہ سب سے بڑا گناہ ھے اور بھت بُرا عیب ھے، تکبر ابلیس کی زینت ھے۔

نیز امام علی علیہ السلام نے فرمایا:

عَجِبْتُ لِابْنِ آدَمَ ،اَوَّلُہُ نُطْفَةٌ ،وَآخِرُہُ جِیْفَةٌ،وَھُوَ قائِمٌ بَیْنَھُما وِعاءً لِلْغائِطِ ثُمَّ یَتَکَبَّرُ“۔[351]

واقعاً انسان پر تعجب ھوتا ھے جس کی ابتداء نطفہ اور جس کا انجام ایک بدبودار مردار ھو یعنی جس کی ابتداء اور انتھا نجاست ھو، لیکن پھر بھی تکبر کرتا ھے“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ اعلان عام تھا:

اِیّاکّم وَالْکِبْرَ ،فَاِنَّ اِبْلِیسَ حَمَلَہُ الْکِبْرُ عَلَی تَرْکِ السُّجُود لِآدَمَ“۔[352]

تکبر سے دوری اختیار کرو، کیونکہ اسی تکبر کی وجہ سے شیطان نے حکم خدا کی مخالفت کی اور جناب آدم (علیہ السلام) کو سجدہ نہ کیا“۔

قارئین کرام! گزشتہ صفحات میں بیان ھونے والے عناوین سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ تمام بُرائیاں یھی نھیں ھیں بلکہ یہ تو بُرائیوں کے چند نمونہ تھے جن کی وجہ سے انسان دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا ھوجاتا ھے۔

بعض دوسری معنوی بُرائیوں کا مرتکب انسان سب سے بُرے حیوانوں سے بھی بُرا ھوجاتا ھے، اور روز قیامت انسان کا باطن انسان کی شکل میں ظاھر ھوگا، وہ برائیاں کچھ یوں ھیں: اپنے کوکفار و مشرکین کی شبیہ بنانا، جھالت و نادانی میں باقی رہنا، نسل و اقتصاد میں فساد کرنا، بدعت گزاری، غرور، سستی اور کاھلی، چوری، قتل، حرام چیزوں میں دوسروں کی پیروی کرنا، دوسروں کی نسبت بدگمانی کرنا، خدا سے بدگمانی کرنا، وسوسہ، پستی و ذلت میں زندگی بسر کرنا، فتنہ و فساد پھیلانا، چغل خوری، شرک، بے جا تمنا کرنا، جلد بازی کرنا، قساوت قلب، لجاجت اور ہٹ دھرمی، جنگ و جدال کرنا، ناچ گانا، اختلاف کرنا، (غیر دینی)گروہ بنانا، غیظ و غضب اور جدائی، بے جا تعصب، لالچ، لوگوں کے عیوب ڈھونڈنا، حرص، زنا، حسد، ماں باپ، اھل و عیال اور دوسرے لوگوں کے حقوق ضائع کرنا۔

اگر ھم ان تمام عناوین کی قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کرنا چاھیں تو چند جلد کتاب بن جائیں، ان چیزوں کی تفصیل کے سلسلہ قرآنی تفاسیر اور احادیث و اخلاق کی مفصل کتابوں کی طرف رجوع فرمائیں۔

ھم اس فصل کو پوری کتاب میں بیان ھونے والے مطالب کا خلاصہ بیان کرتے ھوئے ختم کرتے ھیں:

اس کتاب کے ایک حصہ میں خداوندعالم کی مادی اور معنوی نعمتوں کا ذکر کیا گیا ھے جن سے انسان عبادت و بندگی کی طاقت حاصل کرنے کے لئے فیضیاب ھوتا ھے، نیز اس بات پر بھی توجہ دلائی گئی ھے کہ خداوندعالم کی مادی اور معنوی نعمتوں کو بے جا اور نامناسب طریقہ پر خرچ کرنا گناہ و معصیت ھے۔

اس کتاب میں اس بات پر بھی توجہ دلائی گئی ھے کہ توبہ و انابہ اور خدا کی طرف بازگشت یہ ھے کہ خدا کی نعمتوں کو اس کی معین کردہ راہ میں خرچ کرے ، دوسرے الفاظ میں یہ بیان کیا گیا ھے کہ توبہ یعنی اپنے گزشتہ پر نادم و پشیمان ھونا اور اپنے گزشتہ کی تلافی اور جبران کرنا ھے، اور آئندہ میں اپنے اصلاح کے لئے کوشش کرنا۔

