Tuesday, April 28, 2009

شرح دعاء کمیل ۳

”اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُنْزِلُ الْبَلآٰءَ۔“۔

”ان گناھوں کو بخش دے جو نزول بلاء کا سبب ھوتے ھیں“۔

جن گناھوں کے ذریعہ بلائیں نازل ھوتی ھیں

جس گناھوں کے ذریعہ بلائیں نازل ھوتی ھے وہ تین گناہ ھیں:

۱۔ دل سوز اور پریشان حال کی فریاد پر بے توجھی کرنا۔

۲۔ مظلوم کی مدد نہ کرنا۔

۳۔ امر بالمعروف و نھی عن المنکر کو ترک کرنا۔

دل سوز اور صاحب حزن و ملال کی فریاد پر بے توجھی کرنا

جس انسان کا مالی نقصان ھوجاتا ھے، یا اس کا کوئی عزیز مرجاتا ھے، یا کسی دوسری مصیبت اور رنج و غم میں گرفتار ھوجاتا ھے،اور اگر وہ اپنے دینی برادران سے اپنی مشکلات کو دور کرنے میں مدد و فریاد کرتا ھے، تو انسانی شرافت اور محبت کا تقاضا یہ ھے کہ اس کی مددکے لئے قدم بڑھائے، اور حتی الامکان اس کے رنج و غم کو دور کرنے کی کوشش کرے۔

جو لوگ درد مندوں کے درد اور دل سوز لوگوں کی آہ و فریاد سن کر ان کی مدد کے لئے قدم نھیں اٹھاتے تو ایسا شخص نہ یہ کہ مسلمان نھیں ھے بلکہ آدمیت و انسانیت کے دائرہ سے(بھی) خارج ھے۔

تو کز محنت دیگران بی غمی نشاید کہ نامت نھند آدمی

(اگر تجھے کسی دوسرے کے رنج و غم میں کا کوئی درد نھیں ھے تو پھر تجھے آدمی کھلانے کا بھی حق نھیں ھے)

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ارشاد فرماتے ھیں:

”مَنْ اٴَصْبَحَ لَایَہْتَمُّ بِاٴُمُورِ المُسْلِمِینَ فَلَیْسَ بِمُسْلِمٍ“[1]

”جو شخص صبح اٹھے لیکن مسلمانوں کے مسائل و حالات پر اھمیت نہ دے وہ مسلمان نھیں ھے“۔

ایک دوسرے کی امداد کرنا اور مسلمانوں کے مسائل پر توجہ کرنا خصوصاً فریادیوں کی فریاد رسی کرنا، خدا و رسولاور ائمہ علیھم السلام کا حکم ھے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ھے: جو کسی مرد مومن کے رنج وغم کو دور کرے، خداوندعالم اس کی آخرت کے رنج وغم کو دور کرے گا، اور مطمئن طور پر قبر سے نکلے گا۔ اور اگر کوئی شخص کسی مومن کی بھوک مٹائے،تو خداوندعالم اس کو بھشتی پھلوں سے نوازے گا، اور اگر کوئی شخص کسی مومن کو ایک گلاس پانی پلائے تو خداوندعالم اس کو رحیق مختوم سے سیراب فرمائے گا۔[2]

اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: جو شخص کسی غم زدہ اور پیاسے مومن اور پریشانی کے وقت مدد کرے اور اس کاحزن و الم دور کرے اور اس کی حاجت روائی میں اس کی مدد کرے تو خداوند عالم اپنی طرف سے ۷۲ رحمتیں لکھ دیتا ھے جن میں سے ایک رحمت کے ذریعہ اس کی دنیا کے مسائل بہتر ھوجائیں گے اور ان میں کی ۷۱ رحمتیں قیامت کے ھولناک ماحول اور خوف و وحشت سے بچانے کے لئے محفوظ رھیں گی۔[3]

مظلوم کی مدد نہ کرنا

اسلامی نقطہ نظر سے مظلوم کی مدد کرنا اس قدر اھمیت رکھتا ھے کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام اپنی آخری عمرمیں (شب ۲۱ رمضان المبارک) میں حضرت امام حسن و حضرت امام حسین علیھما السلام کو وصیت کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

”کُونَا لِلظَّالِمِ خَصْماً وَلِلْمُظْلُومِ عَوْناً“[4]

”ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مدد گاررھو“۔

جی ھاں! ظلم و ظالم اور مظلوم کے سلسلہ میں یہ اسلامی بہترین عملی شعار ھے ۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ھیں:

مَنْ اٴَخَذَ لِلْمَظْلُومِ مِنَ الظَالِمِ کاَنَ مَعی فِی الجَنَّةِ مُصاحِباً“[5]

”جو شخص ظالم سے کسی مظلوم کا حق دلائے وہ جنت الفردوس میں میرا ھم نشین ھوگا“۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں: ”اگرکسی پر ظلم ھوتے دیکھو تو ظالم کے خلاف اس کی مدد کرو“۔[6]

نیز آپ ھی کا فرمان ھے:

” اٴَحْسَنَ العَدْلِ نُصْرَةُ المَظْلُومِ“[7]

”بہترین عدل مظلوم کی مدد کرنا ھے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

”کسی مومن کا ؛مظلوم کی مدد کرنا ایک ماہ کے روزے اور مسجد الحرام میں اعتکاف سے بہتر ھے، اور اگر کوئی شخص کسی مومن کی مدد کرنے کی قدرت رکھتا ھو اس کی مدد کرے تو خداوندعالم اس کی دنیا و آخرت میں مدد کرے گا، لیکن اگر کوئی شخص برادر مومن کی مدد کرسکتا ھو اور وہ مدد نہ کرے تو خداوندعالم بھی دنیا و آخرت میں اس کی مدد نھیں کرے گا“۔[8]

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے کہ خداوند عز وجل فرماتا ھے:

”اپنی عزت و جلالت کی قسم! میں دنیا و آخرت میں ظالم و ستمگر سے انتقام لوں گا، اسی طرح اگر کوئی شخص کسی مظلوم کو دیکھے اور اس کی مدد کرنے پر قدرت رکھتا ھو اور اس کی مدد نہ کرے تو اس سے بھی انتقام لوں گا۔[9]

امر بالمعروف و نھی عن المنکر کا ترک کرنا

امر بالمعروف و نھی عن المنکرالٰھی فرائض میں سے دو اھم فریضے ھیں،اور دینی واجبات میں سے دو واجب ھیں جن کو انجام دینے کے اگر شرائط پائے جاتے ھیں تو واجب ھے یعنی امر بالمعروف کرنے والا معروف ونیکی کو جانتا ھو اور خود بھی اس پر عمل کرتا ھو اور برائیوں سے دور ھو،اور ان دونوں فریضوں کو ترک کرنا گناہ عظیم اور سبب نزول بلاء ھیں۔

امر بالمعروف و نھی عن المنکر دین کا اھم ترین محور اور اس کی واضح حقیقت ھے جس کو برپا کرنے کے لئے انبیاء علیھم السلام مبعوث برسالت ھوتے تھے۔

اگر یہ دونوں فرائض (امر بالمعروف و نھی عن المنکر ) ختم ھوجائیں اور ان دونوں کے سلسلہ میں علم و عمل نہ ھو، تو پھرتحریک نبوت کا خاتمہ ھوجائے گا،اور دین تباہ و برباد ھوجائے گا، سب لوگ گمراہ ھوجائیں گے، اور ھر طرف جھل و نادانی پھیل جائے گی، لوگوں کے مسائل میں برائیاں جڑ پکڑ لیں گی، آبادی میں تباھی پھیل جائے گی اور انسانیت؛ ھلاکت کے گڑھے میں گرجائے گی۔

اس سلسلہ میں قرآن فرماتا ھے:

۱۔” وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ اٴُمَّةٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَاٴْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنْ الْمُنْکَرِ وَاٴُوْلَئِکَ ہُمْ الْمُفْلِحُونَ“[10]

”اور تم میں سے ایک گرو ہ کو ایسا ھونا چاہئے جو خیر کی دعوت دے ،نیکیوں کا حکم دے ،بُرائیوں سے منع کرے اور یھی لوگ نجات یافتہ ھیں “۔

۲۔” وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْضٍ یَاٴْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنْ الْمُنکَرِ۔۔۔“[11]

”مومن مرد اور مومن عورتیں سب آپس میں ایک دوسرے کے ولی اور مدد گار ھیں کہ یہ سب ایک دوسرے کو نیکیوں کا حکم دیتے ھیں اور بُرائیوں سے روکتے ھیں “۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ھیں:

”لَتَاٴمُرُنَّ بِالمَعروفِ وَلَتَنْہَوُنَّ عَنِ المُنْکَرِ اٴَو لَیُسَلِّطَنَّ اللهُ عَلَیْکُم شِرارَکُم ثُمَّ یَدعُو خِیارُکم فلا یُستَجَابُ لَہُم“[12]

”اے لوگو! (یا)تم امر بالمعروف و نھی عن المنکر کیا کرو، ورنہ دشمن تمھارے اوپر مسلط ھوجائیں گے، اور تم سے اچھے لوگ (بھی) دعا کریں گے لیکن دعا مستجاب نھیں ھوگی“۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے تھے: تم لوگ آنے جانے والوں کے راستہ پر نہ بیٹھا کرو، لوگوں نے کھا: ھم وھاں بیٹھ کر باتیں کرنے کے لئے مجبور ھیں۔ تو آپ نے فرمایا: اگر تم لوگ مجبور ھو تو راستہ کے حق کا لحاظ رکھو۔ لوگوں نے سوال کیا: (یا رسول اللہ) راستہ کا کیا حق ھے؟ تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: نامحرم کو نہ دیکھو، لوگوں کو اذیت نہ دو، سلام کرنے والوں کو جواب دو، امر بالمعروف و نھی عن المنکر کیا کرو۔[13]

اسی طرح آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ھیں: امر بالمعروف ، نھی عن المنکر اور ذکر خدا کے علاوہ انسان کی تمام باتیں اس کے نقصان میں ھیں۔[14]

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں: خداوندعالم نے (حضرت) شعیب پر وحی فرمائی: تمھاری قوم کے ایک لاکھ افراد پر جن میں سے چالیس ہزار برے لوگوں پر اور ساٹھ ہزار اچھے لوگوں پرعذاب کروں گا، (جناب شعیب(ع) نے) کھا: پالنے والے! برے لوگوں پر عذاب کرنا تو صحیح ھے، لیکن اچھے لوگوں پر کیوں؟ تو خداوندعالم نے فرمایا: (کیونکہ) نیک لوگوں نے برے لوگوں کے لئے بھلائی نھیں چاھی، ان کو برائیوں سے نھیں روکا، ان پر اعتراض نھیں کیا اور میرے خشم و غضب کی وجہ سے ان پر غضبناک نھیں ھوئے۔[15]

قبیلہ ”خثعم“ کا ایک شخص پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں پھنچا اور کھا: یا رسول اللہ! آپ مجھے اسلام کی بہترین چیز سے باخبر فرمائیں؟

اس نے سوال کیا کہ اس کے بعد؟

فرمایا: صلہ رحم۔

اس نے سوال کیا کہ اس کے بعد؟

فرمایا: امر بالمعروف و نھی عن المنکر۔

اس نے سوال کیا: کونسا عمل خدا کے نزدیک سب سے بُرا ھے؟

آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:خدا کا شریک قرار دینا۔

اس نے سوال کیا کہ اس کے بعد؟

فرمایا: قطع تعلق کرنا۔

اس نے سوال کیا کہ اس کے بعد؟

آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: برائیوں کا حکم دینا اور نیکیوں سے روکنا۔[16]

”اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِي کُلَّ ذَنْبٍ اٴَذْنَبْتُہُ،وَکُلَّ خَطٓیئَةٍ اٴَخْطٰاٴْتُھٰا“۔

”خدایا میرے تمام گناھوں اور میری تمام خطاوٴں کو بخش دے “۔

گناہ کی لذت و کشش جب تک انسان کے دل میں مستحکم جگہ نہ بنالے بلکہ کبھی کبھی انسان کو بُرے اعمال میں مبتلاء کردے تو اسی کو اھل تحقیق کی نظر میں ”ذنب“ (گناہ) کھا جاتا ھے، اور جب یہ چیزیں انسان کے دل میں اپنی جگہ مستحکم کرلیں ، اور انسان کے دل میں راسخ ھوجائے یھاں تک کہ انسان کسی بھی جگہ ھو کیسا بھی موقع ھو ، کیسے بھی حالات ھوں؛ وھاں پر گناہ کرتا ھے، اھل لغت کی اصطلاح میں اس کو ”خطیئة“ کھاجاتا ھے۔

درگاہ ربّ العزت کا بھکاری اور خدائے مھربان کے در کا سوالی اپنے ان گناھوں کی طلب بخشش کے بعد جن کے ذریعہ خدااور انسان کے درمیان موجود پردہ ختم ھوجاتا ھے، اور جن کے ذریعہ بلاء ومصیبت اور عذاب نازل ھوتے ھےں اور جن کے ذریعہ نعمتیں بدل جاتی ھےں، اور جو دعا قبول ھونے میں مانع ھوتے ھیں، اور جن کے ذریعہ انسان پر بڑی بڑی مصیبت و بلاء نازل ھوتی ھیں؛ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں دعا کرتا ھے:

پالنے والے میرے تمام گناھوں کو بخش دے جو میری زندگی میں ھوئے ھیں چاھے چھوٹے گناہ ھوں یا بڑے گناہ، چاھے میں نے ان کو جان بوجھ کر انجام دیا ھو یا بھولے سے ھوگئے ھوں، چاھے بچپن کے گناہ ھوں یا نوجوانی کے، چاھے بلوغ کے شروعات کے ھوں یا بھر پور جوانی کے عالم میں، اور چاھے میں نے ان کو مخفی طور پر انجام دیا ھو یا علی الاعلان انجام دیا ھو،کیونکہ تیرے علاوہ کوئی ایسا نھیں ھے کہ تمام گناھوں کو بخش دے۔ تونے ھی اپنے لطف و مھربانی اور عظمت و بزرگی کا اعلان کیا ھے:

”لاَتَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ۔“[17]

”اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ھونا بیشک اللہ تمام گناھوں کا معاف کرنے والا ھے اور وہ یقینا بہت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ھے“۔

”اٴَللّٰھُمَّ اِٴنّي اٴَتَقَرَّبُ اِٴلَیْکَ بِذِکْرِکَ“

”خدایامیں تیری یاد کے ذریعہ تجھ سے قریب ھو رھاھوں “۔

فانی دنیاکے کھنڈر

حد سے زیادہ مادی امور سے لگاؤ اورایسی محبت جو خدا اور بندے کے درمیان حجاب کی طرح حائل ھوجائے، حد سے زیادہ شھوات، لذت کی دنیا میں غرق ھوجانا،مال دنیا حاصل کرنے کے لئے دن رات ، ہفتوں اور مھینوں کا صرف کردینا، جاھلوں اور غافلوں کے ساتھ نشست و برخاست کرنا، خیر و خیرات سے دور رھنا، لباس و پوشاک میں اسراف (فضول خرچی) کرنا، مختلف سامان میں پیسے کو بے جا خرچ کرنا، عوام الناس اور رشتہ داروں سے بے خبر ھوجانا، واجبات کی ادائیگی میں سستی اور کاھلی کرنا، محرمات وگناھوںمیں آلودہ ھونا اور معرفت و حقیقت سے خالی ھونا؛یہ تمام کی تمام چیزیں اس فانی دنیا میںزندگی بسر کرنے کی نشانی ھیں۔

اس فانی دنیاکے یہ کھنڈر ؛جن میںسانپ، بچھو، مکاری، دھوکہ بازی، حیوان صفتی، شیطنت و مستی، غارت ولوٹ مار، جھوٹ و ریاکاری و خود پسندی، غیبت و تھمت، سود و غصب، شھوت و خیانت، آلودگی و دنائت (پستی) زنا و چوری، قتل و شرارت، کبر و نخوت، حرص و طمع، بخل و حسد، کینہ و دشمنی، خشم وغضب اور گناہ و معصیت کے علاوہ اس میں کچھ نھیں ملتا!!

اس فانی دنیاکے یہ کھنڈر ؛ جس میں انسانیت کا (عظیم)خزانہ شیطان صفت لوگوں کے ھاتھوں میں ھے جس سے انسان کی عمر تباہ و برباد ھوجاتی ھے اور انسان کا معنوی سرمایہ نابود ھوتا ھے، جھاں انسانیت کا جنازہ نکل جاتا ھے، اور انسان کو ھمیشہ کے لئے خسارہ اٹھانا پڑتا ھے،اور جس سے ناشکری، شرک و نفاق اور کفر کا سایہ دل پرچھاجاتا ھے۔

اس فانی دنیاکے یہ کھنڈر ؛ جس میں خرید و فروخت کا بازار شیطان صفت لوگوں کے ھاتھوں میں ھوتا ھے اور جس میں اکثر لوگ انسان کی صورت میں حیوان ھوتے ھیں؛ جس کا ظاھر کافر کی قبر کی طرح زر و زیور سے مزین ھوتا ھے لیکن باطن میں دوزخ کے درد ناک عذاب سے بھرا ھوتا ھے۔

فانی دنیاکے یہ کھنڈر ؛ جس کے رھنے والے ظاھری طور پر انسان ھوتے ھیں لیکن کردار و عمل کے لحاظ سے حیوان، سبھی چون چرا میں مشغول، لیکن عبادت و بندگی کی لذت سے بے خبر، جن کی تصدیق تصور سے مبرّا، اور جن کی تحقیق حقیقت سے جدا، بیھودہ باتیں اور بکواس کرنے والے زیادہ، سبھی اندھے او رگونگے، وھم و گمان کرنے والے لیکن ایمان و یقین سے دورھوتے ھیں۔

یہ کھنڈر ؛ جس کے رھنے والے گناھوں میں مدھوش، فسق و فجور سے ھم آغوش، گناھوں کا پردہ چاک کئے ھوئے، شھوت کا پرچم اٹھائے ھوئے، سبھی ھوا و ھوس کے بستر پر سوئے ھوئے، عیاش مرد بدکار عورتوں کو لئے ھوئے، جس میںمکّار لڑکیاں غدّار لڑکوں کے ساتھ، جس کے جوان ناشناختہ اور بے کار، جس کے بوڑھے فاسق و بدکردار، جو طور و طریقہ کے لحاظ سے چوھے ھیں اور کردار کے لحاظ سے خرگوش، ایک سانپ کی شکل میں تو دوسرا بچھو کی شکل میں، یہ دانتوں سے کاٹتا ھے ، تو وہ دُم کی طرف سے، اس کھنڈر کا نام جنگل ھے جس کا بادشاہ جھل ھے تو اس کا سپاھی برائی، اس کا مادہ حرام ھے اور اس کا کام انسان کو نابود کرنا ھے!!

مُلک وصال

اس فانی دنیا کے کھنڈروں سے کوچ کرنا عقل وشرع کے لحاظ سے واجب ھے، بے ثمر چیزوں کی محبت کا سنگین وزن دل سے نکال پھنیک دیا جائے اور مُلک وصال کے سفر کے لئے اپنے بال وپر کھول دئے جائیں، اور پوری طاقت سے اڑان بھری جائے اور ”ذکر و اذکار“ کی قدرت سے مدد لیتے ھوئے اس مُلک کے سفر کے لئے تیار ھوجائیں وہ مُلک جو معرفت و فضیلت، صدق و صفا، امانت و صداقت، حق و حقیقت، وفا و صفا، شور و وجد، بندگی و عبادت، شرافت و کرامت، محبت و صمیمیت، زھد و قناعت، صبر و توکل، بصیرت و استقامت، تقویٰ و پرھیزگاری، ورع و پارسائی، واقعیت و عزت اور احسان و عدالت کا مُلک ھے۔ (اس مُلک میں پھنچ کر) مقام قرب خدا کی چاشنی کا مزہ لیں، اور وصال محبوب کی خوشبو سونگھےں، اور معشوق کے اخلاق سے مزین ھوں، اور انبیاء و صدقین اور شھداء وصالحین جیسے دوستوں کی ھم نشینی حاصل کریں۔

قرآن مجید اس روحانی اور عاشقانہ سفرکے بارے میں جس میں تمام برائیوں اور پلیدیوں سے ؛ تمام اچھائیوں اور نیکیوں کی طرف کوچ کیا جاتا ھے ؛ فرماتا ھے:

” وَمَنْ یُہَاجِرْ فِی سَبِیلِ اللهِ یَجِدْ فِی الْاٴَرْضِ مُرَاغَمًا کَثِیرًا وَسَعَةً وَمَنْ یَخْرُجْ مِنْ بَیْتِہِ مُہَاجِرًا إِلَی اللهِ وَرَسُولِہِ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اٴَجْرُہُ عَلَی اللهِ وَکَانَ اللهُ غَفُورًا رَحِیمًا“[18]

ذکر

محققین فرماتے ھیں: لفظ ”بذکرک“ میں حرف ”با“سببت کے معنی میں ھے۔ لہٰذا اس نورانی جملہ کے معنی یہ ھوں گے: خدا یا! میں تیرے ذکر کے سبب تجھ سے تقرب حاصل کرنا چاہتا ھوں۔

معنی ذکر

لفظ ”ذکر“ کے لئے تین معنی بیان کئے گئے ھیں:

۱۔ خداوندعالم پر توجہ اور دل میں اس کی یاد۔

۲۔ قرآن۔

۳۔ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور اھل بیت علیھم السلام۔

خداوندعالم پر توجہ اور دل میں اس کی یاد

توجہ اور یاد، ذکر و تذکر ؛ یہ سب غفلت کی ضد ھیں، خدا سے غافل رھنے والے کو کچھ پروا نھیں ھوتی کہ اس کی عمربر باد ھو، وہ گناھوں میں غرق ھوجائے، حقوق الناس کو پامال کرڈالے، عبادت و بندگی سے محروم ھوجائے، حرام خوری کرنے لگے اور بد بختی و شقاوت اس پر مسلط ھوجائے۔

لیکن جس شخص کے دل میں خدا کی یاد اور اس کا سینہ ذکر محبوب کا گھر ھو، اور اسی کے لئے اس کا دل دھڑکے، ایسا شخص اس حقیقت کو جانتا ھے کہ خداوندعالم نے اپنے بندوں کی ھدایت کے لئے انبیاء علیھم السلام کو بھیجا، آسمانی کتابیں نازل کیں، اور نیکیوں کے لئے بہترین جزا مثل جنت قرار دی اور برائیوں کے لئے دوزخ جیسی سزا معین کی، ایسا شخص شب و رزعبادت و بندگی، انسانوں کی خدمت، محرمات سے دوری، حقوق الناس کی رعایت، تقویٰ و عفت کا لحاظ، علم و معرفت کی تحصیل، جائز کاموں کے ذریعہ کسب حلال، پریشان حال لوگوں کی دست گیری، ضرورت مندوں کی حاجت برآری او رغریب و فقراء کی امداد کرتا ھے، اور ان تمام کاموں میں صرف خوشنودی خدا کو مد نظر رکھتا ھے۔

خدا کا ذکر کرنا اس پر توجہ کرنا یہ باطن اور دل کا کام ھے، جس کی وجہ سے نیکیوں سے آراستہ ھونے کی قدرت عطا ھوتی ھے اور کچھ ھی مدت میں خداوندعالم کی بارگاہ کا محبوب بندہ ھوجاتا ھے، اور اس کی بارگاہ میں حاضری کے لئے بے چین رہتا ھے، اور اس سے مناجات ، عبادت اور بندگان خدا کی خدمت کی لذت محسوس کرتا ھے۔

جناب یونس(ع) کی قوم بہت زیادہ غفلت کی شکار ھوگئی تھی، ایک عالم و عارف کی تبلیغ سے خدا کی یاد آنے لگی، اور خدا کی یاد سے غفلت کا پردہ اس کی آنکھوں سے اٹھ گیا، اور یہ قوم جنگل و بیابان میں نکل گئی اور وھاں پر جاکر سجدہ ریز ھوگئی، آنسوؤں سے اپنے باطن کو صاف کیا اور حقیقی توبہ کے ذریعہ اپنے وجود کو پاک کیا ، اور اپنے اس کام سے آنے والے درد ناک عذاب (صاعقہ) کو اپنی بستی سے دور کردیا، اور پھر بارگاہ الٰھی میں حقیقی بندے بن گئے اور باقی عمر کو عبادت و بندگی میں صرف کیا اور آخر کار خوشنودی خدا اور رحمت الٰھی کے زیر سایہ ان کو موت آئی ، او رآخرت میں قدم رکھا یھاں تک کہ ھمیشہ کے لئے بھشت رضوان میں اپنی جگہ بنالی۔

بہت سے ایسے فاسق و گناھگار لوگ تھے جن کی عاقبت بخیر ھوگئی اپنے گناھوں سے ھاتھ کھینچ لیا اور ضلالت و گمراھی کے کھنڈر سے نور وھدایت کے باغ وبوستاں میں داخل ھوگئے ، اور اپنی شیطنت و مکاری سے ھاتھ روک کر سلامت و امنیت کے دائرہ میں آگئے، اور خدا کی عبادت و بندگی کے ذریعہ اپنے گزشتہ تمام گناھوں کا جبران کردیا۔ ایسے لوگ یاد خدا اور قلبی توجہ کی برکت سے اس بلندمقام پر پھنچے ھیں، اور اپنی توبہ کے ذریعہ آئندہ کے لئے نمونہ عمل بن گئے ھیں، اور خدا کی حجت کو تمام لوگوں پر تمام کردیا ھے۔

تاریخ کے اوراق پر ایسے حضرات کا ذکر ھمارے لئے نمونہ ھے اور ھماری زندگی کے لئے روشنی بخش ھے جیسے آسیہ، اصحاب کہف، بھلول نبّاش، حر بن یزید، فضیل عیاض وغیرہ، جن لوگوں نے اپنے گزشتہ گناھوں سے توبہ کرکے یاد خدا کو اپنا شعار بنالیا اور اپنی تاریک زندگی کو منور کرلیا، اور شیطان کے چنگل سے نکل کر رحمت الٰھی کے زیر سایہ آگئے، اور لمحات میںاپنے کو پستی سے نکال کرکرامت و سعادت کی بلندی پر پھنچادیا اور خدا کی رحمت و وصال تک پھنچ گئے۔

قرآن

خداوند مھربان نے متعدد آیات میں قرآن مجید کو ”ذکر“ سے یاد کیا ھے منجملہ:

” إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ“[19]

”ھم نے ھی اس قرآن کونازل کیا ھے اور ھم ھی اس کی حفاظت کرنے والے ھیں “۔

قرآن مجید میں ایسے معارف و احکام بیان ھوئے ھیں جن کے بروئے کار لانے سے انسان کو دنیا و آخرت کی سعادت حاصل ھوجاتی ھے۔

