Thursday, August 26, 2010

لائبریری

چهل حديث روزه جمع آوری : محمد حسين فلاح زاده ڈاونلوڈ

اقوالِ امام علی (علیہ السلام )از نہج البلاغہ علامہ شریف رضی علیہ رحمہ ڈاونلوڈ

میزان الحکمت(جلد ہشتم) محمد رے شہری ڈاونلوڈ

حج کی منتخب حدیثیں سید علی قاضی عسکر ڈاونلوڈ

چہل حدیث مع اضافہ مشکلات کے حل کیلئے بارہ دعائیں علامہ شیخ عباس قمی ڈاونلوڈ

شرح چھل حدیث امام مھدی (عج) علی اصغررضوانی ڈاونلوڈ

ترجمہ نھج البلاغہ علامہ ذیشان حیدر جوادی مرحوم ڈاونلوڈ

ترجمہ نھج البلاغہ علامہ مفتی جعفرحسین مرحوم ڈاونلوڈ

صحیفہ امام مھدی علیہ السلام سید مرتضی مجتہدی سیستانی ڈاونلوڈ

دعائے ندبہ کی سندی اور مضمونی اعتراضات کی تحقیق و تنقید علی اکبر مہدی پور ڈاونلوڈ

مفاتیح الجنان و باقیات الصالحات (اردو) شیخ عباس بن محمد رضا قمی ڈاونلوڈ

صحیفہ امام رضا علیہ السلام ڈاونلوڈ

صحیفہ امام حسین علیہ السلام ڈاونلوڈ

صحیفہ امام حسن علیہ السلام ڈاونلوڈ

صحیفہ کاملہ امام زین العابدین(علیہ السلام) ڈاونلوڈ

صحیفہ زھراء سلام اللہ علیھا ڈاونلوڈ

دعاء کمیل مولا علی(علیہ السلام ) ڈاونلوڈ

ملحقات باقیات الصالحات

﴿ملحقات باقیات الصالحات﴾
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ
خدا کے نام سے جو بڑا رحم والا
الرَّحِیْمِ۔
مہربان ہے ۔
چند دعائیں اور تعویذات جنہیں بحار الانوار سے نقل کر کے باقیات الصالحات کے ساتھ ملحق کیا گیا ہے۔
اس میں بیس دعائیں ہیں
دعائے مختصراورمفید
﴿۱﴾ منقول ہے کہ امیرلمومنین- نے ایک شخص کو دیکھا جو کسی کتاب میں سے کوئی طویل دعا پڑھ رہاتھا. حضرت نے اس سے فرمایا: اے شخص جو خدا طویل دعا کوسنتا ہے، وہ قلیل دعا کا بھی جواب دیتا ہے اس نے عرض کیا میرے مولا! فرمایئے کہ میں کس طرح دعا کروں؟ آپ(ع) نے فرمایا یوں کہو:
الْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلَی کُلِّ
حمد ہے اﷲ کیلئے ہر ایک نعمت پر میں
نِعْمَۃٍ وَٲَسْٲَلُ اﷲَ مِنْ
خدا سے ہر بہتری کا سوال کرتا ہوں
کُلِّ خَیْر وَٲَعُوذُ بِاﷲِ
ہر ایک شر سے، خدا کی پناہ لیتا ہوں
مِنْ کُلِّ شَرٍّ وَٲَسْتَغْفِرُ
اور ہر گناہ پر معافی
اﷲَ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ۔
مانگتا ہوں۔

دعائے دوری ہر رنج وخوف
﴿۲﴾ یہ وہ دعا ہے جو امام جعفر صادق - نے اپنے بعض اصحاب کو تعلیم فرمائی کہ ہر رنج و خوف کو دور کرنے کیلئے اسے پڑھا کرے:
ٲَعْدَدْتُ لِکُلِّ عَظِیمَۃٍ
میں نے تیار کیا ہر حادثے کے
لاَ إلہَ إلاَّ اﷲُ وَلِکُلِّ
مقابل لا الٰہ الّا اﷲ اور ہر رنج و غم
ہَمٍّ وَغَمٍّ لاَ حَوْلَ وَلاَ
کے مقابل لا حول و لا
قُوَّۃَ إلاَّ بِاﷲِ مُحَمَّدٌ
قوۃ الّا باﷲ محمد(ص)(ص)
صلی اﷲ علی وآلہ
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
النُّورُ الْاََوَّلُ، وَعَلِیٌّ
نور اول ہیں، علی
النُّورُ الثَّانِی وَالائََمَّۃُ
نور ثانی ہیںاور ان کے بعد ہونے
الْاََبْرارُ عُدَّۃٌ لِلِقائِ اﷲِ
والے آئمہ خوش کردار لقائے الٰہی
وَحِجابٌ مِنْ ٲَعْدائِ
کاذریعہ اور دشمنان خدا کے آگے
اﷲِ ذَلَّ کُلُّ شَیْئٍ
ڈھال ہیں، ہر چیز خدا کی بڑائی کے
لِعَظَمَۃِ اﷲِ وَٲَسْٲَلُ اﷲَ
سامنے پست ہے اور میں خدا عز وجل سے
عَزَّ وجَلَّ الْکِفایَۃَ۔
سوال کرتا ہوں کہ کافی روزی دے۔

﴿۳﴾ بیماریوں اور تکلیفوں کو دور کرنے کی دعا:
سید ابن طائوس فرماتے ہیں کہ ہم نے اسے آزمایا ہے. پس ایک کاغذ پر لکھے:
یَا مَنِ اسْمُہُ دَوائٌ
اے وہ جس کا نام دوا
وَذِکْرُہُ شِفائٌ، یَا مَنْ
اور جس کا ذکر شفا ہے. اے وہ کہ
یَجْعَلُ الشِّفائَ فِیما
چیزوں میں سے جس
یَشائُ مِنَ الْاََشْیائِ
میں چاہے شفا رکھ دے
صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ
رحمت فرما محمد(ص)(ص) و آل(ع)
مُحَمَّدٍ وَاجْعَلْ شِفائِی
محمد(ص)(ص) پراور اپنے اس نام
مِنْ ہذَا الدَّائِ فِی
میں میرے لیے اس بیماری سے
اسْمِکَ ہذَا۔
شفا قرار دے۔
دس مرتبہ لکھے:
یَا اﷲُ
اے اﷲ
دس مرتبہ لکھے:
یَارَبِّ
اے رب
دس مرتبہ لکھے:
یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ۔
اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

بدن پر نکلنے والے چھالے دور کرنے کی دعا
﴿۴﴾ بدن پر نکلنے والے چھالے دور کرنے کی دعا امام جعفر صادق - سے روایت ہے کہ بدن پر چھالا دیکھے تو اس کے چاروں طرف انگشت شہادت کو پھراتے ہوئے ،سات مرتبہ یہ کہے:
لاَ إلہَ إلاَّ اﷲُ الْحَلِیمُ
نہیں ہے معبود مگر اﷲ جو بردبار فیض
الْکَرِیمُ۔
رساں ہے۔
ساتویں چکر پر انگلی چھالے پر رکھ کر اسے دبائے۔

خنازیر (ہجیروں )کو ختم کرنے کیلئے ورد
﴿۵﴾ روایت ہوئی ہے کہ خنازیر یعنی ہجیروں کو ختم کرنے کے لیے باربار پڑھے:
رَؤُوفُ یَا رَحِیمُ یَارَبِّ
اے مہربان! اے رحم والے! اے رب!
یَا سَیِّدِی۔
اے میرے مالک!۔

کمر درد دور کرنے کیلئے دعا
﴿۶﴾ کمردرد دور کرنے کے لیے مروی ہے کہ درد کے مقام پر ہاتھ رکھ کر تین مرتبہ پڑھے:
وَما کانَ لِنَفْسٍ ٲَنْ
کسی انسان کے بس میں نہیں کہ وہ
تَمُوتَ إلاَّ بِ إذْنِ اﷲِ
حکم الٰہی کے بغیر مرجائے اس کا
کِتاباً مُؤَجَّلاً، وَمَنْ
وقت لکھا ہوا ہے جو
یُرِدْ ثَوابَ الدُّنْیا نُؤْتِہِ
شخص دنیا کا اجر چاہتا ہے ہم اسے
مِنْہا وَمَنْ یُرِدْ ثَوابَ
دیتے ہیں اور جو آخرت کا اجر
الْآخِرَۃِ نُؤْتِہِ مِنْہا
چاہے ہم اسے بھی دیتے ہیں اور ہم
وَسَنَجْزِی الشَّاکِرِینَ۔
شکرگزاروں کو جلد جزا دیں گے۔
پھر سات مرتبہ سورہ قدر پڑھے، انشائ اﷲ صحت پائے گا۔

درد ناف دور کرنے کیلئے دعا
﴿۷﴾دردناف کے لیے مروی ہے کہ درد کے مقام پر ہاتھ رکھ کر تین مرتبہ کہے:
وَ إنَّہُ لَکِتابٌ عَزِیزٌ
اور یقیناً یہ ایسی با عزت کتاب ہے
لاَ یَٲْتِیہِ الْباطِلُ مِنْ
کہ نہ باطل اس کے سامنے سے
بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَ مِنْ
آ سکتا ہے نہ اس کے
خَلْفِہِ تَنْزِیلٌ مِنْ حَکِیمٍ
پیچھے سے یہ حکمت والے تعریف
حَمِیدٍ۔
والے خدا کی بھیجی ہوئی ہے۔

ہر درد دور کرنے کا تعویذ
﴿۸﴾ یہ تعویذ ہر درد کے لیے ہے اور یہ امام علی رضا- کی طرف سے روایت ہوا ہے:
ٲُعِیذُ نَفْسِی بِرَبِّ
میں اپنے آپ کو زمین و آسمان کے رب
الْاََرْضِ وَرَبِّ السَّمائِ
کی پناہ میں لیتا ہوں، میں خود کو اس
ٲُعِیذُ نَفْسِی بِالَّذِی
کی پناہ لیتا ہوں جس کے
لاَ یَضُرُّ مَعَ اسْمِہِ دائٌ
نام سے کوئی بیماری نہیں لگتی،
ٲُعِیذُ نَفْسِی بِاﷲِ الَّذِی
میں خود کو اﷲ کی پناہ میں دیتا ہوں جسکے
اسْمُہُ بَرَکَۃٌ وَشِفائٌ۔
نام میں برکت و شفا ہے۔

درد مقعد دور کرنے کا عمل
﴿۹﴾ روایت ہے کہ خاصرہ یعنی مقعد کے درد کے لیے نماز سے فراغت کے بعد سجدہ گاہ پر ہاتھ لگا کر درد کے مقام پر پھیرے اور سورہ مومنون کی آخری آیت’’اَفَحَسِبْتُمْ اِنَّمَا خَلَقْنٰٰکُمْ عَبَثاً سے تا آخر سورہ پڑھے:

درد شکم قولنج اور دوسرے دردوں کیلئے دعا
﴿10﴾ درد شکم، قولنج اور ایسے ہی دوسرے دردوں کے لیے پڑھے: بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحیْمِ. وَذَالنُّونِ اِذْ ذَھَبَ مَغَاضِباً تا آخر آیت پڑھے اس کے بعد سات مرتبہ سورہ حمد کی تلاوت کرے۔ یہ عمل مجرب ہے۔

رنج وغم میں گھیرے ہوے شخص کا دستور العمل
﴿۱۱﴾ رنج و غم میں گھرا ہوا انسان جو مختلف مصیبتوں میں مبتلا ہو چکا ہو اور ہر طرح سے بے بس اور ناچار ہوگیا ہو تو وہ شب جمعہ نماز عشائ سے فارغ ہونے کے بعد یہ آیت پڑھے:
لاَ إلہَ إلاَّ ٲَنْتَ
نہیں ہے کوئی معبود مگر تو
سُبْحانَکَ إنِّی کُنْتُ
کہ پاک و منزہ ہے، یقیناً میں ہی
مِنَ الظَّالِمِینَ۔
ظالموں میں سے ہوگیا ہوں۔

دعائے خلاصی قید وزندان
﴿21﴾ قید و زندان سے خلاصی کے لیے امام موسیٰ کاظم - کی دعا:
یَا مُخَلِّصَ الشَّجَرِ
اے درخت کو ریت مٹی
مِنْ بَیْنِ رَمْلٍ وَطِینٍ
اور پانی کے بیچ سے
وَمائٍ وَیَا مُخَلِّصَ
نکالنے والے!اے دودھ کو گوبر
اللَّبَنِ مِنْ بَیْنِ فَرْثٍ
اور خون کے بیچ سے
وَدَمٍ وَیَا مُخَلِّصَ الْوَلَدِ
نکالنے والے! ایبچے کو جھلی اور
مِنْ بَیْنِ مَشِیمَۃٍ وَرَحِمٍ
رحم کے بیچ سے نکالنے والے!
وَیَا مُخَلِّصَ النَّارِ مِنْ
اے آگ کو لوہے اور پتھر کے
بَیْنِ الْحَدِیدِ وَالْحَجَرِ
بیچ سے نکالنے والے
وَیَا مُخَلِّصَ الرُّوْحِ
اور اے روح کو پہلوئوں
مِنْ بَیْنِ الْاََحْشَائِ
اور انتڑیوں کے بیچ سے نکالنے
وَالْاََمْعائِ خَلِّصْنِی
والے مجھ کو ہارون عباسی کے چنگل
مِنْ یَدَیْ ہارُونَ۔
سے چھڑا دے۔
روایت ہوئی ہے کہ امام موسیٰ کاظم - نے یہ دعا اس وقت پڑھی، جب آپ خلیفہ ہارون عباسی کی قیدمیں تھے چنانچہ جب رات چھاگئی تو آپ نے وضو کیا چار رکعت نماز پڑھی اور پھر اس دعا کو پڑھا اسی رات خلیفہ ہارون نے ایک ہولناک خواب دیکھا جس سے وہ ڈرگیا اور اس نے حضرت کی رہائی کا حکم دے دیا۔

﴿13﴾ دعائے فرج:
اَللّٰہُمَّ إنْ کانَتْ ذُنُوبِی
اے معبود! اگر میرے گناہوں نے میرے
ٲَخْلَقَتوَجْہِی عِنْدَکَ
چہرے کو تیرے سامنے بد نما کردیا ہے
فَ إنِّی ٲَتَوَجَّہُ إلَیْکَ
تو میں تیری طرف متوجہ ہوں،
بِنَبِیِّکَ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ
تیرے نبی کے وسلیے سے جو پیغمبر رحمت
مُحَمَّدٍ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ
حضرت محمد صلی اﷲ علیہ
وَآلِہِ وَعَلِیٍّ وَفاطِمَۃَ
و آلہ ہیں اور علی(ع) و فاطمہ(ع)
وَالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ
(ع)اور حسن(ع) و حسین(ع)
وَالْاََئِمَّۃِ عَلَیْہِمُ
اور بعد والے ائمہ
اَلسَّلَامُ۔
کو وسیلہ بنایا ہے۔
اور معلوم ہونا چاہیئے کہ سختیوں اور مصیبتوں سے چھٹکارا پانے کے لیے بہت سی دعائیں ہیں اور ان میں سے ایک دعا یہ بھی ہے:’’اِلٰھِی طُوْحِ الاَمَال ُ قَدْ خَابَتْ اِلَّا لَدَیْکَ. الخ جو مفاتیح الجنان میں شب جمعہ کے اعمال میں ذکر ہوچکی ہے. وہاں ملاحظہ ہو۔

نماز وتر کی دعا
﴿14﴾ یہ وہی بابرکت دعا ہے جو نماز وتر میں پڑھی جاتی ہے، اسے علامہ مجلسی(رح) نے بحار میں کتاب ’’اختیار‘‘ سے نقل کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اپنا ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یہ دعا پڑھے:
إلہِی کَیْفَ ٲَصْدُر
اے معبود! کیونکر تیرے درسے
عَنْ بابِکَ بِخَیْبَۃٍ
نامراد ہوکر پلٹ جائوں، جب کہ
مِنْکَ وَ قَصَدْتُہُ عَلَی
میں تجھ پر بھروسہ کر کے یہاں
ثِقَۃٍ بِکَ إلہِی کَیْفَ
آیا تھا اے معبود ! تو کیونکر
تُؤْیِسُنِی مِنْ عَطائِکَ
مجھے اپنی عطا سے مایوس کرے گا،
وَ ٲَمَرْتَنِی بِدُعائِ
َجب کہ تو نے مجھے دعا کا حکم دیا ہے
صَلِّ عَلَی مُحَمَّد
رحمت فرما محمد(ص)
وَآلِ مُحَمَّدٍ وَارْحَمْنِی
و آل(ع) محمد(ص) پر اور مجھ پر رحم کر
إذَا اشْتَدَّ الْاََنِینُ
جب میں بہت زاری کروں معاملہ
وَحُظِرَ عَلَیَّ الْعَمَلُ
ہاتھ سے نکل جائے میری آس
وَانْقَطَعَ مِنِّی الْاََمَل
ٹوٹ گئی ہو موت کے
وَٲَفْضَیْتُ إلَی الْمَنُونِ
در ازے تک پہنچ جائوں
وَبَکَتْ عَلَیَّ الْعُیُون
انکھیں مجھ پر رو رہی ہوں، میرے
وَوَدَّعَنِی الْاََہْلُ
اہل خاندان اور احباب
وَالْاََحْبابُ وَحُثِیَ
مجھے چھوڑ چکے ہوں. مجھ
عَلَیَّ التُّرابُ وَنُسِیَ
پر مٹی ڈال دی گئی ہو میرا
اسْمِی وَبَلِیَ جِسْمِی
نام بھلا دیا گیا ہو، میرا جسم گل
وَانْطَمَسَ ذِکْرِی
چکا ہو، میرا ذکر مٹ چکا ہو،
وَہُجِرَ قَبْرِی فَلَمْ
میری قبر نامعلوم ہو گئی ہو، کوئی
یَزُرْنِی زائِرٌ وَلَمْ
اسے دیکھنے نہ آئے، نہ کوئی مجھے یاد
یَذْکُرْنِی ذاکِرٌ وَظَہَرَتْ
کرے. میرے گناہ عیاں ہو چکے
مِنِّی الْمَآثِمُ وَاسْتَوْلَتْ
ہوں، میری ناانصافیاں مجھے
عَلَیَّ الْمَظالِمُ وَطالَتْ
گھیرے ہوئے ہوں. میرے
شِکَایَۃُ الْخُصُوم
خلاف شکایات طولانی ہوں.
وَٲَتَّصَلَتْ دَعْوَۃُ الْمَظْلُومِ
مظلوموں کے دعوے جاری ہوں،
صَلِّ اَللّٰہُمَّ عَلَی مُحَمَّدٍ
ایسے میں اے معبود! محمد(ص)(ص)
وَآلِ مُحَمَّدٍ وَٲَرْضِ
و آل(ع) محمد(ص)(ص) پر رحمت فرما اور اپنے
خُصُومِی عَنِّی بِفَضْلِکَ
فضل و کرم سے میرے
وَ إحْسانِک َوَجُد
دعویداروں کو مجھ سے راضی کر دے
عَلَیَّ بِعَفْوِکَ وَرِضْوانِکَ
مجھے اپنی بخشش و خوشنودی عطا فرما،
إلہِی ذَہَبَتْ ٲَیَّام
میرے معبود میری لذتوں کے دن
لَذَّاتِی وَبَقِیَتْ مَآثِمِی
گزر گئے، میرے گناہ اور ان کا
وَتَبِعاتِی، وَ ٲَتَیْتُکَ
انجام رہ گیا ہے. اب میں توبہ کے
مُنِیباً تائِباً فَلا تَرُدَّنِی
ساتھ تیرے پاس آیا ہوں، پس مجھے
مَحْرُوماً وَلاَ خائِباً
محرومی و ناکامی کے ساتھ واپس نہ پلٹا.
اَللّٰہُمَّ آمِنْ رَوْعَتِی
اے معبود! میرے خوف کو امن
وَاغْفِرْ زَلَّتِی وَتُبْ
میں بدل و خطائیں معاف فرمااور
عَلَیَّ إنَّکَ ٲَنْتَ
میری توبہ قبول کر بے شک تو بڑا
التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ۔
توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

دعائے حزین
﴿15﴾ یہ دعائے حزیں ہے اور یہ وہ بابرکت دعا ہے جو نماز شب کے بعد پڑھی جاتی ہے.اور ہم اسے مصباح المتہجد سے نقل کرتے ہیں :
ٲُناجِیکَ یَا مَوْجُوداً
اے وہ اﷲ جو ہر جگہ موجود ہے میں
فِی کُلِّ مَکانٍ لَعَلَّکَ
تجھ سے مناجات کررہاہوں. شاید
تَسْمَعُ نِدائِی فَقد عَظُمَ
کہ تو میری فریاد سن لے کیونکہ میرے
جُرْمِی وَقَلَّ حَیائِی
جرائم زیادہ ہیں اور حیا گھٹ گئی ہے،
مَوْلایَ یَا مَوْلایَ،
میرے مولا اے میرے مولا!
ٲَیَّ الْاََہْوَالِ ٲَتَذَکَّرُ
میں کس کس خوف کو یاد کروں اور
وَاَیُّھَا اَنْسٰی وَلَوْ لَمْ
کس کس کو فراموش کروں، اگر
یَکُنْ إلاَّ الْمَوْتُ لَکَفَیٰ
موت کے سوا کوئی خوف نہ ہوتا تو
کَیْفَ وَما بَعْدَ الْمَوْتِ
یہی کافی تھا اور موت کے بعد کے
ٲَعْظَمُ وَٲَدْہَیٰ یَا مَوْلایَ
حالات تو زیادہ پر خطر ہیں . میرے مولا
یَا مَوْلایَ یَا الْعُتْبَی
اے میرے مولا! کب تک اور کہاں
مَرَّۃً بَعْدَ ٲُخْرَی ثُمَّ
تک تجھ سے کہتا رہوں ایک کے بعد
لاَ تَجِدُ عِنْدِی صِدْقاً
دوسری بارعذر لائوں پھر بھی تو میری طرف
وَلاَ وَفائً فَیا غَوْثاہُ
سے اس میں سچائی اور پابندی نہیں پاتا
ثُمَّ وا غَوْثاہُ بِکَ
ہائے فریاد، پھر ہائے فریاد ہے، تجھ سے
یَا اﷲُ مِنْ ہَوَیً غَلَبَنِی
اے اﷲ خواہش نفس سے جو مجھ پر
وَمِنْ عَدُوٍّ قَدِ اسْتَکْلَبَ
حاوی ہے اور اس دشمن سے فریاد جو مجھ پر
عَلَیَّ وَمِنْ دُنْیا قد تَزَیَّنَتْ
جھپٹ پڑا ہے، اس دنیا پر فریاد جو میرے
لِی وَمِنْ نَفْسٍ ٲَمَّارَۃٍ
لیے سنور کر آگئی اور اس نفس پر جو برائی
بِالسُّوئِ، إلاَّ مَا رَحِمَ
کا حکم دیتا ہے مگر جس پر میرا رب رحم
رَبِّی مَوْلایَ یَا مَوْلایَ
کرے میرے مولا! اے میرے مولا!
إنْ کُنْتَ رَحِمْتَ
اگر تو نے کسی مجھ جیسے پر رحم کیا ہے
مِثْلِی فَارْحَمْنِی وَ إنْ
تو مجھ پر بھی رحم کر، اگر کسی مجھ جیسے کا
کُنْتَ قَبِلْتَ مِثْلِی
عمل قبول کیا ہے تو میرا بھی عمل
فَاقْبَلْنِی یَا قابِلَ السَّحَرَۃِ
قبول کر، اے ساحران مصر کو قبول
اقْبَلْنِی یَا مَنْ لَمْ ٲَزَلْ
کرنے والے مجھے بھی قبول کر،
ٲَتَعَرَّفُ مِنْہُ الْحُسْنَیٰ
اے وہ جس سے میں نے ہمیشہ
یَا مَنْ یُغَذِّینِی بِالنِّعَمِ
اچھائی ہی کو پہچانا، اے وہ جو مجھے
صَباحاً وَمَسائً ارْحَمْنِی
صبح و شام نعمتیں عطا فرماتا ہے، مجھ
یَوْمَ آتِیکَ فَرْداً
پر اس دن رحم فرمانا،
شاخِصاً إلَیْک
جب تنہا ہوں گا
بَصَرِی مُقَلَّداً عَمَلِی
اورتیری طرف آنکھ لگائے ہوں گا.
قد تَبَرَّٲَ جَمِیعُ الْخَلْقِ
اپنے اعمال گلے میں لٹکائے جب
مِنِّی نَعَمْ وَٲَبِی وَٲُمِّی
ساری مخلوق مجھ سے دوری اختیار
وَمَنْ کانَ لَہُ کَدِّی
کرے گی، ہاں میرے باپ بھی
وَسَعْیِی فَ إنْ لَمْ تَرْحَمْنِی
اور وہ بھی جن کیلئے میں دکھ جھیلتا
فَمَنْ یَرْحَمُنِی، وَمَنْ
رہا، پس اگر تو مجھ پر رحم نہ کرے تو
یُؤْنِسُ فِی الْقَبْرِ وَحْشَتِی
کون کرے گا. قبر کی تنہائی میں
وَمَنْ یُنْطِقُ لِسانِی إذا
کون میرا ہمدم ہوگا، کون میری
خَلَوْتُ بِعَمَلِی
زبان کو گویا کرے گا، جب تو عمل
وَسائَلْتَنِی عَمَّا ٲَنْتَ
کے بارے میں مجھ سے سوال
ٲَعْلَمُ بِہِ مِنِّی، فَ إنْ
کرے گا، جب کہ تو اسے مجھ سے
قُلْتُ نَعَمْ فَٲَیْنَ الْمَہْرَبُ
زیادہ جانتا ہے تو اگر میں ہاں کہوں
مِنْ عَدْلِکَ؟ وَ إنْ
پھر تیرے عدل سے کدھر بھاگوں گا
قُلْتُ لَمْ ٲَفْعَلْ، قُلْتَ
اور اگر کہوں، میں نے نہیں کیا
ٲَلَمْ ٲَکُنِ الشَّاہِدَ عَلَیْکَ
تو تو کہے گا، کیا میں اس پر گواہ نہیں
فَعَفْوُکَ عَفْوُکَ یَا
تھا. پس بخش دے، بخش دے اے
مَوْلایَ قَبْلَ سَرابِیلَ
میرے مولا . اس سے پہلے کہ
الْقَطِرانِ عَفْوُکَ
تارکول کا جامہ پہنوں. بخش دے،
عَفْوُکَ یَا مَوْلایَ
بخش دے. اے میرے مولا! اس
قَبْلَ جَھَنَّمَ وَالنَّیْرَانِ
سے پہلے کہ جہنم کے شعلوں میں
عَفْوُکَ عَفْوُکَ یَا
پڑوں بخش دے بخش دے اے
مَوْلایَ قَبْلَ ٲَنْ تُغَلَّ
میرے مولا، اس سے پہلے کہ میرے
الْاََیْدِی إلَی الْاََعْناقِ
ہاتھ گردن میں باندھ دیئے جائیں
یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ
اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے
وَخَیْرَ الْغافِرِینَ۔
اور اے بہت بخشنے والے‘‘.