ایک حصہ میں یہ بھی بیان کیا گیا ھے کہ انسان کتنا ھی گناھوں میں آلودہ ھو ایک بیمار کی طرح ھے اور خدا وندعالم کی طرف سے اس بیماری کے علاج اور شفاء کے لئے تمام دروازے کھلے ھیں، لہٰذا انسان کو ھرگز ناامید نھیں ھونا چاہئے بلکہ اس بات پر یقین رکھنا چاہئے کہ خداوندعالم توبہ قبول کرنے والا ھے، اور خداوندعالم کی بے نھایت رحمت و قدرت اور اس کا لطف و کرم آسانی کے ساتھ توبہ کرنے والے گناھگار کے شامل حال ھوجاتا ھے، خداوندعالم انسان کے تمام گناھوں کو بخش دیتا ھے،اور اس پراپنی رحمت نازل کرتاھے، توبہ کرنے والے کو چاہئے کہ لوگوں کے مالی حقوق کو ادا کرے اور قرآنی روسے واجب مالی حقوق کو ادا کرے، قضا شدہ واجبات کی ادائیگی کرے، اور گناھوں کو ترک کرنے کا قطعی فیصلہ کرے، اور اس قطعی فیصلہ پر پابندرھے۔

اس کتاب کے اھم حصہ میں توبہ سے متعلق آیات و احادیث کو بیان کیا گیا اور توبہ کرنے والوں کے واقعات بیان کئے گئے خصوصاً ایسے واقعات جن کو کم لکھا گیا اور سنا گیا ھے، اور آخر میں قرآن و حدیث کی روشنی میں اصلاح نفس کے چالیس عنوان بیان کئے گئے ھیں۔

حقیر کا نظریہ ھے کہ اگر گناھوں کا مرتکب انسان اس کتاب کا غورسے مطالعہ کرلے یا مجالس یا نماز جمعہ کے خطبوں میں اس کتاب کے مطالب کو بیان کرےں اور بعض گناھوں میں ملوث حضرات جو خود توبہ کی طرف مائل ھیں؛ ان سبھی کے لئے یہ کتاب مفید ثابت ھوگی۔دینی مبلغ کو لوگوں کی ہدایت سے مایوس اور ناامید نھیں ھونا چاہئے ، مبلغین عزیز،انبیاء علیھم السلام کی طرح گمراھوں کی نسبت ایک باپ جیسا سلوک کریں، اور گناھگاروں کے ساتھ اپنی اولاد جیسا برتاؤ کرے ان کو پیار و محبت کے ساتھ سمجھائے، بھت ھی پیار و محبت اور لطیف انداز میں حلال و حرام کی تعلیم دیں اور انسانی و اخلاقی حقائق کی وضاحت کریں اور اسی طرح صبر و حوصلہ کے ساتھ کام کرتے رھیں۔

امام عارفین، مولائے عاشقین اور امیر المومنین علیہ السلام نے تمام مبلغین اور معاشرہ کی اصلاح کرنے والے دلسوز علماء کو ایک پیغام دیا ھے کہ بیمار گناہ کے علاج سے ناامید نہ ھوں۔

گناھگاروںکے ساتھ پیار و محبت اور لطف و کرم کا رویہ اختیار کریں ان کو دینی حقائق بتائیں اور ان کو نرم لہجہ میں توبہ کے لئے تیار کریںاور اس سلسلہ میں پیش آنے والی زحمتوں کو برداشت کریں، جو واقعاً دنیا و آخرت میں رحمت الٰھی شامل حال ھونے کا طریقہ ھے۔

ایک شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا:

اُحِبُّ اَنْ یَرْحَمَنِی رَبّی،قالَ:ارْحَمْ نَفْسَکَ،وَارْحَمْ خَلْقَ اللّٰہِ یَرْحَمْکَ اللّٰہُ“۔[353]

میں چاھتا ھوں کہ خدامجھ پر رحم و کرم کرے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: تو خودا پنے اوپر اور دوسروں پر رحم کر تو خداوندعالم تجھ پر اپنی رحمت نازل فرمائے گا“۔

بعض وجوھات کی بنا پر انسان گناھوں میں گرفتار ھوجاتا ھے انھیں اپنے سے دور نھیں کرنا چاہئے اور اس کے ساتھ سخت رویہ اختیار نھیں کرنا چاہئے بلکہ اس کو ایک بیمار کی نگاہ سے د یکھنا چاہئے، بیمار کو فطری طور پر مدد کی ضرورت ھوتی ھے اور اپنی نجات کے لئے امداد چاھتا ھے، واقعاً بیمار قابل ترحم ھوتا ھے، اس کو بلائیں اگر وہ نہ آئے تو ھم خود جائیں، اور اس سے نرم لہجہ میں گفتگو کریں، دنیا و آخرت میں گناھوں کے خطرناک آثار کو بیان کریں، اس کو خدا کے لطف و کرم اور نعمتوں کی یاد دلائیںاور اس بات کی امیدرکھنا چاہئے کہ خداوندعالم تمھارے ذریعہ سے اس کو توبہ اور بازگشت کی توفیق عنایت فرمائے گا، کہ اگر کوئی شخص ھمارے ذریعہ سے ہدایت پاگیا اور اپنے گناھوں سے توبہ کرلی تو واقعاً یہ کام ھمارے ھر عمل سے زیادہ ثواب رکھتا ھے۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے تبلیغ دین کے لئے یمن بھیجاتو مجھ سے فرمایا: کسی سے بھی جنگ نہ کرنامگر یہ کہ پھلے اس کو اسلام کی دعوت دینا ، اور اس کے بعد فرمایا:

وَایْمُ اللّٰہِ لَاَنْ یَھْدِیَ اللّٰہُ عَلیٰ یَدَیْکَ رَجُلاً خَیْرٌلَکَ مِمّا طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ وَغَرَبَتْ“۔[354]

ذات خدا کی قسم! اگر کوئی شخص تمھارے ذریعہ ہدایت حاصل کرلے تو یہ تمھارے لئے ھر اس چیزسے بھترھے جس پرسورج چمکتاھے“۔

آخر میں خداوندعالم کی بارگاہ میں دعا کرتے ھیں:

پالنے والے! ھمارے پاس آنسوٴوں کے علاوہ کوئی سرمایہ نھیں، سوائے دعا کے کوئی اسلحہ نھیں، اور تیرے علاوہ کسی سے امید نھیں ھے؛ خدایا! ھمیں حقیقی توبہ کی توفیق عنایت فرما!،اور ھمیں تقویٰ و پرھیزگاری اور عبادت و بندگی سے مزین فرمادے، اور ھماری باقی ماندہ عمر کو ظاھری و باطنی گناھوں سے محفوظ فرما، اور ھماری زندگی و موت کو محمد و آل محمد (علیھم السلام) کی زندگی و موت کی طرح قرار دے۔(آمین یا رب العالمین بحق محمد آل محمد)

شیخ حسین انصاریان

سوم اردی بہشت ۱۳۷۷ھ شمسی

مطابق ۱۹۹۹

والحمد لله رب العالمین

ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم

مترجم : اقبال حیدر حیدری

۱۸ذی الحجہ (عید غدیر ) ۱۴۲۵ھ

فھرست منابع و ماخذ

۱۔ قرآن کریم

۲۔ نہج البلاغہ

۳۔ اختصاص، شیخ مفید، کنگرہ شیخ مفید ”قم ۱۴۱۳ ھ ق“۔

۴۔ ارشاد القلوب، شیخ مفید، کنگرہ شیخ مفید ”قم ۱۴۱۳ ھ ق“۔

۵۔ اسرار معراج، شیخ علی قرنی گلپائیگانی۔

۶۔ اعلام الدین، حسن بن علی دیلمی۔

۷۔ اعلام الوری، فضل بن حسن طبرسی۔

۸۔الترغیب، زکی الدین عبد العظیم بن عبد القوی منذری۔

۹۔ الدر المنثور، سیوطی۔

۱۰۔ الزہد، احمد بن زیاد۔

۱۱۔ امالی، شیخ صدوق، کتابخانہ اسلامیہ ”۱۳۶۲ ھ ش“۔

۱۲۔ امالی، شیخ طوسی، دار الثقافہ ”قم ۱۴۱۴ ھ ق“۔

۱۳۔ امالی، شیخ مفید کنگرہ شیخ مفید ”قم ۱۴۱۳ ھ ق“۔

۱۴۔ بازگشت بہ خدا، علی اکبر ناصری۔

۱۵۔ بحار الانوار، علامہ مجلسی، الوفاء ”بیروت ۱۴۰۴ ھ ق“۔

۱۶۔بصائر الدرجات، محمد بن حسن بن فروخ صفار، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی۲ ”قم ۱۴۱۰ ھ ق“۔