قرآن کریم ، ھماری زندگی کی کتاب ھے، اور انسان کی ھدایت کے لئے تمام مراحل میں پیش آنے والی ضرورتوں کے تمام حل اس میں موجود ھیں۔

قرآن کریم ، انسان کو بہترین اور مستحکم ترین راستہ کی طرف ھدایت کرتا ھے، اور اپنی آیات پر عمل کرنے والے کے لئے اجر کریم کی بشارت دیتا ھے۔

قرآن کریم کی آیات پر غور و فکر کرنے سے جھل جیسی خطرناک بیماری کا علاج ھوجاتا ھے اور انسان کا دل معرفت کامکان بن جاتا ھے۔

قرآن مجید کی نیکیاں بیان کرنی والی آیات پر عمل کرنا اسی طرح برائیوں کو بیان کرنے والی آیات پر عمل کرنے سے انسان کو نجات کی امید پیدا ھوتی ھے اور قرب خدا کا راستہ ھموار ھوتا ھے۔

قرآن کریم پر عمل کرنے سے انسان تمام نیکیوں سے آراستہ ھوجاتا ھے، اور برائیوں سے دوری اختیار کرتا ھے، اور دنیاوی و اُخروی خطرات سے محفوظ رکھتا ھے۔

گزشتہ کا علم اور آئندہ کی خبر ، دردوں کا علاج اور امور زندگی کا نظم قرآن مجید میں موجود ھے۔

پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے قرآن کی تبلیغ کے ذریعہ برے لوگوں کو نیک و صالح افراد بنادیا، اور جاھل عرب و حقیقت سے دور عجم کو جھنم کی آتش سے نجات دلادی، اور آخرت کی خوشبختی و سعادت اور بھشت کی سر حد تک پھنچا دیا۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ھیں:

”فَإِذَا الْتَبَسَتْ عَلَیْکُمُ الفِتَنُ کَقِطَعِ اللَّیْلِ المُظْلِمِ فَعَلَیْکُم بِالْقُرآنِ فَإِنَّہُ شَافِعٌ مُشَفَّعٌ وَمَاحِلُ مُصَدَّقٌ وَمَنْ جَعَلَہُ اٴَمَامَہُ قَادَہُ إِلَی الجَنَّةِ وَمَنْ جَعَلَہُ وَرَاءَ ہُ سَاقَہُ إِلَی النَّارِ“[20]

”جب فتنہ و فساد کی وجہ سے حقیقت کا پتہ نہ چل سکے، اس وقت قرآن کی طرف رجوع کرو، کیونکہ قرآن ایسا شفاعت کرنے والا ھے جس کی شفاعت مقبول ھے، اور ایسا شکایت کرنے والا ھے کہ اس کی شکایت (بھی) مقبول ھے، جو شخص قرآن کو اپنے لئے ھادی و رھبر قرار دے وہ اس کو بھشت میں لے جائے گا، اور اگر کوئی اس سے منھ موڑے تو اس کو جھنم میں ڈھکیل دے گا“۔

حضرت مام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ھیں:

”لَوْ مَاتَ مَنْ بَیْنَ المَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَمَا اسْتَوْحَشْتُ بَعْدَ اٴَن یَکُونَ القُرآنُ مَعِی“ [21]

” مغرب و مشرق کے رھنے والے اگر تمام افرادمرجائیں اور قرآن میرے ساتھ ھو تو مجھے کسی چیز کا خوف نھیں ھوگا“۔

جی ھاں ،امام سجاد علیہ السلام کے وجود میں توحید کی آیات تحقق پیدا کرچکی تھیں جس کی بنا پر دل کی آنکھوں سے خدا کا مشاھدہ کرتے تھے، اور اپنے ازلی و ابدی محبوب سے انس رکھتے تھے، اور اخلاق کی آیات باطن کے مشرق سے طلوع کرکے روشن و منور تھیں، آپ احکام و وظائف کی آیات پر مکمل طور پر عمل کیا کرتے تھے، اور ان کو نافذ کرنےمیں مکمل طور پر اخلاص کی رعایت فرماتے تھے، اور قیامت کے بارے میں موجود آیات سے اس قدر مانوس تھے کہ اپنے کو نجات کے بلند درجہ پر دیکھتے تھے ، تنھائی کے عالم میں بھی ذرہ برابر خوف و وحشت نھیں تھا۔

چنانچہ آپ کا ارشاد ھے:

”آیاتُ القُرآنِ خَزَائِنُ فَکُلَّمَا فُتِحَتْ خَزانَةٌ یَنْبَغِی لَکَ اٴَنْ تَنْظُرَ مَا فِیہَا“[22]

”قرآن مجید کی آیات (ایک عظیم) خزانہ ھے اور جس وقت خزانہ کھلتا ھے تو پھر اس کا غور سے دیکھا جاناضروری ھے “۔

قرآن کریم کی آیات میں غور و فکر کرنے والا اور عرفانی و ملکوتی معنی و مفاھیم تک پھنچنے والا ان پر عمل کرکے اپنے ظاھر و باطن کو قرآن مجید کے سانچے میں ڈھال لیتا ھے، جس کی وجہ سے قرب خدا تک پھنچنے کے لئے قدرت و طاقت حاصل کرلیتا ھے، اور قرآن کریم ( جو ذکر خدا ھے) کے ذریعہ قرب محبوب کی بارگاہ میں قرار پاتا ھے، اور اپنے دل کی آنکھ سے ھر وقت اس کے جمال کا نظارہ کرتا رہتا ھے اور زبان حال سے کہتا ھے:

تا مرا نور در بصر باشد بہ جمال ویم نظر باشد

نظری را کہ او کند نظری آن نظر کیمیا اثر باشد

کافرم گر بہ جنب رخسارش نظرم جانب دیگر باشد

( جب تک میری آنکھوں میں نور باقی رھے گا، اس کے حسن جمال کا نظارہ کرتا رھوں گا۔ اور اگر وہ مجھ پر ایک نظر کرلے تو اس کی یہ نظر کیمیاوی اثر رکھتی ھے۔ اگر میں اس سے نظر پھیر لوں تو میں کافر ھوجاؤں گا۔)

پیغمبر(ص) اور اھل بیت علیھم السلام

حضرت باقر العلوم علیہ السلام ایک بہت اھم روایت میں بہترین مطالب بیان فرماتے ھیں، مرحوم کلینی نے اس روایت کو اپنی گرانقدر کتاب ”کافی“ میں قرآن کی فضیلت میں پھلی روایت کے عنوان سے بیان کیا ھے جس میں قرآن مجید کی درج ذیل آیت کے بارے میں وضاحت کی گئی ھے:

” إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْہَی عَنْ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ وَلَذِکْرُ اللهِ اٴَکْبَرُ“[23]

”بیشک نماز ھر بُرائی اور بدکاری سے روکنے والی ھے اور اللہ کا ذکر بہت بڑی شئے ھے“۔

”وَنَحْنُ ذِکْرُ اللهِ وَنَحْنُ اٴَکْبَرُ“[24]

بے شک ”ذکر“ سے مراد پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور بارہ امام ھیں، وہ بارہ امام جو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ایمان واخلاق علم و معرفت اور بصیرت کے وارث ھیں۔

وہ بارہ امام جو مفسر قرآن، احکام بیان کرنے والے، محافظ دین اور خداوندعالم کی طرف حق کے امانتدار ھیں۔

وہ بارہ امام جو قرآن مجید کے عینی مصداق ، چراغ ھدایت، راھنمائے انسانیت اور دین و دنیا کی بھلائی دینے والے ھیں۔

ائمہ علیھم السلام حقائق کی طرف متوجہ کرنے والے، واقعیات کو واضح وروشن کرنے والے،علم و عرفان کا مخزن اور صفات الٰھی کا مظھر ھیں۔اور چونکہ ائمہ معصومین علیھم السلام قرآن ناطق ھیں لہٰذا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں: ”ھم ھی ذکر اللہ ھیں اور ھم ھی اکبر ھےں“۔

بے شک ائمہ علیھم السلام کی سرپرستی اور ان کی تعلیمات کو قبول کئے بغیرنیز حقیقی جانشین رسول کی اطاعت کئے بغیر، اور ان کی ولایت کے دائرہ میں آئے بغیر ؛ ایمان ناقص، اخلاق فاسد ، اعمال نامناسب، دنیا میں بے نظمی اور آخرت میں درد ناک عذاب تیار ھے۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنی آخری عمر میں یہ اعلان فرمایا: ”میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارھا ھوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میری عترت و اھل بیت، یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گی یھاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پھنچ جائیں گی، لہٰذا اگر تم ان دونوں سے متمسک رھے تو کبھی بھی میرے بعد گمراہ نہ ھوں گے“۔[25]

اس حقیقت پر توجہ کرنا ضروری ھے کہ اپنے دل کو برائیوں اور آلودگی سے پاک کرا، اس کو برائیوں سے دھونا، خداوندعالم کے صفاتِ علیا اور اسماء حسنیٰ کے معنی و مفھوم کو دل میں حاضر کرنا، ان عظیم حقائق و کریم مراتب کو شیاطین جن و انس سے محفوظ کرنا، ھمیشہ اس کے حضور میں حاضر ھونا اور ھر کام میں اسی پر توجہ رکھنا، اور کسی بھی موقع پر اس کی یاد سے غافل نہ ھونانیز اپنے تمام واجبات کو بجالانا، اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ھر نیک کام اور عوام الناس کی خدمت کرنا ؛ ”ذکرخدا“ ھے۔

بعض صاحبان دل، اور آب و گِل سے آزاد شدہ حضرات اور بعض عارفین نیزذکر کی طرف دعوت دینے والی قرآن مجید کی آیات ، اسی طرح معصومین علیھم السلام سے وارد شدہ احادیث میں کلمہ ”ذکر“ کو ان ھی باطنی حقائق اور اعمال میں شمار کیا گیا ھے، اسی طرح قرآن مجید کی آیات ، کلمات نبوت اور روایات معصومین علیھم السلام کے ذریعہ اپنی زندگی کو ڈھالنا ”ذکر“ کے کامل مصداق میں سے ھے۔

جی ھاں! قرب الٰھی کو ذکر خدا ھی کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا ھے،جیسا کہ گزشتہ حقائق کو ذکر کے عنوان سے بیان کیا گیا ھے، اور ذکر خد ا کے علاوہ ؛ قرب الٰھی حاصل کرنے کا کوئی راستہ نھیں ھے۔

قارئین کرام! ھمارے دل پر یاد خدا کی حکومت ھونا چاہئے، اور قرآن مجید کی آیات پر عمل کریں، اور دل وجان سے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی نبوت اور ائمہ معصومین علیھم السلام کی امامت کو قبول کرتے ھوئے ان کی پیروی کریں، تاکہ قرب الٰھی حاصل ھوجائے، اور مقربین الٰھی کے دائرہ میں شامل ھوجائیں، اور انس خدا اور اس کے احکامات کو جاری کرکے نیز پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور اھل بیت علیھم السلام کی ھمراھی کی شیرینی کا احساس کریں، جس کے بعد تمام ھی سعادت و خوشبختی کو اپنی آغوش میں لے لیں۔

جس وقت ھمارا یہ دل خداوندعالم کے اسماء و صفات کے معنی و مفھوم کا مظھر قرار پائے، اور ان معنی و مفاھیم کے آثار ھماری روح اور اعضاء و جوارح میں سے ظاھر ھونے لگےں، خوشبو دینے والی محبت اور آگ لگانے والا عشق (جو خود معرفت اسماء الٰھی کا بہترین ثمرہ ھے) ھمارے دل میں اپنا گھر بنالے اور ”اٴَشَدُّ حُبّاً لِلّہِ“[26]”ایمان والوں کی تمام ترمحبت خدا سے ھوتی ھے “ھمارے تمام وجود پر سایہ کرلے اور انسان اس آیت

”رِجَالٌ لَا تُلْھِیھِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَیْعٌ عِنْ ذِکْرِ اللّہِ“[27]

”وہ مرد جنھیں کارو بار یا دیگر خریدو فرخت ذکر خدا ،قیام نماز اور ادائے زکوةسے غافل نھیں کر سکتی “کا مصداق بن جائے جو خود ایک بلند وبالا مقام ھے تو پھر انسان مسند خلافت وجانشینی خدا پر بیٹھا ھوا نظر آتا ھے اور پھر قرب خدا کی شیرنی کی لذت حاصل کرتا ھے۔

یہ بلند و بالا مقام ھر جال میں پھنسانے والے شیطان سے محفوظ ھے اور جب انسان اس مقام پر پھنچ جاتا ھے تو پھر کوئی بھی طاقت اس کو خدا سے دور نھیں کرسکتی، اور اس نورانی مقام پر پھنچنے کے بعد وہ خدا کے علاوہ کسی اور کو نھیں پہچانتا، اور خدا کے علاوہ کسی غیر کو نھیں دیکھتا، خدا کے علاوہ کسی کو نھیں جانتا اور خدا کے علاوہ کسی کو نھیں پاتا ھے۔

سید العارفین، امام المتقین،اسوہ عاشقین، رھبر شیعیان، مقتداء بزرگان اپنے تمام وجود سے یہ عاشقانہ ترانہ زبان پر لاتا ھے:

” مَا رَاٴیْتُ شَیْئاً اِلَّا وَرَاٴیْتُ اللهَ قَبْلَہُ وَ مَعَہُ وَ بَعْدَہُ“۔

”میں نے کچھ نھیں دیکھا مگر یہ کہ اس سے پھلے اس کے بعد اس کے ساتھ خدا کو دیکھا ھے“۔

حضرت امام حسین علیہ السلام ، دامن معرفت اور علم و بصیرت کی آغوش کے تربیت یافتہ؛ اپنی انتھائی بھوک و پیاس اور مصائب و آلام کی حالت میں ۷۱ ٹکڑے ٹکڑے لاشوں کے درمیان اور اھل حرم کے درد ناک نالہ و شیون کی آواز کو سنتے ھوئے بارگاہ رب العزت میں سجدہ کی حالت میں زبان پر ان کلمات کو جاری کرتے ھیں:

”إلٰھی ! رَضاً بِقَضَائِکَ، صَبْراً عَلٰی بَلاٰئِکَ، تَسْلِیْماً لِاٴَمْرِکَ، لاٰ مَعْبُوْدَ لِیْ سِوَاکَ“۔

”خدا یا! تیری قضا پر اضی و خوشنود ھوں، تیرے امتحان پر صابر ھوں، تیرے حکم کے آگے تسلیم ھوں، تیرے علاوہ میرا کوئی خدا نھیں ھے“۔

”وَاٴَسْتَشْفِعُ بِکَ اِٴلٰی نَفْسِکَ“

” اور تیری ذات ھی کو تیری بارگاہ میں شفیع بنا رھا ھوں“۔

دعا کا یہ حصہ درج ذیل حقائق کو بیان کرتا ھے:

ا۔ دعا کرنے والا اپنے محبوب کے علاوہ دوسروںسے قطع تعقلق کرچکا ھے، اور اپنے دل کوتمام علل و اسباب سے موڑ لیا ھے، اور اپنے محبوب پر اپنی تمام تر قلبی توجہ کرکے دوسروں سے امید منقطع کرلی ھے، صرف اسی کی عنایت و الطاف سے دل خوش کئے ھوئے ھے، اور چونکہ شفیع ایسا ھو جس کی شفاعت مقبول ھو اور خدا کی شفاعت میں قبول نہ ھونے کا کوئی خوف نھیں ھے۔

لہٰذا خداوندعالم کی ذات کو اس کا شفیع قرار دے کر اس کی بارگاہ میں سائل بنا بیٹھا ھے۔

۲۔ اپنے کو گناھوں میں غرق فرض کرے اور گناھوں کے بوجھ ، گناھوں کی کثرت،نافرمانی کی زیادتی اور اپنے دامن کو عبادت و بندگی سے اس طرح خالی تصور کرے کہ شفاعت کرنے والوں کی شفاعت اس کو نصیب نہ ھوگی، اور دوسروں کی شفاعت کی قابلیت سے محروم ھے۔

صرف خدا ھے کہ اپنی مقدس ذات کے نزدیک اس کی شفاعت کرے، اور گناھوں کے جال سے نجات دے، اور عصیان و نافرمانی کے کنویں سے باھر نکالے، اورآثار گناہ کی سنگینی سے رھائی حاصل کرے، اور خداوندعالم کی رحمت و مغرفت کا مستحق قرار پائے۔ اسی وجہ سے دھڑکتے ھوئے دل، آنسو بھری آنکھوں اور پریشان حال کی طرح دست دعا اٹھائے اور مکمل طور پر تواضع و انکسار کے ساتھ کھے:

وَاٴَسْتَشْفِعُ بِکَ اِٴلٰی نَفْسِکَ۔

معنی شفاعت

صاحبان معرفت اس حقیقت پر توجہ رکھتے ھیں کہ شفاعت کے معنی:” کسی قدرت مند اور طاقتورموجود کا کسی ضعیف اور ناتواں وجود کی مدد کرنا ھے“؛ کہ یہ ناتواں موجود معرفت و ایمان اور عمل صالح و اخلاق حسنہ سے کسی حد تک مزین ھے، لیکن اس کی کمزوری گناھوں کا سبب بن گئی ھے، البتہ نہ ایسے گناہ جن سے ایمان و عمل اور معرفت کا چراغ بالکل ھی گُل ھوگیا ھو، بلکہ ایسے گناہ جن کے ذریعہ معنوی کمال تک پھنچنے کے لئے اس کے قدموں میں سستی پیدا ھوگئی ھو، اور بھشت تک پھنچنے سے محروم ھوگیا ھے۔ اور چونکہ خداوندعالم نے اپنے لطف و مھربانی کی بنا پر مقام شفاعت قرار دیا ھے تاکہ ایک طاقتور شفیع اپنی عزت و آبرو کے پیش نظر گناھگار مومن کی مدد کرتا رھے تاکہ انسان دنیاوی زندگی میں گناہ سے نجات حاصل کرے اور کمال ومعنویت کا راستہ انتخاب کرے، تاکہ کل روز قیامت گناھوں کے عذاب سے محفوظ ھوجائے۔

لہٰذا قیامت کے روزکفار، مشرکین، معاندین، منافقین اور ایمان و عمل صالح سے دور افراد کو شفاعت نصیب نھیں ھوگی؛ جیسا کہ قرآن مجید میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ھوا ھے:

” کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِینَةٌ . إِلاَّ اٴَصْحَابَ الْیَمِینِ . فِی جَنَّاتٍ یَتَسَائَلُونَ .عَنْ الْمُجْرِمِینَ .مَا سَلَکَکُمْ فِی سَقَرَ .قَالُوا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّینَ .وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِینَ. وَکُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِینَ .وَ کُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّینِ .حَتَّی اٴَتَانَا الْیَقِینُ. فَمَا تَنْفَعُہُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِینَ“[28]

”ھر نفس اپنے اعمال میں گرفتار ھے۔علاوہ اصحاب یمین کے۔وہ جنتوں میں رہ کر آپس میں سوال کر رھے ھوں گے۔مجرمین کے بارے میں ۔آخر تمھیں کس چیز نے جھنم میں پھنچا دیا ھے ۔وہ کھیں گے ھم نماز گزار نھیں تھے۔اور مسکین کو کھانا نھیں کھلایا کرتے تھے۔لوگوں کے بُرے کاموں میں شامل ھو جایا کرتے تھے۔اور روز قیامت کی تکذیب کیا کرتے تھے۔یھاں تک کہ ھمیں موت آگئی۔تو انھیں سفارش کرنے والوں میں سفارش بھی کوئی فائدہ نہ پھنچائے گی “۔

شفاعت ، کسی طاقتور شفیع کے کسی کمزور (ایسی کمزوری جس میں معنویت کے آثار اور مضبوط عملی طریقہ کار کا کسی حد تک حامل ھے)کی مدد کرنے کے معنی میں قیامت کے آخری مرحلہ میں انجام پائے گی، جس کی بنا پر مرد مومن کو آتش جھنم سے نجات مل جائے گی۔ یا آتش جھنم سے نکلنے کا سبب ھوگی۔ شفاعت کے اثر انداز ھونے کا سبب: خداوندعالم کی رحمت واسعہ، شفاعت کرنے والے کی خدا کے نزدیک عزت و عظمت اور شفاعت ھونے والے کی لیاقت ھے۔

شفاعتِ شافعین کے شرائط

قرآنی آیات اور اھل بیت علیھم السلام کی احادیث کی روشنی میں یہ بات واضح ھے کہ شفاعت کے امید وار کے لئے ایمان و عمل صالح کی دولت سے مالامل ھوناضروری ھے تاکہ اپنے نقائص، گناہ اورمعنوی خامیوں کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کے ذریعہ دنیا ھی میں جبران کرسکے، اوربھشت کی طرف حرکت کرنے میں اپنی ناتوانی اور کمزوری کا شفاعت کرنے والوں کی شفاعت سے علاج کرسکے؛ یا اگر اپنے عظیم گناھوں کی بنا پر دوزخ میں ڈال دیا گیا ھے تو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کی قدرت سے اپنے کو اس عذاب سے نجات دلاسکے۔

دنیا و آخرت کے شافعین

قرآنی آیات اور روایات سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ دنیا و آخرت کے شافعین( ان کی شفاعت انسان کی ھدایت اور رحمت و مغفرت اور بخشش کا سبب ھوتی ھے، اگر شفاعت کے امیدوار نے شفاعت ھونے کی لیاقت کو ختم نہ کرلیا ھو تو) یہ ھےں:ایمان، عمل صالح، توبہ، قرآن، انبیاء(ع)، ائمہ(ع)، شھداء، سچے مومنین اورعلماء ربّانی ۔

جس طرح کفارو مشرکین دنیا میں ان کی شفاعت(اور ھدایت) کے ذریعہ کفر و شرک اور غفلت سے نجات حاصل کرلیتے ھیں اور کفر و شرک سے نکل کر دائرہ ایمان و معرفت میں داخل ھوجاتے ھیں، اسی طرح قیامت میں بھی گناھوں سے پیدا ھونے والی ان خامیوں کو جن کو دنیا میں پوری نہ کرسکے ھوں، شافعین کی شفاعت کے ذریعہ عذاب خداوندی سے نجات حاصل کریں گے۔

لہٰذا اس معنی میں شفاعت جو تکوینی اور تشریعی لحاظ سے مخصوص شرائط رکھتی ھے؛ اسلامی اصول میں سے ایک اصل ھے جس کا منکر دائرہ اسلام سے خارج اور ظلمت کدہ کفر میں داخل ھوجاتا ھے۔

شفاعت ایمان

ارشاد الٰھی ھوتا ھے:

”یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِہِ یُؤْتِکُمْ کِفْلَیْنِ مِنْ رَحْمَتِہِ وَیَجْعَلْ لَکُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِہِ وَیَغْفِرْ لَکُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ “[29]

”ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور رسول پر واقعی ایمان لے آوٴتاکہ خدا تمھیں اپنی رحمت کے دھرے حصے عطا کردے اور تمھیارے لئے ایسا نور قرار دےدے جس کی روشنی میں چل سکو اور تمھیں بخش دے اور اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ھے “۔

شفاعت عمل صالح

” وَعَدَ اللهُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَہُمْ مَغْفِرَةٌ وَاٴَجْرٌ عَظِیمٌ“[30]

”اللہ نے صاحبان ایمان اور عمل صالح والوں سے وعدہ کیا ھے کہ ان کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ھے“۔

شفاعت توبہ

معاویہ بن وھب کہتے ھیں: میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا:

”جس وقت انسان خالص اور سچے دل سے توبہ کرتا ھے ، تو خداوندعالم اس سے محبت کرنے لگتا ھے اور دنیا و آخرت میں اس کے گناھوں پر پردہ ڈال دیتا ھے۔

میں نے سوال کیا کہ خدا کس طرح پردہ ڈال دیتا ھے؟

امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کے گناھوںکو لکھنے والے فرشتوں کو بھلا دیتا ھے، اور اعضاء و جوارح سے فرماتا ھے:

جو گناہ تمھارے ذریعہ انجام دئے ھیں ان کو چھپالو، اور جب توبہ کرنے والا انسان خدا کی بارگاہ میں حاضر ھوتا ھے تو اس کے خلاف گواھی دینے والا کوئی نھیں ھوتا۔[31]

شفاعت قرآن

حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ھیں:

”۔۔۔فَإِذَا الْتَبَسَتْ عَلَیْکُمُ الفِتَنُ کَقِطَعِ اللَّیْلِ المُظْلِمِ فَعَلَیْکُم بِالْقُرآنِ فَإِنَّہُ شَافِعٌ مُشَفَّعٌ وَمَاحِلُ مُصَدَّقٌ۔۔“۔[32]

”جس وقت فتنہ و فساد تم کو اندھیری رات کی طرح گھیر لیں اس وقت قرآن کی طرف رجوع کرو، (اس کی طرف مائل ھوجاؤ) کیونکہ قرآن ایسا شفیع ھے جس کی شفاعت مقبول ھے، اور ایسا شکایت کرنے والا ھے جس کی شکایت (بھی) قابل قبول ھے۔

قارئین کرام ! انبیاء، ائمہ ، شھداء ، سچے مومنین اور علماء ربّانی کی شفاعت کے بارے میں بہت سی احادیث درج ذیل کتابوں میں موجود ھیں:

۱۔ بحار الانوار ، تالیف علامہ مجلسی رحمة اللہ علیہ۔

۲۔ محجّة البیضاء، و دیگر اسلامی کتب۔

آپ حضرات مزید آگاھی کے لئے مذکورہ بالا کتابوں کی طرف رجوع کرسکتے ھیں۔[33]

”وَاٴَسْاٴَلُکَ بِجُودِکَ“

” اٴَنْ تُدْنِیَني مِنْ قُرْبِکَ،وَاَنْ تُو زِعَنِي شُکْرَکَ،وَاَنْ تُلْھِمَنِي ذِکْرَکَ“

” اور تیرے کرم کے سھارے میرا سوال ھے کہ مجھے اپنے سے قریب بنالے اور اپنے شکر کی توفیق عطا فرما اور اپنے ذکر کا الھام کرامت فرما “۔

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام دعا کے ان نورانی جملوں میں عارفین و سالکین کے تین مھم عظمتوں کا سوال کرتے ھیں:

۱۔ مقام قرب تک پھنچنا۔

۲۔ مقام شکر تک پھنچنا۔

۳۔مقام ذکر تک پھنچنا۔

بے شک ان تینوں مقام کا حاصل کرنا؛ بغیر خدا کے لطف و کرم اور بغیر اس کی بخشش و سخاوت اور کبریائی کے ممکن نھیں ھے۔

