Tuesday, August 10, 2010

امام حسن علیہ السلام کی دعائیں

تعریفِ الٰہی میں آنحضرت کی دعائیں

1۔ آنحضرت کی دعا خدا کی تسبیح اور پاکیزگی کے متعلق

پاک و پاکیزہ ہے وہ جس نے اپنی مخلوقات کو اپنی قدرت کے ذریعے پیداکیا اور اُن کو اپنی حکمت کے تحت محکم اور مضبوط خلق فرمایا۔ اپنے علم کی بنیاد پر ہرچیز کو اپنے مقام پر قرار دیا۔ پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جو آنکھوں کی خیانت اور جو کچھ دلوں میں ہے، جانتا ہے۔ اُس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

2۔ مہینے کی دس اور گیارہ تاریخ کو خدا کی تسبیح اور تقدیس میں آنحضرت کی دعا

پاک و پاکیزہ ہے نو رکو پیدا کرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے تاریکی کو پیدا کرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے پانیوں کو خلق کرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے آسمانوں کو پیدا کرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے زمینوں کو پیدا کرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے ہواؤں کو پیدا کرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے سبزے کو پیدا کرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے زندگی اور موت کو پید اکرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے مٹی اور بیابانوں کو پیدا کرنے والا۔ پاک و پاکیزہ ہے خدا اور تعریف و ثناء اُسی کیلئے ہے۔

3۔ خدا کے ساتھ مناجات کرنے کے متعلق آنحضرت کی دعا

اے اللہ! تیری بارگاہ میں کھڑا ہوں اور اپنے ہاتھ تیری طرف بلند کئے ہیں، باوجود اس کے کہ میں جانتا ہوں کہ میں نے تیری عبادت میں سستی کی ہے اورتیری اطاعت میں کوتاہی کی ہے۔ اگر میں حیاء کے راستے پر چلاہوتا تو طلب کرنے اور دعا کرنے سے ڈرتا۔ لیکن اے پروردگار! جب سے میں نے سنا ہے کہ تو نے گناہگاروں کو اپنے دربار میں بلایا ہے اور اُن کو اچھی طرح بخشنے اور ثواب کا وعدہ دیا ہے، تیری ندا پر لبیک کہنے کیلئے آیا ہوں اور مہربانی کرنے والوں کے مہربان کی محبت کی طرف پناہ لئے ہوئے ہوں۔

اور تیری رسول کے وسیلہ سے جس کو تو نے اہلِ اطاعت پر فضیلت عطا کی ہے، اپنی طرف سے قبولیت اور شفاعت اُس کو عطا کی ہے، اس کے چنے ہوئے وصی کے وسیلہ سے کہ جو تیرے نزدیک جنت اور جہنم کے تقسیم کرنے والامشہور ہے، عورتوں کی سردار فاطمہ کے صدقہ کے ساتھ اور ان کی اولاد جو رہنما اور اُن کے جانشین ہیں، کے وسیلہ سے، اُن تمام فرشتوں کے وسیلہ سے کہ جن کے وسیلہ سے تیری طرف جب متوجہ ہوتے ہیں اور تیرے نزدیک شفاعت کیلئے وسیلہ قرار دیتے ہیں، وہ تیرے دربار کے خاص الخاص ہیں، میں تیری طرف متوجہ ہوا ہوں۔

پس ان پر درود بھیج اور مجھے اپنی ملاقات کے خطرات سے محفوظ فرما۔ مجھے اپنے خاص اور دوست بندوں میں سے قرار دے۔ اپنے سوال اور گفتگو میں سے میں نے اُس کو مقدم کیا ہے۔

جو تیری ملاقات اور دیدار کا سبب بنے اور اگر ان تمام چیزوں کے باوجود میری دعاؤں کو رد کردے گا تو میری اُمیدیں نااُمیدی میں تبدیل ہوجائیں گی۔ اس طرح جیسے ایک مالک اپنے نوکر کے گناہوں کو دیکھے اور اُسے اپنے دربار سے دور کردے۔ ایک مولا اپنے غلام کے عیوب کا ملاحظہ کرے اور اُس کے جواب سے اپنے آپ کو روک لے۔افسوس ہے مجھ پر

امام حسین علیہ السلام کی دعائیں اور مناجات

ہر ماہ کی پانچ تاریخ میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقد یس

پاک ہے وہ ہستی جواعلیٰ اور رفیع الدرجات ہے۔ پاک ہے وہ ذات جو بزرگوار اور بلند مرتبہ ہے۔ پاک ہے وہ ذات جو اس طرح ہے کہ کوئی بھی اس طرح نہیں ہے۔ کوئی ایک بھی اس کی برابری کی طاقت نہیں رکھتا۔ پاک ہے وہ ذات جس کی ابتداء علم سے ہے ،جو قابلِ توصیف نہیں اور اس کی انتہا ایسی دانائی ہے جو کبھی فنا نہیں ہوگی۔

پاک و منزہ ہے وہ ذات جو اپنی ربوبیت سے تمام موجودات پر برتری رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی آنکھ اس کو پانہیں سکتی اور کوئی عقل اُسے مثال میں نہیں لا سکتی۔ وہم سے اُس کو تصور نہیں کرسکتے ،جس طرح زبان اُس کی توصیف کرنے سے قاصر ہے۔

پاک ہے وہ ہستی جو آسمانوں میں بلند مرتبہ ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندوں کیلئے موت کومقرر کیا۔پاک ہے وہ ذات جس کی بادشاہی قدرت مند ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس کی حکمرانی میں کوئی عیب نہیں۔پاک ہے وہ ذات جو ہمیشہ سے ہے اور رہے گا۔(دعوات:۹۲،بحار۹۴:۲۰۵)

اللہ تعالیٰ سے مناجات کرتے ہوئے

روایت ہے کہ امام حسین علیہ السلام انس بن مالک کے ہمراہ چل رہے تھے کہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی قبر کے پاس پہنچے تو روئے۔ پھر فرمایا:

اے انس! مجھ سے دور چلے جاؤ۔ وہ کہتا ہے کہ میں امام علیہ السلام کی نگاہوں سے دور چلا گیا۔ جب انہیں نماز پڑھتے پڑھتے دیر ہوگئی تو میں نے سنا کہ یوں فرمارہے تھے:

پروردگارا! پروردگارا! تو میرا مولا ہے۔

اپنے اس بندے پر رحم فرما جو تیری بارگاہ میں پناہ گزین ہے۔

اے عظیم الشان صفات والے! میرا تجھ ہی پر بھروسہ ہے۔

اُس کے لئے خوشخبری ہے جس کا تو مولا ہے۔

خوشخبری ایسے شخص کیلئے جو خدمت گزار اور شب زندہ دار ہے۔ جو اپنی مشکلات کو اپنے رب کے سامنے رکھتا ہے اور جو چیزیں اپنے رب کے سامنے پیش کرتا ہے۔

کوئی دل میں بیماری نہیں رکھتا بلکہ زیادہ تر اپنے مولا سے محبت کی خاطر ۔بہرحال جو بھی غصہ اور پریشانی بارگاہِ ربوبیت میں رکھی ہے، خدا جل شانہ نے سنی اور قبول فرمایا۔

کوئی بھی اگر اپنی پریشانیوں کو اندھیری رات میں اُس کی بارگاہ میں رازونیاز کرے، خدا اُس کو عزت بخشتا ہے اور اپنا قرب عطا فرماتا ہے۔

پھر اُس بندے کو ندا دی جاتی ہے۔

اے میرے بندے! تو میری حمایت میں ہے اور تونے جو کچھ بھی کہا ہے، ہم اُس کو جانتے ہیں۔

میرے فرشتے تیری آواز سننے کے مشتاق ہیں۔ کافی ہے کہ ہم تیری آواز کو سن رہے ہیں۔آپ کی دعا میرے قریب ہے اور پردوں میں گردش میں ہے۔ کافی ہے کہ ہم تیرے لئے حجاب کو ہٹا دیتے ہیں۔

اگر اُس کی جانب سے ہوا چلے تو زمین پر بیہوشی سی طاری ہوجائے۔مجھ سے طمع، ڈر اور حساب کے بغیر مانگ کیونکہ میں تیرا رب ہوں۔(بحار۴۴:۱۹۳)

حجر اسود کے قریب اپنے رب سے رازو نیاز

اے پروردگارا!تو نے مجھے نعمت سے نوازا لیکن مجھے شکر بجالانے والا نہیں پایا۔ مجھے مصیبت کے ذریعے آزمایا لیکن مجھے صابر و شاکر نہیں پایا۔

اس کے باوجود شکر نہ بجا لانے پر نعمتوں کو سلب نہیں فرمایا اور میرے صبر نہ کرنے پر مصیبت میں اضافہ نہیں فرمایا۔

پروردگارا! تیرے علاوہ کسی کو عزت دار نہیں پایا۔(کشف الغمہ۱:۴۱۴،عددالقویۃ:۳۵)

اخلاقِ حسنہ کی طلب میں

پروردگارا! ہدایت یافتہ لوگوں کی سی توفیق عطا فرما ،پرہیزگاروں کے سے اعمال عطا فرما، توبہ کرنے والوں کی سی خیرخواہی عطا فرما، ڈرنے والوں کی سی خشیت عطا فرما، اہلِ علم کی سی طلب عطا فرما، متقی اور زاہد لوگوں کی سی زینت عطا فرمااور جزع و فزح کرنے والوں کا سا خوف عطا فرما۔

پروردگارا! ہمیشہ میرے دل میں اپنا خوف قرار دے جو مجھے گناہ کرنے سے روکے اور تیرے فرامین پر عمل پیرا ہو کر تیری کرامت اور بزرگواری کا مستحق ٹھہر سکوں۔تیرے خوف سے تیری بارگاہ میں توبہ بجا لاؤں۔

اورپھر تجھ سے محبت میں اعمال کوخلوص سے بجالاؤں۔ اپنے کاموں میں تجھ پر حسن ظن کرتے ہوئے تیری ذات پر ہی توکل کروں۔نور کے پیدا کرنے والی ذات پاکیزہ ہے اور پاک ہے وہ ذات جو عظیم الشان ہے ۔ تمام حمد و ستائش اُسی کے ساتھ سزاوار ہے۔(مہج الدعوات:۱۵۷)

آخرت میں رغبت اور توجہ طلب کرتے ہوئے

پروردگارا! مجھے آخرت میں رغبت اور اشتیاق عطا فرما تاکہ اس کے وجودکی صداقت سے امورِ دنیا میں زہد کو اپنے اندر محسوس کروں۔

پروردگارا! مجھے اُمورِ آخرت کی پہچان اوربصیرت عطافرما تاکہ میں نیکیوں میں اشتیاق اور تیرے خوف کی وجہ سے گناہوں سے دورر ہوں۔(کشف الغمہ۲:۶۳)

استدراج سے امن میں رہنے کیلئے

پروردگارا! مجھے اپنی عطا کردہ نعمتوں سے غافل نہ فرمانا تاکہ میں تیرے عذاب کی راہ پر چل نکلوں اور مجھے اپنی ناراضگی سے ادب نہ سکھانا۔(درة الباہرہ:۲۴)

مُردوں کیلئے طلبِ رحمت کرتے ہوئے

پروردگارا!اے ان فنا ہونے والی ارواح کے رب! بوسیدہ جسموں کے رب اور نرم شدہ ہڈیوں کے رب!جو تجھ پر ایمان اور اعتقاد کی صورت میں دنیا سے گئے ہیں،اُن پر اپنی رحمتیں نازل فرما اور میری جانب سے سلام بھیج۔(بحار۱۰۲:۳۰۰)

وہ دعائیں کہ جو حضرت حجت نے اپنے آباء و اجداد سے نقل کی ہے

حضرت امیر المومنین کی دعا سختیوں کے موقع پر

سید بزرگوار علی بن طاوؤس نے حضرت امیرالمومنین علی سے ایک دعا نقل کیا ہے کہ سختیوں اور مشکلات کو دور کرنے کے لئے پڑھی جاتی ہے اور اس کی سند کو ذکر نہیں کیا گیا ہے لیکن علامہ مجلسی کہتے ہیں کہ اس دعا کے لئے ہمارے پاس عالی سند اور تعجب انگیز ہے چونکہ اس دعا کو واسطہ کے بغیر اپنے باپ سے اس نے بعض صالحین سے انہوں نے ہمارے مولیٰ حضرت حجت سے روایت کی ہے میں اس روایت کو بیان کرتاہوں۔

ص ۳۹۱ سے لیکر ۳۹۹

حرز یمانی کا واقعہ

محدّث نوری کتاب دارالسّلام میں نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں معروف دعا حرز یمانی کے پشت پر علامہ شیخ محمد تقی مجلسی کے خط سے اس طرح پایا بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ رب العالمین و الصلواة علی اشرف المرسلین محمد و عترتہ الطاھرین۔ و بعد سید نجیب اور ادیب امیر محمد ہاشم بزرگوار سادات میں سے ہے اس نے مجھے سے درخواست کی کہ میں حرز یمانی کی قرائت کی اجازت اس کو دے دوں یہ حرز حضرت امیرالمومنین کی طرف منسوب ہے کہ جو خاتم الانبیاء کے بعد سے بہترین مخلوق ہیں میں نے اس کو اجازت دے دی میں نے سید بزرگوار امیر اسحاق الہ آبادی سے کہ جو کربلاء میں مدفعن ہیں اس نے ہمارے مولیٰ کہ جو کہ جن و انس کے امام ہیں حضرت صاحب العصر سے روایت کی ہے کہ امیر اسحاق استر آبادی کہتے ہیں کہ مکہ کے راستے میں تھکاوٹ نے مجھے کمزور کردیا اور چلنے سے رہ گیا اور کاروا سے پیچھے رہ گیا اور قافلہ سے پیچھے رہ جانے کی وجہ سے میں اپنی زندگی سے مایوس ہوا اس دنیا سے نامید ہوگیا جسے کوئی مر رہاہے اسی طرح پشت کے بل سویا اور شہادتین پڑھنا شروع کیا اچانک میرے سرہانے پر میرے اور دونوں جہاں کے مولیٰ حضرت صاحب الزمان جلو گر ہوئے اور فرمایا اے اسحاق اٹھو میں اُٹھا تشنگی اور پیاس مجھ پر غالب آگئی تھی انہوں نے مجھے پانی دیا اور اپنے سواری پر مجھے سوار کیا جاتے ہوئے میں نے حرز یمانی پڑھنی شروع کی حضرت میری غلطیوں کے تصحیح کرتے تھے یہاں تک کہ حرز تمام ہوا اچانک میں متوجہ ہوا کہ ابطع (مکہ) کی سرزمین پر ہوں سواری سے نیچے اتر آیا اور آنحضرت کو نہیں دیکھا ہمارا قافلہ نوروز کے بعد مکہ میں وارد ہوا جب انہوں نے مجھے مکہ میں دیکھا تو انہوں نے تعجب کیا اور مکہ والوں کے درمیان مشہور ہوا کہ میں طتی الارض کے ساتھ آیا ہوں اس لئے حج کے مراسم کے بعد ایک مدت تک مخفی زندگی گزارتارہا۔

علامہ محمد تقی مجلسی اپنے کلام کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ چالیس مرتبہ خانہ کعبہ کی زیارت سے مشرف ہوا تھا جب کربلاء سے مولائے دوجہاں حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا کی زیارت کا عزم کیا تو اصفہان میں ان کی خدمت میں مشرف ہوا تھا اس کے عیال کا مہر یہ ساتھ تومان اس کے ذمہ میں تھا یہ رقم مشہد مقدس میں اپنے سوا کسی ایک شخص کے پاس تھی سید خواب دیکھتاہے کہ اس کی موت قریب آچکی ہے اس لئے وہ کہتاہے کہ میں پچاس سال سے کربلاء میں حضرت امام حسین کے جوار میں ہوں تا کہ وہاں پر مروں یہ کہ میں ڈرتاہوں کہ میری موت کسی اور جگہ نہ آئے ان میں سے ایک رفیق اس واقعہ سے مطلع ہوا اس رقم کو لیکر سیّد کو دیا میں نے سید کو ہمراہ برادران دینی میں سے ایک کے ساتھ کربلاء بھیجا وہ کہتاہے کہ جب سید کربلاء پہنچا اس نے اپنا قرض ادا کیا اس کے بعد بیمار ہوا اور نویں دن اس دار فانی سے دار باقی کی طرف چلا گیا اور ان کو اپنکے گھر میں دفن کردیا گیا جس زمانے میں سید اصفہان میں رہتے تھے میں نے ان سے بہت زیادہ کرامات دیکھے۔ یہ کہنے والی بات ہے کہ اس دعا کے لئے میرے پاس بہت زیادہ اجازت موجود ہیں لیکن میں اسی اجازت پر اکتفا کرتاہوں میں امید رکھتا ہوں کہ مجھ کو دعائے خیر سے فراموش نہ کریں اور آپ سے خواہش ہے کہ یہ دعا صرف خدا کے لئے پڑھو اور دشمن کے نابودی کے لئے کہ جو موٴمن ہے اگر فاسق و ظالم ہوں ان کے لئے نہ پرھے اور اس دعا کو بے قدر دنیا کے جمع کرنے کے لئے نہ پڑھے بلکہ سزاوار ہے کہ اس دعا کو قرب الٰہی حاصل کرنے کے لئے اور جن و انس کے شیاطین کے ضرر کو دور کرنے کے لئے پڑھے نیاز مند بروردگار غنی محمد تقی مجلسی اصفہانی۔

یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اس حکایت کی پہلی قسمت کہ جو حضرت حجت کے ساتھ ملاقات کے بارے میں ہے اس کو علامہ مجلسی نے بحار الانوار کی تیرہویں جلد میں کافی اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے۔

علامہ بزرگوار مجلسی کہتے ہیں جو دعا حرز یمانی کے نام سے معروف ہے یہی دعاء سیفی کے نام سے بھی معروف ہے اس دعا کے لئے متعدد سند اور قسم قسم کے روایت دیکھی ہیں لیکن ان میں سے جو سب سے مہم ہے اس کو یہاں پر بیان کرتاہوں۔

عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن جعفر کہتے ہیں کہ ایک دن امیرالمومنین کی خدمت میں حاضر تھا اتنے میں امام حسن وارد ہوئے اور فرمایا اے امیرالموٴمنین ایک مرد دروازے پر کھڑا ہے اس سے کستوری کی خوشبو آتی ہے۔ اور وہ اندر آنا چاہتاہے حضرت نے فرمایا اس کو اندر آنے کی اجازت دیں اس وقت ایک تنومند مرد خوش شکل اور خوبصورت بڑی آنکھوں والا اور فصیح زبان بولنے والا ہے۔ اس کے بدن پر بادشاہوں کے لباس تھے داخل ہوا اور کہا السلام علیک یا امیرالموٴمنین و رحمة اللہ و برکاتہ میں یمن کے دور دراز شہر کا رہنے والا ایک مرد ہوں اشراف میں سے اور عرب کے بزرگان میں سے کہ آپ سے منسوب ہوں میں آپ کے پاس آیا ہوں۔ میں نے اپنے پیچھے ایک عطیم ملک اور بہت زیادہ نعمتیں چھوڑ کر آیا ہوں میری زندگی اچھی گزرتی تھی میرے کاروبار میں ترقی ہوتی تھی زندگی کے انجام کو جانت اھتا اچانک میری کسی سے دشمنی ہوئی اور اس نے مجھ پر ظلم کیا اس کے حامی قبیلہ کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ مجھ پر غالب آگیا میں نے مہم تدبیر کو اپنایا لیکن اس میں بھی کامیاب نہیں ہوا میں نے کوئی اور چارہ کار نہیں دیکھا میں ان تدابیر سے تھک گیا ایک رات عالم خواب میں ایک شخص کو دیکھا کہ وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا ایے مرد اٹھو اور پیغمبر کے بعد سب سے بہترین مخلوق علی کے پاس جاؤ اور اس سے دعا طلب کرو کہ جس دعا کو حبیب خدا محمد نے اس کو یاد کرایا ہے کہ وہ تمہیں یاد کرائے کہ اس دعا میں اسم اعظم ہے اور اس دعا کو اس دشمن کے سامنے پڑھو کہ جو تیرے ساتھ جنگ کرتاہے اے امیرالموٴمنین میں خواب سے بیدار ہوا میں نے کوئی کام نہیں کیا بلا فاصلہ چار سو غلاموں کو لیکر آپکی طرف آیا ہوں میں خدا پیغمبر اور تجھ کو گواہ قرار دیتاہوں کہ میں نے ان غلاموں کو خدا کی خاطر آزاد کرلیا اب اے امیرالموٴمنین میں دور دراز اور پر پیچ و خم والے راستے سے بہت زیادہ مسافت طے کرکے آپ کی خدمت میں آیا ہوں میرا بدن لاغر ہوا ہے اور بدن کے اعضاء راستے کی تھکاوٹ اور سفر کی وجہ سے کمزور ہوئے ہیں اے امیرالموٴمین مجھ پر احسان کریں اور آپکو آپکے باپ اور رشتہ داری کی قسم دیتاہوں کہ آپ اپنے فضل سے جو خواب میں دیکھاہے اور مجھے بتایا گیا ہے کہ میں آپ کے پاس آؤں اس دعا کو مجھے یاد کرادیں حضرت امیرالموٴمنین علی نے فرمایا کیوں نہیں انشاء اللہ میں اس دعا کو یاد کرادوں گا اس وقت حضرت نے کاغذ اور قلم طلب کیا اور اس دعا کو لکھا۔

ص ۴۰۳ تا ۴۰۹

۔ حرز یمانی

ابن عباس کہتاہے: حضرت نے یہ دعا یمنی مرد کو دی اور فرمایا اس دعا کی اچھی طرح حفاظت کرلو ہر روز ایک دفعہ پڑھ لو مجھے امید ہے کہ آپ کے اپنے شہر پہنچنے سے پہلے اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کو ہلاک کرے گا چونکہ میں نے سنا ہے کہ جو بھی اس دعا کو صحیح نیت اور متواضع دل کے ساتھ پڑھ لے اس وقت پہاڑوں کو حکم دیا جائے کہ حرکت کریں تو حرکت کرنے لگیں گے اگر کہین سفر کرنے کا ارادہ کروگے اس دعا کی برکت سے خطراف سے محفوظ ہو کر سلامتی کے ساتھ اپنے سفر کو ختم کروگے یمنی مرد اپنے شہر کی طرف روانہ ہوا چالیس دن گزرنے کے بعد حضرت کی خدمت میں اس یمنی شخص کا خط پہنچا کہ خدا نے اس کے دشمن کو ہلاک کیا ہے اور اس کے دشمن یہاں پر ایک بھی نہیں بچا ہے۔ ح

حضرت امیرالموٴمنین نے فرمایا:

میں جانتا تھا کہ ایسا ہی ہوگا اس دعا کو رسول خدا نے مجھے تعلیم دی تھی کوئی سختی اور دشواری میرے لئے پیش نہیں اتی مگر یہ کہ میں اس دعا کو پڑھا اور وہ سختی اور دشواری میرے لیئے آسان ہوگئی۔