۱۷۔ پیشوای شھیدان، سید رضا صدر۔

۱۸۔ تحف العقول، حسن بن شعبہ بحرانی، جامعہ مدرسین ”قم ۱۴۰۴ ھ ق“۔

۱۹۔ تذکرة الاولیاء، عطار نیشاپوری۔

۲۰۔ تفسیر امام حسن عسکری علیہ السلام ۔

۲۱۔ تفسیر برھان، سید ھاشم بحرانی،

۲۲۔ تفسیر صافی، فیض کاشانی، الاعلمی ”بیروت۔

۲۳۔ تفسیر عیاشی، عیاشی، مکتب العلمیہ الاسلامیہ۔

۲۴۔ توحید مفضل، امام صادق علیہ السلام ۔

۲۵۔ تفسیر فرات، فرات کوفی۔

۲۶۔ تفسیر قمی، علی بن ابراھیم قمی، الاعلمی ”بیروت“۔

۲۷۔ تفسیر کشف الاسرار، میبدی۔

۲۸۔ تفسیر معین، نور الدین محمد کاشانی۔

۲۹۔ تفسیر نمونہ، مکارم شیرازی، دار الکتب الاسلامیہ۔

۳۰۔ ثواب الاعمال، شیخ صدوق، رضی ”قم ۱۳۶۴‘ھ ش‘۔

۳۱۔ جامع الاخبار، تاج الدین شعیری، انتشارات رضی ”قم ۱۳۶۳ ھ ش“۔

۳۲۔ جامع النورین، ملا اسماعیل سبزواری۔

۳۳۔ جاھلیت قرن بیستم، صدر الدین بلاغی۔

۳۴۔ جعفریات، عبداللہ حمیری۔

۳۵۔ حسن یوسف، سید رضا صدر۔

۳۶۔ خرائج، قطب الدین راوندی۔

۳۷۔ خصال، شیخ صدوق، جامعہٴ مدرسین ”قم ۱۴۰۳ ھ ق“۔

۳۸۔ دعوات، قطب الدین راوندی، مدرسہ امام مہدی (عج) ”قم ۱۴۰۷ ھ “۔

۳۹۔ دیوان شمس، مولوی۔

۴۰۔ راز آفرینش انسان، کرسی موریسن۔

۴۱۔ راہ خدا شناسی، فھیمی۔

۴۲۔ رجال، علامہ بحر العلوم۔

۴۳۔ روح البیان، الشیخ اسماعیل حقی البروسوی۔

۴۴۔ روضات الجنات، سید احمد خوانساری۔

۴۵۔ روضة الواعظین، محمد بن حسن فتال نیشاپوری، رضی ”قم“۔

۴۶۔ سفینة البحار، حاج شیخ عباس قمی۔

۴۷۔ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید ۔

۴۸۔ شرح نہج البلاغہ جعفری، علامہ جعفری۔

۴۹۔طب النبی، میرزا ابو طالب نائینی۔

۵۰۔عدة الداعی، ابن فہد حلی، دارالکتب الاسلامیہ، ”۱۴۰۷ ھ ق“۔

۵۱۔ علل الشرائع، شیخ صدوق، سیدالشہداء ”قم ۱۳۶۶“۔

۵۲۔ علم و زندگی، ترجمہ احمد بیدشک۔

۵۳۔ عنصر شجاعت، حاج میرازا خلیل کمرہ ای۔

۵۴۔ عوالی اللآلی، ابن ابی جمھور احسائی، سید الشہداء ”قم ۱۴۰۵ ھ ق“۔

۵۵۔ عیون اخبار الرضا، شیخ صدوق، جھان ”۱۳۷۸“۔

۵۶۔ غرر الحکم، عبد الواحد بن محمد تمیمی آمدی، دفتر تبلیغات ”قم ۱۳۶۶“۔

۵۷۔ کافی، شیخ کلینی علیہ الرحمہ، دار الکتب الاسلامیہ ”۱۳۶۵ ھ ش“۔

۵۸۔ کشف الغمہ، علی بن عیسیٰ اربلی، مکتبہ بنی ھاشمی ”تبریز ۱۳۸۱ “۔

۵۹۔ کنز العمال، علی المتقی الھندی، التراث الاسلامی ”بیروت ۱۳۸۹ ھ ق“۔

۶۰۔ کنز الفوائد، ابوالفتح کراجکی، دار الزخائر ”قم ۱۴۱۰ ھ ق“۔

۶۱۔ گنجینہ ھای زندگی۔

۶۲۔مجمع البیان، طبرسی، دار الاحیاء التراث العربی ”بیروت“۔

۶۳۔ مجموعہ ورام، ورام بن ابی فراس، مکتبة الفقیہ ”قم“۔

۶۴۔ محاسن، احمد بن محمد بن خالد برقی، دار الکتب الاسلامی ”قم ۱۳۷۱“۔

۶۵۔ محجة البیضاء، فیض کاشانی، دفتر انتشارات اسلامی۔

۶۶۔ مستدرک الوسائل، محدث نوری، آل البیت ”قم ۱۴۰۸ ھ ق“۔

۶۷۔ مشکاة الانوار، ابوالفضل علی طبرسی، حیدریہ، ”نجف ۱۳۸۵ ھ ق“۔

۶۸۔ مصباح الشریعہ، امام صادق علیہ السلام، الاعلمی للمطبوعات ”۱۴۰۰ھق“۔

۶۹۔معانی الاخبار، شیخ صدوق، جامعہ مدرسین قم۔

۷۰۔ مفاتیح الجنان، حاج شیخ عباس قمی۔

۷۱۔ مفردات، راغب اصفھانی، انتشارات ذوی القربیٰ ”قم ۱۴۲۳ ھ ق“۔

۷۲۔ مکارم الاخلاق، رضی الدین حسن بن فضل طبرسی، شریف رضی ”قم“۔

۷۳۔ من لا یحضر الفقیہ، شیخ صدوق، جامعہ مدرسین ”قم ۱۴۱۳ ھ ق“۔

۷۴۔منہج الصادقین، ملا فتح اللہ کاشانی۔

۷۵۔ منیة المرید، شھید ثانی۔

۷۶۔ مواعظ العددیة، مشکینی۔

۷۷۔ میزان الحکمہ ”مترجم“ محمدی ری شھری، دارالحدیث ”دوم ۱۳۷۹ “۔

۷۸۔ نوادر، سید فضل اللہ راوندی، دار الکتاب ”قم“۔

۷۹۔ نور الثقلین۔ شیخ عبد علی بن جمعہ العروسی الحیوزی۔

۸۰۔ وسائل الشیعہ، شیخ حر عاملی، آل البیت ”قم ۱۴۰۹ “۔

تمت بالخیر

حواله جات

[233] سورہٴ آل عمران آیت ۶۱۔

[234] سورہٴ منافقون آیت ۱۔

[235] مجموعہ ورام ج۱،ص۱۱۴،باب الکذب ؛الترغیب ج۳،ص۵۹۶۔

[236] تحف العقول ص۲۲۴؛مشکاة الانوار ص۱۸۰،الفصل الرابع والعشرون فی محاسن الافعال ؛بحار الانوار ج۷۵، ص۶۴، باب ۱۶، حدیث ۱۵۷۔

[237] مستدرک الوسائل ج۹،ص۸۵،باب ۱۲۰،حدیث ۱۰۲۸۳؛محجة البیضاء ج۵،ص ۲۴۳،کتاب آفات اللسان۔

[238] شرح نہج البلاغہ ج۶،ص۳۵۷،فصل فی ذم الکذب۔

[239] کافی ج۲،ص۳۳۸،باب الکذب ،حدیث ۳؛بحار الانوار ج۶۹،ص۲۳۶،باب ۱۱۴،حدیث ۳۔

[240] مجموعہ ورام ج۱،ص۱۱۳،باب الکذب۔

[241] سورہٴ نساء آیت ۱۱۲۔

[242] عیون اخبار الرضا ج۲،ص۳۳،باب ۳۱،حدیث۶۳؛بحار الانوارج۷۲،ص۱۹۴،باب ۶۲،حدیث۵۔

[243] معانی الاخبار ص۱۶۳،باب معنی طینة خبال ،حدیث۱؛بحار الانوار ج۷۲،ص۱۹۴،باب ۶۲،حدیث ۶۔

[244] خصال ج۲،ص۳۴۸،حدیث ۲۱؛بحار الانوار ج۷۵،ص۴۴۷،باب ۳۳،حدیث ۷۔

غیبت ایک بھت بڑا گناہ ھے ، جس کے ارتکاب سے انسان کی روح مکدّراور دل تاریک ھوجاتا ھے اور انسان کے رحمت الٰھی سے محروم ھونے کا باعث بنتا ھے۔

[245] سورہٴ حجرات آیت ۱۲۔

[246] امالی شیخ طوسی ص۵۳۷،مجلس یوم الجمعة،حدیث ۱۱۶۲؛بحار الانوار ج۷۴،ص۹۱،باب۴،حدیث ۳۔

[247] غررالحکم ص۲۲۱،سامع الغیبة ،حدیث ۴۴۴۳؛تفسیر معین ص۱۰۲۔

[248] من لا یحضرہ الفقیہ ج۴،ص۳۷۲،باب النوادر ،حدیث ۵۷۶۲؛وسائل الشیعہ ج۱۲،ص۲۹۱،باب ۱۵۶،حدیث ۳۲ ۳ ۶ ۱ ۔

[249] سورہٴ حجرات آیت ۱۱۔

[250] کنزل العمال ص۸۳۲۸۔

[251] مجموعہ ورام ج۱،ص۳۱،باب الرسوم فی معاشرة الناس۔

[252] مجموعہ ورام ج۲ص۱۲۱۔

[253] سورہٴ بقرہ آیت ۲۲۴۔

[254] تحف العقول ص۱۳؛بحار الانوار ج۷۴،ص۶۸،باب۳،حدیث ۶۔

[255] کافی ج۷،ص۴۳۵،باب الیمین الکاذبة،حدیث ۱؛بحار الانوار ج۱۰۱،ص۲۰۹،باب۱،حدیث ۱۵۔

[256] سورہٴ نازعات آیت ۴۰۔۴۱۔

[257] خصال ج۱،ص۲حدیث۲؛امالی مفید ص۵۱،مجلس ۶،حدیث ۱۱؛وسائل الشیعہ ج۱۵،ص۲۱۰،باب۹،حدیث۲۰۲۹۹۔

[258] کافی ج۲،ص۷۹،باب العفة،حدیث۶؛وسائل الشیعہ ج۱۵،ص۲۴۹،باب ۲۲،حدیث۲۰۴۱۷۔

[259] غررالحکم ص۳۰۴،فی الشھوات ذل ورق ،حدیث۶۹۶۵۔

[260] مکارم الاخلا ق ص۴۶۵،الفصل الخامس ؛بحار الانوارج۷۴،ص۸۴،باب ۴،حدیث ۳۔

[261] من لایحضرہ الفقیہ ج۴،ص۱۳،باب ذکر جمل من مناھی النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ،حدیث ۴۹۶۸؛بحارالانوار ج۶۷، ص۳۷۸، باب ۵۹، حدیث ۲۵۔

[262] سورہٴ صف آیت ۷۔

[263] سورہٴ عنکبوت آیت ۳۱۔

[264] سورہٴ غافر آیت ۱۸۔

[265] سورہٴ شوریٰ آیت ۴۵۔

[266] سورہٴ شوریٰ آیت ۴۰۔

[267] کنزل العمال ص۸۸۶۲۔

[268] امالی طوسی ص۴۰۵،مجلس۱۴،حدیث ۹۰۸؛وسائل الشیعہ ج۱۶،ص۵۰،باب ۷۷،حدیث ۲۰۹۵۵؛بحار الانوار ج۷۲، ص۳۱۱، باب ۷۹،حدیث۱۲۔

[269] کافی ج۲،ص۳۳۲،باب الظلم ،حدیث ۱۰؛بحار الانوار ج۷۲،ص۳۳۰،حدیث۶۳۔ باب ۷۹۔

[270] خصال ج۱،ص۱۰۷،حدیث۷۲؛تحف العقول ص۲۱۶؛بحار الانوارج۷۲،ص۳۱۲،باب۷۹،حدیث۱۶۔

[271] نہج البلاغہ ص۴۹۴،خطبہ ۲۱۵؛مستدرک الوسائل ج۱۳،ص۲۱۱،باب۷۷،حدیث۱۵۱۴۰۔

[272] سورہٴ آل عمران آیت ۱۳۴۔

[273] الترغیب ج۳،ص۴۵۰۔

[274] تحف العقول ص۱۳؛بحار الانوار ج۷۴،ص۶۸،باب۳،حدیث۶۔

[275] غررالحکم ص۳۰۳،آثار اٴخری للغضب ،حدیث ۶۸۹۸؛مستدرک الوسائل ج۱۲،ص۱۲،باب۵۳،حدیث ۱۳۳۷۶۔

[276] کافی ج۲،ص۱۱۰،باب کظم الغیظ ،حدیث۷؛بحار الانوارج۶۸،ص۴۱۰،باب۹۳،حدیث۲۴۔

[277] کافی ج۲،ص۳۰۳،باب الغضب ،حدیث۳؛خصال ج۱،ص۷؛حدیث ۲۲،بحار الانوارج۷۰، ص۲۶۶، باب۱۳۲، حدیث۱۷۔

[278] غرر الحکم ص۲۹۹،ذم الحقد،حدیث۶۷۶۳۔

[279] غرر الحکم ص۲۹۹،ذم الحقد،حدیث۶۷۶۷۔

[280] غرر الحکم ص۲۹۹،ذم الحقد،حدیث۶۷۶۶۔

[281] نہج البلاغہ ص۸۰۱،حکمت ۱۷۸؛غررالحکم ص۱۰۶،فی النھی عن الشر،حدیث۱۹۱۱۔

[282] غرر الحکم ص۲۹۹،بعض آثاالحقد ،حدیث۶۷۸۱۔

[283] غرر الحکم ص۲۹۹،ذم الحقد،حدیث۶۷۷۴۔

[284] غررالحکم ص۴۱۹،جملة من علائم شر الاخوان ،حدیث۹۶۰۲۔

[285] سورہٴ آل عمران آیت ۱۸۰۔

[286] سورہٴ توبہ آیت ۳۴۔۳۵۔

[287] امالی صدوق ص۲۰،مجلس ۶،حدیث ۴؛بحار الانوار ج۷۰،ص۳۰۰،باب ۱۳۶،حدیث۲۔

[288] نہج البلاغہ ص۸۶۸،حکمت ۳۷۸؛بحار الانوار ج۷۰،ص۳۰۷،باب ۱۳۶،حدیث ۳۶۔

[289] کافی ج۴،ص۴۵،باب البخل والشح،حدیث۴؛بحار الانوار ج۹۳،ص۱۶،باب۱،حدیث۳۶۔

[290] سورہٴ نساء آیت ۳۰۔

[291] طب النبی ص۲۲؛بحار الانوار ج۵۹،ص۲۹۲،باب۸۹۔

[292] کنز ل العمال ص۹۷۲۰۔

[293] کنز ل العمال ص۹۷۱۵۔

[294] کنز ل العمال ص۹۷۳۹۔

[295] تفسیر معین ص۸۳۔

[296] اٴعلام الدین ص۳۴۵،حدیث ۳۸؛بحار الانوار ج۷۴،ص۱۹۰،باب۷،حدیث۳۸۔

[297] مجموعہ ورام ج۲،ص۱۲۱۔

[298] بحار الانوار ج۷۵،ص۱۱،تتمہ باب ۱۵،حدیث۷۰

[299] مصباح الشریعةص۱۳۹،الباب الخامس والستون فی صفت الدنیا ؛بحار الانوارج۷۰،ص۱۰۵،باب ۱۲۲،حدیث۱۰۱۔

[300] سورہٴ انفال آیت ۵۸

[301] سورہ ٴ انفال آیت ۲۷۔

[302] اختصاص، ص۲۴۸؛بحار الانوار ج۷۲،ص۱۷۲،باب ۵۸،حدیث۱۳۔

[303] مکارم الاخلاق ص۴۷۰،الفصل الخامس ؛بحار الانوار ج۷۴،ص۹۰،باب۴،حدیث۳؛مستدرک الوسائل ج۸،ص ۹۸ ۳ ، باب۵۹،حدیث۹۷۹۰۔

[304] جعفریات ص۱۸۸،باب فی المعروف والصدقہ؛مستدرک الوسائل ج۱۵،ص۱۸۳،باب ۷۱،حدیث۱۷۹۴۱۔

[305] عن الصادق جعفر بن محمد عن ابیہ عن ابائہ علیھم السلام قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم :اربع لاتدخل بیتا واحدة منھن الا خرب ولم یعمر بالبرکة،الخیانة والسرقة و شرب الخمر والزناء۔

امالی صدوق ص۳۹۸،مجلس ۶۲،حدیث۱۲؛بحار الانوار ج۷۲،ص۱۷۰،باب ۵۸،حدیث۲۔

[306] ثواب الاعمال ص۲۷۱؛جعفریات ص۱۷۱،باب المکروالخیانة؛مستدرک الوسائل ج۹،ص۸۰،باب۱۱۹، حدیث۵ ۶ ۲ ۰ ۱ ۔

[307] غررا لحکم ص۴۶۰،الخیانة ،حدیث ۱۰۵۲۱؛تفسیر معین ص۹۶۔

[308] اختصاص ص۲۳۱؛بحار الانوار ج۷۲،ص۱۷۲،باب ۵۸،حدیث۱۱۔

[309] سورہٴ مائدہ آیت ۹۰۔۹۱۔

[310] وسائل الشیعہ ج۲۵،ص۳۱۲،باب۱۱،حدیث۳۱۹۸۸؛بحار الانوار ج۷۶،ص۱۲۷،باب۸۶،حدیث۷۔

[311] تفسیر معین ص۱۲۳۔

[312] کنزل العمال ص۱۳۱۸۲۔

[313] امالی صدوق ص۴۲۴، مجلس ۶۶،حدیث۱؛بحار الانوار ج۷۶،ص۱۲۶،باب ۸۶،حدیث۵۔

[314] خصال ج۱،ص۱۶۳،حدیث ۲۱۵؛وسائل الشیعہ ج۲،ص۵۰،باب ۱۶،حدیث۱۴۵۰؛بحار الانوارج۷۹،ص۱۲۹۔

[315] عن عبد الرحمن بن سالم عن المفضل قال:قلت لاٴبي عبد اللہ علیہ السلام :لم حرم اللہ الخمر؟ قال:حرم اللہ الخمر لفعلھا وفسادھا لاٴن مدمن الخمر تورثہ الارتعاش ،وتذھب بنورہ،وتھدم مروتہ،وتحملہ علی اٴن یجتریٴ علی ارتکاب المحارم وسفک الدماء ورکوب الزنا ولا یومن اذا سکر ان یثب علی حرمہ وھو لا یعقل ذلک،ولا یزید شاربھا الاکل شر۔

علل الشرائع ج۲،ص۴۷۶،باب۲۲۴،حدیث۲؛بحار الانوار ج۷۶،ص۱۳۳،باب۸۶،حدیث۲۱۔

[316] سورہٴ انعام آیت ۱۰۸۔

[317] کافی ج۲،ص۳۶۰۔،باب السباب،حدیث۳؛بحار الانوارج۷۲،ص۱۶۳،باب۵۷،حدیث۳۴۔

[318] من لایحضرہ الفقیہ ج۴،ص۴۱۸،من الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ،حدیث۵۹۱۳؛ثواب الاعمال ص۲۴۰؛بحار الانوار ج۷۲، ص۱۴۸،باب ۵۷،حدیث۶۔

[319] کنزل العمال ص۲۱۲۰۔

[320] علل الشرایع ج۲،ص۵۷۷،باب۳۸۳،حدیث۱؛بحا الانوار ج۵۷،ص۹،باب ۲۹،حدیث۸۔

[321] سورہٴ اعراف آیت ۳۱۔

[322] سورہٴ اسراء آیت ۲۷۔

[323] مجموعہ ورام ج۲،ص۲۲۹۔

[324] اعلام الدین ص۳۱۳؛بحار الانوار ج۷۵،ص۳۷۷،باب۲۹،حدیث۳۔

[325] غررالحکم ص۳۵۹،الفصل الاول ذم الاسراف ،حدیث۸۱۳۲؛تفسیر معین ص۱۴۶۔

[326] خصال ج۱،ص۱۲۱،حدیث ۱۱۳؛بحار الانوار ج۶۹،ص۲۰۶،باب ۱۰۶،حدیث۷۔

[327] کافی ج۴،ص۵۲،باب فضل القصد ،حدیث۲؛بحار الانوار ج۶۸،ص۳۴۶،باب ۸۶،حدیث۱۰۔

[328] تحف العقول ص۱۸۵؛بحار الانوار ج۷۵،ص۹۶،باب۱۷،حدیث۲۔

[329] تفسیر معین ص۳۷۴۔

[330] من لایحضرہ الفقیہ ج۳ ،ص۲۷۳،باب الاحسان و ترک الغش فی البیع،حدیث۳۹۸۷۔

[331] کنزل العمال ص۹۵۰۱۔

[332] غررالحکم ص۸۶،الدین ھو الملاک،حدیث۱۴۳۶۔

[333] نہج البلاغہ ص۶۰۵،نامہ ۲۶؛بحا رالانوار ج۳۳،ص۵۲۸،باب ۲۹،حدیث۷۱۹۔

[334] سورہٴ بقرہ آیت ۲۷۸۔۲۷۹۔

[335] من لایحضرہ الفقیہ ج۴،ص۳۷۷،من الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ،حدیث۵۷۷۵؛وسائل الشیعہ ج۱۸،ص۱۲۲، باب۱، حدیث۲۳۲۸۲۔

[336] ثواب الاعمال ص۲۸۵،عقاب مجمع عقوبات الاعمال؛بحار الانوار ج۷۳،ص۳۶۴،باب ۶۷،حدیث۳۰۔

[337] عوالی اللئالی ج۲،ص۱۳۶،حدیث ۳۷۴؛بحار الانوار ج۱۰۰،ص۱۱۷،باب ۵،حدیث۱۳۔

[338] من لا یحضرہ الفقیہ ج۴،ص۸باب ذکر جمل من مناھی النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ،حدیث۴۹۶۸؛بحار الانوار ج۱۰۰،ص۱۱۶،باب ۵،حدیث۸۔

[339] عناوین کے لحاظ سے :آل عمران آیت ۱۱۷۔(( مَثَلُ مَا یُنْفِقُونَ فِی ہَذِہِ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا کَمَثَلِ رِیحٍ فِیھا صِرٌّ اٴَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوا اٴَنْفُسَھم فَاٴَھلکَتْہُ وَمَا ظَلَمَھم اللهُ وَلَکِنْ اٴَنْفُسَھم یَظْلِمُونَ))سورہ ٴ یونس آیت ۱۳۔((وَلَقَدْ اٴَھلکْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَمَّا ظَلَمُوا وَجَائَتْھم رُسُلُھم بِالْبَیِّنَاتِ وَمَا کَانُوا لِیُؤْمِنُوا کَذَلِکَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِینَ)) سورہٴ انبیاء آیت ۹۔(( ثُمَّ صَدَقْنَاھُمُ الْوَعْدَ فَاَنْجَیْنَاھُمْ وَمَنْ نَّشَاءُ وَاَھْلَکْنَا الْمُسْرِفِینَ))سورہٴ انبیاء ایت ۶۔(( مَاآمَنَتْ قَبْلَھُم مِن قَرْیَةٍ اَھْلَکْنَا ھَا اٴَفَھُمْ یُوٴْمِنُونَ))سورہٴ اسراء آیت ۱۶۔ ((وَإِذَا اٴَرَدْنَا اٴَنْ نُھلکَ قَرْیَةً اٴَمَرْنَا مُتْرَفِیھا فَفَسَقُوا فِیھا فَحَقَّ عَلَیْھا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاھا تَدْمِیرًا))سورہٴ حاقہ آیت ۵۔((فَاٴَمَّا ثَمُودُ فَاٴُھلکُوا بِالطَّاغِیَةِ))سورہٴ انعام آیت ۱۳۱۔ ((ذَلِکَ اٴَنْ لَمْ یَکُنْ رَبُّکَ مُھلکَ الْقُرَی بِظُلْمٍ وَاٴَھلھا غَافِلُونَ ))سورہٴ دخان آیت ۷ ۳۔ ((اٴَھم خَیْرٌ اٴَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِھم اٴَھلکْنَاھم إِنَّھم کَانُوا مُجْرِمِینَ))

[340] خصال ج۱،ص۸۴،حدیث ۱۲؛بحار الانوار ج۶۷،ص۶،باب ۴۱،حدیث۳۔

[341] کافی ج۲،ص۳۱۶،باب حب الدنیا والحرص علیھا ،حدیث۶؛مشکاة الانوارص۱۲۶،الفصل السادس فی الغنی والفقر۔

[342] نہج البلاغہ ص۷۹۹۔حکمت ۱۶۱۔

[343] غررالحکم ص۲۳۳،عرفان القدر ،حدیث۴۶۷۷۔

[344] کشف الغمہ ج۲ ص۲۰۶؛بحار الانوارج۷۵،ص۲۰۷،باب ۲۳،حدیث۶۷۔

[345] سورہٴ اعراف آیت ۱۳۔

[346] سورہٴ نساء آیت ۱۷۳۔

[347] سورہٴ نحل آیت ۲۳۔

[348] سورہٴ غافر آیت ۷۶۔

[349] کنزل العمال ص۷۷۲۹۔

[347] سورہٴ نحل آیت ۲۳۔

[348] سورہٴ غافر آیت ۷۶۔

[349] کنزل العمال ص۷۷۲۹۔

[350] غرر الحکم ص۳۰۹،الکبر و ذمہ،حدیث ۷۱۲۴؛تفسیر معین ص۱۶۸۔

[351] علل الشرایع ج۱ ص۲۷۵،باب ۱۸۴،حدیث ۲؛وسائل الیشعہ ج۱،ص۳۳۴،باب ۱۸،حدیث۸۸۰؛بحا رالانوار ج۷۰، ص۲۳۴،باب ۱۳۰،حدیث۳۳۔

[352] ارشاد القلوب ج۱،ص۱۲۹،الباب الاربعون فی ذم الحسد ۔

[353] کنزل العمال ص۴۱۵۴۔

[354] کافی ج۵،ص۲۸،باب وصیة رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وامیر الموٴمنین علیہ السلام فی السرایا، حدیث۴؛بحار الانوار ج۲۱، ص۳۶۱،باب ۳۴،حدیث۳۔