اگر وہ شوق و رغبت اور عمل انجام دینے کا حوصلہ سالکین کو نہ بخشے ، اور انسان کو ان روحانی مقامات تک پھنچنے کے اسباب عطا نہ کرے اور اس کی کبریائی راہ گیر کی مدد نہ کرے اور اپنے ضرورت مند بندے کو تاریک اور نورانی پردوں سے گزرنے کے لئے مدد نہ کرے، اور اس کو منزل بمنزل مقام بمقام آگے نہ بڑھائے، تو انسان ان بلند ترین معنوی مقامات تک نھیں پھنچ سکتا؛ اسی وجہ سے دعا کرنے والا خدا کے جود و کرم کو وسیلہ قرار دیتا ھے تاکہ ان صفات کے زیر سایہ اس کی زندگی کے تمام امور ان گزشتہ تینوں مقام پر پھنچ جائےں۔

خداوندعالم کے جود و کرم کی ایک جھلک، ان دو صفات کے آثار پر تھوڑی سی توجہ او رانسان کی زندگی پر ان کا جلوے دیکھنے کے لئے ضروری ھے کہ ھم حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظیم الشان دعائے ”عرفہ“ کے فقرات پر غور و فکر کریں تاکہ اس حقیقت سے آگاہ ھوجائیں کہ اس کے جود و کرم سے وابستہ ھوکر دوسرے سے جدا ھوکر معنوی مقامات تک پھنچا جاسکتا ھے:

”پس تیرے لئے حمد و شکر ھے اے وہ خدا جس نے میری لغزش سے درگزر کیا او رمیری مصیبت کو دور کیا اور میری دعا کو قبول کیا اور میرے عیب کو چھپادیا اور میرے گناھوں کو بخش دیا اور میری حاجت کو عطا کیا او رمیرے دشمن کے مقابلہ میں میری مدد کی او راگر میں تیری نعمت و احسان او رکرم کی بارش کو شما کروں تو احصاء نھیں کرسکتا، اے میرے مولا! تو نے ھی احسان کیا ھے تو نے ھی نعمت دی ھے تو نے ھی نیکی سے نوازا ھے تو نے ھی خوبی عطا کی ھے تو نے ھی فضیلت دی ھے تو نے ھی مکمل کیا ھے تو نے ھی رزق دیا ھے تو نے ھی توفیق دی ھے تو نے ھی عطا کیا ھے تو نے ھی مالدار بنایا ھے تو نے ھی سرمایہ دار بنایا ھے تو نے پناہ دی ھے تو ھی کافی ھوا ھے تو نے ھی ھدایت کی ھے تو نے ھی محفوظ کیا ھے تو نے ھی چھپایا ھے تو نے ھی معاف کیا ھے تو نے ھی درگزر کیا ھے تو نے ھی قدرت دی ھے تو نے ھی عزت دی ھے تو نے ھی مدد کی ھے تو نے ھی اعانت کی ھے تو نے ھی تائید کی ھے تو نے ھی نصرت کی ھے تو نے ھی شفا دی ھے تو نے ھی عافیت دی ھے تو ھی وہ ھے جس نے مکرم کیا۔“۔[34]

اسی طرح خداوندعالم کے جود و کرم کے ایک گوشہ کو دیکھنے کے لئے دعاء ”ابو حمزہ ثمالی“ کے نورانی جملوں کو دل کی آنکھوں سے دیکھیں اور غور وفکر کریں جن کے ذریعہ حضرت امام زین العابدین علیہ الصلوٰة و السلام ماہ مبارک رمضان کی راتوں میں خدا سے مناجات فرماتے تھے:

”میں وہ بچہ ھوں جس کو تو نے پالا ھے، میں وہ جاھل ھوں جس کو تو نے علم دیا ھے، وہ میں گمراہ ھوں جس کی تو نے ھدایت کی ھے، میں وہ بے عزت ھوں جس کو تونے عزت دی ھے، اور میں وہ خائف ھوں جس کو تو نے امان دی ھے، میں وہ بھوکا ھو جس کو تو نے سیر کیا ھے ، اور میں وہ پیاسا ھوں جس کو تونے سیراب کیا ھے، اور وہ برھنہ ھوں جس کو لباس پھنایا ھے اور وہ فقیر ھوں جس کو مالدار کیا ھے اور وہ کمزور ھوں جس کو تو نے طاقت ور بنایا ھے اور میں وہ ذلیل ھوں جس کو تو نے عزت دی ھے اوروہ بیمار ھوں جس کو تو نے شفا دی ھے اور وہ سائل ھوں جس کو تونے عطا کیا ھے اورمیں وہ گناھگار ھوں جس کی تونے پردہ پوشی کی ھے اور میں وہ خطاکار ھوں جس کے گناہ کو معاف کیا ھے اور میں وہ کم ھوں جس کو تو نے زیادہ کیا ھے، اور وہ مستضعف ھوں جس کی تو نے مدد کی ھے اور میں وہ آوارہ ھوں جس کو تو نے پناہ دی ھے“۔[35]

جی ھاں! عارف ان دو وسیلوں کے ذریعہ اور ان دو اسباب(بے نھایت جود و کرم) سے متصل ھوکر مقام قرب، مقام شکر اور مقام ذکر تک پھنچ سکتا ھے، اور مقربین، شاکرین اور ذاکرین کے دائرہ میں شامل ھوسکتا ھے۔

مقام قرب

سالکین اور عارفین کے لئے یہ مقام سب سے بلند اور آخری مرتبہ ومقام ھے، جس خدا کے جود و کرم کی وجہ سے عابد و سالک اپنی زندگی میں اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ کو اپنا شعار بناتا ھے،اور برائیوں سے پرھیز کرتا ھے، اور اپنے ایمان و اعمال صالحہ میں اضافہ کرتا ھے، المختصر : خداوندعالم کی مکمل اطاعت اور پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) و ائمہ معصومین علیھم السلام کی کامل طور پر پیروی ، اولیاء اللہ کی صحبت اور اپنے نفس کے محاسبہ و مراقبت سے اس خضوع و خشوع اور خلوت و جلوت کو حاصل کرتا ھے۔

یقینا عبادت و اطاعت کے ذریعہ ھر عاشق انسان قرب خدا تک پھنچ سکتا ھے، اور جب عبادت گزار و فرمانبردار بندہ اس مقام پر پھنچ جاتا ھے تو حقیقت توحید اس کے پورے وجود میں رچ بس جاتی ھے اور اس کے ایمان و عقیدہ میں ما سوای اللہ فانی ھوجاتے ھیں، جس کی بنا پر خدا کی خلافت و جانشینی کی مسند پر خدا کے اذن سے تکیہ لگاکر بیٹھ جاتا ھے اور خداوندعالم کی توفیق سے اپنی بساط کے مطابق خداکے کاموں کو انجام دیتا ھے، جیسا کہ حدیث قدسی[36] میں خداندعالم فرماتا ھے:

”عَبدِی! اٴَطِعنِی حَتَّی اٴَجْعَلَکَ مِثْلی،اٴَقولُ لِشَیءٍ: کُنْ،فَیَکُونُ۔تَقُولُ لِشَیءٍ: کُنْ، فَیَکُون“[37]

”اے میرے بندے ! میری اطاعت کر، تاکہ تجھے (ارادہ و قدرت) کے لحاظ سے اپنا ایک نمونہ بنادوں، اور جب میں ”کُن“ کہہ دیتا ھوں تو وہ چیز (پیدا) ھوجاتی ھے، تو بھی جب کسی چیز کے لئے ”کُن“ کھے گا وہ بھی بے دھڑک ھوجائے گی“۔

ایک دوسری حدیث میں بیان ھوا ھے:

”اٴَنَا مَلِکٌ حَیٌّ لَااٴَمُوتُ اٴَبَداً،عَبدِی اٴَطِعْنِی اٴَجْعَلْکَ مَلِکاً حَیّاً لَایَمُوتُ اٴَبَداً“[38]

”میں ایک ایسا زندہ بادشاہ ھوں جس کے لئے موت نھیں ھے، اے میرے بندے! تو (فقط) میری اطاعت کر، تاکہ تجھے بھی ایک ایسا بادشاہ بنادوں جس کے لئے(بھی) کبھی موت نہ ھو“۔

علماء اھل معرفت کا عقیدہ ھے: تمام عبادات و طاعات چاھے بدنی و قلبی طاعات ھوںاور چاھے عبادت ظاھری و باطنی ؛ سب کامقصد قرب خدا تک پھنچنا ھے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص عبادت و اطاعت کو قصد قربت کے ساتھ تمام شرائط کا لحاظ کرتے ھوئے انجام دے تو وہ اس بلند ترین اور عظیم ترین مقام پر پھنچ جاتا ھے، اور اس کا ارادہ؛ ارادہ پروردگار میں فانی (اور غرق) ھوجاتا ھے، اور اس کے اندر خدا کے ارادہ کے علاوہ کچھ باقی نھیں رہتا، لہٰذا وہ جب بھی چاھے خدائی امور انجام دے سکتا ھے۔جس وقت عابد مخلص عبادت و اطاعت میں خدا کی طرف قدم بڑھاتا ھے، تو خداوندعالم کی رحمت ، اسماء حسنیٰ اوراس کے بلند صفات بہت تیزی سے اس عابد کے نزدیک ھوجاتی ھیں، جیسا کہ حدیث قدسی میں وارد ھوا ھے:

”مَن تَقَرَّبَ إِلَیَّ شِبْراً تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ ذِرَاعاً،وَمَنْ تَقَرَّبَ إِلَیَّ ذِرَاعاً تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ بَاعاً،مَنْ اٴَتَانِی مَشْیاً اٴَتَیْتُہُ ہَرْوَلَةً“[39]

”جو شخص مجھ سے ایک بالشت نزدیک ھوگا تو میں اس سے ایک ذراع[40]نزدیک ھوں گا، اور اگر کوئی شخص مجھ سے ایک ذراع نزدیک ھوگا میں اس سے ایک باع [41]نزدیک ھوجاؤں گا، اور جو شخص میری طرف قدم بڑھاتے ھوئے آئے گا تومیں اس کی طرف دوڑکر آؤں گا!“

جی ھاں! اطاعت و عبادت کا نتیجہ یہ ھے کہ غلام آقا سے نزدیک ھوجاتا ھے اور آقا؛ غلام سے نزدیک ھوجاتا ھے، جس کا نام قرآنی آیات و روایات معصومین علیھم السلام میں ”مقام قرب“ رکھا گیا ھے اور اس مقام تک پھنچنے والوں کو ”مقربین“ کھا گیا ھے۔

صاحب دل حضرات ، مقربین کے تمام افعال و صفات کو افعال و صفات خدا میں فانی جانتے ھیںاور ارادہ مقربین کو ارادہ خدا شمار کرتے ھیں، نیز مقربین کی گفتگو کو کلام خدا حساب کرتے ھیں۔ مقربین کے سلسلہ میں صاحبان دل (علماء) کا نظریہ احادیث قدسی اور حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ائمہ معصومین علیھم السلام سے نقل شدہ دیگر احادیث سے مستفاد ھے۔

جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:

”إِنَّ اللهَ یَقولُ:لا یَزَالُ عَبدٌ یَتَقَرَّبُ إِلَیَّ بِالنَّوافِل حَتَّی اٴُحِبَّہُ،فَاٴکونُ اٴَنا سَمْعَہُ الَّذِی یَسْمَعُ بِہ،وَبَصَرَہُ الَّذِی یُبْصِرُبِہِ،وَلِسَانَہُ الَّذِی یَنْطِقُ بِہِ،وَقَلْبَہُ الَّذِی یَعْقِلُ بِہِ،فَإِذَا دَعَانِی اٴَجَبْتُہ،وَإِذَا سَاٴَلَنِی اٴَعْطَیْتُہُ“[42]

”خدا فرماتا ھے: میرا بندہ نافلہ نمازوں کے ذریعہ میرا تقرب حاصل کرنا چاہتاھے تاکہ میں اس کو دوست رکھوں، تو اس وقت میں اس کا کان ھوجاؤں گا جس سے وہ سنتا ھے اور اس کی آنکھ ھوجاؤں

گا جس سے وہ دیکھتا ھے، اور اس کی زبان ھوجاؤں گا جس سے وہ گفتگو کرتا ھے، اور اس کا دل ھوجاؤں گا جس سے وہ غور و فکر کرتا ھے، لہٰذا جب وہ آواز دے گا تو میں اس کو جواب دوں گا اور جب مجھ سے کچھ طلب کرے گا تو میں اس کو عطا کردوں گا“۔

”قَالَ النَّبِی ُّ(ص): کَلامُ الْمُتَّقِیْنَ بِمَنْزِلَةِ الوَحْیِ مِنَ السَّمآءِ،إِذَا وُجِدَتْ کَلِمَةٌ عَلَی لِسَانِ بَعضِہِم فَقِیلَ لَہُ:مَن حَدَّثَکَ بِہَذِہِ؟ فَیَقولُ:حَدَّثَنِی قَلْبِی عَنْ فِکْرِی عَنْ سِرِّی عَنْ رَبِّی“[43]

”حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ارشاد فرماتے ھیں : متقین کا کلام آسمانی وحی کے برابر ھے، جب ان میں سے بعض افراد کی زبان سے الفاظ نکلتے ھیں، تو ان سے کھا جاتا ھے کہ یہ باتیں کس کی ھیں ( گویا یہ کلام خدا کا کلام ھے) تووہ کہتا ھے : ”میرا دل میری فکر سے ھے اور میری فکر باطن کی گھرائی سے ھے اور باطن کی گھرائی سے میرے پروردگار نے مجھ سے گفتگو کی ھے!“

قارئین کرام ! اس مقام کے سب سے اعلیٰ مرتبہ پر حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فائز تھے، اسی وجہ سے فرماتے تھے:

”مَن رَآنِی فَقَدْ رَاٴَی الحَقَّ“[44]

”جس نے مجھے دیکھا بے شک اس نے حق کو دیکھا“۔

نیز آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ھے:

”لِی مَعَ اللهِ وَقْتٌ لَا یَسَعُنِی فِیْہِ مَلَکٌ مُقَرَّبٌ وَلَانَبِیٌّ مُرْسَلٌ“[45]

”میرے لئے خدا کی طرف سے ایک معین وقت ھے جس میں کوئی بھی فرشتہ یا پیغمبر یا مرسل اس وقت میں میرے ساتھ شریک نھیں ھوسکتا“۔

پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بعد اس مقام کا سب اعلیٰ مرتبہ مولائے عارفین حضرت امیر المومنین علیہ السلام کاھے، آپ فرماتے ھیں:

”مَعْرِفَتِی بِالنُّورانِیَّةِ مَعْرِفَةُ الله“[46]

”خدا کے بارے میں میری معرفت ،باطن کی نورانیت کی بنا پر ھے“۔

جلال الدین رومی ، حضرت نوح علیہ السلام ، جو خود خدا کے مقرب بندوں میں سے تھے؛کے فنا فی اللہ کو بیان کرتے ھیں:

گفت نوح ای سرکشان من من نیم

من زجان مُردم بہ جانان می زِیم

چون بمُردم از حواس بو البشر

حق مرا شد سمع و اداراک و بصر

چون کہ من من نیستم این دم زھوست

پیش این دم ھر کہ دم زد کافر اوست[47]

(جناب نوح نے اپنی سرکش قوم سے کھا: میرا اپنا کوئی وجود نھیں ھے،میں اپنی جان سے مرگیا ھوں لیکن جان جانان (خدا) کے وجود سے زندہ ھوں۔

جب میں نے ھوائے نفس کی مخالفت کی تو خدا کی سمع و بصیرت اور ادراک میرے نصیب ھوگئی۔

چونکہ میں فنا فی اللہ ھوں، لہٰذا میرا کوئی وجود نھیں ھے جو کچھ ھے وہ خدا کا ھے اور جو شخص ”میں“(انانیت) کا نعرہ لگائے گا وہ ایک لحاظ سے کافر ھے)

کرامات مقربین

۱۔ کرامت حاج سید علی قاضی

استاد بزگوار مرحوم آیت اللہ حاج شیخ ابو الفضل نجفی خوانساری جن کی خدمت میں چند سال ”خارج اصول و فقہ “ کے درس میں حقیر نے شرکت کی ھے،ان کے انتقال سے چند ماہ پھلے ان کی عیادت کے لئے مشرف ھوا، احوال پرسی کے بعد میں نے عرض کیا کہ اگر آپ کو اپنے استاد بزگوارعارف باللہ مرحوم حاج سید علی قاضی کی کوئی کرامت یاد ھو تو بیان فرمائیں، تو موصوف نے فرمایا:

ایک روزھم چند شاگرد استاد کے ساتھ مسجد کوفہ میں اعمال و عبادت اور مناجات کے لئے گئے، استاد کے ساتھ عبادت میں مشغول ھوگئے، اور خداوند ِبے نیاز کی بارگاہ میں راز و نیاز کرنے لگے۔ جب اعمال و عبادت کے بعد مسجد سے باھر نکلنے لگے ، اچانک ایک خطرناک اژدھا ھمارے درمیان دکھائی دیا، سوائے استاد کے سبھی لوگ بہت خوف زدہ ھوگئے لیکن استاد بڑے اطمینان و سکون سے کھڑے رھے، استاد اپنے اسی مخصوص اطمینان و آرام کی حالت میں سانپ کی طرف متوجہ ھوئے اور کھا:

”اے سانپ! مرجا“ اور دیکھتے ھی دیکھتے وہ سانپ ایک سوکھی لکڑی کی طرح خشک ھوگیا۔ ھم مطمئن ھوگئے اور مسجد سے باھر نکل گئے۔

جیسے ھی چند قدم چلے تھے ھم میں سے ایک شخص اس واقعہ سے اطمینان حاصل کرنے کے لئے واپس پلٹا تاکہ دیکھے کہ واقعاً وہ سانپ استاد کے حکم سے مرچکا ھے یا نھیں؟ اور جاکر سانپ پر پیر مارا، تو دیکھا کہ واقعاً سانپ مرا ھوا ھے،اور وھاں سے واپس آگئے، ھم سب لوگ نجف کی طرف جارھے تھے، اچانک استاد نے اس شخص کی طرف رخ کیا اور فرمایا:

”سانپ میرے کھنے سے مرچکا تھا، تمھیں وھاں جاکر دیکھنے کی ضرورت نھیں تھی، کیا تم یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ میرا قول موثر ھوا یا نھیں“!!

۲۔ ایک صاحب دل کی حکایت

حکایت کنند از بزرگان دین حقیقت شناسان عین الیقین

کہ صاحبدلی بر پلنگی نشست ھمی راند رھوار وماری بہ دست

یکی گفتش: ای مرد ارہ خدای بہ دین رہ کہ رفتی مرا رہ نمای

چہ کردی کہ درّندہ رام تو شد نگین سعادت بہ نام تو شد

بگفت ارپلنگم زبون است ومار وگر پیل وکرکس شگفتی مدار

تو ھم گردن از حکم داور مپیچ کہ گردن نہ پیچد زحکم تو ھیچ

چو حاکم بہ فرمان داور بود خدایش نگھبان و یاور بود

محال است چون دوست دارد تو را کہ در دست دشمن گزارد تورا

رہ این است روی از طریقت متاب بنہ گام وکامی کہ داری بیاب

نصیحت کسی سودمند آیدش کہ گفتار ”سعدی“ پسند آیدش[48]

ترجمہ حکایت: ((بزرگان دین، عین الیقین رکھنے والے اور عرفاء حکایت کرتے ھیں: کہ ایک عارف چیتے پر سواری کئے ھوئے تھا اور اس کے ھاتھ میں چابک کی جگہ سانپ تھا، ایک شخص نے کھا: اے مرد مومنِ راہ خدا! تو اس بلند مقام پر کیسے پھنچا ھے ؟ مجھے بھی اس کی راھنمائی کر، تو نے کیا کارنامے انجام دئے ھیں جس کی وجہ سے درندے تیرے مطیع ھوگئے ھیں اور یہ سعادت و خوشبختی تیرے نام ھوگئی ھے؟!

تو اس نے کھا: تو چیتے کی سواری، سانپ کا ھاتھ میں ھونے اور ھاتھی وغیرہ جیسے درندوں کے فرمانبردار ھونے سے پریشان اور تعجب میں پڑگیا، تو بھی اگر خدا کے فرمان کے مطابق حکم کرے تو خدا تیری نصرف و حفاظت کرے گا، اگر تجھے خدا دوست رکھے تو محال ھے کہ وہ تجھے دشمن کے حوالے کردے، یھی ایک سیدھا راستہ ھے اس راستے سے تو روگردانی نہ کر اور قدم آگے بڑھائے رکھ انشاء اپنے مقصد پر ضرور پھنچ جائے گا۔

یہ پند و نصیحت اسی کو سودمند ھوسکتی ھے جسے سعدی کی گفتار پسند ھو۔))

۳۔ میرزا طاھر تنکابنی سے نقل شدہ حکایت

میرزا طاھر تنکابنی بزرگ حکماء اور فلاسفہ میں سے تھے، موصوف فرماتے تھے:

میں مدرسہ سپھسار، میدان بھارستان تھران سے کسی کام کے لئے باھر نکلا، سڑک کے اس طرف ایک سید کو دیکھا، مجھے ان کا چھرہ پہچانا ھوا لگا میں نے غور کیا تو یاد آیا کہ وہ پھلے میرے ھم درس تھے، ان کے پاس گیا، سلام و احوال پرسی کے بعد ان سے سوال کیا کہ کیا کررھے ھیں؟ انھوں نے جواب دیا: یونھی بے کار گھوم رھا ھوں، میں نے ان سے کھا کہ آؤ آج ھمارے مدرسہ میں مھمان ھوجاؤ، چنانچہ وہ آگئے، سردی زیادہ پڑرھی تھی،وہ سید کرسی کے پاس بیٹھ گئے،میں نے ان کے لئے چائے بنائی، موصوف نے چائے پینے کے بعد مجھ سے کھا: کیا تم میرے ساتھ قم چلنا پسند کرو گے؟ میں نے کھا ٹھنڈک بہت زیادہ ھے،اور اس وقت قم جانے کے لئے کوئی سواری بھی نھیں ملے گی، لیکن انھوں نے مجھ سے اصرار کیا ، میں نے کھا: اچھا ٹھیک ھے ، چلتے ھیں، اچانک انھوں نے کھا: یہ ھے قم!! میں نے دیکھا تو حضرت معصومہ (س) کے حرم مبارک میں ھوں، (مجھے بہت تعجب ھوا ) تو میںنے اپنے اطمینان کے لئے ایک سجدہ گاہ حرم سے اٹھاکر اپنی جیب میں رکھ لی، جب زیارت سے فارغ ھوئے تو موصوف نے کھا: تھران، فوراً ھی میں نے دیکھا کہ ھم اپنے کمرہ میں کرسی کے پاس بیٹھے ھوئے ھیں۔

۴۔جابر جعفی کی دو کرامتیں

جابر جعفی، جن کو حضرت امام صادق علیہ السلام نے اپنے پدربزرگوار امام باقر علیہ السلام کے دنیا و آخرت کے مقربین اور اصحاب میںسے بتایا ھے، کچھ لوگ جابر کے پاس آئے اور ان سے مسجد کی تعمیر کے لئے مدد مانگی۔ جابر نے کھا: میں اس مسجد کی مدد نھیں کروں گا جس کے نیجے دب کر ایک مرد مومن کی جان جائے! ! جابر کا یہ جواب سن کر وہ لوگ چل دئے لیکن جاتے جاتے دو تھمتیں لگاکر گئے کہ: ایک تو تم بخیل ھو او ردوسرے جھوٹے! دوسرے روز کچھ چندہ حاصل کرکے مسجد کی تعمیر شروع کردی، شام کے وقت معمار اپنی بے احتیاطی کی وجہ سے اوپر سے نیچے گرگیا اور گرتے ھی مرگیا، اس حادثہ کو دیکھ کر ان لوگوں نے بخوبی سمجھ لیا کہ وہ مومن بندہ (جابر جعفی) نہ بخیل ھیں اور نہ جھوٹے۔[49]

علاء بن شریک کہتے ھیں: ھشام بن عبد الملک نے جابر جعفی کو اپنے پاس بلایا، اور میں بھی اس سفر میں ان کے ساتھ تھا، راستہ میں ایک جنگل میں ایک چرواھا گوسفند چرا رھا تھا اس کے پاس بیٹھ گئے، اچانک ایک(مادہ) گوسفند کی آواز آئی، چنانچہ اس کی آواز سن کر جابر جعفی مسکرانے لگے، میں نے ان سے مسکرانے کا سبب پوچھا تو انھوں نے کھا: اس گوسفند نے اپنے بچہ سے کھا کہ وھاں سے آجاؤ، کیونکہ سال گزشتہ میرا پھلا بچہ ایک بھیڑیے نے اٹھا لیا تھا!! میں نے کھا: واقعاً تعجب کی بات ھے، اس بات کی تصدیق ابھی کرتا ھوں، اور میں نے اس چرواھے سے کھا کہ اس گوسفند کو فروخت کرو گے؟ اس نے کھا نھیں، میں نے کھا: کیوں؟

اس نے جواب دیا کہ یہ گوسفند میرے گلے میں سب سے زیادہ زاد و ولد کرتی ھے اور سب سے زیادہ دودھ دیتی ھے، گزشتہ سال اس کے ایک بچے کو بھیڑیا لے گیا تھا، اور اس کا دودھ خشک ھوگیا تھا، اس سال اس نے بچہ دیا ھے تو اس کے پستان میں دودھ بھرا ھوا ھے۔

میں نے کھا کہ واقعہ بالکل درست ھے۔

ھم دونوں وھاں سے چل دئے، اور جب کوفہ کے پُل پر پھنچے ، وھاں پر ایک شخص سے ملاقات ھوئی جو یاقوت کی انگوٹھی پھنے ھوئے تھا، جابر جعفی نے اس سے کھا: آپ کی انگوٹھی کا یاقوت بہت برّاق ھے، اس نے ھاتھ سے انگوٹھی نکالی اور جابر کو دیدی، جناب جابر نے اس انگوٹھی کو موجیں مارتے ھوئے دریائے فرات میں ڈال دیا، وہ شخص پریشان ھوکر کھنے لگا: یہ آپ نے کیا کیا؟ جناب جابر نے کھا کہ کیا تم اپنے انگوٹھی واپس لینا چاہتے ھو؟ اس نے کھا: جی ھاں! جناب جابر جعفی نے پانی کی طرف اپنا ھاتھ بڑھایا اور پانی اوپر آتا چلا گیا، یھاں تک کہ ان کے ھاتھ کے نزدیک پھنچ گیا، اور انھوں نے وہ انگوٹھی اٹھاکر اس شخص کو واپس کردی۔[50]

مقام شکر

یہ مقام (بھی) ایک بہت اھم مقام ھے جس تک پھنچے کے لئے عرفاء و عابدوں نے بہت زیادہ تاکید کی ھے۔