۔ دعائے حریق

ص ۴۱۰ سے ۴۱۸ تک

۔ امام صادق کی دعاء الحاح آخری حجت سے منقول

ابو نعیم انصاری کہتاہے کہ مسجد الحرام میں تھا چند آدمی عمرہ کے لئے آئے ہوئے تھے ان میں سے ایک محمودی علّان کلینی ابو حیشم دیناری ابوجعفر احوال ہمدانی حجر اسود کے قریب کھڑے تھے تقریباً تین آدمی تھے اور ان کے درمیان میں جہاں تک میں جانتاہوں کہ محمد بن قاسم عقیقی کے علاوہ کوئی اور مخلص شخص نہیں تھا اس دن چھ ذوالحجہ سال ۲۹۳ تھا جیسے ہی ہم کھڑے تھے کہ اچانک ایک جوان طواف کعبہ مکمل کرنے کے بعد ہماری طرف آیا وہ احرام کے دو لباس پہنے ہوئے تھا اور کفش اس کے ہاتھ میں تھے جب ان کو دیکھا تو اس کی ہیبت اور متانت کو دیکھ کر ہم سب کھڑے ہوگئے اور اس کو سلام کیا وہ بیٹھا اور دائیں بائیں دیکھتا تھا اس وقت فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ حضرت صادق نے دعائے الحاح میں کیا فرمایا ہے ہم نے کہا کیا کہا ہے فرمایا کہ فرماتے تھے: اللھم انی اسالک باسمک الذی بہ تقوم السماء و بہ تقوم الارض و بہ تفرق بین الحق والباطل و بہ تجمع بین المتفرق و بہ تفرق بین المجتمع و بہ احصیت عدد الرمال و زنہ الجبال وکیل البحار ان تصلی علی محمد و آل محمد و ان تجعل لی من امری فرجاً و مخرجاً جنة الواقیہ میں لکھتے ہیں کہ اس دعا کو ہر مشکل وقت میں صبح کے وقت پڑھے۔

۔ امیرالموٴمنین کی دعا

ہر واجب نماز کے بعد آخری حجت سے منقول

ابو نعیم کہتاہے اس وقت حضرت اٹھا اور کعبہ کا طواف کرنے لگا ہم بھی اُٹھے اور ہم نے فراموش کیا کہ پوچھے کہ یہ کیا ہے وہ کون ہے کل اسی وقت اسی جگہ پر طواف سے باہر آیا اور ہم بھی کل کی طرف اتھے اس کے بعد جمعیت کے درمیان بیٹھیا ور دائیں بائیں دیکھا اور فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ حضرت امیرالموٴمنین واجب نماز کے بعد کیا دعا پڑھتے تھے ہم نے کہا وہ کیا پڑھتے ہیں فرمایا پڑھتا تھا

ص ۴۱۹ تا ۴۲۰ بحار الانوار میں ایک اور اضافہ ہے لبیک و سعدیک ھا اناذا بین یدیک المسرف علی نفسی و انت القائل (لاتقنطو ا من رحمة اللّٰہ انّ اللّٰہ یغفر الذنوب جمیعاً)

۶۔ دعاء حضرت امیرالموٴمنین سجدہ شکر میں آخری حجت سے منقول

اس وقت حضرت نے اس دعا کے بعد دائیں اور بائیں دیکھا اور فرمایا کیا تم جانتے ہو حضرت امیرالموٴمنین نے سجدہ شکر میں کیا پڑھتے تھے میں نے عرض کیا کہ کیا پڑھتے تھے فرمایا پڑھتے تھے۔ ص ۴۲۰ سے ۴۲۱ تک



۔ امام سجّاد کا سجدہ کی دعا مسجد الحرام میں آخری حجت سے منقول

ابو نعیم کہتاہے دوسرے دن اسی وقت حضرت تشریف لے آئے اور ہم نے پہلے دن کی طرح ان کا استقبال کیا اور وہ درمیان میں بیٹھے بائیں دائیں توجہ کی اور فرمایا حضرت علی بن الحسین سید العابدین نے اس مکان میں اپنے ہاتھ سے حجر الاسود کے پرنالہ کی طرف اشارہ کیا اور سجدہ میں اس طرح فرماتے تھے عبیدک بفنائک (وق فقیرک بفنائک) مسکینک ببابک اسالک مالا یقدر علیہ سواک پس اس کے بعد حضرت نے بائیں اور دائیں طرف نگاہ کی اور محمد بن قاسم علوی کو دیکھا اور فرمایا اے محمد بن قاسم! انشاء اللہ تو خیر اور نیکی پڑھے اس کے بعد اٹھا اور طواف میں مشغول ہوا جو دعائیں بھی ہمیں یاد کرائی سب کو یاد کیا اور فراموش کیا کہ اس کے بارے میں کوئی بات کرلوں سوائے آخری دن کے جب آخر روز ہوا محمد نے ہم سے کہا رفقا تم جانتے ہو کہ یہ کون ہے ہم نے کہا کہ نہیں کہا خدا کی قسم وہ صاحب الزمان ہے ہم نے کہا اے ابو علی وہ کس طرح ہے کہا تقریباً سات سال کا تھا کہ میں دعا کرتا تھا اور خداوند متعال سے چاہا کہ آخری حجت ہمیں دکھادے۔ شب عرفہ اسی شخص کو دیکھا وہ دعا پڑھ رہا تھا میں غور سے دعا کو حفظ کیا اور اس سے پوچھا کہ تم کون ہو فرمایا میں مردوں میں سے ہوں فرمایا کن لوگوں میں سے عرب ہو یا عجم؟ فرمایا کہ عرب ہوں میں نے کہا کہ عرب کے کس قبیلہ سے تعلق رکھتے ہو فرمایا ان میں سے شریف ترین عرب سے ہوں کس قبیلہ سے تعلق رکھتے ہو فرمایا بنی ہاشم سے میں نے کہا کہ بنی ہاشم میں سے کس سے تعلق رکھتے ہو فرمایا سب سے بلند ترین میں سے ہوں میں نے کہا کہ کس سے تعلق رکھتے ہو فرمایا کہ جس نے کفار کے سروں کو شگافتہ کیا اور لوگوں کو کھانا کھلا دیا اور نماز پڑھی حالانکہ لوگ سوئے ہوئے تھے میں نے سمجھا کہ وہ علوی ہے علوی ہونے کی وجہ سے اس کو دوست رکھتا ہوں پس اس کے بعد میرے سامنے سے غائب ہوئے اور میں ان کو گم کردیا ہمیں پتہ نہیں چلا کہ کہاں گئے آسمان میں چلے گئے یا زمین میں میرے اطراف میں جو تھے ان سے پوچھا اس سید علوی کو جانتے ہو انہوں نے کہا کہ کیوں نہیں وہ ہر سال ہمارے ساتھ پیادہ مکہ آتاہے۔ میں نے کہا سبھان اللہ خدا کی قسم میں نے اس کے پیادہ آنے کے آچار نہیں دیکھا اس کی جدائی کے غم نے میرے بدن کو گھیر لیا ہے اسی حالت میں مزد لفہ کی طرف چل پڑا رات کو وہیں پر سویا عالم خواب میں رسول خدا کو دیکھا فرمایا اے محمد جو کچھ تم چاہتے تھے اس کو دیکھ لیا میں نے عرض کیا اے میرے آقا وہ کون تھا فرمایا جس شخص کو تم نے کل دیکھا تھا وہ تیرا امام زمان تھا۔

دعائے عبرات کا واقعہ

آیة اللہ علامہ حلی کتاب منھاج الصلاح کے آخری میں دعائے عبرات کے بارے میں کہتے ہیں یہ معروف دعا ہے کہ جو امام صادق سے روایت ہوئی ہے یہ دعا سید بزرگوار راضی الدین محمد بن محمد کی جانب سے ہے اس میں ایک معروف حکایت ہے اسی کتاب کے ھاشیہ پر فضلاء میں سے کسی ایک کے خط کے ساتھ لکھا گیا ہے مولا سعید فخر الدین محمد فرزند شیخ بزرگوار جمال الدین نے اپنے باپ سے اس نے جد یوسف سے اس نے رضی مذکور سے نقل کیا ہے اور کہتاہے: سید رضی الدین جرماغنون کے امراء میں سے کسی ایک کے ہاتھ میں کافی مدت تک اسیر تھے اس کے ساتھ سختی سے پیش آتے تھے کھانے اور پینے میں تنگ کرتے تھے ایک رات امام زمانہ کو خواب میں دیکھتاہے اور گریہ کرتاہے اور کہتاہے اے میرے مولا ان ظالموں کے ہاتھ سے رہائی کے لئے شفاعت کریں حضرت نے فرمایا دعائے عبرات پڑھ لیں کہا کہ دعائے عبرات کونسی ہے فرماتے ہیں وہ دعا آپکی کتاب مصباح میں لکھی ہوئی ہے کہتاہے میرے مولا مصباح میں ایسی دعا نہیں ہے فرمایا دیکھ لیں مل جائی گی سید خواب سے بیدار ہوا اور نماز صبح پڑھی کتاب مصباح میں تلاش کیا ورقوں کے درمیان اس دعا کو دیکھا اس دعا کو چالیس مرتبہ پڑھا دوسری طرف جرماغون کے امیر کی دو بیویاں تھیں ان میں سے ایک عاقل و باتدبیر عورت تھی کہ وہ اپنے کاموں میں ان سے مشاورت کرتے تھے امیر کو اس عورت پر بہت زیادہ اعتماد تھا ایک دن اس کی باری تھی امیر اس کے گھر میں آیا اس کی بیوی نے کہا کیا حضرت امیرالموٴمنین کی اولاد میں کسی کو گرفتار کیا گیاہے وہ کہنے لگا کہ تم کس لئے مجھ سے پوچھتی ہو عورت کہنتے لگی میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ جو سورج کی طرح درخشان تھا اس کو عالم خواب میں دیکھا اس نے اپنے دونوں انگلیوں کے ساتھ میرا گلا گھونٹا اور فرمایا کہ تمہارے شوہر نے میرے فرزند کو گرفتار کیا ہے اس نے اس کو کھانے اور پینے میں تنگ کیا ہے میں نے عرض کیا میرے آقا آپ کون ہیں فرمایا میں علی بن ابی طالب ہوں اور اپنے شوہر سے کہٰن اگر میرے فرزند کو رہا نہ کیا تو اس کے گھر کو خراب کروں گا جب یہ خبر بادشاہ کے کان میں پہنچی اس نے معلوم نہ ہونے کا اظہار کیا اس نے امیروں اور نائبوں کو طلب کیا اور کہا تمہارے پاس کون قید ہے انہوں نے کہا ایک بوڑھا علوی مرد ہے آپ نے خود گرفتاری کا حکم دیا ہے کہا اس کو چھوڑ دو اور سواری کے لئے اس کو گھوڑا دیدو اور اس کو راستہ بتادو تا کہ وہ اپنے گھر چلا جائے۔

سید بزرگوار علی بن طاوؤس مجھے الدعوات کے آخر میں کہتے ہیں کہ میرا دوست اور میرا بھائی محمد بن محمد قاضی نے اس دعا کے بارے میں تعجب آور اور حیرت انگیز واقعہ میرے لئے نقل کیا ہے اور ہو یہ کہ ایک واقعہ میرے لئے پیش آیا اور اس دعا کو اوراق کے درمیان سے نکالا حالانکہ اس سے پہلے یہ اوراق کتاب کے درمیان نہیں رکھے تھے۔ چونکہ اس سے نسخہ اٹھا لیتاہے اور اصلی دعا گم ہوجاتی ہے۔

دعائے عبرات

دعائے عبرات کو جو نسخہ مرحوم شیخ کفعمی نے ذکر کیا ہے اس کو ذکر کرتاہوں جناب شیخ البلد الامین میں کہتے ہیں کہ دعائے عبرات بہت عظیم دعا ہے یہ حضرت حجت سے روایت ہوئی ہے اور یہ دعا مہم امور اور بہت بڑی مشکلات میں پڑھی جاتی ہے اور وہ دعا یہ ہے۔

قنوت کی دعائیں

۔ امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا

شہید اول کتاب ذکری میں فرماتے ہیں ابن ابی عقیل نے قنوت کے لئے جو دعائیں امیر المومنین سے روایت کی ہیں وہ دعا یہ ہے

۱۵۳

اسی طرح فرماتے ہیں میرے لئے نقل ہوا ہے کہ امام صادق نے اپنے شیعوں کو حکم دیا کہ قنوت میں کلمات فرج کے بعد مذکورہ دعا پڑھیں

۲۔ امام سجاد کی دعائے قنوت

اشرار کے شر کو دور کرنے کے لئے اور جہان میں حق کی کامیابی کے لئے اس قنوت کو جناب ابوالقاسم حسین بن روح نائب اول جناب محمد بن عثمان سے نقل کرتے ہیں ۱۵۴

۳۔ حضرت امام محمد باقر کی دعائے قنوت

۱۵۵

۴۔ حضرت امام رضا کی دعا قنوت

۱۵۷

۵۔ حضرت امام جواد کی دعائے قنوت

۱۵۷

۶۔ امام جواس کی دوسری قنوت کی دعائیں

۱۵۸

۷۔ حضرت امام ھادی کی دعائے قنوت

۱۷۰

۸۔ دعائے امام حسن عسکری

جس وقت قم کے لوگو نے موسیٰ بن ببغی کے بارے میں حضرت امام حسن عسکری سے شکایت کی حضرت نے حکم دیا اس دعا کو قنوت میں پڑھیں

۱۶۲

۹۔ امام زمانہ کی دعائے قنوت

۱۶۹

۱۰۔ امام زمانہ کی دوسری دعا قنوت میں

۱۷۰

۱۱۔ قنوت میں حضرت حجت کی تیسری دعا

مرحوم آیة اللہ سید نصر اللہ مستنبط نے حرم امیرالموٴمنین میں حضرت حجت کو نماز کی حالت میں مشاہدہ کیا امام عصر کی دلنشین دعا کان میں سنائی دی آنحضرت قنوت میں یہ دعا پڑھتے تھے اللّٰھم انّ معاویة بن ابی سفین قد عادی علی بن ابی طالب فا لعنہ لعناً و بیلاً

۱۲۔جمعہ میں قنوت کی دعا

آخری حجت کے ظہور کے لئے ابن مقاتل کہتاہے کہ حضرت امام رضا نے مجھ سے پوچھا تم نماز جمعہ کے قنوت میں کونسی دعا پڑھتے ہو میں نے عرض کیا اھل سنت کے لوگ جو دعا پڑھتے وہی میں بھی پڑھتاہوں حضرت نے فرمایا جو دعا وہ پڑھتے ہیں نہ پڑھو بلکہ قنوت میں یہ دعا پڑھو ۱۷۲

ہفتہ وار دنوں کی دعائیں

۔ جمعرات کے دن امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا مستحب ہے کہ انسان جمعرات کے دن پیغمبر اکرم پر حضرت ہزار مرتبہ درود بھیجے اور اس طرح کہے أَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ عَجِّلْ فَرَجَھُمْ۔ ۲۔ مستحب ہے کہ انسان جمعرات کے دن نماز عصر کے بعد جمعہ کے ختم ہونے تک پیغمبر پر زیادہ درود بھیجے اور کہے أَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ عَجِّلْ فَرَجَھُمْ۔وَ أَھْلِکْ عَدُوَّھُمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ، مِنَ الْأَوَّلینَ وَالْآخِرینَ۔ اگر اس ذکر کو سو مرتبہ پڑھے تو بہت زیادہ فضیلت ہے شیخ کفعمی کہتے ہیں کہ متحب ہے کہ جمعرات کے دن ہزار متبہ سورہ قدر پڑھے اور پیغمبر پر ہزار مرتبہ درود بھیجے۔ ۳۔ شب جمعہ امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا مرحوم شیخ طوسی کتاب مختصر المصباح میں جہاں شب جمعہ کے اعمال بیان کئے ہیں فرمایا ہے کہ پیغمبر پر درود بھیجے أَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ عَجِّلْ فَرَجَھُمْ۔وَ أَھْلِکْ عَدُوَّھُمْ، مِنَ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ، مِنَ الْأَوَّلینَ وَ الْآخِرینَ۔ اسے سو مرتبہ یا جس مقدار میں ممکن ہو پڑھے۔ علوی مصری کی دعا کا واقعہ عالم جلیل القدر سید بن طاوؤس مھجل الدعوات میں فرماتے ہیں ایک قدیم نسخہ میں تاریخ شوال سال تین سو ننانوے میں حسین بن علی بن ھند کے توسط سے لکھا ہوا تھا دعا علوی مصری کو دیکھا کہ اس میں اس طرح ذکر ہوا ہے کہ ایک دعاء امام منتظر نے اپنے شیعوں میں سے ایک شخص کو عالم خواب میں تعلیم دی اس نے ایک ظالم سے ظلم دیکھا تھا اس دعا کی وجہ سے خداوند تعالیٰ نے اس کے کام کو آسان کردیا اور اس کے دشمن کو ھلاک کیا۔ سید بن طاوؤس اس دعا کو اوامر دینے میں دو طریقوں سے نقل کیا ہے یہاں تک کہ فرمایا ہے: کہ محمد بن علی علوی حسینی مصری کہتاہے میرے بارے میں حاکم مصر کے پاس شکایت ہوئی میں اس شخص کے خوف سے غمگین ہوگیا ڈر گیا سوچنے لگا کہیں اس سے نجات کے لئے کوئی صورت ہو اس لئے اپنے اجداد طاہرین کی زیارت کے لئے ہمارے مولا حضرت امام ابوعبداللہ الحسین کے حرم میں گیا حاکم مصر کے خوف سے حضرت کے حرم میں پناہ حاصل کی۔ پندرہ روز تک امام حسین کے جوار میں تھا شب و روز دعا اور زاری میں مشغول تھا ایک دن خواب اور بیداری کے درمیان والی حالت میں تھا اتنے میں صاحب الزمان جلوہ گر ہوئے انہوں نے مجھ سے فرمایا اے میرے فرزند تم فلاں شخص سے ڈر گئے میں نے عرض کیا کہ ہاں وہ مجھ کو قتل کرنا چاہتا ہے میں نے اپنے آقاسے پناہ حاسل کی ہے تا کہ جو کچھ وہ مجھ پر ظلم کرنا چاہتاہے اس ظالم سے مجھے نجات دے حضرت نے فرمایا کیا تم نے وہ دعائیں پڑھی ہے کہ جس دعا کو پڑھ کر پیغمبروں پر جو سختی ہو رہی تھی اس کو اٹھادیا جاتاہے میں نے عرض کیا وہ دعا کونسی ہے تا کہ میں بھی پڑھ لوں فرمایا شب جمعہ اٹھیں اور غسل کریں اور نماز شب پڑھیں جب سجدہ شکر بجالائیں حالانکہ دوزانو بیٹھ کر اس دعا کو پڑھیں۔ محمد بن علی مصری کہتاہے کہ حضرت پانچ راتیں پے در پے تشریف لائے حالانکہ میں خواب اور بیداری کے درمیان میں تھا اس دعا کو میرے لئے تکرار کیا یہاں تک کہ میں نے حفظ کیا شب جمعہ تشریف نہیں لائے میں اٹھا غسل کر کے اپنے لباس کو تبدیل کیا اور عطر لگایا نماز شب پڑھی اور دوزانو بیٹھا اور خدا کو اس دعا کے ساتھ پکارا ہفتہ کی رات حضرت اسی طریقے پر جیسے پہلے آتے تھے وہ تشریف لائے اور میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے محمد تمہاری دعا قبول ہوئی اور تمہارا دشمن ہلاک ہوا اس دعا کو تمام کرنے کے بعد خدا نے اس ھلاک کیا محمد بن علی مصری کہتاہے جب صبح ہوئی تو اپنے دوست احباب سے ملاقات کے بعد گھر کی طرف روانہ ہوا تھوڑی دیر چلا تھا کہ اچانک ایک قاصد میرے فرزندوں کی جانب سے ایک خط لیکر آیا اور کہا جس مرد کے ڈر سے فرار کیا تھا وہ ھلاک ہوا ہے۔ اس نے چند مہمانوں کو دعوت دی تھی مہمان کھانا کھانے کے بعد چلے گئے وہ اپنے نوکروں کے ہمراہ وہیں پر سویا صبح اس کا پتہ نہیں چلا لوگ اس کے گھر گئے اس سے لحاف کو اٹھایا تو کیا دیکھتے ہیں کہ سر تن سے جدا ہوا ہے اور اس کا خون جاری ہے یہ واقعہ شب جمعہ تک پتہ نہیں چلا کہ کس نے یہ کام کیا ہے میرے فرزندوں نے خبر دی تھی کہ میں جلدی گھر چلا آؤں جب میں اپنے گھر پہنچا تو اس کے قتل کا وقت پوچھا تو ٹھیک وہی وقت تھا کہ جس وقت میں نے دعا تمام کی تھی دعا یہ ہے۔

دعائے ندبہ کی اہمیت

صدر الاسلام ہمدانی نے کتاب تکالیف الانام میں کہتے ہیں دعائے ندبہ پڑھنے کی خاصیت یہ ہے اگر اس دعا شریف کو ہر جگہ حضور قلب اخلاص کامل مضامین پر توجہ دیتے ہوئے پڑھے حضرت صاحب العصر کی خاص توجہ اس مکان اور محفل کی طرف ہوتی ہے بلکہ خود حضرت اس محفل میں حاضر ہوجاتے ہیں چنانچہ بعض موارد اور محافل میں ایسا اتفاق ہوا ہے۔ علامہ محقق شیخ علی اکبر نھاوندی نے کتاب العبقریہ الحسان میں کہتے ہیں کہ میں نے حجة الالسلام آقائے حاج شیخ مھدی کو دیکھا کہ اس نے سید جواد مرحوم کی کتاب سے نقل کیا تھا وہ اس کے موٴلف کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ مرحوم اصفہان کے ائمہ جماعت میں سے تھے جو قابل اطمینان تھے وہ بہت عالی مقام رکھتا تھا سچ بولنے والوں میں سے تھا۔ (وما اظلّت الخظراء علی اصدق لھجة منہ) وہ اس کتاب میں لکھتے ہیں ہم چند آدمی ایک دیہات میں رہتے تھے کہ جس کا نام صالح آباد تھا وہاں کے چند آدمی وہ جگہ غصب کر کے ہمارے ہاتھ چھیننا چاہتے تھے اس لئے کچھ لوگ غصب کرنے کے لئے وہاں آئے ہم نے اس بارے میں مذاکرات کئے لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا میں نے ایک عریضہ امام زمانہ کے نام لکھا اور اس کو نہر میں ڈال دیا اور تخت فولاد جا کر ایک خرابہ میں تضرع اور دعائے ندبہ پڑھنے میں مشغول ہوا بار بر کہتا تھا ھل الیک یابن احمد سبیل فتلقیٰ اے فرزند پیغمبر کیا تمہاری طرف کوئی راستہ ہے تا کہ میں تمہاری ملاقات کروں اچانک میں نے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنی تو میں نے دیکھا کہ ایک عرب سفید و سیاہ گھوڑے پر سوار ہے انہوں نے میری طرف نگاہ کی اور غائب ہوئے اس کو دیکھ کر دل کو اطمینان ہوا کہ اب میری مشکل حل ہوگی۔ اگلی رات میں میرا کام ٹھیک ہوا میں بار بار حضرت کو خواب میں دیکھتا تھا اور حضرت کا قیافہ اور شکل وہی تھی کہ جو بیداری کی حالت میں دیکھا تھا اسی طرح جناب آقائے سید رضا کہ جو اصفہان کے قابل وثوق علماء میں سے ہے وہ کہتاہے کہ زیادہ مقروض اور فقر و فاقہ کی وجہ سے مردوں کو اپنا وسیلہ قرار دیا تقریباً دو سو مرحومین کا نام لیکر طلب مغفرت کی ان کے بعد امام عصر کو اپنا وسیلہ قرار دیا دعائے ندبہ کے چند فقرات کوپڑھا جیسے ھل الیک یابن احمد سبیل فتلقی۔ اچانک ایک کمرہ کو دیکھا کہ اس سے ایک مخصوص نور نکلتا تھا اسی دن میری مشکل حل ہوئی۔ محدث جلیل القدر مرحوم نوری کہتے ہیں کہ آقا محمد سامرہ شہر میں زندگی گزارتے تھے وہ شخص عادل امین اور اطمینان کا باعث تھا اس کی ماں نیک اور عابدہ تھی اس نے بتایا کہ میری ماں کہتی تھی کہ جمعہ کے دن مرحوم مولیٰ میرزا محمد علی قزوینی کے ہمراہ تہہ خانے میں تھا مرحوم مولیٰ دعائے ندبہ پڑھتا تھا اور ہم بھی اس کے ہمراہ دعا پڑھنے میں مشغول تھے غمگین دل کے ساتھ جیسے کوئی عاشق اور حیران روتاہے جیسے ستم دیدہ نالہ و فریاد کرتاہے ہم بھی اس کے ساتھ روتے تھے تہہ خانہ خالی تھا ہمارے علاوہ کوئی اور وہاں پر موجود نہیں تھا اسی حالت میں تھے کہ اچانک کستوری کی خوشبو تہہ خانے میں پھیلی اور اس کی فضا کو معطر کیا اس کی خوشبو نے اس محفل کو اس قدر معطر کیا اور ہم سب اس حالت میں جو تھے وہاں سے باہر نکلے ہم سب اس شخص کی طرح کی جس کے سر پر پرندہ ہو خاموش ہوگئے حرکت کرنے اور بات کرنے کی ہمت نہیں تھی تھوڑی دیر حیران و پریشان رہ گئے یہاں تک کہ وہ معطر خوشبو کہ جس کو سونگھتے تھے وہ ختم ہوگئی ہم سب دعا کی حالت میں لوٹے جب ہم گھر واپس لوٹے تو مولیٰ سے اس عطر اور خوشبو کے بارے میں پوچھا مولیٰ نے کہا تمہیں اس سے کیا کام ہے اور اس نے کوئی جواب نہیں دیا برادر بزرگوار آقائے علی رضا اصفہانی نے مجھے بتایا اور کہا کہ ایک دن میرزا محمد علی قزوینی امام زمانہ سے ملاقات کے بارے میں پوچھا میرا گمان یہ تھا کہ یہ بھی اپنے بزرگ استاد سید بحرالعلوم کی طرح آخری حجت سے ملاقات کرتے ہیں انہوں نے اس واقعہ کو اسی طرح میرے لئے بیان کیا۔ علامہ مجلسی زاد المعاد میں فرمایا ہے معتبر سند کے ساتھ حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہوئی ہے کہ دعائے ندبہ کا پڑھنا چار عیدوں میں مستحب ہے یعنی روز جمعہ روز عید فطر روز عید قربان اور روز عید غدیر۔ بحار الانوار میں کتاب مزار میں دعائے ندبہ شریف کو سید بن طاوؤس سے اس نے بعض ہمارے اصحاب سے نقل کیا ہے وہ کہتاہے محمد بن علی بن ابوقرّہ کہتاہے دعائے ندبہ کتاب محمد بن حسین بن سفیان بزوفری سے میرے لئے نقل ہوئی ہے اور کہا گیا ہے یہ دعا صاحب الزمان کے لئے ہے اور مستحب ہے کہ چار عیدوں میں پڑھی جائے۔ محدث نوری نے اس دعا کو تحیة الزائر میں مصباح الزائر کتاب سید بن طاوؤس سے اور کتاب مزار میں محمد بن مشہدی نے سند مذکور کے ساتھ نقل کیا ہے اس نقل کے ضمن میں اس دعا کو کتاب المزار تقدیم میں لکھا ہے اس دعا کا مستحب ہونا شب جمعہ میں چار عیدوں میں استجاب کی طرح ہے اور وہ دعا یہ ہے۔ ۲۲۷ دعائے ندبہ ۔ جمعہ کے دن صبح کے نماز کے بعد کی دعا جمع کے دن صبح کے بعد آخری حجت کے تعجیل ظہور کے لئے دعا مستحب ہے کہ انسان جمعہ کے دن نماز صبح کے بعد سو مرتبہ سورہ توحید کو پڑھے اور سو مرتبہ استغفار کرے اور سو مرتبہ پیغمبر پر اس طرح درود بھیجے اور کہے أَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ عَجِّلْ فَرَجَھُمْ۔ ۔ جمعہ کے دن امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا شیخ طوسی مصباح المتھجد میں لکھتے ہیں جب تم چاہو کہ جمعہ کے دن پیغمبر پر درود بھیجو تو کہو أَللّٰھُمَّ اجْعَلْ صَلٰاتَکَ، وَ صَلَوٰاة مَلٰائِکَتِکَ وَ رُسُلِکَ، عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ عَجِّلْ فَرَجَھُمْ۔یا کہے أَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ عَجِّلْ فَرَجَھُمْ۔اور روایت میں ہے کہ سو مرتبہ کہو أَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ عَجِّلْ فَرَجَھُمْ۔ ۔ جمعہ کے دن امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا۱ مستحب ہے کہ انسان جمعہ کے دن سورہ قدر کو سو مرتبہ پڑھے اور کہے أَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ عَجِّلْ فَرَجَھُمْ۔اس ذکر کو امکان کی صورت میں ہزار مرتبہ یا سو مرتبہ یا دس مرتبہ کہے۔ ۔ نماز جمعہ کے بعد درود بھیجنے کی فضیلت حضرت صادق نے اپنے آباء و اجداد سے نقل کیا ہے اور فرماتے ہیں کہ جو بھی نماز جمعہ کے بعد سات مرتبہ کہے أَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ عَجِّلْ فَرَجَ آلِ مُحَمَّدٍ۔تو یہ شخص حضرت کے اصحاب اور مددگاروں میں شامل ہوجاتاہے۔ ۱۰۔ جمعہ عید افطر عید قربان کے دن آخری حجت کے ظہور کے لئے دعا۔ حضرت امام محمد باقر فرماتے ہیں جمعہ عید فطر عید قربان کے دن جب نماز کے لئے جانے کا ارادہ کریں تو کہیں أَللّٰھُمَّ مَنْ تَھَیَّأَ فی ھٰذَا الْیَوْمِ، أَوْ أَعَدَّوَاسْتَعَدَّلِوِفٰادَةٍ إِلیٰ مَخْلُوقٍ، رَجٰاءَ رِفْدِہِ وَجٰائِزَتِہِ وَنَوٰافِلِہِ، فَإِلَیْکَ یٰاسَیِّدی کٰانَتْ وِفٰادَتی وَتَھْیِئَتی وَإِعْدٰادی وَ اسْتِعْدٰادی رَجٰا۔ رِفْدِک۔، وَجَوٰائِزِکَ وَنَوٰافِلِکَ۔ أَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُولِکَ وَاخِیَرَتِکَ مِنْ خَلْقِکَ، وَعَلِیٍّ أَمیرِالْمُوٴْمِنینَ وَوَصِیِّ رَسُلِکَ، وَصَلِّ یٰا رَبِّ عَلیٰ أَئِمَّةِ الْمُوٴْمِنینَ، اَلْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ وَعَلِیٍّ وَمُحَمَّدٍ۔اور ایک ایک کر کے تمام معصومین کا نام لیں یہاں تک اپنے مولیٰ کا نام لیں اور کہیں أَللّٰھُمَّ افْتَحْ لَہُ فَتْحاً یَسیراً، وَ انْصُرْہُ نَصْراً عَزیزاً، أَللّٰھُماَّ أَظْھَرْ بِہِ دینَکَ وَسُنَّةَ رَسُلِکَ، حَتّٰی لٰا یَسْتَخْفِیَ بِشَیْءٍ مِنَ الْحَقِّ مَخٰافَةَ أَحَدٍ مِنَ الْخَلْقِ۔ أَللّٰھُمَّ إِنّٰا نَرْغَبُ إِلَیْکَ فی دَوْلَةٍ کَریمَةٍ تُعِزُّبِھَا الْاِسْلٰامَ وَأَھْلَہُ، وَتُذِلُّ بِھَا النِّفٰاقَ وَأَھْلَہُ، وَتَجْعَلُنٰا فیھٰا مِنَ الدُّعٰاةِ إِلیٰ طٰاعَتِکَ وَالْقٰادَةِ إِلیٰ صَبیکَ وَتَرْزُقُنٰا بِھٰا کَرٰامَةَ الدُّنْیٰا وَالْآخِرَةِ۔ أَللّٰھُمَّ مٰا أَن؟کَرْنٰا مِنْ حَقٍّ فَعَرِّفْنٰاہُ، وَمٰا قَصُرْنٰا عَنْہُ فَبَلِّغْنٰاہُ۔ اور خدا سے اس کے لئے دعا مانگو اور ان کے دشمن پر نفرین بھیجو اور اپنی حاجت کا خدا سے سوال کرو اور آخری کلام یہ ہو أَللّٰھُمَّ اسْتَجِبْ لَنٰا، أَللّٰھُمَّ اجْعَلْنٰا مِمَّنْ تَذَکَّرَ فیہِ فَیَذَّکَّرَ۔

نمازوں کے بعد دعاؤں کے بارے میں

نمازوں کے بعد دعاؤں کے بارے میں

۱۔ نماز صبح کے بعد دعائیں

۱۷۳

۲۔ ظہور امام زمانہ کے لئے دع

نماز صبح کی تعقیب میں مرحوم شیخ بھائی نے نقل کیا ہے کہ نماز صبح کے بعد دائیں ہاتھ سے اپنی دارھی کو پکڑیں اور بائین ہاتھ کو آسمان کی طرف بلند کر کے سات مرتبہ کہے یا رب محمد و آل محمد صلی علی محمد و آل محمد وعجل فرج محمد و آل محمد

۳۔ نماز صبح کے بعد حضرت حجت کے ظہور کے لئے دعا

منھاج العارفین میں لکھتے ہیں کہ مستحب ہے کہ انسان نماز صبح کے بعد سو مرتبہ کہے اَللّٰھم صلّ علی محمد و آل محمد و عجّل فرجھم

۴۔ نماز صبح کے بعد حضرت حجت کے لئے ایک اور دعا

علامہ مجلسی کتاب المقیاس میں نقل کیا ہے کہ نماز صبح کی تعقیب میں کسی سے بات کرنے سے پہلے سو مرتبہ کہے یا ربّ علی محمد و آل محمد و عجّل فرج آل محمد اعت رقبتی من النار

۷۔۵۔ آخری حجت سے مشکلات دور کرنے کے لئے دعائیں

مرحوم محدث نوری کتاب دارالسلام میں لکھتے ہیں عالم جلیل جناب حاج ملّا فتح علی سلطان آبادی سے نقل کیا ہے کہ فاضل مقدس آخوند ملّا محمد صادق عراقی کہتے ہیں انتہائی فقر و فاقہ کی زندگی گزار رہے تھے ایک مدت تک ان مسائل میں مبتلاء تھا ان مشکلات سے رہائی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی یہاں تک کہ ایک رات عالم خواب میں صحراء میں ایک بڑا خیمہ دیکھا اس خیمہ میں ایک قبلہ تھا پوچھتاہے کہ یہ عظمت والا خیمہ کس کا ہے کہتے ہیں یہ خیمہ حضرت مہدی قائم اور امام منتظر کا ہے جلدی سے اس خیمہ میں چلا گیا چونکہ ہر درد کی دعا وہاں پر ہے جب حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے اپنی پریشانی فقر و فاقہ کی شکایت حضرت حجت سے کی مشکلات اور غم و غصہ دور کرنے کی درخواست کی حضرت نے اپنے فرزندوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور خیمہ کی نشان دہی کرتے ہیں فاضل مقدس حضرت کے یہاں سے جا کر اس خیمہ میں جاتے ہیں کہ جس کی طرف آخری حجت نے اشارہ کیا تھا اچانک دانشمند بزرگوار سید محمد سلطان آبادی کو دیکھتاہے کہ سجادہ پر بیٹھا ہوا ہے دعا اور قرآن کی قرائت میں مشغول ہے سلام کے بعد حضرت حجت کا پیغام اس کو پہنچاتے ہیں تو وہ ان کو ایک دعا یاد کراتے ہیں کہ وہ سختیوں سے نجات حاصل کرے اور روزی کے دروازے اس کے لئے کھول دیے جائیں خواب سے بیدار ہوا اس حالت میں کہ اس نے دعا کو حفظ کیا تھا اس سید کے گھر کی طرف روانہ ہوجاتاہے حالانکہ اس خواب سے پہلے اس سید کے ساتھ کوئی خاص رابطہ نہیں ہوا تھا جب اس بزرگوار کے گھر میں داخل ہوتاہے اسی حالت میں دیکھتاہے جس حالت میں خواب کی حالت میں دیکھا تھا اپنے سجادہ پر بیٹھا ہوا ہے اور ذکر خدا اور استغفار میں مشغول ہے سلام کرتاہے سید جواب دیتاہے اس کی طرف مسکراتے ہیں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کو پہلے سے اس واقعہ کا علم ہے پوشیدہ اسرار سے آگاہ ہے جس طرح عالم خواب میں اس سے پوچھا تھا اسی طرح اس سے پوچھتاہے سید وہی دعا کہ جو عالم خواب میں اس کو تعلیم دی تھی اس کو یاد کراتاہے وہ اس دعا کو ہمیشہ پڑھتاہے مختصر وقت میں ہر قسم کے مشکلات اس سے دور ہوجاتے ہیں۔

محدث نوری کہتاہے ہمارے استاد سید کے لئے خاص احترام کے قائل تھے انہوں نے آخری عمر میں سید کی ملاقات کی چند مدت اس کی شاگردی کی تھی جو کچھ سید نے عالم خواب اور بیداری میں یاد کرایا تھا تین چیزیں تھیں

۱۔ طلوع فجر کے بعد ہاتھ کو سینہ پر رکھ کر ستر مرتبہ یا فتاح کہے محدث نوری فرماتے ہیں: کفعمی کتاب المصباح میں لکھتے ہیں جو شخص بھی اس کام کو انجام دے تو خداوند تعالیٰ اس کے دل سے حجات کو دور کرتاہے۔

۲۔ شیخ کلینی سند کے ساتھ ایک روایت اسمٰعیل بن عبدالخالق سے نقل کرتاہے کہتاہے پیغمبر کے اصحاب سے ایک مرد ایک مدت تک حضرت کی خدمت میں نہیں پہنچا چند روز کے بعد آیا حضرت نے فرمایا کیوں ایک مدت سے ہم سے غائب رہے ایسا کیوں ہوا عرض کیا بیماری اور فقر و فاقہ کی وجہ سے حضرت نے فرمایا کہ تجھے ایسی دعا یاد کرادوں کہ جو تجھ سے فقر و فاقہ اور بیماری دور کرے کہنے لگا ہاں اے رسول خدا حضرت نے فرمایا کہو

لا حول ولا قوة الّا باللہ العلی العظیم توکلت علی الحی الذی لا یموت و الحمد للہ الذّی لم یتخذ صاحبة ولا ولداً و لم یکن لہ شریک فی الملک و لم یکن لہ ولیّ من الذلّ وکبّرہ تکبیراً

راوی کہتاہے تھوڑی دیر نہیں گزری تھی کہ وہ مرد آیا اور کہا اے رسول خدا خدا نے بیماری اور فقر کو مجھ سے دور کیا ہے۔

۳۔ شیخ ابن فھد حلی نے عدة الداعی میں ایک روایت پیغمبر اکرم سے نقل کیا ہے کہ حضرت نے فرمایا جو بھی ہر روز نماز صبح کے بعد یہ دعا پڑھے اور دست حاجت خدا کی طرف بلند کرے خدا آسانی کے ساتھ اس کی حاجت کو پوری کرتاہے اس کے تمام مہم کاموں کے لئے کفایت کرتاہے۔

۱۷۸ دعا بسم اللہ و صلی اللہ

واقعاً یہ دعا ان دعاؤں میں سے ہے کہ سزاوار ہے کہ اس کو پابندی سے پڑھے نقل اور خبر بھی ہمارے گفتار کے سچ ہونے پر گواہ ہے۔

۸۔ ہر روز صبح اور ظہر کے بعدآخری حجت کے ظہور کے لئے دعا

حضرت امام صادق نے فرمایا جو بھی نماز ظہر اور صبح جمعہ کے دن اور باقی دنوں میں کہے اللّٰھم صَلِّ علی محمد و آل محمد و عجّل فرجھم وہ شخص نہیں مرے گا یہاں تک امام مھدی کو درک کرے گا۔

۹۔ ہر روز نماز ظہر کے بعد آخری حجت کے ظہور کے لئے دعا

کتاب فلاح السائل میں لکھتے ہیں نماز ظہر کے سب سے مہم ترین تعقیبات میں سے امام صادق کی پیروی کرتے ہوئے حضرت مہدی کے لئے دعا کرنا ہے اس کے آنے کی خوشخبری کو امت کے لئے صحیح روایت میں بیان فرمایا ہے آخری زمانہ میں ان کے ظہور کا وعدہ دیا ہے۔

محمد بن رھبان دیلمی سلسلہ سند کے ساتھ ایک روایت عباد بن محمد مدائنہ سے نقل کیا ہے مداینی کہتاہے کہ مدینہ منورہ میں امام صادق کی خدمت میں شرف یاب ہوا تو میں نے دیکھا کہ حضرت نماز ظہر تمام کرنے کے بعد اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کر کے فرماتے تھے۔ ۱۷۹ ای سامع کل صوت

میں نے عرض کیا میں آپ پر قربان ہوجاؤں آیا آپ نے اپنے لئے دعا مانگی حضرت نے فرمایا آل محمد کے نور کے لئے اور اس کے لئے کہ جو خدا کے حکم سے دشمنوں سے انتقام لے گا اس کے لئے دعا کی ہے میں نے عرض کیا خدا مجھے آپ پر قربان کرے آن حضرت کب قیام کرے گا حضرت نے فرمایا جب بھی خدا چاہے یہ امور اس کے ہاتھ میں ہے وہ جب چاہے میں نے عرض کیا کیا اس سے پہلے کوئی علامتیں ہیں حضرت نے فرمایا ہاں کئی علامتیں ہیں میں نے عرض کیا وہ علامتیں کیا ہیں حضرت نے فرمایا ایک علم مشرق کی زمین سے اور ایک علم مغرب کی زمین سے بلند ہوگا اور ایک فتنہ اھل رزوراء (ایک گاؤں کا نام) پر سایہ کرے گا اور ایک مرد میرے چچا کے فرزندوں میں سے یمن سے قیام کرے گا جس کا نام زید ہوگا اور کعبہ کا پردہ لوٹا جائے گا اور جو کچھ خدا کی مشیت اقتضاء کرے گی وہی انجام پائے گا گراں قدر کتاب مکیال المکارم کا صاحب اس حدیث شریف کی توضیح میں کہتے ہیں اس مذکورہ دعاء سے چند چیزوں کا استفادہ ہوتاہے۔

اوّل حضرت حجت کے لئے دعا مانگتا اور نماز ظہر کے بعد تعجیل فرج کے لئے دعا مانگنا مستحب ہے۔

دوم آنحضرت کے لئے دعا پڑھتے وقت ہاتھوں کو بلند کرنا مستحب ہے۔

سوم مستحب ہے کہ حاجت مانگنے سے پہلے خدا کی حمد و ثناء بجالائے۔

چہارم مستحب ہے کہ حاجت طلب کرنے سے پہلے خدا کو اپنا شفیع قرار دے۔

پانچواں کہ دعا سے پہلے مستحب ہے محمد و آل محمد پر درود بھیجے

چھٹا کہ استغفار کے ساتھ اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کرے تا کہ پاک دل کے ساتھ اجابت کے لئے آمادہ ہوجائے۔

ساتواں کہ ولی مطلق سے مراد جن حضرات کی زبانوں پر یا جن دعاؤں میں ہے اس سے مراد صاحب الزمان ہے۔

آٹھواں مستحب ہے کہ اصھاب کے حق میں اور حضرت کے ساتھیوں کے حق میں دعا مانگے

نواں امام تمام بندوں کے اعمال اور رفتار کو ہر حالت میں دیکھتاہے اور ان کے افعال کو زیر نظر رکھتاہے

دسواں آخری حجت کے القاب میں سے ایک لقب نور آل محمد ہے اس پر گواہ متعدد روایت ہیں کہ جو وارد ہیں اور محقق نوری کے کتاب نجم الثاقب میں ان سے بعض روایت کو ذکر کیا ہے۔

گیارہواں یہ کہ آخری حجت‘ امیرالموٴمنین علی امام حسن اور امام حسین کے بعد باقی ائمہ معصومین سے افضل ہیں اس مقام پر روایات تائید کے عنوان سے نقل ہوئی ہیں

بارھواں خدائے متعال نے آن حضرت کو ذخیرہ کیا ہے اور ان کے قیام کو تاخیر میں ڈالا ہے تا کہ اپنے اور پیغمبر کے دشمنوں سے انتقام لے لیں متعدد اور متواتر روایات اس معنی میں وارد ہوئی ہیں ۔

تیرھواں یہ کہ حضرت کے ظہور کا زمانہ رازوں میں سے ایک راز ہے کہ آپ مصلحت الٰہی کے تقاضا کے مطابق پوشیدہ ہیں اور اس مطلب پر متواتر روایات موجود ہیں۔

چودھواں۔ یہ کہ یہ علامتیں حتمی علامتیں نہیں ہیں چونکہ اپنے کلام کے اختتام پر خود فرماتے ہیں جیسا خدا کی مشیت اقتجاء کرے گی انجام پائے گا۔

۱۰۔ نماز عصر کے بعد امام زمانہ کے لئے دعا مانگنا

سید بن طاوؤس فرماتے ہیں نماز عصر کے بعد سب سے اہم تعقیبات حضرت امام موسیٰ کاظم کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے آخری حجت کے لئے دعا مانگنا چنانچہ یحییٰ بن فضل نو فلی کہتاہے کہ بغداد میں حضرت امام موسیٰ کاظم کی خدمت میں حاضر ہوا آنحضرت نے نماز عصر کے بعد اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیا اور میں نے سنا کہ یہ دعا پڑھتے تھے۔

۱۸۳ انت اللہ لا الہ الا انت

میں نے عرض کیا کس کے لئے دعا کرتے ہیں فرمایا مھدی آل محمد کیلئے اس وقت فرمایا میرے باپ فدا اس پر کہ جس کا پیٹ بھرا ہوا ابرو ملے ہوئے جس کے ران باریک بدن قوی گندم گون رنگ تھجد میں شب بیداری کی وجہ سے اس کا رنگ زردی کی طرف مائل تھا میرا باپ قربان اس پر کہ رات کو سجدہ اور رکوع کی حالت میں ساتروں کے غروب کا انتظار کرتاہے میرا باپ قربان اس پر کہ جو راہ خدا میں ملامت کرنے والوں کی ملامت ان پر اثر نہیں کرتی ہے مطلق تاریکی میں وہ ھدایت کا چراغ ہے میرا باپ قربان اس پر کہ جس نے خدا کے امر کو قائم کیا میں نے عرض کیا کس زمانے میں قیام کرے گا فرمایا جس وقت سپاہیوں کو فرات اور دجلہ کے کنارے دیکھ لیں اور کوفہ کا پل منہدم ہوجائے اور کوفہ کے بعد گھر آگ میں جل جائیں جب اس مطلب کو دیکھیں گے پس خداوند متعال کی مشیت کا تعلق وقت ہوا اس وقت انجام پائے گا کدا کے حکم پر کوئی غالب نہیں ہے۔

۱۱۔ ہر نماز کے بعد امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا

یہ دعا ہر نماز کے بعد وارد ہے ۱۸۴ اللھم ادخل علی

پڑھنے والوں پر یہ چیز مخفی نہیں ہے کہ اس دعا کا مضمون حضرت مھدی کی حکومت کے زمانے میں محقق ہوگا اس دعا کے لئے ایک قصہ ہے یہاں پر بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔

۱۲۔ ہر نماز کے بعد آخری حجت کے لئے دعا

کتاب جمال الصالحین میں امام صادق سے نقل کیا گیا ہے کہ حضرت نے فرمایا ہمارے شیعوں پر ہمارے حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ ہر واجب نماز کے بعد اپنے ہاتھ سے ٹھوڑی کو پکڑ کر تین مرتبہ کہے

یٰا رَبِّ مُحَمَّدٍ عَجِّل فَرَجَ آلِ مُحَمَّدٍ یٰا رَبَّ مُحَمَّدٍ إحْفَظْ غَیْبَةَ مُحَمَّدٍ یٰا رَبَّ مُحَمَّدٍ انْتَقِمْ لِا بْنَتِہ مُحَمَّدٍ ۔

۱۳۔ ہر واجب نماز کے بعد امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا

حضرت امام جواد فرماتے ہیں جب آپ واجب نماز سے فارغ ہوجائیں تو کہو۱۸۷۶

اس حدیث شریف سے ہر واجب نماز کے بعد آخری حجت کی فرض کے لئے دعا کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔

۱۴۔ دعائے تشرف

روایت میں ہے کہ جو بھی اس دعا کو ہر واجب نماز کے بعد پڑھے اور اس عمل پر پابند رہے اس کی عمر لمبی ہوجاتی ہے اس قدر کہ وہ اپنی زندگی سے تھک جائیں گے اور آخری حجت کی زیارت اور ملاقات ہوجائے گی اور دعا یہ ہے

۱۸۷ دعا اللھم صل علی محمد

فرمایا کہ فلاں کی جگہ اس کا نام لے

۱۵۔ ہر واجب نماز کے بعد امام زمانہ کی ملاقات کی دعا

حضرت امام صادق فرامتے ہیں جو بھی ہر واجب نماز کے بعد یہ دعا پڑھے حضرت امام م ح م د بن الھسن کو حالتِ بیداری میں یا خواب میں دیکھتاہے۔

۱۸۸ بسم اللہ الرحمن الرحیم

۱۶۔ نماز شب میں پہلی دو رکعت کے بعد امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا

مستحب ہے کہ نماز شب میں پہلی دو رکعت کے بعد یہ دعا پڑھی جائے

۱۸۹ اللھم انی اسئلک

صاحب مکیال فرماتے ہیں اس دعا میں مزید اضافہ کا کتاب جمال الصالحین میں دیکھا ہے و تجعلنا من اصحابہ و انصارہ و ترزقنابہ رجاء نا و تستجیب بہ دعاء نا مستحب ہے اس دعا کو نماز شب کے ہر دو رکعت کے بعد پڑھی جائے۔

۱۷۔ نماز شب کے چوتھی رکعت کے بعد امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا

نماز شب میں چوتھی رکعت کے بعد سجدہ شکر بجا لائے اور اس میں سو مرتبہ ما شاء اللہ ماشاء اللہ کہے اس کے بعد یہ دعا پڑھے

یٰا رَبِّ أَنْتَ اللّٰہُ، مٰا شِئْتَ مِنْ أَمْرٍ یَکُونُ، فَصَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَاجْعَلْ لی فیمٰا تَشیاءُ أَنْ تُعَجَّلَ فَرَجَ آل مُحَمَّدٍ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ عَلَیْھِمْ، وَتَجْعَلَ فَرَجی وَ فَرَجَ إِخْوٰانی مَقْرُوناً بَفَرَجِھِمْ، وَتَفْعَلَ بی کَذٰا وَ کَذٰا، جو حاجت ہو وہی دعا مانگو۔

دعاء کے اصرار کی اہمیت

دعا کے تکرار کرنے سے حاجت قبول ہوتی ہے یہ نکتہ بہت زیادہ مہم ہے البتہ ایک دفعہ دعا مانگنے سے حاجت قبول نہیں ہوتی ہے اس سے مقصد حل نہیں ہوتاہے اس مطلب کو واضح کرنے کے لئے ایک مثال بیان کرتاہوں تا کہ میرا مطلب واضح ہوجائے بہت سی جسمانی بیماریوں میں اگر بیماری معمولی ہو یا ابھی ابھی بیمار ہوا ہو اور بیماری پرانی نہ ہوچکی ہو تو اس کا علاج دوائی کے ایک ہی نسخہ سے کیا جاتاہے لیکن اگر بیماری پرانی ہو انسان کے بدن میں جڑیں موجود ہوں تو ایسی صورت میں معلوم ہے کہ ایک نسخہ سے بیماری دور نہیں ہوتی ہے اس کے لئے بار بار دوائی دینے کی ضرورت ہے تا کہ بیماری دور ہو روحانی امراض میں بھی یہی حالت ہے اگر کسی کو روحانی بیماری لگی تھی بیماری اتنی مہم نہیں تھی لیکن زمانے کے گزرنے کے ساتھ اور طولانی ہونے کے ساتھ بیماری نے جڑیں پکڑی ہیں ایسی صورت میں ایک دفعہ دعا پڑھنے سے بیماری دور نہیں ہوجاتی بلکہ اس کے لئے بار بار دعا مانگنے کی ضرورت ہے جس طرح جسمانی بیماری میں انسان بار بار دوا کا محتاج ہوتاہے تا کہ بیماری دور ہو اسی طرح روح کی بیماری کے لئے بار بار دعا کی ضرورت ہے البتہ ممکن ہے کہ بعض افراد کے ایک دفعہ دعا پڑھنے سے ان کی دعا قبول ہوجائے لیکن عام لوگوں کو نہیں چاہیئے کہ یہ بھی اس کی طرح توقع رکھیں کہ ایک دفعہ دعا پڑھنے سے دعا قبول ہوگی۔ یہی ایک وجہ ہے کہ دعا میں اصرار کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

(استجاب دعا پر انسان کو یقین ہو)

دعا کے قبول ہونے میں دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔

1۔موانع قلبی دور ہو 2۔ اور باطنی نورانیت موجود ہو۔

دعا کا تیر ھدف تک پہنچنے کے لئے دو چیزوں کا محتاج ہے ان دو چیزوں کو ایجاد کرے تا کہ اضطرار تک نوبت نہ پہنچے دل کی تاریکی کو دور کرکے اس میں نورانیت ایجاد کرے چونکہ یقین کا لازمہ یہ ہے کہ انسان کے دل میں یقین کا نور پیدا ہوتاہے۔

حضرت امام محمد باقر(علیہ السلام ) فرماتے ہیں لا نور کنوار الیقین یقین کے نور کی طرح کوئی نور نہیں ہے۔ واضح ہے کہ جب انسان کو یقین ھاسل ہوجائے تو اس کے دل میں روشنی پائی جاتی ہے اس کے دل سے تاریکی زائل ہوجاتی ہے چونکہ نور اور ظلمت دونوں ایک جگہ پر جمع نہیں ہوسکتے ہیں مرحوم آیة اللہ خوئی بسم اللہ الرحمن الرحیم کے اثرات کے رابطہ میں جب کہ یقین کے ساتھ کہا گیا ہو اس بارے میں آقائی خوئی نے ایک عجیب واقعہ شیخ احمد سے نقل کیا ہے جو کہ مرحوم میرزائی شیرازی کے یہاں خادم تھا اس نے کہا مرحوم شیرازی کا ایک اور خادم تھا کہ جس کا نام شیخ محمد تھا مرحوم میرزا کے فوت ہونے کے بعد لوگوں سے الگ تھلک رہا ایک دن ایک شخص شیخ محمد کے پاس گیا سورج غروب ہوتے وقت چراغ کو پانی سے بھر دیا اور اس کو روشن کیا اور چراغ جل رہا تھا اس شخص نے بہت زیادہ تعجب کیا اور اس کی وجہ کے بارے میں پوچھا شیخ محمد نے اس کے جواب میں کہا کہ شیخ مرحوم میرزا کے فوت ہونے کے بعد اس کے غم میں لوگوں سے الگ رہا اور اپنے گھر میں رہا میں بہت زیادہ غمگین ہوا تھا دن کے آخری وقت ایک جوان میرے پاس آیا کہ جو عرب کا طالب علم دکھائی دیتا تھا میں ان سے مانوس ہوا غروب آفتاب تک میرے پاس رہا ان کے بیانات سے بہت زیادہ خوش ہوا بہت لذت حاسل ہوئی میرے دل سے تمام غم دور ہوا چند دن میرے پاس رہے اور میں اس کے ساتھ مانوس ہوا ایک دن وہ مجھ سے گفتگو کرتا تھا کہ خیال آیا کہ آج میرے چراغ میں تیل نہیں ہے اس زمانے میں رسم یہ تھی کہ غروب آفتاب کے وقت دکانیں بند کردیتے تھے اور ساری رات بند کرتے تھے اس لئے مجھے فکر ہوا اگر میں ان سے اجازت لیکر تیل کے لئے باہر چلا جاتاہوں تو میں ان کی باتوں کے فیض سے محروم ہوجاتاہوں اور اگر تیل نہ خریدوں تو ساری رات تاریکی میں گزاروں اس وقت میری حالت کو دیکھا اور میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تجھ کو کیا ہوا ہے کہ میری باتوں کو اچھی طرح نہیں سنتے ہو میں نے کہا میرا دل آپکی طرف متوجہ ہے فرمایا نہیں تم میری باتوں کو اچھی طرح نہٰں سنتے ہو میں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ آج میرے چراغ میں تیل نہیں ہے فرمایا بہت زیادہ تعجب ہے اس قدر تمہارے لئے حدیث بیان کی اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کی فضیلت بیان کی اس قدر بے پرواہ نہیں ہوئے کہ تیل کے خریدنے سے بے نیاز ہوجائے میں نے کہا مجھے یاد نہیں ہے فرمایا بھول گئے ہو جو کچھ بسم اللہ الرحمن الرحیم خواص اور فوائد بیان کرچکا ہوں اس کے فوائد یہ ہیں کہ آپ جس قصد کے لئے کہیں وہ مقصود حاصل ہوتاہے آپ اپنے چراغ کو پانی سے بھردیں اس مقصد کے ساتھ کہ پانی میں تیل کی خاصیت ہو کہو بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

میں نے قبول کیا میں اٹھا اسی قصد سے چراغ کو پانی سے بھر دیا اس وقت میں نے کہا بسم اللہ الرحمن الرحیم اس کے بعد چراغ روشن ہوا اور اس سے شعلہ بلند ہوا اس وقت سے لیکر اب تک جب بھی چراغ خالی ہوجاتاہے اس کو پانی سے بھر دیتاہوں اور بسم اللہ کہتاہوں چراغ روشن ہوجاتاہے مرحوم آیة اللہ خوئی نے اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد فرمایا تعجب یہ ہے کہ اس واقعہ کے مشہور ہونے کے بعد بھی مرحوم شیخ محمد سے اس کا اثر ختم نہیں ہوا۔ جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے کہ بسم اللہ کو عقیدہ اور یقین کے ساتھ پڑھنے پر ظاہراً یہ اثر تعجب آور اور خارق العادہ ہے کہ جن کے پاس اسم اعظم ہے وہ بھی اس سے استفادہ کرتے ہیں ان کا وہ عمل جو دوسروں سے ان کو امتیاز پیدا کرتاہے وہ ان کا یقین ہے چونکہ ان کے یقین میں ایک خاص اثر پایا جاتاہے۔ یقین کے تعجب کو بیان کرنے کے لئے اسی ایک واقعہ پر اکتفا کرتاہوں۔

امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا مانگنا ضروری ہے۔

دعا کے شرائط اور آداب بیان کرنے کے ساتھ بعد کہتاہوں سب سے مہم اور سب سے ضروری امام کے غیبت کے زمانے میں ظہور امام کے لئے دعا مانگنا ہے چونکہ صاحب الزمان ہمارے زمانے کے امام ہیں بلکہ تمام جہان کے سرپرست ہیں مگر کیا ہم اس سے غافل رہ سکتے ہیں حالانکہ وہ ہمارے امام ہیں اور امام سے غافل رہنا اصول دین کے ایک اصل سے غافل ہونا ہے پس ضروری ہے کہ حضرت کے ظہور کے لئے دعا کریں اپنے اور رشتہ داروں کے لئے دعا کرنے سے پہلے صاحب الزمان کے لئے دعا مانگے مرحوم سید بن طاوؤس اپنی کتاب جمال الاسبوع میں لکھتے ہیں ہمارے پیشوا امام کے لئے دعا مانگنے کے لئے خاص اہمیت کے قائل تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ امام کے لئے دعا مانگنا اھل اسلام اور ایمان کے وظائف میں مہم ترین چیز ہے امام جعفر صادق(علیہ السلام ) نماز ظہر کے بعد امام زمانہ کے حق میں دعا مانگتے تھے امام کاظم بھی امام زمانہ کے لئے دعا مانگتے تھے ہمیں بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے امام زمانہ کے لئے دعا مانگنی چاہیئے کتاب فلاح السائل میں اپنے بھائیوں کے لئے دعا کے فضائل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں اگر اپنے دینی بھائیوں کے لئے دعا مانگنے میں اتنی فضیلت ہے تو ہمارے امام اور بادشاہ کے لئے کہ جو تیرے وجود کے لئے علت ہے اس کے لئے دعاء مانگنے کی کتنی فضیلت ہوگی تو اچھی طرح جانتاہے اور تمہارا عقیدہ ہے اگر امام زمانہ نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ تجھ کو خلق نہ کرتا بلکہ کسی کو بھی خلق نہ کرتا لطف الٰہی ہے کہ اس ھستی کے وجود سے تو اور دوسرے موجود ہیں خبردار یہ گمان نہ کرنا کہ امام زمان تمہاری دعا کا محتاج ہے افسوس اگر تمہارا یہ عقیدہ ہے تو تم اپنے عقیدہ میں بیمار ہو بلکہ جو کچھ میں نے کہا ہے وہ اس لئے ہے ان کا حق عظیم ہے ان کا بڑا احسان ہے اور ہم انکے حق کو پہچانیں اب واضح ہے اپنے لئے دعا کرنے سے پہلے اپنے رشتہ داروں کے لئے دعا کرنے سے پہلے امام زمانہ کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ اجابت کے دروازوں کو جلد از جلد تمہارے لئے کھول دیتاہے چونکہ تو نے دعا کے قبول کے دروازوں کو اپنے جرائم قفل کے ساتھ بند کردیا ہے اس بناء پر اگر دعا اپنے مولیٰ کے لئے کروگے تو امید ہے کہ کہ اس بزرگوار کی وجہ سے تمہارے لئے اجابت کے دروازے کھل جائیں تا کہ تو اور دوسرے کہ جن کے لئے دعا کرتے ہو فضل اور رحمت الٰہی میں شامل ہوجائیں چونکہ تم نے اپنی دعا میں ان کی رسی کو تھاما ہے اس دعا کی اہمیت ائمہ طاھرین کی نظر میں کیا ہے کیا انہوں نے دعا مانگنے میں بے اعتنائی کی ہے ہرگز نہیں اس بناء پر واجب نمازوں میں حضرت کے لئے دعا کرنے سے کوتاہی نہ کریں۔ ایک صحیح روایت محمد بن علی بن محبوب سے مروی ہے کہ شیخ قمی اس زمانے میں موجود تھے وہ اپنی کتاب میں نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا کلمّا کلّمت اللّٰہ تعالیٰ فی صلوة الفریضة فلیس بکلام واجب نماز میں جو بات بھی خدا کے ساتھ کلام کریں وہ کلام نہیں ہے۔ (یعنی دعا نماز کو باطل نہیں کرتی ہے) پھر تکرار کرتاہوں ان دلائل کو ذکر کرنے کے بعد امام کے تعجیل ظہور کے لئے دعا کو اہمیت نہ دینے میں کوئی عذر باقی نہیں رہتاہے۔

صاحب مکیال المکارم فرماتے ہیں جیسا کہ آیات اور روایات دلالت کرتی ہیں کہ دعا سب سے بڑی عبادت ہے اور اس میں شک نہیں کہ سب سے مہم ترین دعا اس کے لئے ہو کہ خداوند تعالیٰ نے جن کے لئے تمام لوگوں پر دعا واجب کیا ہے ان کے وجود کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے رحمت سے نوازا ہے اس میں کوئی شک نہیں خدا کے ساتھ مشغول ہونے سے مراد خداکی عبادت میں مشغول ہونا ہے اور ہمیشہ دعا کرنا یہ سبب بنتاہے کہ خدا ان کو عبادت میں مدد کرے اور اس کو اپنے اولیاء میں سے قرار دیا ہے اس بناء پر اھل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ جہاں کہیں بھی ہو اور جس زمانے میں بھی ہو امام کی تعجیلِ ظہور کے لئے دعا مانگے اس مطلب کے ساتھ جو مناسب ہے اور ہمارے گفتار کی تائید کرتی ہے یہ ہے کہ حضرت امام حسن نے عالم خواب میں یا مکاشفہ میں مرحوم آیة اللہ میرزا محمد باقر فقیہ سے فرمایا منبروں پر لوگوں سے کہیں اور لوگوں کو حکم دیں کہ توبہ کریں اور آخری حجت کے تعجیل ظہور کے لئے دعا مانگیں حضرت حجت کے لئے دعا مانگنا نماز میت کی طرح نہیں ہے کہ واجب کفائی ہو ایک شخص کے انجام دینے سے دوسروں سے ساقط ہو بلکہ پانچ وقت کی نمازوں کی طرح ہے کہ ہر بالغ فرد پر واجب ہے کہ امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا مانگیں جو کچھ ہم نے بیان کیا اس سے امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا مانگنا ضروری ہے۔

عالم میں سب سے مظلوم فرد

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ آج کل نہ صرف عبادات میں بلکہ عمومی مجالس میں بھی امام کے تعجیل ظہور کی دعا سے غافل ہیں اگر ہم جانیں کہ اب تک ہم کس قدر غافل ہیں تب معلوم ہوگا کہ حضرت اس عالم میں سب سے زیادہ مظلو م ہے اب چند واقعات حضرت کی مظلومیت کے بارے میں بیان کرتاہوں۔

۱۔ حجة الاسلام و المسلمین مرحوم آقائی حاج سید اسمعیل سے نقل کیا گیا ہے میں زیارت کے لئے مشرف ہوا حضرت سید الشہداء کے حرم میں زیارت میں مشغول تھا چونکہ زائرین کی دعا امام حسین کے حرم کے سرھانے مستجاب ہوتی ہے وہاں میں نے خدا سے درخواست کی کہ مجھے امام زمانہ کی زیارت سے مشرف فرما مجھے ان کی زیارت نصیب فرما میں زیارت میں مشغول تھا کہ اتنے میں امام نے ظہور فرمایا اگر چہ میں نے اس وقت آخری حجت کو نہیں پہچانا لیکن میں ان سے زیادہ متاثر ہوا سلام کے بعد ان سے پوچھا آقا آپ کون ہیں انہوں نے فرمایا میں عالم میں سب سے زیادہ مظلوم ہوں میں متوجہ نہ ہوا اپنے آپ سے کہا شاید یہ نجف کے بزرگ علماء میں سے ہیں چونکہ لوگوں نے ان کی طرف توجہ نہیں دی اس لئے اپنے آپ کو عالم میں سب سے زیادہ مظلوم جانتے ہیں اتنے میں اچاک متوجہ ہوا کہ کوئی میرے پاس نہیں ہے اس وقت میں نے سمجھا کہ عالم میں سب سے زیادہ مظلوم امام زمانہ کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے اور میں ان کے حضور کی نعمت سے جلد محروم ہوا۔

۲۔ حجة الاسلام والمسلمین آقائی حاج سید احمد موسوی امام عصر کے عاشقان میں سے تھے وہ حجة الاسلام و المسلمین مرحوم آقائے شیخ محمد جعفر جوادی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ عالم کشف میں یا عالم شھود میں حضرت حجة کی خدمت میں مشرف ہوئے ان کو زیادہ غمگین دیکھتے ہیں حضرت سے احوال پرسی کرتے ہیں حضرت فرماتے ہیں میرا دل خون ہے میرا دل خون ہے۔

۳۔ حضرت امام حسین نے عالم مکاشفہ میں قسم کے علماء میں سے ایک سے فرمایا ہمارے مہدی اپنے زمانے میں مظلوم میں حضرت مہدی کے بارے میں گفتگو کریں اور لکھیں جو بھی اس معصوم کی شخصیت کے بارے میں کہیں گویا تمام معصومین کے لئے کہا ہے چونکہ تمام معصومین عصمت ولایت اور امامت میں ایک ہیں چونکہ زمانہ حضرت مہدی(علیہ السلام ) کا زمانہ ہے اس لئے سزاوار ہے اس کے بارے میں کچھ مطالب کہے جائیں آخر میں فرمایا پھر تاکید کرتاہوں ہمارے مہدی کے بارے میں زیادہ گفتگو کریں اور لکھیں کہ ہمارا مہدی مظلوم ہے زیادہ سے زیادہ امام مہدی کے بارے میں لکھنا اور کہنا چاہیئے۔

مرحوم حاج شیخ رجب علی خیاط کی نصیحت

آپ آخری حجت کی مظلومیت سے آگاہ ہوتے ہوئے یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا سے مراد حالات اور مقامات تک پہنچنا مقصود نہ ہو بلکہ قرب الٰہی اور امام کی رضا کو اپنے عمل کا مرکز قرار دے اب مہم واقعہ کی طرف توجہ دیں مرحوم آقائی اشرفی امام عصر کے ظہور کے منتظرین میں سے تھے نقل کرتے ہیں کہ ایک زمانہ میں تبلیغ کے لئے مشہد مقدس کے شہروں میں سے ایک شہر میں گیا تھا ماہ رمضان میں مسافرت کے دوران ہم تہران کے دوستوں میں سے ایک دوست کے ساتھ مرہوم شیخ رجب علی خیاط کی خدمت میں مشرف ہوئے اور ان سے اپنی راہنمائی کا مطالبہ کیا اس بزرگوار نے ختم آیہ شریفہ (ومن یتق اللہ) کا طریقہ بتادیا اور فرمایا اول صدقہ دیں اور چالیس روز روزہ رکھیں اور اس ختم کو چالیس روز میں انجام دیں مرحوم شیخ رجب علی خیاط نے اس مقام پر جو مہم نکتہ فرمایا یہ ہے کہ اس ختم سے مقصود یہ ہو کہ حضرت امام رضا سے اس بزرگوار کا قرب حاصل کرو اور مادی حاجتیں اپنی نظر میں نہ رکھیں۔

مرحوم آقائی شرفی نے فرمایا میں نے ختم کو شروع کیا لیکن اس ختم کو جاری نہیں رکھ سکا لیکن میرے ساتھی کو یہ توفیق حاصل ہوئی اور اس کو اختتام تک پہنچایا پس جب ہم مشہد مقدس لوٹے جب وہ حضرت امام رضا کے حرم میں تھا تو آپکی زیارت سے مشرف ہوا تب متوجہ ہوئے کہ آن حضرت کو نور کی صورت میں دیکھتاہے آہستہ آہستہ یہ حالت قوی ہوئی یہاں تک حضرت کو دیکھنے اور گفتگو کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی۔ اس واقعہ کو بیان کرنے کا اصل مقصد یہ ہے وہ جو دعاؤں اور توسلات میں پائی جاتی ہیں اور وہ یہ ہے کہ انسان نماز ادا کرنے کے علاوہ دعاؤں اور توسل میں خلوص کی رعایت کرے اس کو انجام دینا صرف قرب الٰہی حاسل کرنے کے لئے ہو تا کہ اھل بیت کے نزدیک ہوجائے یعنی یہ بندگی کے لئے انجام دے نہ کہ حالات اور مقامات تک پہنچنے کے لئے نہ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے مرحوم حاج شیخ علی حسن علی اصفہانی سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا میں ایسا کام کرسکتاہوں کہ لوگ میرے دروازے کو دق الباب کریں۔ تا کہ ان کی مشکلات حل ہوجائے مجھ سے کہے بغیر لیکن لوگوں کا عقیدہ حضرت امام رضا کے بارے میں سست ہوجاتاہے اس لئے میں اس کو انجام نہیں دیتاہوں۔

شیخ حسن علی کااصفہانی کا مہم تجربہ

اب جب شیخ حسن علی اصفہانی کا ذکر ہوا تو یہاں ایک واقعہ اسی مناسبت سے نقل کرتاہوں یہ بچپن سے عبادات ریاضیات میں مشغول ہوجاتے تھے اور بلند اھداف تک پہنچنے کے لئے بہت زیادہ زحمت اٹھائی تھی جو اس بزرگوار نے نمازیں اور قرآنی کی آیتوں کو بچپن سے لیکر آخری عمر تک انجام دیا تھا اس کو لکھا اس میں بہت زیادہ اسرار اور نکات موجود تھے چونکہ اس کتاب میں رموز اور اسرار تھے مناسب نہیں سمجھا یہ دوسروں کے ہاتھ میں دیدے اس لئے اس کو مخفی رکھا لوگوں کو نہیں دیا مرحوم والد اس کتاب کے ساتھ ارتباط کے بارے میں فرماتے تھے مرحوم شیخ حسن علی اصفہانی نے اپنی آخری زندگی میں اس کتاب کو مرحوم آیة اللہ حاج سید علی رضوی کو دے دیا اس واقعہ کو نقل کرنے کا مقصد یہ ہے جو شیخ حسن علی اصفہانی نے اس کتاب کے آخر میں لکھا ہے جو کچھ اس کتاب کے آخر میں لکھا ہے اس میں یہ نکتہ ہے کاش میں ان اذکار اور ززحمات کو امام زمانہ کے ساتھ قرب حاسل کرنے کے لئے انجام دیتا

جو بھی تعجیل ظہور کے لئے دعا مانگے

امام زمانہ کی دعا انہیں بھی شامل ہوتی ہے

امام زمانہ کی دعا ہے کہ جو مھج الدعوات میں نقل ہوئی ہے دعا کے بعد تعجیل فرج کے لئے خدا سے چاہتاہے واجعل من یبتعنی النصرة دینک مویدین، و فی سبیلک مجاھدین و علی من ارادنی و ارادھم بسوءٍ منصورین۔۔ جس زمانے میں میرے ظہور کی اجازت دیں گے کسی کو کہ جو میری پیروی کرے اپنے دین کی مدد کے لئے موٴید قرار دے اور اس کو راہ خدا میں مجاہدین میں سے قرار دے اور جو بھی میری اور ان کی نسبت برا قصد رکھتے ہیں ان پر کامیاب فرما اس مطلب پر دوسری دلیل یہ ہے کہ علی بن ابراھیم قمی آیہ شریفہ کی تفسیر میں واذاحییتُم بتحیة فحیوا باحسن منھا او رُدوھا جب تم پر کوئی سلام کرے تو اس کے جواب میں اچھا سلام دیں یا ویسا ہی سلام کا جواب دیں سلام کرنا نیک کاموں میں سے ہے۔ ہمارے گفتار پر گواہ اور تائید وہ روایت ہے کہ جو مرحوم راوندی اپنی کتاب الخراج میں نقل کرتے ہیں کہتاہے کہ اصفہانی کی ایک جماعت جن میں ابوعباس احمد بن نصر ابو جعفر محمد بن علویہ شامل ہیں نے نقل کیا ہے اور کہتے ہیں اصفہان میں ایک شیعہ مرد تھا جس کا نام عبدالرحمان تھا ان سے پوچھا گیا تم نے علی نقی کی امامت کو قبول کیا اس کی کیا وجہ ہے کسی اور کو قبول نہیں کیا حضرت سے ایک واقعہ دیکھا جس کی وجہ سے میں ان کی امامت کا قائل ہوا میں ایک فقیر مرد تھا لیکن زبان تیز اور جرأت رکھتا تھا یہی وجہ ہے ایک سال اھل اصفہان نے مجھے انتخاب کیا تا کہ میں ایک جماعت کے ساتھ عدالت کے لئے متوکل کے دربار میں چلا جاؤں ہم چلے یہاں تک کہ بغداد پہنچے جب ہم دربار کے باہر تھے تو ہمیں اطلاع پہنچی کہ حکم دیا گیا ہے کہ امام علی بن محمد بن الرجا کو حاضر کریں اس کے بعد حضرت کو لے آئے میں نے حاضرین میں سے ایک سے کہا جس کو ان لوگوں نے حاضر کیا ہے وہ کون ہے کہا وہ ایک مرد ہے جو علوی ہے اور رافضیوں کا امام ہے اس کے بعد کہا میرا خیال ہے کہ متوکل اس کو قتل کرنا چاہتاہے میں نے کہا میں اپنی جگہ سے حرکت نہیں کروں گا جب تک اس مرد کو نہ دیکھوں کہ وہ کس قسم کا شخص ہے اس نے کہا حضرت گھوڑے پر سوار ہو کر تشریف لائے لوگ دونوں طرف سے صف باندھ کر اس کو دیکھتے تھے جب میری نظر ان کے جمال پر پڑی میرے دل میں ان کی محبت پیدا ہوئی میں نے دل میں ان کے لئے دعا مانگنا شروع کی کہ اللہ تعالیٰ کے ان کو متوکل کے شر سے محفوظ رکھے حضرت لوگوں کے درمیان حرکت کرتے تھے نہ دائیں طرف دیکھتے تھے نہ بائیں طرف میں بھی حضرت کے لئے دل میں دعا مانگتا تھا جب میرے سامنے آئے تو حضرت میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: استجاب اللہ دعاک و طوّل عمرک و کثر مالک و ولدک خدا نے تمہاری دعا قبول کی اللہ تمہاری عمر کو طویل کرے اللہ تجھ کو مال اور اولاد زیادہ دے ان کی ھیبت اور وقار کی وجہ سے میرا بدن لرزنے لگا۔ دوستوں کے درمیان زمین پر گرا انہوں نے پوچھا کہ کیا ہوا میں نے کہا خیریت ہے اور واقعہ کسی سے بیان نہیں کیا اس کے بعد اصفہان لوٹا خدا نے حضرت کی دعا کی وجہ سے مال اور ثروت کے دروازے کھل گئے اگر آج ہی اپنے گھر کے دروازے کو بند کردوں تو بھی اس میں جو مال رکھتا ہوں کئی ہزار درہم کے برابر ہے یہ اس مال کے علاوہ ہے جو گھر کے باہر مال رکھتاہوں خدا نے حضرت کی دعا کی برکت سے مجھے فرزند عطا کیا ہے اس وقت میری عمر ستر سال سے زیادہ ہے میں ان کی امامت کا دل میں قائل تھا اس کے بارے میں مجھے خبردی تو خدا نے ان کی دعاء کو میرے حق میں قبول کیا میں اعتقاد رکھتا ہوں ۔

دیکھیں کہ کس طرح ہمارے مولیٰ کی دعا نے اس شخص کو اس کی نیکی کی وجہ سے جبران کیا ان کے لئے دعا کی حالانکہ وہ موٴمن نہیں تھا کیا گمان کرتے ہو اگر ہم مولیٰ کے حق میں دعا کریں تو وہ تمہارے لئے دعائیں کرے گا حالانکہ تم موٴمنین میں سے ہو نہیں ہرگز ایسا نہیں ہے اس خدا کی قسم کہ جس نے جن اور انس کو پیدا کیا حضرت ان مومنین کے لئے بھی دعا کرتے ہیں کہ جو اس امر سے غافل ہیں چونکہ وہ صاحب احسان ہے۔

اب اس مطلب کی تائید کے لئے بیان کرتاہوں اور وہ خواب ہے کہ بعض برادران نے مجھے بیان کیا ہے عالم خواب میں حضرت کی زیارت ہوتی ہے حضرت نے فرمایا انّی ادعولکل موٴمن یدعولی بعدذکر مصائب سید الشہداء فی مجالس العزاء میں ہر مومن کے لئے کہ جو مصائب سید الشہداء کے ذکر کے بعد میرے لئے دعا مانگتاہے میں اس کے لئے دعا مانگتاہوں خداوند تعالیٰ سے اس امر کے لئے توفیق کی درخواست کرتاہوں چونکہ وہ دعا کو سننے والا ہے۔

تعجیل فرج کے لئے مجلس دعا تشکیل دینا

جس طرح ممکن ہے کہ تنہا انسان تعجیل ظہور امام زمانہ کے لئے دعا کرے اسی طرح ممکن ہے اکٹھے مل کر دعا مانگیں اور مجالس دعا تشکیل دیں تا کہ آخری حجت کی یاد تازہ ہوجائے اس اجتماع میں نیک کاموں پر دعا کے علاوہ اور فوائد بھی ہوتے ہیں اس سے ائمہ معصومین کے امر زندہ رکھا جاتاہے اور اھل بیت کی احادیث کو یاد کرتے ہیں۔ صاحب مکیال المکارم

ان مجالس کی تشکیل کو امام کے غیبت کے زمانے میں لوگوں کے وضائف میں شمار کیا ہے اس میں صاحب الزمان کی یاد صفائی جاتی ہے فضائل بیان کئے جاتے ہیں اس کے علاوہ بہترین دلیل وہ کلام ہے کہ جس کو امام جعفر صادق سے وسائل الشیعہ میں روایت کیا گیا ہے کہ جہاں فرمایا ہے ایک دوسرے کی زیارت کرو اس طرح کی زیارتیں تمہارے دلوں کو زندہ کرنے کا باعث اور ہماری احادیث کو یاد کرنے کا موجب ہے ہمارے احادیث ذکر کرنا تمہیں ایکدوسرے کے لئے مہربان قرار دیتاہے اگر ہماری احادیث کو سنوگے اور عمل کروں گے تو ہدایت پاؤگے اور ہلاکتوں سے نجات پاؤگے اور اگر ان کو فراموش کروگے تو گمراہ ہوکر ہلاک ہوجاؤگے پس تم ان پر عمل کرو میں ان سے رہائی کا ضامن ہوں۔ کس طرح یہ روایت ہمارے مطلب پر دلالت کرتی ہے حضرت نے اپنے اس کلام میں ایکدوسرے کی زیارت کو علل اور اسباب قرار دیا ہے چونکہ ایکدوسرے کی زیارت کرنا ان کے امر کو زندہ رکھنے کاموجب ہے اس بناء پر ائمہ کے نزدیک اس میں شک نہیں ہے کہ امام کو یاد کرنا اور مجالس کو ترتیب دینا مستحب ہے ہمارے اس مطلب پر دلیل ہے کہ حضرت امیرالمومین نے ایک کلام کے ضمن میں تفصیل کے ساتھ فرمایا: ان اللہ تبارک و تعالیٰ اطّلع الی الارض فاختارنا و اختارلنا شیعة ینصروننا، و یفرحون لفرحنا، و یحزنون لحزننا، و یبذلون اموالھم و انفسھم فینا، اُولئک منّا و الینا، الخبر۔ خدائے متعال نے کرہ زمین پر نگاہ کی اور ہمیں چنا اور ہمارے لئے شیعوں کو چنا کہ جو ہماری مدد کرتے ہیں ہماری خوشی میں خوشی کرتے ہیں اور ہمارے غم میں غم کرتے ہیں اپنی جان اور مال کو ہماری راہ میں کرچ کرتے ہیں وہ ہم میں سے ہیں وہ ہماری طرف لوٹیں گے۔

بعض اوقات اس قسم کی مجالس کا انعقاد واجب اور ضروری ہے اس وقت کہ جب لوگ گمراہ ہورہے ہیں اس قسم کی مجالس کا انعقاد تباہی اور فساد سے روکنے کا سبب اور ان کی ہدایت کا سبب ہے اھل بدعت اور گمراہ لوگوں کو برائی سے روکنا واجب ہے۔

آداب دعا

واضح ہو کہ دعا مانگنے والا دعاء کے آداب کی رعایت کرتے ہوئے دعا مانگے تو حاجت روائی کے لئے عجیب غریب آثار دیکھے گا اس لئے دعاء کے آداب اور شرائط کو بیان کرتاہوں کتاب المختار من کلمات الامام المھدی میں کہتے ہیں دعا کے اداب کو دیکھیں کہ کس سے دعا مانگتے ہیں کس طرح دعا مانگتے ہیں کیوں دعا مانگتے ہیں یہ بھی دیکھیں کس چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں کس قدر سوال کرتے ہیں کس لئے سوال کرتے ہیں دعا یعنی طلب اجابت تمام موارد میں تمہاری جانب سے تمام امور کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں۱ اگر دعاء کو شرائط کے تحت انجام نہ دیں۔ تو پھر اجابت کے منتظر نہ ہوجائیں چونکہ وہ ظاہر اور باطن کو جانتاہے ہوسکتاہے کہ کدا سے ایک چیز کو مانگیں تو اس باطن کے خلاف کو جانتا ہو۔ یہ بھی جاننا چاہیئے اگر خدا ہمیں دعا کا حکم نہ دیتا لیکن خلوص کے ساتھ ہماری دعا قبول ہوجاتی تو فضل کے ساتھ ہماری دعا قبول کرلیتا پس جب خدا دعا کی التجابت کا ضامن ہوا ہے جب اسے تمام شرائط کے ساتھ انجام دیا جائے تو پھرکس طرح دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔ دعاء کے آداب یہ ہیں۔

اول آداب :دعا بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ساتھ دعا کا آغاز کرے پیغمبر خدا نے فرمایا ہے لا یردّ دعاء اوّلہ بسم اللہ الرحمن الرحیم جس دعا کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم ہو وہ دعا رد نہیں ہوتی۔

دوسرا آداب: دعا سے پہلے خدا کی حمد و ثنا بجا لائے ہمارے مولیٰ حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا ہے کل دعاء لا یکون قبلہ تمحید فھو ابتر جس دعا سے پہلے خدا کی حمد و ثنا نہ کی جائے وہ دعا ناقص اور ابتر ہوتی ہے۔ ایک روایت میں ذکر ہوا ہے چنانچہ حضرت امیرالمومنین کی کتاب میں اس طرح ذکر ہوا ہے دعا سے پہلے حمد ثنا بجا لائیں اگر اللہ سے کوئی چیز مانگنا چاہیں تو سب سے پہلے اس کی تعریف کریں راوی کہتاہے میں نے کہا کہ میں کس طرح اس کی تعریف کروں فرمایا کہو: یا من اقرب الیّ من حبل الورید یا من یحول بین المرء و قبلہ یا من ھو بالمنظر الاعلی یا من لیس کمثلہ شئی۔ اے خدا کہ جو میری شہ رگ سے زیادہ قریب ہے اے وہ کہ جو انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل اور مانع ہوتے ہیں اے وہ ذات کہ جو منظر اعلیٰ ہے کہ جو بلند مرتبہ رکھتاہے اے وہ ذات کہ جو تیرے مانند کوئی نہیں ہے۔

تیسرا آداب: محمد اور آل محمد پر درود بھیجیں پیغمبر خدا نے فرمایا : صلاتکم علی اجابة لدعائکم و زکاة لأعمالکم۔تمہارا درود و صلوة بھیجنا مجھ پر تمہاری دعا کے قبول ہونے کا سبب ہے اور تمہارے اعمال کے پاک و پاکیزہ ہونے کا سبب ہے۔

ہمارے مولیٰ امام جعفر صادق نے فرمایا: لا یزال الدعاء محبوباً حتیٰ یصلّی علی محمد و آل محمد۔ دعا ہمیشہ حجاب میں ہوتی ہے یہاں تک محمد و آل محمد پر درود بھیجیں ایک دوسری حدیث میں فرمایا: من کانت لہ الی اللّٰہ عز و جلّ حاجة فلیبدء بالصلوة علی محمد و آلہ ثم یسألہ حاجتة ثم۔ یختم بالصلوة علی محمد و آل محمد بانّ اللہ اکرم من ان یقبل الطرفین و یدع الوسط اذا کانت الصلوة علی محمد و آل محمد لا تحجب عنہ۔ جس کسی کو بھی خدا کی طرف کوئی حاجت ہو اس کو چاہیے کہ دعا کا آغاز محمد و آل محمد سے کرے اس کے بعد خدا سے اپنی حاجت مانگے اور دعا کے بعد محمد و آل محمد پر درود بھیجے چونکہ خداوند تعالیٰ کریم ہے کہ اس دعا کے دونوں اطراف کو قبول کرے اور درمیان کو چھوڑ دے اور قبول نہ کرے چونکہ محمد و آل محمد پر درود بھیجنے پر حجاب واقع نہیں ہوتاہے۔

چوتھا آداب: معصومین کو اپنا شفیع قرار دے ہمارے مولا حضرت امام موسیٰ کاظم(علیہ السلام ) نے فرمایا اگر کسی چیز کے بارے میں خدا کی طرف محتاج ہو تو کہو: اللّٰھم انّی اسألک بحق محمد و علی فان لھما عندک شاناً من الشان و قدراً من القدر فبحق ذالک القدر ان تصلّی علی محمد و آل محمد و ان تفعل بی کذا و کذا۔بارالھٰا محمد و علی کو واسطہ دیکر سوال کرتاہوں چونکہ یہ دونوں بزرگ تیرے نزدیک بڑا مقام رکھتے ہیں اس شان اور منزلت کا واسطہ کہ محمد و آل محمد پر درود بھیج دے اور میری فلان فلان حاجت کو قبول فرما۔

چونکہ جب بھی قیامت کا دن آئے گا کوئی ملک مقرب پیغمبر مرسل اور مومن ممتحن باقی نہیں رہے گا مگر یہ کہ اس دن ان دونوں کے محتاج ہیں زیارت جامعہ کبیرہ میں پڑھتے ہیں اللّٰھم انّی لوجوجدت شفعاء اقرب الیک من محمد و اھل بیتہ الاخیار الائمة الابرار لجعلتھم شفعائی۔

خداوندا اگر محمد اور اھل بیت سے زیادہ کوئی اور تیرے زیادہ نزدیک ہوتے تو تیری درگاہ میں ان کو شفیع قرار دیتا واضح ہے حاجت قبول ہونے کے لئے خدا کی درگاہ میں وسیلہ قرار دینا چاہیئے چونکہ خدانے قرآن مجید میں اس کے بارے میں حکم دیا ہے کہ جہاں فرماتاہے وابتغوا الیہ الوسیلة اس کے ساتھ قرب حاصل کرنے کے لئے وسیلہ تلاش کرو اور کوئی وسیلہ بھی محمد و آل محمد سے زیادہ خدا کے نزدیک نہیں ہے متعدد روایات میں بیان ہوا ہے کہ کلام الہی میں وسیلہ سے مراد ائمہ طاہرین ہیں۔

یہ منافات نہیں رکھتا کہ وسیلہ سے مراد سیڑھی سے لیں چونکہ وہاں سیڑھی سے مراد ترقی کا وسیلہ ہے۔

ایک روایت میں حضرت رسول سے منقول ہے کہ حضرت نے فرمایا: ھم العروة الوثقیٰ والوسیلہ الی اللہ یعنی یہی اھل بیت محکم رسی اور خدا کی طرف وسیلہ ہیں اس کے بعد اس آیہ شریفہ کی تلاوت کی فرمایا: یا ایھاالذین آمنو اتقو اللہ و ابتغو الیہ الوسیلة یہ بھی احتمال ہے کہ ایمان اور تقویٰ کی صفت خدا تک وسیلہ کے لئے شرط ہو چونکہ وسیلہ ایمان اور تقویٰ کے بغیر فائدہ نہیں رکھتا اگر یہ دونوں اکٹھے موجود ہوں تب فائدہ دے گا چونکہ ولایت کا قبول کرنا ممکن نہیں ہے مگر ایمان اور تقویٰ کے ساتھ

پانچواں آداب دعا دعا سے پہلے اپنے گناہوں کا اعتراف کرے۔

ایک روایت امام صادق(علیہ السلام ) سے منقول ہے کہ حضرت نے فرمایا: انما ھی المدحة، ثم الاقرار بالذنب ثم المسالة، واللہ ما خرج عبد من ذنب الّا بالاقرار۔دعا میں سب سے پہلے خدا کی مدح و ثناء کرے اس کے بعد اپنے گناہوں کا اعتراف کرے پھر اس کے بعد اپنی حاجت مانگے۔

چھٹا آداب: دل سے غافل ہو کر دعا نہ مانگے بلکہ جب درگاہ الٰہی کی طرف متوجہ ہو تب دعا مانگے چنانچہ امام صادق نے فرمایا : ان اللہ لا یستجیب دعاء بظھر قلب ساہ فاذا دعوت فاقبل بقلبک ثم استیقن الا حاجبة۔ جو شخص بھی خدا سے غافل دل کے ساتھ دعا مانگتاہے اس کی دعا قبول نہیں ہوتی ہے جب دعا کرنا چاہو تو اپنے دل کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوجاؤ اس وقت یقینا تمہاری دعا قبول ہوگی۔ چونکہ جو بھی پراگندہ فکر کے ساتھ خدا کو پکارے وہ حقیقت میں دعا نہیں مانگتاہے اور دعا قبول نہیں ہوتی ہے صرف اس صورت میں دعا قبول ہوتی ہے جب توجہ قلبی کے ساتھ اللہ کو پکارے۔

ساتواں آداب: دعا کرنے والے کا لباس اور غذا پاکیزہ ہو اچھی دعا اس وقت ہے کہ جب عمل اچھا ہو اچھا عمل حرام کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتاہے قرآن میں فرماتاہے: یا ایھا الرسل کُلُو من الطیباتِ و اعمَلو صالحاً اے پیامبر پاک و پاکیزہ غذا کھالو اور نیک کام انجام دو اس آیہ شریفہ میں نیک عمل میں حلال اور پاکیزہ غذا لازم و ملزوم ہے پیغمبر خدا نے فرمایا من احبّ ان یستجاب دعاؤہ فلیطیب مطعمہ و مکسبہ جو چاہتاہے کہ اس کی دعا قبول ہوجائے تو وہ غذا اور اپنے کمائی کو پاک اور حلال قرار دے ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ طھّر ما کلک، و لا تدخل فی بطنک الھرام۔ اپنی غذا کو پاکیزہ قرار دو اور احرام مال کو اپنے شکم میں داخل نہ کرو ایک اور روایت میں آیا ہے اطب کسبک تستجاب دعوتک فان الرجل یرفع القمة الی فیہ حراماً فما تستجاب لہ اربعین یوماً ۔ اپنی کمائی کو پاکیزہ اور حلال قرار دو تا کہ تمہاری دعا مستجاب ہوجائے جب انسان ایک حرام لقمہ اپنے منہ میں ڈالتاہے تو اس کی دعا چالیس روز تک قبول نہیں ہوتی ہے۔ حدیث قدسی میں آیا ہے فمنک الدعاء و علیّ الاجابہة فلا تحجب عنّی دعوة آکل الحرام اے میرا بندہ تیری طرف سے دعا کرنا اور قبولیت میری طرف سے ہے کوئی بھی دعا مجھ سے پوشیدہ نہیں ہوتی ہے صرف اس شخص کی دعا کہ جس نے حرام کھایا ہو ہمارے مولا امام صادق(علیہ السلام ) نے فرمایا: من سرّہ ان یستجاب دعاؤہ فلیطیّب کسبہ جو شخص چاہتا ہو کہ اس کی دعا مستجاب ہوجائے اس کو چاہیئے کہ وہ اپنی کمائی کو پاکیزہ اور حلال قرار دے۔

ایک دوسری روایت میں فرمایا: اذا اراد اھدکم ان یستجاب لہ فلیطیب کسبہ و لیخرج من مظالم الناس و ان اللہ لا یرفع دعاء عبد وفی بطنہ ھرام، او عندہ مطلمة لاھد من خلقہ۔ تم میں سے جو شخص چاہے کہ اس کی دعا قبول ہو اس کو چاہیے کہ اس کی کمائی پاکیزہ اور حلال ہو اور خود لوگوں کے حقوق سے نجات حاصل کرلے چونکہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی دعا کو قبول نہیں کرتاہے کہ جس کے پیٹ میں حرام ہے یا لوگوں کا حق اس کے ذمہ میں ہے اس کی دعا اوپر نہیں جاتی ہے اور دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔

آٹھواں آداب: لوگوں کے حقوق جو اس کے ذمہ میں ہے اس کو ادا کرے حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام ) نے فرمایا :انّ اللہ عزوجل یقول و عزتی وجلالی لا اجیب دعوة مظلوم دعانی فی مطلمة ظلمھا و الاحد عندہ مثل تلک المظلمة اللہ ۔تعالیٰ فرماتاہے: میری عزت اور جلال کی قسم اس مظلوم کی دعا کہ جس پر ظلم ہوا ہو حالانکہ اس نے خود بھی کسی اور پر اس قسم کا ظلم کیا ہو اس کی دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔ حضرت امیرالمومنین نے فرمایا: انّ اللہ اوحی الی عیسیٰ بن مریم: قل للملاء من بنی اسرائیل ۔۔۔ انّی غیر مستجیب لاحد منکم دعوة و الاھد من خلقی قبلہ مظلمہ خدا نے عیسیٰ پر وحی کی بنی اسرائیل کے گروہ سے کہو جس کے پاس کسی کا حق موجود ہے میں اس کی دعا کو قبول نہیں کرتاہوں۔

نواں آداب: گناہ حاجت قبول کرنے کے لئے مانع ہے امام محمد باقر فرمایا: انّ العبد یسال الحاجة فیکون من شأنہ قجاوٴ ھا الی اجل قریب او الی وقت بطییٴ فیذنب العبد ذنباً فیقول اللہ تبارک و تعالیٰ للملک: لاتقضِ حاجتہ و احرمہ ایاھا فانّہ تعرّض لسخطی و استوجب الحرمان منّی بندہ خدا سے ایک حاجت مانگتاہے بندہ کی شان یہ ہے کہ اس کی حاجت جلد یا ایک مدت کے بعد قبول کی جائے لیکن بندہ گناہ کا مرتکب ہوجاتاہے تو اللہ ایک فرشتہ سے فرماتاہے اس کی حاجت قبول نہ کرو اور اس کو اس سے محروم کردو اس نے مجھ کو ناراض کیا ہے اور محروم ہونے کا سزاوار میری طرف سے ہوا ہے۔

دسواں آداب: اجابت دعا کے لئے حسن ظن رکھتاہو حسن ظن سے مراد طلب یقین ہے چونکہ خدا کی طرف سے وعدہ خلافی محال ہے اور آیہ کے مطابق ادعونی استجب لکم مجھے پکارو تا کہ میں تمہاری پکار کو قبول کرلوں خدا نے دعا مانگنے کا حکم دیا ہے اور دعا کے قبول کرنے کی ضمانت دی ہے پس اللہ وعدہ کلافی نہیں کرتاہے اسی طرح قرآن مجید میں فرمایا ہے: وعد اللہ لا یخلف اللہ وعدہ ولکنّ اکثر الناس لا یعلمون یہ اللہ کا وعدہ ہے اور خداوعدہ خلافی نہیں کرتاہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں خدا کس طرح وعدہ خلافی کرتاہے حالانکہ وہ بے نیاز مہربان اور رحیم ہے حدیث میں ہے۔ فاذا دعوت فاقبل بقلبک ثم استیقن الاجابة۔ جب دعا مانگنا چاہو تو اپنے دل کے ساتھ خدا کی طرف متوجہ ہوجاؤ اس کے بعد دعا کے قبول ہونے پر یقین رکھو۔

گیارھواں آداب دعا: اللہ حضور سے بار بار دعا مانگو علامہ مجلسی نے اس کو دعا کے آداب اور شرائط میں سے قرار دیا ہے اور فرمایا ہے آسمانی کتاب میں قرآن سے پہلے آیا ہے: لا تملّ من الدعاء فانی لااملّ من الاجابة دعا سے ملول اور تھک نہ جاوء چونکہ میں ملول اور تھکے ہوئے انسان کی دعا قبول نہیں کرتاہوں عبدالعزیز نے امام صادق سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا ان العبد اذا دعا لم یزل اللہ فی حاجتہ ما لم یستعجل جب بندہ دعا مانگتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کی حاجت کو قبول کرتاہے یہاں تک کہ جلدی نہ کرے یعنی دعا سے ہاتھ نہ اٹھائے اسی طرح حضرت سے روایت کی گئی ہے کہ فرمایا: انّ العبد اذا اعجّل فقام لحاجتہ یقول اللہ تعالیٰ استعجل عبدی أتراہ یظنّ اَنّ حوائجہ بید غیری جب بندہ حاجت روائی میں جلدی کرتاہے تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے میرا بندہ جلدی کرتاہے کیا وہ گمان کرتاہے کہ اس کی حاجت روائی میرے علاوہ کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا : انّ اللہ یحبّ السائل اللحوح۔ اللہ تعالیٰ دعا میں اصرار کرنے والے کو دوست رکھتاہے ولید بن عقبہ ھجری نے روایت کی ہے اور کہتاہے کہ امام محمد باقر سے سنا کہ فرماتے تھے: واللہ لا یلح عبد مومن علی اللہ فی حاجة الّاقضاھا لہ خدا کی قسم اللہ کا کوئی بندہ بھی اپنی حاجت اللہ سے مانگنے میں اصرار نہیں کرے گا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کی حاجت کو قبول کرتاہے ابو صباح نے امام صادق سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: ان اللہ کرہ الحاح الناس بعضہم علی بعض فی المسألة واحبّ ذالک لنفسہ انّ اللّہ یحبّ ان یسال و یطلب ما عندہ۔ خداوند تعالیٰ بعض لوگوں سے بعض کی حاجت روائی میں اصرار کو دوست نہیں رکھتا ہے اور یہ اصرار اپنے لئے دوست رکھتاہے اللہ دوست رکھتاہے کہ اس سے سوال کیا جائے اور جو اس کے پاس ہے خدا سے طلب کرے۔ احمد بن محمد بن ابونصر کہتاہے کہ میں نے امام رضا سے عرض کیا کہ میں آپ پر قربان ہوجاؤں میں نے کئی سال سے خدا سے ایک حاجت طلب کی ہے (اب تک میری حاجت قبول نہیں ہوئی) میری حاجت میں تاخیر ہونے کی وجہ سے میرے دل میں کچھ احساس ہوا ہے حضرت نے فرمایا: یا احمد ایاک و الشیطان ان یکون لہ علیک سبیل حتی یقضک ان ابا جعفر کان یقول: ان الموٴمن یسأل اللّٰہ حاجة فیوٴخّر عنہ تعجیل اجابتہ حبّاً لصوتہ واستماع نحیبہ۔ ثم قال: واللہ ما أخر اللّٰہ عن الموٴمنین ما یطلبون فی ھذہ الدّنیا خیر لھم ممّا عجّل لھم فیھا، و أیّ شیء الدنیا۔ اے احمد شیطان سے بچو اس چیز سے کہ کہیں تمہارے اوپر مسلط نہ ہو تا کہ تجھ کو رحمت الٰہی سے مایوس نہ کرے امام محمد باقر نے فرمایا یقینا ایک موٴمن مرد خدا سے ایک حاجت مانگتاہے پس اس کی حاجت قبول ہونے میں تاخیر ہوجاتی ہے وہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس کی آواز کو دوست رکھتاہے اللہ چاہتاہے کہ اس کے نالہ و فریاد کو سنے اس کے بعد فرمایا خدا کی قسم خدا اس کی حاجت کو اس دنیا میں تاخیر کرتاہے یہ بہتر ہے کہ اس کی حاجت قبول ہو پتہ چلے کہ دنیا کی کیا قدر و قیمت ہے۔ امام صادق نے فرمایا: انّ العبد الوالی للّٰہِ یدعو اللّٰہ فی الامر ینوبہ فیقال الملک الموکّل بہ اقضِ لعبدی حاجتہ ولا تعجلھا فانی اشتھی ان اسمع ندائہ و صوتہ و ان العبد العدواللہ لیدعواللہ فی الامر ینوبہ، فیقال للملک الموکل بہ: اقض لعبدی حاجتہ وعجلھا فانی أکرہ أن أسمع نداء ہ و صوتہ۔ قال: فیقول الناس: ما اُعطی ھذا الّاالکرامتہ، ومامنع ھذا الّا لھوانہ۔ وہ بندہ جو اللہ کو دوست رکھتاہے کسی امر میں ہمیشہ اللہ کو پکارتاہے پس کہا جاتاہے اس فرشتہ کے لئے کہ جو اس کام کے لئے مقرر ہے کہ میرے بندہ کی حاجت پوری کرلے لیکن اس میں جلدی نہ کرو میں اس کی آواز کو سننا چاہتاہوں اور بتحقیق وہ بندہ جو اللہ کا دشمن ہے جب وہ کسی معاملہ میں خدا کو پکارتاہے پس جو فرشتہ اس کام کے لئے مقرر ہے اس سے کہتاہے جلد از جلد اس کی حاجت کوپوری کرلے میں اس کی آواز کو سننا پسند کرتاہوں اس وقت حضرت نے فرمایا اس دوست کی کرامت کی وجہ سے حاجت قبول دیر سے ہوئی اور اس دشمنی کی حاجت اس کی آواز کو ناپسند کرنے کی وجہ سے جلدی قبول ہوئی پھر حضرت نے ایک دوسری روایت میں فرمایا: لایزال الموٴمن بخیر و رخا۷ و رحمة من اللہ ما لم یستعجل فیقنط فیترک الدعاء، قلت لہ: کیف یستعجل؟ قال: یقول: قددعوت منذکذا و کذا، ولا أری الاجابة۔مومن ہمیشہ رحمت الٰہی میں ہے جب تک جلدی نہ کرے اور پشیمان نہ ہوجائے اور ہاتھ دعا سے نہ اٹھائے میں نے عرض کیا وہ کس طرح جلدی کرتاہے فرمایا کہتاہے ایک مدت سے خدا کو پکارتاہوں لیکن دعاء کے قبول ہونے کے آثار نہیں دیکھتاہوں اسی طرح ایک اور کلام میں فرماتے ہیں: انّ المومن لیدعواللہ فی حاجتہ فیقول عزوجلّ: اُخروااجابتہ شوقاً الی صوتہ ودعاہ۔ فاذا کان یوم القیامة قال اللہ: عبدی دعوتنی و اخرت اجابتک و ثوابک کذا وکذا و دعوتنی فی کذا و کذا فاخرت اجابتک و ثوابک کذا۔ قال: فیتمنّی الموٴمن انّہ لم یستجب لہ دعوة فی الدّنیا ممّا یری من حسن الثواب۔ بتحقیق ایک مومن بندہ اپنی حاجت کے لئے اللہ کو پکارتاہے پس اللہ تعالیٰ کہتاہے کہ میں نے دعا کی اجابت کو تاخیر کیا اور تمہارا ثواب یہ ہے اے میرے بندہ تو نے مجھے فلاں فلاں کے بارے میں پکارا میں نے تمہاری اجابت کو تاخیر کیا اور تمہارا ثواب یہ ہے اس وقت موٴمن تمنا کرے گا کاش میری دعا دنیا میں قبول نہ ہوتی اس کے بدلے میں آخرت میں زیادہ اجر اور ثواب دیکھتا تھا اس کے بعد حضرت نے ایک دوسری حدیث میں فرمایا: قال رسول اللہ رحم اللہ عبداً طلب من اللّٰہ حاجة فالحّ فی الدنیا استجیب لہ اولم یستجب لہ و تلاھذہ الآیة وادعوا ربّی عسیٰ ان لا اکون بدعاء ربّی شقیاً رسول خدا نے فرمایا : اگر کوئی بندہ خدا سے حاجت مانگے اصرار کرے تو خواہ اس کی دعا قبول ہو یا نہ ہو خدا اس شخص کو بخش دیتاہے اس کے بعد حضرت نے یہ آیہ پڑھی میں اپنے پروردگار کو پکارتاہوں اس امید سے کہ اپنے رب کو پکارنے کی وجہ سے بدبخت نہ بنوں تو رات میں آیا ہے یا موسیٰ من احبتنی لم ینسنی، و من رجا معروفی ألحّ فی مسألتی۔ یا موسی ! انّی لست بغافل عن خلقی و لکن اُحبّ ان تسمع ملائکتی ضجیج الدّعاء من عبادی، و تری حفظتی تقرب بنی آدم الیَّ بما أنا مقوّبہم علیہ و مسبّبہ لھم۔ یا موسی! قل لبنی اسرائیل: لاتبطرنّکم النعمة فیعاجلکم السلب، ولاتغفلوا عن الشکر فیقارعکم الذلآ، وألحوا فی الدّعاء تشملکم الرحمة بالاجابة، و تھنئکم العافیة۔ اے موسیٰ جو مجھ کو دوست رکھے میں اس کو فراموش نہیں کرتاہوں اور جو بھی میری نیکی کی امید رکھتاہے وہ مجھ سے سوال کرنے میں اصرار کرتاہے اے موسیٰ میں اپنی مخلوق سے غافل نہیں ہوں لیکن میں چاہتاہوں کہ میرے بندوں کی دعا کے چیخ و پکار کو میرے ملائکہ سنیں۔ اور حافظان عرش کو بنی آدم کے تقرب ان کے اختیار میں دے دیا ہے ۔ دعا کے اسباب کو ان کے لئے فراہم کیا ہے اے موسیٰ بنی اسرائیل سے کہہ دیں کہ نعمت طغیان کا باعث اور تمہاری ناشکری کا سبب نہ بنے تا کہ نعمت کو تم سے سلب کروں اور لشکر سے غافل نہ ہوجاؤ تا کہ ذلت تمہاری دامن گیر نہ ہوجائے دعا میں اصرار کرو تا کہ اللہ کی رحمت تمہارے اوپر نازل ہوجائے عافیت اور سلامتی تمہارے لئے گوارا ہو۔ امام باقر نے فرمایا: لایلح عبد مومن علی اللہ فی حاجتہ الا قضاھا لہ۔ کوئی بندہ بھی اپنی حاجت میں خدا سے دعا کے ذریعے اصرار نہیں کرتاہے مگر یہ کہ اللہ اس کی حاجت کو قبول کرتاہے۔ منصور صیقل کہتاہے قلت لابی عبد اللہ ربّما دعا الرجل فاستجیب لہ ثم اخّر ذالک الای حین قال: فقال: نعم قلت ولِمَ ذالک لیزداد من الدعا قال: نعم میں نے امام جعفر صادق سے عرض کیا بسا اوقات ایک شخص دعا کرتاہے اس کی دعا قبول ہوجاتی ہے لیکن ایک مدت تک تاخیر ہوجاتی ہے کیا ایسا ہی ہے حضرت نے فرمایا ہاں ایسا ہی ہے میں نے عرض کیا کیوں تاخیر ہوجاتی ہے کیا اس لئے کہ زیادہ سے زیادہ دعا مانگے حضرت نے فرمایا ہاں ایسا ہی ہے اب تک جو کچھ بیان کیا گیا وہ دعا کے آداب اور شرائط کے بارے میں تھا اب یہ کہ بعض دعا کے آداب خاص اہمیت کے حامل ہیں اس کے بارے میں کچھ مطالب بیان کرتاہوں۔

ماہ رمضان کی راتوں کی نمازیں اور دنوں کی دعائیں

علامہ مجلسی (علیہ الرحمہ) نے زاد المعاد کی آخری فصل میں ماہ رمضان کی راتوں کی نماز اور دنوں کی خاص دعاؤں کا ذکر کیا ہے ۔یہاں ہم انہی بزگوار کے فرمودات نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔


پہلی رات کی نماز: یہ چار رکعت ہے جسکی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد پندرہ مرتبہ سورۃ توحید پڑھے:


دوسری رات کی نماز: یہ چار رکعت ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعدبیس مرتبہ سورۃ قدر پڑھے:


تیسری رکعت کی نماز: یہ دس رکعت ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعدپچاس مرتبہ سورۃ توحید پڑھے:


چوتھی رات کی نماز: یہ آٹھ رکعت ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعدبیس مرتبہ سورۃ قدر پڑھے:


پانچویں رات کی نماز: یہ دو رکعت ہے جسکی ہر رکعت میں الحمد کے بعد پچاس مرتبہ سورۃ توحید اور سلام کے بعد سو مرتبہ صلوات پڑھے:


چھٹی رات کی نماز: یہ چار رکعت نماز ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد سورۃ ملک پڑھے:


ساتویں رات کی نماز: یہ چار رکعت ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد تیرہ مرتبہ سورۃ قدر پڑھے:


آٹھویں رات کی نماز: یہ دو رکعت ہے جسکی ہر رکعت میں الحمد کے بعد دس مرتبہ سورۃ توحید پڑھے اور سلام کے بعدہزار مرتبہ سُبْحَانَ اللهُ کہے:


نویں رات کی نماز: یہ مغرب و عشا کے درمیان چھ رکعت ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعدسات مرتبہ آیة الکرسی اور سلام کے بعد پچاس مرتبہ صلوات پڑھے :


دسویں رات کی نماز: یہ بیس رکعت ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد تیس مرتبہ سور ہ توحید پڑھے:


گیارہویں رات کی نماز: یہ دو رکعت ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد بیس مرتبہ سورۃ کوثر پڑھے:


بارہویں رات کی نماز: یہ آٹھ رکعت ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد تیس مرتبہ سورۃ قدر پڑھے:


تیرہویں رات کی نماز: یہ چار رکعت ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد پچیس مرتبہ سورۃ توحید پڑھے:


چودہویں رات کی نماز: یہ چھ رکعت ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد تیس مرتبہ سورۃ زلزال پڑھے:


پندرہویں رات کی نماز: یہ چار رکعت ہے جس کی پہلی دو رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد سو مرتبہ سورۃ توحید پڑھے اور دوسری دو رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد پچاس پچاس مرتبہ سورۃ توحید پڑھے:


سولہویں رات کی نماز: یہ بارہ رکعت ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد بارہ مرتبہ سورۃ تکاثر پڑھے:


سترہویں رات کی نماز: یہ دو رکعت ہے جس کی پہلی رکعت میں سورۃ الحمد کے بعدکوئی ایک سورۃ اور دوسری رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد سو مرتبہ سورۃ توحید پڑھے اور سلام کے بعد سو مرتبہ لا الہ الا الله کہے:


اٹھارہویں رات کی نماز: یہ چار رکعت ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد پچیس مرتبہ سورۃ کوثر پڑھے:


انیسویں رات کی نماز: یہ پچاس رکعت ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد پچاس مرتبہ سورۃ زلزال پڑھے تاہم ظاہراً اس سے مراد یہ ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد ایک مرتبہ سورۃ زلزال پڑھے کیونکہ ایک رات میں پچیس سو مرتبہ سورۃ زلزال پڑھنا بہت مشکل ہے :


بیسویں، اکیسویں، بائیسویں، تئیسویں اور چوبیسویں رات کی نماز: ان راتوں میں سے ہر ایک میں آٹھ رکعت نماز ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد جو سورۃ چاہے پڑھے:


پچیسویں رات کی نماز:یہ آٹھ رکعت ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعددس مرتبہ سورۃ توحید پڑھے:


چھبیسویں رات کی نماز: یہ آٹھ رکعت ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد سو مرتبہ سورۃ توحید پڑھے:


ستائیسویں رات کی نماز: یہ چار رکعت ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد سورۃ ملک پڑھے اگر یہ نہ ہوسکے تو پچیس مرتبہ سورۃ توحید پڑھے:


اٹھائیسویں رات کی نماز: یہ چھ رکعت ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد سو مرتبہ آیة الکرسی ، سو مرتبہ سورۃ توحید اور سو مرتبہ سورۃ کوثر پڑھے اور بعد از نماز سو مرتبہ صلوات پڑھے:


مؤلف کہتے ہیں کہ میری دانست میں اٹھائیسویں رات کی نماز چھ رکعت ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد دس مرتبہ آیة الکرسی ۔ دس مرتبہ سورۃ کوثر اور دس مرتبہ سورۃ توحید پڑھے اور نماز کے بعدسو مرتبہ پر محمد و آل محمد پر صلوات بھیجے:


انتیسویں رات کی نماز: یہ دو رکعت ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد بیس مرتبہ سورۃ توحید پڑھے:


تیسویں رات کی نماز: یہ بارہ رکعت ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد بیس مرتبہ سورۃ توحید پڑھے اور بعد از نماز سو مرتبہ صلوات پڑھے:واضح رہے کہ یہ سب نمازیں دو، دو رکعت کر کے ایک تشہد و سلام کیساتھ پڑھی جاتی ہیں

رمضان المبارک بقیہ راتوں کے اعمال

بائیسویں شب کی دعا:


یَا سالِخَ النَّہارِ مِنَ اللَّیْلِ فَإِذا نَحْنُ مُظْلِمُونَ وَمُجْرِیَ الشَّمْسِ لِمُسْتَقَرِّ



اے وہ جودن کو رات پر سے کھینچ لے جاتا ہے تو ہم تاریکی میں گھر جاتے ہیں اور اپنے اندازے سے سورج کو


ہا بِتَقْدِیرِکَ یَا عَزِیزُ یَا عَلِیمُ وَمُقَدِّرَ الْقَمَرِ مَنازِلَ حَتّی عادَ کَالْعُرْجُونِ الْقَدِیمِ، یَا نُورَ کُلِّ



اسکے راستے پر چلاتا ہے اے زبردست اور اے دانا تو نے چاند کی منزلیں ٹھہرائیں کہ وہ گھٹتے گھٹتے کھجور کی پرانی سوکھی شاخ جیسا رہ



نُورٍ،وَمُنْتَہیٰ کُلِّ رَغْبَةٍ، وَوَلِیَّ کُلِّ نِعْمَةٍ، یَا اللهُ یَا رَحْمٰنُ، یَااللهُ یَا قُدُّوسُ، یَا أَحَدُ یَا واحِدُ یَا



جاتا ہے، اے ہر شی کی نورانیت کا نور، اے ہر چاہت کے مرکز ومحور اور ہر نعمت کے مالک اے الله، اے رحمن، اے الله، اے پاکیزہ، اے یکتا،



فَرْدُ یَااللهُ یَا اللهُ یَا اللهُ لَکَ الْاَسْماءُ الْحُسْنی وَالْاَمْثالُ الْعُلْیا وَالْکِبْرِیاءُ وَالْاَلاءُ، أَسْأَ لُکَ



اے یگانہ ،اے تنہا ، اے الله، اے الله، اے الله، تیرے ہی لیے اچھے اچھے نام ہیں اور بلند ترین نمونے اور تیرے ہی لیے ہیں بڑائیاں اور مہربانیاں ہیں تجھ



أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَأَھْلِ بَیْتِہِ وَأَنْ تَجْعَلَ اسْمِی فِی ہذِھِ اللَّیْلَةِ فِی السُّعَداءِ وَرُوحِی مَعَ



سے سوال کرتا ہوں کہ محمد اور ان کے اہلبیت(ع) پر رحمت نازل فرما اور یہ کہ آج کی رات میں میرا نام نیکوکاروں میں لکھ دے، میری روح کو شہیدوں کیساتھ


الشُّھَداءِ وَ إِحْسانِی فِی عِلِّیِّینَ وَإِسائَتِی مَغْفُورَةً وَأَنْ تَھَبَ لِی یَقِیناً تُباشِرُ بِہِ قَلْبِی وَإِیماناً



قرار دے، میری اطاعت کومقام علیین میں پہنچا اور میری برائی کو معاف شدہ قرار دے اور یہ کہ مجھے وہ یقین عطا کر جومیرے دل میں بسا رہے اور وہ ایمان


یُذْھِبُ الشَّکَّ عَنِّی، وَتُرْضِیَنِی بِما قَسَمْتَ لِی، وَآتِنا فِی الدُّنْیا حَسَنَةً، وَفِی الْاَخِرَةِ حَسَنَةً،



دے جو شک کو مجھ سے دور کردے اور مجھے راضی بنا اس پر جو حصہ تو نے مجھے دیا اور ہمیں دنیا میں بہترین زندگی دے آخرت میں خوش ترین اجر عطا کر اور


وَقِنا عَذابَ النَّارِ الْحَرِیقِ، وَارْزُقْنِی فِیہا ذِکْرَکَ وَشُکْرَکَ، وَالرَّغْبَةَ إِلَیْکَ، وَالْاِنابَةَ وَ



ہمیں جلانے والی آگ کے عذاب سے بچا اور اس ماہ میں مجھے ہمت دے کہ تجھے یاد کروں تیرا شکر بجا لاؤں تیری طرف توجہ رکھوں اور تیرے حضور توبہ



التَّوْفِیقَ لِما وَفَّقْتَ لَہُ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّدٍ عَلَیْھِمُ اَلسَّلاَمُ ۔



کروں اور مجھے توفیق دے اس عمل کی جس کی توفیق تو نے محمد وآل محمد کو دی ان سب پر سلام ہو


رمضان کی تیئسویں شب کی دعا یہ ہے:



یَا رَبَّ لَیْلَةِ الْقَدْرِ وَجاعِلَہا خَیْراً مِنْ أَ لْفِ شَھْرٍ وَرَبَّ اللَّیْلِ



اے شب قدر کے پروردگار اور اس کو ہزار مہینوں سے بہتر قرار دینے والے اے رات اور


وَالنَّہارِ وَالْجِبالِ وَالْبِحارِ وَالظُّلَمِ وَالْاَ نْوارِ وَالْاَرْضِ وَالسَّماءِ یَا بارِیٴُ یَا مُصَوِّرُ یَا حَنَّانُ یَا



دن کے رب اے پہاڑوں اور دریاؤں، تاریکیوں اور روشنیوں و زمین اور آسمان کے رب ایپیدا کرنے والے ،اے صورتگر، اے محبت والے، اے احسان



مَنَّانُ، یَااللهُ یَا رَحْمٰنُ یَااللهُ یَا قَیُّومُ یَااللهُ یَا بَدِیعُ، یَااللهُ یَااللهُ یَااللّہُ،لَکَ الْاَسْماءُ الْحُسْنیٰ،



والے، اے الله، اے رحمن ،اے الله، اے نگہبان ،اے الله اے پیدا کرنے والے، اے الله، اے الله، اے الله، تیرے ہی لیے ہیں اچھے اچھے نام، بلند


وَالْاَمْثالُ الْعُلْیا،وَالْکِبْرِیاءُ وَالْاَلاءُ، أَسْأَ لُکَ أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَنْ تَجْعَلَ



ترین نمونے،اور بڑائیاں اور مہربانیاں تیرے لیے ہیں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ محمد وآل محمد پر رحمت نازل فرما اور یہ کہ آج کی رات میں میرا نام نیکوکاروں



اسْمِی فِی ہذِھِ اللَّیْلَةِ فِی السُّعَداءِ، وَرُوحِی مَعَ الشُّھَداءِ، وَ إِحْسانِی فِی عِلِّیِّینَ، وَ إِسائَتِی



میں قرار دے، میری روح کو شہیدوں کیساتھ قرار دے، میری اطاعت کو مقام علیین میں پہنچا اور میری برائی کو معاف شدہ قرار دے اور یہ کہ مجھے وہ یقین


مَغْفُورَةً وَأَنْ تَھَبَ لِی یَقِیناً تُباشِرُبِہِ قَلْبِی وَإِیماناً یُذْھِبُ الشَّکَّ عَنِّی وَتُرْضِیَنِی بِما قَسَمْتَ



دے جو میرے دل میں بسا رہے اور وہ ایمان دے جو شک کو مجھ سے دور کردے اور مجھے راضی بنا اس پر جو حصہ تو نے مجھے دیا اور ہمیں دنیا میں بہترین


لِی،وَآتِنا فِی الدُّنْیا حَسَنَةً،وَفِی الْاَخِرَةِ حَسَنَةً،وَقِنا عَذابَ النَّارِالْحَرِیقِ،وَارْزُقْنِی فِیہا ذِکْرَکَ وَ



زندگی دے، آخرت میں خوش ترین اجر عطا کر اور ہمیں جلانے والی آگ کے عذاب سے بچا اور اس ماہ میں مجھے ہمت دے کہ تجھے یادکروں، تیرا شکر بجا


شُکْرَکَ وَالرَّغْبَةَ إِلَیْکَ وَالْاِنابَةَ وَالتَّوْبَةَ وَالتَّوْفِیقَ لِما وَفَّقْتَ لَہُ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّدٍ عَلَیْھِمُ اَلسَّلاَمُ



لاؤں، تیری طرف توجہ رکھوں، تیری طرف پلٹوں اور توبہ کروں اور مجھے اس عمل کی توفیق دے جس کی توفیق تو نے محمد وآل محمد کو دی کہ ان سب پر سلام ہو۔



محمد بن عیسٰی نے اپنی سند کے ساتھ صالحین سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: تئیسویں رمضان کی رات: اس دعا کو قیام و قعود اور رکوع وسجود میں نیز ہر حال میں بار بارپڑھے اور پھر اپنی زندگی میں جب بھی یہ دعا یادآئے تو پڑھتا رہے پس حق تعالیٰ کی بزرگی بیان کرنے اور حضرت نبی اکرم ﷺ پردرود وسلام بھیجنے کے بعد کہے:


اَلَّلھُمَّ کُنْ لِّوَلِیِّکَ فلان بن فلان



اورفلان بن فلان کی بجائے کہے:



الْحُجَّةِ بنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ



اے معبود ! محافظ بن جا اپنے ولی حجت القائم (ع) بن حسن(ع) کاتیری رحمت نازل ہو ان پر اور ان کے آباؤ اجداد پر اس



عَلَیْہِ وَعَلَی آبائِہِ فِی ہذِھِ السَّاعَةِ وَفی کُلِّ ساعَةٍ وَلِیّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَلِیلاً وَعَیْناً



لمحہ میں اور ہر آنے والے لمحہ میں، ان کا مددگاربن جا نگہبان پیشوا، حامی، راہنما اور نگہدار بن جا یہاں تک کہ تو لوگوں کی چاہت سے انہیں زمین کی حکومت


حَتَّی تُسْکِنَہُ أَرْضَکَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَہُ فِیھا طَوِیلاً



دے اور مدتوں اس پر برقرار رکھے



پھر یہ کہے :



یَا مُدَبِّرَ الْاَمُورِ،یَا باعِثَ مَنْ فِی القُبُورِ،



اے کاموں کو منظم کرنے والے، اے قبروں سے اٹھا کھڑا کرنے والے، اے دریاؤں کو رواں


یَا مُجْرِیَ البُحُورِ، یَا مُلَیِّنَ الحَدِیدِ لِداوُدَ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلَ مُحَمَّدٍ وَافْعَلَ بِی کَذا وَکَذا



کرنے والے، اے داؤد (ع)کے لیے لوہے کو موم بنانے والے، محمد وآل محمد پررحمت نازل فرما اور کر دے میرے لیے یہ اور یہ میرے لیے ایسے ایسے کر دے


ان الفاظ کی بجائے اپنی حاجتیں طلب کرے: اَللَّیْلَةُ اَللَّیْلَةُ ( اسی رات اسی رات ) اپنے ہاتھ بلند کرے اور کہے:



یَا مُدَبِّرَ الْاَمُورِ


اے کاموں کو منظم کرنے والے ۔


اس دعا کو رکوع سجود، قیام اور قعود میں باربار پڑھے علاوہ از ایں اسکو ماہ رمضان کی آخری رات میں بھی پڑھے:

چوبیسویں شب کی دعا:


یَا فالِقَ الْاِصْباحِ وَجاعِلَ اللَّیْلِ سَکَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً، یَاعَزِیزُ



اے صبح کی سفیدی کو ظاہر کرنے، والے اے رات کو وقت آرام بنانے والے اور سورج اور چاند کو رواں کرنے والے اے



یَا عَلِیمُ یَا ذَا الْمَنِّ وَالطَّوْلِ وَالْقُوَّةِ وَالْحَوْلِ وَالْفَضْلِ وَالْاِنْعامِ وَالْجَلالِ وَالْاِکْرامِ، یَا اللهُ



زبردست، اے دانا، اے احسان ونعمت والے ، اے قوت وحرکت کے مالک، اے مہربانی وعطا کرنے والے، اے جلالت



یَا رَحْمنُ یَا اللهُ یَا فَرْدُ یَا وِتْرُ یَا اللهُ یَا ظاھِرُ یَا باطِنُ، یَا حَیُّ لاَإِلہَ إِلاَّ أَ نْتَ لَکَ الْاَسْماءُ الْحُسْنی،



اور بزرگی والے ، اے الله ،اے رحمن، اے الله، اے تنہا ، اے یکتا، اے الله، اے ظاہر اے باطن ،اے زندہ ، کہ صرف



وَالْاَمْثالُ الْعُلْیا، وَالْکِبْرِیاءُ وَالْاَلاءُ، أَسْأَ لُکَ أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَأَنْ تَجْعَلَ



تو ہی معبود ہے تیرے لیے اچھے اچھے نام، بلند ترین نمونے اور بڑائیاں اور مہربانیاں ہیں سوال کرتا ہوں تجھ سے کہ محمد وآل محمد پر رحمت نازل فرما اور یہ


اسْمِی فِی ہذِھِ اللَّیْلَةِ فِی السُّعَداءِ وَرُوحِی مَعَ الشُّھَداءِ، وَ إِحْسانِی فِی عِلِّیِّینَ، وَ إِسائَتِی



کہ آج کی رات میں میرا نام نیکوکاروں کے زمرے میں شمار کر میری روح کو شہیدوں کے ساتھ قرار دے میری اطاعت کو مقام علیین میں پہنچا اور میری



مَغْفُورَةً، وَأَنْ تَھَبَ لِی یَقِیناً تُباشِرُ بِہِ قَلْبِی، وَإِیماناً یَذْھَبُ بِالشَّکِّ عَنِّی، وَرِضیً بِماقَسَمْتَ



برائی کو معاف شدہ قرار دے اور یہ کہ مجھے وہ یقین دے جو میرے دل میں بسار ہے اور وہ ایمان دے جو شک کو مجھ سے دور کردے اور مجھے اس پر راضی بنا جو



لِی، وَآتِنافِی الدُّنْیا حَسَنَةً، وَفِی الاَْخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنا عَذابَ النَّارِ الْحَرِیقِ، وَارْزُقْنِی فِیہا



حصہ تو نے مجھے دیا ہے اور ہمیں دنیا میں بہترین زندگی دے آخرت میں خوش ترین اجر عطا کر اور ہمیں جلانے والی آگ کے عذاب سے بچا اور اس ماہ میں


ذِکْرَکَ وَشُکْرَکَ وَالرَّغْبَةَ إِلَیْکَ وَالْاِنابَةَ وَالتَّوْبَةَ وَالتَّوْفِیقَ لِما وَفَّقْتَ لَہُ مُحَمَّداً وَآلَ



مجھے ہمت دے کہ تجھے یادکروں، تیرا شکر بجا لاؤں، تیری طرف توجہ رکھوں،تیری طرف پلٹوں اور توبہ کروں اور مجھے اس عمل کی توفیق دے جسکی توفیق تو نے



مُحَمَّدٍ صَلَواتُکَ عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ ۔



محمد وآل محمد کو دی کہ تیری رحمت ہو آنحضرت اور ان کی ساری آل(ع) پر۔


پچیسویں شب کی دعا:یَا جاعِلَ اللَّیْلِ لِباساً وَالنَّہارِ مَعاشاً، وَالْاَرْضِ مِہاداً، وَالْجِبالِ أَوْتاداً یَا اللهُ



اے رات کو بنانے والے پردہ اور دن کو وقت کاروبار، زمین کو جائے آرام اور پہاڑوں کو میخیں اے الله ،اے غالب،


یَاقاھِرُ، یَااللهُ یَاجَبّارُ، یَااللهُ یَاسَمِیعُ، یَااللهُ یَاقَرِیبُ،یَااللهُ یَامُجِیبُ، یَا اللهُ یَا اللهُ یَا اللّہُ، لَکَ



اے الله، اے دبدبہ والے، اے الله، اے سننے والے، اے الله، اے نزدیک تر، اے الله، اے قبول کرنے والے، اے الله، اے الله، اے الله


الْاَسْماءُ الْحُسْنی ، وَالْاَمْثالُ الْعُلْیا، وَالْکِبْرِیاءُ وَالْاَلاءُ، أَسْأَ لُکَ أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ



تیرے لیے اچھے اچھے نام، بلند ترین نمونے اور بڑائیاں اور مہربانیاں ہیں سوال کرتا ہوں تجھ سے کہ محمد وآل محمد پر رحمت نازل فرما


مُحَمَّدٍ،وَأَنْ تَجْعَلَ اسْمِی فِی ہذِھِ اللَّیْلَةِ فِی السُّعَداءِ وَرُوحِی مَعَ الشُّھَداءِ وَ إِحْسانِی فِی



اور یہ کہ آج کی رات میں میرا نام نیکوکاروں کے زمرے میں شمار کر میری روح کو شہیدوں کیساتھ قرار دے میری اطاعت کو مقام علیین میں پہنچا اور میری


عِلِّیِّینَ وَ إِسائَتِی مَغْفُورَةً وَأَنْ تَھَبَ لِی یَقِیناً تُباشِرُ بِہِ قَلْبِی، وَإِیماناً یُذْھِبُ الشَّکَّ عَنِّی، وَرِضیً



برائی کو معاف شدہ قرار دے اور یہ کہ مجھے وہ یقین دے جو میرے دل میں بسار ہے اور وہ ایمان دے جو شک کو مجھ سے دور کردے اور مجھے اس پر راضی


بِما قَسَمْتَ لِی وَآتِنا فِی الدُّنْیا حَسَنَةً وَفِی الاَْخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنا عَذابَ النَّارِ الْحَرِیقِ



بنا جو حصہ تو نے مجھے دیا ہے اور ہمیں دنیا میں بہترین زندگی دے آخرت میں خوش ترین اجر عطا کر اور ہمیں جلانے والی آگ کے عذاب سے بچا اور اس



وَارْزُقْنِی فِیہا ذِکْرَکَ وَشُکْرَکَ وَالرَّغْبَةَ إِلَیْکَ وَالْاِنابَةَ وَالتَّوْبَةَ وَالتَّوْفِیقَ



ماہ میں مجھے ہمت دے کہ تجھے یادکروں، تیرا شکر بجا لاؤں، تیری طرف توجہ رکھوں، تیری طرف پلٹوں اور توبہ کروں اور مجھے اس عمل کی توفیق دے جس


لِما وَفَّقْتَ لَہُ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّدٍ عَلَیْھِمُ اَلسَّلاَمُ ۔



کی توفیق تو نے محمد وآل محمد کودی کہ تیری رحمت ہو آنحضرت اور ان کی ساری آل(ع) پر

رمضان کی چھبیسویں رات کی دعاء:


یَا جاعِلَ اللَّیْلِ وَالنَّہارِ آیَتَیْنِ، یَا مَنْ مَحا آیَةَ اللَّیْلِ وَجَعَلَ آیَةَ



اے رات اور دن کو اپنی نشانیاں بنانیوالے ،اے رات کی نشانی کو تاریک اور دن کی نشانی کو روشن بنانے


النَّہارِ مُبْصِرَةً لِتَبْتَغُوا فَضْلاً مِنْہُ وَرِضْواناً یَا مُفَصِّلَ کُلِّ شَیْءٍ تَفْصِیلاً یَا مَاجِدُ یَا وَہَّابُ یَا للهُ



والے تاکہ لوگ اس میں تیرے فضل اور خوشنودی کو تلاش کریں اے ہر چیز کی حد اور فرق مقرر کرنے والیاے شان والے، اے بہت دینے والے،



یَاجَوادُ، یَااللهُ یَااللهُ یَااللهُ،لَکَ الْاَسْماءُ الْحُسْنی،وَالْاَمْثالُ الْعُلْیا،وَالْکِبْرِیاءُ وَالْاَلاءُ،أَسْأَلُکَ



اے اللہ ، اے عطا کرنے والے، اے اللہ، اے الله ،اے الله، تیرے لیے اچھے اچھے نام،بلند ترین نمونے اور بڑائیاں اور مہربانیاں ہیں



أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَأَنْ تَجْعَلَ اسْمِی فِی ہذِھِ اللَّیْلَةِ فِی السُّعَداءِ، وَرُوحِی



سوال کرتا ہوں تجھ سے کہ محمد وآل محمد پر رحمت نازل فرما اور یہ کہ آج کی رات میں میرا نام نیکوکاروں کے زمرے میں شمار کر، میری روح کو شہیدوں کیساتھ



مَعَ الشُّھَداءِ، وَ إِحْسانِی فِی عِلِّیِّینَ وَ إِسائَتِی مَغْفُورَةً، وَأَنْ تَھَبَ لِی یَقِیناً تُباشِرُ بِہِ قَلْبِی،وَ



قرار دے میری اطاعت کو مقام علیین میں پہنچا اور برائی کو معاف شدہ قرار دے اور یہ کہ مجھے یقین دے جومیرے دل میں بس جائے اور وہ ایمان دے


إِیماناً یُذْھِبُ الشَّکَّ عَنِّی وَتُرْضِیَنِی بِما قَسَمْتَ لِی، وَآتِنا فِی الدُّنْیا حَسَنَةً، وَفِی الْاَخِرَةِ



جو شک کو مجھ سے دور کردے اور مجھے اس پر راضی بنا جو حصہ تو نے مجھے دیا اور ہمیں دنیا میں بہترین زندگی دے آخرت میں خوش ترین اجر عطا کر اور ہمیں


حَسَنَةً، وَقِنا عَذابَ النّارِ الْحَرِیقِ، وَارْزُقْنِی فِیہا ذِکْرَکَ وَشُکْرَکَ وَالرَّغْبَةَ إِلَیْکَ وَالْاِنابَةَ



جلانے والی آگ کے عذاب سے بچا اور اس ماہ میں مجھے ہمت دے کہ تجھے یادکروں، تیرا شکر بجا لاؤں تیری طرف توجہ لگائے رکھوں، تیری طرف پلٹوں



وَالتَّوْبَةَ وَالتَّوْفِیقَ لِما وَفَّقْتَ لَہُ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ ۔



اور توبہ کروں اور مجھے اس عمل کی توفیق دے جس کی توفیق تو نے محمد وآل محمد کو دی کہ خدا آنحضرت اور ان کی آل پر رحمت کرے


رمضان کی ستائیسویں رات کی دعاء:


یَا مادَّ الظِّلِّ وَلَوْ شِئْتَ لَجَعَلْتَہُ ساکِناً وَجَعَلْتَ الشَّمْسَ عَلَیْہِ



اے سایہ کو پھیلانے والے اور اگر تو چاہتا تو اس کو ایک جگہ ٹھہرادیتا تو نے سورج کو سایہ کے لیے رہنما قرار دیا اور پھر


دَلِیلاً ثُمَّ قَبَضْتَہُ إِلَیْکَ قَبْضاً یَسِیراً، یَا ذَا الْجُودِ وَالطَّوْلِ وَالْکِبْرِیاءِ وَالاَْلاءِ لاَ إِلہَ إِلاَّ أَ نْتَ عالِمُ



اسے قابو میں کیا، تو آسانی سے قابو کیا اے سخاوت وعطا والے اور بڑائیوں اور نعمتوں والے تیرے سوا کوئی معبود نہیں جو کہ ظاہر و باطن باتوں کا جاننے والا،



الْغَیْبِ وَالشَّہادَةِ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیمُ، لاَ إِلہَ إِلاَّأَنْتَ یَا قُدُّوسُ یَا سَلامُ یَا مُؤْمِنُ یَا مُھَیْمِنُ یَا



بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے تیرے سواء کوئی معبود نہیں اے پاک ترین، اے سلامتی والے، اے امن دینے والے، اے نگہدار، اے زبردست ،اے



عَزِیزُ یَا جَبَّارُیَا مُتَکَبِّرُ یَا اللهُ یَا خالِقُ یَا بارِیٴُ یَا مُصَوِّرُ، یَا اللهُ یَا اللهُ یَا اللهُ، لَکَ الْاَسْماءُ



غلبہ والے، اے بڑائی والے، اے الله، اے خلق کرنے والے، اے پیدا کرنے والے، اے صورت بنانے والے، اے الله، اے الله، اے الله، تیرے


الْحُسْنیٰ وَالْاَمْثالُ الْعُلْیا، وَالْکِبْرِیاءُ وَالْاَلاءُ، أَسْأَ لُکَ أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ،



لیے اچھے اچھے نام، بلند ترین نمونے اور بڑائیاں اور مہربانیاں ہیں سوال کرتا ہوں تجھ سے کہ محمد وآل محمد پر رحمت نازل فرما اور



وَأَنْ تَجْعَلَ اسْمِی فِی ہذِھِ اللَّیْلَةِ فِی السُّعَداءِ، وَرُوحِی مَعَ الشُّھَداءِ، وَ إِحْسانِی فِی عِلِّیِّینَ،



یہ کہ آج کی رات میں مجھے نیکوکاروں کے زمرے میں شمار کر اورمیری روح کو شہیدوں کیساتھ قرار دے، میری اطاعت کو مقام علیین میں پہنچا اور میری


وَإِسائَتِی مَغْفُورَةً، وَأَنْ تَھَبَ لِی یَقِیناً تُباشِرُ بِہِ قَلْبِی،وَإِیماناً یُذْھِبُ الشَّکَّ عَنِّی، وَتُرْضِیَنِی بِما



برائی کو معاف شدہ قرار دے اور یہ کہ مجھے وہ یقین عطا کر جو میرے دل میں بس جائے اور وہ ایمان دے جو شک کو مجھ سے دور کردے اور مجھے اس پر راضی



قَسَمْتَ لِی،وَآتِنا فِی الدُّنْیا حَسَنَةً،وَفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنا عَذابَ النَّارِ الْحَرِیقِ، وَارْزُقْنِی



بنا جو حصہ تو نے مجھے دیا اور ہمیں دنیا میں بہترین زندگی دے آخرت میں خوش ترین اجر عطا کر اور ہمیں جلانے والی آگ کے عذاب سے بچا اور اس ماہ میں



فِیہا ذِکْرَکَ وَشُکْرَکَ وَالرَّغْبَةَ إِلَیْکَ وَالْاِنابَةَ وَالتَّوْبَةَ وَالتَّوْفِیقَ لِما وَفَّقْتَ لَہُ مُحَمَّداً



مجھے ہمت دے کہ تجھے یادکروں، تیرا شکر بجا لاؤں، تیری طرف توجہ رکھوں، تیری طرف پلٹوں اور توبہ کروں اور مجھے اس عمل کی توفیق دے جسکی توفیق تو نے



وَآلَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ ۔



محمد وآل محمد کو دی کہ خدا کی رحمت ہو آنحضرت اور ان کی آل (ع)پر

اٹھائیسویں شب کی دعاء:


یَا خازِنَ اللَّیْلِ فِی الْھَواءِ، وَخازِنَ النُّورِ فِی السَّماءِ، وَمَانِعَ السَّماءِ أَنْ



اے رات کو ہوا میں جگہ دینے والے ،اے روشنی کو آسمان میں جگہ دینے والے اور آسمان کو روکنے والے کہ وہ زمین پر نہ آ


تَقَعَ عَلَی الْاَرْضِ إِلاَّ بِإِذْنِہِ وَحابِسَھُما أَنْ تَزُولا،یَاعَلِیمُ یَاعَظِیمُ یَاغَفُورُ یَادائِمُ یَا اللهُ یَاوارِثُ



پڑے لیکن اس کے حکم سے اور ان دونوں کے نگہدار کہ ٹوٹ نہ جائیں اے جاننے والے اے عظمت والے، اے بہت بخشنے والے، اے ہمیشگی والے


یَاباعِثَ مَنْ فِی الْقُبُورِ،یَااللهُ یَااللهُ یَااللهُ، لَکَ الْاَسْماءُ الْحُسْنی، وَالْاَمْثالُ الْعُلْیا،وَالْکِبْرِیاءُ



،اے الله، اے ورثہ والے، اے قبروں سے اٹھا کھڑا کرنے والے ، اے الله ،اے الله، اے الله تیرے لیے اچھے اچھے نام بلند ترین نمونے اور بڑائیاں اور


وَالْاَلاءُ أَسْأَلُکَ أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَأَنْ تَجْعَلَ اسْمِی فِی ہذِھِ اللَّیْلَةِ فِی



مہربانیاں ہیں سوال کرتا ہوں تجھ سے کہ محمد وآل محمد پر رحمت نازل فرما اور یہ کہ آج کی رات میں مجھے نیکوکاروں کے زمرے میں شمار کر میری


السُّعَداءِ، وَرُوحِی مَعَ الشُّھَداءِ، وَ إِحْسانِی فِی عِلِّیِّینَ، وَ إِسائَتِی مَغْفُورَةً، وَأَنْ تَھَبَ لِی یَقِیناً



روح کو شہیدوں کے ساتھ قرار دے، میری اطاعت کو مقام علیین میں پہنچا اور میری برائی کو معاف شدہ قرار دے اور یہ کہ مجھے وہ یقین دے جو میرے دل


تُباشِرُ بِہِ قَلْبِی، وَ إِیماناً یُذْھِبُ الشَّکَّ عَنِّی، وَتُرْضِیَنِی بِما قَسَمْتَ لِی، وَآتِنا فِی الدُّنْیا



میں بسار ہے اور وہ ایمان دے جو شک کو مجھ سے دور کردے اور مجھے اس پر راضی بنا جو حصہ تو نے مجھے دیا اور ہمیں دنیا میں بہترین زندگی دے آخرت



حَسَنَةً،وَفِی الْاَخِرَةِ حَسَنَةً،وَقِنا عَذابَ النَّارِالْحَرِیقِ وَارْزُقْنِی فِیہا ذِکْرَکَ وَشُکْرَکَ،وَالرَّغْبَةَ



میں خوش ترین اجر عطا کر اور ہمیں جلانے والی آگ کے عذاب سے بچا اور اس ماہ میں مجھے ہمت دے کہ تجھے یادکروں، تیرا شکر بجا لاؤں، تیری طرف توجہ



إِلَیْکَ وَالْاِنابَةَ وَالتَّوْبَةَ وَالتَّوْفِیقَ لِما وَفَّقْتَ لَہُ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ



رکھوں،تیری طرف پلٹوں اور توبہ کروں اور مجھے اس عمل کی توفیق دے جس کی توفیق تو نے محمد وآل محمد کو دی کہ خدا رحمت کرے آنحضرت اور ان کی آل(ع) پر


انتیسویں شب کی دعاء:


یَا مُکَوِّرَ اللَّیْلِ عَلَی النَّہارِ، وَمُکَوِّرَ النَّہارِ عَلَی اللَّیْلِ، یَا عَلِیمُ یَاحَکِیمُ،



اے رات کو دن پر چڑھانے والے اور دن کو رات پر لپیٹ دینے والے اے دانا ،اے حکمت والے، اے پالنے والوں


یَارَبَّ الْاَرْبابِ، وَسَیِّدَ السَّاداتِ، لاَ إِلہَ إِلاَّ أَ نْتَ، یَا أَ قْرَبَ إِلَیَّ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیدِ یَا اللهُ یَا اللهُ



کے پالنے والے، اور سرداروں کے سردار، تیرے سواء کوئی معبود نہیں اے مجھ سے میری رگِ جان سے زیادہ


یَا اللهُ لَکَ الْاَسْماءُ الْحُسْنیٰ وَالْاَمْثالُ الْعُلْیا وَالْکِبْرِیاءُ وَالْاَلاءُ أَسْأَلُکَ أَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ



قریب اے الله، اے الله، اے الله تیرے لیے ہیں اچھے اچھے نام، بلند ترین نمونے اور بڑائیاں اور مہربانیاں سوال کرتا ہوں تجھ سے کہ محمد وآل محمد پر


وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَنْ تَجْعَلَ اسْمِی فِی ہذِھِ اللَّیْلَةِ فِی السُّعَداءِ، وَرُوحِی مَعَ الشُّھَداءِ، وَ إِحْسانِی فِی



رحمت نازل فرما اور یہ کہ آج کی رات میں میرا نام نیکوکاروں کیفہرست میں درج فرما میری روح کو شہیدوں کے ساتھ قرار دے میری نیکی کو مقام علیین


عِلِّیِّینَ، وَ إِسائَتِی مَغْفُورَةً وَأَنْ تَھَبَ لِی یَقِیناً تُباشِرُ بِہِ قَلْبِی، وَإِیماناً یُذْھِبُ الشَّکَّ عَنِّی وَ



میں پہنچا اور میری برائی کو معاف شدہ قرار دے اور یہ کہ مجھے وہ یقین دے جو میرے دل میں بسار ہے اور وہ ایمان دے جو شک کو مجھ سے دور کردے اور


تُرْضِیَنِی بِما قَسَمْتَ لِی، وَآتِنا فِی الدُّنْیا حَسَنَةً، وَفِی الْاَخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنا عَذابَ النَّارِ



مجھے اس پر راضی بنا جو حصہ تو نے مجھے دیا اور ہمیں دنیا میں بہترین زندگی دے آخرت میں خوش ترین اجر عطا کر اور ہمیں جلانے والی آگ کے عذاب سے


الْحَرِیقِ وَارْزُقْنِی فِیہا ذِکْرَکَ وَشُکْرَکَ، وَالرَّغْبَةَ إِلَیْکَ وَالْاِنابَةَ وَالتَّوْبَةَ وَالتَّوْفِیقَ



بچا اور اس ماہ میں مجھے ہمت دے کہ اس ماہ میں تجھے یادکروں، تیرا شکر بجا لاؤں تیری طرف توجہ رکھوں، تیری طرف پلٹوں اور توبہ کروں اور مجھے اس عمل


لِما وَفَّقْتَ لَہُ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ ۔



کی توفیق دے جس کی توفیق تو نے محمد وآل محمد کو دی کہ خدا رحمت کرے آنحضرت اور انکی آل(ع) پر

تیسویں شب کی دعاء


:الْحَمْدُ لِلّٰہِ لاَ شَرِیکَ لَہُ، الْحَمْدُ لِلّٰہِ کَما یَنْبَغِی لِکَرَمِ وَجْھِہِ وَعِزِّ جَلالِہِ



حمد ہے اس خدا کے لیے جس کا کوئی شریک نہیں حمد ہے اس خدا کیلئے جیسے کہ اس کی بزرگتر ذات اور


وَکَما ھُوَ أَھْلُہُ، یَا قُدُّوسُ یَا نُورُ، یَا نُورَ الْقُدْسِ، یَا سُبُّوحُ، یَا مُنْتَھَی التَّسْبِیحِ، یَا رَحْمٰنُ، یَا



عزت وجلال کا تقاضا ہے اور جس طرح وہ اہل ہے اے پاکیزہ تر، اے نور، اے پاکیزہ تر نور، اے بے عیب، اے پاکیزگی کے



فاعِلَ الرَّحْمَةِ، یَا اللهُ، یَا عَلِیمُ، یَا کَبِیرُ، یَا اللهُ، یَا لَطِیفُ،یَا جَلِیلُ، یَا اللهُ، یَا سَمِیعُ، یَا بَصِیرُ،



مرکز، اے بڑے مہربان، اے رحمت کے خالق،اے الله ،اے دانا، اے بزرگتر، اے الله، اے باریک بین، اے بڑی شان والے، اے الله،



یَا اللهُ یَا اللهُ یَا اللهُ، لَکَ الْاَسْماءُ الْحُسْنیٰ،وَالْاَمْثالُ الْعُلْیا، وَالْکِبْرِیاءُ وَالْاَلاءُ، أَسْأَ لُکَ أَنْ



اے سننے والے، اے دیکھنے والے، اے الله، اے الله، اے الله تیرے لیے اچھے اچھے نام،بلند ترین نمونے اور بڑائیاں اور مہربانیاں ہیں میں سوال کرتا


تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَأَھْلِ بَیْتِہِ،وَأَنْ تَجْعَلَ اسْمِی فِی ہذِھِ اللَّیْلَةِ فِی السُّعَداءِ، وَرُوحِی مَعَ



ہوں تجھ سے کہ محمد وآل محمد پر رحمت نازل فرما اور یہ کہ آج کی رات میں میرا نام نیکوکاروں کے زمرے میں شمار کر میری روح کو شہیدوں کے ساتھ قرار دے



الشُّھَداءِ،وَإِحْسانِی فِی عِلِّیِّینَ، وَإِسائَتِی مَغْفُورَةً، وَأَنْ تَھَبَ لِی یَقِیناً تُباشِرُ بِہِ قَلْبِی، وَإِیماناً



میری نیکی کو مقام علیین میں پہنچا اور میری برائی کو معاف شدہ قرار دے اور یہ کہ مجھے وہ یقین دے جو میرے دل میں بسار ہے اور وہ ایمان دے جو شک


یُذْھِبُ الشَّکَّ عَنِّی، وَتُرْضِیَنِی بِمَا قَسَمْتَ لِی، وَآتِنا فِی الدُّنْیا حَسَنَةً وَفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً،



کو مجھ سے دور کردے اور مجھے اس پر راضی بنا جو حصہ تو نے مجھے دیا اور ہمیں دنیا میں بہترین زندگی دے آخرت میں خوش ترین اجر عطا کر اور ہمیں جلانے


وَقِنا عَذابَ النَّارِ الْحَرِیقِ، وَارْزُقْنِی فِیہا ذِکْرَکَ وَشُکْرَکَ، وَالرَّغْبَةَ إِلَیْکَ وَالْاِنابَةَ وَ



والی آگ کے عذاب سے بچا اور اس ماہ میں مجھے ہمت دے کہ اس ماہ میں تجھے یادکروں، تیرا شکر بجا لاؤں، تیری طرف توجہ رکھوں، تیری طرف پلٹوں



التَّوْبَةَ وَالتَّوْفِیقَ لِما وَفَّقْتَ لَہُ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ ۔



اور توبہ کروں اورمجھے اس عمل کی توفیق دے جس کی توفیق تو نے محمد وآل محمد کو دی کہ خدا رحمت کرے آنحضرت اور ان کی آل(ع) پر ۔

ستائیسویں رمضان کی رات


اس رات خاص طور پر غسل کرنے کا حکم ہے اور منقول ہے کہ امام زین العابدین (ع)اس رات میں پہلے سے پچھلے پہر تک اس دعا کو باربار پڑھا کرتے تھے:


اللَّھُمَّ ارْزُقنی التَّجافِیَ عَنْ دارِ الغُرُورِ، وَالاِِنابَةَ إِلَی دارِ الْخُلُودِ، وَالاسْتِعدادَلِلْمَوْتِ قَبْلَ



اے معبود! مجھے فریب کے گھر سے دوری اختیار کرنا، ہمیشہ کے مسکن کی طرف لوٹ کے جانااور موت کے آنے سے پہلے



حُلُولِ الْفَوتِ ۔



موت کے لیے تیار ہونا نصیب فرما


ماہ رمضان کی آخری رات


یہ بڑی بابرکت رات ہے اور اس میں چند اعمال ہیں:



(۱)غسل کرے۔



(۲)زیارت امام حسین (ع)۔



(۳)سورۃ انعام ، سورۃ کہف اور سورۃ یاسین کی تلاوت کرے اور سومرتبہ کہے:



اَسْتَغْفِرُاللهَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ



بخشش چاہتاہوں الله سے اس کے حضور توبہ کرتا ہوں



(۴)شیخ کلینی (علیہ الرحمہ) نے امام جعفر صادق (ع)سے نقل کیا ہے کہ یہ دعا پڑھے:



اَللّٰھُمَّ ہذا شَھْرُ رَمَضانَ الَّذِی أَ نْزَلْتَ فِیہِ الْقُرْآنَ وَقَدْ تَصَرَّمَ، وَأَعُوذُ بِوَجْھِکَ



اے معبود! یہ ماہ رمضان المبارک ہے جس میں تو نے قرآن کریم نازل فرمایا اور وہ مہینہ ختم ہو گیا ہے اور پناہ لیتا ہوں میں



الْکَرِیمِ یَا رَبِّ أَنْ یَطْلُعَ الْفَجْرُ مِنْ لَیْلَتِی ہذِھِ أَوْ یَتَصَرَّمَ شَھْرُ رَمَضانَ وَلَکَ قِبَلِی



تیری ذات کریم کی اے پروردگار اس سے کہ آج کی رات ختم ہو اور صبح ہو جائے یا رمضان مبارک کا مہینہ گزر جائے اور مجھ پر تیری



تَبِعَةٌ أَوْ ذَ نْبٌ تُرِیدُ أَنْ تُعَذِّبَنِی بِہِ یَوْمَ أَ لْقاکَ



کوئی سزا باقی ہو یا کوئی گناہ ہو کہ تو مجھے اس پر عذاب دینا چاہتا ہو جس دن میں پیش ہوں گا۔



(۵)دعا یامدبر الامور۔۔۔۔۔پڑھے کہ جو تئیسویں کی رات کے اعمال میں ذکر ہوئی ہے۔



(۶)وہ دعائیں پڑھ کر ماہ رمضان کوالوداع کرے کہ جو شیخ کلینی (علیہ الرحمہ) ، صدوق (علیہ الرحمہ) ،شیخ مفید(علیہ الرحمہ) ، طوسی (علیہ الرحمہ) اور سیدابن طاؤس (علیہ الرحمہ) نے نقل کی ہیں۔ شاید ان میں سب سے بہتر صحیفہ کاملہ کی پینتالیسیویں دعا ہے۔نیز سید ابن طاؤس نے امام جعفر صادق (ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: جو شخص ماہ رمضان کی آخری رات کو الوداع کرے تو یہ کہے:



اَللّٰھُمَّ لاَ تَجْعَلْہُ آخِرَ الْعَھْدِ من صِیامِی لِشَھْرِ رَمَضانَ، وَأَعُوذُ بِکَ أَنْ یَطْلُعَ فَجْرُ



اے الله! رمضان کے اس مہینے کے روزے میرے لیے آخری روزے قرار نہ دے اور میں پناہ مانگتا ہوں تیری اس سے کہ اس رات



ہذِھِ اللَّیْلَةِ إِلاَّ وَقَدْ غَفَرْتَ لِی



کی صبح ہو جائے لیکن تو نے مجھے بخش دیا ہو۔



جوشخص ان کلمات کے کیساتھ ماہ رمضان کوالوداع کرے تو حق تعالیٰ اسے صبح ہونے سے پہلے بخش دے گا اور اس کو توبہ و استغفار کی توفیق عطا کرے گا۔سید و شیخ صدوق (علیہ الرحمہ)نے جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت کی ہے کہ میں رسول الله ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ دن رمضان مبارک کا آخری جمعہ تھا ۔ جب آنحضرت کی نظر مجھ پر پڑی تو فرمایا کہ اے جابر! یہ ماہ رمضان کا آخری جمعہ ہے پس ماہ رمضان کو الوداع کرو اور کہو:


اَللّٰھُمَّ لاَ تَجْعَلہُ آخِرَ العَھْدِ مِنْ صِیامِنا إِیَّاھُ فَإِنْ جَعَلْتَہُ فَاجْعَلْنِی مَرْحُوماً وَلاَ تَجْعَلْنِی مَحْرُوماً



اے الله! رمضان کے اس مہینے کے روزے میرے لیے آخری روزے قرار نہ دے پس اگر تو ایسا کرے تو مجھے رحم کیا ہواقرار دے اور رحمت سے محروم کیا ہوا نہ بنا



جوشخض اس دعا کو پڑھے تو یقینًا وہ دوسعادتوں میں سے ایک ضرور حاصل کرتا ہے۔ یعنی وہ آئندہ رمضان کو پائے گا یا خدا کی انتہائی رحمت و بخشش سے ہم کنار ہو کر عالم بقاء میں راحتی حاصل کرے گا۔ سید ابن طاؤس (علیہ الرحمہ) وشیخ کفعمی (علیہ الرحمہ) نے رسول الله ﷺسے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: جوشخص ماہ رمضان کی آخری رات دس رکعت نماز پڑھے کہ ہر رکعت میں دس مرتبہ سورۃ توحید اور رکوع وسجود میں دس دس مرتبہ کہے:


سُبْحَانَ اللهِ وَ الْحَمْدُ للهِ وَ لَا اِلَہَ اِلَّا الله وَ الله اَکْبَرُ



پاک تر ہے خدا کہ حمد اسی کے لئے ہے اور نہیں کوئی معبود مگر الله بزرگ تر ہے۔



نیز ہر دورکعت کے بعد تشہدوسلام پڑھے اور یہ دس رکعت نماز ختم کرکے ہزار مرتبہ استغفار کرے پھر سجدہ میں جائے اور کہے :


یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ، یَا ذَا الجَلالِ وَالاِِکرامِ، یَارَحْمانَ الدُّنیا وَالآخِرَةِ وَرَحِیمَھُما یَا أَرْحَمَ



اے زندہ، اے نگہبان ،اے جلالت اور بزرگی کے مالک ،اے دنیا وآخرت میں رحم کرنے والے اور ان دونوں میں مہربان اے سب سے زیادہ رحم



الرَّاحِمِینَ، یَاإِلہَ الاَوَّلِینَ وَالآخِرِینَ، اغْفِرْ لَنا ذُنُوبَنا، وَتَقَبَّلْ مِنَّا صَلاتَنا وَصِیامَناوَقِیامَنا۔



کرنے والے اے اولین و آخرین کے معبود ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہماری نمازیں ہمارے روزے اور ہماری عبادتیں قبول فرما


آنحضرت نے مزید فرمایا:مجھے اس ذات کے حق کی قسم کہ جس نے مجھے شرف نبوت سے نوازا ہے کہ جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے اسرفیل کے ذریعہ اور اسرافیل نے خدا وند عالم سے لیا ہے وہ شخص ابھی سر سجدے سے نہیں اٹھائے گا کہ اس کے ماہ رمضان میں بجالائے ہوئے اعمال قبول کر لیے جائیں گے او ر اس کے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔یہ نماز شب عیدالفطر میں بھی پڑھی جاسکتی ہے، لیکن اس روایت کے مطابق رکوع وسجود کے اذکار کی بجائے تسبیحات اربعہ پڑھے اور نماز سے فراغت کے بعد سجدہ میں جاکر جب مذکورہ بالا دعا پڑھے تو اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا سے وَقِیامَنَا تک کی بجائے یہ کہے:


اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی، وتَقَبَّلْ صَوْمِی وَصَلاتِی وَقِیامِی



میرے گناہ بخش دے اور میرا روزہ، میری نماز اور میری عبادت قبول فرما


تیسویں رمضان کا دن


سید نے ماہ رمضان کے آخری دن میں پڑھنے کیلئے ایک دعا نقل کی ہے۔ جسکا پہلا جملہ یہ ہے:


اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ اَرْحْمُ الرَّاحِمِیْنَ



اے معبود! بے شک تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے



عمومًا لوگ اس دن رمضان مبارک میں شروع کیا ہوا قرآن مجید ختم کرتے ہیں۔پس ختم قرآن کے بعد ان کیلئے صحیفہ کاملہ کی بیالیسویں دعا کا پڑھنا بہتر ہے اور اگر کوئی اسکی بجائے مختصر دعا پڑھنا چاہے تو وہ یہ دعا پڑھے جو شیخ نے امیرالمومنین (ع)سے نقل کی ہے


اَللّٰھُمَّ اشْرَحْ بِالْقُرْآنِ صَدْرِی وَاسْتَعْمِلْ بِالْقُرْآنِ بَدَنِی، وَنَوِّرْ بِالْقُرْآنِ بَصَرِی،وَأَطْلِقْ بِالْقُرْآنِ



اے معبود ! میرے سینے کو قرآن کے ذریعے کشادہ کر دے، میرے بدن کو قرآن پر عمل پیرا بنا دے، میری آنکھوں کوقرآن سے روشن کر دے اور میری زبان



لِسانِی،وَأَعِنِّی عَلَیْہِ مَا أَبْقَیْتَنِی فَإِنَّہُ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِکَ



کو قرآن کیلئے رواں کر دے اور جب تک مجھے زندہ رکھے اس میں میرا مددگار رہ کہ نہیں کوئی حرکت وقوت مگر جو تیری طرف سے ہے


نیز یہ دعا پڑھے جو امیرالموٴمنین(ع) سے منقول ہے:



اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ إِخْباتَ الْمُخْبِتِینَ وَإِخْلاصَ الْمُوقِنِینَ، وَمُرافَقَةَ الْاَ بْرارِ، وَاسْتِحْقاقَ حَقائِقِ



اے معبود! میں تجھ سے دل لگانیوالوں کی توجہ مانگتا ہوں اور یقین رکھنے والوں کا خلوص، نیکوکاروں کی ہمراہی، کا سئوال کرتا ہوں اور ایمان کی حقیقتوں تک



الْاِیمانِ،وَالْغَنِیمَةَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلامَةَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ، وَوُجُوبَ رَحْمَتِکَ، وَعَزائِمَ



رسائی، ہر نیکی میں اپنی حصے داری اور ہر گناہ سے بچے رہنے کی صلاحیت کا خواہاں ہوں نیز اپنے لیے تیری رحمت کے لازمی ہونے، تیری طرف سے اپنی


مَغْفِرَتِکَ، وَالْفَوْزَ بِالْجَنَّةِ، وَالنَّجاةَ مِنَ النّارِ



بخشش کے یقینی ہونے، جنت میں داخل ہونے اور جہنم سے رہائی کا سوال کرتا ہوں۔