زیادتی علم وفہم کی دعا
﴿16﴾ ثقہ جلیل و عالم کبیر اور عابد و زاہد عبداﷲ بن جندب جو امام موسیٰ کاظم- اور امام علی رضا- کے اصحاب میں سے ان کے وکیل بھی تھے امام موسیٰ کاظم - کی خدمت میں عریضہ تحریر کیا کہ قربان جائوں! میں بوڑھا ہوچکا ہوں، کمزوری کی وجہ سے کئی ایسے کاموں سے عاجز ہوگیا ہوں جن کے انجام دینے کی طاقت رکھتا تھا قربان جائوں! مجھے کوئی ایسا کلام تعلیم فرمائیں جو مجھے خداوند تعالیٰ کے نزدیک کر دے اور میرے علم و فہم میں اضافے کا موجب بھی ہو، تب حضرت نے جواب میں انہیں حکم دیا کہ اس ذکر شریف کو زیادہ سے زیادہ پڑھا کرو:
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمنِ
خدا کے نام سے جو بڑا رحم والا
الرَّحِیمِ لاَ حَوْلَ وَلاَ
مہربان ہے، نہیں ہے حرکت و قوت
قُوَّۃَ إلاَّ بِاﷲِ الْعَلِیِّ
مگر جو بلند و بزرگ خدا
الْعَظِیمِ۔
سے ہے۔

قرب الہی کی دعا۔
﴿17﴾ حدیث قدسی میں ہے: اے محمد(ص)(ص)! ان لوگوں سے کہہ دو جو میرا قرب حاصل کرنا چاہیئے ہیں یقین کے ساتھ سمجھ لو کہ یہ کلام ہر اس چیز سے افضل ہے جس کے ذریعے وہ میرا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں ، فرائض کی بجا آوری کے بعد یہی کلام ہے جس سے میرا قرب حاصل کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے:
اَللّٰہُمَّ إنَّہُ لَمْ یُمْسِ
اے معبود! یقیناً تیری مخلوق
ٲَحَدٌ مِنْ خَلْقِکَ
میں کوئی ایسا نہیں جو شام کرے
ٲَنْتَ إلَیْہِ ٲَحْسَنُ
مجھ سے زیادہ اس پر تیرا احسان ہو
صَنِیعاً، وَلاَ لَہُ ٲَدْوَمُ
نہ اس کے لیے تیری
کَرامَۃً وَلاَ عَلَیْہِ ٲَبْیَنُ
لگاتار مہربانی ہے نہ اس پر تیرا کھلا
فَضْلاً وَلاَ بِہِ ٲَشَدُّ
ہو افضل ہے نہ اس کے ساتھ
تَرَفُّقاً وَلاَ عَلَیْہِ ٲَشَدُّ
انتہائی نرمی ہے نہ اس کے لیے
حِیاطَۃً وَلاَ عَلَیْہِ ٲَشَدُّ
بیشتر نگہبانی ہے اور نہ اس
تَعَطُّفاً مِنْکَ عَلَیَّ
پر تیرا کچھ زیادہ کرم ہے جومجھ پر
وَ إنْ کانَ جَمِیعُ
ہے اگر چہ ساری مخلوق اسی
الْمَخْلُوقِینَ یُعَدِّدُونَ
طرح شمار کرتی ہے
مِنْ ذلِکَ مِثْلَ
جیسے میں نیان چیزوں کو
تَعْدِیدی فَاشْہَدْ
شمار کیا ہے تو بھی گواہ رہنا.
یَا کافِیَ الشَّہادَۃِ بِٲَنِّی
اے کافی گواہی والے اس بات پر
ٲُشْہِدُکَ بِنِیَّۃِ صِدْقٍ
کہ میں نے سچے دل سے تجھے گواہ
بِٲَنَّ لَکَ الْفَضْلَ
بنایا ہے اس پر کہ مجھے نعمتیں عنایت
وَالطَّوْلَ فِی إنْعامِکَ
کرنے میں تیرا فضل و کرم بہت
عَلَیَّ مَعَ قِلَّۃِ شُکْرِی
زیادہ ہے، جب کہ میں ان پر بہت
لَکَ فِیہا،یَا فاعِلَ
کم شکر کرتا ہوں. اے ہر ارادے کو
کُلِّ إرادَۃٍ صَلِّ عَلَی
انجام دینے والے رحمت فرما
مُحَمَّدٍ وَآلِہِ وَطَوِّقْنِی
محمد(ص)(ص) اور ان کی آل(ع) پر اور میری کم
ٲَماناً مِنْ حُلُولِ السَّخَطِ
شکری کے باعث نزول بلا سے بچانے
لِقِلَّۃِ الشُّکْرِ وَٲَوْجِبْ
کیلئے امان کا طوق میرے گلے میں
لِی زِیادَۃً مِنْ إتْمامِ
ڈال دے اور اپنی وسیع معافی کی
النِّعْمَۃِ بِسَعَۃِ الْمَغْفِرَۃِ
بددلت میرے لیے نعمتیں بڑھا دے مجھ پر
ٲَمْطِرْنِی خَیْرَکَ فَصَلِّ
اپنی طرف سے کرم کی بارش برسا پس رحمت فرما
عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ
حضرت محمد(ص)(ص) اور ان کی آل(ع) پر میری بد
وَلاَ تُقایِسْنِی بِسُوئِ
باطنی کے ساتھ میری جانچ نہ کر،
سَرِیرَتِی وَامْتَحِنْ
بلکہ میرے دل کو اپنی رضا کے لیے
قَلْبِی لِرِضاکَ وَاجْعَلْ
آزما، جس چیز کے ذریعے
مَا تَقَرَّبْتُ بِہِ إلَیْکَ
میں تیرے دین کے
فِی دِینِکَ لَکَ
قریب آیا ہوں، اسے اپنے لیے
خالِصاً، وَلاَ تَجْعَلْہُ
خالص قرار دے اور اسے کسی شبہے
لِلُزُومِ شُبْہَۃٍ ٲَوْ فَخْرٍ
فخر اور نمائش میں شمار نہ کر
ٲَوْ رِیائٍ، یَا کَرِیمُ۔
اے کرم کرنے والے۔


دعاء اسرار قدسیہ
مولف کہتے ہیں: یہ دعا پاک رازوں میں سے ہے اور یہ اسرار قدسیہ﴿پاک راز﴾ اکتیس دعائوں پر مشتمل ہیں جو دنیا و آخرت کی حاجت روائی کے لیے ہیں کہ جن کو ہمارے بزرگ علمائ نے متصل سند کے ساتھ نقل فرمایا ہے. ان میں سے بعض دعائیں مصباح المتہجد و مصباح کفعمی(رح) میں بھی مذکور ہیں، خواہشمند مومنین کتاب بلد الامین، بحار الانوار، کتاب الدعایا جواہر السینہ جیسی کتابوں کی طرف رجوع کریں اور یہاں ہم نے ان میں سے صرف ایک ہی دعا نقل کی ہے۔

﴿18﴾ یہ دعا بھی اسرار قدسیہ میں سے ہے۔ چنانچہ جو شخص کسی ضرورت یا سفر کے لیے نکلے اور اپنے اہل وعیال کو گھر چھوڑ جائے اور چاہتا ہو کہ اس کی حاجات پوری ہوں اور صحیح وسالم گھر وآپس لوٹ آئے تو وہ اپنے گھر سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھے:
بِسْمِ اﷲِ مَخْرَجِی
خدا کے نام کے ساتھ نکلا اور اس
وَبِ إذْنِہِ خَرَجْتُ وَ
کے اذن سے چلا ہوں وہ میرے
عَلِمَ قَبْلَ ٲَنْ ٲَخْرُجَ
گھر سے نکلنے سے پہلے ہی اس
وَ ٲَحْصَی عِلْمُہُ مَا
نکلنے کو جانتا ہے اس کا علم اسے شمار کر
فِی مَخْرَجِی ْوَمَرْجِعِی
چکا ہے جو کچھ میرے جانے اور
تَوَکَّلْتُ عَلَی الْاِلہِ
آنے میں ہے. میں نے معبود اکبر
الْاََکْبَرِ تَوَکُّلَ مُفَوِّضٍ
پر بھروسہ کیا ہے اس کی طرح جس
إلَیْہِ ٲَمْرَہُ وَمُسْتَعِینٍ
نے اپنا کام اس کے سپرد کیا ہے.
بِہِ عَلَی شُؤُونِہِ
اپنے سبھی کاموں میں اس سے مدد
مُسْتَزِیدٍ مِنْ فَضْلِہِ
چاہتا ہے اس کے فضل کا زیادہ
مُبْرِئٍ نَفْسَہُ مِنْ کُلِّ
طلب گار ہے. اپنے نفس کو ہر
حَوْلٍ وَمِنْ کُلِّ قُوَّۃٍ
حرکت و قوت سے خالی جانتا ہے مگر
إلاَّ بِہِ خُرُوجَ ضَرِیرٍ
جو اس کی طرف سے ہو اس پریشان
خَرَجَ بِضُرِّہِ إلی مَنْ
کی طرح نکلا ہوں جو پریشانی دور
یَکْشِفُہُ وَخُرُوجَ فَقِیرٍ
کرنے والے کی طرف چلتا ہے،
خَرَجَ بِفَقْرِہِ إلی مَنْ
اس محتاج کی طرح نکلا ہوں جو
یَسُدُّہُ وَخُرُوجَ عائِلٍ
حاجت رواکی طرف جاتا ہے اس
خَرَجَ بِعَیْلَتِہِ إلیٰ مَنْ
بے مال کی طرح نکلا ہوں جو اس کی
یُغْنِیہاوَخُرُوجَ مَنْ
طرف جائے جو اسے غنی کرنے والا
رَبُّہُ ٲَکْبَرُ ثِقَتِہِ وَٲَعْظَمُ
ہے اس کی طرح نکلا ہوں جس کا
رَجائِہِ وَٲَفْضَلُ ٲُمْنِیَّتِہِ
سہارا رب اکبر ہے، وہی اس کی
اﷲُ ثِقَتِی فِی جَمِیعِ
بڑی امیدگاہ ہے اور اس کی آرزو
ٲُمُورِی کُلِّہا، بِہِ فِیہا
سے بلند ہے. تمام امور میں میرا
جَمِیعاً ٲَسْتَعِینُ وَلاَ
سہارا اﷲ ہے، سبھی امور میں اسی
شَیْئَ إلاَّ مَا شائَ اﷲُ
سے مدد مانگتا ہوں، کچھ نہیں ہوتا مگر
فِی عِلْمِہِ ٲَسْٲَلُ اﷲَ خَیْرَ
جو اﷲ اپنے علم میں چاہتا ہے میں
الْمَخْرَجِ وَالْمَدْخَلِ
اﷲ سے بہترین روانگی اور واپسی کا
لاَ إلہَ إلاَّ ہُوَ إلَیْہِ
سوالی ہوں نہیں ہے معبود مگر وہ اسی
الْمَصِیرُ۔
کی طرف لوٹنا ہے۔

﴿19﴾ شب زفاف کی نماز اور دعا:
امام محمد باقر - فرماتے ہیں کہ شادی کی پہلی رات جب دلہن کو تمہارے پاس لایا جائے تو اسے کہوکہ وضو کرے اور دو رکعت نماز بجالائے اور تم بھی وضو کر کے دورکعت نماز ادا کرو پھر خدا کی حمد و ثنائ کرو اور محمد(ص)(ص) و آل(ع) محمد(ص)(ص) پر درود بھیجو، اس کے بعد یہ دعا پڑھو اور دلہن کے ساتھ والی عورتوں سے کہو کہ وہ آمین کہتی جائیں:
اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِی إلْفَہا
اے معبود! تو مجھے اس کی الفت،
وَوُدَّہا وَرِضاہا
محبت اوررضا مندی عطا فرما
وَٲَرْضِنِی بِہا وَاجْمَعْ
مجھے اس سے راضی رکھ اور ہم
بَیْنَنا بِٲَحْسَنِ اجْتِماعٍ
دونوں میں یکجہتی پیدا کردے اور
وَآنَسِ ایْتِلافٍ فَ إنَّکَ
باہمی محبت عطا فرما کہ یقیناً
تُحِبُّ الْحَلالَ وَتَکْرَہُ
تو حلال کو پسند اور حرام کو
الْحَرامَ۔
نا پسند کرتا ہے۔
امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ شادی کی پہلی رات جب دلہن کے پاس جائو تو اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر اس کو قبلہ رخ کرکے یہ دعا پڑھو :
اَللّٰہُمَّ بِٲَمانَتِکَ
اے معبود! میں نے اسے تیری
ٲَخَذْتُہا وَبِکَلِماتِکَ
امانت کے طور پر لیا اور تیرے
اسْتَحْلَلْتُہا فَ إن قَضَیْتَ
کلمات کے ساتھ اپنے لیے حلال
لِی مِنْہا وَلَداً فَاجْعَلْہُ
بنایا پس اگر تو نے اس سے اولاد کا
مُبارَکاً تَقِیّاً مِنْ شِیعَۃِ
فیصلہ کیا ہے تو اسے بابرکت پرہیزگار
آلِ مُحَمَّدٍ وَلاَ تَجْعَلْ
اور آل(ع) محمد(ص)(ص) کے شیعوں میں رکھنا
لِلشَّیْطانِ فِیہِ شِرْکاً
اور ان بچوں میں شیطان کا کوئی
وَلاَ نَصِیباً۔
حصہ قرار نہ دینا۔

﴿20﴾ دعائے رہبہ ﴿خوف خدا﴾
مروی ہے کہ امام موسیٰ کاظم -رات کو جب محراب عبادت میں کھڑے ہوتے تو اسے پڑھا کرتے تھے اور یہ صحیفہ کاملہ کی پچاسویں دعا ہے:
اَللّٰہُمَّ إنَّکَ خَلَقْتَنِی
اے معبود! بے شک تو نے مجھے صحیح و
سَوِیّاًوَرَبَّیْتَنِی صَغِیراً
سالم پیدا کیا کم سنی میں میری
وَرَزَقْتَنِی مَکْفِیّاً۔
پرورش کی اور بلا زحمت رزق دیا۔
اَللّٰہُمَّ إنِّی وَجَدْتُ
اے معبود! تو نے جو کہ تو نے اپنے
فِیما ٲَنْزَلْتَ مِنْ کِتابِکَ
بندوں کو مژدہ دیا ہے، یہ کہہ کر کہ
وَبَشَّرْتَ بِہِ عِبادَکَ
اے میرے وہ بندو جنہوں نے
ٲَنْ قُلْتَ یَا عِبادِیَ
کتاب نازل کی میں نے اس میں
الَّذِینَ ٲَسْرَفُوا عَلَی
دیکھا اپنے اوپر زیادتی کی ہے تم
ٲَنْفُسِہِمْ لاَ تَقْنَطُوا مِنْ
اﷲ کی رحمت سے نا امید نہ ہونا،
رَّحْمَۃِ اﷲِ اِنَّ اﷲَ یَغْفِرُ
یقیناً اﷲ تمہارے سبھی گناہ معاف
الذُّنُوبَ جَمِیعاً وَ
کردے گا، مجھ سے ایسے گناہ
تَقَدَّمَ مِنِّی مَا عَلِمْتَ
ہوئے ہیں جن سے تو واقف ہے
وَما ٲَنْتَ ٲَعْلَمُ بِہِ مِنِّی
اور تو انہیں مجھ سے زیادہ جانتا ہے .
فَیا سَوْٲَتَاہُ مِمَّا ٲَحْصَاہُ
پس رسوائی ہے ان گناہوں سے جو
عَلَیَّ کِتابُکَ فَلَوْلاَ
تو نے میرے نام لکھے ہوئے ہیں،
الْمَواقِفُ الَّتِی ٲُؤَمِّلُ
لہذا اگر تیرے اس عفو و
مِنْ عَفْوِکَ الَّذِی
درگذر کے مواقع نہ ہوتے
شَمِلَ کُلَّ شَیْئٍ لاَََلْقَیْتُ
کہ جس نے ہر چیز کو
بِیَدِی وَلَوْ ٲَنَّ ٲَحَداً
گھیرا ہوا ہے تو میں خود کو ہلاک
اسْتَطاعَ الْہَرَبَ مِنْ
کرچکاتھا اگر کوئی اپنے
رَبِّہِ لَکُنْتُ ٲَنَا ٲَحَقُّ
رب کی گرفت سے نکل جانے پر
بِالْہَرَبِ مِنْکَ وَٲَنْتَ
قادر ہوتا تو میں تیرے
لاَ تَخْفیٰ عَلَیْکَ خافِیَۃٌ
ہاں سے بھاگنے کا زیادہ سزاوار تھا
فِی الْاََرْضِ وَلاَ فِی
اور تو وہ ہے جس پر زمین و آسمان
السَّمائِ إلاَّ ٲَتَیْتَ بِہا
میں پوشیدہ کوئی چیز پنہاں و مخفی نہیں
وَکَفَی بِکَ جازِیاً
مگر تو اسے عیاں کر دیگا اور تو حساب
وَکَفَی بِکَ حَسِیباً
لینے اور بدلہ دینے میں کافی ہے
اَللّٰہُمَّ إنَّکَ طالِبِی
اے معبود! اگر میں بھاگوں تو بھی
إنْ ٲَنَا ہَرَبْتُ وَمُدْرکِی
مجھے ڈھونڈلے گا اور دوڑ جائوں تو
إنْ ٲَنَا فَرَرْتُ فَہا ٲَنَاذَا
مجھے پا لے گا ،یہ ہوں میں، تیرے
بَیْنَ یَدَیْکَ خاضِعٌ
سامنے، عاجز، پست،سرنگوں، کھڑا
ذَلِیلٌ راغِمٌ إنْ تُعَذِّبْنِی
ہوں اگر تو مجھے عذاب
فَ إنِّی لِذلِکَ ٲَہْلٌ
کرے تو میں اس کے لائق ہوں
وَہُوَ یَارَبِّ مِنْکَ
اور اے رب یہ تیرا عدل ہے اور اگر
عَدْلٌ وَ إنْ تَعْفُ عَنِّی
تو معاف کر دے تو ہمیشہ تیری
فَقَدِیماً شَمَلَنِی عَفْوُکَ
معافی میرے لیے رہی ہے اور تو
وَٲَلْبَسْتَنِی عافِیَتَکَ
نے مجھے بچائے رکھا ہے
فٲَسْٲَلُکَ اَللّٰہُمَّ
پس سوال کرتا ہوں. اے معبود!
بِالْمَخْزُونِ مِنْ
تیرے پوشیدہ ناموں کے
ٲَسْمائِکَ وَبِما وارَتْہُ
وسیلے سے اور تیری بزرگی کے
الْحُجُبُ مِنْ بَہَائِکَ
وسیلے جوپردوں میں چھپی ہے.
إلاَّ رَحِمْتَ ہذِہِ
ہاں رحم فرما اس بے قرار
النَّفْسَ الْجَزُوعَۃَ
جان پر اور ہڈیوں کے
وَہذِہِ الرِّمَّۃَ الْہَلُوعَۃَ
اس کمزور ڈھانچے پر کہ
الَّتِی لاَ تَسْتَطِیعُ حَرَّ
جو تیرے سورج کی تپش
شَمْسِکَ، فَکَیْفَ
نہیں جھیل سکتا تو وہ کس طرح
تَسْتَطِیعُ حَرَّ نارِکَ
تیرے جہنم کی آگ کوبرداشت
وَالَّتِی لاَ تَسْتَطِیعُ
کرے گا اور وہ جو تیری بجلی کی
صَوْتَ رَعْدِکَ فَکَیْفَ
کڑک کی تاب نہیں لاسکتا تو کس
تَسْتَطِیعُ صَوْتَ
طرح تیرے غضب کی آواز سن
غَضَبِکَ فَارْحَمْنِی
سکے گا پس مجھ پر رحم کر
اَللّٰہُمَّ فَ إنِّی امْرِؤٌ حَقِیرٌ
اے معبود! کہ میں حقیر فرد
وَخَطَرِی یَسِیرٌ وَلَیْسَ
ہوںمیرے قدم کوتاہ ہیں مجھ پر
عَذابِی مِمَّا یَزِیدُ فِی
عذاب کرنے میں تیری حکومت
مُلْکِکَ مِثْقالَ ذَرَّۃٍ
میں ذرہ بھر اضافہ نہیں ہوگا اور اگر
وَلَوْ ٲَنَّ عَذابِی لَسَٲَلْتُکَ
مجھے عذاب کرنے میں تیری
الصَّبْرَ عَلَیْہِ وَٲَحْبَبْتُ
حکومت میں اضافہ ہوتا تو میں تجھ
ٲَنْ یَکُونَ ذلِکَ لَکَ
سے صبر مانگتا اور یہ چاہتاکہ تجھے یہ
وَلکِنْ سُلْطانُکَ
اضافہ حاصل ہوجائے، لیکن تیری حکومت
اَللّٰہُمَّ ٲَعْظَمُ وَمُلْکُکَ
اے معبود بہت بڑی ہے اور تیرا
ٲَدْوَمُ مِنْ ٲَنْ تَزِیدَ فِیہِ
ملک بے نیاز ہے اس سے کہ حکم
طاعَۃُ الْمُطِیعِینَ، ٲَوْ
ماننے والوں کی اطاعت سے بڑھتا
تَنْقُصَ مِنْہُ مَعْصِیَۃُ
ہویا گناہگاروں کی نافرمانی سے
الْمُذْنِبِینَ فَارْحَمْنِی
گھٹ جاتا ہو پس مجھ پر رحم فرما
یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ
اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے
وَتَجاوَزْ عَنِّی یَا ذَا
مجھے معاف کر دے اے دبدبے
الْجَلالِ وَالْاِکْرامِ
والے، عزت والے اور میری توبہ
وَتُبْ عَلَیَّ إنَّکَ ٲَنْتَ
قبول کر کہ تو بڑا توبہ قبول کرنے
التَّوَّابُ الرَّحِیمُ۔
والا مہربان ہے۔

ملحقات دوم باقیات الصالحات
حضرت امام سجاد زین العابدین- کی دعا جو توبہ اور اس کی طلب کے بارے میں ہے۔
اَللّٰہُمَّ یَا مَنْ لاَ یَصِفُہُ
اے معبود اے وہ کہ تعریف کرنے والے
نَعْتُ الْواصِفِینَ وَیَا
جس کی تعریف سے قاصر ہیں
مَنْ لاَ یُجاوِزُہُ رَجائُ
اے وہ کہ امیدداروں کی امید اس
الرَّاجِینَ، وَیَا مَنْ لاَ
سے آگے نہیں جاتی. اے وہ کہ جس
یَضِیعُ لَدَیْہِ ٲَجْرُ
کے ہاں نیکوکاروں کا اجر
الْمُحْسِنِینَ وَیَا مَنْ
ضائع نہیں ہوتااے وہ جو عبادت
ہُوَ مُنْتَہَیٰ خَوْفِ
گزاروں کے خوف کی آخری
الْعابِدِینَ وَیَا مَنْ ہُوَ
منزل ہے اور اے وہ جو پر
غایَۃُ خَشْیَۃِ الْمُتَّقِینَ
ہیزگار کے ہر اس کی حد آخر ہے.
ہذَا مَقامُ مَنْ تَداوَلَتْہُ
یہ کھڑا ہے وہ شخص جو گناہوں
ٲَیْدِی الذُّنُوبِ وَقادَتْہُ
کے ہاتھوں میں کھیلتا ہے اور
ٲَزِمَّۃُ الْخَطایَا وَاسْتَحْوَذَ
خطائوں کی باگیں جسے کھینچ رہی
عَلَیْہِ الشَّیْطانُ فَقَصَّرَ
ہیں. جس پر شیطان نے غلبہ
عَمَّا ٲَمَرْتَ بِہِ تَفْرِیطاً
کر لیا ہے، لہذا اس نے تیرے
وَتَعاطَی مَا نَہَیْتَ عَنْہُ
حکم کی پروا نہ کی اور فرض پورا نہ کیا
تَعْزِیراً کَالْجاہِلِ
فریب خوردہ ہو کر تیری منہیات کا
بِقُدْرَتِکَ عَلَیْہِ ٲَوْ
مرتکب ہوتا ہے، گویا خود کو تیرے
کَالْمُنْکِرِ فَضْلَ
قبضہ قدرت میں تصور نہیں کرتا یا جو
إحْسانِکَ إلَیْہِ حَتَّی
احسان تو نے اس پر کیے وہ انہیں
إذَا انْفَتَحَ لَہُ بَصَرُ
مانتا نہیں ہے مگر جب اس کی
الْہُدَیٰ وَتَقَشَّعَتْ
بصیرت کی آنکھ کھلی اور اندھیرے
عَنْہُ سَحائِبُ الْعَمَی
کے با دل اس کے آگے سے ہٹے تو
ٲَحْصَی مَا ظَلَمَ بِہِ
اس نے اپنے نفس پر کیے ہوئے
نَفْسَہُ وَفَکَّرَ فِیما
مظالم کا جائزہ لیا اپنے پرورگار سے
خالَفَ بِہِ رَبَّہُ فَرَٲَی
مخالفتوں پر نظر کی تو اس نے دیکھا
کَبِیرَ عِصْیانِہِ کَبِیراً
کہ اس نے بڑے بڑے گناہ کیے
وَجَلِیلَ مُخالَفَتِہِ جَلِیلاً
اور کھلی ہوئی مخالفتیں کی ہیں پس وہ
فَٲَقْبَل نَحْوَکَ مُؤَمِّلاً
تیری طرف آیا جب کہ امیدوار ہے
لَکَ مُسْتَحْیِئاً مِنْکَ
اور شرمسار بھی ہے وہ تیری طرف
وَوَجَّہَ رَغْبَتَہُ إلَیْکَ
بڑھا تجھ پر اعتماد کرتے ہوئے،
ثِقَۃً بِکَ فَٲَمَّکَ
تیری طرف جھک پڑا ہے یقین
بِطَمَعِہِ یَقِیناً وَقَصَدَکَ
کے ساتھ اور ڈرتا ہوا سچے دل سے
بِخَوْفِہِ إخْلاصاً قد خَلا
تیری طرف چلا جب کہ تیرے
طَمَعُہُ مِنْ کُلِّ مَطْمُوعٍ
علاوہ اسے کسی سے غرض و مطلب
فِیہِ غَیْرُکَ وَٲَفْرَخَ
نہیں ہے اس نے تیرے سوا ہر
رَوْعُہُ مِنْ کُلِّ مَحْذُورٍ
ایک کا خوف دل سے نکال دیا جس
ٓمِنْہُ سِواکَ فَمَثَلَ
سے خوف کرتا تھا. چنانچہ وہ تیرے
بَیْنَ یَدَیْکَ مُتَضَرِّعاً
سامنے عاجزا نہ طور پر آکھڑا ہے
وَغَمَّضَ بَصَرَہُ إلَی
اس نے ڈرکے مارے اپنی نگاہیں
الْاََرْضِ مُتَخَشِّعاً وَطَٲْطَٲَ
زمین پر گاڑدی ہیں . تیری عزت
رَٲْسَہُ لِعِزَّتِکَ مُتَذَلِّلاً
کے سامنے عاجزی سے سر جھکا لیا
وَٲَبَثَّکَ مِنْ سِرِّہِ مَا
ہے. اس نے عجزسے اپنے چھپے راز
ٲَنْتَ ٲَعْلَمُ بِہِ مِنْہُ
تیرے آگے کھول دیئے جن کو تو اس
خُضُوعاً، وَعَدَّدَ مِنْ
سے زیادہ جانتا ہے عاجزی کے
ذُنُوبِہِ مَا ٲَنْتَ ٲَحْصَیٰ
ساتھ اپنے وہ گناہ گنوائے جن کو تو
لَہا خُشُوعاً وَاسْتَغاثَ
نے خوب شمار کیا ہوا ہے. وہ تجھ سے
بِکَ مِنْ عَظِیمِ مَا
فریاد کرتا ہے اپنے بڑے بڑے
وَقَعَ بِہِ فِی عِلْمِکَ
گناہوں پر جو تیرے علم میں ہیں
وَقَبِیحِ مَا فَضَحَہُ فِی
اورتیرے فیصلے میں اس کے لیے
حُکْمِکَ مِنْ ذُنُوبٍ
رسوا کن ہیں وہ گناہ جو اس نے کیے
ٲَدْبَرَتْ لَذَّاتُہا فَذَہَبَتْ
ان کی لذتیںجاتی رہیں اوران کا
وَٲَقامَتْ تَبِعاتہا فَلَزِمَتْ
وبال اس کی گردنپر باقی رہ گیا ہے.
لاَ یُنْکِرُ یَا إلہِی عَدْلَکَ
اے معبود! اگر تو اسے سزادے تو وہ
إنْ عاقَبْتَہُ وَلاَ یَسْتَعْظِمُ
تیرے عدل سے منکر نہیں ہوگا
عَفْوَکَ إنْ عَفَوْتَ
اوراگر تو اسے معاف کردے اور
عَنْہُ وَرَحِمْتَہُ لاََِنَّکَ
ترس کھائے. وہ تیرے عفو کو عیب
الرَّبُّ الْکَرِیمُ الَّذِی
نہیں سمجھے گا . کیونکہ تو وہ رب کریم ہے
لاَ یَتَعاظَمُہُ غُفْرانُ
جس کیلئے کسی بڑے سے بڑے گناہ کا
الذَّنْبِ العَظِیمِ اَللّٰہُمَّ
بخشنا کچھ مشکل نہیں تو اے معبود!
فَہا ٲَنَاذَا قَدْجِئْتُکَ
یہ ہوں میں جو تیری بارگاہ میں آیا
مُطِیعاً لِاَمْرِکَ فِیما
ہوں تیرے اس حکم پر عمل کرتے
ٲَمَرْتَ بِہِ مِنَ الدُّعائِ
ہوئے جس میں تو نے دعا کی تاکید
مُتَنَجِّزاً وَعْدَکَ
کی ہے تیرے اس وعدے کا ایفائ
فِیما وَعَدْتَ بِہِ مِنَ
چاہتا ہوں جس میں تو نے قبولیت
الْاِجابَۃِ، إذْ تَقُولُ
دعا کایقین دلایا جب یہ فرمایا کہ مجھ
ادْعُونِی ٲَستَجِبْ
سے دعا مانگ، میں اسے قبول
لَکُمْ اَللّٰہُمَّ فَصَلِّ عَلَی
کروں گا. اے معبود! پس رحمت
مُحَمَّدٍ وَآلِہِ وَالْقَنِی
فرما محمد(ص)(ص) اور ان کی آل(ع) پر اور اپنی
بِمَغْفِرَتِکَ کَما
مغفرت میرے شامل حال فرما جیسے
لَقِیتُکَ بِ إقْرَارِی
میں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا
وَارْفَعْنِی عَنْ مَصارِعِ
ہے مجھے گناہوں کی قتل گاہ سے
الذُّنُوبِ کَما وَضَعْتُ
بچالے جیسا کہ میں نے خود کو
لَکَ نَفْسِی وَاسْتُرْنِی
تیرے در پر لاڈالا ہے اپنے دامن
بِسِتْرِکَ کَما تَٲَنَّیْتَنِی
سے میری پردہ پوشی فرما جیسے انتقام
عَنِ الانْتِقامِ مِنِّی
لینے میں صبر و تحمل کیا ہے.
اَللّٰہُمَّ وَثَبِّتْ فِی
اے معبود! میری نیت کو اپنی
طاعَتِکَ نِیَّتِی وَٲَحْکِمْ
اطاعت میں استوار کردے اور اپنی
فِی عِبادَتِکَ بَصِیرَتِی
عبادت کو میری بصیرت میں محکم
وَوَفِّقْنِی مِنَ الْاََعْمالِ
بنادے مجھے ان اعمال
لِما تَغْسِلُ بِہِ دَنَسَ
کی توفیق دے جن سے تو
الْخَطایَا عَنِّی وَتَوَفَّنِی
میرے گناہوں کا میل کچیل
عَلَی مِلَّتِکَ الْخَطایَا
دھو ڈالے اور جب تو
عَنِّی وَتَوَفَّنِی عَلَی
مجھے اس دنیا سے اٹھائے
مِلَّتِکَ وَمِلَّۃِ نَبِیِّکَ
تو اپنے دین اور اپنے نبی
مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ اَلسَّلَامُ
حضرت محمد(ص) کے آئین
إذا تَوَفَّیْتَنِی اَللّٰہُمَّ
پر اٹھانا. اے معبود!
إنِّی ٲَتُوبُ إلَیْکَ
میں اس مقام پر تیرے
فِی مَقامِی ہذَا مِنْ
حضور توبہ کرتا ہوں اپنے
کَبائِرِ ذُنُوبِی وَصَغائِرِہا
بڑے گناہوں اور چھوٹے
وَبَواطِنِ سَیِّئَاتِی
گناہوں سے اپنی پوشیدہ
وَظَواہِرِہا وَسَوَالِفِ
برائیوں سے پچھلی غلطیوں
زَلاَّتِی وَحَوَادِثِہا،
سے اور موجودہ غلطیوں
تَوْبَۃَ مَنْ اَ یُحَدِّثُ
سے اس شخص کی سی توبہ جو
نَفْسَہُ بِمَعْصِیَۃٍ، وَلاَ
دل میں گناہ کا خیال بھی نہ لائے
یُضْمِرُ ٲَنْ یَعُودَ فِی
اور گناہ کی طرف واپسی کا
خَطِیئَۃٍ وَ قَدْقُلْتَ یَا
تصور بھی نہ کرے. اے میرے
إلہِی فِی مُحْکَمِ
معبود یقیناً تو نے اپنی محکم
کِتابِکَ إنَّکَ تَقْبَلُ
کتاب میں فرمایا ہے کہ تو اپنے
التَّوْبَۃَ عَنْ عِبادِکَ
بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے،
وَتَعْفُو عَنِ السَّیِّئاتِ
ان کے گناہ معاف کرتا ہے
وَتُحِبُّ التَّوَّابِینَ،
اور توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے
فَاقْبَلْ تَوْبَتِی کَما
پس میری توبہ قبول فرما جیسے
وَعَدْتَ وَاعْفُ عَنْ
تو نے وعدہ کیا ہے. میرے گناہ
سَیِّئاتِی کَما ضَمِنْتَ
معاف فرما جیسے تونے ذمہ لیا ہے
وَٲَوْجِبْ لِی مَحَبَّتَکَ
اور قرار داد کے مطابق اپنی محبت
کَما شَرَطْتَ وَلَکَ
میرے لیے ضرورت فرما دے.
یَارَبِّ شَرْطِی ٲَلاَّ
اے پروردگار! میں تجھ سے اقرار کرتا
ٲَعُودَ فِی مَکْرُوہِکَ
ہوں کہ تیری ناپسند چیزوں کی طرف
وَضَمانِی ٲَلاّ ٲَرْجِعَ
رجوع نہیں کرونگا اور تیری نفرت کی
فِی مَذْمُومِکَ
چیزوں کی طرف رخ نہیں کرو ں گا .
وَعَہْدِی ٲَنْ ٲَہْجُرَ
یہ عہد بھی کرتا ہوں کہ تیری
جَمِیعَ مَعاصِیکَ۔
نافرمانیاں چھوڑدوں گا
اَللّٰہُمَّ إنَّکَ ٲَعْلَمُ
اے معبود! تو میرے عمل سے اچھی
بِما عَمِلْتُ، فَاغْفِرْ
طرح آگاہ ہے پس جو کچھ تیرے علم
لِی مَا عَلِمْتَ وَاصْرِفْنِی
میں ہے وہ معاف کردے اور اپنی قدرت
بِقُدْرَتِکَ إلی مَا
سے مجھے اس عمل کی طرف موڑدے
ٲَحْبَبْتَ اَللّٰہُمَّ وَعَلَیَّ
جو تجھے پسند ہے. اے معبود! مجھ پر
تَبِعاتٌ قَدْحَفِظْتُہُنَّ وَتَبِعاتٌ
کتنے ہی حقوق میں جو مجھے یاد ہیں اور کتنے
قَدْ نَسِیتُہُنَّ وَکُلُّہُنَّ
ہی حقوق ہیں جو میں بھول گیا ہوں
بِعَیْنِکَ الَّتِی لاَ تَنامُ
وہ سب تیری آنکھ کے سامنے ہیں
وَعِلْمِکَ الَّذِی
جو سوتی نہیں تیرے علم میں ہیں جو
لاَ یَنْسَیٰ فَعَوِّضْ مِنْہا
بھولتا نہیں، پس وہ میری طرف سے
ٲَہْلَہا وَاحْطُطْ عَنِّی
حقداروں کو پہنچا دے. مجھ پر سے
وِزْرَہا وَخَفِّفْ عَنِّی
ان کا بوجھ اتار دے، ان کا بارم مجھ
ثِقْلَہا وَاعْصِمْنِی مِنْ
سے ہلکا کر دے اور پھر مجھ کو ایسے
ٲَنْ ٲُقارِفَ مِثْلَہا اَللّٰہُمَّ
گناہوں سے محفوظ فرما. اے معبود!
وَ إنَّہُ لاَ وَفائَ لِی بِالتَّوْبَۃِ
میں توبہ پر قائم نہیں رہ سکتا
إلاَّ بِعِصْمَتِکَ وَلاَ
مگر تیری حفاظت و نگہبانی کے
اسْتِمْساکَ بِی عَنِ
ساتھ اور میں گناہوں سے باز نہیں
الْخَطایَا إلاَّ عَنْ قُوَّتِکَ
رہ سکتا مگر تیری دی ہوئی طاقت سے
فَقَوِّنِی بِقُوَّۃٍ کافِیَۃٍ،
مجھے اس کے لیے پوری قوت دے،
وَتَوَّلَنِی بِعِصْمَۃٍ مانِعَۃٍ
مجھے گناہوں سے روکنے کا ذمہ لے
اَللّٰہُمَّ ٲَیُّمَا عَبْدٍ تَابَ
اے معبود! وہ بندہ جو تیرے حضور
إلَیْکَ وَہُوَ فِی عِلْمِ
توبہ کرلے، تیرے علم غیب میں وہ
الْغَیْبِ عِنْدَکَ فاسِخٌ
توبہ کو توڑ نے والا، اپنے گناہوں کی
لِتَوْبَتِہِ وَعائِدٌ فِی ذَنْبِہِ
طرف واپس جانے اور خطائوں کی
وَخَطِیئَتِہِ فَ إنِّی ٲَعُوذُ
طرف پلٹنے والا ہو تو تیری پناہ لیتا
بِکَ ٲَنْ ٲَکُونَ کَذَلِکَ
ہوں کہ میں ویسا بن جائوں
فَاجْعَلْ تَوْبَتِی ہذِہِ
پس تو میری اس توبہ کو ایسا بنا دے
تَوْبَۃً لاَ ٲَحْتاجُ بَعْدَہا
کہ اسکے بعد توبہ کرنے کی ضرورت
إلی تَوْبَۃٍ تَوْبَۃً مُوجِبَۃً
نہ پڑے یہ ایسی توبہ بن جائے جس
لَِمحْوِ مَا سَلَفَ
سے پچھلے گناہ مٹ جائیں اور
وَالسَّلامَۃِ فِیما بَقِیَ۔
آیندہ اس سے مجھے بچائے رکھ.
اَللّٰہُمَّ إنِّی ٲَعْتَذِرُ إلَیْکَ
اے معبود! میں جہالت کا
مِنْ جَہْلِی وَٲَسْتَوہِبُکَ
عذر لاتا ہوں اور اپنے گناہوں پر
سُوئَ فِعْلِی فَاضْمُمْنِی
بخشش طلب کرتا ہوں پس اپنے
اِلیٰ کَنَفِ رَحْمَتِکَ
کرم سے مجھے اپنے دامن رحمت میں
تَطَوَّلاًوَاسْتُرنِی لِسَتْرِ
پناہ دے، مجھے اپنی مہربانی سے عافیت
عَافِیْتِکَ تَفَضُّلاً اَللّٰھُمَّ
کے پردے میں چھپالے اور اے
وَاِنِّیٲَتُوبُ إلَیْکَ مِنْ
معبود! میں تیرے حضور توبہ
کُلِّ مَا خالَفَ إرادَتَکَ
کرتا ہوں ان باتوں سے جو تیرے
ٲَوْ زالَ عَنْ مَحَبَّتِکَ
ارادہ کے خلاف ہوں اور ان
مِنْ خَطَرَاتِ قَلْبِی،
خیالوں سے جو تیری
وَلَحَظاتِ عَیْنِی،
محبت سے باہر نکالتے ہوں
وَحِکایاتِ لِسانِی،
آنکھ کے اشاروں سے
تَوْبَۃً تَسْلَمُ بِہا کُلُّ
اور لغو باتوں سے
جارِحَۃٍ عَلَی حِیالِہا
توبہ کرتا ہوں جس
مِنْ تَبِعاتِکَ وَتَٲْمَنُ
سے میرا ہر عضو اپنی جگہ پر تیری سزائوں
مِمَّا یَخافُ الْمُعْتَدُونَ
سے محفوظ رہے، ان سخت عذابوں سے بچا رہوں
مِنْ ٲَلِیمِ سَطَوَاتِکَ۔
جن سے سرکش لوگ بہت ڈرتے ہیں.
اَللّٰہُمَّ فَارْحَمْ وَحْدَتِی
پس اے معبود! رحم فرما کہ میں
بَیْنَ یَدَیْکَ وَوَجِیبَ
تیرے حضور تنہا ہوں،
قَلْبِی مِنْ خَشْیَتِکَ
میرا دل تیرے خوف سے
وَاضْطِرَابَ ٲَرْکانِی
کا نپتا ہے. میرے اعضائ
مِنْ ہَیْبَتِکَ قَدْٲَقامَتْنِی
تیرے دبدبہ سے تھراتے ہیں
یَارَبِّ ذُنُوبِی مَقامَ
پس اے پروردگار میرے گناہوں
الْخِزْیِ بِفِنائِکَ،
نے مجھے تیرے سامنے رسوائی سے
فَ إنْ سَکَتُّ لَمْ یَنْطِقْ
کھڑا کردیا ہے لہذا اگر چپ رہوں
عَنِّی ٲَحَدٌ وَ إنْ شَفَعْتُ
تو میری طرف سے کوئی بولنے والا
فَلَسْتُ بِٲَہْلِ الشَّفاعَۃِ۔
نہیں، اگر وسیلہ لائوں تو اسکے لائق نہیں ہوں
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ
اے معبود! رحمت فرما محمد(ص) اور ان کی
وَآلِہِ وَشَفِّعْ فِی خَطَایَایَ
آل(ع) پر اوراپنے کرم کو میری خطائوں
کَرَمَکَ وَعُدْ عَلَی
کا سفارشی بنا. اپنے فضل سے
سَیِّئاتِی بِعَفْوِکَ وَلاَ
میرے گناہ معاف کردے. جس
تُجْزِنِی جَزائِی مِنْ
سزا کے قابل ہوں ،مجھے وہ سزا نہ
عُقُوبَتِکَ وَابْسُطْ
دے، اپنا دامن کرم مجھ پر
عَلَیَّ طَوْلَکَ وَجَلِّلْنِی
پھیلا دے اور مجھے اپنے عفو سے
بِسِتْرِکَ وَافْعَلْ بِی
ڈھانپ لے. مجھ سے اس بااقتدار
فِعْلَ عَزِیزٍ تَضَرَّعَ
کی طرح برتائو کر کہ جس کے
إلَیْہِ عَبْدٌ ذَلِیلٌ فَرَحِمَہُ
سامنے کوئی کمتر بندہ گڑ گڑائے تو رحم
ٲَوْ غَنِیٍّ تَعَرَّضَ لَہُ
کرتا ہے یا اس مالدار کی طرح جس
عَبْدٌ فَقِیرٌ فَنَعَشَہُ۔
سے محتاج سوال کرے تو اسے سہارا دیتا ہے
اَللّٰہُمَّ لاَ خَفِیرَ لِی
اے معبود! تیرے عذاب سے
مِنْکَ فَلْیَخْفُرْنِی
میرے لیے کوئی پناہ نہیں ، تیری
عِزُّکَ وَلاَ شَفِیعَ
عزت ہی پناہ دے گی. تیرے حضور
لِی إلَیْکَ فَلْیَشْفَعْ
میرا کوئی شفیع نہیں پس اپنے کرم کو
لِی فَضْلُکَ وَ ٲَوْجَلَتْنِی
میرا شفیع بنادے، میرے گناہوں
خَطایایَ فَلْیُؤْمِنِّی
نے مجھے ہراساں کر دیا ہے
عَفْوُکَ، فَما کُلُّ
تو تیری درگزر ہی سکون دے گی
مَا نَطَقْتُ بِہِ عَنْ
یہ سب کچھ جو میں کہہ رہا ہوں
جَہْلٍ مِنِّی بِسُوئِ ٲَثَرِی
اس لیینہیں کہ اپنی برائیوں سے
وَلاَ نِسْیانٍ لِما سَبَقَ
ناواقف اور اپنے پچھلی بدیوں کو
مِنْ ذَمِیمِ فِعْلِی لَکِنْ
فراموش کیے ہوئے ہوں، بلکہ
لِتَسْمَعَ سَمَاؤُکَ
اس کے لیے تیراآسمان
وَمَنْ فِیہا وَٲَرْضُکَ
اور اس میں رہنے والے تیری زمین
وَمَنْ عَلَیْہا مَا ٲَظْہَرْتُ
اور اس پر رہنے والے،
لَکَ مِنَ النَّدَمِ،
میرے اظہار و ندامت کو
وَلَجَٲْتُ إلَیْکَ فِیہِ
تجھ سے جوپناہ مانگی ہے اسے
مِنَ التَّوْبَۃِ، فَلَعَلَّ
اور میری توبہ کوبھی سن لیں تا کہ تیری
بَعْضَہُمْ بِرَحْمَتِکَ
رحمت سے کسی کو میرے حال پر رحم
یَرْحَمُنِی لِسُوئِ مَوْقِفِی
آجائے. یامیری پریشان حالی پر
ٲَوْ تُدْرِکُہُ الرِّقَّۃُ عَلَیَّ
اس کا دل نرم پڑے
لِسُوئِ حالِی فَیَنالَنِی
تو میرے حق میں دعا کرے
مِنْہُ بِدَعْوَۃٍ ہِیَ ٲَسْمَعُ
جس کی دعا تیرے ہاں
لَدَیْکَ مِنْ دُعائِی،
میری دعا سے زیادہ مقبول ہو،
ٲَوْ شَفاعَۃٍ ٲَوْکَدُ
یا کوئی سفارش پائوں جو
عِنْدَکَ مِنْ شَفاعَتِی
تیرے ہاں میری درخواست ہے
تَکُونُ بِہا نَجاتِی مِنْ
زیادہ موثر ہو کہ غضب سے
غَضَبِکَ، وَفَوْزِی
نجات اور تیری خوشنودی
بِرِضاکَ۔ اَللّٰہُمَّ إنْ
کا پروانہ لے لوں. اے معبود! اگر
یَکُنِ النَّدَمُ تَوْبَۃً إلَیْکَ
تیرے سامنے پشیمانی ہے تو یہ ہے
فَٲَنَا ٲَنْدَمُ النَّادِمِینَ وَ إنْ
تو میں پشیمان ہونے والوں میں ہوں
یَکُنِ التَّرْکُ لِمَعْصِیَتِکَ
اگر تیری نافرمانی کو چھوڑنا توبہ ہے
إنَابَۃً فَٲَنَا ٲَوَّلُ الْمُنِیبِینَ
تو میں تیرے حضور توبہ کرنے والوں
وَ إنْ یَکُنِ الاسْتِغْفارُ
میں پہلا فرد ہوں اگر طلب بخشش گناہوں
حِطَّۃً لِلذُّنُوبِ فَ إنِّی
کو مٹاتی ہے تو میں تجھ سے بخشش
لَکَ مِنَ الْمُسْتَغْفِرِینَ
طلب کرنے والوں میں ہوں.
اَللّٰہُمَّ فَکَما ٲَمَرْتَ
اے معبود! جب کہ تو نے توبہ کرنے
بِالتَّوْبَۃِ وَضَمِنْتَ
کا حکم دیا اور قبول کرنے کا
الْقَبُولَ، وَحَثَثْتَ
ذمہ لیا، دعا مانگنے پر آمادہ کیا
عَلَی الدُّعائِ وَوَعَدْتَ
اور اسے پورا کرنے کا وعدہ
الْاِجابَۃَ فَصَلِّ عَلَی
دیا ہے، تو رحمت فرما
مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ
محمد(ص)(ص) پر اور آل(ع) محمد(ص)(ص) پر
وَاقْبَلْ تَوْبَتِی، وَلاَ
اور قبول فرما میری توبہ اپنی
ٓتَرْجِعْنِی مَرْجِعَ الْخَیْبَۃِ
رحمت سے مجھے ناامیدی کے
مِنْ رَحْمَتِکَ إنَّکَ
ساتھ نہ پلٹا کہ بے شک
ٲَنْتَ التَّوَّابُ عَلَی
تو گناہگاروں کی توبہ قبول
الْمُذْنِبِینَ، وَالرَّحِیمُ
کرنے والا رجوع کرنے والے
لِلْخاطِیِئنَ الْمُنِیبِین
خطاکاروں پر مہربان ہے.
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ
اے معبود! رحمت فرما محمد(ص)(ص) اور ان کی
وَآلِہِ کَما ہَدَیْتَنا بِہِ
آل(ع) پر جن کے ذریعے ہمیں ہدایت
وَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ
دی اور رحمت فرما محمد(ص)(ص)
وَآلِہِ کَمَا اسْتَنْقَذْتَنا
اور ان کی آل(ع) پر جس طرح ان کے
بِہِ وَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ
ذریعے گمراہی سے نکالا اور رحمت
وَآلِہِ صَلاۃً تَشْفَعُ لَنا
فرما محمد(ص)(ص) اور ان کی آل(ع) پر ایسی رحمت
یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَیَوْمَ
جو ہماری سفارش کرے جب ہم
الْفاقَۃِ إلَیْکَ إنَّکَ
تیرہی محتاج ہوں گے. بے شک تو
عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیر
ہی ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
وَہُوَ عَلَیْکَ یَسِیرٌ۔
اور یہ تیرے لیے آسان ہے۔


تَمَّت بِتُوْفِیْقِ اﷲِ تَعَالیٰ

خاتمہ موت کے آداب اور اس سے متعلق چند دعائیں

﴿خاتمہ﴾
﴿خاتمہ موت کے آداب اور اس سے متعلق چند دعائیں﴾

موت کے آثار رونما ہونے پر توبہ کرے
جاننا چاہیئے کہ جب کسی فرد پر موت کے آثار ظاہر ہونے لگیں تو جسے سب سے پہلے مرنے والے کے حالات کو سنبھالنا چاہیئے وہ خود مرنے والا ہی ہے جس کو آخرت کا سفر در پیش ہے اور اسے اس سفر کے لیے زاد راہ کی ضرورت ہے . پس سب سے پہلا اور ضروری کام جو اسے کرنا چاہیئے وہ اپنے گناہوں کا اعتراف اور کوتاہیوں کا اقرار ہے کہ گذشتہ پر ندامت کے ساتھ صدق دل سے توبہ کرے اور خدائے تعالیٰ کی بارگاہ میں آہ و زاری کرے کہ وہ اس کے گزشتہ گناہوں کو معاف کر دے اور پیش آمدہ حالات اور ہولناک واقعات میں اس کو نہ تو خود اس کے حوالے کرے اور نہ دوسروں کے سپرد کرے .
حقوق اﷲ اور حقوق العباد کی طرف توجہ
پھر اپنی مصیبت کی طرف توجہ کرے اور حقوق اﷲ و حقوق العباد جو اس کے ذمے نکلتے ہیں انہیں خود ادا کرے اور دوسروں کے سپرد نہ کرے کیونکہ مرنے کے بعد اس کے سبھی اختیارات اوروں کے ہاتھ آجاتے ہیں اور اس کے پاس نہیں رہتے، پھر وہ اپنے مال و متاع کو حسرت کی نگاہوں سے دیکھتا رہتا ہے تب جن و انس میں سے شیطان اس مرنے والے کے وارثوں کے دلوں میں وسوے ڈالتے رہتے ہیں اور اس امر میں مانع ہوتے ہیں کہ وہ اس کے ذمے رہ جانے والے واجبات سے اس کو بری کریں . اس وقت یہ بات اس کے بس سے باہر ہوتی ہے کہ کسی سے یہ کہے کہ اسے دنیا میں لوٹا یاجائے تا کہ وہ اپنے مال سے شائستہ اعمال بجا لائے اس وقت اس کی چیخ و پکار کوئی نہیں سنتا اور اس کی حسرت و پشیمانی بے سود ہوتی ہے لہذا وہ اپنے مال میں ایک تہائی کی وصیت کر دے کہ یہ اس کے قریبی رشتہ داروں کو دیاجائے اور اس میں سے صدقہ و خیرات اور جو اس کے مناسب حال ہے خرچ کیا جائے ،کیونکہ وہ ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کا اختیار نہیں رکھتا پھر وہ اپنے مومن بھائیوں سے معافی مانگے کہ ان کے جو حقوق اس پر ہیں ان سے بری الذمہ ہو جائے مثلاً جس کی غیبت کی ہے یا توہین کی ہے یا کسی کو دکھ پہنچایا ہے وہ افراد موجود ہوں تو ان سے التماس کرے کہ وہ اسے معاف کر دیں اگر وہ موجود نہ ہوں تو مومن بھائیوں سے درخواست کرے کہ وہ اس کی معافی کے لیے دعا مانگیں تاکہ جو کچھ اس کے ذمہ ہے وہ اس سے بری اور سبکدوش ہو جائے پھر اپنے اہل و عیال اور اولاد کے معاملات کو خداوند کریم پر توکل کے بعد کسی امانت دار شخص کے سپرد کرے اور اپنے چھوٹے بچوں کے لیے کوئی وصی مقرر کرے اس کے بعد اپنا کفن منگوائے اور جو کچھ مفصل کتابوں میں درج ہے، یعنی کلمہ شہادتین ، اذکار، عقائد، دعائیں، اور آیات اس پر خاک شفا سے لکھوائے ، یہ اس صورت میں ہے کہ اس سے پہلے غفلت میں رہا اور اپنا کفن تیار کر کے نہ رکھا ہو ورنہ مومن کو چاہیئے کہ وہ ہمیشہ اپنا کفن تیار کر کے رکھے ،جو ہر وقت اس کے پاس موجود رہے . جیسا کہ امام جعفر صادق - فرماتے ہیں کہ جس شخص کا کفن اس کے گھر میں موجود ہوتا ہے اس کو غافلوں کی فہرست میں نہیں لکھا جاتا اور وہ جب بھی اپنے کفن پر نظر کرتا ہے تو اسے ثواب ملتا ہے اور اب اپنے بیوی بچوں سے بے فکر ہوکر پوری طرح سے بارگاہ رب العزت کی طرف متوجہ ہوجائے اور اس کی یاد میں لگ جائے یہ فکر کرے کہ یہ فانی امور اس کے کام نہیں آئیں گے اور پروردگار کی مہربانی اور اس کے لطف و کرم کے بغیر دنیا و آخرت میں کوئی چیز اسے فائدہ نہیں دے گی اور اس کی فریاد رسی نہیں کرے گی۔ اس بات کا یقین کرے کہ اگر حق تعالیٰ کی ذات پر توکل کرے گا تو اس کے پسماندگان کے تمام معاملات اچھے طریقے سے انجام پائیں گے اور یہ بھی ذہن میں رکھے کہ اگر وہ خود زندہ رہ جائے تو بھی مشیت الٰہی کے بغیر و ہ انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا نہ ان سے کسی ضرر کو دور کر سکے گا اور جس خدا نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان پر خود اس سے بھی زیادہ مہربان ہے ،اس وقت اسے رحمت خداوندی کا بہت زیادہ امیدوار ہونا چاہیئے. نیز حضرت رسول(ص) اکرم اور ائمہ معصومین کی شفاعت کی آس رکھنی چاہیئے ان کی تشریف آوری کا منتظر ہونا چاہیئے ، بلکہ اس بات کا یقین رکھنا چاہیئے کہ وہ ذوات مقدسہ اس وقت تشریف فرما ہوتی اور اپنے شیعوں کو خوشخبریاں دیتی ہیں اور ملک الموت سے ان کے بارے میں سفارشیں کرتی ہیں
تاکید در امر وصیت
شیخ طوسی(رح) مصباح المتہجد میں فرماتے ہیں کہ وصیت کرنا مستحب ہے اور انسان اسے ترک نہ کرے کیونکہ روایت میں ہے کہ انسان کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ کوئی ایسی رات بسر نہ کرے جس میں وصیت نامہ اس کے سر ہانے نہ پڑا ہو ، بیماری کی حالت میں اس کے بارے میں زیادہ تاکید کی گئی ہے اور ضروری ہے کہ اچھی سے اچھی وصیت کرے اپنے آپ کو حقوق اﷲسے عہدہ برآ کرے اور لوگوں پر کیے ہوئے، مظالم سے گلو خلاصی کرائے حضرت رسول اﷲ سے روایت ہے کہ جو شخص موت کے وقت اچھی وصیت نہ کرے تو اس کی عقل اور مروت میں نقص ہوتا ہے، لوگوں نے پوچھا یارسول(ص) اﷲ! کیسی وصیت اچھی ہوتی ہے؟ آپ(ع) نے فرمایا: جب انسان کا وقت وفات قریب ہو اور لوگ اس کے پاس جمع ہوں تو یہ کہے:
اَللّٰہُمَّ فاطِرَ السَّمٰوَاتِ
اے معبود! اے آسمانوں اور زمین
وَالْاََرْضِ عالِمَ الْغَیْبِ
کے پیدا کرنے والے نہاں و عیاں
وَالشَّہادَۃِ الرَّحْمنَ
کے جاننے والے بڑے رحم والے
الرَّحِیمَ، إنِّی ٲَعْہَدُ
مہربان میں تجھ سے عہد کرتا ہوں ،
إلَیْکَ ٲَنِّی ٲَشْہَدُ ٲَنْ
میں گواہی دیتا ہوں کہ
لاَ إلہَ إلاَّ اﷲُ وَحدَہُ
نہیں کوئی معبود مگر اﷲ جو یکتا ہے
لاَ شَرِیکَ لَہُ وَٲَنَّ
کوئی اس کا شریک نہیں اور یہ کہ
مُحَمَّداً صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ
حضرت محمد صلی اﷲ علیہ
وَآلِہِ عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ
و آلہ اس کے بندے اور رسول(ص)ہیں
وَٲَنَّ السَّاعَۃَ آتِیَۃٌ لاَ
یقیناً قیامت آنے والی ہے ، اس
رَیْبَ فِیہا وَٲَنَّ اﷲَ
میں کچھ شبہ نہیں اﷲ ان لوگوں کو
یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُورِ
اٹھائے گا جو قبروں میں ہیں
وَٲَنَّ الْحِسابَ حَقٌّ
حساب و کتاب حق ہے،
وَٲَنَّ الْجَنَّۃَ حَقٌّ وَٲَنَّ
جنت اور وہ نعمتیں بھی جو
مَا وُعِدَ فِیہا مِنَ النَّعِیمِ
اس میں کھانے پینے
مِنَ الْمَٲْکَلِ وَالْمَشْرَبِ
کے لیے دی جائیں گی حق ہیں
وَالنِّکاحِ حَقٌّ وَٲَنَّ النَّارَ
نکاح حق ہے، جہنم
حَقٌّ وَٲَنَّ الْاِیمانَ حَقٌّ
حق ہے ایمان حق ہے،
وَٲَنَّ الدِّینَ کَما وَصَفَ
دین حق ہے، جیسے اس نے بتایا
وَٲَنَّ الْاِسْلامَ کَما
اسلام حق ہے جیسے اس
شَرَعَ وَٲَنَّ الْقَوْلَ
نے حکم دیا حق بات وہی ہے
کَما قالَ وَٲَنَّ الْقُرْآنَ
جو اس نے کہی قرآن حق ہے
کَما ٲَنْزَلَ، وَٲَنَّ اﷲَ
جیسے اس نے نازل کیا اور اﷲ
ہُوَ الْحَقُّ الْمُبِین
واضح حق ہے، میں اس دنیا
وَٲَنِّی ٲَعْہَدُ إلَیْک
میں اس دنیا میں تیرے
فِی دارِ الدُّنْیا ٲَنِّی
ساتھ عہد کرتا ہوں کہ یقینا
رَضِیتُ بِکَ رَبّاً
میں راضی ہوں کہ تو میرا رب ہے
وَبِالاِْسْلامِ دِیناً وَبِمُحَمَّدٍ
اسلام میرا دین ہے ،حضرت محمد
صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَآلِہِ
صلی اﷲ علیہ و آلہ
نَبِیّاً وَبِعَلِیٍّ وَلِیّاً
میرے نبی ہیں، علی(ع) میرے ولی ہیں
وَبِالْقُرْآنِ کِتاباً وَٲَنَّ
قرآن میری کتاب ہے اور اس پر
ٲَہْلَ بَیْتِ نَبِیِّکَ عَلَیْہِ
کہ تیرے نبی کے اہل بیت میرے امام
وَعَلَیْہِمُ اَلسَّلَامُ ٲَئِمَّتِی
ہیںتیرے نبی اور ان اماموں پر سلام
اَللّٰہُمَّ ٲَنْتَ ثِقَتِی عِنْدَ
اے معبود! سختی کے وقت تو میرا
شِدَّتِی وَرَجائِی عِنْدَ
سہارا ہے، پریشانی میں تو ہی میری
کُرْبَتِی وَعُدَّتِی عِنْدَ
آس ہے تو ہی میرا ذخیرہ ہے، ان
الْاَُمُورِ الَّتِی تَنْزِلُ بِی
حادثوں میں جو مجھ پر آ پڑتے ہیں
وَٲَنْتَ وَلِیِّی فِی نِعْمَتِی
تو میرا نعمت دینے والا مولا ہے میرا
والہی والہ ابائی
اور میرے بزرگوں کا معبود ہے
صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ
رحمت فرما محمد(ص) اور ان کی آل(ع) پر
وَلاَ تَکِلْنِی إلی نَفْسِی
اور مجھے پلک چھبکنے تک بھی میرے
طَرْفَۃَ عَیْنٍ ٲَبَداً وَآنِسْ
نفس کے حوالے نہ کر قبر کی تنہائی
فِی قَبْرِی وَحْشَتِی
میں میرا ہمدم بن اپنے ہاں میرے
وَاجْعَلْ لِی عِنْدَکَ
لیے عہد مقرر فرما جب حشر میں
عَہْداً یَوْمَ ٲَلْقاکَ
تیرے سامنے حاضر
مَنْشُوراًَ ۔
ہوں گا ۔

عہد نامہ میت
پس یہی عہد میت ہے جس دن وہ اپنی حاجات کی وصیت کر رہا ہوتا ہے اور وصیت کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے امام جعفر صادق - فرماتے ہیں کہ اس بات کی تصدیق خداوند عالم سورہ مریم میں فرما رہا ہے:’’ لَا یَمْلِکونَ الشَّفَاعَۃَ اِلَّامَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَھْداً‘‘ یعنی شفاعت کے مالک نہیں ہوں گے مگر وہ لوگ جنہوں نے خدائے رحمن کے ہاں سے عہد لے لیا ہے اور یہ وہی عہد ہے . حضرت رسول(ص) نے امام علی بن ابیطالب(ع) سے فرمایا: یہی چیز اپنے اہل بیت اور اپنے شیعوں کو بھی تعلیم کرو اور اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ یہی چیز مجھے جبرائیل نے بتائی ہے. پھر شیخ فرماتے ہیں کہ یہی چیز لکھ کر میت کے جرید تین کے ساتھ رکھی جاتی ہے اور اسے لکھنے سے پہلے یہ دعا پڑھی جائے:
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمنِ
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام جو رحمن
الرَّحِیمِ ٲَشْہَدُ ٲَنْ لاَ
رحیم ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ
إلہَ إلاَّ اﷲُ وَحْدَہُ لاَ
نہیں کوئی معبود مگر اﷲ جو یکتا ہے
شَرِیکَ لَہُ وَٲَشْہَدُ
کوئی اس کا شریک نہیں میں گواہی دیتا ہوں
ٲَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہُ
کہ محمد(ص)(ص) اس کے بندے
وَرَسُولُہُ صَلَّی اﷲ
اور رسول(ص)ہیں ، خدا رحمت کرے ان
عَلَیْہِ وَآلِہِ، وَٲَنَّ
پر اور ان کی آل(ع) پر
الْجَنَّۃَ حَقٌّ وَٲَنَّ النَّارَ
جنت حق ہے، جہنم
حَقٌّ وَٲَنَّ السَّاعَۃَ
حق ہے، قیامت حق ہے،
حَقٌّ آتِیَۃٌ لاَ رَیْبَ فِیہا
وہ آنے والی ہے ، اس میں شک نہیں
وَٲَنَّ اﷲَ یَبْعَثُ مَنْ فِی
کہ اﷲ ان لوگوں کو اٹھائے گا جو
الْقُبُورِپھر یہ لکھے:
قبروں میں ہیں ۔
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمن
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام جو رحمن
الرَّحِیمِ شَہِدَ الشُّہُودُ
رحیم ہے اس تحریر میں نام بردہ
الْمُسَمَّوْنَ فِی ہذَا
گواہی دیتے ہیں کہ
الْکِتابِ ٲَنَّ ٲَخاہُمْ
اﷲ عزو جل کے دین میں
فِی اﷲِ عَزَّوَجَلَّ فلان
ان کے بھائی نے ﴿فلان
بن فلان۔
بن فلان﴾
یہاں مرنے والے شخص کا نام لکھے۔
ٲَشْہَدَ ہُمْ وَاسْتَوْدَعَہُمْ
انہیں گواہ بنایا ان کے سپرد کیا اور ان
وَٲَقَرَّ عِنْدَہُمْ ٲَنَّہُ یَشْہَدُ
کے سامنے اقرار کیا کہ وہ گواہی دیتا
ٲَنْ لاَ إلہَ إلاَّ اَﷲُ وَحْدَہُ
ہے کہ نہیں معبود مگر اﷲ جو یکتا ہے
لاَ شَرِیکَ لَہُ، وَٲَنَّ
کوئی اس کا شریک نہیں اور یہ کہ
مُحَمَّداً صَلَّی اﷲُ
حضرت محمد صلی اﷲ
عَلَیْہِ وَآلِہِ عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ
علیہ و آلہ اس کے بندے اور اس
وَٲَنَّہُ مُقِرٌّ بِجَمِیعِ
کے رسول(ص)ہیں اور وہ تمام
الْاََنْبِیَائِ وَالرُّسُلِ
انبیائ و رسل کا
عَلَیْہِمُ اَلسَّلَامُ، وَٲَنَّ
اقرار کرتا ہے اور اﷲ
عَلِیّاً وَلِیُّ اﷲِ وَ إمَامُہُ
کے ولی علی(ع) اس کے امام ہیں ، ان
وَٲَنَّ الْاََئِمَّۃَ مِنْ وُلْدِہِ
کی اولاد سے ائمہ اس
ٲَئِمَّتُہُ وَٲَنَّ ٲَوَّلَہُمُ
کے امام ہیں کہ ان میں اول
الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ
حسن(ع) ہیں اور حسین(ع)
وَعَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْن
علی (ع)بن الحسین
وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ
محمد(ع) ابن علی(ع)،
وَجَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ
جعفر(ع) بن محمد(ع)،
وَمُوسَی بْنُ جَعْفَرٍ
موسیٰ (ع)بن جعفر(ع)،
وَعَلِیُّ بْنُ مُوسَی
علی(ع) بن موسیٰ(ع)،
وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ
محمد(ص) بن علی(ع)،
وَعَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ
علی(ع) بن محمد(ص)،
وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ
حسن (ع)بن علی(ع)
وَالْقائِمُ الْحُجَّۃُ عَلَیْہِمُ
اور حجت القائم علیہم
اَلسَّلَامُ وَٲَنَّ الْجَنَّۃَ
السلام امام ہیں اور یہ کہ جنت
حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ وَالسَّاعَۃَ
حق ہے ،جہنم حق ہے، قیامت آنے
آتِیَۃٌ لاَ رَیْبَ فِیہا
والی ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں
وَٲَنَّ اﷲَ یَبْعَثُ مَنْ
اور اﷲ انہیں اٹھائے گا جو قبروں
فِی الْقُبُورِ وَٲَنَّ مُحَمَّداً
میں ہیں اور یہ کہ حضرت محمد
صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَآلِہِ
صلی اﷲ علیہ و آلہ
عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ، جائَ
اس کے بندے اور رسول(ص)ہیں جو حق
بِالْحَقِّ وَٲَنَّ عَلِیّاً وَلِیُّ
لے کر آئے . علی خدا کے ولی
اﷲِ وَالْخَلِیفَۃُ مِنْ
اور خدا کے رسول(ص) کے
بَعْدِ رَسُولِ اﷲِ
بعد ان کے خلیفہ ہیں، خدا رحمت
صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَآلِہِ
کرے ان پر اور ان کی آل(ع) پر
وَمُسْتَخْلَفُہُ فِی ٲُمَّتِہِ
رسول(ص)نے انہیں اپنی امت میں
مُؤَدِّیاً لِاَمْرِ رَبِّہ
خلیفہ بنایا اپنے رب
تَبَارَکَ وَتَعَالَی وَٲَنَّ
تبارک و تعالیٰ کے حکم سے
فاطِمَۃَ بِنْتُ رَسُولِ
اور فاطمہ دختر رسول(ص) اﷲ
اﷲِ وَابْنَیْہَا الْحَسَنَ
اور ان کے دو بیٹے حسن اور حسین
وَالْحُسَیْنَ إبْنَا رَسُولِ
رسول(ص)اﷲ کے دو بیٹے ان کے
اﷲِ وَسِبْطاہُ وَ إمَامَا
دو نواسے دونوں ہدایت والے امام
الْہُدَی وَقائِدا الرَّحْمَۃِ
رحمت والے پیشوا ہیں
وَٲَنَّ عَلِیّاً وَمُحَمَّداً
اور علی(ع) ، محمد(ص)،
وَجَعْفَراً وَمُوسَی
جعفر، موسیٰ،
وَعَلِیّاً وَمُحَمَّداً وَعَلِیّاً
علی، محمد(ص)، علی،
وَحَسَناً وَالْحُجَّۃَ عَلَیْہِمُ
حسن اور حجت القائم علیہم
اَلسَّلَامُ ٲَئِمَّۃٌ وَقادَۃٌ
السلام امام سردار
وَدُعاۃٌ إلَی اﷲِ جَلَّ
اور خدائے جل و علا کی طرف
وَعَلا وَحُجَّۃٌ عَلَی
بلانے والے اور اس کے بندوں
عِبادِہِ پھر لکھے :
پر حجت ہیں.
یَا شُہُوْدُ ۔
اے گواہو!
اے فلاں اے فلاں کہ جن کا اس تحریر میں نام لیا گیا ہے، اس شہادت کو میرے لیے اس وقت تک قائم رکھو، جب حوض کوثر پر مجھ سے ملوگے. پھر گواہ یہ کہیں کہ اے فلاں.
نَسْتَوْدِعُکَ اﷲَ
ہم تجھے اﷲ کے حوالے کرتے ہیں
وَالشَّہادَۃُ وَالْاِقْرارُ
اس گواہی، اقرار
وَالْاِخائُ مَوْدُوعَۃٌ
اور بھائی چارے کے ساتھ جو
عِنْدَ رَسُولِ اﷲِ صَلَّی
رسول اﷲ صلی
اﷲُ عَلَیْہِ وَآلِہِ وَنَقْرَٲُ
اﷲ علیہ و آلہ کے پاس امانت ہے ،
عَلَیْکَ السَّلامَ
ہم کہتے ہیں تم پر سلام
وَرَحْمَۃُ اﷲِ وَبَرَکاتُہ
خدا کی رحمت اور برکتیں ہوں ۔

آداب محتضر اور تلقین کلمات فرج
اس کے بعد پرچے کو تہہ کر کے اس پر مہر لگائے نیز اس پر گواہوں کی مہریں اور خود میت کی بھی مہر لگائی جائے پھر اسے میت کی داہنی طرف جریدے کے ساتھ رکھ دیا جائے . بہتر یہ ہے کہ یہ نوشتہ کافور یا لکڑی کی نوک سے لکھا جائے اور اسے خوشبو و غیرہ سے معطر نہ کیا جائے۔ بہتر ہے کہ قرب موت مرنے والے کے پیروں کے تلوے قبلہ کی طرف کیے جائیں اس کے ساتھ ایک ایسا شخص ہونا چاہیئے جو سورہ یاسین اور صافات کی تلاوت اور ذکر خدا کرے، مرنے والے کو شہادتین کی تلقین کرے ایک ایک امام کا نام لے کر اس سے اقرار کرائے اور اسے کلمات فرج کی تلقین کرے اور وہ یہ ہیں :
لاَ إلہَ إلاَّ اﷲُ الْحَلِیمُ
نہیں ہے معبود مگر اﷲ جو بردبار اور
الْکَرِیمُ لاَ إلہَ إلاَّ اﷲُ
سخی ہے، نہیں ہے معبود مگر اﷲ جو
الْعَلِیُّ الْعَظِیمُ سُبْحانَ
بلند و بزرگ تر ہے ، پاک تر ہے
اﷲِ رَبِّ السَّمٰوَاتِ
اﷲ جو مالک ہے سات آسمانوں کا
السَّبْعِ وَرَبِّ الْاََرَضِینَ
اور مالک ہے سات زمینوں کا
السَّبْعِ وَمَا فِیہِنَّ وَمَا
اور جو کچھ ان میں ہے اور جو
بَیْنَہُنَّ وَمَا تَحْتَہُنَّ
کچھ ان کے درمیان ہے اور جو کچھ
وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ
ان کے نیچے ہے اور عظمت والے
وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ
عرش کا مالک ہے، حمد ہے، اﷲ کے
الْعالَمِینَ، وَالصَّلاۃُ
لیے جو عالمین کا رب ہے اور درود
عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ
ہو حضرت محمد(ص)(ص) اور ان کی
الطَّیِّبِینَ۔
پاک آل(ع) پر۔
یہ احتیاط کی جائے کہ مرنے والے کے پاس کوئی جنب یا حائض نہ آئے، جب اس کی روح پرواز کرجائے تو اسے سیدھا لٹا کر اس کی آنکھیں بند کردی جائیں باز و سیدھے کر کے پہلوئوں کے ساتھ لگا دیئے جائیں اس کا منہ بند کیا جائے پنڈلیاں کھینچ کر سیدھی کردی جائیں اور اس کی ٹھوڑی باندھ دی جائے . اس کے بعد کفن کے حصول کی کوشش شروع کر دی جائے ۔کفن میں واجب تین کپڑے ہیں یعنی لنگ، کفنی اور بڑی چادر مستحب ہے کہ ان کپڑوں کے علاوہ یمنی چادر بھی ہو یا کوئی اور چادر ہو اس کے علاوہ ایک پانچواں کپڑا بھی ہے جسے ران پیچ کہتے ہیں اور یہ میت کی رانوں پر لپیٹا جاتا ہے نیز مستحب ہے کہ مذکورہ کپڑوں کے علاوہ اسے عمامہ بھی باندھا جائے پھر اس کے لیے کافور مہیا کیا جائے کہ جو آگ میں پکاہوا نہ ہو افضل یہ ہے کہ اس کا وزن تیرہ درہم اور ایک تہائی درہم ہو، اس کا اوسط وزن چار مثقال اور کم از کم ایک درہم ہو. اور اگر اتنا کافور ملنا بھی مشکل ہوتو پھر جتنا بھی ملے وہ حاصل کیا جائے، بہتر ہے کہ کفن میں سے ہرکپڑے پر یہ لکھا جائے میت کانام اور کہے:
یَشْہَدُ
گواہی دیتا ہے
ٲَنْ لاَ إلہَ إلاَّ اﷲُ وَحْدَہُ
کہ نہیں کوئی معبود مگر اﷲ جو یکتا ہے
لاَ شَرِیکَ لَہُ، وَٲَنَّ
کوئی اس کاشریک نہیں ، یہ کہ
مُحَمَّداً رَسُولُ اﷲِ وَٲَنَّ
حضرت محمد(ص)(ص) اﷲ کے رسول(ص)ہیں
عَلِیّاً ٲَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ
حضرت علی(ع) مومنوں کے امیر ہیں
وَالْاََئِمَّۃَ مِنْ وُلْدِہِ۔
اور جو امام ان کی اولاد میں ہیں۔
یہاں ہر ایک امام کانام لکھا جائے بعد میں لکھیں۔
ٲَئِمَّتُہُ ٲَئِمَّۃُ الْہُدَی
اس کے امام ہیں جو ہدایت و نیکی
الْاََبْرار۔
والے امام ہیں۔

مرنے کے بعد احکام
یہ سب کچھ خاک شفا سے یا انگلی سے لکھا جائے سیاہی سے نہیں پھر میت کو تین غسل دیئے جائیں۔ پہلا غسل بیری کے پتوں والے پانی سے دوسرا کافور ملے پانی سے اور تیسرا خالص پانی سے . اس غسل کی کیفیت وہی ہے جو غسل جنابت کی ہے سب سے پہلے میت کے ہاتھ تین مرتبہ دھوئے جائیں پھر اس کی شرمگاہوں کو تھوڑی سی اشنان ﴿خوشبودار بوٹی﴾ کے ساتھ تین مرتبہ دھویا جائے، اس کے بعد غسل کی نیت سے اس کا سر بیری کے پتوں والے پانی سے تین مرتبہ دھویا جائے، پھر اس کے دائیں اور بائیں پہلوئوں کو بھی اسی طرح دھویا جائے۔
البتہ اس دوران میت کے سارے بدن پر ہاتھ پھیرا جائے گا یہ سب بیری کے پتوں والے پانی سے دھونا ہوگا اس کے بعد پانی والے برتن کو اچھی طرح دھویا جائے تا کہ بیری کا اثر زائل ہوجائے ، پھر برتن میں نیاپانی ڈال کر اس میں تھوڑا سا کافور ڈالا جائے . اور اس سے میت کو اسی طرح غسل دیا جائے جس طرح بیری کے پانی سے دیا گیا تھا . اگر پانی بچ جائے تو اسے انڈیل دیا جائے گا اور برتن کو اچھی طرح سے دھوکراس میں خالص پانی ڈال کر اس سے میت کو تیسرا غسل اسی ترتیب سے دیا جائے گا جو پہلے بیان ہو چکی ہے غسل دینے والے کو میت کے داہنی طرف ہونا چاہیئے اور جب بھی میت کے کسی عضو کو غسل دے تو عفواً عفواً کہے اور جب غسل دے چکے ایک صاف کپڑے سے میت کے بدن کو خشک کرے۔
نیز واجب ہے کہ غسل دینے والا اسی وقت یا اس کے بعد خود بھی غسل مس میت کرے اور مستحب ہے کہ غسل دینے سے پہلے وضو کرے ۔ غسل دینے کے بعد میت کو کفن پہنایا جائے پہلے ران پیچ لے کر اسے بچھایا جائے اس پر تھوڑی روئی رکھے اس پر زریرہ ﴿خوشبودار بوٹی﴾ چھڑکے اور یہ روئی میت کی اگلی پچھلی شرمگاہوں پر رکھ دے پھر اس کپڑے کو میت کی رانوں پر لیٹ دے اس کے بعد لنگ کو ناف سے لے کر پائوں کی طرف جہاں تک پہنچے باندھ دیا جائے اور کفن سے میت کے بدن کو ڈھانپا جائے اس کے اوپر بڑی چادر لپیٹی جائے اور اوپر سے جرہ یا کوئی اور چادر ڈالی جائے۔ میت کے ساتھ جرید تین، یعنی کھجور یا کسی اور درخت کی تازہ لکڑیاں رکھی جائیں، جن کی لمبائی ایک ہاتھ کے برابر ہو ان میں سے ایک میت کی داہنی جانب بدن سے ملاکر لنگ باندھنے کی جگہ پر رکھی جائے اور دوسری کو بائیں جانب چادر اور کفن کے درمیان رکھا جائے پھر میت کے سات اعضائے سجدہ یعنی پیشانی، دونوں ہتھیلیوں، دونوں گھنٹوں اور دونوں پیروں کے انگوٹھوں کے سروں پر کافور ملا جائے، اگر کافور بچ جائے تو وہ اس کے سینے پر چھڑک دیا جائے اس کے بعد میت کو کفن میں لپیٹ دیا جائے اور اس کے سراور پائوں کی طرف سے کفن کو بند لگا دیئے جائیں، لیکن جب اسے دفن کیا جانے لگے تو کفن کے بندکھول دیئے جائیں بہرحال جب تکفین میت سے فارغ ہوجائیں تو اسے ایک تابوت میں رکھ کر جنازہ گاہ لے جائیں تا کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے۔ علامہ مجلسی(رح) زاد المعاد میں نماز میت کے باب میں فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے نماز میت کا پڑھنا ہر ایسے مسلمان پر واجب ہے ۔
جسے کسی مومن مسلمان کے مرنے کی اطلاع ہوجائے اگر ان میں سے کوئی ایک مسلمان بھی یہ نماز ادا کردے تو یہ دوسرے تمام مسلمانوں سے ساقط ہوجاتی ہے بلا اختلاف یہ نماز ہر بالغ شیعہ اثنا عشری کے لیے پڑھنا واجب ہے اور زیادہ مشہور اور قوی امر یہی ہے کہ چھ ماہ کے بچے کی میت پر بھی یہ نماز پڑھنا واجب ہے ، ظاہر یہ ہے کہ اس نماز کو قربۃً الی اﷲ کے قصد سے ادا کرنے پر اکتفا کیا جائے اگر چھ ماہ سے کم عمر کا بچہ زندہ پیدا ہوا ہو اور مرجائے تو بعض علمائ اس پر نماز پڑھنا مستحب سمجھتے ہیں اور بعض اسے بدعت جانتے ہیں . لیکن احوط یہ ہے کہ اس پر نماز نہ پڑھی جائے ،میت پر نماز پڑھنے کا زیادہ حقدار بنا بر قول مشہور اس کا وارث ہی ہے اور شوہر اپنی بیوی پر نماز پڑھنے میں زیادہ اولویت رکھتا ہے۔
واجب ہے کہ نماز پڑھنے والا قبلہ رخ کھڑا ہو میت کا سراس کی داہنی جانب ہو اور میت کو پشت کے بل لٹا یاجائے اس نماز میں حدث سے پاک ہونے کی شرط نہیں ہے چنانچہ جنب مرد، حیض والی عورت اور بے وضو شخص بھی یہ نماز پڑھ سکتا ہے ،لیکن سنت ہے کہ با وضو ہوکر پڑھی جائے اگر پانی نہ مل سکے یا پانی کے استعمال میں کوئی امر مانع ہویا وقت تنگ ہوتو سنت ہے کہ تیمم کیا جائے اور احادیث کے مطابق کسی عذر کے بغیر بھی تیمم کیا جا سکتا ہے نیز سنت ہے کہ اگر میت مرد کی ہوتو پیش نماز اس کی کمر کے مقابل کھڑا ہو اور اگر عورت کی ہے تو اس کے سینے کے مقابل کھڑے ہوکر نماز پڑھے اور سنت ہے کہ جوتے اتار کر نماز پڑھے اور واجب ہے کہ نماز کی نیت کر کے پانچ تکبیریں پڑھی جائیں . سنت ہے کہ ہر تکبیر پر ہاتھوں کو کانوں کے برابر لایا جائے اور مشہور یہی ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد کہے:
ٲَشْہَدُ ٲَنْ لاَ إلہَ إلاَّ اﷲُ
میں گواہ ہوں کہ نہیں ہے کوئی معبود مگر اﷲ
وَٲَشْہَدُ ٲَنَّ مُحَمَّداً
اور میں گواہ ہوں کہ محمد(ص)(ص) اﷲ کے
رَسُولُ اﷲ۔
رسول(ص)ہیں ۔
دوسری تکبیر کے بعد کہے:
ِاَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ
اے معبود! رحمت فرما محمد(ص)(ص)
وَآلِ مُحَمَّدٍ۔
و آل(ع) محمد(ص)پر ۔
تیسری تکبیر کے بعد کہے:
اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِینَ
اے معبود! بخش دے مومن مردوں
وَالْمُؤْمِناتِ۔
اور مومنہ عورتوں کو۔
چوتھی تکبیر کے بعد کہے:
اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِہذَا الْمَیِّتِ
اے معبود! بخش دے اس میت کو۔
پھر پانچویں تکبیر کہہ کر نماز ختم کرے یہ نماز کافی ہے۔
لیکن قول مشہور کی بنا پر بہتر ہے کہ نمازیوں ادا کی جائے اور نیت کرنے کے بعد پہلی تکبیر میں کہے:
اَﷲُ ٲَکْبَرُ ٲَشْہَدُ ٲَنْ
اﷲ بزرگ تر ہے. میں گواہ ہوں کہ
لاَ إلہَ إلاَّ اﷲُ وَحْدَہُ
نہیں ہے معبود مگر اﷲ جو یکتا ہے
لاَ شَرِیکَ لَہُ وَٲَشْہَدُ
کوئی اسکا شریک نہیں اور میں گواہ ہوں
ٲَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہُ
کہ محمد(ص)(ص) اس کے بندے اور
وَرَسُولُہُ ٲَرْسَلَہُ بِالْحَقِّ
رسول(ص)ہیں، اﷲ نے انہیں حق کے
بَشِیراً وَنَذِیراً بَیْن
ساتھ بھیجا، وہ تا قیامت خوشخبری
یَدَیِ السَّاعَۃِ۔
دینے اور ڈرانے والے ہیں .
پھر دوسری تکبیر کہے:
اﷲُ ٲَکْبَرُ اَللّٰہُمَّ صَلِّ
اﷲ بزرگ تر ہے اے معبود! رحمت
عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ
نازل فرما محمد(ص)(ص) و آل(ع)
مُحَمَّدٍ وَبارِکْ عَلَی
محمد(ص)(ص) پر اور برکت نازل فرما
مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ
محمد(ص)(ص) و آل(ع) محمد(ص)(ص) پر
وَارْحَمْ مُحَمَّداً وَآلَ
اور رحم فرما محمد(ص)(ص) و آل(ع)
مُحَمَّدٍ کَٲَفْضَلِ مَا
محمد(ص)(ص) پر اس سے بیشتر جو
صَلَّیْتَ وَبارَکْتَ
رحمت کی تو نے اور برکت نازل
وَتَرَحَّمْتَ عَلَی إبْراہِیمَ
کی تو نے اور رحم فرمایا تو نے ابراہیم
وَآلِ إبْراہِیمَ إنَّکَ
اور آل(ع) ابراہیم(ع) پر. بے شک تو
حَمِیدٌ مَجِیدٌ وَصَلِّ
خوبی والا، شان والا ہے اور رحمت
عَلَی جَمِیعِ الْاََنْبِیائِ
فرما تمام نبیوں
وَالْمُرْسَلِینَ۔
اور رسولوں پر۔
پھر تیسری تکبیر کہے:
اﷲُ ٲَکْبَرُ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ
اﷲ بزرگ تر ہے. اے معبود! بخش
لِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِناتِ
دے مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو
وَالْمُسْلِمِینَ وَالْمُسْلِماتِ
اور مسلمان مردوں اور مسلمہ عورتوں کو
الْاََحْیائِ مِنْہُمْ وَالْاََمْواتِ
ان میں جو زندہ ہیں اور جو مرگئے ہیں
تابِعْ بَیْنَنا وَبَیْنَہُمْ
تو ہمیں اور ان کو نیکیوں
بِالْخَیْراتِ إنَّکَ
میں باہم ملادے، بے شک
مُجِیبُ الدَّعَواتِ
تو دعائیں قبول کرنے والا ہے
إنَّکَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ
یقینا تو ہر چیز پر قدرت
قَدِیرٌ۔
رکھتا ہے ۔
پھرچوتھی تکبیر کہے:
اﷲُ ٲَکْبَرُ اَللّٰہُمَّ إنَّ
اﷲ بزرگ تر ہے. اے معبود! بے شک
ہذَا عَبْدُکَ وَابْنُ
یہ تیرا بندہ،تیرے بندے
عَبْدِکَ وَابْنُ ٲَمَتِکَ
کا بیٹا اور تیری کنیز کا بیٹا
نَزَلَ بِکَ وَٲَنْتَ خَیْرُ
تیرا مہمان ہوا ہے اور تو سب
مَنْزُولٍ بِہِ۔ اَللّٰہُمَّ إنَّا
سے بہتر مہمانواز ہے. اے معبود! یقیناً
لاَ نَعْلَمُ مِنْہُ إلاَّ خَیْراً
ہم نہیں جانتے اس سے متعلق مگر نیکی
وَٲَنْتَ ٲَعْلَمُ بِہِ مِنَّا
اور تو اسے ہم سے زیادہ جانتا ہے
اَللّٰہُمَّ إنْ کانَ مُحْسِناً
اے معبود! اگر یہ نیکو کار ہے تو اس
فَزِدْ فِی إحْسانِہِ وَ إنْ
کی نیکیوں میں اضافہ کر دے اور اگر
کانَ مُسِیئاً فَتَجَاوَزْ
یہ بدکار ہے تو اس سے درگذر فرما
عَنْہُ وَاغْفِرْ لَہُ اَللّٰہُمَّ
اور اسے بخش دے. اے معبود!
اجْعَلْہُ عِنْدَکَ فِی
تو اسے اپنے ہاں اعلیٰ علیین
ٲَعْلَی عِلِّیِّینَ وَاخْلُفْ
میں جگہ دے اور اس کے عیال
عَلَی ٲَہْلِہِ فِی الْغابِرِینَ
میں اس کا جانشین ہو جا
وَارْحَمْہُ بِرَحْمَتِکَ
اور اس پر رحم فرما اپنی رحمت سے
یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ۔
اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے.
پھر پانچویں تکبیرکہے:
اَﷲُ ٲَکْبَر۔
اﷲ بزرگ تر ہے۔
اس پر نماز ختم کرے .
اگر میت عورت کی ہے تو یوں کہے:
اَللّٰہُمَّ إنَّ ہذِہِ ٲَمَتُکَ
اے معبود! بے شک یہ تیری کنیز
وَابْنَۃُ عَبْدِکَ وَابْنَۃُ
تیرے بندے کی بیٹی اور تیری کنیز
ٲَمَتِکَ نَزَلَتْ بِکَ
کی بیٹی تیری مہمان ہوئی ہے
وَٲَنْتَ خَیْرُ مَنْزُولٍ بِہاِ
اور تو بہترین مہمانواز ہے۔
اَللّٰہُمَّ إنَّا لاَ نَعْلَمُ مِنْہا
اے معبود! یقیناً ہم اسکے متعلق نہیں جانتے
إلاَّ خَیْراً وَٲَنْتَ ٲَعْلَمُ
مگر نیکی اور تو اسے ہم سے زیادہ
بِہا مِنَّا اَللّٰہُمَّ إنْ ْکانَتْ
جانتا ہے. اے معبود! اگر یہ
مُحْسِنَۃً فَزِدْ فِی
نیکوکار رہی ہے تو اس کی نیکیوں میں
إحْسانِہا وَ إنْ کانَتْ
اضافہ کردے اور اگر یہ
مُسِیئَۃً فَتَجاوَزْ عَنْہا
بدکار رہی ہے تو اس سے درگذر فرما
وَاغْفِرْ لَہا اَللّٰہُمَّ
اور اسے بخش دے. اے معبود!
اجْعَلْہا عِنْدَکَ
تو اپنے ہاں اسے اعلیٰ
فِی ٲَعْلَی عِلِّیِّینَ وَاخْلُفْ
علیین میں جگہ دے اور اس کے
عَلَی ٲَہْلِہا فِی الْغابِرِینَ
عیال میں اس کا جانشین بن جا،
وَارْحَمْہا بِرَحْمَتِکَ
اس پر رحم فرما، اپنی رحمت سے
یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ۔
اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔
اگر بے کس کی میت ہوتو کہے:
اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِلَّذِینَ تابُوا
اے معبود! ان کو بخش دے، جنہوں
وَاتَّبَعُوا سَبِیلَکَ وَقِہِمْ
نے توبہ کی اور تیرے راستے پر چلے
عَذَابَ الْجَحِیمِ۔
تو ان کو جہنم کے عذاب سے بچا ۔
اگر نابالغ بچے کی میت ہوتو کہے:
اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہُ لاََِبَوَیْہِ
اے معبود! اسے قرار دے اس کے
وَلَنَا سَلَفاً وَفَرَطاً
والدین کے لیے اور ہمارے لیے
وَٲَجْراً۔
ہراول ذخیرہ اور اجر ۔

تشیع جنازہ اور دفن میت
اور سنت ہے کہ جب تک وہاں سے جنازہ نہ اٹھایا جائے خاص کر پیش نماز اور دوسرے لوگ بھی اسی جگہ کھڑے رہیں ایک اور روایت میں ہے کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد کہے:
رَبَّنا آتِنا فِی الدُّنْیا
اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں
حَسَنَۃً وَفِی الْاَخِرَۃِ
نیکی عطا کر اور آخرت میں بھی نیکی
حَسَنَۃً وَقِنَا عَذابَ
عطا کر اورہمیں جہنم کے عذاب
النَّارِ۔
سے بچا۔
امام جعفر صادق - فرماتے ہیں: بہتر ہے کہ مرحوم کی خبر مرگ مومن بھائیوں کو دی جائے تا کہ وہ اس کے جنازے میں شریک ہوں ، اس پر نماز پڑھیں اس کے لیے استغفار کریں اور میت کو اور ان کو بھی ثواب ملے. ایک حسن حدیث میں امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ جب مومن کو قبر میں لٹاتے ہیں تو اسے آواز آتی ہے کہ سب سے پہلی عطا جو ہم نے تم پر کی ہے وہ بہشت ہے اور جو لوگ تیرے جنازے کے ساتھ آئے ہیں ان پر ہم نے سب سے پہلی عطا یہ کی ہے کہ ان کے گناہ معاف کر دیئے ہیں۔
ایک اور حدیث میں آپ(ع) فرماتے ہیں کہ مومن کو قبر میں جو سب سے پہلا تحفہ دیا جاتا ہے ، وہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ آنے والے تمام لوگوں کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں . ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں جو شخص کس مومن کے جنازے کے ہمراہ جاتا اور اس کے دفن تک وہاں رہتا ہے تو خداوند تعالیٰ قیامت کے دن ستر ملائکہ کو حکم دے گا کہ وہ قبر سے اٹھائے جانے سے حساب کے موقع تک اس کے ساتھ رہ کر اس کے لیے استغفار کرتے رہیں۔ نیز فرماتے ہیں :جو شخص جنازے کے ایک کونے کو کندھا دے گا تو اس کے پچیس کبیرہ گناہ معاف کر دیئے جائیں گے اور جو شخص ﴿بہ ترتیب﴾ چاروں کونوں کو کندھا دے گا تو وہ گناہوں سے بری ہوجائے گا۔ جنازے کو چار افراد اٹھائیں اور جو شخص جنازے کے ساتھ ہو اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ سب سے پہلے میت کے داہنے ہاتھ کی طرف آئے جو جنازے کا بایاں پہلو ہے وہاں اپنا دایاں کندھا دے پھر میت کے دائیں پائوں کی طرف آکر کندھا دے، اس کے بعد میت کے بائیں ہاتھ کی طرف آئے جو جنازے کا دایاں پہلو ہے، وہاں بایاں کندھا دے اور میت کے بائیں پائوں کی طرف آئے اور آکر اس کونے کو بائیں کندھے پر اٹھائے۔
اگر وہ دوسری مرتبہ چاروں اطراف کو کندھا دینا چاہے تو جنازے کے آگے سے پیچھے کی طرف آئے اور مذکورہ طریقے سے اسے کندھا دے اکثر علمائ اس کے برعکس فرماتے ہیں کہ جنازے کے داہنی طرف سے ابتدا کرے یعنی میت کے دائیں طرف سے کندھا دے۔
لیکن معتبر احادیث کے مطابق پہلا طریقہ اچھا ہے اور اگر دونوں طریقوں سے جنازے کو کندھا دے تو بہت بہتر ہے جنازے کے ساتھ چلنے میں افضل طریقہ یہ ہے کہ جنازے کے پیچھے چلے یا اسکے دائیں بائیں رہے، لیکن جنازے کے آگے ہرگز نہ چلے، اکثر حدیثوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر وہ جنازہ مومن کا ہوتو اس کے آگے چلنا بہتر ہے ورنہ پیچھے چلنا ہی مناسب ہے کیونکہ ملائکہ اس کیلئے عذاب لے کر آگے سے آتے ہیں جنازے کے ساتھ سوار ہوکر چلنا مکروہ ہے اور رسول اﷲ کا ارشاد ہے کہ جو شخص کسی جنازے کو دیکھے وہ یہ دعا پڑھے:
اﷲُ ٲَکْبَرُ ہذَا مَا وَعَدَنَا
اﷲ بزرگ تر ہے یہی وہ چیز ہے جس کا
اﷲُ وَرَسُولُہُ وَصَدَقَ
اﷲ و رسول(ص) نے ہم سے وعدہ کیا اﷲ
اﷲُ وَرَسُولُہُ، اَللّٰہُمَّ
اور اسکے رسول(ص)نے سچ فرمایا اے معبود!
زِدْنا إیماناً وَتَسْلِیماً
ہمارے ایمان و تسلیم میں اضافہ کر
الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی تَعَزَّزَ
حمد ہے اﷲ کے لیے جو اپنی قدرت
بِالْقُدْرَۃِ وَقَہَرَ الْعِبادَ
سے غالب ہوا اور موت کے ذریعے
بِالْمَوْت۔
بندوں پر حاوی ہوا۔
کوئی فرشتہ آسمان میں نہیں مگر یہ کہ وہ گریہ کرے گا اور پڑھنے والے کے لیے رحمت چاہے گا۔
امام جعفر صادق - فرماتے ہیں کہ جنازہ اٹھاتے وقت یہ دعا پڑھی جائے:
ِبِسْمِ اﷲِ وَبِاﷲِ اَللّٰہُمَّ
خدا کے نام سے خدا کی ذات سے اے معبود
صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ
رحمت فرما محمد(ص)(ص)
وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاغْفِرْ
و آل(ع) محمد(ص) پر اور مومن مردوں
لِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِناتِ
اور مومنہ عورتوں کو بخش دے ‘‘.
منقول ہے کہ امام زین العابدین- جب کسی جنازے کو دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے:
الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی لَمْ
حمد ہے اﷲ کے لیے جس نے
یَجْعَلَنِی مِنَ السَّوادِ
مجھے ہلاک ہونے والے گروہ
الْمُخْتَرَمِ۔
میں نہیں رکھا ۔
عورتوں کے لیے جنازے کے ساتھ جانا سنت نہیں ہے، بعض علمائ کا قول ہے کہ جنازے کو تیز رفتاری کے ساتھ لے جانا مکروہ ہے اور جو لوگ جنازے کے ساتھ ہوں ان کے لیے ہنسنا اور فضول باتیں کرنا بھی مکروہ ہے۔
علامہ مجلسی(رح) حلیۃ المتقین میں لکھتے ہیں حضرت رسول(ص) سے منقول ہے کہ جو شخص کسی کی نماز جنازہ پڑھتا ہے اس پر ستر ہزار فرشتے نماز پڑھیں گے اور اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہوجائیں گے اگر جنازے کے ہمراہ جائے اور اس کی تدفین تک وہاں رہے تو اس کے ہر قدم کے بدلے اسے ایک قیراط ثواب دیا جائے گا اور یہ قیراط کوہ احد کے برابر ہوتا ہے۔
ایک اور حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں جو بھی مومن کسی کی نماز جنازہ پڑھے گا تو جنت اس کے لیے واجب ہوجائے گی، بشرطیکہ وہ منافق یا والدین کا نافرمان نہ ہو. معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ جب کوئی مومن مرتا ہے اور اس کے جنازے پر آکر چالیس مومن یہ کہتے ہیں:
اَللّٰھُمَّ اِنَّا لَا نَعْلَمُ مِنْہُ
یعنی اے معبود! ہم اس کے متعلق
اِلَّاخَیْراً وَ اَنْتَ اَعْلَمُ
سوائے نیکی کے کچھ نہیں جانتے اور
بِہِِ مِنَّا.
تو اسے ہم سے زیادہ جانتا ہے۔
تب خدائے تعالیٰ فرماتا ہے میں نے تمہاری گواہی قبول کر لی اور اس کے گناہ معاف کر دیئے ہیں جن کو تم نہیں جانتے ہو اور میں جانتا ہوں۔
ایک اور معتبر حدیث میں رسول اﷲ سے منقول ہے کہ مومن کے مرنے کے بعد وہ پہلی چیز جو اس کے نامہ اعمال میں لکھتے ہیں وہ وہی ہوتی ہے جو بات لوگ اس کے بارے میں کہتے ہیں . اگر نیک بات کہتے ہیں تو نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر بری بات کہتے ہیں تو برائی لکھی جاتی ہے۔
مولف کہتے ہیں: شیخ طوسی(رح) مصباح المتہجد میں فرماتے ہیں: مستحب ہے کہ جنازے کی تربیع کی جائے یعنی پہلے میت کے دائیں طرف کندھا دیا جائے اس کے بعد دائیں پاؤں کی طرف پھر بائیں پائوں کی طرف اور بعد میں میت کے بائیں ہاتھ کی طرف سے کندھا دیا جائے گویا جنازے کے چاروں اطراف کو اس طرح کندھا دیا جائے جس طرح چکی کو گھمایا جاتا ہے جب جنازے کو قبر کے نزدیک لائیں تو اگر میت مرد کی ہے تو اسے قبر کی پائنتی کی طرف لے جائیں اور قبر کے کنارے تک لے جاتے ہوئے تین مرتبہ اٹھائیں اور زمین پر رکھیں . پھر قبر میں اتاریں، اگر میت عورت کی ہے تو اسے قبر کے کنارے قبلہ کی طرف لائیں پھر قبر میں اتاریں میت کا وارث یا کوئی اور شخص جس کو ولی نے اجازت دی ہو کہ وہ پائنتی کی طرف سے قبر میں اترے کہ یہی قبر کا دروازہ ہے اور جب وہ قبر میں اتر جائے تو یہ کہے:’’
اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہا رَوْضَۃً
اے معبود! تو اسے جنت کے
مِنْ رِیاضِ الْجَنَّۃِ وَلاَ
باغوں میں ایک باغ بنادے اور
تَجْعَلْہا حُفْرَۃً مِنْ
اسے جہنم کے گڑھوں میں سے
حُفَرِ النَّارِ۔
ایک گڑھا نہ بنا۔
اور مناسب ہے کہ قبر میں اتر نے والا وہ شخص سراور پائوں سے ننگاہو اور اپنے بٹن کھول دے وہ میت کو قبر میں اتار نے کے لیے اٹھائے اور سر کی طرف اسے قبر میں لے جائے اور یہ کہے:
بِسْمِ اﷲِ وَبِاﷲِ وَفِی
اﷲ کے نام اور اﷲ کی ذات سے،
سَبِیلِ اﷲِ وَعَلَی مِلَّۃِ
اﷲ کی راہ میں اور رسول(ص)اﷲ کے
رَسُولِ اﷲِ۔ اَللّٰہُمَّ
دین پر. اے معبود! تجھ
إیماناً بِکَ وَتصْدِیقاً
پر ایمان اور تیری کتاب کی تصدیق
بِکِتابِکَ ہذَا مَا وَعَدَنَا
کرتے ہوئے، یہی چیز ہے جس کا اﷲ
اﷲُ وَرَسُولُہُ وَصَدَقَ
و رسول(ص)نے ہم سے وعدہ کیا اور اﷲ
اﷲُ وَرَسُولُہُ اَللّٰہُمَّ
اور اسکے رسول(ص)نے سچ فرمایا. اے معبود!
زِدْنا إیماناً وَتَسْلِیماً۔
ہمارے ایمان و یقین میں اضافہ فرما۔
پس میت کو داہنی کروٹ پر لٹادے. اس کے بدن کا رخ قبلہ کی طرف کر کے کفن کے بند کھول دے اور اس کے رخسارے کو زمین پر ٹکادے مستحب ہے کہ اس کے ساتھ خاک شفا بھی رکھے اور پھر قبر پر اینٹیں چن دے اور اینٹیں چننے والا شخص یہ پڑھے:
اَللّٰہُمَّ صِلْ وَحْدَتَہُ،
اے معبود! اس کی تنہائی کا ساتھی رہ
وَآنِسْ وَحْشَتَہُ وَارْحَمْ
خوف میں ہمدم بن اور اس کی بے
غُرْبَتَہُ وَٲَسْکِنْ إلَیْہِ
کسی پر رحم فرما اپنی رحمتوں سے
مِنْ رَحْمَتِکَ رَحْمَۃً
خاص رحمت اس کے ساتھ کر دے،
یَسْتَغْنِی بِہا عَنْ رَحْمَۃِ
اس کے ذریعے اسے اپنے غیر
مَنْ سِواکَ وَاحْشُرْہُ
کی رحمت سے بے نیاز کر دے
مَعَ مَنْ کانَ یَتَوَلاَّہُ
اس کو پاک ائمہ کے ساتھ محشور
مِنَ الْاََئِمَّۃِ الطَّاہِرِینَ۔
فرما جن سے وہ محبت رکھتا تھا ۔

تلقین میت
اور مستحب ہے کہ میت کو شہادتین اور ائمہ طاہرین کے ناموں کی اس وقت تلقین کی جائے، جب اسے قبر میں اتارا جا چکے اور قبر کو بند نہ کیا ہو پس تلقین کرنے والا کہے:یافلاں بن فلاں، یعنی میت کانام اور اس کے باپ کانام لے کر کہے:
اذْکُرِ الْعَہْدَ الَّذِی
اس عہد کو یاد کرو جس پر رہتے ہوئے
خَرَجْتَ عَلَیْہِ مِنْ دارِ
اس دنیا سے جارہے ہو
الدُّنْیا شَہادَۃَ ٲَنْ لاَ
یہ گواہی کہ نہیں ہے
إلہَ إلاَّ اﷲُ وَحْدَہُ لاَ
کوئی معبود مگر اﷲ جو یکتا ہے کوئی
شَرِیکَ لَہُ، وَٲَنَّ
اس کا شریک نہیں اور یہ کہ حضرت
مُحَمَّداً عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ
محمد(ص)(ص) اس کے بندے اور رسول(ص)ہیں .
وَٲَنَّ عَلِیّاً ٲَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ
نیز یہ کہ علی مومنون کے امیر ہیں
وَالْحَسَنَ وَالْحُسَیْن
اور حسن(ع) اور حسین(ع)
اور بارہویں امام تک ہر ایک کانام لے۔
ٲَئِمَّتُکَ ٲَئِمَّۃُ الْہُدَیٰ
تیرے امام ہیں جو ہدایت والے
الْاََبْرَارُ۔
خوش کردار ہیں۔
جب قبر پر اینٹیں چن لے تو پھر قبر پر مٹی ڈالیں اور مستحب ہے کہ جو لوگ وہاں موجود ہوں اور اپنے ہاتھوں کی پشت کے ساتھ اس پر مٹی ڈالیں اور اس حال میں یہ کہیں:
إنَّا لِلّٰہِ وَ إنَّا إلَیْہِ
یقیناً ہم اﷲ کے ہیں اور اسی کی
رَاجِعُونَ ہذَا مَا
طرف لوٹیں گے، یہی وہ چیز ہے
وَعَدَنَا اﷲُ وَرَسُولُہُ
جسکا وعدہ ہم سے اﷲ و رسول(ص)نے کیا
وَصَدَقَ اﷲُ وَرَسُولُہُ
اور اﷲ اور اسکے رسول(ص)نے سچ فرمایا
اَللّٰہُمَّ زِدْنا إیماناً
اے معبود!ہمارے ایمان و یقین
وَتَسْلِیما۔
میں اضافہ فرما۔
پس جب میت کو قبر میں اتارنے والا اس سے باہر نکلے تو پائنتی کی طرف سے باہر آئے، پھر قبر کو بند کردے اور اسے زمین سے چار انگشت کے برابر بلند کرے. اس قبر کی مٹی کے علاوہ اس پر دوسری مٹی نہ ڈالے اور بہتر ہے کہ قبر کے سر ہانے کوئی اینٹ رکھ دی جائے یاتختی لگادی جائے۔
اس کے بعد قبر پر پانی چھڑکا جائے اور اس کی ابتدائ قبر کے سرہانے کی طرف سے کی جائے۔ پانی قبر کے چاروں طرف ڈالا جائے اور اس کا اختتام سرہانے کی طرف ہی کیا جائے جہاں سے شروع کیا تھا. اگر کچھ پانی بچ رہے تو اسے قبر کے درمیان گرادیا جائے، پس جب قبر مکمل طور پر بند کی جا چکی ہوتو جو بھی شخص چاہے اس پر اپنا ہاتھ رکھے اور انگلیوں کو پھیلا دے. پھر میت کے لیے اس طرح دعا مانگے:
ًاَللّٰہُمَّ آنِسْ وَحْشَتَہُ
اے معبود! اس کے خوف میں ہمدم
وَارْحَمْ غُرْبَتَہُ وَٲَسْکِنْ
بن اس کی بے کسی پر رحم کر اس کا ڈر
رَوْعَتَہُ وَصِلْ وَحْدَتَہُ
دور کردے، اس کی تنہائی کا ساتھی
وَٲَسْکِنْ إلَیْہِ مِنْ
رہ اور اپنی رحمتوں سے خاص رحمت اسکے
رَحْمَتِکَ رَحْمَۃً
ساتھ کردے کراس کے ذریعے
یَسْتَغْنِی بِہا عَنْ رَحْمَۃِ
اسے اپنے غیر کی رحمت سے بے
مَنْ سِواکَ وَاحْشُرْہُ
نیاز کردے اوراس کو ان کے ساتھ
مَعَ مَنْ کانَ یَتَوَلاَّہُ۔
اٹھانا، جن سے محبت رکھتا تھا۔
پھر جب سارے لوگ اس کی قبر سے واپس چلے جائیں تو جو شخص میت کے امر کا زیادہ حقدار ہے، وہ واپس جانے میں جلدی نہ کرے اور اس پر احسان کرتے ہوئے بلند آواز سے تلقین پڑھے، اگر تقیہ مانع نہ ہو پس کہے:اے فلاں ابن فلاں﴿ میت کا اور اس کے باپ کا نام لے﴾ :
اﷲُ رَبُّکَ وَمُحَمَّدٌ
اﷲ تیرا رب ہے حضرت محمد(ص)
نَبِیُّکَ وَالْقُرْآنُ
تیرے نبی ہیں اور قرآن تیری
کِتابُکَ، وَالْکَعْبَۃُ
کتاب ہے، کعبہ تیرا
قِبْلَتُکَ وَعَلِیٌّ إمامُکَ
قبلہ ہے، حضرت علی تیرے امام ہیں
وَالْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ
اور حسن(ع) اور حسین(ع) ۔
اور بارہویں امام تک ہر ایک کا نام لے
ٲَئِمَّتُکَ ٲَئِمَّۃُ الْہُدَی
تیرے امام ہیں، وہ امام ہدایت
الْاََبْرَارُ۔
والے خوش کردار ہیں ۔
مولف کہتے ہیں: احتضار ﴿جان کنی﴾ کے علاوہ دو اور مقامات ہیں، جہاں میت کو تلقین کرنا مستحب ہے، ایک وہ وقت جب میت کو قبر میں لٹایا جائے اور بہتر یہ ہے کہ دائیں ہاتھ سے اس کے داہنے شانے کو اور بائیں ہاتھ سے اس کے بائیں شانے کو پکڑ کر اسے ہلاتے ہوئے، تلقین پڑھی جائے اور اس کے پڑھنے کا دوسرا وقت وہ ہے، جب میت کو دفن کر چکیں، چنانچہ مستحب ہے کہ میت کا ولی یعنی سب سے قریبی رشتہ دار دوسرے لوگوں کے چلے جانے کے بعد قبر کے سرہانے بیٹھ کر بلند آواز سے تلقین پڑھے اور بہتر ہے کہ دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں قبر پر رکھے اور اپنا مُنہ قبر کے قریب لے جا کر تلقین پڑھے اگر کسی کو اپنا نائب بنائے تو بھی مناسب ہے۔
روایات میں آیا ہے کہ میت کے لیے اس وقت جو تلقین پڑھی جاتی ہے تو منکر اپنے ہمراہ نکیر سے کہتا ہے کہ آئو واپس چلیں، کیونکہ اسے اس کی حجت کی تلقین کردی گئی ہے. لہذا اب اس سے سوال کرنے کی ضرورت نہیں رہی. چنانچہ وہ سوال نہیں کرتے اور لوٹ جاتے ہیں ۔

تلقین جامع میت
علامہ مجلسی(رح) کا ارشاد ہے کہ اگر تلقین اس طرح سے پڑھی جائے تو زیادہ جامع ہوگی۔
اسْمَعْ افْہَمْ یَا فُلانَ
تو سن اور سمجھ اے فلاں
ابْنَ فُلانٍ۔
بن فلاں۔
یہاں میت کا اور اس کے باپ کا نام لے اور کہے:
ہَلْ ٲَنْتَ عَلَی الْعَہْدِ
آیا تو اسی عہد پر قائم ہے
الَّذِی فارَقْتَنا عَلَیْہ
جس پر تو ہمیں چھوڑ کر آیا ہے، یعنی
مِنْ شَہادَۃِ ٲَنْ لاَ إلہَ
یہ گواہی کہ نہیں ہے معبود
إلاَّ اﷲُ وَحْدَہُ لاَ
مگر اﷲ جو یکتا ہے ، کوئی
شَرِیکَ لَہُ وَٲَنَّ
اس کا شریک نہیں اور یہ کہ
مُحَمَّداً صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ
حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و
وَآلِہِ عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ
آلہ اس کے بندے اور رسول(ص)ہیں،
وَسَیِّدُ النَّبِیِّینَ وَخَاتَمُ
وہ نبیوں کے سردار اور پیغمبروں کے
الْمُرْسَلِینَوَٲَنَّ عَلِیَّاً
خاتم ہیں. اور یہ کہ حضرت علی(ع)
ٲَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ وَسَیِّد
مومنوں کے امیر اوصیائ
الْوَصِیِّینَ وَ إمامٌ افْتَرَضَ
کے سردار اور ایسے امام ہیں کہ اﷲ نے انکی
اﷲُ طاعَتَہُ عَلَی الْعالَمِین
اطاعت تمام جہانوں پر فرض کردی ہے،
وَٲَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ
نیز حسن(ع) و حسین(ع)،
وَعَلِیَّ بْنَ الْحُسَیْنِ
علی زین العابدین(ع)،
وَمُحَمَّدَ بْنَ عَلِیٍّ
محمد باقر(ع)،
وَجَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ
جعفر صادق(ع)،
وَمُوسَی بْنَ جَعْفَرٍ
موسیٰ کاظم(ع)،
وَعَلِیَّ بْنَ مُوسی
علی رضا(ع)،
وَمُحَمَّدَ بْنَ عَلِیٍّ
محمد تقی(ع)،
وَعَلِیَّ بْنَ مُحَمَّدٍ
علی نقی(ع)،
وَالْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ
حسن عسکری(ع)،
وَالْقَائِمَ الْحُجَّۃَ الْمَہْدِیَّ
اور حجت القائم مہدی(ع) کہ ان سب
صَلَواتُ اﷲِ عَلَیْہِمْ
پر خدا کی رحمت ہو،
ٲَئِمَّۃُ الْمُؤْمِنِینَ وَحُجَجُ
یہ مومنون کے امام اوراﷲ کی ساری
اﷲِ عَلَی الْخَلْقِ ٲَجْمَعِینَ
مخلوق پر اس کی حجتیں ہیں. تیرے یہ
وَٲَئِمَّتَکَ ٲَئِمَّۃُ ہُدیً
امام ہدایت والے خوش
ٲَبْرَارٌ، یَا فُلانَ ابْنَ
کردار ہیں. اے فلاں بن
فُلانٍ إذا ٲَتَاکَ الْمَلَکانِ
فلاں، جب تیرے پاس دو مقرب
الْمُقَرَّبانِ رَسُولَیْنِ
فرشتے دو پیام بر اﷲ
مِنْ عِنْدِ اﷲِ تَبَارَکَ
تبارک و تعالیٰ کی طرف سے آئیں
وَتَعَالَی وَسَئَلَکَ عَنْ
اور تجھ سے پوچھیں، تیرے رب
رَبِّکَ وَعَنْ نَبِیِّکَ
تیرے نبی تیرے
وَعَنْ دِینِکَ وَعَنْ
دین تیری کتاب
کِتابِکَ وَعَنْ قِبْلَتِکَ
تیرے قبلہ اور تیرے
وَعَنْ ٲَئِمَّتِکَ فَلا
ائمہ کے متعلق تو ڈرمت
تَخَفْ وَقُلْ فِی جَوابِہِما
اور ان کے جواب میں کہہ کہ اﷲ
اﷲُ جَلَّ جَلالُہُ رَبِّی
جل و جلالہ میرا رب ہے.
وَمُحَمَّدٌ صَلَّی اﷲُ
حضرت محمد صلی اﷲ
عَلَیْہِ وَآلِہِ نَبِیِّی وَالْاِسْلامُ
علیہ و آلہ میرے نبی ہیں. اسلام میرا
دِینِی وَالْقُرْآنُ کِتابِی
دین ہے، قرآن میری کتاب ہے،
وَالْکَعْبَۃُ قِبْلَتِی وَٲَمِیرُ
کعبہ میراقبلہ ہے. اور امیرالمومنین
الْمُؤْمِنِینَ عَلِیُّ بْنُ
علی(ع) بن ابیطالب
ٲَبِی طالِبٍ إمامِی،
میرے امام ہیں،
وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ
ان کے بعد حسن(ع) مجتبیٰ
الْمُجْتَبَی إمامِی وَالْحُسَیْنُ
میرے امام ہیںاور حسین (ع)بن
بْنُ عَلِیٍّ الشَّہِیدُ بِکَرْبَلائَ
علی(ع) جو کربلا میں شہید ہوئے میرے
إمامِی وَعَلِیٌّ زَیْنُ الْعابِدِینَ
امام ہیں، علی (ع)بن زین العابدین(ع)
إمامِی وَمُحَمَّدٌ باقِرُ
میرے امام ہیں، نبیوں کے علم پھیلانے
عِلْمِ النَّبِیِینَ إمامِی
والے اور محمد باقر(ع) جو میرے امام ہیں
وَجَعْفَرٌ الصَّادِقُ إمامِی
جعفر صادق(ع) میرے امام ہیں،
وَمُوسَی الْکاظِمُ إمامِی
موسیٰ کاظم(ع) میرے امام ہیں،
وَعَلِیٌّ الرِّضا إمامِی
علی(ع) رضا میرے امام ہیں،
وَمُحَمَّدٌ الْجَوادُ إمامِی
محمد تقی(ع) جوادمیرے امام ہیں،
وَعَلِیٌّ الْہَادِی إمامِی
علی نقی(ع) ہادی میرے امام ہیں،
وَالْحَسَنُ الْعَسْکَرِیُّ
حسن(ع) عسکری(ع) میرے
إمامِی وَالْحُجَّۃُ الْمُنْتَظَرُ
امام ہیںحجت منتظر میرے
إمامِی ہؤُلائِ صَلَواتُ
امام ہیں. ان سب پر خدا کی
اﷲِ عَلَیْہِمْ ٲَجْمَعِینَ
رحمت ہو کہ یہی میرے
ٲَئِمَّتِی وَسادَتِی وَقادَتِی
امام میرے سردار ،میرے پیشوااور
وَشُفَعائِی بِہِمْ ٲَتَوَلَّی
میرے شفیع ہیں، میں ان سے محبت
وَمِنْ ٲَعْدائِہِمْ ٲَتَبَرَّٲُ
کرتا ہوں، ان کے دشمنوں سے
فِی الدُّنْیا وَالْاَخِرَۃِ
نفرت کرتا ہوں، دنیا و آخرت میں
ثُمَّ اعْلَمْ یَا فُلانَ ابْنَ
پس جان لے اے فلاں بن
فُلانٍ ٲَنَّ اﷲَ تَبارَکَ
فلاں یہ کہ اﷲ تبارک و
وَتَعالی نِعْمَ الرَّبُّ
تعالیٰ بہترین رب ہے
وَٲَنَّ مُحَمَّداً صَلَّی
اور حضرت محمد صلی
اﷲُ عَلَیْہِ وَآلِہِ نِعْمَ
اﷲ علیہ و آلہ بہترین
الرَّسُولُ وَٲَنَّ ٲَمِیرَ
رسول(ص) ہیں، امیرالمومنین
الْمُؤْمِنِینَ عَلِیَّ بْنَ
علی بن ابیطالب اور
ٲَبِی طالِبٍ وَٲَوْلادَہُ
ان کی اولاد سے
الْاََئِمَّۃَ الْاََحَدَ عَشَر
گیارہ امام بہترین
نِعْمَ الْاََئِمَّۃ وَٲَنَّ مَا
ائمہ ہیں اور یہ کہ جس چیز کو
جائَ بِہِ مُحَمَّدٌ صَلَّی
لے کر حضرت محمد صلی
اﷲُ عَلَیْہِ وَآلِہِ حَقٌّ
اﷲ علیہ و آلہ آئے وہ حق ہے،
وَٲَنَّ الْمَوْتَ حَقٌّ
موت حق ہے،
وَسُؤَالَ مُنْکَرٍ وَنَکِیرٍ
قبر میں منکر و نکیر کا سوال کرنا حق
فِی الْقَبْرِ حَقٌّ وَالْبَعْثَ
ہے، قبروں سے اٹھنا
حَقٌّ وَالنُّشُورَ حَقٌّ
حق ہے، حشر و نشر حق ہے،
وَالصِّراطَ حَقٌّ وَالْمِیزانَ
صراط حق ہے، میزان عمل حق ہے
حَقٌّ وَتَطایُرَ الْکُتُبِ
نامہ اعمال کا کھولا جانا حق ہے،
حَقٌّ وَالْجَنَّۃَ حَقٌّ
جنت حق ہے، جہنم
وَالنَّارَ حَقٌّ وَٲَنَّ
حق ہے، اور یقیناً
السَّاعَۃَ آتِیَۃٌ
قیامت آکر رہے گی
لاَ رَیْبَ فِیہا، وَٲَنَّ
اس میں شک نہیں اور
اﷲَ یَبْعَثُ مَنْ فِی
خدا انہیں اٹھائے گا جو قبروں
الْقُبُور۔
میں ہیں۔
اس کے بعد کہے:
ٲَفَہِمْتَ یَا فُلانُ؟
اے فلاں کیا تو نے سمجھ لیا ہے؟
حدیث میں ہے کہ اس کے جواب میں میت کہتی ہے کہ ہاں میں نے سمجھ لیا. پھر کہے:
ثَبَّتَکَ اﷲُ بالْقَوْل
خدا تجھے اس مضبوط قول پر قائم
الثَّابِتِ ہَدَاکَ اﷲُ
رکھے خدا تجھے صراط
إلی صِراطٍ مُسْتَقِیمٍ
مستقیم کی ہدایت کرے
عَرَّفَ اﷲُ بَیْنَکَ وَبَیْنَ
خدا اپنی رحمت کی قرار گاہ میں
ٲَوْلِیائِکَ فِی مُسْتَقَرٍّ
تیرے اور تیرے اولیائ کے
مِنْ رَحْمَتِہِ۔
درمیان جان پہچان کرائے۔
پھر کہے:
اَللّٰہُمَّ جافِ الْاََرْضَ
اے معبود! اس کی قبر کی دونوں
عَنْ جَنْبَیْہِ وَاصْعَدْ
اطراف کو کشادہ کر اس کی روح کو
بِرُوحِہِ إلَیْکَ وَلَقِّہِ
اپنی طرف اٹھالے اور اسے دلیل و
مِنْکَ بُرْہاناً اَللّٰہُمَّ
برہان عطا فرما. اے معبود اسے
عَفْوَکَ عَفْوَکَ۔
معاف فرما، معاف فرما۔

﴿ خاتمہ کتاب﴾
میں نے اس باشرف رسالے کے مضامین کو لفظ ’’عفو‘‘ پر ختم کیا ہے اور امید و اثق ہے کہ پروردگار عالم کا عفو و کرم اس روسیاہ کے اور ان لوگوں کے بھی شامل حال ہوگا جو اس رسالے پر عمل کریں گے. اس کی تالیف کا سلسلہ ۹۱ محرم الحرام ۵۴۳۱ ÷ھ کو روز جمعہ کی آخری ساعتوں میں ہمارے مسموم امام ہمارے غریب اور مظلوم مولا امام ابوالحسن علی رضا(ع) کے قرب میں اختتام کو پہنچا ﴿ان پر اور ان کے بزرگان پر زندہ و پائندہ خدا کا سلام ہو﴾۔
وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ اَوَّلاً وَّ
حمد ہے اﷲ کے لیے آغاز
آخِرًا وَّ صَلّیَ اﷲُ
و انجام میں اور خدا کی رحمت ہو
عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہٰ۔
محمد(ص) اور ان کی آل(ع) پر۔
اس رسالے کو اپنے گناہکار ہاتھوں سے عباس بن محمد(ص) رضا قمی نے مرتب کیا﴿خدا ان دونوں کے گناہ معاف فرمائے﴾. اس بابرکت رسالے باقیات الصالحات کی ﴿پہلی﴾ کتابت غلام رضا صفا بن مرحوم و مغفور حسین باقر آبادی نے ۶۰۴۱ھ میں مکمل کی۔

چھٹا باب بعض سورتوں اور آیتوں کے خواص اور دیگر دعائیں اور اعمال

﴿چھٹا باب﴾ --------------------- بعض سورتوں اور آیتوں کے خواص اور دیگر دعائیں اور اعمال۔

یہ باب چالیس امور پر مشتمل ہے :

﴿پہلا امر﴾
شیخ کلینی نے کافی میں امام محمد باقر - سے روایت کی ہے کہ جوشخص سونے سے پہلے سورہ ہائے مسبحات یعنی سورہ حدید‘ حشر‘صف ‘جمعہ‘ تغابن اور اعلی کی تلاوت کرکے سوئے تو وہ حضرت امام العصر - کی زیارت سے مشرف ہوئے بغیر نہیں مرے گا اور بغیر زیارت کئے مر جائے تو وہ حضرت رسول (ص) کے جوار میں رہے گا۔

﴿دوسرا امر﴾
اسی کتاب میں ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا جو شخص سورہ بقرہ کی پہلی چار آیات آیۃ الکرسی اور اس کے بعد کی دو آیات اور سورہ بقرہ کی آخری تین آیات تلاوت کیا کرے تو وہ اپنی جان و مال میں ایسی کوئی بات نہیںدیکھے گا جو اسے ناگوار گزرے شیطان اس کے قریب نہ پھٹکے گا اور نہ قرآن کو فراموش کرے گا۔

﴿تیسرا امر﴾
شیخ کلینی(رح) نے امام محمد باقر - سے روایت کی ہے کہ جو شخص سورہ قدر کو بآواز بلند پڑھے گا وہ ایسے ہوگا جیسے بے نیام تلوار سے راہ خدا میں جہاد کررہا ہو جو اس سورت کو آہستہ سے پڑھے گا وہ ایسے ہو گا جیسے راہ خدا میں اپنے خون میں ڈوبا ہوا ہو۔ نیزجو شخص اس سورت کو دس مرتبہ پڑھے گا تو اﷲ تعالی اس کے گناہوں میں سے ایک ہزار گناہ مٹا دے گا۔

﴿چوتھا امر﴾
شیخ کلینی نے بھی امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ آپ (ع)نے فرمایا .میرے والد گرامی فرمایا کرتے تھے کہ سورہ اخلاص قرآن کا تیسرا حصہ ہے اور سورہ کافرون قرآن کا چوتھا حصہ ہے ۔

﴿پانچواں امر﴾
امام موسی کاظم - سے منقول ہے کہ جو شخص آیتہ الکرسی پڑھ کر سوئے تو فالج کے حملے سے محفوظ رہے گاانشائ اﷲ اور جو شخص اسے ہر فریضہ نماز کے بعد پڑھے تو زہریلا حیوان اس تک نہ پہنچ سکے گانیز فرمایا کہ جو شخص سورہ اخلاص کو اپنے اور ظالم شخص کے درمیان پڑھے گا تو حق تعالی اسے اس کے شر سے محفوظ رکھے گااس سورہ کو اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں پڑھے اور پھر اس ظالم و جابر کے سامنے جائے تو اﷲ تعالی اسے اس کی طرف سے اچھائی دکھائے گااور اس کی برائی سے بچائے گا‘یہ بھی فرمایا کہ جب تمہیں کسی بات کا خطرہ ہو تو قرآن مجید کی کوئی سی سو آیات پڑھو اور پھر تین مرتبہ کہو:
اکْشِفْ عَنِّی الْبَلائَ
اے معبود میری مصیبت دور کر دے

﴿چھٹا امر﴾
شیخ کلینی نے امام جعفرصادق - سے روایت کی ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا جو شخص خدا اورروز قیامت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ ہر فریضہ نماز کے بعد سورہ اخلاص کا پڑھنا ترک نہ کرے جو شخص ہر فریضہ نماز کے بعد اس سورے کو پڑھے تو خدائے تعالیٰ اس کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی جمع کر دے گا اور اس کو اس کے والدین اور اس کی اولاد کو بخش دے گا۔

﴿ساتواں امر﴾
آپ(ع) ہی سے روایت ہے کہ جو شخص سوتے وقت سورہ تکاثر کی تلاوت کرے گا وہ عذاب قبر سے محفوظ و مامون رہے گا ۔

﴿آٹھواں امر﴾
آپ(ع) ہی سے روایت ہے کہ اگر مردہ پر ستر مرتبہ سورہ حمد پڑھی جائے اور اس کی روح پلٹ آئے تو تعجب نہیں کرنا چاہیے

﴿نواں امر﴾
امام موسیٰ کاظم - سے روایت ہے کہ بچے پر ہر رات تین مرتبہ سورہ فلق تین مرتبہ سورہ والناس اور سو مرتبہ سورہ توحید پڑھنے کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے اگر سورہ توحید سو مرتبہ نہ پڑھی جاسکے تو پچاس مرتبہ پڑھے اور اگر اس امر کی پابندی کی جائے تو وہ بچہ مرتے دم تک ہر قسم کی آفات سے امن میں رہے گا۔

﴿دسواں امر﴾
شیخ کلینی ہی نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ آپ(ع) نے مفضل سے فرمایا اے مفضل تم خود کو تمام لوگوں سے بچائے رکھو بسم اﷲ الرحمن الرحیم اور سورہ توحید کے ساتھ وہ یوں کہ تم یہ سورہ پڑھ کر اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں اور اوپر نیچے دم کر لیا کرو جب تم کسی جابر حاکم کے پاس جاؤ تو اسے دیکھتے ہی بائیں ہاتھ پر شمار کرتے ہوئے تین مرتبہ یہ سورہ پڑھو اور جب تک تم اس کے پاس رہو اپنے بائیں ہاتھ کی مٹھی کو بند رکھو جب باہر آ جاؤ تو اسے کھول دو بعض نے کہا ہے کہ جب تک اس کے پاس رہو یہ سورہ پڑھتے رہو ۔

﴿گیارہوں امر﴾
ایک حدیث میں حضرت امیر المؤمنین- سے منقول ہے کہ آگ میں جلنے اور پانی میں ڈوبنے سے محفوظ رہنے کے لیے یہ دعا پڑھے:
اَﷲُ الَّذِی نَزَّلَ الْکِتابَ
وہی اﷲ ہے جس نے قرآن نازل کی
وَہُوَ یَتَوَلَّی الصَّالِحِینَ
وہ نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے
وَمَا قَدَرُوا اﷲَ حَقَّ
لوگوں نے خدا کی وہ قدر نہیں کی جو
قَدَرِہِ وَالْاََرْضُ جَمِیعاً
اسکا حق ہے ساری زمین اسکے قبضہ
قَبْضَتُہُ یَوْمَ الْقِیامَۃِ
قدرت میں ہے روز قیامت اور
وَالسَّمٰوَاتُ مَطْوِیَّات
آسمان بھی لپیٹے ہوئے اسکے دست
بِیَمِینِہِ سُبْحانَہُ وَتَعال
قدرت میں ہیںوہ پاک و بلند ہے
عَمَّا یُشْرِکُون۔
اس سے جسے اسکا شریک بناتے ہیں ۔

﴿سر کش گھوڑے کو مطیع کرنے کیلئے اس کے دائیں کان میں کہے:﴾
وَلَہُ ٲَسْلَمَ مَنْ فِی
اور خدا کے سامنے جھکے ہوئے ہیں
السَّمٰوَاتِ وَالْاََرْضِ
وہ سبھی جو آسمانوں اور زمین میں
طَوْعاً وَکَرْہاً وَ إلَیْہِ
ہیںچارو ناچار اور اس کی طرف
یُرْجَعُونَ۔
پلٹ جائیں گے۔

﴿درندوں کی سرزمین میں ان کی گزند سے بچنے کے لیے یہ پڑھے:﴾
لقد جَائَکُمْ رَسُولٌ
یقینا تمہارے پاس تم ہی میں سے
مِنْ ٲَنْفُسِکُمْ عَزِیزٌ
ایک رسول(ص) آ چکا ہے کہ تم پر آنے
عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیصٌ
والی سختی اسے ناگوار ہے وہ تمہیں
عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِینَ
بہت چاہتا ہے مومنوں کیلئے نرم خو
رَؤُوفٌ رَحِیمٌ، فَ إنْ
مہربان ہے پس اگر وہ منہ موڑ لیں تو
تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ
کہو کہ مجھے کافی ہے
اﷲُ لاَ إلہَ إلاَّ ہُوَ عَلَیْہِ
اﷲ مگر نہیں معبود مگر وہی میں اسی پر
تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ
بھروسہ کرتا ہوں اور وہ عظمت
الْعَرْشِ الْعَظِیمِ۔
والے عرش کا مالک ہے ۔

﴿گمشدہ بازیابی کے لیے دو رکعت نماز میں سورہ یٰسین پڑھے اور بعد میں یہ کہے:﴾
یَا ہادِیَ الضَّالَّۃِ رُدَّ
اے گمراہوں کو ہدایت دینے والے
عَلَیَّ ضالَّتِی۔
میری گمشدہ چیز مجھے لا دے ۔

﴿بھاگے ہوئے غلام کی واپسی کیلیے پڑھے:﴾
ٲَوْ کَظُلُمَاتٍ فِی بَحْرٍ
یا جیسے گہرے سمندر میں تاریکیاں
لُجِّیٍّ یَغْشَاہُ مَوْجٌ
کہ ا نہیں ڈھانپتی ہے پانی کی ایک
مِنْ فَوْقِہِ مَوْج الی قول عز وجل
کے بعد دوسری لہر
وَمَنْ لَمْ یَجْعَلِ اﷲُ
اور جسے خدا نور عطا نہ کرے تو
لَہُ نُوراً فَمَا لَہُ مِنْ نُور
اس کے لیے کوئی نور نہیں ہوتا۔

﴿چور سے بچنے کے لیے بستر پر سوتے وقت پڑھے:﴾
قُلْ ادْعُوا اﷲَ ٲَوِ ادْعُو
کہہ دو کہ اﷲ کو پکارو یا رحمن کو پکارو
الرَّحْمٰنَ تا وَکَبِّرْہُ تَکْبِیراً
اوراس کی بہت بڑائی کرو

﴿بارھواں امر﴾
شیخ کلینی نے امام جعفر صادق - سے روایت ہے کہ آپ(ع) نے فرمایاسورہ زلزال کے پڑھنے میں تنگی محسوس نہ کرو کیونکہ جو شخص اسے نوافل میں پڑھے تو حق تعالی اسے زلزلے سے نقصان نہ پہنچنے دے گا۔ اور وہ مرتے دم تک زلزلے‘بجلی اور ہر قسم کی آفا ت سے محفوظ رہے گانیز اس شخص کی موت کے وقت ایک خوش جمال فرشتہ اس کے پاس آئے گاجو اس کے سرہانے بیٹھے گااور ملک الموت سے کہے گااے ملک الموت اﷲ تعالیٰ کے اس دوست کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرو تاآخر روایت کہ مذکور ہے ۔اس وقت اس شخص کی آنکھوں سے پردے ہٹائے جائیں گے اور وہ جنت میں اپنی منزلوں کو دیکھ لے گا پھر بڑی سہولت کے ساتھ اس کی روح قبض کی جائے گی۔ سترہزار فرشتے اس کے جنازے کے پیچھے چلیں گے اور اسے سیدھا جنت میں لے جائیں گے ۔

﴿تیرھواں امر﴾
شیخ کلینی نے ہی امام محمدباقر - سے روایت کی ہے کہ آپ(ع) نے فرمایاسورہ ملک ’’سورہ مانعہ ‘‘ ہے یعنی عذاب قبر کو روکتی ہے ۔

﴿چودھواں امر﴾
آنجناب (ع)ہی سے روایت ہے کہ قرآن مجید کا ایک نسخہ دریا میں گر گیا اور جب اسے وہاں سے نکالا گیا تو اس کے تمام کلمات میں سے صرف یہ جملہ باقی تھا۔
ٲَلا إلَی اﷲِ تَصِیرُ
خبر دار ہو کہ تمام معاملوں کی
الْاَُمُور۔
بازگشت اﷲ کی طرف ہے ۔

﴿پندرھواں امر﴾
شیخ کلینی نے زرارہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا ماہ رمضان کی دوسری تہائی میں قرآن کو کھول کر اپنے آگے رکھے اور پھر یہ کہے:
اَللّٰہُمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ
اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں
بِکِتابِک الْمُنْزَلِ وَمَا
بواسطہ تیری نازل کردہ کتاب کے
فِیہِ وَفِیہِ اسْمُکَ
اور جو اس میں ہے اس میں تیرا
الْاََعْظَمُ الْاََکْبَرُ وَٲَسْمَاؤُکَ
سب سے عظیم سب سے بڑا نام ہے
الْحُسْنَی وَمَا یُخافُ
اور تیرے اچھے اچھے نام ہیں وہ چیز
وَیُرْجَی ٲَنْ تَجْعَلَنِی
بھی جس سے خوف وامید ہے میرا سوال
مِنْ عُتَقائِکَ مِنَ
ہے کہ تو مجھے اپنے جہنم سے آزاد
النَّارِ۔
کردہ لوگوں میں رکھ۔
اس کے بعد خدا سے اپنی دیگر حاجات طلب کرے۔

﴿سولھواں امر﴾
شیخ کفعمی مصباح میں اور محدث فیض خلاصۃ الاذکار میں فرماتے ہیں میں نے بعض کتب امامیہ میں دیکھا ہے کہ جو شخص یہ چاہے کہ خواب میں پیغمبر (ص)یاامام (ع)کی زیارت کرے یا اپنے کسی رشتہ دار یا اپنے والدین کو خواب میں دیکھے تو وہ باوضو ہو کر اپنے بستر پر دائیں پہلو پر لیٹے اور سورہ ہائے شمس‘لیل‘قدر‘کافرون‘ اخلاص‘ فلق اور والناس کی تلاوت کرنے کے بعد سومرتبہ سورہ اخلاص پڑھے اور سو مرتبہ محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) پردرود بھیجے اور پھر دائیں پہلو سوجائے تو جس کا بھی ارادہ کیا ہو گاانشائ اﷲ اسے خواب میں دیکھے گااور اس سے جو بات کرناچاہے وہ بھی کر پائے گا ایک اور نسخے میں دیکھا گیا ہے کہ یہ عمل سات راتوں تک بجا لائے اور مذکورہ سورتیں پڑھنے سے قبل یہ دعا پڑھے:
اَللّٰہُمَّ ٲَنْتَ الْحَیُّ
اے معبود تو وہ زندہ ہے جسکا وصف
الَّذِی لاَ یُوصَفُ
بیان نہیں ہو سکتا وہی جس سے
وَالْاِیمانُ یُعْرَفُ
ایمان کی معرفت ہوئی تجھی سے
مِنْہُ، مِنْکَ بَدَتِ
چیزوں کا آغاز ہوا اور وہ تیری
الْاََشْیائُ وَ إلَیْکَ
طرف پلٹ جائیں گی
تَعُودُ فَمَا ٲَقْبَلَ مِنْہا
پس جو تیری طرف آئے گا
کُنْتَ مَلْجَٲَہُ وَمَنْجاہُ
تو اس کو پناہ و نجات دے گا
وَما ٲَدْبَرَ مِنْہا لَمْ
اور جو منہ پھیرے گااسکے لئے نہ تجھ
یَکُنْ لَہُ مَلْجَٲٌ وَلاَ
سے پناہ ہے نہ نجات مگر تیری
مَنْجَیً مِنْکَ إلاَّ
مگر تیری طرف سے
إلَیْکَ فٲَسْٲَلُکَ
پس میں تجھ سے سوال کرتا ہوں
بِلا إلہَ إلاَّ ٲَنْتَ
میرے بر حق معبود ہو نے کے
وٲَسْٲَلُکَ بِبِسْمِ اﷲِ
واسطے سے سوال کرتا ہوں بسم اﷲ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ
الرحمن الرحیم کے واسطے سے
وَبِحَقِّ حَبِیبِکَ
اور تیرے حبیب
مُحَمَّدٍ صَلَّی اﷲُ
حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ
عَلَیْہِ وَآلِہِ سَیِّدِ النَّبِیِّینَ
علیہ وآلہ کے حق کے واسطے سے جو
وَبِحَقِّ عَلِیٍّ خَیْرِ
نبیوں کے سردار ہیں اور اوصیا میں
الْوَصِیِّینَ وَبِحَقِّ فاطِمَۃَ
بہترحضرت علی (ع)کے حق کے واسطے
سَیِّدَۃِ نِسائِ الْعالَمِینَ
سے تمام جہانوں کی عورتوں کی
وَبِحَقِّ الحَسَنِ
سردار حضرت فاطمہ (ع) کے حق اور حسن (ع)
وَالحُسَیْنِ اللَّذَیْنِ
و حسین (ع) کے حق کے واسطے سے سوال
جَعَلْتَہُما سَیِّدَیْ شَبابِ
کرتا ہوں کہ دونوں کو تو نے جوانان
ٲہْلِ الجَنَّۃِ عَلَیْہِمْ
جنت کاسردار قرار دیا ہے ان سب
ٲجْمَعِینَ اَلسَّلَامُ ٲَنْ
پر درود و سلام ہو کہ تو
تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ
رحمت نازل فرما محمد(ص) و
وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَٲَنْ
آل (ع) محمد(ص) پر اور یہ کہ
تُرِیَنِی مَیِّتِی فِی
مجھے دکھا دے میرا فلاں مردہ
الْحالِ الَّتِی ہُوَ فِیہا۔
اس حال میں کہ جس میں وہ ہے ۔

﴿سترھواں امر﴾
خلاصۃ الاذکار میں ہے بعض کتب میں منقول ہے کہ میں نے محمد بن جریرطبری کی کتاب آداب الحمیدہ میں دیکھا ہے کہ حارث بن روح اپنے والد سے ناقل ہیں کہ میرے والد نے اپنی اولاد سے فرمایاکہ جب کوئی معاملہ تمہیں غمزدہ کرے تو تم میں سے ہرشخص اس طرح رات بسر کرے کہ پاکیزہ ہو کر پاک صاف بستر میں اپنی بیوی سے الگ ہو کے سوئے اور سوتے وقت سات مرتبہ سورہ شمس اور سات مرتبہ سورہ لیل پڑھے اور پھر کہے :
اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ لِی مِنْ
اے معبود تو میرے لئے اس
ٲَمْرِی ہذَا فَرَجاً
معاملے کے سلجھانے اور اس سے
وَمَخْرَجاً۔
نکلنے کا راستہ بنا دے۔
چنانچہ جب کوئی شخص یہ عمل کرے گاتو اسی شب ایک فرد خواب میں اس کے پاس آئے گا یا تیسری یا پانچویں رات اور میرا خیال ہے کہ ساتویں رات میں آنے کا بھی کہا ہے پس وہ شخص اسے اس مشکل سے نکلنے کا طریقہ بتائے گا۔

اپنے مدعا کو خواب میں دیکھنے کا دستور العمل
مؤلف کہتے ہیں بعض بزرگوں نے سورہ والضحی اور سورہ الم نشرح کے پڑھنے کا بھی ذکر کیا ہے ۔جواہر المنثورہ میں ہے کہ جو شخص اپنا مدعا خواب میں دیکھنا چاہے تو وہ سوتے وقت سات سات مرتبہ یہ سورتیں پڑھے’’ سورہ شمس‘ واللیل‘ والتین‘اخلاص‘ فلق‘ والناس ‘‘ پھر حالت وضو میں پاک لباس میں پاک جگہ پر قبلہ رخ ہو کر دائیں پہلو پر لیٹے جیسے میت کو قبر میں لٹایا جاتا ہے اس کے ساتھ ہی اپنے مقصد کے حصول کی نیت کرکے سو جائے اگر پہلی رات کوئی صورت نظر نہ آئے تو اس کے بعد کی راتوں میں ضرور نظر آجائے گی اور سات راتوں سے زیادہ وقت نہیں لگے گا نیز کہا جاتا ہے کہ یہ عمل مجرب ہے ۔

﴿اٹھارواں امر﴾
خلاصۃ الاذکار میں فاطمہ الزہرا = سے روایت ہے کہ میں سونے کے لئے بستر بچھا رہی تھی کہ میرے والد گرامی محمد مصطفی تشریف لائے اور فرمایا اے فاطمہ(ع) اس وقت تک نہ سوناجب تک چار عمل بجا نہ لاؤ ﴿۱﴾قرآن مجید کا ختم کرلو ﴿۲﴾انبیائ کو اپنا شفیع بنا لو ﴿۳﴾مومنین کو خود سے راضی کر لو۔
﴿۴﴾حج اور عمرہ کو بجا لاؤ۔
اس ارشاد کے بعد آنحضرت (ص)نماز میں مشغول ہو گئے پس میں نے نما ز سے آپ کے فارغ ہو نے کا انتظار کیا اور جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے تو میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ(ص) آپ (ص)نے چار چیزوں کا حکم دیا ہے لیکن یہ تو میرے بس سے باہر ہے کہ اسی وقت ان سب چیزوں کو بجا لاؤ؟تب آپ(ص) نے مسکراتے ہوئے فرمایا جب تم تین مرتبہ سورہ توحید پڑھو گی تو گویا قرآن ختم کیا‘جب مجھ پر اور مجھ سے پہلے انبیا(ع)ئ پر صلوات بھیجو گی تو ہم سبھی انبیا(ع) قیامت میں تمہارے شفیع بن جائیں گے جب تمام مؤمنین کے لئے مغفرت طلب کرو گی تو سب تم سے راضی ہو جائیں گے اور جب
سُبْحانَ اﷲِ وَالْحَمْدُ
پاک ہے اﷲ تو حمد اﷲ ہی کیلئے نہیں
لِلّٰہِ، وَلاَ إلہَ إلاَّ اﷲُ،
کوئی معبود مگر اﷲ اور جب اﷲ
وَاﷲُ ٲَکْبَرُ۔
بزرگ تر ہے۔
کہو گی تو حج و عمرہ بجا لاؤ گی ۔
مؤلف کہتے ہیں کفعمی نے روایت نقل کی ہے کہ جو شخص سوتے وقت تین مرتبہ
یَفْعَلُ اﷲُ مَا یَشائُ
خدا جو چاہتا ہے اپنی قدرت سے
بِقُدْرَتِہِ وَیَحْکُمُ مَا
انجام دیتا ہے اور جو ارادہ ہو اپنی
یُرِیدُ بِعِزَّتِہِ۔
عزت سے اس کا حکم جاری کرتا ہے۔
کہے گا تو وہ ایسا ہی ہے جیسے ایک ہزار رکعت نماز ادا کی ہو ۔

﴿انیسواں امر﴾
خلاصۃ الاذکار ہی میں مذکور ہے کہ وقت مطالعہ یہ دعا پڑھے :
اَللّٰہُمَّ ٲَخْرِجْنِی مِنْ
اے معبودتو مجھ کو وہم کی تاریکیوں
ظُلُماتِ الْوَہْمِ وَٲَکرِمْنِی
سے نکال اور عقل و فہم کے نور سے
بِنُورِ الْفَہْمِ اَللّٰہُمَّ
مجھے شرف عطا فرمااے معبود تو
افْتَحْ عَلَیْنا ٲَبْوابَ
ہمارے لئے اپنی رحمت کے
رَحْمَتِکَ، وَانْشُرْ
دروازے کھول دے اور اپنے علوم
عَلَیْنا خَزایِنَ عُلُومِکَ
کے خزانے ہم پر نچھاور کردے اپنی
بِرَحْمَتِکَ یَا ٲَرْحَمَ
رحمت کے ساتھ اے سب سے
الرَّاحِمِینَ۔
زیادہ رحم کرنے والے۔

﴿بیسوا ں امر﴾
روایت میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت امام محمد تقی - کی خدمت میں عریضہ بھیجاکہ میں بہت مقروض ہو گیا ہوں آنجناب(ع) نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا زیادہ سے زیادہ استغفار کیا کرو اور اپنی زبان کو سورہ انا انزلنا ہ کی تلاوت کے ساتھ ہمیشہ تر رکھو۔

﴿اکیسواں امر﴾
ایک حدیث میں وارد ہے کہ مفضل نے امام جعفر صادق - کی خدمت میں سانس پھولنے کی شکایت کی اور بتایا کہ میں تھوڑی دور تک چلتاہوں تو سانس رکنے لگتی ہے اور میں دم لینے کو بیٹھ جاتا ہوں حضرت (ع)نے فرمایا کہ تم اونٹ کا پیشاب پیو تو یہ تکلیف دور ہو جائیگی ایک اور حدیث میں ہے۔
کہ کسی شخص نے آنجناب(ع) سے کھانسی کی شکایت کی تو آپ (ع)نے فرمایا کہ انجدان رومی اور اس کے ہم وزن مصری لے کر ان کا سفوف بنالو اور ایک دوروز تک اسے کھاؤ اس شخص کا کہنا ہے کہ میں نے ایسا ہی کیا تو کھانسی دور ہو گئی

﴿بائیسواں امر﴾
امیر المؤمنین- سے منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ کا ایک شہر سے گزر ہوا جس کے تمام باشندوں کا رنگ زرد اور آنکھیں نیلی ہو چکی تھیں انہوں نے آپ (ع)سے بہت سی بیماریوں کی شکایت کی تو آپ (ع)نے فرمایاتم گوشت کو دھوے بغیر پکاتے ہو جب کہ کوئی بھی جانور اس دنیا سے نہیں جاتا جو حالت جنابت میں نہ ہو یہ سن کر ان لوگوں نے گوشت کو دھو کر پکانا شروع کر دیا اور ان کی تمام بیماریاں جاتی رہیں حضرت عیسٰی- ایک اورشہر سے گزر رہے تھے تو دیکھا کہ وہاں کے لوگوں کے دانت گر چکے تھے اور چہرے سوجے ہوئے تھے آپ(ع) نے ان سے فرمایا کہ تم سوتے وقت ایک مرتبہ اپنا منہ کھول کے پھر اسے بند کر کے سویا کرو پس انہوں نے ایسا کرنا شروع کر دیا اور ان کی یہ بیماری دور ہو گئی ۔

﴿ تیئسواں امر ﴾
امام محمد باقر - سے منقول ہے کہ جب تم کسی مصیبت زدہ کو دیکھو تو نہایت دھیمی آواز میں جسے وہ سن نہ سکے تین مرتبہ کہو :
الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی
حمد ہے اس اﷲ کیلئے جس نے مجھے
عافانِی مِمَّا ابْتَلاکَ
بچایا جس میں تجھے مبتلا کیا اگر وہ
بِہِ وَلَوْ شائَ فَعَلَ۔
چاہتا تو ایسا کر دیتا۔
جو ایسا کرے وہ اس بلائ میں مبتلا نہ ہوگا۔
ایک اور روایت میں ہے کہ نہایت دھیمی آواز میں جسے وہ سن نہ سکے تین مرتبہ یہ کہو:
الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی
حمد اس اﷲ کیلئے جس نے مجھے بچایا
عافانِی مِمَّا ابْتَلاکَ
جس نے تجھے مبتلا کیا اور مجھے تجھ پر
بِہِ وَفَضَّلَنِی عَلَیْکَ وَعَلَی کَثِیرٍ مِمَّنْ
اور اپنی بہت سی مخلوق پر
خَلَقَ۔
بڑھائی دی ہے

﴿چوبیسواں امر﴾
امام جعفر صادق - کا ارشاد ہے کہ جب تمہاری زوجہ حاملہ ہو اور حمل پر چار مہینے گزر چکے ہوں تو اپنا منہ قبلہ رخ کر کے آیۃ الکرسی پڑھو اور پھر اس کے پہلو پر ہاتھ رکھ کر کہو اَللّٰھُمَّ اِنِّی سَمْیِتَہ، مُحَمَّد یعنی ﴿اے معبود میں نے اس بچے کا نام محمد رکھا ہے﴾ پس جو شخص بھی یہ عمل کرے گا اﷲ تعالی اسے بیٹا عطا فرمائے گا اگر وہ اس کا نام محمد رکھے گا تو وہ بچہ بڑا مبارک ہو گا اور اگر یہ نام نہیں رکھے گا تو خدا چاہے تو یہ بچہ اس سے لے لے گا اور چاہے تو اس کے پاس رہنے دے گا ۔

﴿ پچیسواں امر﴾
روایت ہوئی ہے کہ عقیقہ کی بھیڑ بکری مینڈھا یا بکرا ذبح کرتے وقت یہ دعا پڑھے:
بِسْمِ اﷲِ وَبِاﷲِ اَللّٰہُمَّ
خدا کے نام خدا کی ذات سے اے معبود
عَقِیقَۃٌ عَنْ فُلانٍ
یہ عقیقہ فلاں کی طرف سے ہے
فلاں کی جگہ اس بچے کانام لیں۔
لَحْمُہا بِلَحْمِہِ
اس کا گوشت اس کے گوشت کا
وَدَمُہا بِدَمِہِ وَعَظْمُہا
اسکا خون اسکے خون کا اسکی ہڈیاں اسکی
بِعَظْمِہِاَللّٰہُمَّ اجْعَلْہا
ہڈیوں کا بدلہ ہے اے معبود تو اسے
وِقائً لاَِلِ مُحَمَّدٍ
آل محمد کیلئے حفاظت کا ذریعہ بنا ان
عَلَیْہِ وَآلِہِ السَّلام۔
پر اور ان کی آل پر سلام ہو۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ یہ دعا پڑھے:
یَا قَوْمِ إنِّی بَرِیئٌ مِمَّا
اے میری قوم میں بری ہوں اس
تُشْرِکُونَ إنِّی وَجَّہْتُ
سیجسے تم خدا کا شریک بناتے ہو
وَجْہِیَ لَلَّذِی فَطَرَ
میں نے اپنا رخ اس کی طرف کیا
السَّمٰوَاتِ وَالْاََرْضَ
ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو
حَنِیفاً مُسْلِماً وَمَا
پیدا کیا میں نرا کھرا مسلمان ہوں
ٲَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ
اور مشرکوں میں سے نہیں
إنَّ صَلاتِی وَنُسُکِی
ہوں یقینا میری نماز میری عبادت
وَمَحْیایَ وَمَماتِی
میری زندگی میری موت اﷲ کیلئے
لِلّٰہِ رَبِّ الْعالَمِینَ لاَ
ہے جوجہانوں کا رب ہے جس کا
شَرِیکَ لَہُ وَبِذلِکَ
کوئی شریک نہیں یہی حکم مجھے دیا گیا
ٲُمِرْتُ وَٲَنَا مِنَ
ہے اور میں سر جھکانے والوں میں
الْمُسْلِمِینَ۔ اَللّٰہُمَّ
سے ہوں اے خدا
مِنْکَ وَلَکَ بِسْمِ
تیرے لئے اور تجھ سے ہے خدا کے
اﷲِ وَبِاﷲِ وَاللّہُ ٲَکْبَرُ
نام خدا کے ساتھ اور اﷲ بزرگ تر
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلَی
ہے اے معبود رحمت نازل فرما
مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ
محمد(ص) و آل (ع)محمد(ص) پر
وَتَقَبَّلْ مِنْ فُلانِ ابْنِ فُلان
اور فلاں ابن فلاں سے قبول فرما۔
﴿یہاں بچے کا نام بمعہ ولدیت کے لے﴾پھر جانور کو ذبح کرے

﴿عقیقہ کابیان ﴾
علامہ مجلسی فرماتے ہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اولاد کا عقیقہ کرنا سنت موکدہ ہے ہر اس شخص پر جو اس کیلئے وسعت رکھتا ہے اور بعض علمااسے واجب جانتے ہیں بہتر ہے کہ ساتویں دن عقیقہ کیا جائے اگر اس میں تاخیر ہو جائے تو بچے کے بالغ ہونے سے قبل تک تو اس کے باپ پر سنت ہے اور اس کے بعد خود اس بچے پر آخر عمر تک سنت ہے بہت سی معتبر احادیث میں وارد ہے کہ جس شخص کو اولاد عطا ہو اس پر عقیقہ واجب ہے اور اکثر حدیثوں میں منقول ہے کہ ہر بچہ اپنے عقیقہ کے عوض گروی ہے یعنی اگر اس کا عقیقہ نہیں کیا جائے گا تو اس کے مر جانے یا طرح طرح کی تکلیفوں میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ جو شخص مالدار ہو اس پر عقیقہ واجب ہے اور جو مفلس ہے جب مالدار ہو جائے تو عقیقہ کرلے ورنہ اس کے ذمہ کچھ نہیں ہے اگر والدین بچے کا عقیقہ نہ کریں لیکن پھر جب اس کی طرف سے قربانی کریں تو وہی کافی ہو جاتی ہے ایک اور حدیث میں مذکور ہے کہ امام جعفر صادق - سے پوچھا گیا کہ عقیقہ کے لیے جانور کی بہت تلاش کی ہے لیکن مل نہیں سکا پس آپ(ع) اس بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ اس کی قیمت صدقہ کردی جائے آپ(ع) نے فرمایا پھرتلاش کرو اور کہیں سے حاصل کرو کیونکہ حق تعالی خون بہانے اور کھانا کھلانے کو دوست رکھتا ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ امام(ع) سے پو چھا گیا کہ جو بچہ پیدائش کے ساتویں دن مرجا ئے تو کیا اس کاعقیقہ کرنا واجب ہے؟ فرمایا کہ اگر ظہر سے پہلے فوت ہوتو نہیں کرنا چاہیے لیکن اگر ظہر کے بعد فوت ہو جائے تو اس کا عقیقہ کرنا چاہیے ایک معتبر حدیث میں عمر بن یزید سے منقول ہے کہ اس نے امام(ع) کی خدمت میں عرض کیا مجھے نہیں معلوم کہ میرے والد نے میرا عقیقہ کیا ہے کہ نہیں؟ آپ (ع)نے فرمایا تم اپنا عقیقہ خود کروپس اس نے بڑھاپے میں اپنا عقیقہ کیا حدیث حسن میں آپ (ع) ہی سے منقول ہے کہ ساتویں دن بچے کا نام رکھا جائے عقیقہ کیا جائے اس کا سر منڈوایا جائے اور سر کے بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کی جائے عقیقہ کے جانور کے ران اور پایے دایہ کو دیے جائیں کہ جس نے بچے کی پیدائش میں خدمت انجا م دی ہے باقی گوشت لوگوں کو کھلایا جائے اور تصدق کیا جائے ایک اور موثق حدیث میں فرماتے ہیں جب تمہارے ہاں لڑکا یا لڑکی پیدا ہو تو ساتویں دن اس کا عقیقہ کرواس کا نام رکھو اور اس کا سر منڈوا دو اور اسی روز اس کے سر کے بالوں کے برابر سونا چاندی صدقہ کر دوعقیقہ کا جانور گوسفند یا اونٹ ہو ایک اور حدیث میں ہے کہ عقیقہ کے گوشت کا چوتھا حصہ دایہ کو دیا جائے اگر بچہ دایہ کے بغیر پیدا ہو اہے تو وہ گوشت بچے کی ماں کو دیا جائے وہ جسے چاہے دے دے عقیقہ کا گوشت کم ازکم دس مسلمانوں کو کھلایا جائے اور اگر اس سے زیادہ ہوں تو بہتر ہے لیکن یاد رہے کہ عقیقہ کے گوشت سے خود نہ کھائے اور دایہ اگر عیسائی ہے تو اسے چوتھائی گوشت کے بدلے اس کی قیمت دے دی جائے ایک اور روایت میں ہے کہ دایہ کو عقیقہ کے گوشت کی ایک تہائی دی جائے اور علمائ کے نزدیک مشہور یہ ہے کہ عقیقہ کا جانور اونٹ‘ بھیڑ یا بکری ہو نی چاہیے .امام محمد باقر - سے منقول ہے کہ حضرات حسنین شریفین کی ولادت کے وقت رسول خدا (ص)نے ان کے کانوں میں اذان دی حضرت فاطمہ الزہرا = نے ساتویں دن ان کا عقیقہ کیا اور دایہ کو اس کے پائے اور ایک اشرفی عطا کی .ضروری ہے کہ عقیقہ کا جانور اگر اونٹ ہے توپانچ سال کا یا چھٹے سال میں یا اس سے زیادہ عمر کا ہو اگر بکری ہے تو ایک سال کی یا دوسرے سال میں یا اس سے زیادہ عمر کی ہو اور اگر بھیڑ ہے تو کم از کم چھ یا سات ماہ کی ہو نی چاہیے اور سات ماہ پورے ہو چکے ہوں تو بہتر ہے نیز جانور خصی نہ ہونا چاہیے اور سینگ ٹوٹا‘ کان کٹا‘ لاغر‘ اندھا اور لولاا لنگڑا نہ ہونا چاہیے اور اگر لنگڑا ہو تو ایسا نہ کہ چل پھر نہ سکے۔یاد رہے کہ امام جعفر صادق - کے فرمان کے مطابق عقیقہ کا شمار قربانی میں نہیں ہوتا جو بھی گوسفندمل جائے بہتر ہے ‘اصل چیز تو گوشت ہے اور جانور جتنا موٹا تازہ ہو مناسب ہے علمائ میں مشہور قول یہ ہے کہ لڑکے کیلئے عقیقہ کا جانور اور لڑکی کیلئے مادہ ہونا چاہیے اور یہ حقیر مؤلف گمان کرتا ہے کہ دونوں کے لئے نرجانور ہو تو بہتر ہے اور یہ بات بہت سی معتبر حدیثوں سے مطابقت رکھتی ہے تاہم دونوں کیلئے مادہ جانور ہو نے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے سنت یہ ہے کہ بچے کے والدین عقیقہ کا گوشت نہ کھائیں بلکہ بہتر یہ ہے کہ جو چیز اس میں پکائی جائے وہ بھی نہ کھائیں اور بچے کی ماں کا اس گوشت سے کھانا اشد مکروہ ہے بہتر ہے کہ بچے کے والدین خاندان جو اس گھر میں رہتے ہیں وہ بھی یہ گوشت نہ کھائیں یہ بھی سنت ہے کہ گوشت پکا کر کھلایا جائے اور کچا گوشت صدقہ میں نہ دیا جائے اس کے پکانے کی کم ازکم حد یہ کہ اسے نمک کے پانی میں پکایا جائے اور احتمال یہ ہے کہ یہی صورت بہتر ہے لیکن اگر کچا گوشت ہی تصدق کردیا جائے تو بھی بہتر ہے اگر عقیقہ کا جانور نہ مل سکے تو اس کی قیمت صدقے میں دینا بے فائدہ ہے بلکہ صبر کرناچاہیے یہاں تک کہ جانور مل جائے اور عقیقہ کر دیا جائے۔ اس میں شرط نہیں کہ جو لوگ کھانے میں آئیں وہ سب محتاج ہی ہوں بلکہ فقیروں کے ساتھ نیکوکار افراد کو بھی بلانا چاہیے۔
مؤلف کہتے ہیں کہ عقیقہ کے گو شت میں اس کی ہڈیوں کو توڑنے کی کراہت ایک مشہور بات ہے اور روایت ہے
یکسر عظمھا و یقطع
اس کی ہڈیاں توڑ دی جائیں گوشت
لحمھا و تصنع بھا بعد
کاٹا جائے اور ذبح کے بعد تم جیسے
الذبح ما شئت۔
چاہو گوشت تیار کرو ۔
اس کراہت کے منافی نہیں ہے ‘صاحب جواہر الکلام فرماتے ہیں کہ یہ بات جو اہل عراق میں مشہور ہے کہ عقیقہ کی ہڈیاں اکٹھی کر کے انہیں کپڑے میں لپیٹ کر دفن کرنا مستحب ہے پس مجھے اس بارے میں کوئی نص نہیں مل سکی ‘خدا ہی بہتر جانتا ہے ۔

﴿چھبیسواں امر﴾
امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ بچے کے ختنے کے وقت یہ دعا پڑھی جائے اگر اس وقت نہ پڑھی جاسکے تو لڑکے کے بالغ ہونے تک جب بھی موقع ملے دعا پڑھی جائے کہ اس طرح گرم لوہے سے مرنے اور اس سے پہنچنے والی دوسری تکلیفوں سے محفوظ رہتا ہے وہ دعا یہ ہے:
اَللّٰہُمَّ ہذِہِ سُنَّتُکَ
اے معبود یہ تیرا طریقہ ہے اور
وَسُنَّۃُ نَبِیِّکَ صَلَواتُکَ
تیرے نبی(ص) کی سنت ہے تیری رحمت
عَلَیْہِ وَآلِہِ وَاتِّباعٌ
ہو ان(ص) پر اور ان کی آل (ع) پر ہماری
مِنَّا لَکَ وَلِنَبِیِّکَ
طرف سے تیری اور تیرے نبی(ص) کی
بِمَشِیئَتِکَ وَبِ إرادَتِکَ
اتباع ہے تیری مشیت اور
وَقَضائِکَ اََِمْرٍ ٲَرَدْتَہُ
تیرے ارادے اور تیر احکم بجا لانے
وَقَضائٍ حَتَمْتَہُ وَٲَمْرٍ
کے لئے جس کا تو نے ارادہ کیا
ٲَنْفَذْتَہُ وَٲَذَقْتَہُ حَرَّ
فیصلے کو یقینی بنایا اور حکم جاری کردیا
الْحَدِیدِ فِی خِتانِہِ
اور اس سے لوہے کی کاٹ اورزخم کی
وَحِجامَتِہِ بِٲَمْرٍ ٲَنْتَ
اذیت کا ذائقہ چکھایااس حکم سے
ٲَعْرَفُ بِہِ مِنِّی اَللّٰہُمَّ
جسے تو مجھ سے زیادہ پہچانتاہے اے معبود
فَطَہِّرْہُ مِنَ الذُّنُوبِ
پس اسے گناہوں سے پاک کر اس
وَزِدْ فِی عُمْرِہِ وَادْفَع
کی عمر میں اضافہ فرما اس
ِالْأَفاتِ عَنْ بَدَنِہِ
کے بدن سے آفتیں اور دکھ درد دور
وَالْاََوْجاعَ عَنْ جِسْمِہِ
کردے اس کو زیادہ مال عطا کر اور
وَزِدْہُ مِنَ الْغِنَیٰ وَادْفَعْ
محتاجی کو اس سے
عَنْہُ الْفَقْرَ، فَ إنَّکَ
دور رکھ کہ یقینا تو
تَعْلَمُ وَلاَ نَعْلَمُ۔
جانتا ہے اور ہم نہیں جانتے۔

﴿ستائیسواں امر﴾
سید ابن طاؤس نے خطیب مستغفری کی کتاب ’’دعوات‘‘ اور اس نے رسول اﷲ(ص) سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا جب تم کتاب اﷲ﴿قرآن ﴾ سے فال لینا چاہو تو تین مرتبہ سورہ توحید پڑھو اور اس کے بعد محمد(ص) وآل(ع) محمد(ص) پر تین مرتبہ درود بھیجو اس کے بعد یہ کہو:
اَللّٰہُمَّ إنِّی تَفَٲَّلْتُ
اے معبود میں تیری کتاب سے
بِکِتابِکَ وَتَوَکَّلْتُ
فال لے رہا ہوں تجھی پر میرا بھروسہ
عَلَیْکَ فَٲَرِنِی مِنْ
ہے پس مجھے اپنی کتاب میں سے وہ
کِتابِکَ مَا ہُوَ مَکْتُومٌ
چیز دکھا جو پوشیدہ ہے تیرے چھپے
مِنْ سِرِّکَ الْمَکْنُونِ
ہوئے راز سے تیرے پردہ
فِی غَیْبِکَ۔
غیب میں ۔
اس کے بعد کہ قرآن جامع کہ جس میں تمام سورتیں اور آیتیں ہوں اسے ہاتھ میں لے کر کھولو پھر صفحہ و سطر شمار کیے بغیرداہنی طرف کی پہلی سطر سے فال لو۔یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ علامہ مجلسی نے بعض علمائ کی تالیفات میں شیخ یوسف قطیفی کے خط سے اور انہوں نے آیۃ اﷲ علامہ کے خط سے نقل کیا ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا جب تم کتاب عزیز ﴿قرآن﴾سے استخارہ کرنے کا ارادہ کرو تو بسم اﷲ الرحمن الرحیم کے بعد یہ کہو:
إنْ کانَ فِی قَضائِکَ
الہی اگر تیرے حکم اور فیصلے میں یہ
وَقَدَرِکَ ٲَنْ تَمُنَّ عَلَی
بات ہے کہ شیعیان آل (ع) محمد(ص) پر
شِیعَۃِ آلِ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِمُ
احسان فرمائے کشائش دے کر
اَلسَّلَامُ بِفَرَجِ وَلِیِّکَ
اپنے ولی اور اپنی حجت پر جو تیری
وَحُجَّتِکَ عَلَی خَلْقِکَ
مخلوق کے لئے ہے
فَٲَخْرِجْ إلَیْنا آیَۃً
تو ظاہر فرما ہم پر ایسی آیت
مِنْ کِتابِکَ نَسْتَدِلُّ
اپنی کتاب سے جو اس
بِہا عَلَی ذلِکَ۔
پر ہماری دلیل بن جائے۔
پھر قرآن مجید کھولے اورو ہاں سے چھ صفحے شمار کرے پس ساتویں صفحے کی سطر پر نظر کرے اور اس سے مطلب اخذ کرے۔شیخ شہید (رح)نے اپنی کتاب ذکریٰ میں فرمایا ہے کہ استخاروں میں سے ایک استخارہ عدد ہے جو سید کبیر رضی الدین محمد بن محمدآلاوی مجاور روضہ امیر المؤمنین (ع) سے قبل مشہور نہ تھا ہم اس استخارے کو تمام روایتوں کے ساتھ اپنے مشائخ میں سے شیخ کبیر فاضل جمال الدین بن مطہر سے اور وہ اپنے واالد گرامی سے اور وہ سید رضی الدین مذکور سے اور وہ حضرت صاحب العصر (ع)سے روایت کرتے ہیں کہ سورہ فاتحہ دس مرتبہ اس سے کم تین مرتبہ اور کم ازکم ایک مرتبہ اور پھر سورہ قدر دس مرتبہ پڑھے اور اس کے بعد تین مرتبہ یہ دعا پڑھے:
اَللّٰہُمَّ إنِّی ٲَسْتَخِیرُکَ
اے معبود میں تجھ سے خیر طلب کرتا
لِعِلْمِکَ بِعاقِبَۃِ الْاَُمُورِ
ہوںکہ تو معاملوں کے انجام کو جانتا
وَٲَسْتَشِیرُکَ لِحُسْنِ
ہے تجھ سے مشورہ کرتا ہوں کہ
ظَنِّی بِکَ فِی الْمَٲْمُولِ
امیدوں اور خطروں میں تجھ ہی سے
وَالَْمحْذُورِ۔ اَللّٰہُمَّ
حسن ظن ہے اے معبود
إنْ کانَ الْاََمْرُ الْفُلانِیّ
فلاں کام ان کاموں میں سے
مِمَّا نِیطَتْ بِالْبَرَکَۃِ
ہے کہ جن کے انجام میں برکت
ٲَعْجازُہُ وَبَوادِیہِ
ہے اور آغاز میں بھی
وَحُفَّتْ بِالْکَرامَۃِ
اور اس کے دن رات
ٲَیَّامُہُ وَلَیالِیہِ فَخِرْ
نفع سے بھر پورہیں
لِی اَللّٰہُمَّ فِیہِ خِیَرَۃً
تو اے معبود تو میرے لئے اس خیر کو
تَرُدُّ شَمُوسَہُ ذَلُولاً
اختیار کرجس سے سرکش مطیع ہو
وَتَقْعَضُ ٲَیَّامَہُ سُرُوراً
جائے اور دن خوشیوں سے بھر جائیں
اَللّٰہُمَّ إمَّا ٲَمْرٌ فَٲْتَمِرُ
اے معبود اگر کرنے کا حکم ہے تو
وَ إمَّا نَہْیٌ فَٲَنْتَہِی
کروں اور نہیں ہے تو رکا رہوں
اَللّٰہُمَّ إنِّی ٲَسْتَخِیرُکَ
اے معبود میں تجھ سے خیر طلب کرتا
بِرَحْمَتِکَ خِیَرَۃً
ہوں تیری رحمت سے ایسی خیر جس
فِی عافِیَۃٍ۔
میں آرام ہو۔
پھر تسبیح کے کچھ دانے مٹھی میں لے کر اپنی حاجت دل میں لائے اگر مٹھی میں لئے ہوئے دانوں کی تعداد جفت ہے تو یہ ’’افعل ‘‘﴿اس کام کے کرنے کا حکم﴾ اور طاق ہے تو یہ ’’لا تفعل‘‘﴿اس کام کے بجانہ لانے کا حکم ﴾ہے یا اس کے برعکس کہ طاق بہتر ہے اور جفت بہتر نہیں ‘یہ استخارہ کرنے والوں کی نیت سے وابستہ ہے ۔مؤلف کہتے ہیں ’’تقعض‘‘ضاد معجمہ کے ساتھ ہے جس کے معنی ہیں لوٹ جائے پلٹ جائے اور ہم نے نمازوںکے باب میں استخارہ ذات الرقاع اور دیگر اقسام کے استخاروں کاذکر کیا ہے لہذا انکی طرف رجوع کیا جائے جانناچاہیے کہ سید ابن طاؤس(رح) فرماتے ہیں ان کاخلاصہ کلام یہ ہے کہ مجھے اس بار ے میں کوئی صریح حدیث نہیں ملی کہ انسان کسی اور کیلئے بھی استخارہ کرسکتا ہے؟ لیکن مجھے ایسی بہت سی احادیث میں یہ بات ضرور نظر آتی ہے کہ دعاؤں اور توسل کے دیگر ذریعوں کے ساتھ اپنے مؤمن بھائیوں کی حاجات پوری کرنے کا حکم دیا گیا ہے بلکہ روایات میں تو مؤمن بھائیوں کیلئے دعاکرنے کے اتنے فوائد بیان ہوئے ہیں کہ جن کے دہرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے چونکہ استخارے کا شمار بھی دعاؤں اور حاجتوں میں ہے اور جب کوئی شخص کسی سے استخارہ کرنے کو کہتا ہے تو گویااس کے سامنے اپنی حاجت پیش کر رہا ہوتا ہے اور جو استخارہ کرتا ہے وہ در حقیقت اپنے لئے استخارہ کرتا ہے تاکہ اسے بتائے آیا اس میں مصلحت ہے کہ اس سے کہے یہ کام کرو یا نہ کرو وہ اسے بتانا چاہتا ہے کہ اس کام کے کرنے میں مصلحت ہے یا اس کے نہ کرنے میں مصلحت ہے پس اس بات کا تعلق استخاروں اور حاجتوں کے پورا کرنے کے ضمن میں نقل شدہ روایات سے ہے کہ علامہ مجلسی (رح)کا ارشاد ہے کہ سید کا کلام دوسروں کے لئے استخارہ کرنے کے جواز میں قوت سے خالی نہیں ہے کیونکہ اس کا تعلق عوامی ضرورتوں سے ہے خصوصا اس صورت میں جب استخارہ کرانے والے کا نائب اس چیز کا قصد کرے کہ وہ اس شخص کا نائب بن کر کہہ رہا ہے کہ اس کام کو انجام دو یا انجام نہ دو .جیسا کہ سید(رح)نے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے یہ استخارے کو خاص روایات و اخبار کے تحت لانے کا ایک ذریعہ ہے تاہم زیادہ احتیاط اور زیادہ بہتری اسی میں ہے کہ صاحب حاجت اپنے لئے خود استخارہ کرے کیونکہ ہمیں کوئی ایسی روایت نہیں ملی کہ جس میں استخارہ میں وکالت کو جائز قرار دیا گیا ہو اگر یہ عمل جائز یا قابل ترجیح ہوتا تو آئمہ کے اصحاب ان حضرات(ع) سے اس بارہ میں ضرور پوچھتے اور اگر پوچھا گیا ہوتا تو ضرور ہم تک یہ بات پہنچ جاتی اور کم ازکم ایک ہی ایسی روایت مل جاتی ہے ماسوائے اس کے کہ مضطر اور پریشان حال قبولیت دعا کے سلسلے میں فوقیت رکھتے ہیں کیونکہ ان کی دعا خلوص نیت سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔

﴿اٹھائیسواں امر﴾
رسول اﷲ نے فرمایاجو شخص کسی یہودی یا عیسائی مجوسی کو دیکھے وہ یہ دعاپڑھے تو اﷲتعالی اسے اور اس کافر کو جہنم میں اکٹھے نہیں کرے گا۔
الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی
حمد ہے اﷲ کے لئے جس نے مجھے
فَضَّلَنِی عَلَیْکَ بِالْاِسْلامِ
تجھ پر فضیلت دی دین اسلام کے
دِیناً وَبِالْقُرْآنِ کِتاباً
ساتھ کتاب قرآن کے ساتھ
وَبِمُحَمَّدٍ نَبِیّاً وَبِعَلِیٍّ
پیغمبرمحمد(ص) کے ساتھ علی (ع)ایسے امام(ع)
إماما،ً وَبِالْمُؤْمِنِینَ
کے ساتھ مومنوں کی برادری کے
إخْوانا وَبِالْکَعْبَۃِ قِبْلَۃً
ساتھ اور کعبہ ایسے قبلہ کے ساتھ۔
مؤلف کہتے ہیں بہت سی آیات وروایات کے ذریعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ کفار کے ساتھ محبت اور مشابہت پیدا نہ کریں اور نہ ہی ان کی روش کو اپنائیں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا۔
قَدْ کَانَ لَکُمْ ٲُسْوَۃٌ
جیسا کہ اﷲ تعالی کا فرمان ہے ضرور
حَسَنَۃٌ فِی إبْرَاہِیمَ
تمہارے لیے ابراہیم(ع) اور ان کے
وَالَّذِینَ مَعَہُ إذْ قَالُوا
ساتھیوں کے کردار میں بہترین نمونہ
لِقَوْمِہِمْ إنَّا بُرَأٰٓؤُا مِنْکُمْ
عمل ہے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ
وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ
ہم تم لوگوں سے بری ہیں اور خدا کے
دُونِ اﷲِ وَبَدَا بَیْنَنا
علاوہ جن کی تم عبادت کرتے ہو اور
وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ
ہمارے تمہارے درمیان ہمیشہ کی
وَالْبَغْضَائُ ٲَبَداً۔
عداوت اور دشمنی ظاہر ہو چکی ہے۔
شیخ صدوق (رح)نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ ایک نبی (ع)کی طرف یہ وحی آئی کہ اے نبی مومنوں سے کہہ دو کہ میرے دشمنوں کا جیسا لباس نہ پہنو میرے دشمنوں جیسی خوراک نہ کھاؤ اور میرے دشمنوں کی روش پر نہ چلو ورنہ تم لوگ بھی میرے دشمن تصور کیے جاؤ گے جیسے وہ میرے دشمن ہیں اسی وجہ سے بہت سی روایتوں میں مذکور ہے کہ فلاں عمل کو بجا لاؤاور خود کو کفار کے مشا بہ نہ کرومثلا وہ روایت جو حضرت رسول اﷲ (ص)سے منقول ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا مونچھیں منڈواؤ اور داڑھی بڑھاؤ بس خود کو یہود ونصاری کے مشابہ نہ بناؤ کیونکہ نصاری اپنی داڑھیوں کو منڈواتے ہیں اور مونچھوں کو بڑھاتے ہیں جب کہ ہم داڑھی کو بڑھاتے اور مونچھوں کو کٹواتے ہیں چنانچہ جب حضرت رسول اﷲ کے تبلیغی مکتوب مختلف ملکوں کے بادشاہوں کو موصول ہوئے تو کسریٰ ﴿شاہ ایران﴾نے یمن میں اپنے گورنرباذان کو حکم بھیجا کہ وہ آنحضرت (ص) کو اس کے پاس روانہ کردے تب اس نے اپنے کاتب ۔بانویہ۔ اور ایک دوسرے شخص ۔خر۔خسک۔ کو مدینہ روانہ کیا ان دونوں نے داڑھیاں منڈوائی اور مونچھیں بڑھائی ہوئی تھیں ان کی یہ حالت آنحضرت (ص) کو نہایت ناگوار گزری اور آپ (ص) نے انہیں دیکھنا بھی گوارا نہ کیا آپ(ص)نے ان سے فرمایا: افسوس ہے تم پر کس نے تمہیں ایسا کرنے کا حکم دیا؟ انہوں نے کہا ہمارے رب یعنی کسریٰ نے اس پر آپ(ص) نے فرمایا لیکن میرے رب ﴿پروردگار﴾ نے مجھے داڑھی رکھنے اور مونچھیں کاٹنے کاحکم دیا ہے نیز یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ اﷲ تعالی نے سورہ ہود میں فرمایا۔
وَلا تَرْکَنُوا إلَی الَّذیِنَ
ظالموں کی طرف میلان پیدا نہ کرو
ظَلَمُوا َتَمَسَّکُمُ النَّارُ
ورنہ جہنم کی آگ تمہیں لپیٹ میں
وَمَا لَکُمْ مِنْ دُونِ اﷲِ
لے گی اور خدا کے علاوہ تمہارا کوئی
مِنْ ٲَوْلِیَائَ ثُمَّ لاَ
مدد گار نہ ہوگااور پھر تمہاری مدد نہ کی
تُنْصَرُونَ۔
جائے گی ۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کا کہنا ہے کہ ظالموں کی طرف تھوڑا ساجھکاؤبھی پیدا نہ کرو چہ جا ئیکہ بہت سارا جھکاؤ پیدا کیا جائے کیونکہ اس سے جہنم کی آگ تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گی بعض مفسرین کا قول ہے کہ جس قسم کے جھکاؤ سے روکا گیا ہے وہ ظالموں کے ظلم میں شریک ہونا ان کاموں میں راضی اور ان سے محبت کااظہار کرنا ہے روایات اہل بیت (ع)میں وارد ہے کہ ۔رکون۔ سے مرادان کے ساتھ محبت کرنا‘ان کی خیر خواہی اور ان کی اطاعت کرنا ہے :

﴿انتیسواں امر﴾
وہ انیس کلمات ہیں دعا مانگنے والے کی مصیبتوں کے دور ہونے کا سبب بنتے ہیں ‘یہ کلمات حضرت رسول (ص) نے امیر المؤمنین- کو تعلیم فرمائے اور شیخ صدوق (رح) نے انہیں اپنی کتاب الخصال کے انیسویں باب میں ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہیں۔
یَا عِمادَ مَنْ لاَ عِمادَ
اے اس کے سہارے ‘جس کا کوئی
لَہُ وَیَا ذُخْرَ مَنْ لاَ ذُخْرَ
سہارا نہیں اے اس کی پونچی جس کی
لَہُ وَیَا سَنَدَ مَنْ لا اَسَنَدَ
کوئی پونجی نہیں اے اسکے آسرے
لَہُ وَیَا حِرْزَ مَنْ لاَ حِرْزَ
جس کا کوئی آسرا نہیں اے اس کی
لَہُ وَیَا غِیاثَ مَنْ لاَ
پناہ جس کی کوئی پناہ نہیں اے اس
غِیاثَ لَہُ وَیَا کَرِیمَ
کے فریاد رس جس کا کوئی فریاد رس
الْعَفْوِ وَیَا حَسَنَ الْبَلائِ
نہیں اے خوب معاف کرنے
وَیَا عَظِیمَ الرَّجائِ وَیَا
والے اے بہتر آزمائش کرنے والے
عِزَّ الضُّعَفائِ، وَیَا
اے بڑے امید دلانے والے اے
مُنْقِذَ الْغَرْقَیٰ وَیَا
اے کمزوروں کی عزت اے
مُنْجِیَ الْہَلْکَیٰ یَا
ڈوبتوں کو بچانے والے اے
مُحْسِنُ یَا مُجْمِلُ
ہلاکتوں سے بچانے والے احسان
یَا مُنْعِمُ یَا مُفْضِلُ
کرنے والے اے خوش رفتار اے
ٲَنْتَ الَّذِی سَجَدَ
نعمت دینے والے اے عطا کرنے
لَکَ سَوادُ اللَّیْلِ
والے تو وہ ہے جسے سجدہ کرتے ہیں
وَنُورُ النَّہارِ، وَضَوْئُ
رات کی سیاہی دن کی روشنی ،چاند
الْقَمَرِ وَشُعاعُ الشَّمْسِ
کی چاندنی، سورج کی شعاعیں،
وَدَوِیُّ الْمائِ وَحَفِیفُ
پانی کیلہریں اور درختوں کی
الشَّجَرِ یَااﷲُ یَا اﷲ
حرکت یا اﷲ یا اﷲ
یَا اﷲُ ٲَنْتَ وَحْدَکَ
یا اﷲ تو ہی یکتا ہے
لاَ شَرِیکَ لَکَ۔
تیرا کوئی شریک نہیں ہے
پھر کہے:
اَللّٰہُمَّ افْعَلْ بِی کَذا
اے معبود میری یہ اور یہ حاجت
وَکَذا۔
پوری فرما۔
﴿دعا میں کذا کذا کی بجائے اپنی حاجات بیان کرے﴾۔
ابھی وہ شخض اپنی جگہ سے اٹھا نہ ہو گا کہ دعا قبول ہو چکی ہوگی انشائ اﷲ:

﴿تیسواں امر﴾
شیخ کفعمی نے مفاتیح الغیب سے نقل کیا ہے کہ جو شخص اپنے گھر کے دروازے پر لفظ’’بسم اﷲ‘‘ لکھے وہ ہلاکتوں سے محفوظ رہے گاخواہ وہ کافر ہی ۔ہو کہا جاتا ہے کہ اﷲ تعالی نے فرعون کو اس لئے جلد ہلاک نہیں کیا اور اس کے دعویٰ ربوبیت کے باوجود اسے مہلت دی کہ اس نے اپنے محل کے بیرونی دروازے پر ’’بسم اﷲ‘‘ لکھی ہوئی تھی جب حضرت موسیٰٰ - نے اس کی ہلاکت کے لئے دعا کی تو اﷲ تعالی نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ اے موسی (ع)تم اس کے محل کو دیکھ رہے ہو اور میں اس کے دروازے پر نوشتے کو دیکھ رہا ہوں ۔

﴿اکتیسواں امر﴾
شیخ ابن فہد نے روایت کی ہے کہ ایک روز ابو دردائ کو بتایاگیا کہ تمہارا گھر جل گیا ہے اس نے کہا وہ نہیں جلا پھر ایک شخص نے بھی آکر یہی کہا اور اس نے وہی جواب دیا۔پھر ایک تیسرا شخص آیااور اس نے بھی گھر جلنے کی خبر دی لیکن ابو دردائ نے وہی جواب دیا بعد میں معلوم ہوا کہ اس کے گھر کے اطراف میں سب گھر جل چکے تھے لیکن اس کا گھر محفوظ رہ گیا تھا لوگوں نے پوچھا تمہیں کہاں سے پتہ چلا کہ تمہاراگھر نہیں جلا؟ اس نے کہا اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے حضرت رسول اﷲ(ص)سے سنا ہے کہ جو شخص صبح کے وقت یہ دعا پڑھے گا تو دن میں اس کا اور اگر شام کو پڑھے گا تو رات کو اس کا کوئی نقصان نہیں ہو گااور میں آج صبح کو یہ دعا پڑھ چکا تھا:
اَللّٰہُمَّ ٲَنْتَ رَبِّی لا
اے معبود تو میرا رب ہے نہیں
إلہَ إلاَّ ٲَنْتَ عَلَیْکَ
کوئی معبود مگر تو ہے میںتجھ پر
تَوَکَّلْتُ وَٲَنْتَ رَبُّ
بھروسہ کرتا ہوں توعظمت والے
الْعَرْشِ الْعَظِیمِ وَلاَ
عرش کا مالک ہے نہیں ہے
حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إلاَّبِاﷲِ
طاقتت وقوت مگر جو
الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ مَا شائَ
بلند و بزرگ خدا سے ہے خدا جو
اَﷲُ کانَ وَما لَمْ یَشَٲْ
چاہے ہو جاتا ہے اور جو
لَمْ یَکُنْ ٲَعْلَمُ ٲَنَّ اﷲَ
وہ نہ چاہے نہیں ہوتا میں جانتا ہوں
عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ
کہ اﷲ ہر چیز پر قادر ہے
وَٲَنَّ اﷲَ ٲَحاطَ بِکُلِّ
اور یقینا اﷲ کے علم نے ہر
شَیْئٍ عِلْماً اَللّٰہُمَّ
چیز کو گھیرا ہوا ہے اے معبود
إنِّی ٲَعُوذُ بِکَ مِنْ
میں تیری پناہ لیتا ہوں
شَرِّ نَفْسِی وَمِنْ شَرِّ
اپنے نفس کے شر سے
قَضائِ السُّوئِ، وَمِنْ
ہر بری شی کے شر سے
شَرِّ کُلِّ ذِی شَرٍّ، وَ
ہر شریر کے شر سے
مِنْ شَرِّ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ
جنوں اور انسانوں کے شر سے اور
وَمِنْ شَرِّ کُلِّ دابَّۃٍ
ہرحیوان کے شر سے کہ جس کی مہار
ٲَنْتَ آخِذٌ بِناصِیَتِہا
تیرے ہاتھ میں ہے
إنَّ رَبِّی عَلَی صِرَاطٍ
یقینا میرا رب سیدھے
مُسْتَقِیمٍ۔
راستے پر ملتا ہے ۔

﴿بتیسواں امر﴾
شیخ کلینی (رح)اور دیگر بزرگان نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ آپ (ع)نے زرارہ کو یہ دعا تعلیم فرمائی کہ ہمارے شیعہ امام العصر (ع) کی غیبت میں اور پھر ان کی کشائش کے وقت یہ دعا پڑھا کریں:
اَللّٰہُمَّ عَرِّفْنِی نَفْسَکَ
اے معبود تو مجھے اپنی معرفت عطا کر کہ
فَ إنَّکَ إنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی
یقینا اگر تو نے مجھے اپنی معرفت عطا
نَفْسَکَ لَمْ ٲَعْرِفْ
نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کو نہ پہچان
نَبِیَّکَ اَللّٰہُمَّ عَرِّفْنِی
پاؤ نگا اے معبود مجھے اپنے رسول (ص)کی
رَسُولَکَ، فَ إنَّکَ
معرفت عطاکر کہ یقینا اگر تو نے
إنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی رَسُولَکَ
مجھے اپنے رسول کی معرفت نہ کرائی
لَمْ ٲَعْرِفْ حُجَّتَک
تو میں تیری حجت (ع)کو نہ پہچان پاؤنگا
اَللّٰہُمَّ عَرِّفْنِی حُجَّتَکَ
اے معبود مجھے اپنی حجت کی معرفت
فَ إنَّکَ إنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی
عطا کر کہ اگر تو نے مجھے اپنی حجت
حُجَّتَکَ ضَلَلْتُ
کی پہچان نہ کرائی تو میں اپنے دین
عَنْ دِینِی۔
سے گمرا ہ ہو جاؤں گا۔

﴿تینتیسواں امر﴾
کتاب:عدۃ الداعی میں ہے کہ امیر المؤمنین- سے روایت ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص سونے کا ارادہ کرے تو اپنادایاں ہاتھ دائیں رخسار کے نیچے رکھے اور یہ کہے:
بِسْمِ اﷲِ وَضَعْتُ
اﷲ کے نام سے میں نے اپنا پہلو
جَنْبِی لِلّٰہِ، عَلَی مِلَّۃِ
اﷲ کے لئے رکھ دیا ہے ملت
إبْراہِیمَ وَدِینِ مُحَمَّدٍ
ابراہیم اور حضرت محمد صلی اﷲ
صلی اﷲ علیہ وآلہ
علیہ وآلہ وسلم کے دین پر
وسلم وَوِلایَۃِ مَنِ
اور ان کی ولایت پرجن کی اطاعت
افْتَرَضاﷲُ طاعَتَہُ مَا
اﷲ نے واجب ٹھہرائی ہے جو اﷲ
شَائَ اﷲُکانَ وَما لَمْ
چاہے ہو جاتا ہے اور جو وہ نہ چاہے
یَشَٲْ لَمْ یَکُنْ۔
نہیں ہوتا۔
پس جو شخص سوتے وقت اس دعا کو پڑھے اﷲ تعالی اسے چور ڈاکو اور چھت تلے دبنے سے محفوظ رکھے گااور فرشتے اس کے لئے مغفرت طلب کریں گے۔

﴿چونتیسواں امر﴾
کتاب عدۃ الداعی میں ہے کہ ہر وہ چیز جو پوشیدہ طور پر استعمال کیلئے رکھی گئی ہے اس پر سورہ قدر کاپڑھنااسے ہر طرح سے محفوظ رکھتا ہے اور یہ بات آنجناب (ص)ہی سے روایت ہوئی ہے:

﴿پینتیسواں امر﴾
امیر المؤمنین- سے منقول ہے کہ جوشخص قرآن مجید میں سے کوئی سی سو آیات پڑھے پھر سات مرتبہ یا اﷲ کہے تو اگر وہ یہ عمل کسی پتھر پر بھی کرے گاتو اسے حق تعالی توڑ دے گا۔

﴿چھیتسواں امر﴾
امیرالمومنین- ہی سے منقول ہے کہ جو شخص سوتے وقت تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے گا تو اﷲ تعالیٰ اس کی حفاظت کے لیے پچاس ہزار فرشتے بھیجے گا جو رات بھر اس کی پاسبانی کرتے رہیں گے. امام جعفر صادق - سے مروی ہے کہ جس شخص پر پورا دن گزر جائے اور وہ اپنی کسی بھی نماز میں سورہ اخلاص نہ پڑھے تو قیامت میں اس سے کہا جائے گا کہ اے بندے! تو نمازگذاروں میں سے نہیں تھا انہی جناب سے منقول ہے کہ جو شخص سات دنوں میں سورہ اخلاص ﴿ایک مرتبہ بھی﴾ نہ پڑھے اور مرجائے تو وہ ابولہب کے دین پر مرے گا۔ آپ(ع) ہی سے روایت ہے کہ جو شخص کسی مرض یا کسی مصیبت میں مبتلا ہو اور اس وقت سورہ اخلاص نہ پڑھے تو وہ اہل جہنم سے ہوگا۔

﴿ سینتیسواں امر﴾
عدۃ الداعی میں منقول ہے کہ اس تعویذ کو لکھ کر خربوزہ، خیار اور دوسری فصلوں کے لیے لٹکائے تو وہ کیڑے مکوڑوں اور جانوروں سے محفوظ رہیں گی اس کی کیفیت یہ ہے کہ اسے کپڑے کے چار ٹکڑوں پر لکھے اور لکڑی کے ساتھ باندھ کر کھیت کے چاروں کونوں پر نصب کر دے وہ تعویذ یہ ہے:
ٲَیُّہَا الْدُوْذُ ٲَیُّہَا
اے کیڑے
الدَّوابُّ وَالْہَوامُّ
مکوڑو! اے جانوروں
وَالْحَیْواناتُ اخْرُجُوا
چرندو! اے جاندارو!
مِنْ ہذِہِ الْاََرْضِ
اس زمین اور اس کھیت
وَالزَّرْعِ إلَی الْخَرابِ
سے نکل کر ویرانے میںچلے جائو
کَما خَرَجَ ابْنُ مَتَّ
جیسے یونس ابن متیٰ
مِنْ بَطْنِ الْحُوتِ
مچھلی کے پیٹ سے نکلے تھے
فَ إنْ لَمْ تَخْرُجُو
پس اگر تم پر نہ نکلے
ٲَرْسَلْتُ عَلَیْکُمْ شُواظاً
تو میں پر آگ اور تابنے
مِنْ نارٍ وَنُحاسٍ فَلا
کے شعلے بھیجوں گا پھر
تَنْتَصِرانِ ٲَلَمْ تَرَ إلَی
تمہاری مدد نہیں کی جائے گی آیا
الَّذِینَ خَرَجُوا مِنْ
تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو
دِیارِہِمْ وَہُمْ ٲُلُوفٌ
گھروں سے نکلے ہزاروں
حَذَرَ الْمَوْتِ فَقالَ
کی تعداد میں موت سے ڈر کے تو
لُہُمُ اﷲُ مُوتُوا فَماتُوا
اﷲ نے ان سے فرمایا کہ مرجائو
اخْرُج مِنْہا فَ إنَّکَ
پس وہ مرگئے تم یہاں سے نکل جائو
رَجِیمٌ، فَخَرَجَ مِنْہا
کیونکہ تم راندہ درگاہ ہو . تو وہ وہاں
خائِفاً یَتَرَقَّبُ سُبْحانَ
سے ڈرتا ہوا نکلا پاک ہے وہ اﷲ
الَّذِی ٲَسْرَی بِعَبْدِہِ
جس نے اپنے بندے کو راتوں
لَیْلاً مِنَ الْمَسْجِد
رات سیر کرائی مسجد
الْحَرَامِ إلَی الْمَسْجِد
حرام سے مسجد اقصیٰ
الْاََقْصَیکَٲَنَّہُمْ یَوْم
تک گویا جس دن وہ
یَرَوْنَہا لَمْ یَلْبَثُوا
اسے دیکھیں گے تو نہیں ٹھہریں
إلاَّ عَشِیَّۃً ٲَوْ ضُحَاہَا
گے مگر شام یا ظہر تک
فَٲَخْرَجْناہُمْ مِنْ جَنَّاتٍ
پس ہم نے نکالا ان کو باغوں
وَعُیُونٍ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ
چشموں کھیتوں حویلیوں
کَرِیمٍ، وَنَعْمَۃٍ کانُوا
اور نعمتوں سے جن
فِیہا فاکِہِینَ۔ فَما
میں وہ خوش تھے تو نہ ان پر
بَکَتْ عَلَیْہِمُ السَّمائُ
آسمان رویا اور نہ زمین
وَالْاََرْضُ وَما کانُوا
اور نہ ان کو مہلت ملی
مُنْظَرِینَ اُخْرُجْ مِنْہا
تو یہاں سے نکل
فَما یَکُونُ لَکَ ٲَنْ
جا تجھے یہ حق نہیں کہ اس
تَتَکَبَّر فِیہا فَاخْرُجْ
میں تکبر کیا کرے پس نکل جا کہ
إنَّکَ مِنَ الصَّاغِرِینَ
تو پست لوگوں میں سے ہے
اخْرُجْ مِنْہا مَذْؤُوما
اس جگہ سے نکل جا بدحال
مَدْحُوراً فَلَنَٲْتِیَنَّہُمْ
و مردود ہوکر پس ہم ان پر وہ لشکر
بِجُنُودٍ لاَ قِبَلَ لَہُمْ
لائیں گے جن کا سامنا کر سکیں اور
وَلَنُخْرِجَنَّہُمْ مِنْہا
ضرور ہم انہیں وہاں سے
ٲَذِلَّۃً وَہُمْ صاغِرُونَ۔
ذلیل و خوار کر کے نکالیں گے۔

﴿اڑتیسواں امر﴾
سید ابن طائوس(رح) نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ جو شخص ایسی حالت میں صبح کرے کہ اس کے دائیں ہاتھ میں عقیق کی انگوٹھی ہو تو وہ کسی اور چیز کی طرف نظر کرنے سے پہلے انگوٹھی کے نگینے کو ہتھیلی کی طرف پھیرے اور اس پر نگاہ رکھ کر سورہ قدر کو پڑھے اور اس کے بعد کہے:
آمَنْتُ بِاﷲِ وَحْدَہُ لاَ
میں ایمان رکھتا ہوں اﷲ پر جو یکتا ہے
شَرِیکَ لَہُ وَکَفَرْتُ
کوئی اس کاشریک نہیں انکار کرتا
بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ
ہوں بت اور طاغوت کا
وَآمَنْتُ بِسِرِّ آلِ
ایمان رکھتا ہوںآل(ع) محمد(ص)(ص) کے
مُحَمَّدٍوَعَلانِیَتِہِمْ
نہاں و عیاں پر ان کے ظاہر پر
وَظاہِرِہِمْ وَباطِنِہِمْ
اور ان کے باطن پر ان کے
وَٲَوَّلِہِمْ وَآخِرِہِمْ۔
اول پر اوران کے آخری پر۔
پس جو شخص یہ عمل کرے گا تو خدائے تعالیٰ اس دن کی شام تک آسمان سے اتر نے والی چیزوں اور آسمان کی طرف جانے والی چیزوں، زمین میں داخل ہونے والی چیزوں اور زمین سے نکلنے والی چیزوں کے شر سے محفوظ رکھے گا اور خدا اور دوستان خدا کی حفاظت میں رہے گا .

﴿انتالیسواں امر﴾
شیخ کفعمی(رح) نے کتاب جمع الشتات سے امام جعفر صادق - سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: جب تم ہماری کوئی حدیث بیان کرنا چاہتے ہو ،لیکن شیطان تمہیں اس میں بھلا دیتا ہے . پس اپنا ہاتھ اپنی پیشانی پر رکھو اور یہ کہو:
صَلَّی اﷲُ عَلَی مُحَمَّدٍ
خدا رحمت کرے محمد(ص)(ص) اور ان کی آل(ع) پر
وَآلِہِ اَللّٰہُمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ
اے معبود! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں.
یَا مُذَکِّرَ الْخَیْرِ وَفاعِلَہُ
اے خیر کو یاد دلانے اس پر عمل
وَالْاَمِرَ بِہِ ذَکِّرْنِی
کرنے والے اور اس کا حکم دینے
مَا ٲَنْسانِیہِ الشَّیْطانُ
والے مجھے یاد دلا جو شیطان
من لا یحضرہ۔
نے مجھے بھلا دیا ۔

نماز میں بہت زیادہ نیسان ہونے کی دعا
. نیز کتاب ’’مَنْ لَا یَحضرہ الفقیہ‘‘ میں امام جعفر صادق - سے منقول ہے جو شخص نماز میں بہت زیادہ بھولتا ہو تو اسے چاہیئے کہ جب بیت الخلائ میں جائے تویہ دعا پڑھے:
بِسْمِ اﷲِ ٲَعُوذُ بِاﷲِ
خدا کے نام سے خدا کی پناہ لیتا ہوں
مِنَ الرِّجْسِ النَّجِسِ
پلید نجس خبیث
الْخَبِیثِ الْمُخْبِثِ
آلودہ کرنے والے
الشَّیْطانِ الرَّجِیمِ۔
راندے ہوئے شیطان سے۔

قوت حافظہ کی دوا اور دعا
مولف کہتے ہیں جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا حافظہ زیادہ ہو جائے تو ضروری ہے کہ وہ مسوا ک کرے ، روزہ رکھے ، قرآن کی اور خاص کر آیت الکرسی کی تلاوت کرے، ناشتے میں کشمش خصوصاً سرخ کشمش کے اکیس دانے پابندی سے کھائے . یہ چیز فہم حافظہ اور ذہن کے لیے بہت ہی مفید ہے . اسی طرح حلوہ ، جانور کی گردن کے قریب کا گوشت ، شہد اور مسور کا کھانا بھی ترقی حافظہ کا موجب ہوتا ہے یہ بھی منقول ہے کہ تجربہ شدہ دوائوں میں سے ایک یہ ہے کہ کندر، سعد اور شکر مساوی مقدار میں لے کر آہستہ آہستہ کوٹ کر سفوف بنالیا جائے اور اسے پانچ درہم کی مقدار میں ہر روز کھائے . لیکن اس طرح کہ لگا تار تین دن کھائے اور پانچ دن کا ناغہ کرے . نیز صبح کی نماز کے بعد کسی سے بات کیے بغیر یہ کہے:
یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ، فَلا
اے زندہ! اے پایندہ! جس کے علم
یَفُوتُ شَیْئاً عِلْمُہُ
سے کوئی چیز نکل نہیں پاتی نہ اسے
وَلاَ یَؤُدُہُ۔
تھکاتی ہے
نیز ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھے:
سُبْحانَ مَنْ لاَ یَعْتَدِی
پاک ہے وہ اپنے زیر حکومت
عَلَی ٲَہْلِ مَمْلِکَتِہِ۔
لوگوں پر زیادتی روا نہیں رکھتا۔
پھر وہ نماز پڑھے جو ہم نے دوسرے باب میں قوت حافظہ کے لیے لکھی ہے نیز ایسی چیزوں سے پرہیز کرے جو سہو و نسیان کا موجب ہوتی ہیں اور وہ یہ ہیں کھٹا سیب، سبز دھنیا، پنیر اور چوہے کا جھوٹا کھانا، کھڑے پانی میں پیشاب کرنا ، قبروں کی تختیوں کو پڑھنا ، دو عورتوں کے درمیان سے گزرنا، جو ئیں پکڑ کر زندہ چھوڑ دینا، ناخن نہ کٹوانا ، دنیوی امور میں بہ کثرت مشغول اور ان کے لیے مغموم رہنا ، سولی پر چڑھے ہوئے شخص کو دیکھنا اور اونٹوں کی قطار کے درمیان سے گزرنا۔

﴿چالیسواں امر﴾
شیخ ابن فہد(رح) نے امام جعفر صادق - سے نقل کیا ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا: ہر وہ دعا جس کے آغاز میں خدا کی تمجید و بزرگی اور ثنائ و تعریف نہ ہو وہ ابتر و ناکام ہوتی ہے پہلے خدا کی تمجید ہوتی ہے پھر ثنائ اور تعریف ہوتی ہے، راوی نے پوچھا کم سے کم تمجید کیا ہے جو کافی ہو سکتی ہے؟ آپ(ع) نے فرمایا:یوں کہا کرو:
اَللّٰہُمَّ ٲَنْتَ الْاََوَّلُ فَلَیْسَ
اے معبود! تو ایسا اول ہے کہ
قَبْلَکَ شَیْئٌ وَٲَنْتَ
تجھ سے پہلے کوئی چیز نہ تھی تو
الْاَخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ
ایسا آخر ہے کہ تیرے بعد
شَیْئٌ وَٲَنْتَ الظَّاہِرُ
کوئی چیز نہ ہوگی تو ایسا ظاہر
فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْئٌ
ہے کہ تجھ سے اوپر کوئی چیز نہیں
وَٲَنْتَ الْباطِنُ فَلَیْسَ
تو ایسا باطن ہے کہ تجھ سے
دُونَکَ شَیْئٌ وَٲَنْتَ
نیچے کوئی چیز نہیں اور
الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ۔
تو غالب ہے حکمت والا.