اس مقام کی عظمت اور برتری اس حد تک ھے کہ اس مقام تک بہت ھی کم افراد پھنچتے ھیں:

”۔۔۔وَقَلِیْلٌ مِن عِبَادِیَ الشَّکورُ“[51]

”اور بندوں میں بہت ھی کم شکر گزار ھیں“۔

محدث بزگوار و کم نظیر مرحوم علامہ محمد باقر مجلسی علیہ الرحمہ شکر کے معنی کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

”الشُکْرُ الاعْتِرافُ بِالنِّعْمَةِ ظَاہِراً وَباَطِنًا وَمَعْرِفَةُ المُنْعِم وَصَرْفُھا فِیْمَا اٴَمَرَ بِہِ“[52]

”شکرکے معنی یہ ھیں کہ انسان ظاھری اور باطنی نعمتوں کا اقرار کرے، نعمت عطا کرنے والے کی معرفت حاصل کرے، اور اس نعمت کو اسی لحاظ سے استعمال کرے جس طرح اھل نعمت کا وظیفہ معین کیا گیا ھے“۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ھے:

”شُکْرُ النِعْمَةِ اِجْتِنَابُ الْمَحَارِمِ“ [53]

”گناھوں سے اجتناب کرنا؛ نعمتوں کا شکر ھے“۔

حضرت سید الشھداء امام حسین علیہ السلام شب عاشوراپنے خطبہ کے اختتام پر بارگاہ رب العزت میں درخواست فرماتے ھیں:

”فَجَعَلَنَا مِنَ الشَّاکِرِیْنَ “[54]

”پالنے والے ھمیں شکر کرنے والوں میں قرار دے“۔

راغب اصفھانی صاحب کہتے ھیں: شکر کے تین مرتبہ ھیں: قلبی، زبانی اور عملی۔

شکر قلبی:نعمت او رمنعم (نعمت دینے والے) کی معرفت حاصل کرنا۔

شکر زبانی: انسان نعمت کا اقرار اور اعتراف کرنا۔

شکر عملی:خدا کے حکم کے مطابق اس نعمت کا استعمال کرنا۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ھے کہ خداوندعالم نے حضرت موسیٰ پر وحی نازل کی:

یَا مُوسیٰ !اٴَشْکُرنِی حَقَّ شُکْرِی۔فَقَالَ :یَا رَبِّ ! وَکَیْفَ اٴَشْکُرُکَ حَقَّ شُکْرِکَ وَلَیْسَ مِن شُکْرِکَ اِٴلاَّوَاٴَنْتَ اٴَنْعَمْتَ بِہِ عَلَیَّ ؟قَالَ : یَامُوسٰی !الٓانَ شَکَرْتَنِی حَیث عَلِمْتَ اٴَنَّ ذَلِکَ مِنّی“[55]

”اے موسیٰ! ایسا شکر کرو جو میری شان کے مطابق ھو، جناب موسیٰ نے سوال کیا: پروردگارا! تیری شان کے مطابق شکر کیسے کروں؟ حالانکہ میں جب بھی تیری نعمت کا شکر بجالاتا ھوں تو شکر گزاری کے لئے بھی زبان تو نے ھی عطا کی ھے۔ آواز قدرت آئی: اے موسیٰ! یھی میرا شکر ھے کہ تم نے کھا کہ شکر ادا کرنے والی زبان بھی تیری عطا کردہ ھے“۔

حضرت امام حسین علیہ السلام دعائے عرفہ میں عرض کرتے ھیں:

”وَلَوْ حَرَصْتُ اٴَنَا وَالعادُّونَ مِن اٴنامِکَ اٴن اُوٴَدِّیَ شُکرَوَاحِدَةٍ مِنْ اٴنعُمِکَ مَا اسْتَطَعْتُ إِلاَّ بِتَوفِیقِکَ“[56]

”اگر میں اور جو لوگ تیری نعمتوں کو شمار کرنا چاہتے ھیں سب مل تیری ایک نعمت کا شکر بجالانا چاھےںتو نھیں بجالاسکتے مگر تیری (ھی) توفیق سے“۔

حضرت داؤد علیہ السلام نے بارگاہ رب العزت میں سوال کیا:

یَا رَبِّ ! کَیْفَ اٴَشْکُرُکَ وَالشُّکْرُ نِعْمَةٌ اٴُخْریٰ مِنْکَ اٴحْتَاجَ إلَیْہَا إلٰی شُکْرٍ آخَرٍ؟ فَقَالَ اللهُ: یَا دَاوُدُ إذَا عَلِمْتَ اٴَنَّ مَا بِکَ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنِّی، فَقَدْ شَکَرْتَنِی“۔

”پروردگارا! کس طرح تیرا شکر کروں، حالانکہ تیری نعمتوں پر شکر کرنا بھی ایک دوسری نعمت ھے جس کا دوبارہ شکر ادا کرنا ضروری ھے۔ آواز قدرت آئی: یا داوٴد! اگر تم یہ جان لو کہ جو نعمت بھی تمھارے پاس ھے وہ میری طرف سے ھے، وھی میراشکر ھے“۔

اس طرح کی روایات زبانی شکر کو بیان کرتی ھیں، لیکن شکر کا سب سے بلند مرتبہ ” عملی شکر“ کاھے اور وہ یہ ھے کہ حقیقی طور پر ایمان حاصل کرنا، اعمال صالح انجام دینا، اخلاق حسنہ سے آراستہ ھونا اور محرمات الٰھی سے دوری اختیار کرنا۔

شکر کرنے والے بندے کا ایک حیرت انگیز واقعہ

سمع بن عبد الملک کہتے ھیں:

میں سر زمین منیٰ میں حضرت امام صادق علیہ السلام کے ساتھ بیٹھا ھوا انگور کھا رھا تھا ، اچانک ایک فقیر آیا اور اس نے حضرت سے مدد چاھی، حضرت نے مجھ سے کھا کہ اس کو کچھ انگور دیدو، جب میں نے اس کو انگور دینا چاھے تو اس نے لینے سے انکار کردیا اور کھا کہ اگر مجھے پیسہ دیں گے تو لوں گا! حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: (پھر) تجھے خدا ھی دیگا!یہ سن کر سائل چل دیا، تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا اور کھا کہ اچھا انگور ھی دیدیجئے، اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا ھی تجھے عنایت کرے گا۔

اس کے بعد ایک دوسرا ضرورتمند آیا اور اس نے (بھی) مدد مانگی، امام علیہ السلام نے انگور کے ایک خوشہ سے تین انگور اٹھاکر اس کو دئے، اس فقیر نے ان تین دانوں کو لے کر کھا:

”اَلْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الَّذِیْ رَزَقَنِی“۔

”شکر اس خدا کا جس نے مجھے رزق عنایت فرمایا“۔

امام علیہ السلام نے اس سے کھا: صبر کرو، اور آپ نے دونوں ھاتھوں سے انگور اٹھائے اور اس فقیر کو دئے۔ اس نے دوبارہ کھا:

”اَلْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ “۔

اس کے بعد امام علیہ السلام نے کھا کہ صبر کر و، اور اپنے خادم سے کھا کہ درھم و دینار کتنا ھے؟ اس سوال کے جواب میں سائل نے ۲۰درھم لاکر دئے اور کھا کہ میرے پاس یھی تھے، امام علیہ السلام نے وہ بیس درھم اس فقیرکو دیدئے ، جیسے ھی فقیر نے بیس درھم لئے تو کھا:

”اَلْحَمْدُ للهِ ہذا مِنْکَ وَحْدَکَ لاٰ شَرِیْکَ لَکَ“۔

”تمام تعریف اللہ کے لئے ھیں، (خدایا) یہ عطا و بخشش تیری طرف سے ھے اور تیرا کوئی شریک نھیں ھے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے جب اس کا یہ جملہ سنا تو فرمایا: ذرا ٹھھرو ، اور امام علیہ السلام نے اپنا پیراھن نکال کر اس کو عطا کیا اور اس سے کھا: لو اس کو پھن لو،اس نے پیراھن لیا اور پھن کر کھا:

”اَلْحَمْدُ للهِ الَّذِیْ کَسَانِی وَسَتَرْنِی یَا اَبَاعَبْدِ اللهِ، اَوْقَالَ جَزَاکَ الله ُ خَیْراً“۔

”تمام تعریف اس پروردگار سے مخصوص ھیں جس نے مجھے لباس عطا کیا ، اور اس نے عرض کی یا اباعبد اللہ یا اس نے کھا: خدا آپ کو جزائے خیر عنایت فرمائے“۔

وہ فقیرانھیں دو کلمات کے ذریعہ امام صادق علیہ السلام کا شکریہ ادا کرتے ھوا چلا گیا۔[57]

عارف بزرگوار ، فیلسوف عظیم الشان اور عالم پرھیزگار ملا محسن فیض کاشانی اپنی عظیم الشان کتاب ”وافی“ کے باب تعقیبات نماز میں امام معصوم علیہ السلام سے روایت کرتے ھیں :

اگرانسان نماز پڑھنے کے بعد اپنا سر سجدہ میں رکھے اور خدا کی ایک ایک نعمت کو یاد کرکے اس کاشکر ادا کرے ، تو خداوندعالم اپنے فرشتوں سے خطاب فرماتا ھے: اے میرے فرشتو! میرے بندے نے واجب نماز ادا کرلی ھے اور اس وقت میرا شکر ادا کررھا ھے، میں اس کے ساتھ کیسا برتاؤ کروں؟

فرشتے کہتے ھیں: اس کی حاجتوں کو پورا کردے۔ آواز آتی ھے: میں نے اس کی حاجتوں کو پورا کردیا، اور کیا کروں؟ تو فرشتے کہتے ھیں:

اس کو آخرت کے (عذاب) سے نجات دیدے، آواز آتی ھے: میں نے عطا کردی اور کیا کروں؟

فرشتے کہتے ھیں: اس کے رزق میں اضافہ فرمادے۔

خطاب آتا ھے: میں نے اس کے رزق میں اضافہ کردیا، اور کیا کروں؟

فرشتے کہتے ھیں: اس کو بہترین اولاد عنایت فرمادے۔

آواز آتی ھے: میں نے عطا کردی۔

اور جب تک نمازی سجدہ کی حالت میں شکر کرتا رہتا ھے ، خداوندعالم اسی طرح سوال کرتا رہتا ھے اور فرشتے اس کے لئے ایک ایک نعمت کے لئے کہتے جاتے ھیں (اور خدا نعمتیں عطا کرتا جاتا ھے) یھاں تک کہ فرشتے کہتے ھیں: پالنے والے! ھم جو کچھ بھی کار خیر اور نعمتوں کے بارے میں جانتے تھے ھم نے کہہ ڈالا، اب ھمیں کچھ نھیں معلوم،اس وقت آواز قدرت آتی ھے:

تمھیں نھیں معلوم، لیکن میں جانتا ھوں ، یہ بندہ میرا شکر ادا کررھا ھے میں بھی اس کا شکر گزار ھوں، اور میراشکر یہ ھے کہ اپنے نعمتوں کے دروازوں کو اس کی طرف کھول دوں۔

مقام ذکر

خداوندعالم اپنے بندہ کو یہ بلند و بالا مقام اس وقت عطا کرتا ھے جب اس کا دل پاک و پاکیزہ ھوجاتا ھے، البتہ یہ ذکر دعاؤں کی کتابوں میں ماثور ذکر سے الگ ھے۔ خدا کی طرف سے الھام شدہ ذکر، یہ ایسا ذکر ھے جس سے انسان دنیا و آخرت کی سعادت اور نیک بختی کو حاصل کرلیتا ھے اور ان حقائق کے بارے میں مطلع ھوجاتا ھے جن سے بہت سے لوگ غافل رہتے ھیں۔

الھامی ذکر، ذکر حال(یعنی قلبی ذکر) ھوتا ھے نہ کہ ذکر مقال(یعنی زبانی ذکر)، کیونکہ زبانی ذکر صرف الفاظ کا کھیل ھوتا ھے، اور ذکر حال کے ذریعہ انسان روحانی طور پرلقاء اللہ کے وصال کے لئے پرواز کرتا ھے۔

ذکر حال کے الھام سے انسان کی چشم بصیرت کھل جاتی ھے، اور بے نھایت زیبائی و خوبصورتی کو دیکھ لیتا ھے، اور انسان اپنے پورے وجود کو اخلاص کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں پیش کردیتا ھے، اور اپنے دل وجان سے اس حقیقت کا اعتراف کرتا ھے:

” تَرَکْتُ الْخَلْقَ طُرّاً فِی ہَوَاکَا“

” میں نے تیری چاہت میں تمام مخلوق کو ترک کردیا ھے، اور دل کو سب کی محبت سے آزاد کرلیا ھے، اور اپنے وجود کو تیرے لئے خالص کرلیا ھے، اور تیرے غیر کی محبت کی کدورت اپنے صفحہ دل سے دھوڈالی ھے، اور تیری بارگاہ کی عظمت میں بندگی میں مشغول ھوں، اور میں نے تیرے علاوہ سبھی سے رابطہ توڑ لیا ھے“۔

ذکر الھامی وھی ذکر ھے جس کو سید الساجدین چراغ دل عاشقین امام زین العابدین علیہ السلام مناجات خمس عشر میں بارگارہ رب العزت میں عرض کرتے ھیں:

”وَآنِسْنا بِالذِّکْرِ الخَفِیِّ وَ اٴَسْتَعْمِلْنَا بِالْعَمَلِ الزَّکِیِّ وَ السَّعْیِ المَرْضِیِّ“[58]

”اور ھمیں مخفی ذکر (جو تیرے الھام سے دل کی گھرائی میں عطا ھوتا ھے) مانوس فرما، اور پاک و پاکیزہ عمل اور پسندیدہ کوشش میں مشغول فرما“۔

شایدحضرت رسول اکرم (ص)اپنے روحانی کلام میں اسی حقیقت کی عظمت کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

”لَا یَزَالُ المُوٴمِنُ الَّذِی یَذکُرُ اللهَ فِی کُلِّ حَالٍ فِی اٴَنْوَارٍ خَمْسَةٍ:مَدْخَلُہُ نُورٌ،وَمَخْرَجُہُ نُورٌ، وَکَلاَمُہُ نُورٌ،وَغذَائُہُ نُورٌ،وَمَنْظَرُہُ یَوْمَ القِیَامَةِ إِلَی النُّورِ“[59]

”بے شک خدا کو ھمیشہ یاد رکھنے والے مومن کے لئے پانچ قسم کے نور ھوتے ھیں: اس کے وارد ھونے کی جگہ نور ھے، اور اس کے باھر نکلنے کی جگہ نور ھے، اس کا کلام نور ھے، اس کی غذا نور ھے، اور روز قیامت اس کی نظر نور کی طرف ھوگی“۔

عارفوں، زاھدوں اور عابدوں کے نزدیک کائنات کی کوئی بھی شئے ”یاد خدا“ سے شیرین تر اور لذیذ تر نھیں ھے، اور کسی بھی شخص کے دل میں ذکر خدا کی یہ چاشنی پیدا نھیں ھوتی ، اور اس کی یاد کسی کے دل میں الھام نھیں ھوتی مگر یہ کہ انسان اپنے دل کو دنیاوی محبت اور حیوانی حجابات کو دور کردے، اور یہ طھارت قلب اور پاکیزگی حاصل نھیں ھوتی مگر یہ کہ انسان ظاھری اور باطنی طور پر عبادت خدا کرے، گناھوں سے پرھیز کرے اور بُرے اخلاق سے دوری اختیار کرے۔

اٴَللّٰھُمَّ اِٴنّي اٴَسْاٴَلُکَ سُوٴٰالَ خٰاضِعٍ مُتَذَلِّلٍ خٰاشِعٍ اٴَنْ تُسٰامِحَنيوَتَرْحَمَنِي وَتَجْعَلَنِي بِقِسْمِکَ رٰاضِیاً قٰانِعاً،وَفي جَمیعِ الْاٴَحْوٰالِ مُتَوٰاضِعاً۔

”خدایامیں نھایت درجہ خشوع ،خضوع اور ذلت کے ساتھ یہ سوال کرر ھاھوں کہ میرے ساتھ مھربانی فرما۔مجھ پر رحم کر اور جو کچھ مقدر میںھے مجھے اسی پر قانع بنادے۔مجھے ھر حال میں تواضع اور فروتنی کی توفیق عطا فرما“۔

خدا وندعالم سے چار چیزوں کی درخواست

بے شک اگرکوئی انسان خلوت اور رات کے اندھیرے میں خضوع و خشوع کے ساتھ گریہ کناں آنکھوں سے دعا کرے تو واقعاً باب اجابت سے قریب ھوجاتی ھے۔

خداوندمھربان حضرت موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) سے خطاب فرماتا ھے:

”یَا بْنَ عِمْرَانَ! ہَبْ ِلی مِنْ قَلْبِکَ الخُشُوعَ،وَمِنْ بَدَنِکَ الْخُضُوعَ،وَمِنْ عَیْنِکَ الدُّمُوعَ فِی ظُلَمِ اللَّیْلِ،وَادْعُنِی فَإِنَّکَ تَجِدُنِی قَرِیْباً مُجِیْباً“[60]

”اے موسیٰ! رات کی تاریکی میں میری بارگاہ میںخضوع و خشوع اور گریہ کنا ںآنکھوں کے ساتھ دعا کرو تو یقینا مجھے دعا قبول کرنے والا پاؤ گے“۔

قارئین کرام! دعا کے ان فقرات میں دعا کرنے والا مکمل خضوع و خشوع سے بارگاہ رب العزت میں چار چیزوں کی درخواست کرتا ھے اور اسے یہ امید ھونا چاہئے کہ خضوع و خشوع اور خاکساری دعا قبول ھونے کے اسباب میں سے ھے، اور وہ چار چیزیں یہ ھیں:

۱۔ خداوندعالم اس کے ساتھ مدارا اور نرمی سے سلوک کرے۔

۲۔ خدا وندعالم اس پر رحمت نازل کرے۔

۳۔ خداوندعالم اس کو عطاکردہ رزق پر قناعت عطا کرے۔

۴۔ خداوندعالم زندگی کے تمام حالات میں تواضع و فروتنی عطا کرے۔

دعا کرنے والے کو اس حقیقت پر توجہ کرنا چاہئے کہ غیرقابل تردید قاعدہ کی بنا پر ”إِنْ اٴَحْسَنْتُمْ اٴَحْسَنْتُمْ لِاٴَنْفُسِکُمْ۔“[61]اگر نیکی کرو گے تو تم اپنے فائدہ کے لئے نیکی کرو گے ؛ خداوندعالم کا نرمی کا سلوک اس صورت میں ھوسکتا ھے کہ جب ھم دوسرے لوگوں کے ساتھ نرمی برتیں، اور اس کی رحمت و مھربانی کے اس وقت مستحق ھوں گے جب ھم دوسرے مومنین کے ساتھ نیکی کریں، جو شخص خدا کے بندوں کے ساتھ نیکی اور نرم برتاؤنھیں کرسکتا تو خدا بھی اس پر اپنی رحمت و مھربانی کے دروازوں کو نھیں کھولتا۔

۱۔ مدارا اور نرمی

شریعت مقدس اسلام نے تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کی نسبت دشمنی اور غیظ و غضب ، حسد اور قطع تعلق سے روکا ھے، اور تمام اھل اسلام کوایک دوسرے کی نسبت دوستی، محبت، نرمی اور مھربانی کے سلوک کی دعوت دی ھے۔

شریعت اسلامی نے مومنین کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ھے، جس کی بنا پر بہت سارے حقوق برادری کے نام پر بیان ھوئے ھیں، اور اھل ایمان کو ان حقوق کو رعایت کرنے پر شوق و ترغیب دلائی ھے، اور ان حقوق کی رعایت کو اخلاقی طور پر لازم اور واجب قرار دیا ھے اور بعض مسائل کو ”واجب شرعی“قرار دیا ھے، اور ان حقوق کو ادا نہ کرنے والے کو خدا کی ولایت سے خارج قرار دیا گیا ھے۔

بھائی چارہ اور معنوی رابطہ رکھنا؛ اخلاقی برائیوں سے دور ھونے کی صورت میں ممکن ھے۔ اخلاقی برائیاں جیسے غرور، تکبر، لالچ، بخل اور حسد وغیرہ برادری تعلقات، پیار و محبت اور ایک دوسرے کے ساتھ نرمی کے برتاؤمیں مانع ھوتی ھیں۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ایک بہت اھم حدیث میں لوگوں کو برُے اخلاق اور برے صفات سے روکتے ھوئے، حقوق برادری کی رعایت کی دعوت کرتے ھیں:

”لَاتَدَابَرُوا وَلَاتَبَاغَضُوا وَلَاتَحَاسَدُوا وَلَاتَقَاطَعُوا وَکُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَاناً، المُسلمِ اٴخُ المُسْلِمِ لَایَظْلِمُہُ وَلَایَحْرِمُہُ وَلاَیَخْذُلُہُ“[62]

”ایک دوسرے سے خصومت اوردشمنی نہ کرو، ایک دوسرے پر غیظ و غضب نہ کرو، ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، اور دوستی و برادری کے رابطہ کو قطع نہ کرو، اور بندگان خدا کے ساتھ میل محبت سے رھو، مسلمان ایک دوسرے کا بھائی ھے، اپنے بھائی پر ظلم نہ کرو، اور ایک دوسرے کو محبت اور مال دینے سے محروم نہ کرو، نیز اس کو ذلیل نہ کرو“۔

ایضاً :

”قَالَ رَسُولُ الله :مُدَارَاةُ النَّاسِ نِصْفُ الإِیمَانِ وَالرِّفْقُ بِہِم نِصْفُ الْعَیْشِ“[63]

”حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: لوگوں کے ساتھ مدارا (یعنی صلح و رعایت) کرنا آدھا دین ھے، اور ان کے ساتھ نرمی کرنا آدھی زندگی ھے“۔

اسی طرح حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے:

”رَحِمَ اللهُ اَمْرءً سَہْلَ الْبَیْعِ،سَہْلَ الشِرَاءِ،سَہْلَ الاقْتِضَاءِ“[64]

”خدا رحمت کرے اس شخص پرجو خرید وفروخت اور قرضدار سے قرض لینے میں نرمی کا برتاؤ کرے“۔

نیز آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ھیں:

”مَنْ اٴَنْظَرَ مُعْسِراً اٴَوتَرَکَ مُعَاجَلَتَہُ حَاسَبَہُ اللهُ حِسَاباً یَسِیراً“[65]

”جو کوئی شخص پریشان حال قرض دار کو مھلت دے یا اس کے قرض کو معاف کردے تو خدا بھی اس کا حساب آسانی سے لے گا“۔

اسی طرح آنحضرت: سے منقول ھے کہ روز قیامت ایک ایسے شخص کا حساب و کتاب ھوگا جس نے گناہ کے ذریعہ اپنے نفس پر اسراف کیا ھوگا، اور اس کی نجات کے لئے کوئی نیکی نھیں ھوگی،اس سے کھا جائے گا کہ کیا تو نے کبھی کوئی نیک کام کیا ھے؟ تو وہ کھے گا کہ نھیں،لیکن میں ایک مالدار آدمی تھا اور لوگوں کو قرض دیتا تھا، اپنے نوکر سے کہہ رکھا تھا کہ قرضداروں سے قرض لینے میں آسانی سے کام لیا کرو، اور پریشان حال لوگوں کو ادا کرنے کے لئے مزید وقت دیدیا کرو (یا اس کو معاف کردیا کرو)۔

اس وقت آواز قدرت آئے گی: میں اس بندے کی نرمی اور آسانی کی نسبت زیادہ حقدار ھوں کہ اس بندے پر رحم کرو ، اور اس موقع پر خداوندعالم اس کو معاف کردے گا۔[66]

حمّاد بن عثمان کہتے ھیں: ایک شخص حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوا ، اور آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص کی شکایت کی، تھوڑی دیر بعد وہ صحابی بھی آگئے،چنانچہ ان کے آتے ھی امام علیہ السلام نے فرمایا: اس شخص کو آپ سے کیا شکایت ھے؟ تو انھوں نے کھا: میری شکایت یہ کرتا ھے کہ میں اپنے دئے ھوئے قرض کے ایک ایک دینار کا مطالبہ کررھا ھوں، حمّاد کہتے ھیں کہ میں نے دیکھا حضرت امام صادق علیہ السلام کا کو غصہ آگیا، اور پھر فرمایا: تم اپنے پورے حق کا مطالبہ کرتے ھوئے یہ سوچتے ھو کہ کوئی برا کام نھیں ھے؟! کیا تم نے خداوندعالم کا وہ قول نھیں دیکھا جو مومنین کے حالات کی حکایت کرتا ھے:

”۔۔۔وَیَخافُونَ سُوٓءَ الحِسابِ“[67]

”اور بد ترین حسا ب سے خوف زدہ رہتے ھیں“۔

کیا تم یہ سوچتے ھو کہ خداوندعالم حساب و کتاب میں ان کے ساتھ ظلم کرے گا؟ خدا کی قسم مومنین حساب سے نھیں ڈرتے اگر ڈرتے ھیں تو دقیق اور کامل حساب سے ڈرتے ھیں، ایسا حساب و کتاب (جس میں بال کی کھال نکالی جائے) جس کو بُرا حساب کھا جاتا ھے، لہٰذا اگر کسی شخص نے اپنے حق کا مطالبہ کرتے وقت اس سے سخت گیری کی تو اس نے بُرا کام انجام دیا ھے!!

حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے:

”اٴَلا وَإِنَّ لِلّٰہِ اٴَوانِیَ فِی اٴَرْضِہِ وَہِیَ القُلُوبُ،وَاٴَحَبُّ الاٴوانِی إِلَی اللهِ اٴَصفَاہَا وَاٴصلَبُھا وَاٴرَقُّھا:اٴَصفاہَا مِنَ الذُّنوب،وَاٴَصلَبُھا فِی الدّین، وَاٴرَقُّھا عَلی الإِخوَانِ“[68]

”آگاہ ھوجاؤ کہ خدا کے لئے اس کی زمین میں ظروف ھیں اور وہ ھیں دل،اور خدا کے نزدیک سب سے محبوب تر ین خالص ترین، مستحکم ترین اور نرم ترین دل وہ ھیں جو گناھوں سے بالکل خالی ھیں، دین میں مستحکم ترین ھیں اور دینی بھائیوں کے لئے نھایت نرم و مھربان ھیں“۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) درج ذیل احادیث میں فرماتے ھیں:

”اٴَمَرَنِی رَبِّی بِمُدَارَاةِ النَّاسِ،کَمَا اٴَمَرَنِی بِاٴَداءِ الفَرائِضِ“[69]

”خداوندعالم نے مجھے لوگوں کے ساتھ نرمی اور مدارا کرنے کا حکم دیا ھے جیسا کہ واجبات کو ادا کرنے کا حکم دیا ھے“۔

”ثَلاثٌ مَن لَم یَکُنَّ فِیہِ لَم یَتِمَّ لَہُ عَمَلٌ:وَرَعٌ یَحْجُرُہُ عَنْ مَعاصِی اللهِ،وَخُلُقٌ یُدارِی بِہِ النَّاسَ،وَحِلْمٌ یَرُدُّ بِہِ جَہْلَ الجاہِلِ“[70]

”تین چیزیں ایسی ھیں اگر کسی شخص میں یہ تین چیزیں نہ پائی جائیں تو اس کا کوئی عمل کامل (مقبول) نھیں ھے، گناھوں سے محفوظ رکھنے والا تقویٰ،ایسا اخلاق جس کی بنا پر لوگوں سے نرم سلوک کیا جاسکے، اور ایسا حلم و بُردباری جس سے جاھل کے جھل کو برطرف کیا جاسکے“۔

”إِنَّ الرِّفْقَ لَمْ یُوضَعْ عَلی شَیْءٍ إِلَّا زَانَہُ“[71]

”بے شک جس چیز کے ساتھ نرمی اور ملائمت ھو تو وہ چیز مزین ھوجاتی ھے، اور جھاں یہ دونوں چیزیں نھیں ھوتی وہ چیز بُری اور ناپسند ھوجاتی ھے“۔

”لَوکاَنَ الرِّفْقُ خَلْقاً یُرَی مَا کاَنَ مِمَّا خَلَقَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ شَیْءٌ اٴَحْسَنَ مِنْہُ“[72]

”اگر نرمی و ملائمت دیکھنے والی چیز ھوتی تو مخلوقات خدا میں اس سے زیباتر کوئی چیز نہ دکھائی دیتی“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے درج ذیل احادیث منقول ھیں:

”ثَمَرَةُ العَقْلِ مُدَارَاةُ النَّاسِ“[73]

”عقل کا ثمرہ لوگوں کے ساتھ نرمی اور ملائمت کرنا ھے“۔

”مُدَارَاةُ الرِّجَالِ مِن اٴَفْضَلِ الاْ ٴَعْمالِ“[74]

”لوگوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا بہترین اعمال میں سے ھے“۔

”دَارِ النَّاسَ تَسْتَمْتِعْ بِإخائِہِم وَاٴلقِہِم بِالبِشرِ تُمِتْ اٴَضْغَانَہُم“[75]

”لوگوں کے ساتھ نرمی اورمُدارا کرو، اور اس کی برادری سے بھرہ مند ھوں اور ان سے نیک برتاؤ کرو اور ان سے کینہ کوختم کردو“۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ، خدا کی بندوں کے ساتھ نرمی کو خود بندوں کی ایک دوسرے کے ساتھ نرمی کا نتیجہ بیان کرتے ھیں، آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ایک حدیث میں اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ھے:

”إِسمَحْ یُسمَحْ لَکَ“[76]

”لوگوں کے ساتھ مُدارا کرو، خدا بھی تمھارے ساتھ نرمی کرے گا“۔

نرمی اور مُدارا کرنا خدا کی عادت ھے، اور کتنا اچھا ھے کہ مومنین فرمان رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے مطابق اپنے کو خدا کے اخلاق سے آراستہ کریںآنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:

”تَخَلَّقُوا بِاٴخلاقِ اللهِ“[77]

”خدا کے اخلاق کو اپناؤ“(تاکہ دنیا و آخرت میں سعادت بخت و خوش قسمت ھوجاؤ)۔

۲۔ رحمت و مھربانی

قارئین کرام ! جیسا کہ ھم نے شروع کتاب میں ”رحمت خدا“ کی وضاحت کے سلسلہ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ ”خداوندعالم کی رحمت رحیمیہ“ اسی انسان کے شامل حال ھوتی ھے جواطاعت و بندگی کے لئے ضروری چیزوں پر عمل کرے، خصوصاً اگر اس کے بندوں سے معاملات میں لطف و مھربانی سے کام لے، اور ان کو رنجیدہ خاطر کرنے، ظلم و ستم کرنے، ان کے حقوق کو پامال کرنے اور ان کے ساتھ سخت برتاؤ سے پرھیز کرے، اور ھمیشہ اس بنیادی قاعدہ پر متوجہ رھے : ”ارحم ترحم“[78]

انسان اگر فرائض اور واجبات الٰھی میں کوتاھی کرے اور خدا کے احکام پر عمل نہ کرے نیز گناھوں سے دوری نہ کرے اور دوسرے لوگوں کے ساتھ نامناسب اور تلخ برتاؤ کرے، تو پھر اس کو خداوندعالم اور دوسرے لوگوں سے رحمت و مھربانی کی امید نھیں رکھنا چاہئے۔

خدا وندعالم کی رحمت کے سلسلہ میں بہت سی روایات اسلامی عظیم کتابوں میں وارد ھوئی ھیں جن میں سے ھم بعض کی طرف اشارہ کرتے ھیں:

”قاَلَ رَسُولُ اللهِ (ص):إِنَّ لِلّٰہِ تَعَالی مائَةَ رَحْمَةٍ اٴنزَلَ مِنْہَا رَحْمَةً وَاحِدَةً بینَ الجِنِّ وَالإنسِ وَالطَیْرِ وَالبَھائمِ وَالہَوامِّ،فَبِھا یَتَعاطَفُونَ،وَبِھا یَتَراحَمُونَ،وَاٴَخَّرَ تِسعاً وَتِسعینَ رَحمةً یَرحَمُ اللهُ بِھا عِبادَہُ یَومَ القِیَامَةِ“[79]

”پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: خدا کی سو رحمتیں ھیں، اور ان میں سے صرف ایک دنیا میں جلوہ فگن ھے اور اپنی تمام مخلوقات میں تقسیم کی ھے، اور ۹۹ رحمت خداوندمنان کے خزانہ میں موجود ھےں تاکہ روز قیامت ان کے ذریعہ اپنے بندوں پر رحم فرمائے ۔

”وَقاَلَ رَسُولُ اللهِ(ص) :إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ یَومَ القِیَامَة لِلموٴمنین:ھل اٴحْبَبْتُمْ لِقائی؟ فَیَقُولونَ نَعَمْ یَا رَبَّنا ۔فَیَقُولُ: لِمَ؟ فَیَقولون:رَجَوْنا عَفْوَک وَمَغْفِرَتَکَ۔فَیَقُولُ:قَدْ اٴوجَبْتُ لَکُم مَغْفِرَتِی“[80]

”حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے : خداوندعالم روز قیامت مومنین سے کھے گا: کیا تم میرے وصال کو محبوب رکھتے تھے؟ تو مومنین کھیں گے: ھاں ھمارے پروردگار! سوال ھوگا کس لئے؟ تو مومنین جواب دیں گے: کیونکہ تیرے کرم و بخشش کی امیدرکھتے تھے، تو اس وقت آواز قدرت آئے گی: پس میں نے تمھاری بخشش کو اپنے اوپر واجب کرلیا ھے“۔

”وَقَالَ رَسولُ الله (ص): یَقولُ اللهُیَومَ القِیَامَةِ:اٴخْرِجُوا مِنَ النَّارِ مَن ذَکَرَنی یَوماً اٴوخافَنی فِی مَقامٍ“ [81]

”حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا ھے : خداوندعالم روز قیامت کھے گا: جس نے مجھے (دنیامیں) ایک دن یاد کیا ھو یا کسی مقام پر مجھ سے ڈرا ھو اس کو آتش جھنم سے نکال لیا جائے“۔

نیز آنحضرت(ص) کا فرمان ھے:

”اللهُ تَعالَی اٴرحَمُ بِعَبْدِہِ المُوٴمنِ مِنَ الوالِدَةِ الشَّفیقَةِ بِوَلَدِھا“[82]

”خدا وندعالم مومنین پراس سے زیادہ کھیں مھربان تر ھے جتنی شفیق و مھربان ماں اپنے بچوں پر مھربان ھوتی ھے“۔

قارئین کرام ! معصومین علیھم السلام سے منقول احادیث کے مطالعہ اور غور وفکر سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ رحمت خدا کے نازل ھونے کے اسباب : عبادت و طاعت خدا، گناھوں سے دوری اور دوسرے لوگوں کے ساتھ محبت و مھربانی کرنا ھے۔

جیساکہ ایک اھم حدیث پیغمبر اکرم (ص)سے نقل ھوئی ھے:

”اَلرَّاحِمُونَ یَرْحَمُہُمُ اللهُ۔إِرْحَمُوا مَن فِی الٴَارْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِی السَّمآءِ“[83]

”رحم کرنے والوں پر خدا رحمت نازل کرتا ھے، تمام اھل زمین پر رحم کرو تاکہ خدا وندعالم تم پر بھی رحم کرے“۔

صاحب ”انیس اللیل“ کتاب ”زنیة المجالس“ سے نقل کرتے ھیں کہ ایک حدیث میں منقول ھے کہ جب جناب موسیٰ خداوندعالم سے راز و نیاز کررھے تھے تو عرض کیا: پالنے والے میری کونسی خصوصیت تجھے اس قدر پسند آئی کہ تو مجھ سے اس قدر راضی و خوشنود ھے؟ تو آواز قدرت آئی:

”اے موسیٰ جب تم (جناب) شعیب کی بکریاں چراتے تھے، شدیدگرمی کا زمانہ تھا (تمھیں یاد ھوگا کہ)ایک گوسفند تمھارے گلہ سے نکل گیا تھا، تم اس کے پیچھے بہت دور تک دوڑتے ھوئے چلے گئے، بہت تھک چکے تھے کافی دور کے بعد تم نے اس کو پکڑا، اور جیسے ھی تم نے اس کو پکڑا اپنی گود میں لے لیا اور اس سے کھا کہ تو نے اپنے کو اور مجھے بلا وجہ تھکادیا ھے، اور اس کو گود میں اٹھاکر واپس گلہ میں پھنچادیا، لہٰذا اس گوسفند کے ساتھ یہ برتاؤ مجھے بہت زیادہ پسند آیا جس کی بنا پر میں نے تمھیں منتخب کیا اور تاج اصطفیٰ تمھارے سر پر رکھا، اور کرامت کا پٹکا تمھاری کمر پر باندھا اور آپ کو نبوت و رسالت کے لئے چن لیا“۔[84]

”قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبیِّ(ص):اٴُحِبُّ اٴنْ یَرْحَمَنِی رَبِّی۔قالَ:إِرحَم نَفْسَکَ وَارحَمْ خَلقَ اللهِ یَرحَمْکَ اللهُ“[85]

”ایک شخص نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے کھا کہ میں چاہتا ھوں کہ خدا مجھ پر رحم کرے ، تو حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:

اپنے نفس اور خدا کی دوسری مخلوق پر رحم کر، خدا تجھ پر (بھی) رحم کرے گا“۔

اسی طرح آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی ایک اور حدیث میں نقل ھوا ھے کہ آپ نے فرمایا:

”تَعَرَّضُوا لِرَحْمَةِ اللهِ بِمَا اٴمَرَکُم بِہِ مِنْ طاعَتِہ“[86]

”خدا وندعالم کی اطاعت کرکے اپنے کو خدا کی رحمت نازل ھونے کے لئے پیش کرو“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:

”اٴبْلَغُ مَا تُسْتَدَرُّ بِہِ الرَّحْمَةُ اٴنْ تُضْمِرَ بِجَمیعِ النَّاسِ الرَّحْمَةَ“[87]

”رحمت خدا کے نازل ھونے والے اسباب میں سب سے زیادہ بہترین سبب یہ ھے کہ تمام لوگوں کی نسبت محبت و مھربانی کی نیت رکھو“۔

نیز آپ ھی کا قول ھے:

”بِالعَفْوِ تَنْزِلُ الرَّحْمَةُ“[88]

”(لوگوں کے ساتھ) عفو و بخشش سے پیش آنے کی وجہ سے رحمت خدا نازل ھوتی ھے“۔

اسی طرح آپ کا یہ قول بھی ھے:

”رَحْمَةُ الضُّعَفاءِ تَسْتَنْزِلُ الرَّحْمَةَ“[89]

”اگر کوئی شخص کسی ناتواں اور کمزور پر رحم و مھربانی کرے تو خدا اس پر رحمت نازل کرتا ھے“۔

۳۔ اپنی روزی پر قناعت کرنا

جس کی ذات مقدس و مبارک ،تمام ظاھری اور مخفی چیزیں اس کے علم و حکمت اور عدل و رحمت کا ایک جلوہ ھیں اسی کے مستحکم ارادہ سے تمام چیزیں وجود میں آئی ھیں جن میں سے ھر ایک کے لئے ایک معین وقت قرار دیا گیا ھے، اور ان کو ایک ھدف کی طرف ھدایت فرمادی ھے، اس کی حیات اور شان کے مطابق روزی روٹی معین کی ھے اور ان کا رزق ان کی کارکردگی کے لحاظ سے ان تک پھنچاتا ھے۔

ارشاد رب العزت ھوتا ھے:

”وَمَا مِن دآبَّةٍ فِی الاٴَرْضِ اِلاَّ عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا“[90]

”اور زمین پر چلنے والی کوئی مخلوق ایسی نھیں ھے جس کا رزق خدا کے ذمہ نہ ھو“۔

خداوند مھربان مصلحت اور حکمت کی بنیاد پر اپنے بندوں کی روزی دو طرح سے ان تک پھنچاتا ھے: بعض لوگوں کو زیادہ اور بعض لوگوں کو محدود۔

جیسا کہ خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ھے:

”اِنَّ رَبَّکَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن یَشآءُ وَ یَقْدِرُ اِنَّہُ کاَنَ بِعِبَادِہِ خَبِیراً بَصِیراً“[91]

”تمھارا پروردگار جس کے لئے چاہتا ھے رزق کو وسیع بنا دیتا ھے اور وہ اپنے بندوں کے حالات کو خوب جاننے والا اور دیکھنے والا ھے “۔

خداوندعالم نے اپنے بندوں کے لئے پاک اور حلال روزی حاصل کرنے کے لئے بہت سے جائز و مشروع طریقہ معین کئے ھیں:جیسے زراعت، تجارت، صنعت اور دوسرے مثبت کاروبار،جن کو انسان عقل وفکر اور قدرت بازوکی بنا پر انجام دیتا ھے، اور کسی کے لئے بھی نا مشروع طریقہ سے روزی مقرر نھیں کی ھے جیسے چوری، غصب، رشوت، غارت گری، سود اور شراب فروشی وغیرہ، اور انسان جتنی روزی حرام طریقہ سے حاصل کرتا ھے خداوندعالم اتنی ھی حلال روزی کم کردیتا ھے۔

قرآن مجید اور احادیث نے لوگوں کو حلال روزی حاصل کرنے کے لئے شوق دلایا ھے ، حلال طریقوں سے حاصل کرنے کے بعد انسان کے لئے وسعت رزق یا تنگیٴ رزق مصلحت خدا کی بنا پر ھوتا ھے، جس کے سلسلہ میں انسان پر واجب ھے کہ اس مصلحت خدا کے بارے میں خوش و خرم اور راضی رھے۔

شریعت مقدس اسلام نے حلال روزی کی طلب کو واجب قرار دیا ھے اور اس کو عظیم عبادت قرار دیا ھے، نیز رزق حاصل کرنے میں زحمت و پریشانی کو عزت کی نگاہ سے دیکھا ھے:

ایک بہت اھم روایت حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے منقول ھے:

”طَلَبُ الحَلَالِ فَریضَةٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ وَمُسْلِمَةٍ“[92]

”حلال روزی حاصل کرنا ھر مسلمان کا فریضہ ھے“۔

”طَلَبُ الحَلَالِ فَریضَةٌ بَعْدَ الفَرِیضَةِ“[93]

”حلال روزی حاصل کرنا ایک واجب کے بعد دوسرا واجب ھے“۔

” طَلَبُ الحَلاَلِ جِھادٌ“[94]

”حلال روزی حاصل کرنا جھاد ھے“۔

درج ذیل احادیث میں وسعت رزق کے لئے وہ اسباب بیان کئے گئے ھیں جن سے رزق میں اضافہ ھوتا ھے، جس وقت ایک شخص نے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے کھا کہ میں چاہتا ھوں کہ میری روزی روٹی میں اضافہ ھو، تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:

”دُمْ عَلَی الطَّہَارَةِ یُوَسَّعْ عَلَیکَ فِی الرِّزْقِ“[95]

”حتی الامکان با وضو رھا کرو ، تمھاری روزی میں اضافہ ھوگا“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:

”مُواسَاةُ الاٴَخِ فِی اللهِ عَزَّوَجَلَّ تَزِیدُ فِی الرِّزْقِ“[96]

”دینی برادر کو مدد پھنچانے سے رزق میں اضافہ ھوتا ھے“۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:

”اِسْتِعمالُ الاٴَمَانَةِ یَزِیدُ فِی الزِّرْقِ“[97]

”امانت کی رعایت کرنے سے رزق میں اضافہ ھوتا ھے“۔

اسی طرح حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:

”عَلَیْکَ بِالدُّعَاءِ لإِخْوانِکَ بِظَہْرِ الغَیْبِ فَإِنَّہُ یَہِیلُ الرِّزْقَ“[98]

”مومنین کے لئے (ان کی غیر موجودگی میں بھی) دعا کیا کرو کہ اس کی برکت سے تمھارے رزق میں اضافہ ھوتا ھے“۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

”مَنْ حَسَّنَ بِرَّہُ اٴَہْلَ بَیْتِہِ زِیدَ فِي رِزْقِہِ“[99]

”جو شخص اپنے گھروالوں کے ساتھ نیکی کرے گا خدا س کی روزی میں اضافہ کرے گا“۔

نیز حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ھے:

”حُسْنُ الخُلُقِ یَزِیُد فِی الرِّزْقِ“[100]

”اخلاق حسنہ سے رزق میں اضافہ ھوتا ھے“۔

حلال روزی حاصل کرنے کو بہترین امور میں اور اسلامی اھم عبادتوں میں شمار کیا گیا ھے:

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ارشاد فرماتے ھیں:

”مَنْ اٴَکَلَ مِن کَدِّ یَدِہِ نَظَرَ اللهُ إِلَیْہِ بِالرَّحْمَةِ ثُمَّ لاَ یُعَذِّبُہُ اٴَبَداً“[101]

”جو شخص رزق حاصل کرنے میں زحمت اور کوشش کرے ۔ تو خدا اس پر نظر رحمت فرماتا ھے اور ھرگز اس کو عذاب نھیں کرتا“۔

نیز حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے:

”مَنْ اٴَکَلَ مِن کَدِّ یَدِہِ کاَنَ یَومَ القِیَامَةِ فِی عِدادِ الاٴنْبِیاءِ وَیَاٴْخُذُ ثَوابَ الاٴنْبِیاءِ“[102]

”جو شخص حلال راستہ سے اپنی روزی حاصل کرنے میں زحمت اٹھائے، تو روز قیامت اس کا شمار انبیاء میں ھوگا اور اس کو انبیاء کا ثواب دیا جائے گا“۔

حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ھیں:

”إِنَّ الَّذِی یَطْلُبُ مِنْ فَضْلٍ یَکُفُّ بِہِ عَیَالَہُ اٴَعْظَمُ اٴَجراً مِنَ المُجاہِدِ فِی سَبِیلِ اللهِ“[103]

”بے شک جو شخص خدا سے رزق طلب کرے اور جائز طریقوں سے حاصل کرنے کی کوشش کرے تاکہ اس کے اھل خانہ نیازمندی اور فقیری سے نجات حاصل کریں تو ایسے شخص کاثواب مجاھد راہ خدا سے زیادہ ھے“۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ارشاد فرماتے ھیں:

” العِبَادَةُ عَشرَةُ اٴَجْزاءٍ تِسْعَةُ اٴَجْزاءٍ فِی طَلَبِ الحَلَالِ“[104]

”عبادت کے دس حصہ ھیں، جس کے نو حصے حلال روزی حاصل کرنے میں ھيں“۔

بھر حال رزق ایک ایسی حقیقت ھے جو اس دنیا کے وسیع و عریض دسترخوان پر موجود ھے، اور ھر ایک کا حصہ معین ھے، نیز اس کی مقدار چاھے وہ وسعت رزق ھو یا تنگئی رزق خدا کی مصلحت کے لحاظ سے ھوتی ھے۔ نعمتوں کا زیادہ ھونا خدا کے نزدیک محبوب ھونے کی علامت نھیں ھے اور اسی طرح تنگیٴ رزق خدا کے نزدیک غیر محبوب ھونے کی نشانی نھیں ھے، بلکہ مال و دولت کا زیادہ ھونا یا اس کا کم مقدار میں ھونا اھل دنیا کے لئے امتحان ھوتا ھے تاکہ مالدار کا شکر کے ذریعہ اور نادار کا صبر کے ذریعہ امتحان ھوسکے، اور شاکر شکر کے ذریعہ، نیز صابر صبر کے ذریعہ خدا کی طرف سے عظیم ثواب تک پھنچ سکے، نیز مالدار غریبوں میں مال تقسیم کرکے بہترین اجر و ثواب حاصل کرے، اور نادار و غریب صبر و شکیبائی کے ذریعہ اپنی عزت و آبرو کو حفظ کرکے خدا سے بہترین جزا حاصل کرسکے۔

مالدار لوگوں کو جاننا چاہئے کہ اگر وہ خدا کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کریں (جیسا کہ پھلے ھم نے شکر کے معنی بیان کئے ھیں کہ) ان کو صحیح راستہ میں خرچ نہ کرے، تو وہ دنیاوی او راُخروی عذاب میں گرفتار ھوگا، اور اسی طرح غریب و نادار شخص اگر فقر و تنگدستی پرصبر نہ کرے اور استقامت و پائیداری نہ دکھائے اور فقر و ناداری دور کرنے کے لئے اپنے دین کو بیچ ڈالے تو وہ بھی دنیاوی و اُخروی عذاب میں مبتلا ھوگا،وسعت رزق اور تنگئی رزق خدا کی طرف سے امتحان کے لئے ھوتے ھیں، اس سلسلہ میں مولائے متقین حضرت امیر مومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:

” وَقَدَّرَ الاٴَرْزاقَ فَکَثَّرَھا وَقَلَّلَھا وَقَسَّمَھا عَلَی الضِّیقِ وَالسَّعَةِ فَعَدَلَ فِیہَا لِیَبْتَلِیَ مَن اٴَرادَ بِمَیْسُورِھا وَمَعْسُورِھا وَلَیَخْتَبِرَ بِذَلِکَ الشُّکْرَ وَالصَّبْرَ مِن غَنِیِّھا وَفَقِیرِھا“[105]

”(خداوندعالم نے انسانوں کی) روزی کو مقرر فرمادیا ھے، بعض کے لئے زیادہ اور بعض کے لئے کم مقدار معین کی ھے، اور خداوندعالم نے روزی کی دو تقسیم کی ھے ایک کم دوسرے زیادہ، اور اس تقسیم میں خدا وندعالم نے عدالت سے کام لیا ھے، تاکہ خداوندعالم جس کو بھی چاھے وسعت رزق سے اور جس کو چاھے قلت رزق سے امتحان کرے، تاکہ خداوندعالم؛ مالدار کا شکر اور غریب و نادار کاصبر و تحمل کے ذریعہ امتحان لے سکے“۔

دوسری طرف خدا وندعالم کی عادلانہ تقسیم پر راضی و خوشنود رھنا چاہئے کہ جو خدا نے دیا ھے ھم اس سے خوش ھوں، ایسا نہ ھو کہ ھم خدا وندعالم کی تقسیم پر ناراضگی کا اظھار کریں، خصوصاً اگر خدا نے مصلحت کی بنا پر اس کے رزق کی مقدار کم معین کی ھے،حضرت علی علیہ السلام کی اقتداء کرتے ھوئے ھر حال میں خدا کی خوشنودی کا خواھاں ھو اور ھمیشہ خدا سے دنیا و آخرت کی سلامتی اور امان کا طلب گار رھے، اور کمال خضوع و خشوع اور چشم ِ نم سے خدا کی بارگاہ میں درخواست کرے:

”اٴَنْ تُسٰامِحَنيوَتَرْحَمَنِي وَتَجْعَلْنِي بِقِسْمِکَ رٰاضِیاً قٰانِعا“۔

”مجھ پر رحم کر اور جو کچھ مقدر میں ھے مجھے اسی پر قانع اور راضی بنادے“۔

حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ھیں:

”کَیْفَ یَکونُ المُوٴمِنُ مُوٴمِناً وَہُوَ یَسْخَطُ قِسمَہ وَیُحَقِّرُ مَنْزِلَتَہُ وَالحاکِمُ عَلَیْہِ اللهُ۔۔“۔[106]

”وہ مومن، کیسا مومن ھے جو اپنی روزی پر خوش نھیں ھے اور اپنی منزل و مقام کو حقیر شمار کرتا ھے، جبکہ خداوندعالم اس کے تمام امور کا حاکم ھے“۔

حضرت رسول اکرم فرماتے ھیں کہ میں نے جبرئیل سے کھا: ”رضا“ کی تفسیر کیا ھے؟ تو جبرئیل نے کھا:

”الرّاضِی لاَیَسْخَطُ عَلی سَیِّدِہِ اٴَصَابَ مِنَ الدُّنْیَا اٴَمْ لَمْ یُصِبْ وَلاَیَرْضَی لِنَفْسِہِ بِالْیَسِیرِ مِنَ العَمَلِ“[107]

”راضی رھنے والا اپنے خدا پر ناراضگی کا اظھار نھیں کرتا، چاھے مال دنیا اس کو ملے یا نہ ملے، اور اپنی نسبت اپنے کم عمل سے راضی نھیں ھوتا“۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

”ِٕرْضَ بِما قَسَمَ اللهُ لَکَ تَکُنْ غَنِیّاً“[108]

”جیسی روزی خداوندعالم نے تمھےں عطا فرمائی ھے اس پر راضی رھو تاکہ خداوندعالم تمھیں مزید روزی عنایت فرمائے“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:

”مَنْ رَضِیَ مِنَ اللهِ بِمَا قَسَمَ لَہُ اسْتَراحَ بَدَنُہُ“[109]

”جو شخص خدا کی عطا کردہ روزی پر خوش رھے تو اس کا بدن چین و سکون میں ھے“۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ھے:

”مَنْ لَمْ یَرْضَ بِمَا قَسَمَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ اتَّہَمَ اللهَ تَعالَی فِی قَضائِہِ“[110]

”جو شخص خدا کی مصلحت کے تحت عطا شدہ روزی پر خوش نہ رھے تو اس نے خداوندعالم پر اس کے فیصلہ میںتھمت لگائی ھے“۔

جس وقت حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے آیہ ”فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیوٰةً طَیِّبَةٍ“[111]کی تفسیر کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”حیات طیبہ قناعت ھے“۔

نیز آپ نے فرمایا:

”إِنْتَقِمْ مِن حِرْصِکَ بِالْقُنوعِ کَما تَنْتَقِمُ مِن عَدُوِّکَ بِالْقِصاصِ“[112]

”حرص و لالچ (جو تجھے حرام خوری میں مبتلا کردیں گے اور دین و دنیا کو خراب کردیں گے) کا انتقام قناعت کے ذریعہ لوجیسا کہ تم اپنے دشمن سے انتقام اور بدلہ لیتے ھو“۔

اھل بیت علیھم السلام سے منقول احادیث میں وارد ھوا ھے :

” حرص و لالچ سے روزی روٹی میں اضافہ نھیں ھوتا، اور حرص و طمع حلال روزی میں اضافہ کی کُنجی نھیں ھے، بلکہ حرص و طمع سے انسان حرام خوری میں مبتلا ھوجاتا ھے، کیونکہ محرمات میں غرق ھونے کے بعد ایمان کی بنیاد کمزور ھوجاتی ھیں اور اخلاقی اصول نابود ھوجاتے ھیں،نیز انسان کی آخرت بھی تباہ و برباد ھوجاتی ھے، اور اس کی عزت و آبرو بھی خاک میں مل جاتی ھے۔ حلال روزی پر قناعت کرنا اور خدا کے مقرر کردہ رزق پر شکر گزار رھنا ایک تمام نہ ھونے والا خزانہ ھے، اور ایک ایسی حقیقت ھے جس کے سبب دنیا و آخرت کی بھلائی کی ضمانت ھے“۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے:

”خِیارُاٴُمَّتِی القَانِعُ وَشِرارُہُم الطَّامِعُ“[113]

”میری امت کے سب سے اچھے افراد قناعت کرنے والے ھیں اور سب سے برے حرص و طمع کرنے والے ھیں“۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:

”اٴَکَلَ علِیُّ مِن تَمْرٍ دَقَلٍ ثُمَّ شَرِبَ عَلَیْہِ المآءَ ثُمَّ ضَرَبَ عَلی بَطْنِہِ وَقاَلَ: تَعْسَاً لِمَنْ اٴَدْخَلَہُ بَطْنُہُ النَّارَ فَاٴَبْعَدَہُ اللهُ ثُمَّ تَمَثَّلَ:

فَإِنَّکَ مَہْمَا تُعْطِ بَطْنَکَ سُوٴْلَہُوَفَرْجَکَ نَالا مُنْتَہَی الذَّمِّ اٴَجْمَعا“[114]

”حضرت علی علیہ السلام بازار کا سب کم قیمت والا خرمہ کھاتے تھے، اس کے بعد پانی پیتے تھے، اس کے بعد اپنے شکم مبارک پر ھاتھ مارکر کہتے تھے: جس شخص کو اس کا شکم جھنم میں لے جائے خدا نے اس کو رحمت سے دور رکھا ھے، اس کے بعد اس مفھوم کا شعر کو پڑھا کرتے تھے:

”جس وقت تجھے شکم اور شرمگاہ کی خواھش ھونے لگے تو اس کے ساتھ ساتھ ذلت و رسوائی کا منھ بھی دیکھنا ھوگا“۔

حضرت امام باقر و امام صادق علیھما السلام فرماتے تھے:

”مَنْ قَنَعَ بِمَا رَزَقَہُ اللهُ فَہُوَ مِنْ اٴَغْنَی النَّاسِ“[115]

”جو شخص خدا کے عطا کردہ رزق پر قناعت سے کام لے تو وہ شخص سب سے زیادہ غنی ھوتا ھے“۔

نیز حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ھے:

” إقنَعْ بِمَا قَسَمَ اللهُ لَکَ،وَلَاتَنْظُر إِلَی مَا عِنْدَ غَیْرِکَ،وَلَا تَتَمَنَّ مَا لَسْتَ نَائِلَہُ،فَإِنَّہُ مَن قَنِعَ شَبِعَ،وَمَنْ لَمْ یَقْنَعْ لَمْ یَشْبَعْ،وَخُذْ حَظَّکَ مِن آخِرَتِکَ“[116]

”جس مقدار میں خداوندعالم نے تجھے رزق دیا ھے اسی پر قناعت کرو، اور جو چیز دوسروں کے پاس ھے اس کے بارے میں حرص و طمع سے کام نہ ھو، اور جو چیز تمھارے پاس نھیں ھے اس کی آرزو( بھی) نہ کرو، بے شک جو شخص قناعت سے کام لیتا ھے وہ سیرھوتا ھے، اور جو شخص خدا کی عطا کردہ روزی سے سیر نہ ھو ، اس کا کبھی (بھی) پیٹ نھیں بھرتا، اور تم اپنے حصہ کو آخرت کے لئے بچا کر رکھو“۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

”کَیْفَ یَسْتَطِیعُ عَلی صَلاحِ نَفْسِہِ مَنْ لَایَقْنَعُ بَالٴقَلِیلِ؟“[117]

”جو شخص اپنے کم مال و روزی پر قناعت سے کام نہ لے، تو وہ کس طرح اپنے نفس کی اصلاح کرسکتا ھے؟!“

۴۔ ھر حال میں تواضع کرنا

تواضع اور فروتنی ،اخلاقی حقائق میں سے ایک بہت اھم حقیقت ھے جس کی وجہ سے انسان رفعت و سر بلندی اور معنوی درجات حاصل کرلیتا ھے۔

تواضع و انکساری کی اھمیت اس قدر ھے کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام دعاء کمیل میں گریہ وزاری کے عالم میں خداوندعالم سے اس کی درخواست کرتے ھیں!

تواضع و انکساری ایک ایسی حقیقت ھے کہ اگر انسان تمام حالات میں تواضع و انکساری سے کام لے تو وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ھوجائے گا، ھمیشہ کے لئے اس کو سعادت و خوشبختی مل جائے گی، آخرت کے عذاب سے محفوظ ھوجائے گا، اور آسانی کے ساتھ رضوان الٰھی حاصل ھوجائے گی۔

تواضع و انکساری دو مقام پر ھونا چاہئے، اول خدا کے حضور میں اور دوسرے مخلوق خدا کے سامنے۔

خدا کے حضور میں تواضع و انکساری یہ ھے کہ انسان؛ خداوندعالم کے ان تمام احکامات کو دل کی گھرائی اور دل وجان سے قبول کرے چاھے وہ دنیا سے متعلق ھوں یا آخرت سے، جو قرآن مجید ،پیغمبر خدا (ص)اور ائمہ معصومین علیھم السلام نے بیان کئے ھے،اور ان کو قبول کرنے کے بعدحوصلہ و ھمت کے ساتھ ان پر عمل پیرا ھو۔

مخلوق خدا کے سامنے تواضع و انکساری یہ ھے کہ انسان اپنے کو دوسرے مسلمان اور مومن برادران سے بہتر نہ سمجھے، اور ان کو ذلیل و حقیر شمار نہ کرے، ان کا احترام کرے ، ان کے سامنے خاکساری، نیز کسی بھی سلسلہ میں ان کی مدد کرنے سے دریغ نہ کرے، ان کی خطا اور غلطی کو اپنی بزرگواری اور کرامت سے معاف کردے، بلکہ ان کو معاف کرنے کے بعد حتی الامکان ان کے ساتھ نیکی کرے، اور ھر حال میں ان کا احترام کرتا رھے۔

قرآن و تواضع

قرآن مجید کا حکم ھے کہ خداوندعالم کے حضور میں تواضع و انکساری کے ساتھ پیش ھو، اس کے علاوہ یہ بھی حکم ھے کہ اپنے مسلمان او ردینی بھائیوںکے سامنے بھی تواضع و انکساری کے ساتھ پیش آئے۔

حالانکہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی شخصیت جن و انس او رفرشتوں میں سب سے عظیم شخصیت ھے، لیکن پھر بھی قرآن مجیدنے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو حکم دیا ھے کہ وہ اھل ایمان کے ساتھ تواضع و انکساری سے پیش آئیں :

”۔۔۔وَاخْفِضْ جَناحَکَ لِلْمُوٴْ مِنینَ “[118]

”بس آپ اپنے شانوں کو صاحبان ایمان کے لئے جھکائے رکھیں “۔

”تِلْکَ الدَّارُ الاٴٓخِرَةُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِینَ لَایُریدُونَ عُلُوًّا فِی الاٴَرْضِ وَلافَسَاداً وَالْعَاقِبَةُ لَلْمُتَّقِینَ۔“[119]

”یہ دار آخرت وہ ھے جسے ھم ان لوگوں کے لئے قرار دیتے ھیں جو زمین میں بلندی اور فساد کے طلب گار نھیں ھوتے اور عاقبت تو صرف صاحبان تقویٰ کے لئے ھے“۔

قرآن مجید میں صاف صاف اعلان ھوا ھے کہ خدا اھل تکبر کو دوست نھیں رکھتا اور تکبر جیسی ناپسند صفت کو دوزخیوں کی صفت بیان کرتا ھے:

”۔۔۔اٴِنَّہُ لا یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِینَ۔“[120]

”وہ مستکبرین کو ھرگز پسند نھیں کرتا “۔

”۔۔۔اٴَلَیْسَ فِی جَھَنَّمَ مَثْوًی لِلْمُتَکَبِّرِینَ۔“[121]

”اور کیا جھنم میں تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا نھیں ھے؟!“۔

احادیث میں تواضع و انکساری

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے منقول ھے کہ آپ نے فرمایا:

”مَالِی لاَ اٴَرَی عَلَیْکُم حَلَاوَةَ العِبَادَةِ؟قاَلُوا: و ماحَلَاوَةَ العِبَادَةِ؟قاَلَ: التَوَاضُعْ“[122]

”کیا وجہ ھے کہ مجھے تمھارے اندر عبادت کی شیرینی نظر نھیں آتی، لوگوں نے پوچھا: عبادت کی شیرینی کیا ھے تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: ”تواضع و انکساری“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام تواضع کرنے والے مومنین کی صفات بیان کرتے ھوئے فرماتے ھوئے نصیحت کرتے ھیں:

”وَلَکِنَّہُ سُبْحَانَہُ کَرَّہَ إِلَیْہِمُ التَّکابُرَ وَرَضِیَ لَہُمْ التَوَاضُعْ،فَاٴَلْصَقُوا بِالْاٴَرْضِ خُدودَہُم،وَعَفَّرُوا فِی التُّرابِ وُجوہَہُم، وَخَفَضُوا اٴَجْنِحَتَہُم لِلْمُوٴمِنِینَ“[123]

”خداوندعالم نے ان کے لئے تکبر کو ناپسند قرار دیا ھے، اور تواضع و انکساری کو پسند فرمایا ھے، لہٰذا انھوں نے عبادت و بندگی میں اپنے پیشانی کو زمین پر رکھ دیا اور بندگی کی وجہ سے اپنے چھرہ کوزمین پر مل لیا ھے، اورتمام مومنین کے سامنے تواضع و انکساری کے ساتھ پیش آتے ھیں“۔

نیز آپ ھی کا فرمان ھے:

”عَلَیْکَ بِالتَّواضُعِ فَإِنَّہُ مِن اٴَعْظَمِ العِبَادَةِ“[124]

”ھمیشہ تواضع و انکساری کیا کرو، کیونکہ تواضع و انکساری ایک عظیم عبادت ھے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام تواضع و انکساری کے حدود بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

”التَواضُعُ اٴَنْ تَرضَی مِنَ المَجْلِسِ بِدونِ شَرَفِکَ،وَاٴَنْ تُسَلِّمَ عَلی مَن لاقَیْتَ،وَاٴَنْ تَتْرُکَ الْمِراءَ وَإِنْ کُنْتَ مُحِقّاً۔وَرَاٴْسُ الخَیْرِالتَّواضُعُ“[125]

”تواضع یہ ھے کہ جس جگہ تم بیٹھ گئے ھو اسی پر خوش رھو اگرچہ وہ جگہ تمھاری عظمت و بزرگواری کے لحاظ سے مناسب نہ ھو، اور ھر ملاقات کرنے والے کو سلام کرو، اور بحث و گفتگو میںجنگ و جدال سے پرھیز کرو، کیونکہ تواضع و انکساری تمام ھی نیکیوں کا سرچشمہ ھے“۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے:

”إِنَّ اٴَفْضَلَ النَّاسِ عَبْداً مَن تَوَاضَعَ عَنْ رِفْعَةٍ“[126]

”بے شک بندگی کے لحاظ سے بہترین افراد وہ ھےں جو اپنی عظمت اور بلند مقام کے باوجود تواضع و انکساری کے ساتھ پیش آئیں“۔

نیز آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا یہ بھی ارشاد ھے:

”إِنَّ التَّواضُعَ یَزِیدُ صَاحِبَہُ رِفْعَةً۔فَتَواضَعُوایَرْفَعکُمُ اللهُ“[127]

”تواضع و انکساری کے ذریعہ انسان کے درجات بلند ھوتے ھیں، لہٰذا تم تواضع و انکساری سے کام لو تاکہ خداوندعالم تم کو بلند مقام عنایت فرمائے“۔

علماء اخلاق نے تکبر کو(جو ناپسند اور شیطانی صفات ھے)؛افراط شمار کیا ھے، اور ھر کسی کے سامنے ذلت کے ساتھ پیش آنے کو تفریط حساب کیا ھے،تواضع و انکساری کو(جو انسان کے لئے بہترین صفات ھیں) حدّاعتدال اور میانہ روی کے عنوان سے قبول کیا ھے۔

حضرات ائمہ معصومین علیھم السلام سے منقول ھے کہ : خدا وندعالم کے حضور تواضع و انکساری یہ ھے کہ انسان اپنے تمام وجود کو مقام بندگی میں قرار دیدے، اور دوسرے لوگوں کے ساتھ تواضع و انکساری یہ ھے کہ عدل وانصاف کے ساتھ زندگی بسر کرے، اورانسانی حقوق میں اپنے کو دوسروں کے برابر قرار دے۔

تواضع رسول خدا

حضرت رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) غریبوں، فقیروں اور نیازمندوں کے ساتھ تواضع سے پیش آتے تھے۔ جس سے بھی ملاقات ھوتی تھی اس کو سلام کیا کرتے تھے چاھے وہ چھوٹا بچہ ھی کیوں نہ ھو،بغیر ریاکاری کے زمین پر بیٹھ جایا کرتے تھے، گلی و کوچوں کے لوگوں سے خصوصاً بے یار ومدد گار سے مانوس ھوجاتے تھے، ان کا حال چال معلوم کیا کرتے تھے ان کے کام کے بارے میں سوال کرتے تھے، معمولی سواری کیا کرتے تھے، اپنے گوسفند کو خود دو ھا کرتے تھے، اپنا لباس خود دھویا کرتے تھے، خادموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے تھے، اور عوام الناس کے درمیان ایک معمولی انسان کی طرح زندگی فرماتے تھے۔

تواضع حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام

حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام بھی پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی طرح تواضع و انکساری سے پیش آتے تھے۔ چنانچہ جناب ابن عباس کہتے ھیں:

ایک روز میں آپ کی خدمت میں حاضر ھوا، دیکھا کہ آپ اپنے جوتا سلنے میں مشغول ھیں، میں نے عرض کی، یہ جوتا سلنے کے لائق نھیں ھے۔ تو آپ نے فرمایا: خدا کی قسم، یہ جوتا میرے نزدیک تمھاری دنیا سے زیادہ قیمتی ھے ، در حالیکہ اگر اس دنیا کو اپنے ھاتھوں میں لے لوں اور کسی صاحب حق کے حق کو پامال کروں؛ میں اپنے جوتے کو سلنا چاہتا ھوں اور اس کام کو اپنے لئے کوئی عیب بھی نھیں سمجھتا، اور اگر میرے ھاتھ میں حکومت ھو ، اور اس کے ذریعہ حق کا قیام کروں ، اور باطل کو نیست و نابود کردوں۔

اس کے بعد ابن عباس کہتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام اپنے لباس پر خود ھی پیوندبھی لگایا کرتے تھے اور معمولی سواری پر سوار ھوتے تھے۔[128]

تواضع جناب سلیمان علیہ السلام

جناب سلیمان علیہ السلام کی عظمت و بزرگی اس قدر تھی کہ ان جیسی عظمت کسی کو نھیں ملی ، لیکن اس قدر تواضع اور انصاف فرمایا کرتے تھے کہ ایک چھوٹی سی چیونٹی بھی آپ کو محکوم کرتی ھے اور اپنے فطری حق کو جناب سلیمان سے حاصل کرتی ھے۔

چنانچہ جب جناب سلیمان کے ھاتھ پر ایک چیونٹی حرکت کرتی ھے، تو آپ نے اس کو اٹھاکر زمین پر چھوڑ دیا، جناب سلیمان دوسروں کی طرح یہ نھیں سوچ رھے تھے کہ وہ چیونٹی آپ پر کوئی اعتراض کرے گی، لیکن حضرت سلیمان(ع) کی تواضع و عدالت اور ذرہ نوازی اس مقام پر تھی کہ اس چیونٹی نے اپنے منھ کو کھولا اور عرض کیا:

یہ خود پسندی کیسی؟ یہ تکبر کیسا؟ کیا آپ نھیں جانتے کہ میں بھی اسی خدا کی مخلوق ھوں جس کے آپ، آپ بھی اسی کے بندے ھیں اور میں بھی، بندگی کے لحاظ سے آپ میں اور مجھ میں کوئی فرق نھیں ھے، تو پھر آپ میرے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کیوں کرتے ھیں؟

جناب سلیمان علیہ السلام چیونٹی کی اس وضاحت بیانی سے متاثر ھوتے ھیں، جی ھاں پریشان ھوتے ھیں اور کہتے ھیں کہ واقعاً اگر اس طرح روز قیامت ان کا محاکمہ (فیصلہ) ھونے لگا تو کیا ھوگا۔ چنانچہ اسی پریشانی کے عالم میں غور و فکر کرنے لگے اور جب پریشانی ختم ھوئی تو حکم دیا کہ اس چیونٹی کو بلاؤ۔

شاید آپ حضرات سوچ رھے ھوں کہ جناب سلیمان نے چیونٹی کو ڈانٹنے کے لئے بلایا ھوگا اور اس کو سزا دینے کے لئے طلب کیا ھوگا!! لیکن حضرت سلیمان بندہ خدا ھیں اور مقام نبوت پر فائز ھیں، تمام اخلاقی حسنات سے [129]مزین ھیں اور انسانی کمالات ان کے وجودمیں جلوہ گر ھیں۔ چیونٹی کی صاف گوئی سے خوش ھوئے ، اور اس وجہ سے کہ آپ کے ماتحت سبھی آزاد ھیں یھاں تک چیونٹی جیسا وجود بھی اعتراض کرنے کی جرائت رکھتا ھے، لہٰذا خوش ھوئے۔

اور پھر چیونٹی سے کھا: کیوں تونے مجھ سے اس طرح گفتگو کی اور اس طرح کا اعتراض کیا؟

چیونٹی نے (بھی) جواب دیا: میری کھال، گوشت اور وجود ضعیف ھے، (میرا ایک نازک سا وجود ھے) اور آپ نے مجھے پکڑا اور زمین پر پھینک دیا میرے ھاتھ پیر میں درد ھوا جس کی بنا پر مجھے اذیت ھوئی، لہٰذا میں نے آپ پر اعتراض کیا۔

حضرت سلیمان نے فرمایا: چونکہ میں نے تجھے زمین پر پھینک دیاجس سے تجھے تکلیف ھوئی، لہٰذا میں تجھ سے عذرخواھی کرتا ھوں، بے شک کہ میں نے یہ کام بری نیت سے انجام نھیں دیا تھا، اور چونکہ بُرا ارادہ نھیں ھے لہٰذا عذر خواھی کی گنجائش پائی جاتی ھے، اور میں تجھ سے معافی چاہتا ھوں۔

جی ھاں! حضرت سلیمان(ع) جیسا عظیم پیغمبر جب یہ دیکھتا ھے کہ اس نے اخلاقی حدود سے آگے قدم بڑھا دیا ھے تو پریشان ھوجاتے ھیں ، اور اپنے مدمقابل چاھے چیونٹی جیسا کمزور وجود ھی کیوں نہ ھو، عذر خواھی کرتے ھیں!!

چنانچہ اس موقع پر چیونٹی نے کھا: میں آپ کو معاف کرسکتی ھوں لیکن شرط یہ ھے کہ آپ شھوت اورخواھش کی بنا پر دنیاداری کے پیچھے نہ جائیں، مال و دولت کو اگر جمع کریں تو اپنے تمام برادران کا خیال رکھیں، خوش گزرانی اور اسراف کا شکار نہ ھوں، اس قدر خوشی اور لذت میں غرق نہ ھوں کہ آپ غریب اور فقراء کو بھول جائیں، اگر کوئی غریب و محتاج آپ سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کریں۔

جناب سلیمان علیہ السلام نے جن کا قلب مبارک اپنے ما تحت کی نسبت لطف و مھربانی اور محبت سے بھرا ھوا تھا، اس چیونٹی کے شرائط کو تواضع کے ساتھ قبول کرلیا اور چیونٹی نے بھی آپ کو معاف کردیا۔[130]

”اٴَللّٰھُمَّ وَاٴَسْاٴَ لُکَ سُوٴٰالَ مَنِ اشْتَدَّتْ فٰاقَتُہُ،“

” خدایا میرا سوال اس بے نوا جیسا ھے جس کے فاقے شدید ھوں“۔

مالک حقیقی خدا ھے

جس وقت ھم دعائے کمیل سے ان فقرات کو پڑھےں تو ھماری ظاھری آنکھیں اور دل کی آنکھوں میں آنسوں بھرے ھوںاور قرآنی آیات اور روایات سے مدد لیتے ھوئے ان دو حقیقتوں کا مشاھدہ کرےں:

پھلی حقیقت :ھم یہ جان لیں کہ فیض و کرم کا مرکز اور حقیقی مالک، نیز بخشنے والا، بے نیاز اور غنی مطلق خدا کے علاوہ کوئی نھیں ھے۔

دوسری حقیقت: انسانی وجود نیزدوسری تمام ظاھری اور مخفی موجودات فقر محض اور نیاز مندی و احتیاج اور مملوکیت کا پیکر ھے۔

وہ خدائے بے نیاز و غنی جس نے اس جھان ھستی اور اس میں موجود تمام چیزوں کو خلق فرمایا بغیر کسی نیاز مندی اور احتیاج کے، اور ھر چیز کے لئے اس کے لئے ضروری چیزوں کو مھیا فرمایا۔ وہ خدا جس کے جود و کرم کا ایک قطرہ تمام موجوات کی شکل میں ظاھر ھوا ھے ، کوئی بھی وجود اس کی ذات کے مقابلہ میں نھیں آسکتا،اور تمام ھی موجودات اس کی قدرت کے سامنے سجدہ ریز ھیں اور اس کی قدرت مطلقہ کے سامنے سر تسلیم خم کئے ھوئے ھیں، اسی کے اس اشارہ ”کُن“ سے نِیستی کے ظلمت کدے میں کائنات کو ایک چراغ کی طرح روشن کردیا، اور اپنے ایک لفظ ”لاتکن“سے تمام ھی موجودات کو وادی عدم میں پھنچاسکتا ھے، تو تمام ھی موجودات کو اس کی ضرورت اور احتیاج کے پیش نظر اپنی رحمت سے کیوں نہ نوازے؟ مخلوق پر کیوں نہ نظر رحمت کرے؟ کس وجہ سے کوئی اس کی رحمت سے ناامیدی اور مایوسی کا شکار ھو؟!

خدا کے لطف ورحمت کی طرف تمام کائنات کی احتیاج و ضرورت ایک طرف سے، اس ذات مقدس کی توصیف بے نھایت رحمت ومحبت اور لطف و کرم دوسری طرف سے، تمام ھی موجودات کی نیازمندی پر واضح و بہترین دلیل ھے۔

اسی کی ذات خالق و رازق، مصوّر و ودود، رحیم و کریم، غفور ورحیم اور زندہ کرنے والا اور مارنے والا ھے، اس کا کوئی شریک نھیں ھے، تمام مخلوق اس کی مخلوق، مملوک اور اسی کا رزق کھانے والی ھےں، نیز ایک لمحہ کے لئے بھی اس سے بے نیاز نھیں ھوسکتیں۔

وھی تمام عالم کا مالک ،تمام مخلوقات کے امور کا مدبّر اور جھان آفرینش کا چلانے والا ھے۔

جو لوگ اپنی دولت جاہ و مقام کے نشہ میں چور ھیں اورخدا کی طرف اپنی نیاز مندی اور احتیاج سے بے خبر ھیں، یہ لوگ بے نیازی اور استغناء کا احساس کرتے ھیں، جبکہ ان کا یہ احساس شیطانی وسوسہ اور غفلت و بے خبری کے درخت کا کڑوا پھل ھے؛ اسی وجہ سے دل کے اندھے، بے بصیرت اور خسارت کے گڈھے میں گرے ھوئے یہ لوگ خدا وندعالم کی بارگاہ میں نالہ و فریاد اور فقر و نیازمندی کا اظھار کرنے سے محروم ھیں، جس کی وجہ سے بہت زیادہ خسارہ میںھیں اور ان کی زندگی جنگلی جانوروں کی طرح تاریکی و ظلمت کے دلدل میں پھنسی ھوئی ھے اور فیوضات الٰھی سے محروم ھےں۔ قرآن مجید اس غنی مطلق، فیاض بے نھایت اور تمام کمالات و صفات کے مالک کے بارے میں فرماتا ھے:

”وَلِلَّہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَاللهُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ“[131]

”اور اللہ کے لئے زمین و آسمان کی کل حکومت ھے اور وہ ھر شئے پر قادر ھے“۔

”۔۔۔ وَلِلَّہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا وَإِلَیْہِ الْمَصِیرُ“[132]

”اور اللہ کے لئے زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی کل کائنات ھے اور اسی کی طرف سب کی باز گشت ھے“۔

” لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ یُحْیِ وَیُمِیتُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ“[133]

”آسمان و زمین کا کل اختیار اسی کے پاس ھے اور وھی حیات و موت کا دینے والا ھے اور وہ ھر شئے پر اختیا ر رکھنے والا ھے“۔

” وَلِلَّہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ یَغْفِرُ لِمَنْ یَشَاءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَشَاءُ۔۔۔“[134]

”اور اللہ ھی کے لئے زمین و آسمان کا ملک ھے وہ جس کو چاہتا ھے بخش دیتا ھے اور جس پر چاہتا ھے عذاب کرتا ھے ۔۔“۔۔

قرآن مجید انسان کے بارے میں فرماتا ھے:

” یَااٴَیُّہَا النَّاسُ اٴَنْتُمْ الْفُقَرَاءُ إِلَی اللهِ وَاللهُ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیدُ“[135]

”انسانو! تم سب اللہ کی بارگاہ کے فقیر ھو اللہ صاحب دولت اور قابل حمد و ثنا ھے “۔

جی ھاں! انسان کا پورا وجود؛ نیاز مندی فقر و احتیاج کے علاوہ کچھ نھیں ھے، کیا انسان خود اپنی خلقت، زندگی گزارنے، منفعت حاصل کرنے یا نقصان کو دور کرنے پر قدرت رکھتا ھے؟ (نھیں) خدا ھی نے اس کو پیدا کیا ھے اور اپنے فیض و کرم کی بنا پر اس کو زندگی گزارنے کی قدرت عطا کی ھے اس کو مفید چیزوں سے نوازتا ھے اور بُری چیزوں کو دور کرتا ھے، تو پھر اس نیاز مندی اور فقر و بے چارگی کو صدق نیت کے ساتھ شب جمعہ کیوں نھبارگاہ رب العزت میں پیش کیا جائے اور اس کا اظھار کرکے اپنے تمام وجود سے اس فقرہ کو زبان پر جاری کرے:

”اٴَللّٰھُمَّ وَاٴَسْاٴَ لُکَ سُوٴٰالَ مَنِ اشْتَدَّتْ فٰاقَتُہُ“۔

انسان کے لئے سب سے بہتر موقع ”وقت دعا“ ھے کہ جب انسان اپنے فقر ذاتی اور اپنی نیاز مندی پر توجہ رکھتے ھوئے پروردگار کی بارگاہ میں دست دعا بلند کرے اور دل کی گھرائی سے حضرت محبوب کی کی خدمت میں عرض کرے :

آن دلی کہ تویی در وی غم خانہ چرا باشد

چون گشت ستون مسند حنّانہ چرا باشد

غم خانہ دلی باشد کان بی خبر است از تو

چون جای تو باشد دل غم خانہ چرا باشد

بیگانہ کسی باشد کو باتو نباشد یار

آن کس کہ تواش یاری بیگانہ چرا باشد

دیوانہ کسی بودست کوعشق نفھمیدست

آن کس کہ بود عاشق دیوانہ چرا باشد

فرزانہ کسی باشد کو معرفتی دارد

آن کو نبود عارف فرزانہ چرا باشد

دُر دانہ بود سرّی کو در صدف سینہ است

سنگی کہ بود بی جان در دانہ چرا باشد

آن دل کہ بدید آن رو بوبرد زعشق ھو

عشق دگران او را کاشانہ چرا باشد

آن جان کہ تواش جانان غیر از تو کہ را بیند

وان دل کہ تواش دلبر بت خانہ چرا باشد

رو سورہ ی یوسف خوان تا بشنوی از قرآن

حق است حدیث عشق افسانہ چرا باشد

”فیض“است زحق حق خرّم ھر گز نخورد او غم

چون یافت عمارت دل ویرانہ چرا باشد[136]

ترجمہ اشعار:

”جس دل میں تو (اے خدا) موجود ھو وہ غم خانہ کیسے ھوسکتا ھے، کیونکہ جب تکیہ لگانے کے لئے مسند ھو تو پھر (درخت) حنانہ پر کیوں تکیہ لگایا جائے۔

وہ دل میں غم خانہ ھوتا ھے جو تجھ سے بے خبر ھوتا ھے ، لیکن جب تو دل میں موجود ھو تو پھر دل غم خانہ نھیں ھوتا۔

بیگانہ وہ ھے جس کا کوئی مددگار تو نہ ھو لیکن جس کا ناصر و مددگار تو ھو وہ بےگانہ نھیں ھے۔

دیوانہ وہ شخص ھے جو عشق (حقیقی) کو نہ پہچان سکے، لیکن جو عاشق ھووہ دیوانہ کیسے ھوسکتا ھے۔

عالم فرزانہ وہ ھوتا ھے جس کے دل میں (تیری) معرفت ھو، لیکن جو شخص تیرا عارف نہ ھو وہ عالم نھیں ھوسکتا۔

دل اگر اسرار الٰھی کی جگہ ھو تو وہ گوھر بے بھا اور دُرھے، لیکن اگر (دل) پتھر ھو تو وہ دُر نھیں ھوسکتا ۔

جو شخص عشق الٰھی کا مزہ چکھ لے وہ اس کا دل دوسروں کا کاشانہ عشق نھیں ھوسکتا۔

جس کا معشوق تو ھو تو وہ کسی غیر پر کب نگاہ کرتا ھے، اور جس کے دل کا دلبر تو ھو تو وہ بت خانہ کیسے ھوسکتا ھے۔

حدیث عشق کوئی افسانہ نھیں ھے بلکہ ایک حقیقت ھے اگر یقین نھیں ھے تو جاکر سورہ یوسف کو پڑھ لے۔

در حقیقت ”فیض “ حق سے شاد و خرم ھے لہٰذا اسے کوئی غم نھیں ھے کیونکہ جب دل ،نور ایمان سے آباد ھے تو پھر ویرانہ نھیں ھوسکتا۔“

” وَاٴَنْزَلَ بِکَ عِنْدَ الشَّدٰائِدِ حٰاجَتَہُ،“

” اور جس نے اپنی حاجتیں تیرے سامنے رکھ دی ھوں “۔

اگرچہ خداوندعالم ھماری تمام حاجتوں اور ضرورتوں کوجانتا ھے اور ھماری مشکلات اور پریشانیوں سے آگاہ ھے، اور مشکلات و پریشانیوں کو ھمارے بغیر کھے ھی دور کرسکتا ھے، لیکن قرآن و روایات کے مطابق خداوندعالم اپنے بندے سے اظھار نیازمندی اور اپنی بارگاہ میں گریہ و زاری کو دوست رکھتا ھے، خدا اپنے بندہ کی زبان پر مناجات دیکھنا چاہتا ھے اور یہ کہ انسان اس کی بارگاہ میں ذلت و خواری اور اپنی نیاز مندی کے ساتھ دعا کرے اور فیض و رحمت کے عظیم مرکز سے درخواست کرے:

”اے میرے محبوب و مھربان خدا! اپنے لطف و کرم سے میری مشکلات اورپریشانیوں کو دور فرما، میری زندگی کی مشکلات کو برطرف کردے، سختیوں اور مصائب کو مجھ سے دور فرما، اور مجھے مشکلات کی قید سے رھائی عطا فرما، اپنے ارادہٴ ربوبی ، رحمت بے نھایت اور بے انتھا کرم و احسان سے میری حاجت روا فرما، میری آرزوئیں پوری کردے،اور اپنے خاص فیض وکرم سے میری جھولی بھردے“۔

بیان حاجت اور جھولی پھیلانا اس معنی میں ھے کہ: اے مھربانوں میں سب سے زیادہ مھربان! میرا پورا وجود نیازمند ی کے علاوہ کچھ نھیں ھے، اور تیرے در پرگدائی کرنے کے علاوہ مجھے او رکوئی کام نھیں ھے، اور سوائے گریہ وزاری اور امید کے علاوہ میرے پاس کوئی دولت نھیں ھے۔ یھی خداوندعالم کا مطلوب ھے، در حقیقت یھی اس کی اطاعت و فرمانبرداری ھے؛ کیا اس نے قرآن مجید میں دعا کرنے کا حکم نھیں دیا ھے اور دعا قبول کرنے کی ضمانت نھیںلی ھے۔[137]

جی ھاں! دعا اور نیاز مندی کا اظھار کرنااور حاجت کوزبان سے بیان کرنانیز گریہ و زاری ایک طرح سے عبادت اور خداوندعالم کی اطاعت ھے، کیونکہ در حقیقت دعا ھی عبادت کا مغز ھے۔[138]

خداوندعالم بندہ کامشکلات اور پریشانیوں میں کسی غیر کا دروازہ کھٹکھٹانے کو دوست نھیں رکھتا ھے، کہ وہ کسی غیر سے اپنی حاجت طلب کرے اور مشکلات دور کرنے کے لئے کسی غیر سے درخواست کرے۔

درج ذیل حدیث قدسی جو اسلامی اھم کتابوں میںنقل ھوئی ھے؛ اس میں بہت اھم اور گرانقدر چیزیں بیان ھوئی ھیں، جس میں بیان ھوا ھے کہ صرف اور صرف خدا وندعالم ھی کی بارگاہ میں اپنی حاجتوں کو بیان کرے اور غیر کے دروازے پر نہ جائے، اس حدیث قدسی کا (صرف)ترجمہ پیش کرتے ھیں:

”کیا (میرے بندے کے لئے سزاوار ھے ) مشکلات اور سختیوں کے وقت کسی غیر کی طرف رجوع کرے؟ تاکہ میرے علاوہ کوئی اس کی پریشانیوں کودور کرے، حالانکہ مشکلات کو دور کرنا میرے قبضہٴ قدرت میں ھے۔کیا (میرے بندے کے لئے سزاوار ھے کہ)وہ میرے علاوہ کسی غیر سے امید رکھے تا کہ وہ اس کی نیازمندی اور حاجتوں کو پورا کردے اور اس کو فقر و ناداری سے نجات دے حالانکہ تمام موجودات کی نسبت صاحب کرم وبخشش اورصاحب جودو توانگرمیں ھی ھوں اور تمام لطف و کرم کی کُنجی میرے ھی دست قدرت میں ھے۔

میرے بندے کو کیا ھوگیا ھے کہ مجھ سے منھ موڑے ھوئے ھے ، جبکہ میں نے اس کو اس وقت بھی عطا کیا ھے جب اس نے سوال بھی نہ کیا، اور اس وقت اپنی تمام تر حاجتوں کے باوجود مجھ سے نھیں مانگ رھا ھے ، اور اپنی حاجتوں کو دوسروں کے سامنے لے کر جاتا ھے؟

میں ھو ں خدا، کہ میرے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے، میں بغیر مانگے ھی عطا کردیتا ھوں، (تو کیا) اگر کوئی مجھ سے مانگے تو نھیں دوں گا؟!!

کیا جود و کرم کا موجیں مارتا ھوا سمندر مجھ سے متعلق نھیں ھے؟ کیا دنیا و آخرت میرے قبضہ قدرت میں نھیں ھے؟

اگر تمام اھل زمین و آسمان مجھ سے زمین و آسمان کے برابر کچھ مانگیں، تو میں ان کو عطا کردوں گا، اور مکھی کے پر کے برابر میرے خزانہ میں کمی نھیں ھوگی۔ وائے ھو اس شخص پر جو مجھ سے منھ موڑے، او رمیرے غیر کے علاوہ کسی اور سے طلب کرے، اور اپنی مشکلات و سختیوں کو میرے غیر سے دور کرنے کی دراخواست کرے!!“۔[139]

”وَعَظُمَ فی مٰا عِنْدَکَ رَغْبَتُہُ“۔

” اور جس کی رغبت تیری بارگاہ میں عظیم ھو“۔

خداوندعالم کے پاس جو کچھ ھے ؛اس کے بارے میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام مکمل طور پر معرفت رکھتے تھے، اور اسی علم و معرفت کی وجہ سے یہ دعا پڑھتے وقت اپنی پیشانی کو خاک پر رکھ کر خضوع و خشوع اور خاکساری کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں عرض کرتے تھے:” تیرے بارے میں میری رغبت بڑھی ھوئی ھے“۔

خداوند عالم کے پاس کیا کیا ھے ھم ان میں سے ایک پھلو کی طرف اشارہ کرتے ھیں تاکہ ھر انسان اپنی لیاقت کے لحاظ سے ان سے بھرہ مند ھوسکے، قرآنی آیات اور احادیث ائمہ معصومین علیھم السلام کو شاھد لائیں تو اس شرح کی سیکڑوں جلد کتابیں ھوجائیں گی، عمر تمام ھوجائے گی، تب بھی شاید فیضان الٰھی کے ایک قطرہ کے برابر بھی اشارہ نہ کرپائيں۔

لیکن خدا کے پاس کیا کیا ھے نمونہ کے طور پر چند حقائق کی طرف اشارہ کرتے ھیں، خداوندعالم اس سلسلہ میں ھمیں مزید توفیق دے تاکہ ھمارے شوق و رغبت اور نشاط میں اضافہ ھو۔

بندوں کے اعمال پر خدا کی جزا وثواب

خداوندمھربان نے اپنی رحمت و لطف وکرم کی بنا پر اپنے بندوں پر کچھ چیزیں واجب قرار دی ھیں، جیسے نماز، روزہ، حج، جھاد، انفاق، صدقہ، عوام الناس کی خدمت، ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت کرنا اور ھر طرح کے گناہ و معصیت سے اجتناب ۔ او ران تمام ھی اعمال پر ایمان اور عمل کے لحاظ سے اس کی جزا و ثواب معین فرمایا ھے۔

قرآن مجید نے صاف صاف اعلان فرمایا ھے: ”ھم نیکی کرنے والے اور مصلح افراد کے اجر کو ضایع نھیں کریں گے، اور نیک کام کرنے والے اور مصلح افراد کو معین شدہ اجر و ثواب یقینی ملے گا۔[140]

خداوندعالم نے اپنے صالح و مومن اور پرھیزگار بندوں کے لئے کئی قسم کا اجر و ثواب مقرر فرمایا ھے، جیسا کہ قرآن مجید میں ان کی طرف اشارہ ھوا ھے:

۱۔ اجر عظیم۔

۲۔ اجر کریم۔

۳۔ اجر غیر ممنون۔

۴۔ اجر کبیر۔

۵۔ دو بار اجر۔

ارشاد الٰھی ھوتا ھے:

”لِلَّذِینَ اٴَحْسَنُوا مِنْھُمْ وَ اتَّقَوْا اٴَجْرٌ عَظِیمٌ“[141]

” (مومنین )نیک کردار اور متقی افراد کے لئے نھایت اجر عظیم ھے“۔

” إِنَّ الْمُصَّدِّقِینَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَاٴَقْرَضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا یُضَاعَفُ لَہُمْ وَلَہُمْ اٴَجْرٌ کَرِیمٌ۔“[142]

”بے شک خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور جنھوں نے راہ خدا میں اخلاص کے ساتھ مال خرچ کیا ھے ان کا اجر دو گناہ کردیا جائے گا او ران کے لئے بڑا با عزت اجر ھے“۔

” إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَہُمْ اٴَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُونٍ“[143]

”بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے ان کے لئے منقطع نہ ھونے والا اجر ھے“۔

”وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَہُمْ مَغْفِرَةٌ وَاٴَجْرٌ کَبِیرٌ۔“[144]

”اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے ان کے لئے مغفرت اور بہت بڑا اجر ھے“۔

” اٴُوْلَئِکَ یُؤْتَوْنَ اٴَجْرَہُمْ مَرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوا وَیَدْرَئُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ۔“[145]

” یھی وہ لوگ ھے کہ جن کو دھری جزا دی جائے گی کہ انھوں نے صبر کیا اور یہ نیکیوں کے ذریعہ برائیوں کو دفع کرتے ھیں اور ھم نے جو رزق دیا ھے اس میں سے خرچ کرتے ھیں “۔

خداوندعالم کے نزدیک اھل ایمان و عمل صالح کا اجر و ثواب دائمی اور ھمیشگی ھے، اور اس اجر وثواب کو صرف خدا ھی عطا کرسکتا ھے۔ روایات اور احادیث میں ان میں سے چند چیزوں کی طرف اشارہ کیا گیا ھے، جن کے چند نمونے مختصر طور پر آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرتے ھیں۔

حضرت علی علیہ السلام ایک حدیث کے ضمن میں فرماتے ھیں:

”ثَوابُ عَمَلِکُم اٴَفْضَلُ مِن عَمَلِکُم“[146]

”تمھارے اعمال کا ثواب تمھارے اعمال سے بہتر ھے“۔

”ثَوابُ الصَّبرِ اٴَعْلَی الثَّوابِ“[147]

”(اطاعت و معصیت اورمصیبتوں پر) صبر کرنے کا ثواب سب سے عظیم ھے“۔

”إِنَّ اٴَعْظَمَ المَثوبَةِ مَثوبَةُ الإنْصَافِ“[148]

”بے شک سب سے عظیم ثواب ، انصاف کا ثواب ھے“۔

”ثَوابُ الجِھادِ اٴَعْظَمُ الثَّوابِ“[149]

”جھاد کی جزا سب سے عظیم جزا ھے“۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:

”النَّائِمُ بِمَکَّةَ کاَلْمُجْتَہِدِ فِی البُلدانِ،وَالسَّاجِدُ بِمَکَّةَ کاَلْمُتَشَحِّطِ بِدَمِہِ فِی سَبِیلِ اللهِ،وَمَن خَلَّفَ حَاجّاً فِی اٴَہْلِہِ کاَنَ لَہُ کَاٴَجْرِہِ حَتَّی کَاٴَنَّہُ یَسْتَلِمُ الحَجَرَ“[150]

”مکہ معظمہ میں سونا؛ شھر میں کوشش کرنے والے کی طرح ھے، اور مکہ معظمہ میں سجدہ کرنے والا شھید راہ کی طرح ھے، اور اگرکوئی شخص زائر کی جگہ اس کے اھل (وعیال) کی دیکھ بھال کرے تو اس کا ثواب زائر کی طرح ھے یھاں تک کہ اس نے حجر اسود کا بوسہ لے لیا ھے“۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے:

”رِباطُ یَوْمٍ فِی سَبِیلِ اللهِ خَیْرٌ مِن الدُّنْیَا وَمَا عَلَیْہَا“[151]

”راہ خدا میں ایک روز کا جھاد دنیا اور ما فیھا سے بہتر ھے“۔

نیز آنحضرت کا فرمان ھے:

”حَرسُ لَیلَةٍ فِی سَبِیلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ اٴَفْضَلُ مِن اٴَلْفِ لَیلةٍ یُقامُ لَیلُھا وَیُصامُ نَھارُھا“[152]

”راہ خدا میں ایک روز پاسداری (حفاظت) کرنا ان ہزار راتوں سے بہتر ھے جس میں دن بھر روزہ رکھا جائے اور رات بھر عبادت کی جائے“۔

”إِنَّ العَبْدَ إِذا تَخَلَّی بِسَیِّدِہِ فِی جَوفِ اللَّیْلِ المُظْلِمِ وَناجَاہُ،اٴَثْبَتَ اللهُ النُّورَ فِی قِلْبِہ“۔[153]

”اگر کوئی بندہ رات کی تاریکی میں خدا کی بارگاہ میں خلوت (عبادت) کرے اور خدا سے مناجات کرے تو خداوندعالم اس کے دل میں نور کو ثابت و قائم کردیتا ھے“۔

حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ھے:

”قِیامُ اللَّیلِ مَصَحَّةُ البَدَنِ وَرِضَی الرَّبِّ وَتَمَسُّکٌ بِاٴَخلاقِ النَّبِیِّینَ وَتَعَرُّضٌ لِرَحْمَتِہِ“[154]

”رات کی عبادت جسم کے لئے مفید، باعث خوشنودی خدا اور انبیاء علیھم السلام کے کردار کو اپنانا ھے“۔

حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے:

”إِنَّ العَبْدَ لَیُوٴمَرُ بِہِ إِلَی النَّارِ یَومَ القِیَامَةِ فَیُسحَبُ فَیَقُولُ المُوٴمِنونَ وَالمُوٴمِنَاتُ:یَا رَبِّ ہَذَا الَّذِی کَانَ یَدْعُولَنَا فَشَفِّعْنَا فِیہِ۔فَیُشَفِّعُہُمُ اللهُ،فَیَنْجُو“[155]

”بے شک روز قیامت حکم الٰھی ھوگا کہ فلاں بندے کو آتش جھنم کی طرف لے کر چلو، جس وقت اس کو جھنم کی طرف لے جایا جائے گا تو مومنین اور مومنات کھیں گے کہ پروردگارا! یہ شخص تو ھمارے لئے ھمیشہ دعا کرتا تھا، ھماری شفاعت کو اس کے بارے میں قبول فرما، (تو اس وقت) خداوندعالم ان کی شفاعت کو قبول کرتے ھوئے اس کو نجات عطا کردے گا“۔

نیز رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے:

”اٴَلاَ مَن تَعَلَّمَ القُرآنَ وَعَلَّمَہُ وَعَمِلَ بِمَا فِیہِ فَاٴَنَا لَہُ سَائِقٌ إِلَی الجَنَّةِ وَدَلیلٌ إِلَی الجَنَّةِ“[156]

”آگاہ ھوجاؤ کہ جو شخص قرآن(کی تعلیم)حاصل کرے، اور دوسروں کو تعلیم دے اور قرآن پر عمل کرے، میں اس کی جنت کی طرف ھدایت کرنے والا اور جنت میں بھیجنے والا ھوں“۔

بھشت

خدا کے پاس موجود حقائق میں سے بھشت ھے ؛ جس کے لئے اھل معرفت و مومنین اور عمل صالح کرنے والے شوق و رغبت رکھتے ھیں۔

خداوندعالم قرآن مجید میں اپنے تمام بندوں کو ھمیشگی و ابدی مقام کے لئے دعوت کرتا ھے اور اس تک پھونچنے کا ذریعہ ایمان، عمل صالح، تقویٰ اور حلال و حرام کی رعایت کرنا ھے۔

ارشاد خداوندی ھوتا ھے:

” وَسَارِعُوا إِلَی مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالْاٴَرْضُ اٴُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِین۔“[157]

”اور اپنے پروردگار کی مغفرت اور اس کی جنت کی طرف سبقت کرو جس کی وسعت زمین و آسمان کے برابر ھے اور اسے صاحبان تقویٰ کے لئے مھیا کیا گیا ھے“۔

نیز اشاد ھوتا ھے:

” سَابِقُوا إِلَی مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُہَا کَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ اٴُعِدَّتْ لِلَّذِینَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِہِ ذَلِکَ فَضْلُ اللهِ یُؤْتِیہِ مَنْ یَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ۔“[158]

”تم سب اپنے پروردگار کی مغفرت اور اس کی جنت کی طرف سبقت کرو جس کی وسعت زمین و آسمان کے برابر ھے اور جسے ان لوگوں کے لئے مھیا کیا گیا ھے جو خدا او ررسول پر ایمان لائے،یھی در حقیقت فضل خدا ھے جسے چاہتا ھے عطا کرتا ھے اور اللہ تو بہت بڑے فضل کا مالک ھے“۔

قرآنی آیات اور روایات پیغمبر وائمہ معصومین علیھم السلام کی بنا پر ؛ ایمان، عمل صالح تقویٰ اور محرّمات سے دوری کرنے کا انعام بھشت ھے، لہٰذا اگر کسی شخص کا دامن ان چیزوں سے خالی ھو اور وہ کفروشرک اور دوسرے گناھوں سے آلودہ ھو ، وہ شخص نہ یہ کہ اس پاک و پاکیزہ جگہ میں جانے کا مستحق نھیں ھے بلکہ دوزخی ھے اور رحمت پروردگار اور لقاء اللہ سے محروم ھے۔

ارشاد ھوتا ھے:

” وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَکَرٍ اٴَوْ اٴُنْثَی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَاٴُوْلَئِکَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ یُرْزَقُونَ فِیہَا بِغَیْرِ حِسَابٍ۔“[159]

” اور جو نیک عمل کرے گا چاھے مرد ھو یا عورت بشرطیکہ صاحب ایمان ھو انھیں جنت میں داخل کیا جائے گا، اور وھاں بلاحساب رزق دیا جائے گا“۔

”وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْضٍ یَاٴْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنْ الْمُنکَرِ وَیُقِیمُونَ الصَّلَاةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَیُطِیعُونَ اللهَ وَرَسُولَہُ اٴُوْلَئِکَ سَیَرْحَمُہُمْ اللهُ إِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ . وَعَدَ اللهُ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْاٴَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا وَمَسَاکِنَ طَیِّبَةً فِی جَنَّاتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِنْ اللهِ اٴَکْبَرُ ذَلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ۔“[160]

”مومن مرد اور مومن عورتیں سب آپس میں ایک دوسرے کے ولی اور مدد گار ھیں کہ یہ سب ایک دوسرے کو نیکیوں کا حکم دیتے ھیں اور بُرائیوں سے روکتے ھیں ، نماز قائم کرتے ھیں، زکوٰة ادا کرتے ھیں،اللہ اور سول کی اطاعت کرتے ھیں، یھی وہ لوگ ھیں جن پر عنقریب خدا رحمت نازل کرے گا کہ وہ ھر شئے پر غالب اور صاحب حکمت ھے۔ اللہ نے مومن مرد اور مومن عورتوں سے ان باغات کا وعدہ کیا ھے جن کے نیچے نھریں جاری ھوں گی، یہ ان میں ھمیشہ رھنے والے ھیں، ان جنات عدن میں پاکیزہ مکانات ھیں اور اللہ کی مرضی تو سب سے بڑی چیز ھے اور ھی ایک عظیم کامیابی ھے“۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام فرماتے ھیں:

”إِعْلَمُوا اٴَنَّہُ مَنِ اشْتَاقَ إِلَی الجَنَّةِ سارَعَ إِلِی الحَسَناتِ وَسَلَا عَنِ الشَّہَواتِ،وَمَنْ اٴَشْفَقَ مِنَ النَّارِ بادَرَ بِالتَّوبَةِ إِلَی اللّٰہِ مِن ذُنوبِہِ وَرجَعَ عَنِ المَحارِمِ“[161]

”جان لیجئے کہ جس شخص کو جنت میں جانے کا شوق ھو، اس کو چاہئے کہ نیکیوں کی طرف جلدی کرے اور شھوات و برائیوں کو بھول جائے، (یعنی ترک کرے) اور جو شخص آتش (جھنم) سے ڈرے اس کو چاہئے کہ توبہ کرنے کے بعد خدا کی طرف (تیز) قدم بڑھائے اور گناھوں سے دوری کرے۔

حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ھے:

”ثَمَنُ الجَنَّةِ العَمَل الصَّالِحُ“[162]

”جنت کی قیمت عمل صالح ھے“۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:

”عَشرٌ مَن لَقِیَ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ بِہِنَّ دَخَلَ الجَنَّةَ:شَہَادَةُ اٴن لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ،وَاٴَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللّٰہِ ،وَالإقرارُ بِما جَاءَ مِن عِنْدِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ،وَإِقامُ الصَّلوةِ،وَإِیتاءُ الزَّکاةِ،وَصَوْمُ شَھْرِ رَمَضانَ،وَحَجُّ البَیْتِ، وَالوَلایَةُ لاٴوْلِیاءِ اللهِ،وَالبَرَاءَ ةُ مِن اٴَعْدَاءَ اللهِ وَاجْتِنابُ کُلِّ مُسْکِرٍ“[163]

”دس چیزیں ایسی ھیں جن کے ساتھ اگر خدا سے ملاقات کرے تو وہ داخلِ بھشت ھوگا:

” لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ“ اور ”مُحَمَّداً رَسُولُ اللّٰہِ“ کی گواھی دینا، اور اس بات کا اقرار کرنا کہ پیغمبرا کرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) خدا کی طرف سے قرآن لے کر نازل ھوئے ھیں، نماز قائم کرنا، زکوٰة ادا کرنا، ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھنا، حج خانہ کعبہ بجالانا، اولیاء اللہ سے دوستی کرنا،دشمنان خدا سے بیزاری کرنا اور نشہ آور چیزوں سے اجتناب کرنا“۔

رحمت خدا

قرآن مجید اور احادیث معصومین علیھم السلام میں رحمت خدا کے سلسلہ میں مفصل بیان ھے اور تمام ھی افراد کو دعوت دی ھے کہ رحمت خدا کو حاصل کرنے کے لئے ایمان، عمل صالح، توبہ، تقویٰ اور نیکیوں کے ذریعہ سے حاصل کرنے میں جلدی کریں۔

ارشاد الٰھی ھوتا ھے:

” فَاٴَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا بِاللهِ وَاعْتَصَمُوا بِہِ فَسَیُدْخِلُہُمْ فِی رَحْمَةٍ مِنْہُ ۔۔۔“[164]

”پس جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اس سے وابستہ ھوئے انھیں وہ اپنے فصل ورحمت میں داخل کرلے گا اور سیدھے راستہ کی ھدایت کردے گا“۔

” وَإِذَا جَائَکَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِآیَاتِنَا فَقُلْ سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ۔۔۔“[165]

”اور جب آپ کے پاس وہ لوگ آئے جو ھماری آیتوں پر ایمان رکھتے ھیں تو ان سے کہئےے: سلام علیکم،تمھارے پرودگار نے اپنے اوپر رحمت لازم قرار دے لی ھے“۔

”۔۔۔ فَقُلْ رَبُّکُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ ۔۔۔“[166]

”۔۔۔تو کہہ دیجئے کہ تمھارا پروردگار بڑی وسیع رحمت والا ھے ۔۔“۔۔

”۔۔۔ وَرَحْمَتِی وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ۔۔۔“[167]

”۔۔۔اور میری رحمت ھر شئے پر وسیع ھے“۔

خدا کی رحمت کو حاصل کرنے کے لئے چند چیزوں کی رعایت کرنا ضروری ھے، کہ اگر انسان ان کی رعایت نہ کرے تو رحمت الٰھی کوحاصل نھیں کرسکتا۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:

”تَعَرَّضْ لِلرَّحْمَةِ وَعَفْوِ اللهِ بِحُسْنِ المُراجَعَةِ،وَاسْتَعِنْ عَلَی حُسْنِ المُراجَعَةِ بِخَالِصِ الدُّعَاءِ وَالمُناجَاةِ فِی الظُّلَمِ“[168]

” خدا کی بارگاہ میں خالص توبہ کے ذریعہ اس کی رحمت و بخشش کو حاصل کرو، اور خالص توبہ کرنے کی توفیق کے لئے رات کے اندھیرے میں خالص دعا اور مناجات کے ذریعہ مدد حاصل کرو“۔

ایک شخص پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں آکر عرض کرتا ھے:

”اٴُحِبُّ اٴَن یَرْحَمَنِی رَبِّی قَالَ:إِرْحَم نَفْسَکَ وَارْحَمْ خَلْقَ اللهِ یَرْحَمْکَ اللهُ“[169]

”میں چاہتا ھوں کہ خدا مجھ پر رحمت نازل کرے، تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: اپنے نفس اور خلق خدا پر رحم کر تاکہ خداوندعالم بھی تجھ پر رحمت نازل کرے“۔

شروع کتاب میں دعائے کمیل کے پھلے جملہ ”اٴَللّٰھُمَّ اِنّیِ اٴَسْاٴَ لُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتي وَ سِعَتْ کُلَّ شَيْءٍٍ“ کی ذیل میں رحمت خدا کے سلسلہ میںتفصیلی بیان ھوچکا ھے۔ اس حقیقت(رحمت اور لطف الٰھی) کو مزید سمجھنے کے لئے اس تفصیل کا دوبارہ مطالعہ مفید ثابت ھوگا۔

عفو خدا

”عفو“ کے معنی سزا سے چشم پوشی کرنے اور گزشتہ گناھوں کے آثار کو ختم کرنا ھے۔

خدا وندعالم نے توبہ کرنے والوں، گناھوں کو ترک کرنے والوں اور خدا کی طرف سے رجوع کرنے والوں کے لئے ”عفو و بخش“ کوقرار دیا ھے جیسا کہ قرآن مجید میں اپنے کو اس صفت سے پہچنوایا ھے، اور حتمی طور پر اعلان کیا ھے:

”إِنَّ اللهَ کَانَ عَفُوًّا غَفُورًا۔“[170]

”بے شک خدا بہت معاف کرنے والا اور بخشنے والا ھے“۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

”اٴَمرُہُ قَضاءٌ وَحِکْمَةٌ،وَرِضاہُ اٴمانٌ وَرَحْمَةٌ،یَقْضِی بِعِلْمٍ وَیَعْفُو بِحِلْمٍ“[171]

”(خدا) کا فرمان واجب العمل اور حکمت ھے، اس کی خوشنودی امان اور رحمت ھے، اپنے علم و دانش کی بنیاد پر حکم کرتا ھے اور اپنے حلم و بردباری کی بنا پر عفو و بخشش کرتا ھے“۔

”قالَ اٴعرَابِیٌ:یَا رَسولَ اللهِ! مَن یُحاسِبُ الخَلَقَ یَومَ القِیامَةِ؟قَالَ:اللهُ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ:نَجَونَا وَرَبِّ الکَعْبَةِ،قَالَ:وَکَیْفَ ذاکَ یَا اٴعرابِیُ؟ قَالَ:لِاٴَنَّ الکَریمَ إِذَا قَدَرَ عَفَا“[172]

”ایک اعرابی نے کھا: یا رسول اللہ ! روز قیامت کون بندوں کا حساب کرے گا؟ تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: خداوندعزّ و جلّ، اس مرد نے کھا: پروردگار کعبہ کی قسم! (تو ) میں نجات پاگیا، آنحضرت نے سوال کیا: کس طرح؟ تو اس نے کھا: جب کریم کے ھاتھ میں قدرت ھوتی ھے تو وہ ”عفو و بخشش“ کرتا ھے“۔

حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ھے:

”مَنْ تَنَزَّہَ عَن حُرُماتِ اللهِ سارَعَ إِلَیْہِ عَفْوُ اللهِ“[173]

”جو شخص خدا کی حرام کردہ چیزوں سے دوری کرے تو خدا کی مغفرت اس کی طرف تیزی سے آتی ھے“۔

جی ھاں! ثواب، بھشت، رحمت، عفو و بخشش یہ چیزیں صرف اور صرف خدا کے پاس ھےں، جس کی بنا پر خدا کے عاشق اور عارف بندے اور خدا سے راز و نیاز کرنے والے اس کے لطف و کرم اور رحمت کی بارگاہ میں عرض کرتے ھیں:

”وَعَظُمَ فی مٰا عِنْدَکَ رَغْبَتُہُ“۔



[1] کافی ج۲ص۱۶۳،باب اہتمام باٴمور المسلمین ، حدیث ۱ ۔

[2] کافی ج۲ص۱۶۳،باب تفریح کرب الموٴمن ، حدیث ۳۔

[3] کافی ج۲ص۱۶۳،باب تفریح کرب الموٴمن ، حدیث ۱۔

[4] نہج البلاغہ :۴۲۱،حکمت ۴۷۔

[5] بحارالاٴنوار :ج۷۲ ص ۳۵۹ ،باب۸۱،حدیث۷۴۔

[6] غر ر الحکم :۴۵۰ ، ۱۰۳۶۴؛ میزان الحکمہ ج۷ ۳۳۸۴، الظلم ، حدیث ۱۱۴۸۲۔

[7] غر ر الحکم :۴۴۶ ، ۱۰۲۱۰؛ میزان الحکمہ ج۷ ۳۳۸۴، الظلم ، حدیث ۱۱۴۸۰۔

[8] ثواب الاعمال ص ۱۴۷، ثواب معاونة الاخ، میزان الحکمہ ج۷ ۳۳۸۴، الظلم ، حدیث ۱۱۴۸۴۔

[9] کنز العمال ۷۶۴۱؛ میزان الحکمہ ج۷ ۳۳۷۰، الظلم ، حدیث ۱۱۸۲۲۔

[10] سورہ آل عمران آیت ۱۰۴۔

[11] سورہ توبہ آیت ۷۱۔

[12] محجّةالبیضاء ،ج۴،ص۹۹،کتاب الاٴمر بامعروف والنھی عن المنکر۔

[13] محجّةالبیضاء ،ج۴،ص۹۹،کتاب الاٴمر بامعروف والنھی عن المنکر۔

[14] محجّةالبیضاء ،ج۴،ص۱۰۰،کتاب الاٴمر بامعروف والنھی عن المنکر۔

[15] اصول کافی ج۵ ص ۵۵ باب الاٴمر بامعروف والنھی عن المنکرحدیث ۱۔

آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: خدا پر ایمان رکھنا۔

[16] اصول کافی ج۵ ص ۵۵ باب الاٴمر بامعروف والنھی عن المنکرحدیث ۹۔

[17] سورہ زمر آیت ۵۳۔

[18] سورہ نساء آیت ۱۰۰۔

[19] سورہ حجر آیت ۹۔

[20] کافی ج۲ص۵۹۸،کتاب فضل القرآن، حدیث۲۔

[21] کافی ج۲ص۶۰۲،کتاب فضل القرآن، حدیث۱۳۔

[22] کافی ج۲ص۶۰۹،باب فی قراء ة القرآن ، حدیث۲۔

[23] سورہ عنکبوت آیت ۴۵۔

[24] کافی ج۲ص۵۹۸،کتاب فصل القرآن ، حدیث۱۔

[25] تمام ھی شیعہ سنی احادیث کی کتب میں یہ حدیث موجود ھے۔

[26] سورہ بقرہ آیت۱۶۵ ۔

[27] سورہ نور آیت ۳۷۔

[28] سورہ مدثر آیت ۳۸۔۴۸۔

[29] سورہ حدید آیت ۲۸۔

[30] سورہ مائدہ آیت ۹۔

[31] کافی ج۲ص ۲۳۶، باب التوبہ،، حدیث ۱۲۔

[32] وسائل الشیعہ :ج۶ص۱۷۱،باب استحباب التفکر۔۔۔ ،حدیث۷۶۵۷۔

[33] ” شفاعت قرآن و حدیث کی روشنی میں“نامی کتاب میں حقیر نے تفصیل کے ساتھ شفاعت کی بحث کی ھے، یہ کتاب عباس بک ایجنسی لکھنو سے دستیاب ھوسکتی ھے۔(مترجم)

[34] مفاتیح الجنان دعاء عرفہ ” فلک الحمد والشکر یا من اٴقال عثرتی “ (ترجمہ اردوص ۴۸۵) ؛ بلد الامین ،ص ۲۵۵ ذی الحجہ۔

[35] مفاتیح الجنان دعاء ابو حمزہ ثمالی: ”انا الصغیر الذی ربیتہ “ (ترجمہ اردوص ۳۴۵) ، اقبال ص ۷۱، فصل فیمانذکرہ من ادعیہ۔۔۔ مفاتیح الجنان دعاء ابو حمزہ ثمالی: ”انا الصغیر الذی ربیتہ “ (ترجمہ اردوص ۳۴۵) ، اقبال ص ۷۱، فصل فیمانذکرہ من ادعیہ۔۔۔

[36] حدیث قدسی اس حدیث کو کھا جاتا ھے جس کے الفاظ بھی خود خدا کی طرف سے ھوں۔(مترجم)

[37] انیس اللیل :ص۱۵۲۔

[38] روح البیان۔

[39] مستدرک الوسائل :ج۵ص۲۹۸،باب استحباب ذکر الله،حدیث ۵۹۱۰؛نفحات اللیل:۶۶۔

[40] ذراع، کھنی سے انگلیوں کے سرے تک کو کہتے ھیں۔

[41] دونوں ھاتھوں کوافقی پھیلاکر دونوں ھاتھوں کے انگلیوں کے اندر کی مقدار کو باع کہتے ھیں۔

[42] کنز العمال:۱۱۵۵۔

[43] بحرالمعارف:ج۱ص۴۰۔

[44] بحارالانوار :ج۵۸ ص۲۳۴،باب۴۵،فی روٴیة النبی،حدیث۱؛نفحات اللیل:۶۶۔

[45] بحارالانوار :ج۱۸ ص ۳۶۰ ،باب۳،نفحات اللیل۶۷۔

[46] بحارالانوار :ج۲۶ ص۱،باب۱۴،حدیث۱؛نفحات اللیل۶۷۔

[47] مولوی، مثنوی معنوی، تھدید کردن نوح۔۔۔۔

[48] بوستان سعدی شیرازی، حکایت۔

[49] رجال کشی، ص ۱۷۱۔

[50] رجال کشّی ص ۱۷۲۔

[51] سورہ سباٴ آیت ۱۳۔

[52] بحارالانوار :ج۶۴ ص۲۶۸،باب۱۴،حدیث۱۔

[53] کا فی :۹۵۲،باب الشکر ،حدیث ۱۰۔

[54] الارشاد :۹۱۲۔

[55] کافی :۹۸۲،باب الشکر ،حدیث ۲۷،تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ؛نفحات اللیل :۶۸۔

[56] مفاتیح الجنان :دعای عرفہ۔

[57] کافی ج۴ ص ۴۹، باب النوادر، حدیث ۲،۱۔بحارالانوار :ج۴۷ ص۴۲،باب۴،حدیث۵۶۔

[58] مفاتیح الجنان :راز و نیاز ذکران ،مناجات ۱۳۔

[59] نفحات اللیل :ص۷۰؛ خصال ج۱ص۲۷۷،المومن یتقلب ۔۔۔حدیث ۲۰؛ روضة الواعظین ج۲ص۲۹۱مجلس فی ذکر مناقب اصحاب الائمة؛ بحار الانوار ج۶۵،ص۱۷، باب ۱۵ حدیث ۲۴میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے اس طرح روایت منقول ھے:المُوٴمِنُ یَتَقَلَّبُ مِنْ خَمْسَةِ مِنَ النُّوْرِ مَدْخَلُہُ نُورٌ،وَمَخْرَجُہُ نُورٌ،وَکَلاَ مُہُ نُورٌ،وَغذَائُہُ نُورٌ،وَمَنْظَرُہُ یَوْمَ القِیَامَةِ إِلَی النُّورِ“۔

[60] بحارالانوار :ج۶۷ ص۱۴،باب۴۳،حدیث۲۔

[61] سورہ اسراء آیت ۷۔

[62] محجّةالبیضاء، ج۳،ص۳۲۹،کتاب آداب الصحبة والمعاشرة۔

[63] محجّة البیضاء، ج۳،ص۴۰۱،کتاب آداب الصحبة والمعاشرة۔

[64] محجّةالبیضاء، ج۳،ص۱۸۶،کتاب آداب الکسب والمعاش۔

[65] محجّةالبیضاء، ج۳،ص۱۸۶،کتاب آداب الکسب والمعاش۔

[66] محجّةالبیضاء، ج۳،ص۱۸۶،کتاب آداب الکسب والمعاش،باب۲۔

[67] سورہ رعد آیت ۲۱۔

[68] محجّةالبیضاء، ج۳،ص۳۲۲،کتاب آداب الصحبة والمعاشرة،باب۲۔

[69] تفسیر معین:ص۳۶۵۔

[70] کافی، ج۲ص۱۱۶،باب المداراة، حدیث۱۔

[71] کافی ،ج۲ص۱۱۹،باب الرفق، حدیث۶و تفسیر معین:۳۶۵۔

[72] کافی ،ج۲ص۱۲۰،باب الرفق، حدیث۱۳۔

[73] غر ر الحکم :۵۳،حدیث۴۱۶۔

[74] غر ر الحکم :۴۴۵،حدیث۱۰۱۷۴۔

[75] غر ر الحکم :۴۴۵،حدیث۱۰۱۸۰۔

[76] محجّةالبیضاء، ج۳،ص۱۸۶،کتاب آداب الکسب والمعاش،باب۲۔

[77] بحارالانوار :ج۵۸ ص۱۲۹۔

[78] انیس الیل ص ۱۶۶۔

[79] محجّةالبیضاء، ج۸،ص۳۸۴،کتاب ذکر الموت وما بعدہ، باب۸۔

[80] محجّة البیضاء، ج۸،ص۳۸۴،کتاب ذکر الموت وما بعدہ، باب۸۔

[81] محجّة البیضاء، ج۸،ص۳۸۴،کتاب ذکر الموت وما بعدہ، باب۸۔

[82] محجّة البیضاء، ج۸،ص۳۸۵،کتاب ذکر الموت وما بعدہ، باب۸۔

[83] مستدرک الوسائل:ج۹ ص۵۵،باب استحباب التراحم،حدیث۱۰۱۸۷۔

[84] انیس اللیل ص ۱۶۶۔

[85] تفسیر معین:۵۸۰۔

[86] مجموعہ ٴ ورّام:۱۱۹۲؛تفسیر معین:۵۸۰۔

[87] غر ر الحکم :۴۵۰،حدیث۱۰۳۴۴؛تفسیر معین:۵۸۰۔

[88] غر ر الحکم :۲۴۶،حدیث۵۰۵۳؛تفسیر معین:۵۸۰۔

[89] غر ر الحکم :۴۴۹،حدیث۱۰۳۳۳؛تفسیر معین:۵۸۰۔

[90] سورہ ھود، آیت ۶۔

[91] سورہ اسراء آیت ۳۰۔

[92] جامع الاخبار:۱۳۹، الفصل التاسع والتسعون؛میزان الحکمہ :۲۰۵۸۵،الرزق،حدیث۷۲۱۱۔

[93] کنز العمال:۹۲۰۳؛میزان الحکمہ :۲۰۵۸۵،الرزق،حدیث۷۲۱۲۔

[94] کنز العمال:۹۲۰۵؛میزان الحکمہ :۲۰۵۸۵،الرزق،حدیث۷۲۱۴۔

[95] کنز العمال:۴۴۱۵۴؛میزان الحکمہ :۲۰۵۶۵،الرزق،حدیث۷۱۹۴۔

[96] خصال:۵۰۴۲،حدیث۲؛میزان الحکمہ :۲۰۵۶۵،الرزق،حدیث۷۱۹۴۔

[97] مشکاةالانوار:۱۲۸،الفصل السادس؛میزان الحکمہ :۲۰۵۶۵،الرزق،حدیث۷۱۹۱۔

[98] بحارالانوار :ج۹۰ ص۳۸۶،باب۲۶،حدیث۱۷؛میزان الحکمہ :۲۰۵۶۵،الرزق،حدیث۷۱۹۳۔

[99] بحارالانوار :ج۶۶ ص۴۰۷،باب۳۸،حدیث۱۱۷؛میزان الحکمہ :۲۰۵۶۵،الرزق،حدیث۷۱۸۵۔

[100] مشکاةالانوار:۲۲۱،الفصل الاول؛میزان الحکمہ :۲۰۵۶۵،الرزق،حدیث۷۱۸۷۔

[101] جامع الاخبار:۱۳۹، الفصل التاسع والتسعون؛میزان الحکمہ :۲۰۶۰۵،الرزق،حدیث۷۲۱۷۔

[102] جامع الاخبار:۱۳۹، الفصل التاسع والتسعون؛میزان الحکمہ :۲۰۶۰۵،الرزق،حدیث۷۲۱۸۔

[103] کافی ،ج۵ص۸۸،باب من کدّ۔۔۔؛ حدیث۲؛میزان الحکمہ :۲۰۵۸۵،الرزق،حدیث۷۲۴۰۔

[104] جامع الاخبار:۱۳۹، الفصل التاسع والتسعون؛میزان الحکمہ :۲۰۵۸۵،الرزق،حدیث۷۲۰۲۔

[105] نہج البلاغہ:خطبہ ی۹۱،ومن خطبة لہ یعرف بخطبة الاٴشباح۔۔۔ ۔

[106] مشکاةالانوار:۳۴،الفصل السابع؛میزان الحکمہ :۲۰۹۰۵،الرضا،حدیث۷۲۹۵۔

[107] بحارالانوار :ج۶۶ ص۳۷۳،باب۳۸،حدیث۱۹۔

[108] خصال:۱۶۹۱،حدیث۱۲۲؛میزان الحکمہ :۲۰۹۲۵،الرضا ،حدیث۷۳۱۲۔

[109] بحارالانوار :ج۶۸ ص۱۳۹،باب۶۳،حدیث۲۷۔

[110] بحارالانوار :ج۷۵ ص۲۰۱،باب۲۳،حدیث۳۴۔

[111] سورہ نحل آیت ۹۷۔

[112] غررالحکم:۳۹۱،حدیث۸۹۸۱۔

[113] کنز العمال:۷۰۹۵؛میزان الحکمہ :۵۰۵۴۱۰،القناعة،حدیث۱۷۱۴۱۔

[114] کنز العمال:۸۷۴۱؛میزان الحکمہ:۵۰۵۴۱۰، القناعة، حدیث ۱۷۱۴۳۔

[115] کافی ،ج۲ص۱۳۹،باب القناعة، حدیث۹۔

[116] کافی :ج۸ص۲۴۳، حدیث۳۳۷۔

[117] غررالحکم:۲۳۸،حدیث۴۸۰۶۔

[118] سورہ حجر آیت ۸۸۔

[119] سورہ قصص آیت ۸۳۔

[120] سورہ نحل آیت ۲۳۔

[121] سورہ زمر آیت ۶۰۔

[122] مجموعہٴ ورّام:۲۰۱۱، بیان فضیلة التواضع؛میزان الحکمہ :۶۸۴۶۱۴،التواضع،حدیث۲۱۸۲۵۔

[123] نہج البلاغہ:خطبہ نمبر۱۹۲،ومن خطبة لہ تسمی القاصعة۔۔۔ ۔

[124] بحارالانوار :ج۷۲ ص۱۱۹،باب۵۱،حدیث۵۔

[125] بحارالانوار :ج۷۲ ص۱۲۳،باب۵۱،حدیث۲۰۔

[126] بحارالانوار :ج۷۴ ص۱۸۱،باب۷،حدیث۱۵۔

[127] کافی ،ج۲ص۱۲۱،باب التواضع، حدیث۱؛میزان الحکمہ :۶۸۵۶۱۴،التواضع،حدیث۲۱۸۷۲۔

[128] تذکرہ ابن جوزی ص ۶۷۔

[130] قصص الانبیاء ، ثعلبی، ص ۲۸۸۔

[131] آل عمران آیت ۱۸۹۔

[132] سورہ مائدہ آیت ۱۸۔

[133] سورہ حدید آیت ۲۔

[134] سورہ فتح آیت ۱۴۔

[135] سورہ فاطر آیت ۱۵۔

[136] دیوان فیض کاشانی ج۲ص ۷۰۷ غزل ۲۴۷۔

[137] ادعونی اٴستجب لکم۔

[138] الدعا مخّ العبادة۔

[139] انیس اللیل ص ۱۹۶۔

[140] درج ذیل تین آیات میں مذکورہ مطلب بیان ھوا ھے: ” وَالَّذِینَ یُمَسِّکُونَ بِالْکِتَابِ وَاٴَقَامُوا الصَّلَاةَ إِنَّا لاَنُضِیعُ اٴَجْرَ الْمُصْلِحِینَ “(سورہ اعراف آیت۱۷۰) ”إِنَّ اللهَ لاَیُضِیعُ اٴَجْرَ الْمُحْسِنِینَ۔“ (سورہ توبہ آیت۱۲۰) ”إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لاَنُضِیعُ اٴَجْرَ مَنْ اٴَحْسَنَ عَمَلًا ۔“(سورہ کہف آیت۳۰)

[141] سورہ آل عمران آیت ۱۷۲۔

[142] سورہ حدید آیت ۱۸۔

[143] سورہ فصلت آیت ۸۔

[144] سورہ فاطر آیت ۷۔

[145] سورہ قصص آیت ۵۴۔

[146] تفسیر معین:۲۹۹۔

[147] غررالحکم:۲۸۱،فضیلة الصبر۔۔۔، حدیث۶۲۴۰؛تفسیر معین:۲۹۹۔

[148] غررالحکم:۳۹۴،الانصاف و مدحہ۔۔۔،حدیث۹۱۰۶؛تفسیر معین:۲۹۹۔

[149] غررالحکم:۳۳۳،الفصل الثالث فی الجھاد۔۔۔،حدیث۷۶۶۳؛تفسیر معین:۲۹۹۔

[150] محجّةالبیضاء ،ج۲،ص۱۵۳،کتاب اسرار الحجّ،باب اول۔

[151] تفسیر معین:۱۹۳۔

[152] تفسیر معین:۱۹۳۔

[153] مستدرک الوسائل :ج۵ص۲۰۷،باب ۲۸،حدیث ۵۷۰۸؛تفسیر معین:۴۵۹۔

[154] وسائل الشیعہ :ج۸ص۱۵۰،باب ۳۹ حدیث۱۰۲۷۵۔

[155] کافی ،ج۲ص۵۰۷،باب الدعاء للاخوان۔۔۔،حدیث۵؛روضةالواعظین:۲ص۳۲۷۔

[156] تفسیر معین:۴۹۶۔

[157] سورہ آل عمران آیت ۱۳۳۔

[158] سورہ حدید آیت ۲۱۔

[159] سورہ غافر(مومن) آیت۴۰۔

[160] سورہ توبہ آیت ۷۱۔۷۲۔

[161] بحارالانوار :ج۷۵ ص۱۹۳،باب۲۱،حدیث۳۔

[162] غررالحکم:۱۵۴،حدیث۲۸۷؛میزان الحکمہ :۷۹۴۲،الجنة،حدیث۳۵۲۸۔

[163] خصال:۴۳۲۲،حدیث۱۶؛میزان الحکمہ :۷۹۶۲،الجنة،حدیث۲۵۴۸۔

[164] سورہ نساء آیت ۱۷۵۔

[165] سورہ انعام آیت ۵۴۔

[166] سورہ انعام آیت ۱۴۷۔

[167] سورہ اعراف آیت ۱۵۶۔

[168] بحارالانوار :ج۷۵ ص۱۲۶،باب۲۲،حدیث۱۔

[169] کنز العمال:۴۴۱۵۴؛میزان الحکمہ :۲۰۰۴۴،الرحمة،حدیث۷۰۰۴۔

[170] سورہ نساء آیت ۴۳۔

[171] نہج البلاغہ:خطبہ نمبر۱۶۰۔

[172] مجموعہٴ ورّام:ج۱ص۹۔

[173] بحارالانوار :ج۷۵ ص۹۰،باب۱۶،حدیث۹۵۔

No comments: