Tuesday, April 28, 2009

شرح دعاء کمیل ۲

َ بِقُوَّتِکَ الَّتي قَھَرْتَ بِھٰا کُلَّ شَيْ ءٍ“

” اور اس قوت کے واسطہ سے ھے جو ھر چیز پر حاوی ھے،“

خداوندعالم کی قدرت اور توانائی اس کی عین ذات ھے اور بے نھایت اور بے انتھا ھے، دنیا کی تمام قدرتیں اس کی قدرت کے مقابلہ میں ھیچ ھیں۔کسی بھی قدرت مند کی قدرت اس کی قدرت کے مقابلہ میں مستقل نھیں ھے، تمام قدرتیں اس کی قدرت کی شعاعوں کی ایک جھلک ھے: ”لا حول ولا قوة الا بالله“ ۔

گزشتہ صفحات میں ”کل شیءٍ“ کے بارے میں مختصر طور پر وضاحت کی گئی جس کا نتیجہ یہ ھوا : ”کل شیءٍ“ یعنی: تمام مخلوقات اور تمام وہ چیزیں جو اس کے ارادہ سے پیدا ھوئی ھیں، ان کی تعداد اور ان میں سے بہت سی چیزوں کی کیفیت اس کے علاوہ کوئی نھیں جانتا ھے، اور روز قیامت تک نھیں جان سکتا ھے۔

اربوں آسمانی موجودات، کہکشان اور نباتات، حیوانات،چرند پرند،اور خشکی ودریا کے خزندہ ، بے شمار کیڑے مکوڑے، ” وائیرس "Virus"، اورمیکروب “ "Microbe"اور غیبی موجودات نیز وہ فرشتے جن سے زمین وآسمان بھرا ھوا ھے، ان سب سے کون آگاہ ھوسکتا ھے اور ان کی تعداد کا حساب کون لگاسکتا ھے؟ خدائے مھربان اپنی بے نھایت قدرت سے ( کل شیءٍ) ھر چیز پر غلبہ رکھتا ھے اور کوئی بھی چیز اس کے احاطہٴ قدرت سے باھر نھیں ھے اور کوئی چیزباھر ھوبھی نھیں سکتی ھے۔ اجرام آسمانی (فلکی ستارے) کہکشاں اور اس کے ستارے، منظومہ اور اس کے مابین موجودات جن میں سے بعض بعض کا وزن اربوں اور کھربوں ٹن بلکہ اس سے بھی زیادہ ھے؛ بغیر ستون کے لٹکے ھوئے ھیں، اور اپنی معین شدہ رفتار کے ساتھ اپنے وقت پر گردش کرتے ھیں اور اربوں سال سے گردش کی حالت میں ھیں؛ یہ سب کے سب خدا کی قدرت کاملہ سے محفوظ ھیں ۔

”وَخَضَعَ لَھٰا کُلُّ شَيْ ءٍ،وَذَلَّ لَھٰا کُلُّ شَيْ ءٍ“

” اور اس کے لئے ھر شے خاضع اور متواضع ھے‘۔

تمام غیبی اور شھودی موجودات ؛ بڑی سے بڑی معنوی اور مادی موجود سے لے کر چھوٹی سے چھوٹی مخلوق تک، عظیم ترین کہکشاں اور ثابت ستاروں سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے اٹم "Atome"تک جس کو بڑی سے بڑی میکرواسکوپ "Maicroscope"بھی نھیں دکھاسکتی، تمام کی تمام چیزیں خداوندعالم کی مسخر کردہ اور اسی کی فرمانبردار ھیں، اس کے حکم کے سامنے سبھی سرِ تسلیم خم کئے ھوئے نظر آتی ھیں، اور سب کے سب اس کا حکم ماننے کے لئے حاضر ھیں، نیز ان کے اندر مخالفت او رمعصیت کا ذرا بھی تصور نھیں پایا جاتا۔

وہ موجودات جو بغیر کسی استثناء کے؛ خدا کی بے انتھا قدرت کے سامنے مقھور اور مغلوب ھیں ان تمام چیزوں کا وجود خضوع اور خشوع نیز عین ذلت ومسکنت ھے۔

حضرات معصومین علیھم السلام کی ایک فرد کی زبان مبارک سے نکلے ھوئے دعا کے چند جملوں کی طرف توجہ کریں:

”یقیناً توھی وہ خدا کہ جس کی قدرت اور توانائی کے سامنے تمام چیزیں ذلیل ھیں، اور تمام ھی چیزوں کا سر تیری قدرت کے سامنے خم ھے، جو تو کرنا چاہتا ھے کردیتا ھے، اور جس چیز کا ارادہ کرلے وہ کر گزرتا ھے، تیری ھی مقدس ذات نے تمام چیزوں کو خلق فرمایا ھے، اور تیرے ھی دست قدرت میں تمام چیزوں کے امور ھیں، تو تمام چیزوں کا مولا وآقا ھے، اور تمام چیزیں تیری ھی مغلوب اور مسخر ھیں، تیرے علاوہ کوئی معبود نھیں تو عزیز وکریم ھے۔۔“۔

بے شک تیری رحمت سبھی چیزوں پر چھائی ھوئی ھے اور تیری بے نھایت قدرت تمام چیزوں پر غالب ھے، تیرا ھی وجود بابرکت ھے جس کی قدرت کے سامنے تمام چیزیں ذلیل وخوار ھیں، لہٰذا اس کے لئے یہ کام بہت آسان ھے کہ اس بندہ کی دعا قبول کرلے جو خلوص وانکساری کے ساتھ حالت خضوع وخشوع میں روتے اور گڑگڑاتے ھوئے شب جمعہ جیسی مبارک رات میں دعا کررھا ھو ، اور اس کے لئے بہت ھی زیادہ آسان ھے کہ وہ اس بندہ کی حاجت روائی کے لئے زمین و آسمان میں موجود اپنے لشکر اس کی امداد کے لئے بھیجے تاکہ وہ اس کو دنیاوی او راُخروی مقاصد تک پھنچادیں۔

جو شخص تواضع او رانکساری کے ساتھ اس کی رحمت وقدرت کا واسطہ دے کر پکار رھا ھو اور اس کی رحمت وقدرت کے علاوہ کوئی رحمت وقدرت اس کے پیش نظر نہ ھو ، کیا اس کی دعا کاباب اجابت سے نہ ٹکرانا ممکن ھے ؟ ھر گز نھیں۔

کوئی ضعیف وناتوان موجود اس کی حاجت روائی نھیں کرسکتا اور دعا کرنے والے کی دعا کو مستجاب نھیں کرسکتا۔ مگر صرف وہ جو غنی ھے اور رحمت واسعہ اور قدرت کاملہ کا مالک ھے جس کے قبضہ قدرت میں تمام چیزیں ھیں اپنے بندوں کی مصلحت اور اپنی حکمت کی بنا پر اپنے بندوں کی دعائیں قبول کرتا ھے اور مانگنے والوں کی جھولی بھر دیتا ھے۔

صحیفہ سجادیہ کی دعا نمبر ۱۳ میں وارد ھوا ھے:

” تونے مخلوقات کو فقر کی طرف نسبت دی ھے کہ وہ واقعا تیرے محتاج ھیں لہٰذا جو شخص بھی اپنی حاجت کو تیری بارگاہ سے پورا کرانا چاہتا ھے اور اپنے نفس سے فقرکو تیرے ذریعہ دور کرنا چاہتا ھے اس نے حاجت کو اس کی منزل سے طلب کیا ھے اور مقصد تک صحیح رخ سے آیا ھے اور جس نے بھی اپنی حاجت کا رخ تیرے علاوہ کسی اور کی طرف موڑدیا ،یا کامیابی کا راز تیرے علاوہ کسی اور کو قرار دیا ھے اس نے محرومی کا سامان مھیا کرلیا ھے اور تیری بارگاہ سے احسانات کے فوت ھوجانے کا استحقاق پیدا کرلیا ھے۔ خدایا ! میری تیری بارگاہ میں ایک ایسی حاجت ھے جس سے میری کوشش قاصر ھے اور میری تدبیریں منقطع ھوگئی ھیں اور مجھے نفس نے ورغلایا ھے کہ میں اسے ایسوں کے پاس لے جاؤںجو خود ھی اپنی حاجتیںتیرے پاس لے کر آتے ھیں اور اپنے ضروریات میں تجھ سے بے نیاز نھیں ھوسکتے ھیں اور یہ خطاکاروں کی لغزشوں میں سے ایک لغزش ھے اور گناھوں کی ٹھوکروں میں سے ایک ٹھوکر ھے اس کے بعد تیری یاددھانی کے ذریعہ میں خواب غفلت سے چونک پڑا اور تیری توفیق کے سھارے اپنی لغزش سے اٹھ کھڑاھوا اور تیری رھنمائی سے اپنی ٹھوکر سے پلٹ پڑا اور میں نے فورا اعلان کردیا کہ میرا رب پاک وپاکیزہ ھے کوئی محتاج کسی محتاج سے کیسے سوال کرسکتا ھے اورفقیر کسی فقیر کی طرف کس طرح رغبت کرسکتا ھے ۔

یہ سوچ کر میں نے تیری طرف ر غبت کی اور اپنی امیدوں کو لے کر تیری بارگاہ میں حاضر ھوگیا کہ مجھے تجھ پر بھروسہ تھا اور مجھے معلوم تھا کہ میں جس کثیرکا سوال کررھا ھوں وہ تیری عطا کے مقابلہ میں قلیل ھے اور جس عظیم کا تقا ضا کررھاھوں وہ تیری وسیع بارگاہ میںحقیر ھے تیرا کرم کسی کے سوال سے تنگ نھیں ھوتا ھے اور تیرے ھاتھ عطاکرنے میں ھر ھاتھ سے بالا تر رہتے ھیں ۔تمام ممکنات ایک روز عدم محض تھے، موجود ھی نھیں تھے کہ قابل ذکر ھوتے، تیرے ارادہ اور قدرت کے زیر سایہ پیدا ھوئے اور ان کی زندگی بھی تیرے ھی لطف وکرم کی بدولت ھے، کسی بھی طرح کا کوئی استقلال نھیں رکھتے ان کے پیشانی پر فقر ذاتی اور ذلت وخواری کی مھر لگی ھوئی ھے اور تیری قدرت ازلی کے سامنے خاکساری اور ذلت کی حالت میں سجدہ ریز ھیں۔ کسی انسان کو یہ حق نھیں پھونچتا کہ وہ تیری بے نھایت قدرت کے سامنے اپنی قدرت کی بساط پھیلائے، انانیت کا ڈنکا بجائے، اور تکبر کا نعرہ لگائے، اپنی اس کم بضاعتی جس خلقت ایک مشت خاک سے ھوئی ھو محض ذلیل وخوار ھے اور اس کا وجود صرف ایک پھونک کا کام ھے اس کے علاوہ اس کی کوئی حقیقت نھیں ھے اور اپنی اس کم عقلی کی بنا پر جو ایک ذرہ کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر وناتوان ھے اپنے مولا و آقا ، مدبر اور پروردگار کی قدرت کے سامنے ؛ جس کی قدرت نے تمام چیزوں کو تحت الشعاع قرار دے رکھا ھے، اس کے سامنے اپنی قدرت کے نعرہ لگائے !! اور اگر ایسا کرے بھی تو اس کی قدرت کا بوریا بستر لپیٹ دیا جائے اوروہ ذلیل و خوار ھوجائے، نیز رحمت خدا سے محروم کردیا جائے اور عذاب الٰھی میں گرفتار ھوجائے۔

” وَبِجَبَرُوتِکَ الَّتي غَلَبْتَ بِھٰا کُلَّ شَيْءٍ“

” اور اس جبروت کے واسطہ سے ھے جو ھر شے پر غالب ھے“۔

”جبروت“ لغوی اعتبار سے” صیغہ مبالغہ“ ھے، یعنی تمام موجودات او رممکنات کے نقائص کا بہت سی نعمتوں اور بہت سے ساز وسامان کے ذریعہ ان کا جبران اور تدارک کرتا ھے، اور وہ بھی بلندترین درجہ اور کثیر تعداد میں۔

ابتدائے خلقت میںکوئی بھی موجودقابل ذکر نہ تھا، اس کی پھلی تصویر ایک ذرہ "Atome"کی شکل میں تھی یا ایک دانہ یا بے اھمیت نطفہ کی طرح تھی۔ ھر موجود ناقص تھا، خداوندعالم کی صفت جبروتیت نے تمام خامیوں اور نواقص کو پورا کےا تاکہ ان کو مکمل شکل وصورت مل جائے ،اور ایک بااھمیت شکل میں جلوہ نما ھو اور اپنی اصل صورت میں پیدا ھو۔

خدائے مھربان کے ذریعہ نقص کا پورا ھونا

خداوندعالم کی طرف سے کمیوں اور نواقص کا پورا ھونا ایک اھم اور قابل توجہ مسئلہ ھے، اس سلسلہ میں چند چیزوں کو ایک اھم کتاب سے نقل کرتے ھیں جس کی بنا پر ھمارے ایمان میں اضافہ ھو اور ھمیں یہ معلوم ھو کہ خداوندعالم ھمارے یا دوسری مخلوقات کے نقص کوکیسے پورا کرتا ھے:

سورج کی خرچ شدہ طاقت کا جبران

جس سورج کی وجہ سے اکثر طاقت ملتی ھے یہ”کل شیءٍ“ کا ایک چھوٹا سا مصداق ھے۔

سورج کی گرمی اتنی زیادہ ھے کہ بہت زیادہ بھڑکتی ھوئی آگ بھی اس کے سامنے ٹھنڈی ھے، سورج کی گرمی تقریباً"6093cg"ھے اور اس کے اندر کی گرمی تو اس سے بھی کھیں زیادہ ھے۔

سورج ھر سیکنڈ میں 12400,000.ٹن انرجی"E`nergiee" (طاقت) فضا میں پھیلاتا ھے، کہ اگرسورج کی ایک منٹ کی گرمی کو کوئلہ کے ذریعہ حاصل کرنا چاھیں تو تقریباً 679,000,000,00.ٹن کوئلے کو جلانا ھوگا۔

اس ایک سیکنڈ میں حاصل شدہ سورج کی طاقت کا وزن تقریباً 4000,000.ٹن ھوتا ھے اور یہ مقدار ایک سال میں تقریباً 126,144,000,000,000.ھوجاتی ھے ، اور یہ طے ھے کہ اگرجلتی ھوئی آگ کا ایندھن ختم ھوجائے تو آگ خاموش ھوجاتی ھے،لہٰذا جب سورج کوئی ایندھن نھیں لےتا اور ھر سال اتنی طاقت خرچ کرتا ھے تو پھر اس کو ختم ھوجانا چاہئے تھا؟ !! جبکہ اگر سورج خالص کوئلہ سے بنا ھوتا تو ۶۰۰ سال کے بعد ختم ھوجاتا۔

قارئین کرام! اس سوال کا جواب صرف صفت ”جبروت“ کے ذریعہ حاصل ھوسکتا ھے، اس نے سورج کوگیس کے ایک عظیم پھاڑ کی طرح بنایا ھے جس کا گیس سکڑنے اور پھیلنے کی بنا پر کھوئی طاقت دوبارہ لوٹا دیتا ھے۔

یہ بات مشرق ومغرب کے بڑے بڑے دانشوروں کی تحقیق کا نتیجہ ھے جس کے بارے میں کتاب کے ہزاروں صفحات لکھے جاچکے ھیں جو ایک سادہ جملہ میں ھم تک پھنچا ھے۔

جی ھاں! وھی ھے جو اشیاء کی کھوئی ھوئی طاقت کو لوٹاتا کرتا ھے ، اور سورج کی کھوئی ھوئی طاقت کو واپس پلٹانا اس کی صفت ”جبروتی“ کی ایک نشانی ھے۔

دریائے خزر کے جزر و مد[1] کا جبران

دریا ئے خزرکی سطح آزاد دریا سے ۲۷۶ میٹر نیچے ھے، اور اس سے نیچے ھوتی جائے گی، دریائے خزر آزاد دریاؤں سے متصل نھیں ھے ، لہٰذا عمومی اقیانوس کے جزر ومد کے تابع بھی نھیں ھے۔ دریائے خز ر چونکہ چھوٹا ھے لہٰذا چاند کی قوت جاذبہ سے بھرہ مند نھیں ھوسکتا، لہٰذا اس میں جزر ومد نھیں ھونا چاہئے اور اس کے پانی کو گندا ھوجانا چاہئے اس دریائے خزر کو پیدا کرنے والے کا وجود مبارک جانتا ھے کہ اس نقص کو کس طرح پورا کیا جائے ، اس نے ”سرنوک“ ، ”خزری“ اور ”میانوا“ نامی ھوائیں چلائیں تاکہ اپنی پوری طاقت کے ذریعہ پانی کو متحرک کرےں یھاں تک کہ جو دریا اس میں گرتے ھیں ان کے پانی کو اوپر نیچے کرے۔

یہ ھوائیں اس قدر طاقتور ھوتی ھیں کہ دریائے خزر کے پانی کو اس قدر اوپر لے جاتی ھیں کہ اکثرکشتیوں کے ناخدااس کا مقابلہ کرنے سے قاصر ھیں،یہ ھوائیں ایک دوسرا کام بھی کرتی ھیںوہ یہ کہ دریائے خزر کے شمال میں موجود بادلوں کو جنوب کی طرف بھگادیتی ھیں جس کی بنا پر ایران کے شمالی علاقہ میں بارش ھوتی ھے تاکہ وھاں پر کھیتی ھری بھری ھوجائے۔

یہ ھوائیں اس دریاکے پانی کو”مرداب انزلی“ میں ڈھکیل دیتی ھیں تاکہ مرداب(بہت گھراتالاب اور گڑھا) کاپانی صاف ھوجائے، شھر گیلان کا دریا مسلسل بارشوں کی بنا پر اکثر اوقات مٹیالا ھوتا ھے جس میں جنگلی گھاس وغیرہ کے بیج وغیرہ ھوتا ھے اور جب اس مرداب میں مٹی بھرجاتی ھے ، اس سے پانی پر کف (جھاگ) پیدا ھوتا ھے ، گھاس کے بیج وغیرہ وھاں رشد ونموکرنے لگتے ھیں ، انھیں دو اسباب کی بنا پر اس مرداب کا پانی خشک ھوجانا چاہئے اور اسے دلدل کی شکل اختیار کرلینا چاہئے، لیکن ہزاروں سال سے یہ مرداب اسی طرح باقی ھیں، کیوں؟

اس لئے کہ خداوندعالم جبران کرنے والا ھے لہٰذا س مشکل سے روک تھام کے لئے اس دریا کا پانی سیلاب سے ملادیتا ھے اور جس وقت ”سرنوک“، ”خزری“ اور ”میانوا“ نامی ھوائیں بادلوں کو برسنے کے لئے جنوب کی طرف روانہ کرتی ھیں تو دریا کا پاک وصاف پانی ،گدلے پانی سے مل جاتا ھے جس کی بنا پر اس گدلے پانی کی غلظت ھلکی ھوجاتی ھے، بیج اور بیل وغیرہ دریاکے نمکین پانی میں نابود ھوجاتے ھیں۔

جس وقت یہ (مذکورہ) ھوائیں بند ھوجاتی ھیں ، اس وقت ”کرامو“، ”کناروا“ اور ”آفتاب بوشو“ نامی ھوائیں چلتی ھیں تو ان مرداب کے پانی کو دریائے خزر میں پھونچادیتی ھیں جس کی بنا پر وھاں گدلا پانی صاف ھوجاتا ھے۔

اسی طرح ”گیلوا“ اور ”درشتوا“ نامی ھوائیں مرادب کے پانی کو مشرق سے مغرب کی طرف لے جاتی ھیں اور اس پانی کو ملانے میں کافی مدد کرتی ھیں۔!![2]

پھلوں کے نقص کو دور کرنا

جب تک پھلوں کے بیج بوئے نہ جائیں اور خداوندعالم کی صفت جبروتی مختلف طریقوں سے اس کے نقائص کو پورا نہ کرے تو ان سے استفادہ نھیں کیا جاسکتا۔

خوشمزہ اورلذیذسیب کے سلسلہ میں غور و فکر کریں کہ ایک روز یھی دانہ اور ایک ذرہ کی شکل میں دکاندار کے یھاں تھا۔

اور جس وقت وہ ایک دانہ تھا صرف اس کو بونے کے علاوہ دوسرے کام کے لئے کارگر نہ تھا اور جب کسان اس کوزمین میں ڈال دیتا ھے، تو ھوا ، نور ، پانی اور نمک اس کے پاس آتے ھیں، اور خدا وندعالم کے ارادے سے اس کی کمی پوری کی جاتی ھے ، جس کے نتیجہ میں ایک خوش رنگ اور لذیذ غذا بن جاتا ھے اور دسترخوان کی زینت بن جاتا ھے۔

قارئین کرام! خداوندعالم کی صفت جبروتی سے مزید آگاھی کے لئے درج ذیل مطالب کو غور وفکر کے ساتھ پڑھیں:

سیب کے اندر بطور خلاصہ درج ذیل چیزیں پائی جاتی ھیں:

نیٹروجن ترکیبات (پروٹین، امینوایسڈ، : لیزین، ارژنین، ھسٹاڈین اور ٹیروزن)

مواد معدنی: ( آیوڈین،پوٹاشیم، برم، فاسفورس، کیلشیم، آئرن، تانبا، سوڈیم، سفلر، میگنیز، قلعی،منیزایم)

اجزائے نشاستہ : (ڈکسٹروز، سیلولوز،پینٹازن،اسٹارچ(نشاستہ))

شکر: ( گلوکوز، فریکتٹوز،سیکروز)

مواد پکٹک: ( پکٹک ایسڈ،پیکٹن، پیکسٹک ایسڈ ،پروٹوپکٹین)

چربی اور ایسڈ: (مَیلک ایسڈ، سڑک ایسڈ، ایگزیلک ایسڈ،اسکوریک ایسڈ، لیکٹک ایسڈ)

ترکیبات رنگی: اینٹوسینیز، فلاوونز ، کلوروفل)

ویٹامن: (A.B.C.G)

اینزایم: (کیٹلوز، ایکسیڈوز)

پانی: ۸۴ فی صد۔

قارئین کرام! غور فرمائیں کہ خدائے جبار کس طرح ایک پھل کی کمی اوراس کے نقص کو پورا کرتا ھے۔ اور اگر دوسری چیزوں کے مادی عناصر نیز معنوی چیزوں کے نواقص کے جبران کا ذکر کیا جائے تو تمام موجودات کے برابر صفحات بھر جائیں گے!!

” وَبِعِزَّتِکَ الَّتي لاٰ یَقُومُ لَھٰا شَيْءٌ“

” اور اس عزت کے واسطہ سے ھے جس کے مقابلہ میں کسی میں تاب مقاومت نھیں ھے“۔

وہ پاک وپاکیزہ ذات جس نے اپنی قدرت کے ذریعہ تمام چیزوں کو خلق فرمایا، اور سب پر اپنی رحمت نازل کی، اور وہ تمام چیزیں جو اپنے پورے وجود کے ساتھ یہ اعلان کرتی ھیں کہ جو اس کی قدرت کے سامنے ذلیل وخوار ھیں اور وہ اپنے صفت جبروتی کے ذریعہ تمام چیزوں کے نواقص کو برطرف فرماتا ھے،اس کے مقابلہ میں کوئی بھی چیز قدرت نمائی نھیں کرسکتی؟

ایک چیز کا وجود اپنے تمام تر خواص وترکیبات کے ساتھ آسمان و زمین سے لے کر اور جو کچھ ان کے درمیان ھے، چاھے وہ غیبی موجودات ھوں یا ظھاری اللہ ان کی عزت اور قدرت کا ایک معمولی عکس ھے ، اور اپنے مولا وآقا کے مقابلہ میں ایک معمولی سایہ کی طرح ھے؛ لہٰذا اس کی ازلی اور ابدی عزت اور لامتناھی قدرت کا مقابلہ کیونکر کیا جاسکتا ھے۔؟”عزت“ کے معنی قدرت وتوانائی ھیں، اور تمام ھی موجودات میں اس کی عزت کا ایک معمولی سا جلوہ پایا جاتا ھے۔ ایک معمولی اور بے مقدار شعاع کھاں اور بے نھایت اور ازلی وابدی نور کھاں!!

”فَلِلّٰہِ الْعِزَّةُ جَمِیْعاً۔“[3] ”عزت سب پروردگار کے لئے ھے“۔

جی ھاں، قرآن مجید کے فرمان کے مطابق تمام ”عزت“ خداوندعالم ھی کے لئے ھے، اور جس کو چاھے اس کی صلاحیت کے لحاظ سے عطا کردیتا ھے، اور جس کو نہ چاھے اس کو یہ عزت نھیں دیتا، اور اگر چاھے تو عزت دینے کے بعد چھین سکتا ھے، لہٰذاکوئی بھی اس کے مقابلہ میں مستقل طور پر صاحب عزت نھیں ھے، اور کوئی بھی اس کی قدرت کا مقابلہ نھیں کرسکتا، وہ شکست ناپذیر قدرت کا مالک اور غالب غیر مغلوب ھے۔

” وَبِعَظَمَتِکَ الَّتي مَلَاٴَتْ کُلَّ شَيْءٍ“

”اور اس عظمت کے واسطہ سے ھے جس نے ھر چیز کو پر کردیا ھے“

فعل سے اس کے فاعل کی پہچان

قارئین کرام! آپ حضرات جانتے ھیں کہ کسی بھی فاعل (کام کرنے والا) کی عظمت اور بزرگی اس کے کام کے ذریعہ کافی حد تک پہچانی جاسکتی ھے۔ وہ انجینئر جو ایک سو دس (۱۱۰)منزلہ بلڈنگ یا اس سے کم وزیادہ منازل کی بلڈنگ بنالے تو اس فلک شگاف عمارت کو دیکھ کر انجینئر کی قوت فکر اور علمی صلاحیت کا اندازہ لگاجاسکتا ھے۔

ایک عظیم الشان موٴلف، جیسے صدر المتاٴلھین جنھوںنے ”اسفار“ ، ”عرشیہ“، ”حکمت متعالیہ“ اور ”اسرارالآیات“ جیسی عظیم الشان کتابیں لکھ دے تو اس کی علمی صلاحیت اندازہ اس کی کتابوں سے لگایا جاسکتا ھے۔

برقی رو"E'lectricity"کا کارخانہ ایجاد کرنے والے کو دیکھ کر؛ جس کی وجہ سے رات کی تاریکی دن میں بدل جاتی ھے، اس کی عظمت اور قوت فکر کا اندازہ ھوجاتا ھے۔

خداوندعالم کی عظمت اور بزرگی ”ازلی، ابدی اور بے نھایت“ ھونے کی وجہ سے ھے، اور ھم چونکہ وجود کے اعتبار سے محدود ھیں اس کو سمجھنے سے قاصر ھیں، لیکن اس کی عظمت اور بزرگی کے جلووں کو دنیا میں غور وفکر کرکے اپنے دل کی آنکھوں سے دیکھ سکتے ھیں، جس کی عظمت کے جلوے تمام ھی چیزوں میں روز روشن کی طرح چمک رھے ھیں۔

ھم اس سلسلہ میں صرف دو روایت اور اس کے بعد ایک علمی مطلب کی طرف اشارہ کریں گے، اور اس اشارہ کی بنا پر ھم کافی حد تک اپنی مطلوب حقیقت تک پھنچ جائیں گے۔

چند عالم کی خلقت

کم نظیر کتاب ”اسلام و ھیئت“ تالیف علامہ کبیر دانشمند مصلح جناب ھبة اللہ شھرستانی صاحب کتاب” خصال“صدوق، ”بحار الانوار“علامہ مجلسی، اور ”انوار نعمانیہ“، و”شرح صحیفہ“ اور ”تفسیر نور الثقلین“ سے معتبر اور قوی سند کے ساتھ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ھیں:

” اِنَّ لِلّہِ عَزَّ وَجَلَّ اِثْنَیْ عَشَرَاٴَلْفَ عَالَمٍ کُلّ عَالَمٍ مِنْہُم اٴَکبَرُ مِنْ سَبعِ سَماواتٍ وَسبعِ اٴَرَضِینَ مَا یُریٰ عَالَمٌ مِنْہُمْ اٴنَّ لِلّہِ عَزَّ وَجَلَّ عَالَماً غَیْرَہُم “[4]

”خداوندعالم کے بارہ ہزار جھان ھیں، جن میں سے ھر ایک ساتوں آسمان اور زمین سے بڑا ھے، اور ان میں سے ھر ایک کے رھنے والے دوسرے جھان کی خبر نھیں رکھتے“۔

آج کل کے ستارہ شناس ماھرین کہتے ھیں: جھان ھستی ہزاروں جھان سے مرکب ھے اور ھر جھان میں ھماری زمین وآسمان سے بڑے زمین وآسمان ھیں۔[5]

اکثر اوقات عدد (مثلا بارہ ہزار) قرآن مجید اور روایات میں حدود او رتعداد کو بیان کرنے کے لئے نھیں ھوتا، بلکہ اس سے مراد کثرت اور زیادتی ھوتی ھے؛ لہٰذا یہ تصور نہ پیدا ھوجائے کہ ھستی بارہ ہزار جھان میں محدود ھے، جھان کی تعداد اس سے کھیں زیادہ ھے جن کی تعداد قرآن مجید، روایات اور علم نجوم میں بیان ھوئی ھے۔

آسمان پر لٹکی ھوئی قندیلیں اور منظومہ شمسی

سید نعمت اللہ جزائری ”شرح صحیفہ“ میں حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے روایت ھے :

خداوندعالم نے ایک لاکھ قندیلیں خلق فرمائی ھیں، اور ان کو عرش پر لٹکایا ھے ، اور تمام آسمان وزمین اور جو کچھ ان کے درمیان موجود ھے یھاں تک کہ بھشت ودوزخ ایک قندیل میں ھے ، اور خدا کے علاوہ کوئی نھیں جانتا کہ دوسری قندیلوں میں کیا کیا ھے!!

علامہ شھرستانی اس معجز نما روایت کی تفسیر میں بیان کرتے ھیں:

قندیل؛ منظومہ شمسی سے چند شباہت رکھتی ھیں:

پھلی شباہت: قندیل انڈے کی طرح ھے ، اور ھمارے نظام شمسی بھی آج کل کے ماھرین فلکیات کی بنا پر انڈے کی شکل کے ھیں۔

دوسری شباہت: قندیل ایک لطیف جسم والی ھے جو اس کے درمیان میں ھے اور وہ اپنے چاروں طرف نور ونار پھیلاتا ھے، اسی طرح ھمارا شمسی نظام ایک لطیف کرہ سورج پر مشتمل ھے جو وسط میں ھے اور اپنے اطراف موجود ستاروں کونور ونار عطا کرتا ھے۔[6]

تیسری شباہت: قندیل ھوا میں لٹکی ھوئی ھے ، دیوار یا کسی دوسری چیز پر نصب نھیں ھے، اسی طرح ھمارا نظام شمسی فضا میں لٹکا ھوا ھے۔

چوتھی شباہت: قندیل کا نور بخش حصہ بالکل وسط میں نھیں ھے بلکہ وسط کے کافی حد تک قریب ھے، اسی طرح سورج بھی منظومہ شمسی کے بالکل وسط میں نھیں ھے۔

قارئین کرام ! مذکورہ شباہتوں کے پیش نظر یہ معجز نما روایت آج کل کے فلکیاتی ماھرین کے عقیدہ کے موافق ھے اور قدیم فلسفہ کے مخالف ھے ، جو اس بات کی طرف واضح طور پر اشارہ کررھی ھے کہ ہزاروں جھان ، منظومہ شمسی موجود ھیں، جو ایک دوسرے سے جدا اور مستقل ھیں اور ان میں بھی سورج، چاند، ستارے، شھر وبستی، اور بھشت ودوزخ وغیرہ ھیں؛ اور ان میں سے ھر ایک قندیل کے جھان میں نظام شمسی اور زمین وآسمان ھیں!![7]

بے شمار سورج

بیسوی صدی کے آغازمیں جب عوام الناس نے یہ سنا کہ ھمارے اس کہکشاں میں جو رات کو واضح طور پر دیکھا جاتا ھے، تیس ملین سورج موجود ھیں، تو سب انگشت بدنداں ھوگئے، اور بھاگنے لگے۔ لیکن آج سائنس نے تحقیق کی کہ ھمارے کہکشاں میں دس ہزار ملین (10.000.000.000.) ستارے یعنی سورج موجود ھیں۔

ھم جب رات کے وقت بغیر دوربین کے اس کہکشاں پر نظر ڈالتے ھیں تو یہ چھوٹا دکھائی دیتا ھے، یھاں کہ برسات میں بادلوں کے ایک جھرمٹ کے برابر بھی دکھائی نھیں دیتا، لیکن اگر ایک فلکی بڑی دوربین جیسے رصد گاہ(جھاں سے ستاروں کاحال معلوم کیا جاتا ھے) کی دوربین ”ویلسون“ یا دوربین ”پالومر“ جس کا لینس پانچ میٹر کا ھوتا ھے؛ وغیرہ سے کہکشاں کو دیکھیں تو پتہ چلتا ھے کہ یہ کتنا بڑا اور عظیم ھے۔

کہکشاں میں سورج یکے بعد دیگرے اس طرح ھیں کہ ان کا صحیح طریقہ سے شمار بھی نھیں کیا جاسکتا، اور ابھی تک کسی بھی نجومی نے صحیح طور پریہ معین نھیں کیا ھے کہ ھمارے اس کہکشاں میں کتنے سورج ھیں بلکہ تخمینی طور پر کہتے ھیں: ھمارے اس کہکشاں میں دس ہزار ملین سورج ھیں۔!!

اس بنا پر کہکشاں کے ایک حصہ کو محدود کردہ سورج کو شمار کرتے ھیں اور کہتے ھیں کہ: ھمارے اس کہکشاں میں دس ہزار ملین سورج ھیں۔

لیکن سورج کی تعداد اس سے کھیں زیادہ ھونے کا امکان، کیونکہ اس کہکشاں میں ستاروں کی تعداد اس زیادہ ھے کہ ان میں سے بعض بعض کے مقابل آجاتے ھیں جس کے وجہ سے ان کے پیچھے کے ستاروں کو دیکھا نھیں جاسکتا، لیکن کہکشاں کے عجیب وغریب عمق (گھرائی) سے یہ پتہ چلتا ھے کہ ان دکھائی دینے والے سورجوں کے علاوہ دوسرے سورج بھی موجودھیں۔ اس کہکشاں کے سورجوں کے درمیان ایسے سورج بھی ھیں جوایک کروڑھمارے سورج سے بڑے ھیں!!

ھمارے اس جھان میں ملیونوں کہکشاں موجود ھیں اور کبھی ان کہکشاں میں دوسرے کہکشانوں سے بیس لاکھ نوری [8]سال کی دوری سے بھی زیادہ کا فاصلہ ھے۔

آج کل کی سب سے بڑی اور طاقتور دوربین ”پالومر“امریکہ میں ھے ، اس دوربین کے ذریعہ ایک ارب نوری سال کے فاصلہ پر کہکشانوں کے مختلف رنگوںکو دیکھا جاسکتا ھے، لیکن کبھی کبھی اس دوری کے پیچھے بھی نور دکھائی دیتا ھے جس سے نجومی حضرات اس بات کا اندازہ لگاتے ھیں کہ اس کے بعد بھی کہکشاں موجود ھیں۔

سورج کا وزن ارب در ارب(1000000000.0000000000) ھے، اور ھمارا یہ کہکشاں جو جھان عظیم کا ایک چھوٹا سا حصہ ھے تقریباً سورج کے۱۶۵ ہزار ملین گنا وزن ھے۔

ان تمام مادہ او رعناصر کے باوجود ؛ جس کی عظمت اور بزرگی پورے جھان میں پھیلی ھوئی ھے؛ جھان کا زیادہ تر حصہ خالی یا تقریباً خالی ھے!!

ھم سے قریب ترین ستارے کا فاصلہ ۴۰ ملین ملین کلو میٹر ھے!![9]

اس جھان عظیم کا ایک حصہ جس کو ایک محدود دور بین کے ذریعہ دیکھا گیا ھے ، ھم اسی کو دیکھ کر اور اس کے طول وعرض اور وزن کو ملاحظہ کرنے کے بعد کیا خدا ئے بزرگ کی عظمت اور بزرگی کا اندازہ لگاسکتے ھیں جس کی عظمت بے نھایت ھے اور پوری دنیامیں پھیلی ھوئی ھے؟!!

یہ جھان عظیم، خدائے عظیم کا کارخانہ اور اس کی کتاب ھے، فعل خدا کی تکوینی کتاب اور اس کی عظیم کتاب کو تھوڑا بہت پڑھ کر خداوندعالم کی عظمت کا اندازہ لگاسکتے ھیں ، اور پھر اپنے دل سے خلوص کے ساتھ یہ جملہ کھیں:

” اللهُ اٴَکْبَرُ مِنْ اٴَنْ ُیوصَفَ “[10]

خدا اس کھیں زیادہ بزرگ ھے کہ اس کی توصیف کی جائے۔

کیونکہ بڑے سے بڑا عالم خدا کی توصیف کرنے والا اس کی توصیف سے عاجز ھے اور بلیغ ترین زبان اس کی تعریف کرنے سے گنگ ھے اور قوت فکر کی سب سے بڑی طاقت اس کی عظمت کے ایک حصہ تک بھی نھیں پھنچ سکتی ھے!

جی ھاں، اس کے بارے میں تو وھی جملہ کھا جس کو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے تعلیم فرمایا ھے:

” مَاعَرَفْنَاکَ حَقَّ مَعْرِفَتِکَ “[11]

”جوحق تیری معرفت کا ھے وہ معرفت ھم حاصل نھیں کرسکتے“۔

” وَبِسُلْطٰانِکَ الَّذي عَلاٰ کُلَّ شَيْءٍ“

” اور اس سلطنت کے واسطہ سے ھے جو ھر شے سے بلند تر ھے“۔

قارئین کرام ! آپ حضرات نے گزشتہ صفحات میں جھان ھستی کی عظمت کے ناچیز گوشوںکے بارے میں پڑھا، اور خداوندعالم کی بے چون وچرا سلطنت کو ملاحظہ کیا، اسی کی ذات! جھان اور اس کی مخلوقات کے ظاھر وباطن سے مافوق ھے۔ اس کی قدرت تمام چیزوں پر مسلط ھے، اور تمام چیزیں اپنے تمام امور میں اسی مالک الملک کی فرمانروائی کے زیر سایہ ھیں۔ اس دنیا میں ھر شخص اپنی صلاحیت کے لحاظ سے فرمانروائی رکھتا ھے، اور اس کی فرمانروائی خدا وندعالم کی عطا کردہ بخشش ھے، اور اگر وہ چاھے تو اس سے لے کر دوسرے کو عطا کرسکتا ھے۔

حکام اپنی فرمانروائی کو خداوندعالم کی سلطنت، حاکمیت اور فرمانروائی کی ایک کرن تصور کریں اور عدل وانصاف سے کام لیں اور اگر عدل وانصاف کے علاوہ حکمرانی کریں تو ان کا شمار ظالمین میں ھوگا۔ اور جیسا کہ قرآن کریم میں بیان ھوا ھے اور تاریخ نے بھی یہ بات ثابت کی ھے کہ خدا کی لاٹھی میں آواز نھیں ھوتی، اور وہ انتقام لے لیتا ھے ، اور کچھ ھی مدت میں ظالم کو ذلیل وخوار کردیتا ھے، اور دردناک عذاب میں ڈھکیل دیتا ھے۔

اس کی فرمانروائی ،زمانہ نوح(ع) کے کفار ومشرکین کو موسلا دھار بارش اور زمین سے پانی کا چشمہ ابال کر طوفان کی شکل میں نیست ونابود کردیتی ھے۔

اس کی فرمانروائی، قوم عاد کو تیز آندھی اور طوفان کے ذریعہ سوکھی ھوئی گھاس کی طرح اڑا دیتی ھے، اور ایک منٹ میں ان کی زندگی کا خاتمہ ھوجاتا ھے۔

اس کی فرمانروائی ، کے ذریعہ دریائے نیل میں ظالم وجابر اور ستمگرجیسا فرعون غرق ھوجاتا ھے۔

” وَبِوَجْھِکَ الْبٰاقي بَعْدَ فَنٰاءِ کُلِّ شَيْءٍ“

” اور اس ذات کے واسطہ سے ھے جو ھر شے کی فنا کے بعد بھی باقی رھنے والی ھے“۔

اس کی ذات مقدس ؛ عین حیات ھے، اس کی ھستی ازلی، ابدی اور سرمدی ھے، وہ ھمیشہ سے ھے اور ھمیشہ رھے گا، کوئی چیز اس کے پھلو میں نھیں تھی اور نہ ھے، اس نے اپنے ارادہ کے ذریعہ تمام چیزوں کو خلق فرمایا حالانکہ وہ تمام چیزوں سے بے نیاز ھے، تمام چیزیں فنا ھونے والی ھیں، جب کہ اس کی ذات ھمیشہ کے لئے باقی رھے گی۔

اس جھان ھستی میں کوئی بھی چیز اپنی طرف سے مستقل حیات نھیں رکھتی، اس کی حیات خداوندعالم کی ایک روح پھونکنے کا ایک معمولی اشارہ ھے، لہٰذا تمام چیزوں میں فنا ھونے کی قابلیت حتمی ھے، فنا صفات نقص اور بقا صفات کمال میں سے ھے، جس کا نتیجہ یہ ھے کہ کمال مطلق باقی رھے گا، اور فنا ایک ایسی مُھر ھے جو تمام ھی موجودادت کی پیشانی اور تمام چیزوں کی دفتر حیات پر لگی ھوئی ھے۔

” وَبِاٴَسْمٰائِکَ الَّتي مَلَاٴَتْ اَرْکٰانَ کُلِّ شَيْءٍ“

” اور اور ان اسماء مبارکہ کے واسطہ سے ھے جن سے ھر شے کے ارکان معمور ھیں“۔

دعا کے اس فقرہ میں”اسماء“ سے مراد لفظی اسماء نھیں ھیں جو حروف سے مرکب ھوتے ھیں، بلکہ وہ حقائق اور مصادیق مراد ھیں جن پر الفاظ دلالت کرتے ھیں۔

رحمت واقعی، لطف حقیقی، علم ذاتی، عدل عینی اور قدرت فعلی نے تمام چیزوں کی ضرورتوں کو پورا کردیا ھے، یا یوں کہئے کہ تمام چیزیں خدا کی حقیقی خالقیت، بارئیت، مصوریت، علم، بصیرت، عدل، حکمت، رحمت اور رافت کی مظھر ھےں۔

تمام موجودات انھیں حقائق کی وجہ سے وجود میں آئے ھیں، اور انھیں کے ذریعہ باقی و قائم ھیں، نیز انھیں کی برکت سے ان کی زندگی باقی ھے اور انھیں کے سبب سے ان کو روزی ملتی ھے۔

انھیں تمام چیزوں میں غور و فکر کرنے سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ حروف سے مرکب شدہ لفظی اسماء ”اسماء حقیقی“ ھیں۔ اور ”کلُّ شیءٍ“یعنی تمام موجودات کے مختلف حالات اور ان کی حقیقت و حیثیت موثر ھیں اسماء حقیقی موٴثرھیںاسماء لفظی نھیں ۔

بھر حال یھی اسماء حقیقی جھان ھستی کی مختلف حقائق کے تحقق کے لئے واسطہ ھیں۔ جیسا کہ معصومین علھیم السلام سے وراد شدہ ”دعاء سمات“ میں ھم پڑھتے ھیں:

”بار الہٰا! تیری بارگاہ میں تیرے بڑے نام سے، تیرے عظیم نام سے، تیرے عزیز نام سے، تیرے برجستہ نام سے، اور تیرے گرانبھا نام سے سوال کرتا ھوں ۔

قارئین کرام ! اس دعا میں جو چیزیں بیان ھوئی ھیں وہ لفظ قدرت کے” ق د ر ت“سے نھیں ھے بلکہ حقیقت قدرت اور عین قدرت کی وجہ سے ھیں۔

جن اسماء کے ذریعہ ”کلّ شیءٍ“ ( یعنی تمام چیزوں) کی ضرورتیں پوری ھوتی ھیں ، در حقیقت وہ موجودہ حقائق ھیں جن کو قرآن مجید اور احادیث معصومین علیھم السلام میں ”اسماء“ سے تعبیر کیا گیا ھے۔

انھیں اسماء کے حقائق میں سے ”ائمہ طاھرین علیھم السلام“ ھیں جو تمام ھی مخلوقات میں خاص عظمت و اھمیت کے حامل ھیں، جو بندوں اور خدا کے درمیان روز قیامت کے لئے ”واسطہ فیض“ ھیں۔ خداوندعالم کی رحمت، ھدایت، لطف، رافت، کرم و بخشش انھیں حضرات کے صدقہ میں بندوں تک پھنچتی ھیں،اور انھیں حضرات کی معرفت اور ولایت کے زیر سایہ بندوں کے اعمال بارگاہ الٰھی میں قبول ھوتے ھیں۔

حکیم بزرگوار فیض کاشانی اپنی عظیم الشان تفسیر ”صافی“ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ھیں:

”نَحْنُ وَاللهِ الاٴَسْمَاءُ الْحُسْنیٰ اَلَّذِیْ لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ مِنَ الْعِبَادِ عَمَلاً اِلّٰا بِمَعْرِفَتِنَا“

”خدا کی قسم ھم خدا کے اسماء حسنیٰ ھیں، کہ خدا اپنے بندوں کے اعمال ھماری معرفت اور ھماری ولایت سے تمسک کے ذریعہ ھی قبول کرتا ھے“۔

لہٰذا معلوم یہ ھوا کہ انسان اگرفقط الفاظ پر توجہ کرے تو کسی مقام پر نھیں پھنچ سکتا ، لہٰذا الفاظ کو چھوڑتے ھوئے حقیقت کی تلاش کریں، کیونکہ عالم ھستی میں جتنے بھی آثار پائے جاتے ھیں وہ اسماء حقیقی یا عین واقعیات ھیں۔

”وَ بِالاسْمِ الَّذِیْ خَلَقْتَ بِہِ الْعَرشَ وَ بِالاسْمِ الَّذِیْ خَلَقْتَ بِہِ الْکُرْسِیَّ، وَ بِالاسْمِ الَّذِیْ خَلَقْتَ بِہِ الرُّوْحَ“۔

”اس اسم کی قسم جس کے وسیلہ سے عرش پیدا ھوا، اور اس اسم کی قسم جس کے ذریعہ کرسی کا وجود پیدا ھوا اور اس اسم کی قسم جس کی برکت سے روح کو خلق کیا“۔

”وَبِعِلْمِکَ الَّذي اٴَحٰاطَ بِکُلِّ شَيْءٍ“۔

” اوراس علم کے واسطہ سے ھے جو ھر شے کا احاطہ کئے ھوئے ھے “

خدا وندعالم کے علم کے سلسلہ میں جو علم فعلی اور علم حضوری ھے اور جو تمام موجودات کے ظاھر و باطن کا احاطہ کئے ھوئے ھے اور کوئی چیز اس کے علم سے پوشیدہ نھیں ھے (اگرچہ کروڑوں ذرات میں سے کوئی بھی ذرہ کیوں نہ ھو) تمام مخلوقات کی تعداد، ان کے ذرات ، اور مختلف قسم کے دانے یھاں تک کہ بارش کے قطروں کا علم اس کے پاس موجود ھے۔ھم یھاں پر اس سلسلہ میں قرآن مجید میں بیان شدہ آیات پر اکتفاء کرتے ھیں:

ارشاد الٰھی ھوتا ھے:

” َیَعْلَمُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْاٴَرْضِ ۔۔۔“[12]

”وہ زمین و آسمان کی ھر چیز کو جانتا ھے“۔

” وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلاَّ یَعْلَمُہَا ۔۔۔“[13]

”اور وہ خشک وتر سب کا جاننے والا ھے کوئی پتہ بھی گرتا ھے تو اسے اس کا علم ھے“۔

” وَاللهُ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ “[14]

”اور اللہ ھی تمھارے باطن و ظاھر دونوںسے باخبر ھے“۔

” یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاٴَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا یَنزِلُ مِنْ السَّمَاءِ وَمَا یَعْرُجُ فِیہَا وَہُوَ الرَّحِیمُ الْغَفُورُ“[15]

”وہ جانتا ھے کہ زمین میں کیا چیز داخل ھوتی ھے اور کیا چیز اس سے نکلتی ھے اورکیا چیز آسمان سے نازل ھوتی ھے اورکیا اس میںبلند ھوتی ھے اور وہ مھربان اور بخشنے والا ھے“۔

ان آیات کی حقیقت کو بہتر سمجھنے کے لئے پھاڑ کے ایک حصہ کو دیکھ لینا کافی ھے جوہزاروں کی تعداد دنیا بھر میں موجود ھےں۔

ماھرین نےآج تک کی رپورٹ کے مطابق کیڑے مکوڑوں کی سات لاکھ قسموں کا پتہ لگالیا ھے، جبکہ ان کی تعداد اس قدر ھے کہ الفاظ میں ان کو بیان نھیں کیا جاسکتا۔

گرمی کے دنوں میں جب آسمان صاف ھو تو اس وقت سوسک ، مکھی اور کنکھجوروں کی تعداد پھاڑ کی ایک دراڑھ میں اس قدر زیادہ ھے کہ ایک برّاعظم کے لوگوں سے بھی زیادہ ھے۔ اور اگر اس زمین سے ناگھاں نوع بشریت کا خاتمہ ھوجائے تو زمین پر دوسری موجودات اس قدر زیادہ ھیں کہ مشکل سے نوع بشریت کے خاتمہ کا احساس کرپائیں گے۔[16]

”وَبِنُورِ وَجْھِکَ الَّذي اٴَضٰاءَ لَہُ کُلُّ شَيْءٍ“۔

” اوراور اس نور ذات کے واسطہ سے ھے جس سے ھر شے روشن ھے“۔

آیات و روایات میں نور کے معنی

قرآن مجید اور روایات میں کمالات اور اقدار کو ”نور“ سے تعبیر کیا گیا ھے۔

”نور“ سے مراد ھدایت ھے[17]، ”نور“ کے معنی ایمان کی طرف قدم بڑھانے کے ھیں۔[18] ”نور“ یعنی اسلام۔ ”نور“ یعنی معرفت۔ ”نور“ یعنی علم۔ ”نور“ یعنی دلی روشنی۔[19]

قرآن کریم میں ”نور“ کے معنی اس طرح بیان کئے گئے ھیں:

” قَدْ جَاءَ کُمْ مِنْ اللهِ نُورٌ وَکِتَابٌ مُبِینٌ “[20]

”اے اھل کتاب !تمھارے پاس ھمارا رسول آچکا ھے جو ان میںسے بہت سی باتوں کی وضاحت کررھا ھے جن کو تم کتاب خدا میںسے چھپا رھے تھے“۔

”نور“کے معنی احکام الٰھی ، مسائل اخلاقی اور اعتقادی حقائق ھیں:

” إِنَّا اٴَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِیہَا ہُدًی وَنُورٌ “[21]

”بیشک ھم نے توریت کو نازل کیا جس میںھدایت اورنور ھے“۔

قارئین کرام ! مذکورہ معانی کے پیش نظر یہ بات کھی جائے کہ ”نور“ سے مراد خداوندعالم کے صفات، کمالات اور اسماء حسنیٰ ھیں جن سے ھر مخلوق اپنی استعداد اور قابلیت کے لحاظ سے فیضیاب ھوتی ھے۔ اور اس کامرانی میں اپنی ظلمت و تاریکی سے نجات پیدا کرتی ھے۔

صاحب استعداد انسان؛ اس بہت اھم اور سنھرے موقع سے ظلمت عدم سے نورھستی کی طرف، ظلمت نقص سے نور کمال کی طرف، ظلمت جھل سے نور معرفت کی طرف، ظلمت ظلم سے نور عدالت کی طرف، ظلمت کفر سے نور ایمان کی طرف، ظلمت ضلالت سے نور ھدایت کی طرف اور ظلمت مادیت سے نور معنویت کی طرف آتا ھے ا ور اس سے آراستہ و مزین ھوتا ھے، در حقیقت خدا کے اسماء و صفات کا طلوع مطلع الفجرھوتا ھے جو نور محض اور نور خالص ھے۔

قرآن کریم کی آیات اور معصومین علیھم السلام کی تعلیمات کے پیش نظر یہ بات کھی جاسکتی ھے کہ ”نوروجہ“ سے مراد وھی حقائق اور کمالات ھیں جس کے ایک ہزار نمونے ”دعاء جوشن کبیر“ میں بیان کئے گئے ھیں۔

لیکن اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ لفظ ”نور“ مفرد کیوں ھے؟ تو اس کا جواب یہ ھے کہ خداوندعالم کے تمام اسماء حسنیٰ اور اس کے بلند و بالا صفات، اس کی عین ذات ھیںاور اس کی ذات مقدس میں کسی طرح کی کوئی”ترکیب“ نھیں ھے یعنی صفت اور موصوف کا تصور نھیں پایا جاتا۔ خدا وندعالم کا علم، اس کی حکمت، اس کا عدل، رحمت، لطف اور اس کی رحمانیت وغیرہ تمام کی تمام اسی خدا ئے واحد ویگانہ کی ذات بابرکت ھے۔

اور چونکہ لفظ ”نور“ کا استعمال ھدایت پر ھونا معارف الٰھی میں بہت زیادہ بیان ھوا ھے جس کے پیش نظر شاید اس نورا نی جملے کے معنی یہ ھوں:

”خدایا! میں تجھ سے تیری اس ھدایت اور رھنمائی کے واسطہ سے سوال کرتا ھوں جس کے ذریعہ تمام موجودات ھدایت یافتہ ھیں“۔

بھر حال لفظ ”نور“ میں تمام آسمانی اور ملکوتی معنی اور مفاھیم سمائے ھوئے ھےں،یہ تو ذوق سلیم اور قلب نورانی اپنے لحاظ سے مختلف معنی میں استعمال کرتا ھے؟

” یٰا نُورُ یٰا قُدُّوسُ، یٰا اٴَوَّلَ الْاٴَوَّلینَ،وَیٰا آخِرَ الْآخِرینَ“۔

”اے نور ،اے پاکیزہ صفات،اے اوّلین سے اوّل اور آخرین سے آخر“۔

اے تمام کمالات، اے سب کے پیدا کرنے والے ، اے ظھور محض،اے ظاھر، اے آشکار اور اے واضح کہ روز عرفہ صحرائے عرفات میں تیرا عاشق بے قرار اور عارف دلدادہ نیز تیرا خالص بندہ اور تیرے نور کا مطلع الفجر یعنی حضرت امام حسین علیہ السلام تیری بارگاہ میں عرض کرتا ھے:

” اٴَیَکُونُ ِلغَیرِکَ مِنَ الظُّھورِما لَیسَ لَکَ حَتَّی یَکونَ ہُوَ المُظہِرَ لَکَ؟ مَتَی غِبْتَ حَتَّی تَحْتاجَ ِالَی دَلیلٍ یَدُلُّ عَلَیکَ وَمَتی بَعُدْتَ حَتَّی تَکونَ الآثارُ ہِیَ الَّتِی تُوصِلُ اِلَیکَ؟ “[22]

”کیا تیرے علاوہ کسی غیر کے لئے کوئی ظھور ھے جو تیرے لئے نھیں ھے، جو کوئی دوسرا تیرے ظھورکے لئے وسیلہ بنے؟ بارالٰھا تو کب مخفی تھا جس کو ظاھر کرنے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت ھوتی، تو کب دور تھا جو تجھ تک پھنچانے والے آثار کی ضرورت ھو؟“

” اے پرودگار عالم! جس وقت میں اپنی نفسانی حالت سے دور رہتے ھوئے اپنی حقیقت کو سمجھنے کے بعد غور سے دیکھتا ھوں تو پتہ چلتا ھے کہ اس جھان ھستی میں تیرے جلال و جمال کی روشنی ھر چیز سے روشن تر ھے، تیرے وجود کے لئے کوئی خِفا اور پوشیدگی نھیں ھے، کہ کوئی چراغ جلا کر تیری ربوبیت کی جستجو کروں، کیونکہ جب بھی کسی حقیقت کے ذریعہ اپنے راستہ کی دلیل فرض کروں تو غور و فکر کے بعد یہ واضح ھوجاتا ھے کہ اس دلیل کا پیدا کرنے والااور اس چراغ کو روشن کرنے والا بھی تو ھی ھے“۔

تو کس وقت غائب اور چھپا ھوا تھا کہ کسی دلیل کا محتاج ھوتا جو تیرے وجود پر دلالت کرتی، اور تو کب اور کس موقع پر دور تھاتاکہ تیرے ھی پیدا کردہ آثار کے ذریعہ ؛تجھ تک پھنچاجاتا؟

اے تمام عیوب سے پاک و پاکیزہ! اے تمام نواقص اور خامیوں سے پاک و منزہ! اے جو تمام توصیف بیان کرنے والوں کی توصیف سے بلند و بالا ھے! اے کل الکمال! اے حقیقت محض! یا نور یا قدوس! اے تمام چیزوں کی ابتداء بغیر اس کے تری ذات مقدس کے لئے کوئی ابتداء ھو، اے تمام چیزوں کی آخر کے آخر بغیر اس کے تیری ذات کے لئے کوئی آخر ھو، تو ھر چیز کی ابتداء کرنے والا ھے حالانکہ تیرے لئے کوئی ابتداء نھیں ھے، اور اے ذات ازلی! جو تمام چیزوں کے فنا ھونے کے بعد بھی ھمیشہ ھمیشہ کے لئے باقی رھے گا۔

ابتداء اور آخر صفت ”کل شیءٍ“ کی ایک اصطلاح ھے۔ تمام چیزیں اول اور آخر نیز ابتداء اور انتھا رکھتی ھیں اور اس ابتداء و انتھا میں دو حقیقتیں ھیں جن کو تو نے ھر مخلوقات کے لئے قرار دے رکھا ھے۔ ابتداء کا ھونا اس بات کی دلیل ھے کہ یہ موجودات ایک دن نھیں تھیں، تو نے ان کو لباس خلقت سے آراستہ کیا، اور آخر ھونا اس بات کی دلیل ھے کہ یہ تمام چیزیں ایک دن فنا کی چادر اوڑھ لےںگی اور تیری ھی ذات ان کو فنا دے گی۔ لہٰذا معلوم یہ ھوا کہ تو ”کل شیءٍ“ سے پھلے تھا اور ”کل شیءٍ“ کے بعد بھی باقی رھے گا، اور تیرے بعد کوئی چیز نھیں رھے گی۔

یٰا اٴَوَّلَ الْاٴَوَّلینَ،وَیٰا آخِرَالْآخِرینَ۔

”اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تَھْتِکُ الْعِصَمَ “۔

” خدایا میرے ان تمام گناھوں کو بخش دے جو ناموس کو بٹہ لگادیتے ھیں“۔

گناہ

وہ اعمال و افعال، حالات ورفتار اور وہ اخلاق و کردار جو خداوندعالم اور انبیاء و ائمہ معصومین علیھم السلام کے احکام کے خلالف ھوں ؛ ان کو گناہ شمار کیا جاتا ھے۔

بعض گناھوں کی شدت اور جرم اس قدر زیادہ ھے جن کو انجام دینا خدا و رسول سے جنگ کرنے کے برابر قرار دیا گیا ھے[23]

جو انسان اس دنیا میں گناہ کرتا ھے وھی روز قیامت میں ھمیشہ ھمیشہ کے لئے آتش جھنم بن کر گناھگارکے ساتھ ساتھ رھےں گے:

” إِنَّ الَّذِینَ یَاٴْکُلُونَ اٴَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْمًا إِنَّمَا یَاٴْکُلُونَ فِی بُطُونِہِمْ نَارًا۔۔۔“[24]

”جو لوگ ظالمانہ انداز سے یتیموںکا مال کھاجاتے ھیںوہ درحقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھر رھے ھیں“۔

گناہ کرنا، خدائے رحمن و کریم کے دسترخوان پر نمک کھا کر نمک دان توڑ دینے کی طرح ھے۔

زندگی بھر نمک کھاکر نمک دان کو توڑنا بہت بے انصافی ھے۔

نمک کھاکر نمک دان توڑدینے والی حکایت

یعقوب لیث، سیستان کی مشھور و معروف شخصیت، جس نے خونخوار اور ظالم عباسی حکومت کے خلاف انقلاب کی بنیاد ڈالی، شروع میں” مسگر“ (تانبے کے برتن بنانے والے) کے علاوہ کچھ نھیں تھے۔

کافی دنوں تک اپنے کام میں مشغول رھے اور اپنے حاصل کردہ پیسہ کو فراخ دلی سے اپنے نوجوان دوستوں کو کھلاتے رھے۔

اس کی سخاوت اور شجاعت کی وجہ سے کچھ جوان بھادر اور محنت کش بھی اس کے پاس آگئے۔

اپنے اس ساتھی کی وجہ سے اس نے اپنا کام چھوڑ دیا ، اور ایک دوسرا کام شروع کردیا، لیکن کچھ مدت کے بعد ھی اس کام کو بھی چھوڑ دیا اور سیستان کے حاکم یا امیر کے مال پر نگاہ جمالی اور اس کے مال میں خیانت کرنے کا پروگرام بنالیا۔ لیکن چونکہ امیرکی طرف مال کی حفاظت کے لئے سخت محافظ قرار دئے گئے تھے، لہٰذا ایسا کرنا ممکن نھیں تھا، پروگرام یہ بنایا کہ بیرون شھر سے ایک سرنگ اس کے خزانہ تک کھودی جائے جس کے ذریعہ اس کا سارا مال حاصل کرلیا جائے۔

سرنگ کھودنے میں چھ مھینے لگ گئے، آخر کار وہ اس کے خزانہ تک پھنچ گیا اور ایک سوراخ کے ذریعہ خزانہ میں وارد ھوگیا تمام سونا، چاندی اور قیمتی جواھرات ، درھم و دینار آھستہ آھستہ مختلف بوریوں میں بھر لیا اور کسی محافظ و نگھبان کو خبر تک نہ ھوئی ، سرنگ کے ذریعہ ان کو باھر لا ھی رھا تھا کہ اس آدھی رات میں یعقوب کی نگاہ ایک چمکتی ھوئی گوھر جیسی چیز کی طرف رکی۔لیکن چونکہ کافی اندھیرا تھا اس کو نہ پہچان سکا، زبان سے چھک کر دیکھا تو بہترین چمکتا ھوا نمک تھا، اس موقع پر اس نے اپنے تمام ساتھیوں کو حکم دیا کہ تمام مال کو یھیں چھوڑدو اور خالی ھاتھ یھاں سے نکل چلو۔

اس کے تابع اور مطیع جوانوں نے تمام مال کو وھیں چھوڑ ا او رخالی ھاتھ شھر سے باھر آگئے، اور جب یعقوب سے اس کام کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ اگرچہ میں نے خزانہ تک پھنچنے کے لئے چھ مھینہ تک بہت زیادہ زحمت اٹھائی ھے اور چاہتا تو اس کا سارا مال لے جاتا، لیکن چونکہ میں نے امیر سیستان کا نمک کھالیا ھے لہٰذایہ میری غیرت اور انصاف سے دور ھے کہ اس کا نمک کھاکر اس کے مال کو غارت کرڈالوں!!

ادھر جب محافظوں نے خزانہ کا دروازہ کھوالا تو وھاں کی حالت دیکھ کر خصوصاً وھاں پر موجود سونا چاندی او ردرھم و دینار کو دیکھ کر مبھوت رہ گئے اور اس کی رپورٹ امیر سیستان کو دی۔ امیرنے یہ واقعہ سن کر شھر میں اعلان کرادیا کہ جس نے بھی یہ کام کیا ھو وہ اپنے کو امیر کے سامنے حاضر کردے تاکہ امیر اس کو بہترین انعامات سے نوازے۔

ادھر جب یعقوب نے امیر کا یہ اعلان سنا تو فوراً امیر کے پاس پھنچے، اور کھا کہ میں نے تمھارا نمک کھالیاتھا، لہٰذا نمک کھاکر نمک دان توڑنا میری غیرت کے خلاف تھا۔

جب امیر سیستان نے ایسے شجاع، بھادر، محنتی ، انصاف پسند جوان کو دیکھا تو بہت خوش ھوا اور اس کو سیستان کے لشکر کا امیر بنادیا، اسی وقت سے یعقوب نے وھیں سے ترقی کرنا شروع کردی یھاں تک کہ عباسیوں کی ظالم حکومت سے مظلومین کو نجات دلانے کی کوششیں شروع کردیں اور ایک انقلاب کی بنیاد ڈالدی۔

گناہ ،ایک معنوی نجاست ھے جس کی وجہ سے انسان کی روح و جان اور خیال و فکر اور دل گندا ھوجاتا ھے ، جس کی بنا پر انسان رحمت الٰھی، لطف خداوندی اور فیض الہٰی سے محروم ھوجاتا ھے۔

گناہ کی وجہ سے انسان سے حفاظت کرنے والاعذاب و ذلت کا پردہ پھٹ جاتا ھے، جس کی وجہ سے دنیا و آخرت میں اس کے اسرار اور راز فاش ھوجاتے ھیں، اور وہ بندگی کی منزل سے خارج ھونے لگتا ھے، نیز خداوندعالم کی بخشش و مغفرت اور اس کی پردہ پوشی سے دور ھوتا چلا جاتا ھے!

علماء اسلام نے قرآن مجید اور معصومین علیھم السلام کی احادیث کے پیش نظر گناھوں کی دو قسمیں بیان کی ھیں:

۱۔ گناہ کبیرہ۔

۲۔ گناہ صغیرہ۔

گناہ کبیرہ وہ گناہ ھیں جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ھے کہ خدا ان گناھوںکے بدلے دوزخ کو واجب کردیتا ھے۔[25]

اگر انسان گناہ کبیرہ سے دور رھے اور اس خطرناک وادی میں قدم نہ رکھے اور دامن انسانیت کو آلودہ نہ کرے تو خداوندعالم اس کے دوسرے گناھوں سے در گزر کرجاتا ھے اور اس پر اپنی رحمت و مغفرت نازل فرماتا ھے:

”إِنْ تَجْتَنِبُوا کَبَائِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُدْخَلًا کَرِیمًا“[26]

”اگر تم بڑے بڑے گناھوںسے جن سے تمھیں روکا گیا ھے پرھیز کرلو گے تو ھم دوسرے گناھوںکی پردہ پوشی کردیں گے اور تمھیں باعزت منزل تک پھنچا دیں گے“۔

کتاب گرانقدر ”عیون اخبار الرضا(ع)“ میں حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت ھے کہ امام علیہ السلام نے گناھان کبیرہ کی فھرست اس طرح بیان فرمائی:

۱۔ نفس محترم کا قتل کرنا۔

۲۔ زنا۔

۳۔ چوری۔

۴۔ نشہ آور چیزیں کھانا۔

۵۔ عاق والدین ھونا۔

۶۔جنگ سے بھاگنا۔

۷۔ناجائز طریقہ سے مال یتیم کھانا۔

۸۔مردار ، خنزیر اور جس جانور پر ذبخ کرتے وقت غیر خدا کا نام لیا گیا ھو اس کا گوشت کھانا۔

۹۔سود۔

۱۰۔مال حرام کھانا۔

۱۱۔قمار بازی (جُوا)۔

۱۲۔کم تولنا۔

۱۳۔کسی پاک دامن پر تھمت لگانا۔

۱۴۔لواط۔

۱۵۔رحمت خدا سے مایوس ھونا۔

۱۶۔اپنے کو عذاب خدا سے محفوظ گرداننا۔

۱۷۔ظالموں کی مدد کرنا۔

۱۸۔ستمگروں سے دلی لگاؤ رکھنا۔

۱۹۔جھوٹی قسم کھانا۔

۲۰۔بغیر تنگدستی کے حقوق الناس کو ادا نہ کرنا۔

۲۱۔جھوٹ۔

۲۲۔تکبر۔

۲۳۔اسراف۔

۲۴۔ تبذیر (فضول خرچی کرنا)۔

۲۵۔خیانت کرنا۔

۲۶۔حج کو سبک اور کم اھمیت قرار دینا۔

۲۷۔اولیاء اللہ سے جنگ کرنا۔

۲۸۔بے فائدہ اور بے ھودہ کھیلوں میں مشغول رھنا۔

۲۹۔گناھوں پر اصرار کرنا۔[27]

گناھوں کے برے آثار

قرآنی آیات اور روایات معصومین علیھم السلام کے پیش نظر گناھوں کے برے آثار کو درج ذیل عناوین کے تحت بیان کیا جاسکتا ھے:

گناہ کے ذریعہ انسان کے نیک اعمال نابود ھوجاتے ھیں۔ گناہ کی وجہ سے انسان دنیاوی بلاؤں اور اُخروی درد ناک عذاب میں مبتلا ھوجاتا ھے۔ گناہ کی وجہ سے انسان کی دعا قبول نھیں ھوتی۔ گناہ کی وجہ سے انسان شفاعت کرنے والوں کی شفاعت سے محروم ھوجاتا ھے۔ گناہ دل کو سخت و تاریک بنادیتے ھیں۔ گناہ کی وجہ سے ایمان ختم ھوجاتا ھے۔ گناہ کی وجہ موعظہ و نصیحت بے اثر ھوجاتے ھیں۔ گناہ انسان کو ذلیل و رسوا کردیتے ھیں۔ گناہ کی وجہ انسان رزق الٰھی سے محروم ھوجاتا ھے۔ گناہ انسان کو منزل عبادت اور بندگی سے دور کردیتی ھے۔ گناھوں کی وجہ سے انسان پر شیطان کے مسلط ھوجانے کا راستہ ھموار ھوجاتا ھے۔ گناہ کی وجہ سے گھر، خاندان اور اجتماعی زندگی میں پریشانیاں پیدا ھوجاتی ھے۔ گناہ کی وجہ ایک دوسرے پر اعتماد اور اطمینان کا خاتمہ ھوجاتا ھے۔ گناہ دل پر قبضہ کرلیتا ھے۔ گناہ کی وجہ سے انسان کو جان کنی کی حالت، فشار قبر اور برزخ میں سختی اور پریشانی ھوتی ھے۔[28]

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ھے :

” اٴَمَا اِنَّہُ لَیسَ مِن عِرقٍ یَضْربُ وَلا نَکْبَةٍ وَلاصُداعٍ وَلا مَرَضٍ الّا بِذَنبٍ وَذَلِکَ قَولُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ فِی کِتابِہِ: ” وَمَا اٴَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اٴَیْدِیکُمْ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیرٍ[29]

”کوئی بھی رگ نھیں کٹتی اور کبھی ٹھوکر نھیں لگتی اور کسی کے سر میں درد نھیں ھوتااسی طرح کوئی بیماری یا مرض انسان کو نھیں ھوتا مگر یہ کہ انسان کے گناھوں کی وجہ سے۔ اسی وجہ سے خداوندعالم نے قرآن [30]مجید میں ارشاد فرمادیا ھے:”اور تم تک جو مصیبت بھی پھنچتی ھے وہ تمھاری ھی وجہ سے ھے اور وہ بہت سی باتوںکو معاف بھی کردیتا ھے “۔

اسی طرح امام علیہ السلام سے روایت ھے کہ آپ نے فرمایا:

”انّ الرَّجُلَ یُذنِبُ الذَّنبَ فَیُحْرَمُ صَلَاةَ اللَّیلِ وَاِنَّ العَمَلَ السَّیِّیٴَ اٴَسْرَعُ فِی صاحِبِہِ مِن السِّکِینِ فِی اللَّحْم “[31]

”بے شک جب انسان گناھوں کا مرتکب ھوتا ھے تو خداوندعالم اس کو نماز شب پڑھنے کی توفیق سے محروم کردیتا ھے، گناہ کا اثر گوشت پر چاقو کی دھار سے تیز ھوتا ھے“۔

حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت ھے کہ آپ نے فرمایا:

” اٴَوحَی اللهُ عَزَّوَجَلَّ الَی نَبیٍّ مِنَ الَانبِیاءِ:اِذا اٴُطِعْتُ رَضِیتُ ،وَاِذا رَضِیتُ بَاَرکْتُ،وَلَیْسَ ِلبَرَکَتِی نِھایَةٌ وَاِذا عُصِیتُ غَضِبْتُ،وَاِذاغَضِبتُ لَعَنتُ،وَلَعْنَتی تَبْلُغُ السَّابِعَ مِن الوَرَی “[32]

”خداوندعالم نے اپنے پیغمبر پر وحی نازل فرمائی کہ جب کوئی شخص میری اطاعت کرتا ھے تو میں خوشنود ھوتا ھوں اور جب خوشنود ھوتا ھوں تو اس شخص کے لئے برکت قرار دیتا ھوں جبکہ میری برکت بے نھایت ھے۔ اور اگر کوئی شخص میری نافرمانی و معصیت کرتا ھے تو ناراض ھوتا ھوں اور جب ناراض ھوتا ھوں تو اس پر لعنت کرتا ھوں اورمیری لعنت سات پشتوں تک شامل رہتی ھے“۔

یہ بات تجربہ سے ثابت ھوئی ھے کہ جب نیک افراد پر غربت و ناداری، بیماری و ناتوانی یا رزق کی قلت جیسی بلائیں نازل ھوتی ھیں تو یہ بھی ان کے لئے خدا کا ایک لطف و کرم ھوتا ھے تاکہ دوسروں کی طرح گناہ اور طغیان میں مبتلا نہ ھوں۔

گناہ پر اصرار (یعنی ایک گناہ کو بار بار انجام دینے) کے بارے میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے روایت ھے:

”خداوندعالم ھر بندہ کی حرمت کے لئےچالیس پردہ قرار دیتا ھے، مگر یہ کہ جب انسان چالیس گناھوں کا مرتکب ھوجاتا ھے، (تو اس کے وہ پردہ ختم ھوجاتے ھیں) اس وقت خداوندعالم اپنے فرشتوں کو حکم دیتا ھے کہ اپنے پروں سے میرے بندے کو چھپالو۔ چنانچہ فرشتے اپنے بالوں سے اس کو چھپائے رکھتے ھیں، مگر وہ شخص گناھوں پر گناہ بجالاتا رہتا ھے یھاں تک کہ وہ لوگوں کے سامنے اپنے گناھوں پر فخر کرتا ھے، اس وقت فرشتے کہتے ھیں: پالنے والے! یہ تیرا بندہ ھر گناہ کا مرتکب ھوتاجاتا ھے اور ھمیں شرم آتی ھے۔ خداوندعالم ان پر وحی نازل کرتا ھے کہ اپنے پروں کو ہٹالو۔ اور جب نوبت یھاں تک پھنچ جاتی ھے تو اس وقت وہ شخص اھل بیت (علیھم السلام) سے دشمنی کرنا شروع کردیتا ھے، اس وقت زمین وآسمان میں اس کی حرمت و عظمت کا پردہ چاک چاک ھوجاتا ھے۔ اس وقت فرشتے کہتے ھیں : پروردگارا! تیرے بندہ کا پردہ پارہ پارہ ھوچکا ھے، اس وقت وحی الٰھی نازل ھوتی ھے کہ اگر خدا اس پر توجہ رکھتا تو تمھیں پروں کے ہٹا لینے کا حکم ھی نھیں دیتا![33]

وہ باتقویٰ اور پاکدامن انسان جو ھمیشہ یاد خدا اور قیامت پر توجہ رکھتا ھے اور گناھوں کے برے آثار سے ظاھر اور مخفی طریقہ سے دوری اختیار کرتا ھے وہ زندہ ھے، لیکن خداوند عالم قیامت اور انجام گناہ سے نہ ڈرنے والا گناھگار شخص مردہ ھے۔[34]

جن گناھوںکے ذریعہ پردہ اٹھ جاتا ھے:

محدث بزرگوار شیخ صدوق علیہ الرحمہ اپنی کتاب ”معانی الاخبار“ میں گناھوں کے برے آثار کے سلسلے میں ایک بہت اھم حدیث بیان کرتے ھیں کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل ھوا ھے کہ جس کے ایک حصہ کو دعاء کمیل کے ”اللھم اغفر الی الذنوب“ سے شروع ھونے والے جملوں کی وضاحت میں فرمایا:

جن گناھوں کے ذریعہ پردہ اٹھ جاتا ھے وہ درج ذیل ھیں:

۱۔ نشہ آورچیزیں پینا۔

۲۔ جُوا کھیلنا۔

۳۔بے ھودہ کاموں اورلوگوں کو ھنسانے کے لئے بے جا مذاق میں مشغول رھنا۔

۴۔ دوسروں کے عیوب بیان کرنا۔

۵۔ گناہ و بدکاری سے متھم افراد کی ھم نشینی۔

شراب خوری:

حضرت امام موسیٰ کاظم ، و امام رضااور امام محمد تقی علیھم السلام نے شراب پینے کو گناہ کبیرہ میں شمار کیا ھے۔

عصر حاضر کے مغربی و مشرقی دانشوروں اس بات کے قائل ھیں کہ نشہ آور اشیاء چاھے کم ھو یا زیادہ انسان کے دل و دماغ اور معدہ اور پھیپڑوں نیز سانس کی نالی اور خون کی روانی میں خطرناک اثرات پیدا کرتی ھیںجو اس کی اولاد میں بھی پھنچتے ھیں، اور بعض اوقات تو ان کا علاج کرنا ناممکن ھے، جس کے نتیجہ میں شراب پینے والے کی ھلاکت یقینی ھوجاتی ھے۔

”شیطانی بوٹل“ یعنی شراب ایک بہت خطرناک شیطان اور جانی دشمن ھے اور شرعی لحاظ سے نجس ھے۔

قرآن مجید نے سیال نشہ آور اشیاء کو ناپاک، رجس اور شیطانی کاموں میں شمار کیا ھے۔[35] اور اس کے فائدہ کو اس نقصان کے مقابلہ میں بہت کم اور ناچیز شمار کیا ھے۔[36]لہٰذا شراب انھیںنا قابل تلافی خطرات کی بنا پر تمام لوگوں پر حرام کی گئی ھے اور شراب پینے والے کو اگر توبہ نہ کرسکے تو اس کو دنیا وی اور اُخروی عذاب سے دو چار ھونا پڑے گا۔

پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے شراب کے سلسلہ میں دس لوگوں پر لعنت کی ھے:

۱۔ جو کوئی شخص شراب بننے والی چیزوں کے درخت کو شراب کے لئے لگائے۔

۲۔ جو شخص اس درخت کی دیکھ بھال کرے۔

۳۔ جو شخص شراب بنانے کے لئے انگور یا کسی دوسری چیز کا رس نکالے۔

۴۔ شراب پینے والا۔

۵۔ شراب پلانے والا۔

۶۔ جو شخص شراب کو اپنے کاندھے پر یا سواری پر رکھ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائے۔

۷۔ جو شخص اس لانے لے جانے والے سے لے کر رکھے۔

۸۔ شراب بیچنے والا۔

۹۔شراب خریدنے والا۔

۱۰۔ شراب سے حاصل شدہ منافع کو کھانے والا۔

روز قیامت شراب خوراس حال میں محشور کیا جائے گا کہ اس کا چھرہ سیاہ، منھ ٹیڑھا اور اس کی زبان پیاس کی شدت سے باھر نکلی ھوئی ھوگی، اس وقت اس کو زنا زادوں کی میل و گندگی گرنے والے کنویں سے پانی پلایا جائے گا۔[37]

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

”شراب خوری بت پرستی کے برابر ھے“۔[38] شراب خوار روز قیامت کافر محشور کیا جائے گا“۔[39] ”شراب خواری تمام گناھوں کی بنیاد ھے“۔[40]

حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ کی نظر میں شراب خوری؛ چوری اور زنا سے بدتر ھے؟ تو آپ نے فرمایا: ھاں؛ کیونکہ زنا کرنے والا شاید کوئی دوسرا گناہ نہ کرے، لیکن شراب پینے والا جب شراب پی لیتا ھے تو وہ زنا بھی کرسکتا ھے، کسی کو قتل بھی کرسکتا ھے اور نماز کو بھی ترک کردیتا ھے۔[41]

حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:

”جو شخص شراب پئے در حالیکہ مجھ سے اس کی حرمت کے بارے میں سن چکا ھو ، تو اگر ایسا شخص کسی لڑکی سے رشتہ لے کر آئے تو اس کو مثبت جواب دینا سزاوار نھیں ھے، شراب پینے والے کی سفارش قابل قبول نھیں ھے، اس کی بات کی تصدیق نہ کی جائے۔ اس کو کسی چیز پر امانت دار بھی نہ بنایا جائے، لہٰذا اگر ایسے شخص کو کوئی امانت دی جائے تو خدا کی طرف سے کوئی ضمانت نھیں ھے“۔[42]

قمار بازی (جوا کھیلنا)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک روایت کے ضمن میں قمار بازی کو گناہ کبیرہ شمار کیا ھے۔[43]

قرآن مجید نے نے صرف قمار بازی اور شراب کو گناہ کبیرہ سے تعبیر کیا ھے، جیسا کہ ارشاد ھوتا ھے:

” یَسْاٴَلُونَکَ عَنْ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیہِمَا إِثْمٌ کَبِیرٌ۔۔۔“(۴)

”یہ آپ سے شراب اور جوے کے بارے میںسوال کرتے ھیں تو کھے دیجئے ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ھے۔۔۔ “۔

قمار بازی کے تمام وسائل و سامان بنانا، اور ان کے بنانے پر اجرت لینا نیز ان کی خرید و فروخت حرام ھے۔

بہت سے شیعہ فقھاء کرام کے نزدیک قمار بازی بغیر کسی شرط کے بھی شرعی حیثیت نھیں رکھتی ھے۔

ان وسائل کا رکھنا حرام اور ان کو نابود کرنا ضروری ھے۔

قمار بازی کو دیکھنا ،وھاں بیٹھنا حرام اور اس جگہ کو ترک کردینا واجب شرعی ھے۔

لوگوں کے ھنسانے کے لئے بے ھودہ کام انجام دینا

بے ھودہ کام سے مراد ایسے اعمال وافعال ھیں جن کے کرنے سے دنیاوی یا اُخروی کوئی فائدہ نہ ھو، صرف انسان کا وقت برباد ھوتا ھے۔ انسان کی عمر کاایک لمحہ لاکھوں اور کر وڑوں اسباب کی باھم کارکردگی کی بنا پر حاصل ھوتا ھے۔

بے شک اپنی عمر برباد کرنا کفران نعمت ھے۔ کیونکہ انسان کی عمر خداوندعالم کی عطا کردہ ایک عظیم اور مفید نعمت ھے اور اس عظیم الشان نعمت کا شکر یہ ھے کہ اس زندگی کا ایک ایک لمحہ خداوندعالم کی عبادت و بندگی ، اور حصول علم و دانش نیز بندگان خدا کی خدمت میں گزارا جائے۔

محدث قمی اپنی کتاب ”منازل الآخرة“ میں ایک حکایت نقل کرتے ھیں:

ابن صمد نامی شخص شب و روز اپنے وجود کا حساب کرتا تھا، اپنے زندگی کے گزرے ھوئے دنوں کو شمار کرتا تھا ، اور جب اس کے لحاظ سے اس کی عمر ساٹھ سال ھوگئی اس کے دنوں کو شمار کیا تو ۲۱۹۰۰ ھوگئے تو اس نے ایک فریاد بلند کی کہ اگر میں نے ھر روز بھی ایک گناہ کیا ھو تو ۲۱۹۰۰ گناہ ھوگئے ھیں اور میں اس قدر گناھوں کے ساتھ خدا سے ملاقات کروں گا، یہ کہتے ھی بے ھوش ھوکر زمین پرگر پڑا اور اسی حالت میں اس دنیا سے چل بسا۔

دوسروں کے عیوب بیان کرنا

مسلمین اور مومنین کی عزت و آبرو کی حفاظت ایک بہت اھم فریضہ ھے جس پر اسلام نے بہت زیادہ توجہ دی ھے یھاں تک کہ اسلامی تعلیمات کے پیش نظر مومن کی عزت و آبرو اس کے خون کے برابر قرار دی گئی ھے:

”عرض المومن کدمہ“

”مومن کی عزت اس کے خون کی طرح ھے“۔

لوگوںکی آبرو کے ختم ھونے سے اطمینان و اعتماد کی عمارت ویران ھوجاتی ھے، گھریلو زندگی اورمعاشرہ کا نظام درھم و برھم ھوجاتا ھے جس سے مسلمانوں کے امور میںخلل پیدا ھوجاتا ھے۔

فقط انبیاء اور ائمہ علیھم السلام نیز اولیاء اللہ بے عیب اور کامل انسان ھیں۔ ان کے علاوہ تمام انسانوں میں عیوب ھوتے ھیں جن کوسبھی چھپاتے ھیں۔

البتہ بعض ایسے بے شرم افراد ھوتے ھیںجو دوسروں کے سامنے اپنے عیب بیان کرتے ھوئے فخر کرتے ھےںاور ان کے بیان کرنے پر ان کو کوئی تکلیف نھیں ھوتی، لیکن اکثر لوگ اپنی عزت و آبرو کے قائل ھیں اور اپنی عزت و آبرو کو پامال کرنے پر راضی نھیں ھوتے۔

پس جو شخص دوسروں کے عیب بیان کرتا ھے، چاھے وہ جسمانی عیب ھوں یا عملی و اخلاقی یا مالی ھوں یا دینی و دنیاوی ھوں، وہ شخص دوسروں کو بے آبرو کرتا ھے اور ان کی ذلت وخواری کا باعث بنتا ھے، اوراپنے کو ایک بہت بڑے گناہ میں ملوث کرتا ھے اور قیامت کے درد ناک عذاب و رسوائی کا مستحق ھوتا ھے۔

حضرت امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیھما السلام سے روایت ھے :

”اٴَقْرَبُ ما یَکونُ العَبدُ اِلَی الکُفْرِ اٴَن یُواخِیَ الرَّجُلَ عَلَی الدِّینِ فَیُحْصِی عَلَیْہِ عَثَراتِہِ وَزَ لَّاتِہِ لِیُعَنِّفَہ بِہَا یَوماً مَا “[44]

”انسان کو سب سے زیادہ کفر سے نزدیک کرنے والی چیز یہ ھے کہ دینی بنیاد پر اپنے کسی برادر کی خطا و گناھوں کو شمار کرتا رھے تاکہ موقع آنے پر ان کے لحاظ سے اس کی ملامت و مذمت کرے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے روایت کی ھے کہ آنحضرت نے فرمایا:

”یَا مَعْشَرَ مَن اٴَسْلَمَ ِبلِسَانِہِ وَلَمْ یُخْلِصِ الإیمَانَ إِلَی قَلْبِہِ لَاتَذُمُّو الْمُسلِمِینَ وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِہِم ، فَإِنَّہُ مَنْ تَتَبَّعَ عَورَاتِہِم تَتَبَّعَ اللهُ عَوْرَتَہُ ،وَمَنْ تَتَبَّعَ الله تَعَالَی عَوْرَتَہُ یَفْضَحہُ وَلَوْ فِی بَیْتِہِ “[45]

”اے وہ گروہ! جنھوں نے فقط زبان سے اسلام قبول کیا ھے جبکہ ان کے دل ایمان سے خالی ھیں، مسلمانوں کی سرزنش نہ کرو اور ان کے عیوب کو تلاش نہ کرو، کیونکہ جو کوئی بھی ان کے عیوب کو تلاش کرے گا تو اس کے عیوب کو خدا تلاش کرے گا، اور جس کے عیوب کی تلاش خداوندعالم کرے اگرچہ وہ گھر ھی میں کیوں نہ ھو تو اس کو رسوا کردے گا“۔

گناہ سے متھم افراد کے ساتھ ھمنشینی

انسان پر صحبت کا اثر دوسری چیزوں کی نسبت زیادہ ھوتاھے۔ انسان کے وجود میں ھمنشینی اور صحبت کا اثر سب چیزوں سے زیادہ ھے؛ اسی وجہ سے قرآن مجید او رآئمہ معصومین علیھم السلام کی روایات میں دوست اور ھم صحبت کے انتخاب کے لئے انسان خصوصاً اھل ایمان کے لئے تاکید کی گئی ھے۔

ان تمام چیزوں کی واقعیت بیان کرنے نیز آیات و روایات کی توضیح و وضاحت کے لئے ایک الگ کتاب کی ضرورت ھے، کہ الحمد لله علماء اسلام نے اس سلسلہ میں بہت سی کتابیں لکھی ھیں۔

قرآن کریم و روایات معصومین علیھم السلام نے؛ لوگوں کوکفار، مشرک، فاسق و فاجر نیز یھود و نصاری بلکہ گناہ و معصیت سے متھم افراد کی دوستی سے منع فرمایا ھے، تاکہ ھم صحبت کے اخلاق اور شیطانی عقائد اس انسان میں موٴثر نہ ھونے پائیںاور اس کو رحمت الٰھی سے دور نہ کردیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:

” لَا یَنْبَغِی لِلْمُوٴْمِنِ اٴَنْ یَجْلِسَ مَجْلِساً یُعْصَی اللهُ فِیہِ وَلَایَقْدِرُ عَلَی تَغْیِیِرِہِ “[46]

”کسی بھی مومن کے لئے سزاوار نھیں ھے کہ ایسی جگہ جائے جھاں پر خدا کی نافرمانی ھوتی ھو اور اس کی اصلاح نہ کرسکتا ھو“۔

ابو ھاشم جعفری کہتے ھیں : حضرت امام رضا علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: تم کیوں عبد الرحمن بن یعقوب کے پاس اٹھتے بیٹھتے ھو؟ میں نے کھا کہ وہ میرے ماموں ھیں۔ تب امام علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ خدا کے بارے میں ناسزا اور غیر قابل قبول باتیں کہتا ھے، ”ایسی باتیں جو قرآنی آیات اور اھل بیت (علیھم السلام) کی تعلیمات سے ھم آھنگ نھیں ھیں“۔ خدا کو دوسری چیزوں کی طرح توصیف کرتا ھے۔ لہٰذا یا اس کے ساتھ ھم نشینی کرو یا پھر ھمیں چھوڑدو یا ، یا ھمارے ساتھ ھم نشینی کرو اور اس کو ترک کردو۔

میں نے عرض کیا: وہ کچھ بھی کھے ھمیں تو کوئی نقصان نھیں پھنچتا، جب میں اس کی بات کی تائید نھیں کرتا ھوں تو مجھ پر کوئی ذمہ داری نھیں ھے۔

تب امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا تمھیں اس بات کا خوف نھیں ھے کہ اس پر عذاب الٰھی نازل ھوجائے اور ساتھ میں تمھیں بھی لپیٹ لے!! کیا تم نے یہ واقعہ نھیں سنا کہ ایک شخص جناب موسیٰ (علیہ السلام) کے دوستوں میں سے تھا اور اس کا باپ فرعون کے دوستوں میں سے تھا، جس وقت فرعون کا لشکر دریاکے کنارے حضرت موسیٰ(ع) اور ان کے اصحاب کے پاس پھنچا وہ بیٹا جناب موسیٰ سے جدا ھوا تاکہ اپنے باپ کو نصیحت کرے، اور پھر پلٹ کر جناب موسیٰ(ع) کے ساتھ ھوجائے، لیکن اس کا باپ فرعون کے باطل راستہ پر چلتا رھا اور یہ بیٹا اسے دین کی باتیں بتا رھا تھا یھاں تک کہ دونوں دریا کے کنارے پھنچ گئے، اور دونوں غرق ھوگئے، چنانچہ جب جناب موسیٰ کو خبر ھوئی اس وقت انھوں نے فرمایا: اس پر خدا کی رحمت نازل ھورھی ھے ، لیکن جب عذاب آتا ھے جو شخص گناھگار کے پاس ھوتا ھے اس کا دفاع نھیں ھوسکتا۔[47]

” مَن کَانَ یُوٴْمِنُ بِاللهِ وَالْیُوٴْمِ الآخِرِ فَلَا یَقُومُ مَکَانَ رِیبَةٍ “[48]

”جو شخص خدا اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ھے اس کو چاہئے کہ مقام تھمت و شک سے دور رھے“۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ھوا ھے کہ آپ نے فرمایا:

” مَن قَعَدَ عِنْدَ سَبَّابٍ لِاٴَوْلِیَاءِ اللهِ فَقَدْ عَصَی اللهَ تَعَالَی “[49]

” جو شخص اولیاء اللہ کو گالی دینے والوں کے پاس بیٹھے بے شک وہ خدا کا نافرمان ھے“۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: اپنی دوستی کو اھل گناہ و معصیت سے کینہ و دشمنی کے ذریعہ ظاھر کرو، اور اس سے دور ھوکر خدا سے نزدیک ھوجاؤ اور خدا کی خوشنودی کو اس طرح کے لوگوں کی ناراضگی کے بدلے حاصل کرو۔ چنانچہ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کس کے ساتھ ھم نشینی کریں؟تو فرمایا: اس شخص کے ساتھ جس کو دیکھنے کے بعد خدا کی یاد آجائے، اور اس کی گفتگو تمھارے علم میں اضافہ کرے، اور تمھیں آخرت کی طرف رغبت دلائے۔[50]

جی ھاں ! تقویٰ اور پاکدامنی، ورع و زھد، صداقت و درستی، عبادت و خدمت جیسے پردے ؛ انسان اور عذاب خدا کے درمیان مانع ھوتے ھیں، اور یہ پردے اس وقت مستحکم ھوجاتے ھیں جب انسان شراب پینے، قمار بازی، دوسروں کے عیوب بیان کرنے اور متھم افراد سے ھم نشینی وغیرہ سے پرھیز کرے؛ لیکن اگر خدا نخواستہ شیطانی وسوسوں کا شکار ھو کر گناہ سرزد ھوجائے تو اس نے گویا ان پردوں اور حجابات کو پارہ پارہ کردیا ھے، اور بلا و مصیبت کے نازل ھونے کا راستہ ھموار کرلیا ھے۔

”اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُنْزِلُ النِّقَمَ “۔

” ان گناھوں کو بخش دے جو نزول عذاب کا باعث ھوتے ھیں“۔

جن گناھوں کے ذریعہ بلائیں نازل ھوتی ھیں:

حضرت امام سجاد علیہ السلام نے ایک اھم روایت میںنو گناھوں کو بلا نازل ھونے کا سبب قرار دیا ھے:

۱۔ بغی۔(حق کے مقابلہ میں سرپیچی کرنا)

۲۔ حقوق الناس کو پامال کرنا۔

۳۔ بندگان خدا کا مذاق اڑانا۔

۴۔ عھد و پیمان توڑدینا۔

۵۔ کھلم کھلا گناہ کرنا۔

۶۔ جھوٹی چیز مشھور کرنا۔

۷۔ حکم خدا کے بر خلاف قضاوت اور فیصلے کرنا۔

۸۔ زکوٰة ادا نہ کرنا۔

۹۔ ناپ و تول میں کمی کرنا۔[51]

بغی:

لفظ ”بغی“ لغت میں حق سے سر پیچی اور حدود الٰھی سے تجاوز، لوگوں پر ظلم وستم، معصیت و گناہ، فساد اور زنا کے معنی میں ھے، چنانچہ قرآن مجید اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے مروی روایات میں موجود ھے:

” اِٴنَّ قَارونَ کانَ مِن قَوْمِ موسَیٰ فَبَغَیٰ عَلَیْھِمْ ۔۔۔“[52]

”بیشک قارون ، موسیٰ کی قوم میں سے تھا مگر اس نے قوم پر ظلم کیا۔۔“۔

”وَلَوْبَسَطَ اللّہُ الرِّزْقَ لِعِبَادِہِ لَبَغَوْا فِی الاٴَرْضِ ۔۔۔۔“[53]

”اگر خدا تمام بندوں کے لئے رزق کو وسیع کردیتا تو یہ لوگ زمین میں بغاوت کردیتے۔۔“۔

”یا اٴُخْتَ ھارُونَ ما کاَنَ اٴَبُوکِ امْرَاٴَ سَوْءٍ وَمَا کانَتْ اٴُمُّکِ بَغِیّاً “[54]

”اے ھارون کی بھن نہ تمھارا باپ بُرا تھا اور نہ تمھاری ماں بد کار تھی “۔

حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ارشاد فرمایا:

” اِٴنَّ اٴَسْرَعَ الْخَیرِ ثَوَاباً البِرُّ وَاِٴنَّ اٴَسْرَعَ الشَرِّ عِقَاباً البَغیُ “[55]

”بے شک کہ سب سے جلدی ثواب ملنے والی نیکی ، دوسروں کے ساتھ نیکی و بخشش اور اچھائی کرنے والی نیکی ھے اور جلد بلا نازل ھونے والی برائی بھی دوسروں پر ظلم و ستم اور تجاوز ھے“۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

” سِتَّةٌ لاَتَکونُ فِی المُوٴْمِنِ:العُسْرُ وَ النَّکَدُ وَاللَّجَاجَةُ وَالکِذْبُ وَالحَسَدُ وَالبَغْیُ“(۳)

”مومن میں چھ برے صفات نھیں ھوتے، عجز ودر ماندگی، خساست و کم خیر ھونا، لجاجت اور سرسختی، جھوٹ، حسد اور دوسروں پر ظلم و تجاوز کرنا“۔

حقوق الناس کا پامال کرنا

خداوندرحمن و مھربان نے عوام الناس میں ایک دوسرے کے حقوق قرار دئے ھیں جن کو ادا کرنا لازم و ضروری ھے، اور ان سے تجاوز کرنا خدا کی معصیت اور سبب نزول بلا ھے۔

ماں باپ کا حق اولاد پر، اولاد کا حق ماں باپ پر، رشتہ داروں پر ایک دوسرے کے حقوق، پڑوسی کا حق، حکومت پر عوام الناس کا حق، عوام الناس کا حق حکومت پر، شوھر کا حق زوجہ پر، زوجہ کا حق شوھرپر، ماتحت افراد کا حق صاحب نعمت پر، فقیر کا حق مالدار پر، اور ان کے علاوہ قرآن مجید اور احادیث میں بیان شدہ دوسرے حقوق۔

حقوق کے سلسلہ میں سب سے کامل اور بہترین کتاب؛ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کا ”رسالہ حقوق“ ھے؛ چنانچہ اگر انسان اس رسالہ کا مطالعہ کرے تو حقوق کے سلسلہ میں بہترین معلومات حاصل ھوجائیں گی، جس کے بعد انسان ان حقوق کے ادا کرنے کی ذمہ داری محسوس کرتا ھے۔

ان حقوق سے تجاوز کرنا ایک مسلم گناہ اور یقینی معصیت ھے، اور اگر انسان ان کو ادا نہ کرے تو پھر عذاب و بلا ضروری اور یقینی ھیں۔

بندگان خدا کا مذاق اڑانا

بندگان خدا کا مذاق اڑانا ؛چاھے اس کی شکل و صورت کا مذاق بنائے یا اس کے فقر و غربت کا ، خواہ دینداری اور ایمان کے لحاظ سے ھو یا اس کے کام اور کاروبار کی وجہ سے یا کسی بھی دوسرے موقع و محل کی بنا پر؛ حقیقت میں ایک بہت بڑا گناہ اور عظیم معصیت ھے جس کی بنا پر دنیاوی اور اُخروی عذاب نازل ھوتا ھے۔

کسی کا مذاق اڑانا درحقیقت اس کی شخصیت کی توھین اور اس کو ذلیل و خوار کرنا ھے۔

قرآن مجید نے مذاق اڑانے والوں کو منافق، ستمگر اور مفسد کے نام سے یاد کیا ھے اور ان کو دردناک عذاب کا مستحق قرار دیا ھے:

” وَإِذَا لَقُوا الَّذِینَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَی شَیَاطِینِہِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَکُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِئُونَ“[56]

”جب یہ صاحبان ایمان سے ملتے ھیں تو کہتے ھیں کہ ایمان لے آئے اور جب اپنے شیاطین کی خلوتوں میں جاتے ھیں تو کہتے ھیں کہ ھم تمھاری ھی پارٹی میں ھیں ھم تو صرف صاحبان ایمان کا مذاق اڑاتے ھیں۔ “

حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا کہ خداوندعالم فرماتا ھے:

” مَن اٴَہَانَ لِی وَلِیّاً فَقَد اٴَرْصَدَ لِمُحَارَبَتِی “[57]

”جو شخص میرے دوستوں کی توھین کرے تو اس نے میرے ساتھ جنگ کی تیاری کی ھے!!“

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

جس وقت قیامت برپا ھوگی، ایک آواز آئے گی: میرے دوستوں سے منھ پھیرنے والے کھاں ھیں؟ اس آواز کو سن کر کچھ لوگوں کا گروہ ظاھر ھوگا جن کے چھروں پر گوشت نھیں ھوگا۔ اس وقت کھا جائے گا : یہ وہ لوگ ھیں جنھوں نے اھل ایمان کو تکلیف پھنچائی ھے ،ان سے دشمنی کی ھے، ان سے بغض و عناد کیا ھے اور ان کے سامنے سختی اور شدت کے ساتھ ان کے دین میں سرزنش و ملامت کی ھے۔ اور اس کے بعدان کو دوزخ میں لے جانے کا حکم دیا جائے گا۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا کہ خداوندعالم کا فرمان ھے:

” قَد نَابَذَنِی مَن اٴَذَلَّ عَبدِی المُوٴْمِنَ “ [58]

جو شخص میرے مومن بندہ کو ذلیل کرے وہ کھلم کھلا مجھ سے جنگ کے لئے میدان میں نکل آیا ھے!!“

جی ھاں، لوگوں کا مذاق اڑانا، ان کا مسخرہ کرنا ؛ در حقیقت ان کی توھین کرنا اور ان کو روحی تکلیف دینا اور ذلیل کرنا ھے۔

قرآن مجید نے عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کا مسخرہ کرنے سے منع کیا ھے، اور اگر مسخرہ کرنے والے اپنے اس برے کام سے توبہ نہ کریں تو ان کو ستمگر شمار کیا ھے[59]

عھد و پیمان توڑنا

عھد و پیمان اور ان کو وفاکرنا ، واقعاً دو اخلاقی اور انسانی صفات ھیں، قرآن مجید اور روایات معصومین علیھم السلام میں جن پر توجہ دی ھے، اور عھد وپیمان کو توڑنا گناہ و معصیت شمار کیا گیا ھے۔

عھد و پیمان اور ان کو وفا کرنے کے سلسلہ میں کوئی فرق نھیں ھے کہ وہ عھد و پیمان خدا یا پیغمبر یا امام(ع) کے ساتھ ھو یا عوام الناس کے ساتھ، اور وہ عھد و پیمان جو راہ عبادت، خدمت عوام، یا کاروبار و تجارت یا دوسرے کاموں میں کیا گیا ھو، تو اس پر وفا کرنا واجب شرعی اور اخلاقی ھے، اور ان کا توڑنا حرام اور عذاب خدا کا باعث ھے۔

ارشاد خداوندعالم ھوتا ھے:

”وَاٴَوْفُو ا بِعَھْدِ اللّٰہِ اِٴذَا عَاھَدتُمْ۔۔۔“[60]

”اور جب کوئی عھد کرو تو اللہ کے عھد کو پورا کرو“۔

” الَّذِینَ یَنقُضُونَ عَہْدَ اللهِ مِنْ بَعْدِ مِیثَاقِہِ وَیَقْطَعُونَ مَا اٴَمَرَ اللهُ بِہِ اٴَنْ یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الْاٴَرْضِ اٴُوْلَئِکَ ہُمْ الْخَاسِرُونَ“[61]

”جو خدا کے ساتھ مضبوط عھد کرنے کے بعد بھی اسے توڑ دیتے ھیں اور جسے خدا نے جوڑنے کا حکم دیا ھے اسے کاٹ دیتے ھیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ھیں یھی وہ لوگ ھیں جو حقیقتاً خسارہ والے ھیں “۔

”وَاٴَوْفُوا بِالْعَھْدِ اٴِنَّ الْعَھْدَ کاَنَ مَسْئُولاً “[62]

”اور اپنے عھدوں کو پورا کرنا کہ عھد کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔

”یَااٴَ یُّھَا الَّذِیْنَ ء امَنُوا اٴَوْفُوا بِالْعُقُودِ۔۔۔“[63]

”ایمان لانے والو!اپنے عھدو پیمان اور معاملات کی پابندی کرو“۔

حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:

” ثَلٰثٌ مَن کُنَّ فِیْہِ کَانَ مُنَافِقاً وَاِٴنْ صَامَ وَصَلَّی وَزَعَمَ اٴَنَّہُ مُسْلِمٌ :مَنْ إِذَا ائْتُمِنَ خَانَ،وَإِذَا حَدَّثَ کَذِبَ ، وَإِذَاوَعَدَ اٴَخْلَفَ۔“[64]

جس شخص میں تین صفات پائے جائیں وہ منافق ھے،(اگرچہ وہ نماز پڑھتا ھو روزہ رکھتا ھو اور خود کو مسلمان جانتا ھو): اگر اس کو کوئی امانت دی جائے تو وہ اس میں خیانت کرے، اور جب کوئی گفتگو کرے تو اس میں جھوٹ بولے، اور جب کوئی وعدہ کرے تو وفا نہ کرے“۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

” مَن عَامَلَ النَّاسَ وَلَمْ یَظْلِمْہُم ،وَحَدَّثَہُم فَلَمْ یَکْذِبْہُمْ وََوَعَدَھُمْ فَلَمْ یُخْلِفْہُمْ ،فَہُوَ مِمَّن کَمُلَتْ مُرُوءَ تُہُ وَحُرِّمَتْ غِیْبَتُہُ وَظَہَرَ عَدْلُہُ وَوَجَبَتْ اٴُخُوَّتُہُ “[65]

”جو کوئی شخص اپنی رفتار میں لوگوں پر ستم نہ کرے اور گفتگو کے وقت جھوٹ نہ بولے، اور اپنے کئے ھوئے وعدوں کی خلاف ورزی نہ کرے، (تو وہ) ان لوگوں میں سے ھے جس کی مروّت کامل ھے اور جس کی غیبت حرام اور جس کی عدالت واضح ھے اور ایسے شخص کو اپنا دینی برادر سمجھنا چاہئے“۔

کھلم کھلا گناہ کرنا

قرآن مجید نے لوگوں کو برے کاموں اور آشکار و مخفی طریقہ سے گناہ کرنے سے منع کیا ھے۔[66]

کھلم کھلا سب کے سامنے معصیت و گناہ کرنا ، گناھگار کی انتھائی بے شرمی و بے حیائی کی دلیل ھے نیز قوانین اور اسلامی معاشرہ کی بے احترامی و بے ادبی ھے۔

اسلام معاشرہ کے ماحول کا آلودہ ھونا پسند نھیں کرتا، اور جو لوگ اسلامی معاشرہ کو گناہ و فساد سے آلودہ کرتے ھیں ، اسلام نے ان کے لئے سزا اور تعزیرات معین کی ھیں۔

دلسوز و آگاہ مومنین خصوصاً اسلامی حکومت کے کار گزاروں پر واجب ھے کہ ھر بدکار کی بدکاری، ھر خطا کار کی خطا اور بے شرمی کی ممکن صورت میں روک تھام کریں، تاکہ گناہ کے خطرناک جراثیم عوام الناس خصوصاً جوانوںمیں نہ پھیلنے پائیں۔امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا وجوب اسی وجہ سے ھے کہ معاشرہ سے گناہ کی خطرناک برائیاں ختم ھوجائیں۔

اگر مدارس اور گھر دونوں مل کر جوان طبقہ کی اسلامی طریقہ سے پرورش کریں ، تاکہ وہ ان کے لئے ایک ثابت اور قائم صفت بن جائے، تاکہ خلوت اور جلوت (ظاھر و مخفی جگہ میں)انسان برائیوں سے پاک رھے۔

حیا ، خدا پر توجہ اور گناہ کے سر انجام پر غور و فکر کرنا، گناہ و معصیت سے بہترین روکنے والی چیزیں ھیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ھے :

” اَلْحَیَاءُ مِنَ الإِیمَانِ وَالإِیمَانُ فِی الجَنَّةِ “[67]

”حیا ایمان سے ھے اورایمان جنت میں ھے“۔

حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے کہ خدا سے حیا کرو اور حق حیا کی رعایت کرو۔ سوال کیا گیا کہ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کس طرح؟ تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص شب نہ بسر کرے ، مگر یہ کہ اپنی موت کو اپنی دو آنکھوں کے سامنے دیکھے؛ اپنی آنکھ، کان اور زبان کو حرام سے محفوظ رکھے، اور اپنے پیٹ کو مال حرام سے محفوظ رکھے؛ قبر اور اس میں اپنے بدن کے خاک میں ملنے کو یاد رکھے۔ اور جو شخص آخرت کو چاہتا ھے اس کو چاہئے کہ فریب کار دنیاوی زرو زینت سے پرھیز کرے۔[68]

ایک شخص نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے کوئی نصیحت فرمائیے، تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:

” إِسْتَحْیِ مِنَ اللَّہِ کَمَا تَسْتَحْیِی مِنَ الرَّجُلِ الصَّالِحِ مِن قَوْمِکَ “[69]

”خدا سے حیا (و شرم) کرو جیسا کہ اپنی قوم کے شائستہ اور صالح انسان سے حیا کرتے ھو“۔

ایک با ایمان عورت کی حیا اور خوف

حضرت امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: ایک شخص اپنے گھر والوں کے ساتھ دریا کا سفر کررھا تھا۔ اتفاق سے کشتی ڈوبنے لگی اور اس شخص کی زوجہ کے علاوہ تمام لوگ دریا میں ڈوب گئے۔ اور وہ بھی ایسے کہ وہ عورت ایک تختہ پر بیٹھ گئی اور اس دریا کے ایک جزیرہ پر پھنچ گئی۔

اس جزیرہ میں ایک چور رہتا تھاجس نے حرمت خدا کے تمام پردوں کو چاک کررکھا تھا، ناگاہ اس نے دیکھا کہ وہ عورت اس کے پاس کھڑی ھے، اس نے سوال کیا کہ توانسان ھے یا جن؟ اس نے کھا انسان ھوں۔ چنانچہ وہ چور بغیر کچھ بولے ھی اس عورت کی بغل میںاس طرح بیٹھا کہ جس طرح مرد اپنی زوجہ کے پاس بیٹھتا ھے، اور جب اس نے اس عورت کی عزت پر ھاتھ ڈالنا چاھا تو وہ عورت لرز گئی۔ اس چور نے کھا تو ڈر کیوں گئی پریشان کیوں ھوگئی؟ وہ عورت بولی کہ اس سے ڈرتی ھوں، اور آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ اس چور نے کھا کہ کبھی اس طرح کا کام انجام دیا ھے تو اس عورت نے کھا: نھیں، بخدا ھرگز نھیں۔اس شخص نے کھا: تو خدا سے اس قدر خوف زدہ ھے حالانکہ تو نے ایسا کام نھیں کیا ھے اور میں جب کہ تم کو اس کام پر مجبور کررھا ھوں، خدا کی قسم، مجھے تو تجھ سے کھیں زیادہ خدا سے ڈرنا چاہئے۔ اس کے بعد وھاں سے اٹھا اور اپنے گھر چلا گیا، اور ھمیشہ توبہ و استغفار کی فکر میں رھنے لگا۔

ایک روز راستہ میں ایک راھب سے ملاقات ھوئی ، دو پھر کا وقت تھا ، چنانچہ اس راھب نے اس شخص سے کھا: دعا کرو کہ خدا ھمارے اوپر بادلوں کے ذریعہ سایہ کردے کیونکہ شدت کی گرمی پڑرھی ھے، تو اس جوان نے کھا کہ میں نے کوئی نیکی نھیں کی ھے اور خدا کی بارگاہ میں میری کوئی عزت و آبرو نھیں کہ میں اس سے اس طرح کا سوال کروں۔ اس وقت راھب نے کھا: تو پھر میں دعا کرتا ھوں اور تم آمین کھنا۔ اس جوان نے کھا: یہ ٹھیک ھے۔ چنانچہ راھب نے دعا کی اور اس جوان نے آمین کھی، اور دیکھتے ھی دیکھتے بادلوں نے ان دونوں پر سایہ کردیا، دونوں راستہ چلتے رھے یھاں تک کہ ان کا راستہ الگ الگ ھونے لگا،دونوں نے اپنے اپنے راستہ کو اختیار کیا، تو بادل اس جوان کے ساتھ ساتھ چلنے لگا!

چنانچہ یہ دیکھ کر اس راھب نے کھا: تو تو مجھ سے بہتر ھے، تیری ھی وجہ سے دعا قبول ھوئی ھے، نہ کہ میری وجہ سے، اور کھا کہ تم اپنے حالات بتاؤ۔ چنانچہ اس نے اس عورت کا واقعہ بیان کیا۔ تب راھب نے کھا: چونکہ خوف خدا تیرے دل میں پیدا ھوگیا تو خدا نے تیرے گناہ بخش دئے، لہٰذا آئندہ گناھوں سے پرھیز کرنا۔[70]

جھوٹ:

حضرت رسول خدا ، امام صادق و امام رضا علیھم السلام نے جھوٹ کو گناھان کبیرہ بلکہ بزرگترین گناھان کبیرہ میں شمار کیا ھے[71]

سب سے بڑا جھوٹ انسان کا؛ خدا و رسول اور ائمہ علیھم السلام اور آسمانی کتابوں پر جھوٹ باندھنا ھے، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ گمراہ ھوجاتے ھیں۔

ھمیشہ دنیائے کفر و شرک کے حکمراںاپنے سفید جھوٹ اور تھمتوں کو علم اور فلسفہ کے عنوان سے بیان کرکے بہت سے لوگوں کو دین، ایمان اور انبیاء و روز قیامت سے گمراہ کرتے رہتے ھیں۔

یہ خناس اور بھانہ باز شیاطین، ایک نیا دین بنانے والے نیز وسوسہ ایجاد کرنے والے مکار یا حق و حقیقت سے دور امور کو ایک دوسرے سے ملاکر بہت سے لوگوں کی ھدایت ایمان اور صراط مستقیم میں مانع ھوتے تھے۔

یہ لوگ اپنے جھوٹ اور تھمتوں کے ذریعہ عوام الناس کے سامنے ھر باطل کو حق اور ھر حق و حقیقت کو باطل کی صورت میں پیش کیا کرتے تھے۔

انھوں نے ھمیشہ آسمانی کتابوں کی تکذیب کی ھے اور آسمانی کتابوں کو خدا کی طرف سے ھونے کو انکار کیا ھے، اور الٰھی نشانیوں کا ھر ممکن صورت میں مقابلہ کیا ھے اور لوگوں میں اس بات کا پروپیگنڈا کیا ھے کہ کوئی بھی چیز خدا کی طرف سے نازل نھیں ھوئی ھے۔!![72]

ان لوگوں نے انسانوں کو فیض ھدایت سے دور کرنے اور آخرت کی سعادت و خوشبختی سے دور کرنے کے لئے تمام انبیاء علیھم السلام پر تھمتیں لگائیں اور ان سچے لوگوں پر جھوٹ و افترا باندھا ھے، وہ ان صاحبان عقل و بصیرت کو جادوگر شمار کیا کرتے تھے، اور ان انبیاء کرام (جو ھر لحاظ سے صحیح و سالم ھوتے تھے)؛ کو دیوانہ اور مجنون کہہ دیتے تھے!!

یہ لوگ کسی بھی طرح کے جھوٹ بولنے سے پرھیز نھیں کرتے تھے اور اپنی کارستانیوں کے ذریعہ حق و حقیقت کے معنی میں تحریف کیا کرتے تھے،یھاں تک کہ توریت و انجیل اور زبور میں بھی تحریف کر ڈالی، اور ان ھدایت کی کتابوں کو کفر و شرک اور گمراھی میں تبدیل کرڈالا، اور اگر ان میں اس قدر طاقت ھوتی اور خداوندعالم محافظ و نگھبان نہ ھوتا تو یہ لوگ دوسری آسمانی کتابوں کی طرح قرآن کریم میں بھی تحریف کرڈالتے۔

ان لوگوں نے عوام الناس کو گمراہ کرنے کے لئے آیات کی تحریف میں ذرا بھی شرم و حیا سے کام نہ لیا، اور نہ ھی اس کے خطرناک انجام سے خوف زدہ ھوئے، اور نہ ھی روز قیامت کے درد ناک عذاب سے ھراساں ھوئے۔

ان لوگوں نے سقیفہ کی حکومت کی بنیاد مستحکم کرنے ، عوام الناس پر بنی امیہ و بنی عباس کی حکمرانی قائم کرنے ، ان کو حق کے راستہ کو منحرف کرنے اور اھل بیت علیھم السلام کو خانہ نشین کرکے لوگوں کو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے حقیقی خلفاء کی راھنمائی و ھدایت سے دور کرنے کے لئے حدیث گھڑنے کا ایک بہت بڑا کارخانہ بنایا اور تقریباً دس لاکھ جھوٹی حدیثیں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی طرف منسوب کردیں، اور بنی امیہ و بنی عباس کے مال و زر اور طاقت کی بنا پر ان تمام جھوٹی حدیثوں کو اسلامی ثقافت کے عنوان سے امت اسلامی کے سامنے پیش کیا ھے، کہ اگر ائمہ علیھم السلام خصوصاً حضرت امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیھما السلام نے اپنے علم کا مظاھرہ نہ کیا ھوتا نیز ائمہ علیھم السلام کے تربیت یافتہ شاگرد اور علماء کرام فقھاء عظام نہ ھوتے تو واقعاً آج شیعہ بھی بنی امیہ و بنی عباس کے کارخانہ کی جعلی احادیث کو قبول کرنے پر مجبور ھوجاتے۔

لیکن حق و باطل کی تمیز کرنے کے لئے ائمہ معصومین علیھم السلام نے اصحاب و فقھاء کرام کو تعلیم کردہ مسائل کے ذریعہ رسول اکرم کی طرف منسوب جھوٹی احادیث سے محفوظ رکھا،جس کے نتیجہ میں حقیقی اسلام ؛ائمہ معصومین علیھم السلام کے ذریعہ اور شیعہ علماء کی زحمت و مشقت کے ذریعہ خیانت کاروں کی خیانت سے محفوظ رھا تاکہ تا قیام قیامت لوگوں پر خدا کی حجت تمام ھوجائے اورکل روز قیامت یہ نہ کہہ سکےں کہ ھمیں تو حقیقی اسلام کا پتہ ھی نھیں چل سکا۔

ان جھوٹے اور خیانت کار لوگوںچاھے جس روپ میں بھی ھوں تقریباً ان دو صدیوں میں ایشیاء، یورپ اور امریکہ میں مختلف علوم، سیاست اور دوسرے مادی و معنوی مسائل میں ہزار وں دلفریب جھوٹ مختلف معاشروں میں رائج کردئے۔ اور اپنے اس کام سے لاکھوں انسانوں کو مختلف مسائل میں دھوکے میں ڈال دیا، اور جھوٹے و دلفریب اور جوانوں کی من پسند نعروں کے ذریعہ لوگوں کو گمراہ کر ڈالااور لاکھوں لوگوں کو کیمونسٹ "communiste" اور بے دین بنادیا ھے، نیز دوسرے سبھی لوگوں کو حیران و پریشان کرڈالا ھے، ان لوگوں کے نعرے کچھ اس طرح ھیں: دین ملتوں کا افیون ھے، متمدن انسان کی حکومت کامیاب اور غالب ھے، سائنس تمام مشکلات کا حل کرنے والا ھے، جمھوریت، آزادی، نیک او رصالحین کی حکومت کے بجائے جمھوری حکومت، مدنی اور لیبرل معاشرہ وجود میں آیا۔

خلاصہ یہ ھے کہ اکثر لوگوں کو حق و حقیقت کے راستہ سے بھٹکادیا ھے، اور ھر ملک میں رھنے والے مومنین پر ظلم وستم کرایا جارھا ھے، جس کے نتیجہ میں دنیا بھر میں فسادات اور ظلم وستم کا دور دورہ ھے۔

قارئین کرام! یہ قرآن مجید جو حق و حقیقت، نور و ھدایت اور شفا وروشنی کی بہترین کتاب ھے ذرا درج ذیل آیات پر توجہ کیجئے:

ارشاد رب العزت ھوتا ھے:

”فَنَجْعَل لَعْنَةَ اللّہِ عَلَی الْکاَذِبِیْنَ“[73]

”اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں“۔

نیز ارشاد ھوتا ھے:

”اٴِنَّ اللّہَ لا یَھْدِی مَنْ ھُوَ کاَذِبٌ کُفَّارٌ “[74]

”بیشک اللہ کسی جھوٹے اور ناشکری کرنے والے کو ھدایت نھیں دیتا “۔

قارئین کرام! پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) و اھل بیت علیھم السلام کی اعلیٰ تعلیمات میں جھوٹ سے پرھیز پر کس قدر زور دیا گیا ھے جھوٹ چاھے چھوٹا ھو یا بڑا، مادی مسائل میں ھو یا معنوی مسائل میں۔ چنانچہ درج ذیل کو ملاحظہ فرمائیں۔

حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اپنے اصحاب کو مخاطب کرکے ارشاد فرماتے ھیں:

” اٴَلاَاٴُنَبِّئُکُمْ بِاٴَکْبَرِالکَبَائِرِ؟ قُلْنَا :بَلَی یَارَسُوْلَ اللهِ۔ قَال :الإشْرَاکُ بِاللهِ،وَعُقُوقُ الوَالِدَیْنِ وَکَانَ مُتَّکِئاً فَجَلَسَ ثُمَّ قَالَ:اٴَلاَوَقَوْلُ الزّور۔۔۔ “[75]

”کیا تم لوگوں کو گناھان کبیرہ میں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ھم نے کھا: جی ھاں یا رسول اللہ، تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: خدا کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کے ساتھ بُرا سلوک کرنا ( یہ اس وقت فرمایا جب )آنحضرت اس وقت تکیہ لگائے تھے اس کے بعد بیٹھ جاتے ھیں اور فرماتے ھیں: اے لوگو! جھوٹ سے پرھیز کرو۔۔۔“۔

نیز آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ارشاد فرمایا:

” شَرُّ الرِّوَایَةِ روایَةُ الکِذبِ “[76]

” جھوٹ پر مبنی بدترین گفتگو ھے“۔

” اٴَقَلُّ النَّاسِ مُرُوَّةً مَن کاَنَ کاَذِباً “[77]

”جھوٹے انسان کی مروت تمام لوگوں سے کم ھے“۔

حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے سوال کیا گیا کہ کیا ڈرنے والا مومن ھوسکتا ھے؟ آپ نے فرمایا: جی، کھا کیا بخیل مومن ھوسکتا ھے؟ کھا:ھاں، سوال کیا گیا کہ کیا جھوٹ بولنے والا بھی مومن ھوسکتا ھے، تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: نھیں؟[78]

حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:

” لَایَجِدُ عَبدٌ طَعْمَ الإِیمَانِ حَتَّی یَتْرُکَ الکِذْبَ ہَزلَہُ وَجِدَّہُ “[79]

”جب تک انسان جھوٹ بولنا نھیں چھوڑے گا چاھے حقیقت میں جھوٹ ھو یا مذاق میں ھو، اس وقت تک ایمان کا مزہ نھیں چکھ سکتا“۔

ایضاً حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:

” لاَسُوءَ اٴَسْوَءُ مِنَ الکِذْبِ “[80]

”جھوٹ سے بڑھ کر کوئی برائی نھیں ھے“۔

نیز آپ نے فرمایا:

” اٴَلصِّدقُ اٴَمَانَةٌ وَالکِذْبُ خِیَانَةٌ “[81]

”سچ بولنا؛ امانت داری ھے اور جھوٹ بولنا خیانت ھے“۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

خداوندعالم نے برائیوں کے لئے کچھ تالے معین کئے ھیں جن کی کنجی شراب کو قرار دیا ھے اور جھوٹ شراب سے بھی بدتر ھے۔!![82]

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ پروردگار میں عرض کیا: پالنے والے تیرے بندوں میں عمل و کردار کے لحاظ سے کون بہتر ھے؟ آواز آئی: جو شخص جھوٹ نہ بولے، جس کا دل حق سے منحرف نہ ھو اور زنا نہ کرے۔[83]

دینی کتابوں میں بیان ھوا ھے: جھوٹ بولنے والا فاسق ھے۔ جھوٹے پر فرشتے لعنت کرتے ھیں۔جھوٹ بولنے والے کے منھ سے بد بو آتی ھے۔ جھوٹا بے ایمان ھوتا ھے۔ جھوٹ بولنے والے شخص پر خدا کا قھر و غضب نازل ھوتا ھے۔ جھوٹ بولنے والے شخص کا منھ کالا ھے۔ جھوٹ بولنے والا فاجر ھے۔ جھوٹ بولنے والا منافق ھے۔ جھوٹا بہت بڑا گناھگار ھے۔ جھوٹ بولنے والا دوستی اور مصاحبت کے لائق نھیں ھے۔ جھوٹا شخص ھدایت سے محروم ھوتا ھے۔ جھوٹ بولنے والا؛ انسان کی صورت میں حرام گوشت جانور کی سیرت میں ھوتا ھے۔!!

حکم خدا کے برخلاف فیصلہ کرنا

جن گناھوں کے سبب بلا و عقوبت نازل ھوتی ھے ان میں سے قاضی کا حکم خدا کے برخلاف فیصلہ کرنا ھے۔

اگر قاضی حکم خدا کو جانتا ھے لیکن فیصلہ کرتے وقت حکم خدا کو جاری نہ کرے اوراپنی مرضی کے مطابق حکم کرے یا غیر شرعی حکومت کے خود ساختہ قوانین کے مطابق حکم کرے تو ایسا قاضی (یا فیصلہ کرنے والا)قرآن مجید کی نظر میں کافر، ستمگر اور فاسق ھے۔[84] کافر ھونے کی وجہ یہ ھے کہ اس نے حکم خدا کو نادیدہ قرار دیا ھے، ستمگر ھونے کا سبب یہ ھے کہ اس نے اپنے حکم کی بنا پر صاحب حق کو اپنے حق سے محروم کردیا ھے۔ اور فاسق اس وجہ سے ھے کہ اپنے اس بیجا حکم دینے سے ایمان و انسانیت کے دائرہ سے باھر نکل کیا گیا ھے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: جس شخص نے دودرھم کے بارے میں (بھی) حکم خدا کے بر خلاف فیصلہ کیا ھے گویا اس نے خداوندعالم کا انکار کیا ھے، (اور کافر ھوگیا ھے۔)[85]

زکوٰة ادا نہ کرنا

قرآن مجید کی آیات اور روایات کے مطابق غلہ، چوپائے اور سونے چاندی کے رائج سکہ پر زکوٰة واجب ھے، اور زکوٰة نہ ادا کرنا گناھان کبیرہ میں سے اور غضب پروردگار کا باعث ھے۔

قرآن کریم میں جھاں جھاں بھی نماز کا ذکر آیا ھے اکثر مقامات پر اس کے ساتھ ساتھ زکوٰة کا ذکر بھی آیا ھے، اور نماز کے فوراً بعد زکوٰة کا ذکر ھونا اس حقیقت کی اھمیت پر واضح دلیل ھے۔

زکوٰة کاانکار کرتے ھوئے اور حکم خدا کو ردّ کرتے ھوئے ادا نہ کرنا اھل بیت علیھم السلام کی احادیث کی بنا پر نماز اور حج کا ترک کرنے والا کافر ھے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ایک بہت اھم حدیث میں زکوٰة کے فلسفہ کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

”۔۔۔ زکوٰة مالداروں کو آزمانے اور غریبوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے واجب ھے، اگر (تمام)

مسلمان اپنے مال کی زکوٰة ادا کرتے رھیں تو پھر معاشرہ میں کوئی غریب و محتاج نھیں ملے گا، اوراس پر خدا کے مقرر کردہ حق کی بنا پر بے نیاز ھوجائیں گے۔

عوام الناس ھاتھ خالی ، غریب اور بھوکے ننگے نھیں ملیں گے مگر مالداروں کے زکوٰة اور غریبوں کا حق نہ ادا کرنے کی وجہ سے۔

معاشرہ میں غریب، محتاج اور فقیر لوگوں کا وجود ؛مالداروں کا زکوٰةاور غریبوں کے حقوق ادا نہ کرنے کی وجہ سے پایا جائے گا، اگر کوئی شخص خدا کے عطا کردہ مال سے خدا کا حق ادا نہ کرے تو ایسا شخص رحمت خدا کا مستحق نھیں ھے۔ خدا کی قسم دریا یا جنگل میں کوئی مال برباد نھیں ھوتا مگر زکوٰة نہ ادا کرنے کی وجہ سے۔[86]

حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا مسجد النبوی میں اپنے تاریخ ساز خطبہ میں جس وقت آپ اپنے زمانہ کی حکومت کو قرآنی آیات اور سنت نبوی کے ذریعہ ملامت کررھی تھیں، فرمایا:

” فَجَعَلَ اللهُ الِایمَانَ تَطھیراً لَکُمْ مِنَ الشِّرْکِ ،وَالصَّلاةَ تَنْزِیْھاً لَکُمْ عَنِ الکِبْرِ، وَالزَّکاَةَ تَزْکِیْةً للنَّفْسِ“[87]

”خداوندعالم نے تمھارے لئے ایمان کو شرک و آلودگی سے پاک ھونے کا وسیلہ قرار دیا ھے، اور نماز کو اس لئے واجب کیا تاکہ تمھےں تکبر سے رھائی مل جائے، اور زکوٰة کو اس لئے واجب قرار دیا تاکہ تم بخل سے پاک ھوجاؤ“۔

حضرت امام رضا علیہ السلام نے اپنے خادم سے فرمایا: کیا تم نے آج راہ خدا میں کوئی چیز دی ھے؟ تو اس نے کھا: نھیں۔ تو آپ نے فرمایا: تو پھر خداوندعالم کس طرح ھم کو بدلہ عنایت فرمائے گا۔[88]

کم تولنا و کم ناپنا

کسی بھی چیز میں خریدار کے لئے کم تولنا یا کم ناپنایا کسی بھی چیز کو کم دینا ؛قرآنی آیات اور روایات معصومین علیھم السلام کی بنا پر حرام او رگناھان کبیرہ میں سے ھے۔!

قرآن مجید کے ایک سو چودہ سورہ میں سے ایک سورہ اسی سلسلہ میں نازل ھوا ھے اس سورہ کے شروع کی چند آیتوں میں اس گناہ عظیم اور خیانت وعذاب کے بارے میں اشارہ ھوا ھے:

”وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِیْنَ. الَّذِیْنَ اِٴذَا اکْتَالُوا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُونَ. وَاٴِذَا کالُوھُمْ اٴَو وَزَنُوھُمْ یُخْسِرونَ .اٴَلٰا یَظُنُّ اٴُولئِکَ اَنَّھُمْ مَبْعُوثونَ . لِیَوْمٍ عَظیمٍ .یَوْمَ یَقومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمینَ .کَلَّا اِٴنَّ کِتابَ الْفُجَّارِ لَفِی سِجِّینٍ“[89]

”ویل ھے ان کے لئے جو ناپ تول میں کمی کرنے والے ھیں ۔یہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ھیں تو پورا مال لیتے ھیں ۔اور جب ان کے لئے ناپتے ھیں یا تولیتے ھیں تو کم کردیتے ھیں ۔کیا انھیں یہ خیال نھیں ھے کہ ایک روز دوبارہ اٹھائے جانے والے ھیں۔ بڑے سخت دن میں ۔جس دن سب رب العالمین کی بارگاہ میں حاضر ھوں گے۔یاد رکھو کہ بد کاروں کا نامہٴ اعمال سجین میںھوگا “۔

حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ارشاد فرمایا: جو شخص ناپنے یا تولنے میں خیانت کرے ، کل روز قیامت اس کو قعر دوزخ میں لایا جائے گا اور آگ کے دو پھاڑوں کے درمیان اس کو ڈالا جائے گا، اور اس سے کھا جائے گا: ان دونوں (آگ کے) پھاڑوں کو تولتا رہ، اور وہ ھمیشہ اسی کام میں مشغول رھے گا۔[90]

عظیم الشان تفسیر ”منہج الصادقین“ میں سورہ مطففین کی آیات کے ذیل میں حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے درج ذیل حدیث بیان کی ھے، ملاحظہ فرمائیں:حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ارشاد فرمایاکرتے تھے: پانچ چیزیں پانچ چیزوں کے مقابلہ میں ھےں۔ لوگوں نے سوال کیا: یا رسول اللہ (ص)! وہ کون سی چیزیں ھیں؟ تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فر مایا: جب بھی کسی قوم نے اپنے عھد و پیمان کو توڑاتو ان پر دشمن مسلط ھوگئے، اور زنا جیسی برائی انجام دینے سے ان کے درمیان موت زیادہ ھونے لگی، جھوٹ اور حکم خدا کے برخلاف فیصلہ کرنے سے ان کے درمیان فقر وفاقہ اور غربت پیدا ھوگئی، زکوٰة نہ ادا کرنے سے باران رحمت نازل نہ ھوئی، اور کم تولنے وکم ناپنے پر پھلوں میں کمی آگئی اور خشک سالی میں گرفتار ھوگئے۔

” اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُغَیِّرُالنِّعَمَ“۔

”ا ن گناھوں کو بخش دے جو نعمتوں کو متغیر کر دیا کرتے ھیں “۔

جن گناھوں کے سبب نعمتیں بدل جاتی ھیں:

جن گناھوں کے سبب نعمتیں بدل جاتی ھیں اور ان کے بجائے بلاء ، مصیبت، مشکلات اور سختی وعذاب آجاتے ھیں حضرت امام سجاد علیہ السلام کے فرمان کے مطابق پانچ گناہ ھیں:

۱۔ عوام الناس پرظلم و ستم۔

۲۔ کار خیر کی عادت کو ترک کردینا۔

۳۔ نیک کام کرنے سے دوری اختیار کرنا۔

۴۔ کفران نعمت۔

۵۔ شکر الٰھی کو ترک کرنا۔

عوام الناس پرظلم و ستم

عوام الناس پرظلم و ستم روا رکھنا بہت بڑا گناہ اور شیطانی کام ھے۔ ظلم و ستم اگرچہ ایک دانہ کے برابر بھی ھو توبھی بُرا ھے ، اور قیامت میں ذرہ برابر بھی ظلم کا حساب کیا جائے گا۔

”۔۔۔وَاِٴن کاَنَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِن خَرْدَلٍ اٴَتَیْنا بِھا وَکَفَیٰ بِنا حَاسِبینَ “[91]

”اور کسی کا عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ھے تو ھم اسے لے آئیں گے اور ھم سب کا حساب کرنے کے لئے کافی ھیں “۔

کار خیر کی عادت کو ترک کردینا

خداوندعالم کی توفیق سے انسان میں نیک کام کرنے کی عادت پیدا ھوجاتی ھے، جن کے سبب رحمت الٰھی کے دروازے کھل جاتے ھیں۔ خداوندعالم کی عطا کردہ ان عظیم الشان نعمتوں سے جو انسان کے وجود کو گھیرے ھوئے ھے اور انسان کی حفاظت کرتی ھےں جن کو خناس ، شیاطین اور انسانی اقدار کو ختم کرنے والے انسان اس سے اس اچھی خصلت کونہ چھین لیں۔

معرفت حاصل کرنے کی عادت، تواضع و انکساری کا حوصلہ، صبر و بردباری کی ایسی نیک صفت، بندگان خدا کی خدمت اور اس طرح کی دوسری نیک عادتوں کے لئے ھمیشہ خطرات درپیش رہتے ھیں جن سے حفاظت کرناھر انسان کی ذمہ داری ھوتی ھے۔ انسان اگر اچھی عادتوں کے سلسلہ میں سستی اور کاھلی سے کام لے اور ان عادتوں کے ضعیف ھونے میں بے توجھی کرے یھاں تک کہ یہ اچھی عادتیں ختم ھوجائیں تو یہ گناہ اور معصیت ھے اور ایسے شخص کو نعمات الٰھی کے (بلا و مصائب) سے بدل جانے کا انتظار کرنا چاہئے۔

اور اس کے بعد اگر الٰھی نعمتیں عذاب میں بدل جائیں (یعنی ان کی جگہ بلاء و مصیبت نازل ھوجائے گی۔)

نیک کام کرنے سے دوری اختیار کرنا

نیکی ، نیک کام کرنا اور عوام الناس کے ساتھ احسان و نیکی کرنا؛ ایمان و انسانیت کی نشانی ھے۔ قرآن مجید کے حکم کے مطابق نیک کام کرنے والوں سے خداوندعالم محبت کرتا ھے:

”۔۔۔ وَاللّہُ یُحِبُّ الْمُحسِنینَ“[92]

”خد ااحسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے “۔

نیک کام کرنے والوں کو کسی بھی صورت میں عوام الناس کے ساتھ نیکی کرنے سے ھاتھ نھیں روکنا چاہئے۔ لوگوں کے ساتھ نیکی اور احسان کرنا عبادت خدا ھے، جس کا اجر و ثواب بہت عظیم اور باعث خوشنودی پروردگار ھے۔

بے شک نیکی سے دوری اختیار کرنا ایک گناہ عظیم ھے جس کے نتیجہ میں انسان خداوندعالم کے خاص فیض سے محروم ھوجاتا ھے اور اخلاق حسنہ سے خالی ھونے، رحمت خدا سے محروم ھونے اور خدا کے بے حساب ثواب سے محروم ھوجاتا ھے۔

کفران نعمت

کفران نعمت اور ناشکری ایسا گناہ عظیم ھے جس کے بارے میں قرآن مجید نے سخت عذاب کا وعدہ دیا ھے۔ ارشاد الٰھی ھوتا ھے:

”۔۔۔۔وَلَئِنْ کَفَرتُم اِٴنَّ عَذابِی لَشَدیدٌ “[93]

”اگر تم کفران نعمت کرو کے تو ھمارا عذاب بھی بہت سخت ھے“۔

کفران نعمت کی سب سے بری صورت یہ ھے کہ انسان نعمت خدا کو گناہ و معصیت ، حرام شھوات اور دوسروں کے نامناسب کاموں میں صرف کرے۔

شکر الٰھی کا ترک کرنا

خداوندعالم کی مادی و معنوی نعمتوں کا شکر ادا کرنا لازم اورواجب ھے، او راس کا ترک کرنا انصاف و مروت اور انسان کی شان کے خلاف ھے۔

شکر کی حقیقت یہ ھے کہ انسان نعمت اور نعمت دینے والے کو پہچانے، خصوصاً یہ کہ نعمتوں کو ان امور میں خرچ کرے جن میں صاحب نعمت (خداوندعالم) نے حکم دیا ھے۔

دل جیسی نعمت کا شکر یہ ھے کہ انسان اپنے دل کو خدا و قیامت پر یقین سے آراستہ کرے نیز انبیاء ، ائمہ علیھم السلام ، قرآن کریم اور فرشتوں پر یقین رکھے۔آنکھ جیسی نعمت کا شکر یہ ھے کہ انسان مخلوقات کو دیکھے تاکہ اس سے خدا کی قدرت و عظمت کا اندازہ لگائے اور آنکھ کو علم حاصل کرنے، قرائت قرآن و حفظ قرآن میں بروئے کار لائے اور محرمات الٰھی سے اس کی حفاظت کرے۔

کان جیسی نعمت کا شکر یہ ھے انسان حق بات سنے، حقائق پر کان لگائے، اور غنا، غیبت، تھمت اور باطل باتوں سے اپنے کان کو محفوظ رکھے۔

زبان جیسی نعمت کا شکر یہ ھے کہ حق بات کھے، اچھی باتیں زبان پر جاری کرے، لوگوں کی ھدایت کرے، لوگوں کے اچھے سوالات کا جواب اچھے طریقہ سے دے، قرآن پڑھے، نماز پڑھے، اور غیبت، تھمت اور جھوٹ سے پرھیز کرے، لوگوں کا مذاق اڑانے اور بندگان خدا کو ذلیل کرنے سے پرھیز کرے۔

نعمت شکم کا شکر یہ ھے کہ مقدار بھر کھائے، حلال روزی کھائے، اور مال حرام سے اپنا پیٹ نہ بھرے۔

شھوت جیسی نعمت کا شکر یہ ھے کہ حرام طریقہ سے اس کا استعمال نہ کرے بلکہ شرعی طریقہ سے نکاح کے ذریعہ اس کاصحیح استعمال کرے۔

پیروں کا شکر یہ ھے کہ مسجدوں میں جائے، علم کی مجلس میں شرکت کرے، رشتہ داروں اور دینی بھائیوں کے دیکھنے کے لئے جائے، اور لوگوں کی مشکلات دور کرنے کے لئے اپنے قدم اٹھائے۔

مال جیسی نعمت کا شکر یہ ھے کہ بیوی بچوں پر خرچ کرے، غریبوں کی امداد کرے، امور خیر میں خرچ کرے، زکوٰة ادا کرے، خمس ادا کرے، صدقہ دے ۔ ان چیزوں کا ترک کرنا ایک طرح سے ناشکری ھے جو گناہ و معصیت ھے اور نعمتوں کے بدلے میں بلاء و عذاب اور مصائب کے نازل ھونے کا سبب بنتا ھے۔

” اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تَحْبِسُ الدُّعٰآءَ“۔

”ان گناھوں کو بخش دے جو دعاوٴں کو تیری بارگاہ تک پھنچنے سے روک دیتے ھیں“۔

استجابت دعا میں مانع ھونے والی چیزیں

حضرت امام سجاد علیہ السلام نے سات گناھوں کو دعا قبول ھونے میں مانع بتایا ھے:

۱۔ بری نیت۔ ۲۔ اندرونی بری صفات۔ ۳۔ دینی بھائیوں کے ساتھ نفاق کرنا۔ ۴۔ یقین نہ رکھنا ۔ ۵۔ نمازواجب میں اتنی تاخیر کرناکہ نماز کا وقت ختم ھوجائے۔ ۶۔ نیکی اور صدقہ کو ترک کرنا جو خوشنودی خدا کا باعث ھے۔ ۷۔ عوام الناس کے ساتھ گفتگو کرتے وقت نازیبا اور برے لفاظ استعمال کرنا اور زبان گالیوں اور ناسزا الفاظ سے آلودہ کرنا۔[94]

بری نیت

نیت کے معنی قصد و ارادہ کے ھیں۔ اسلام انسان سے تمام انسانوں بلکہ حیوانات اور دوسری زندہ چیزوں کے بارے میںنیت خیر رکھناچاہتا ھے ۔ اورسب کے لئے خیر و خوشی اور سعادت و سلامت چاھے، اور اس کی نیت یہ ھو کہ جھاں تک بھی ممکن ھو لوگوں کے ساتھ نیکی کرے اور ان کی مشکلات کو دور کرے۔

پاک ، صاف اور خالص نیت و ارادہ کی اس قدر اھمیت ھے کہ صرف اسی پر اجر وثواب دیا جائے گا۔!!

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ھوئی ھے کہ جب ایک غریب و نادار انسان عرض کرتا ھے:

پالنے والے! تو مجھے مال ودولت عطا فرمادے تاکہ میں لوگوں کے ساتھ نیکی کروں اور اس کو کار خیر میں خرچ کروں۔ چونکہ خداوندعالم اس کی نیت سے آگاہ ھے لہٰذا اس کی صادقانہ نیت پر اس کو اسی طرح کا اجر ثواب عنایت کرتا ھے جیسے اس نے ان پر عمل کیا ھے۔ کیونکہ خداوندعالم واسع و کریم ھے۔[95]

اسی مضمون کی ایک دوسری روایت بھی نقل ھوئی ھے کہ ایک شخص بھوکا پیاسا ایک ریگزار سے چلا جارھا تھا اس نے دل ھی دل میں کھا: اگر یہ ریت کھانا ھوتا تومیں اس کو لوگوں میں تقسیم کردیتا، خدا نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ اس سے کہہ دیجئے: خدا نے تیرے صدقہ کو قبول کرلیا ھے اور تیرے اس کار خیر کو قبول کرلیا ھے اور تیرا اجر وثواب اس وقت کے برابر لکھ دیا ھے کہ اگر یہ ریت کھانا ھوتا اور تو اس کو لوگوں میں تقسیم کرتا۔[96]

انسان پر واجب ھے کہ تمام انسانوں بلکہ تمام موجودات کی نسبت بری نیت اور برے قصد سے پرھیز کرے، کیونکہ بری نیت اور برے قصد سے انسان کا باطن تاریک ھوجاتا ھے، جس کی وجہ سے انسان معصیت خدا اور بندگان خدا پر ظلم و ستم کرنے لگتا ھے۔

باطنی ناپسندیدہ صفات

نفاق، سوء ظن، کینہ ،خود پسندی ،ریا، تکبر، غرور، کنجوسی، لالچ، حسد اور دشمنان خدا سے محبت کرنا بہت زیادہ خطرناک گناہ ھیں جو دنیاوی و اُخروی عذاب کے علاوہ دعا قبول ھونے میں مانع ھوتے ھیں۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام منافق کے سلسلہ میں ارشاد فرماتے ھیں:

” بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْداً ہُمَزَةً لُمَزَةً یُقْبِلُ بِوَجہٍ وَیُدبِرُ بِآخَرَ “[97]

”دوسروں کے عیب تلاش کرنے والا، بدگوئی کرنے والا اور دوسروں کو بے آبرو کرنے والا شخص بُرا بندہ ھے، کسی کے ساتھ دوستی کی صورت میں آتا ھے لیکن دشمنی کی صورت میں اس سے منھ موڑلیتا ھے۔

سوء ظن

خدا، رسول ، اولیاء اللہ اور عام مسلمانوں کے بارے میں بدگمانی اور سوء ظن بہت بڑا گناہ ھے ، اگرچہ دل میں چھپا ھو لیکن پھر بھی انسان کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ھے اور روز قیامت اس کا حساب و کتاب کیا جائے گا، نیز اس کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا، مگر یہ کہ انسان اس بدگمانی کے سلسلہ میں دنیا ھی میںسچی توبہ کرلے۔

ارشاد خداوندعالم ھوتا ھے:

”یاَ اٴَیُّھَا الَّذِینَ ء اَمنُوا اجْتَنِبُوا کَثِیراً مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِٴثْمٌ ۔۔۔“[98]

”اے ایمان والو!اکثر گمانوں سے اجتناب کروکہ بعض گمان گناہ کا درجہ رکھتے ھیں “۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ارشاد فرمایا: قسم اس خدا کی جس کے علاوہ کوئی عبادت کا مستحق نھیں ھے، خداوندعالم کسی بھی مومن کو اس کی توبہ کے بعد عذاب نھیں کرے گا مگر خدا کے بارے میں بدگمانی کرنے والے، اس کی رحمت سے مایوس ھونے والے اور مومنین کے ساتھ بداخلاقی کرنے والے اور ان کی غیبت کرنے والے کو۔[99]

وہ مومن ؛جس کا باطن ایمان سے مزین ھو، اور اخلاقی حسنات کا حامل ھو اس کا ظاھر شائستہ عمل سے آراستہ ھو تو اس کورحمت خدا سے امیدوار اور خوش گمان رھنا چاہئے، اور خداوندعالم کی نسبت برے خیال اور بدگمانی سے پرھیز کرنا چاہئے۔

جن گناھگاروں پر توبہ کا دروازہ کھلا ھوا ھے اور وہ اپنے گناھوں کا جبران کرسکتے ھیں جب کہ خود خداوندعالم نے قرآن مجید میں توبہ قبول کرنے کا وعدہ کیا ھے، لہٰذا توبہ قبول نہ ھونے کے سلسلہ میں خدا سے بدگمان نہ ھونا چاہئے، بلکہ ایسے اشخاص پر اپنے باطن کو حسن ظن سے آراستہ کرنا، اور اس طریقہ سے اپنے کو رحمت الٰھی کا امیدوار بنانا واجب ھے۔

محدث عظیم الشان علامہ مجلسی رحمة اللہ علیہ ، خداوندعالم کے سلسلہ میں حسن ظن اور سوء ظن کے بارے میں بیان شدہ حدیث کی شرح کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

”توبہ کرتے وقت امیدوار رھنا چاہئے تاکہ خدا اس کی توبہ قبول کرلے، اور چونکہ توبہ ؛خدا کی طرف پلٹنے کانام ھے، لہٰذا اس کو یہ معلوم ھونا چاہئے کہ خدا اس کو قبول کرلے گا، اور جس وقت سچے دل سے دعا کرے تو اس کو قبول ھونے پر یقین رکھنا چاہئے، اور جب خداوندعالم سے کسی کام کے سلسلہ میں مدد چاھے تو اس کو یہ معلوم ھونا چاہئے کہ خدا اس کے لئے کافی ھے، اور جب کسی کام کو خدا کے لئے انجام دے تو اس کو یہ معلوم رھے کہ خدا اس کو قبول کرلے گا۔ یہ تمام چیزیں خدا کے سلسلہ میں حسن ظن ھیں۔ اس کے مقابلہ میں خدا سے بدگمانی ھے جو ایسے گناھان کبیرہ میں سے ھے جس پر عذاب کا وعدہ دیا گیا ھے۔[100]

اگر کوئی شخص مسلمان اور مومن شخص سے کچھ چیزوں کا مشاھدہ کرے، اور اس کو اچھا نہ لگے تو اسے ان کے سلسلہ میں بدگمان ھوجانے اور سوء ظن کرنے کا حق نھیں ھے، بلکہ جھاں تک ممکن ھو ایک مسلمان اور مومن کے کام کو صحیح قرار دے۔

مثال کے طور پر: اگر کسی شخص کو ایسی جگہ دیکھے جھاں گناہ ھورھے ھوں ، ایسی جگہ جھاں پر ھر قسم کے لھو و لعب ، جوے اور شراب خوری کے تمام وسائل موجود ھوں، تو کسی کو وھاں دیکھ کر تعجب نہ کرے ، اور یہ گمان نہ کرے کہ اس مومن بندہ نے اپنا ایمان کھو بیٹھاھے اور فاسق و فاجر ھوگیا ھے کیونکہ یہ سوء ظن اور بدگمانی ھے جو قرآن و احادیث معصومین علیھم السلام کے مطابق حرام اور باعث عذاب الٰھی ھے، بلکہ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور اھل بیت علیھم السلام کے فرمان کے مطابق اپنے دل میں اطمینان کے ساتھ یہ کھے: اس برادر مومن کو خدا وندعالم نے کیا توفیق عطا کی ھے کہ امر بالمعروف او رنھی عن المنکر کرنے کے لئے اس جگہ آیا ھے تاکہ گمراھی کے کنویں سے لوگوں کو نجات دے سکے؛ اے کاش مجھے بھی یہ توفیق ملی ھوتی کہ میں بھی گناھوں کی بیماری میں مبتلاء لوگوں کا علاج کرسکتا، اور شیطان کے جال سے انھیں نجات دلادیتا جس سے مجھے بھی عظیم اجر و ثواب ملتا۔

کینہ

ھر مسلمان پر لازم ھے کہ تمام انسانوں سے محبت و دوستی رکھے سوائے ان لوگوں کے کہ جن کے بارے میں خداوند قھار نے اجازت دی ھے۔

لوگوں کے ساتھ کینہ رکھنا انسان کو صلہ رحم سے محروم کردیتا ھے، اور مختلف نیکیوں اور امور خیر کرنے میں مانع ھوتا ھے۔

کینہ دل کو گندا، روح کو تاریک ، فکر و خیال کو تیرہ و تار کردیتا ھے اور انسان کو رحمت خدا سے دور کردیتا ھے۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ارشاد فرماتے ھیں:

” مَا کَادَ جِبرئیلُ یَاٴْتِینِی إِلاَّ قَالَ: یَا مُحَمَّدُ اتَّقِ شَحْنَاءِ الرِّجَالِ وَعَداوَتَہُمْ “[101]

”جس وقت جناب جبرئیل میرے پاس آتے تھے تو کہتے تھے: اے محمد (ص) لوگوں سے دشمنی اور بغض کرنے سے پرھیز کرو“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ھے:

” رَاٴسُ الجَھلِ مُعَاداةُ النَّاسِ “[102]

”لوگوں سے دشمنی کرنا نھایت نادانی ھے“۔

نیز آپ کا فرمان ھے:

” مُعاداةُ الرِّجَالِ مِنْ شِیَمِ الجُہّالِ “[103]

”لوگوں سے دشمنی کرنا جاھلوں کا شیوہ ھے“۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

” إِیَّاکَ وَعَدوَاةَ الرِّجالِ ؛فَإِنَّہَا تُورِثُ المَعَرَّةَ وَتُبدِی العَورَةَ “[104]

”لوگوں سے دشمنی کرنے سے پرھیز کرو کیونکہ یہ ھلاکت کا باعث اور عیوب کے ظاھر ھونے کا سبب ھے“۔

خود پسندی

اپنے اوپر ناز کرنا اور اپنے عمل سے راضی ھونا، خود پسندی اوران چیزوں کے ذریعہ دوسروں پر فخر و مباھات کرنا بہت عظیم گناھوں میں سے ھے۔

انسان خدا کابندہ اور خدا اس کا مالک ھے، اس کی زندگی اور موت اسی کے ھاتھ میں ھے، اس کی روزی اسی کی طرف سے ملتی ھے، اگر وہ خدا کی عبادت کرتا ھے تو اس کی توفیق بھی اسی کی طرف سے عنایت ھوتی ھے، اور جوبھی نیک کام کرتا ھے خدا کی مرضی اور اس کے ارادہ کے تحت انجام دیتا ھے۔ ان تمام باتوں کے پیش نظر اس کو اپنے اندر خود پسندی جیسے شیطانی صفت کو پیدا ھونے دینے کا حق نھیں ھے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ھے:

” مَن دَخَلَہُ العُجبُ ہَلَکَ “ [105]

”جو شخص بھی خود پسندی کا شکار ھوا وہ ھلاک ھوجائے گا“۔

نیز حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

ایک حکیم و داناشخص نے؛ ایک عابد و زاھد شخص کے پاس آکرکھا: کس طرح عبادت کرتے ھو؟ تو اس نے جواب دیا : چونکہ تم میرے بارے میں سوال کررھے ھو کہ کس طرح نماز پڑھتا ھوں؟ میں شروع سے خدا کی بہت زیادہ عبادت کرتا ھوں۔ اس نے سوال کیا کہ کس طرح گریہ کرتے ھو؟ اس نے کھا کہ اس قدر گریہ کرتا ھوں کہ آنکھوں سے آنسو جاری ھوجاتے ھیں۔ اس وقت اس حکیم نے کھا: جب کہ تمھارے دل میں خوف خدا ھو تو اس رونے سے بہتر ھے جس پر تم ناز کرو، سچ تو یہ ھے کہ اگر کوئی شخص اپنے اعمال پر فخر کرے تو اس کا کوئی بھی عمل قبول نھیں ھے۔[106]

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ارشاد فرماتے ھیں:

”خداوندعالم نے جناب داؤد سے فرمایا: اے داؤد! گناھگاروں کو بشارت دیدیجئے اور نیکی کرنے والوں کو ڈرائےے۔ عرض کیا: پروردگارا! کس طرح گناھگاروں کو بشارت دوں اور نیکوکاروں کو ڈراؤں؟ آواز آئی: اے داؤد! گناھگاروں کو خوشخبری دیدیں کہ میں ان کی توبہ کو قبول کرلوں گا اور ان کے گناھوں کو معاف کردوں گا، اور نیک کام کرنے والوں کو ڈرائےے کہ وہ اپنے اعمال پر فخر کرکے خود پسندی نہ کریں، کیونکہ میں کسی بندہ کا حساب نھیں لوں گا مگر یہ کہ وہ خود اپنے کو ھلاک کرے۔[107]

ریاکاری

نیک کام اور دوسری عبادتوں میں دوسروں کو متوجہ کرنے کے لئے ریا کاری کرنا حرام اور باعث غضب پروردگار ھے۔

قرآن مجید نے بہت سے نمازیوں کو ریاء کاری کی بنا پر موردلعن و طعن قرار دیا ھے، جیسا کہ ارشاد الٰھی ھورھا ھے:

”فَوَیْلٌ لِلْمُصَلِّینَ الَّذِینَ ھُم عَن صَلاتِھِمْ سَاھُونَ الَّذِینَ ھُمْ یُرَآءُ ونَ“[108]

”تباھی ھے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ھیں۔دکھا نے کے لئے عمل کرتے ھیں “۔

ایک شخص نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے سوال کیا کہ نجات کس چیز میں ھے؟ تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: دوسروں کو متوجہ کرنے کے لئے عبادت نہ کرو“۔[109]

ایک روایت میں بیان ھوا ھے: ایک شخص جھاد کرتے ھوئے قتل ھوجاتا ھے، اپنے مال و دولت کو راہ خدا میں خرچ کرتا ھے، اور ایک شخص قرآن مجید کی قرائت کرتا ھے؛ خدا ان دونوں سے فرماتا ھے: جھاد کے سلسلہ میں تیری نیت صادق نہ تھی کیونکہ تو یہ چاہتا تھا کہ تجھے شجاع و بھادر کھا جائے، اسی طرح صدقہ و خیرات کرنے میں بھی تیری نیت صادق نھیں تھی کیونکہ تیری نیت یہ تھی کہ تجھے لوگ سخاوت مند اور صاحب جود و کرم کھیں، اسی طرح قرآن پڑھنے والے سے کھا جائے کہ قرآن پڑھتے وقت تیری نیت خالص نھیں تھی، کیونکہ تیری خواھش تو یہ تھی کہ لوگ تجھے قاری قرآن کھیں۔ اس کے بعد رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا کہ ان لوگوں کو جزا یا انعام نھیں دیا جائے گا کیونکہ ریاکاری اور خود نمائی نے ان کے اعمال کو برباد کردیا ھے!![110]

ایک حدیث کے ضمن میں حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ارشاد فرمایا:

” إِنَّ اللهَ تَعالیَ یَقولُ لِلْمَلائِکَةِ:إِنَّ مَن لَمْ یُرِدنِی بِعَمَلِہِ فَا جْعَلُوہُ فِی سِجّین “[111]

”خداوند عالم اپنے ملائکہ سے فرماتا ھے: اس شخص نے عمل کرتے وقت میری (خوشنودی) کا قصد نھیں کیا تھا ، لہٰذا اس کو جھنم میں ڈالدو“۔

نیر حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے: سب سے خطرناک چیز جس کے سلسلہ میں میں تم سے خوف زدہ ھوں وہ ھے شرک اصغر۔ سوال کیا گیا : یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) شرک اصغر کیا ھے؟ تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: ریاکاری۔[112]

اسی طرح پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے تھے: جس عمل میں ذرہ برابر بھی ریا ھو خدا اس کو قبول نھیں کرتا۔[113]

شدّاد بن اوس کہتے ھیں: میں نے پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو گریہ کرتے ھوئے دیکھا، تو سوال کیا: آپ کیوں رورھے ھیں؟ تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: اپنی امت کے شرک سے ڈرتا ھوں، یہ لوگ بت، سورج، چاند اور پتھر کی تو پوجا نھیں کرتے، لیکن اپنے اعمال میں ریاکاری اور خود نمائی کے شکار ھوجائیں گے۔[114]

تکبرو کبر

تکبر اور سرکشی چاھے خداوندعالم کے سامنے ھو یا عوام کے ، چاھے خدا ورسول اور ائمہ علیھم السلام کے حکم کے سامنے ھو یا دلسوز بھلائی چاھنے والوں کے سامنے، یہ شیطانی اور ابلیسی حالت ھے۔

اسی تکبر کی وجہ سے ابلیس ھمیشہ کے لئے رحمت پروردگار سے محروم ھوگیا اور اس کو ھمیشہ ھمیشہ کے لئے بارگاہ پروردگار سے نکال دیا گیا اور لعنت کا طوق ھمیشہ ھمیشہ کے لئے اس کی گردن میں ڈال دیا گیا، نیز اس کے لئے ھمیشگی عذاب یقینی اور حتمی ھے۔

تکبر کرنے والے میں شقاوت اوربد بختی اس قدر زیادہ پائی جاتی ھے کہ وہ محبت خدا کے دائرہ میں داخل نھیں ھوسکتا۔

ارشاد رب العزت ھورھا ھے:

”۔۔۔اٴِنَّہُ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِینَ “[115]

”وہ مستکبرین کو ھرگز پسند نھیںکرتا “۔

تکبر کرنے والے کا گناہ اور اس کے جرم کے لئے صرف اتنا ھی کافی ھے کہ قرآن مجید نے اس کو اھل دوزخ میں شمار کیا ھے:

”۔۔۔فَلَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِینَ“ [116]

”متکبرین کا ٹھکانا بہت بُرا ھوتا ھے“۔

جی ھاں! اپنے کو دوسروں سے بہتر اور بزرگتر قرار دینا اور خود کو تمام کاموں کی اصل اور میزان قرار دینا، نیز حکم پروردگار سے انکار کرنا اور عبادت و بندگی سے منھ موڑنا اور خداوندعالم کے سامنے ناک بھنو چڑھاناکیونکہ میں بہتر سمجھتا ھوں؛ یہ سب چیزیں ان گناھان کبیرہ میں سے ھےں جن پر خداوندعالم نے دردناک عذاب کا وعدہ دیا ھے۔

علم و دانش، عمل و عبادت، حسب و نسب، حسن و جمال، مال و دولت، قوت و قدرت، دوست و احباب ان تمام چیزوں پر تکبر کرنا اور دوسروں کے سامنے فخر و مباھات کرنا؛ واقعاً بہت بُرا عمل ھے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

” العِزُّ رِدَاءُ اللهِ وَالْکِبْرُ إِزَارُہُ فَمَنُ تَنَاوَلَ شَیْئاً مِنْہُ اٴَکَبَّہُ اللهُ فِی جَہَنَّمَ “[117]

عزت و عظمت اور شرف و برتری خداوندعالم سے مخصوص ھے، جو کوئی شخص ان اوصاف میں سے کسی بھی صفت کو ذرا بھی اپنے سے مخصوص کرے تو خدا اس کو دوزخ میں ڈال دے گا“۔

اسی طرح حضرت امام محمد باقر و امام صادق علیھما السلام کا فرمان ھے:

” لا یَدْخُلُ الجَنَّةَ مَنْ فِی قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ کِبْرٍ “[118]

”جس شخص کے دل میں ذراسا بھی تکبر ھوگا وہ بھشت میں داخل نھیں ھوسکتا“۔

نیز حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

” إِنَّ فِی جَہَنَّمَ لَوَادِیاً لِلْمُتُکَبِّرِیْنَ یُقَالُ لَہُ سَقَرُ شَکَی إِلیَ اللهِ عَزَّوَجَلَّ شِدَّةَ حَرِّہِ وَسَاٴَلَہُ اٴَنْ یَاٴَذَنَ لَہُ اٴَنْ یَتَنَفَّسَ فَتَنَفَّسَ فَاٴَحْرَقَ جَہَنَّمَ “[119]

”بے شک جھنم میں تکبر کرنے والوں کے لئے ایک ایسی جگہ ھے جس کو ”سقر“ کھا جاتا ھے، اس کی گرمی سے خدا کی بارگاہ میں شکایت کرے گی اور پھر سانس لینے کی اجازت مانگے گی تو خداوندعالم اس کو سانس لینے کی اجازت عطا فرمائے گا، اور سانس لیتے ھی جھنم بھڑک اٹھے گا“۔

عبد الاعلی کہتے ھیں: میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ تکبر کیا ھے؟ تو آپ نے فرمایا: سب سے بڑا تکبر یہ ھے کہ حق کو سبک اور لوگوں کو ذلیل سمجھے۔ میں نے سوال کیا کہ سبک سمجھنا یعنی کیا؟ تو آپ نے فرمایا: اس کو نامفھوم قرار دینا اور اھل حق پر لعنت و ملامت کرنا۔[120]

غرور

مادی یا معنوی امور پر فریفتہ ھونااور ان پر غرور کرنا جن کی وجہ سے انسان حقائق کو پہچان نھیں پاتا ھے، یہ واقعاً ایک خطرناک کیفیت اور بہت برا عمل ھے۔

جن لوگوں کو حقائق سے انکار کرنے کی بیماری ھوجاتی ھے، وہ لوگ دنیا کے مال و زر سے دھوکہ کھاجاتے ھیں جب کہ وہ اس چیز سے غافل رہتے ھیںکہ یہ دنیا چند روزہ ھے، اور آخر کار ایک دن اس دنیا سے آب و دانہ اٹھ ھی جانا ھے، اور پھر قبر میں جاکر سونا ھے، اور کچھ ھی دنوں بعد یہ جسم خاک میں مل جائے گا، لیکن انسان کی روح اپنے کئے ھوئے کی سزا میں مبتلا ھوگی اور روز قیامت بھی جھنم کا درد ناک عذاب برداشت کرنا ھوگا۔

یہ لوگ اپنے خیال خام کی بنا پر دنیا کو نقد اور آخرت کو ادھار تصور کرتے ھیں جس کی بنا پر دنیا حاصل کرنے کے لئے اپنی پوری کوشش صرف کردیتے ھیں، اور آخرت کو بھول جاتے ھیں، اس فانی دنیا کی لذت پر یقین رکھتے ھیں اور آخرت کی لذت میں شک کرتے ھیں، اور آخرت کے سلسلہ میں خدا اور ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و ائمہ معصومین علیھم السلام کے وعدہ کو قبول کرنے، اعتقاد و ایمان کی بنیاد پر قدم اٹھا کرگناھوں سے پرھیز کرنے اور اخلاق حسنہ سے اپنے کو آراستہ کرنے کے لئے تیار نھیں ھوتے ھیں۔

یہ لوگ اس بات کی طرف متوجہ نھیں ھیں کہ قرآنی آیات کی بنا پر آخرت دنیاوی حرکات و سکنات کا نتیجہ ھے، اور جیسا کہ حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:” دنیاآخرت کی کھیتی ھے“ بلکہ یھی دنیا آخرت ھے، کیونکہ دنیا و آخرت دو الگ الگ حقیقتیں نھیں ھیں ، اسی دنیا کی دوسری صورت آخرت کھلاتی ھے، اور ان لوگوں نے اپنے جھل و نادانی کی وجہ سے یہ تصور کرلیا ھے کہ دنیا نقد ھے اور آخرت ادھار، دنیاوی لذت یقینی ھے اور لذت آخرت میں شک و تردید ھے!!

جو لوگ ایمان اور قرآن سے بے خبر ھیں اپنے عقیدہ کی بنا پر خداوندعالم کی رحمت واسعہ کے بارے میں دھوکہ کھائے ھوئے ھیں اور کہتے ھیں کہ چونکہ انسان پر خداوندعالم کی نعمتیں بہت زیادہ ھیں اور اس کی رحمت واسعہ اور اس کا لطف تمام موجودات پر شامل ھے، تو پھر ھمیں اس بات کی کیا ضرورت ھے کہ عبادت و بندگی کے ذریعہ تقویٰ وپرھیزگاری حاصل کرنے کے لئے اپنے کو زحمت میں ڈالیں اور گناھوں سے بچنے کی تلخی کو برداشت کریں، رحمت خدا کے مقابلہ میں ھمارے گناہ دریاکے مقابلہ ایک قطرہ کی حیثیت رکھتے ھیں ، اور خدا پر ایمان اور انبیاء وائمہ علیھم السلام سے محبت کی بنیاد پر نجات کی امید رکھتے ھیں اور اپنے گناھوں کو خداوندعالم سے دوری اور عذاب میں مبتلا ھونے کا سبب نھیں مانتے۔

یہ لوگ اس حقیقت کی طرف متوجہ نھیں ھیں کہ شیطان اور ھوائے نفس ؛ انسان کو دلربا باتوںکے ذریعہ فریب دیتے ھےں۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ھیں:

”الکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَعَمِلَ لِما بَعْدَ الْمَوْتِ ،وَالاٴحْمَقُ مَنْ اٴَتْبَعَ نَفْسَہْ ہَواہَا وَتَمَنِّی عَلَی اللهِ “[121]

”ھوشیار اور عقلمند وہ شخص ھے جو اپنے نفس کی مخالفت کرے اور آخرت کے لئے عمل کرے، اور نادان و جاھل وہ ھے جو اپنے نفس و ھوا وھوس کی پیروی کرے، اور خدا سے بے جا اور باطل آرزورکھے“۔

یہ لوگ اس معنی پرغور و فکر نھیں کرتے کہ خدائے کریم وھی خدا ھے جس کی رحمت وسیع اور عفو و بخشش سب پر محیط ھے، لیکن اسی خدا نے قرآن مجید کی بہت سی آیات میں گناھگاروں،کار خیر سے ھاتھ خالی اور مغرور خطاکاروں کو درد ناک عذاب دینے کا وعدہ دیا ھے، اور اپنی رحمت کو متقین، صالحین اور راہ ایمان و اسلام میں سعی و کوشش کرنے والوں کے لئے قرار دیا ھے، صرف انھیں لوگوں کو اپنی رحمت کا امیدوار ھونے کا حق دیا گیا ھے:

” إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَالَّذِینَ ہَاجَرُوا وَجَاہَدُوا فِی سَبِیلِ اللهِ اٴُوْلَئِکَ یَرْجُونَ رَحْمَةَ اللهِ۔۔۔“[122]

”جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی اور راہ خدا میں جھاد کیا وہ رحمت الٰھی کی امید رکھتے ھیں ۔۔“۔۔

گناہ و معصیت سے آلودہ ھوکر رحمت خدا کی امیدرکھنا،در حقیقت رحمت خدا سے اپنے آپ کو دھوکہ دینا بے جا و باطل خواھش ھے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے کھا گیا: ایک قوم ایسی ھے جو گناہ میں ڈوبی ھوئی ھے اور کہتی ھے کہ (ھم رحمت خدا کے) امیدوار ھیں، اور ھمیشہ گناہ کرتے رہتے ھیں یھاں تک کہ ان کو موت آجاتی ھے۔ تو آپ نے فرمایا: یہ لوگ اس گروہ سے ھیں جن کی امیدوں اور آرزوٴں میں کمی پائی جاتی ھے یعنی ان کی آرزو برآوردہ نہ ھوگی اوریہ لوگ اضطراب میں رھیں گے، ان کی آرزوئیں کاذب ھیں، در حقیقت یہ لوگ امیدوار نھیں ھیں، (بلکہ یہ لوگ رحمت خدا سے مایوس ھیں)کیونکہ جو شخص کسی چیز کی لَو لگاتا ھے تو وہ اس کی دُھن میں لگا رہتا ھے، اور جو کسی چیز سے ڈرتا ھے وہ اس سے دور بھاگتا ھے۔[123]

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

” سُکرُ الغَفْلَةِ وَالغُرورِ اٴَبْعَدُ إِفَاقَةً مِن سُکْرِ الخُمُورِ “ [124]

”غفلت اورغرور کی مستی سے ھوش میں آنا، شراب کی مستی سے ھوش میں آنے سے زیادہ سخت ھے“۔

نیز آپ نے فرمایا:

” إِنَّ مِنَ الغِرَّةِ بِاللهِ اٴَن یُصِرَّ العَبْدُ عَلَی المَعْصِیَةِ وَیَتَمَنَّی عَلَی اللهِ الْمَغْفِرَةَ“[125]

”خدا کے بارے میں یہ بندہ کا دھوکہھے کہ انسان گناھوں پر اصرار کرتا رھے اور اس سے بخشش کی امیدبھی رکھے!“

حضرت رسول خدا (ص) نے ابن مسعود سے فرمایا:

” لاتَغْتَرَّنَّ بِاللهِ وَلاتَغْتَرَّنَّ بِصَلاحِکَ وَعِلْمِکَ وَبِرِّکَ وَعِبَادَتِکَ “ [126]

”اے ابن مسعود! خدا کے بارے میں مغرور نہ ھو ، اور اپنے علم و دانش، اعمال صالحہ،نیکی اور اپنی مذھبی لگاؤ او رپابندی کی وجہ سے دھوکہ نہ کھاؤ“۔

بخل

واقعاً کتنی بری بات ھے کہ انسان خداوندعالم کی عطا کردہ مادی و معنوی نعمتوں سے مالا مال ھو ، لیکن راہ خدا میں صدقہ اور زکوٰة ادا کرنے میں بخل سے کام لے۔

وہ مال و دولت جس کو انسان جائز طریقہ سے حاصل کرتا ھے، وہ خداوندعالم کی طرف سے ایک امانت ھوتی ھے جس کو انسان اپنی شان کے مطابق خرچ کرسکتا ھے، اور اس سے بچا ھوا مال خدا کے حکم سے محتاجوں، غریبوں، فقیروں، مسکینوں اور پریشاں حال اور اپاہج لوگوں میں تقسیم کردے۔

خود یہ انسان اور جو کچھ بھی اس کے پاس ھے سب خداکا ھے یعنی سب کا مالک خدا ھے ، اور مملوک کو چاہئے کہ مالک کی ملکیت میں مالک کی مرضی کے مطابق تصرف کرے، لیکن اگر مملوک مالک کی مرضی کے برخلاف اپنی مرضی سے اس کی ملکیت میں تصرف کرے تو پھر اس کو مالک کے عذاب کا منتظر رھنا چاہئے۔

مال و دولت کا جمع کرنا خداوندعالم کی مرضی کے برخلاف ھے، اور مال و دولت ؛ بخل کرنے اور ناجائز طریقہ کے بغیر جمع نھیں ھوسکتی،یہ عظیم گناہ، شقاوت و بدبختی کا سبب اس سے باطنی خباثت پیدا ھوتی ھے یہ روز قیامت عذاب خدا میں گرفتار ھونے اور رحمت الٰھی سے محروم ھونے کا باعث ھے۔

بخل؛ ایک شیطانی حالت اور حیوانی صفت ھے نیز اخلاقی پستی ھے، جس کے بارے میں قرآن مجید اور روایات معصومین میں مذمت وارد ھوئی ھے، اور بخل کرنے والوں کو ناشکرا اور عذاب کے مستحق جیسے عنوان سے یاد کیا گیا ھے:

” الَّذِینَ یَبْخَلُونَ وَیَاٴْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَیَکْتُمُونَ مَا آتَاہُمْ اللهُ مِنْ فَضْلِہِ وَاٴَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِینَ عَذَابًا مُہِینًا“[127]

”جو خود بھی بخل کرتے ھیں اور دوسروں کو بھی بخل کا حکم دیتے ھیں اور جو کچھ خدا نے اپنے فضل و کرم سے عطا کیا اس پر پردہ ڈالتے ھیں اور ھم نے کافروں کے واسطے رسو اکن عذاب مھیا کر رکھا ھے “۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے:

” حَرَّمْتُ الجَنَّةَ عَلَی المَنَّانِ وَالبَخِیلِ وَالقَتَّاتِ “[128]

”دوسروںپر احسان جتانے والے، کنجوس اور غیبت کرنے والے پر جنت حرام ھے“۔

حضرت علی علیہ السلام نے ایک شخص کو یہ کہتے ھوئے سنا کہ بخیل؛ ستمگر سے بھی معذور تر ھے۔ آپ نے اس سے فرمایا: تم نے غلط کھا، ستمگر توبہ کرسکتا ھے ،خدا سے طلب مغفرت کرسکتا ھے اور لوگوں کے مالی حقوق ادا کرسکتا ھے، دراںحالیکہ جب بخیل بخل کرتا ھے صدقہ، زکوٰة ، صلہ رحم ، مھمان نوازی اور راہ خدا میں خرچ کرنے سے گریز کرتا ھے ، توجنت پر حرام ھوجاتا ھے کہ ایسے شخص کو اپنے اندر جگہ دے“۔[129]

حضرت رسول خدا (ص) کا فرمان ھے:

” خَصْلَتَانِ لَاتَجْتَمِعَانِ فِی مُسْلِمٍ :البُخْلُ وَسُوءُ الْخُلُقِ“[130]

”دو خصلتیں مسلمان میں جمع نھیں ھوسکتی، ایک بخل اور دوسرے برا اخلاق“۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ھے:

” إِنْ کاَنَ الَخَلفُ مِنَ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ حَقّاً فَالْبُخْلُ لِمَاذَا “ [131]

”اگر راہ خدا میں صرف کئے ھوئے مال کا بدلہ حق ھے تو پھر بخل کس لئے کیا جاتا ھے؟“

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں:

” البَخِیلُ مَنْ بَخِلَ بِمَا افْتَرَضَ اللهُ عَلَیْہِ“[132]

”بخیل وہ شخص ھے جو خدا کے واجب کردہ کاموں میں کوتاھی سے کام لے“۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے تھے:

سخاوت کرنے والا شخص، خدا، لوگوں اور بھشت سے نزدیک ھے، اور بخل کرنے والا، خدا، لوگوں اور بھشت سے دور ھے۔

حرص

اپنی ضرورت سے زیادہ مال و دولت جمع کرنے کی بہت زیادہ خواھش انسان کو فکری اور نفسیاتی مشکلات سے دوچار کردیتی ھے، جس کی بنا پر انسان احکام الٰھی کو بالائے طاق رکھ دیتا ھے، اور اخلاقی دائرہ اور انسانی نظام سے خارج ھوکر بھڑکتی آگ کی طرح لوگوں کا مال کھسوٹتا ھے اور حرام خوری، مال کی غارت گری اور بے انتھا نفسانی خواھشوں میں گرفتار ھوجاتا ھے!!

یاد الٰھی ، فکر قیامت، عذاب الٰھی کا خوف،اخلاقی مسائل کی رعایت کرنا، لوگوں سے خندہ پیشانی سے پیش آنااور ان کے حقوق کی رعایت کرنا؛ انسان کومادی چیزوںکے جمع کرنے اور ان میں رغبت رکھنے نیزحرص و لالچ سے محفوظ ھے۔

جب خدائے مھربان نے انسان کو نعمتوں کے عمدہ دسترخوان پر بٹھادیا ھے اور ضروری چیزوں کو حاصل کرنے کے لئے راستے معین کردئے ھیں اور اس طریقہ سے اس کی روزی وروٹی کی ضمانت لے لی ھے ، اور جب تک اپنی روزی کا آخری لقمہ نہ کھالے گا اس وقت تک دنیا سے نھیں جائے گا، تو پھر حرص و لالچ کی کیا ضرورت؟!

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے تھے:

” اٴَغنَی النَّاسِ مَن لَمْ یَکُنْ لِلْحِرصِ اٴَسِیراً “[133]

”سب سے غنی وہ شخص ھے جو حرص و لالچ کا اسیر نہ ھو“۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) حضرت علی علیہ السلام سے اپنی وصیت میں فرماتے ھیں:

” یَا عَلِیُّ اٴنْہَاکَ عَن ثَلاثِ خِصَالٍ عِظَامٍ :الحَسَدِ وَالحِرْصِ وَالکِذْبِ“[134]

”یا علی میں آپ کو تین بری خصلتوں سے روک رھا ھوں: حسد، حرص اور جھوٹ“۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ھے:

جس وقت حضرت نوح (علیہ السلام) کشتی سے اترے، توشیطان نے ان کے پاس آکرکھا: اھل زمین میں آپ سے زیادہ کسی کا احسان اور مِنّت نھیںھے، آپ نے ان بدکار لوگوں کے لئے خدا سے عذاب کی دعا کی، جس سے مجھے چین و سکون اور راحت مل گئی، کیا میں آپ کو دو خصلتوں سے آگاہ نہ کروں؟ حسد سے دوری اختیار کرو، کیونکہ حسد کی وجہ سے میرا انجام یہ ھوا ھے، اور حرص و لالچ سے بچو،کیونکہ حرص کی وجہ سے میری یہ حالت بن گئی ھے۔[135]

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے تھے: حریص و لالچی سات بلاؤں میں گرفتار رہتا ھے:

اس کی فکر اس کے بدن کو نقصان پھنچاتی رہتی ھے اور اس کو کوئی فائدہ نھیں دیتی۔ اس کا غم و غصہ کبھی بھی ختم نھیں ھوتا۔ ایسا رنج کہ موت کے علاوہ اس کا خاتمہ نھیں ھوتا۔ آرام کے وقت بھی سخت پریشان رہتا ھے۔ جس چیز کا خوف ھوتا ھے آخر کار اسی گڑھے میں گرپڑتا ھے۔اس پر ایسا غم طاری ھوتا ھے کہ خوشی میں بھی عرصہ حیات تنگ رہتاھے۔ ایسا حساب وکتاب جس کی وجہ سے عذاب خدا سے رھائی نھیں پاسکتامگر یہ کہ خدا اس کو بخش دے۔ ایسا عذاب جس سے اس کوکبھی پناہ نھیں ملتی۔[136]

طمع

لوگوں کے پاس موجود مال و اسباب کو دیکھ کر اس کو حاصل کرنے کی آرزو کرنا اور اس کو اس طرح بیان کرنا کہ وہ اس کو دیدے اور لوگوں سے دست سوال درازکرنا اور ھمیشہ ھاتھ پھیلائے رھنا، اھل تحقیق کی نظر میں ”طمع ورزی“ (یعنی حرص ولالچ) ھے۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ھیں:

” رَاٴَیْتُ الخَیْرَ کُلَّہُ قَدِ اجْتَمَعَ فِی قَطْعِ الطَّمعِ عَمّا فِی اٴَیدِی النَّاسِ“[137]

”مال و دولت اور جاہ و مقام کی لالچ میں تمام نیکیوں کو نابود ھوتے دیکھا ھے“۔

سعدان نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا:

”الَّذِی یُثْبِتُ الِایمَانَ فِی العَبْدِ؟قاَلَ :الوَرَعُ ۔وَالَّذِی یُخْرِجُہُ مِنْہُ ؟قَالَ الطَّمَعُ“[138]

” ایمان کو مستحکم کرنے والی کونسی چیز ھے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: پاکدامنی اور پارسائی (زھد و تقویٰ)، سائل نے پھر سوال کیا کہ کونسی چیز انسان کے ایمان کو نابودکرتی ھے ؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: طمع (و لالچ)“۔

حضرت امام علی نقی علیہ السلام فرماتے ھیں:

”الطَّمَعُ سَجِیَّةٌ سَیِّئَةٌ“[139]

”طمع ایک بُری صفت ھے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

”إِن اٴَرَدتَ اٴَنْ تَقَرَّ عَیْنُکَ وَتَنالَ خَیرَ الدُّنْیا وَالآخِرَةِ،فَاقْطَعِ الطَّمَعَ عَمَّا فِی اٴَیْدِی النَّاسِ[140]

”اگر تم چاہتے ھو خوشحال رھو اور دنیا و آخرت کی بھلائی چاہتے ھو تو جو کچھ لوگوں کے ھاتھوں میں ھے اس کا لالچ چھوڑ دو“۔

حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ھے:

”مَنْ اٴَرَادَ اٴن یَعِیشَ حُرّاً اٴَیّامَ حَیَاتِہِ فَلا یُسْکِنَ الطَّمَعَ قَلْبَہُ“ [141]

”اگر کوئی شخص آزادانہ زندگی گزارنا چاھے تو اس کو چاہئے کہ اپنے دل میں طمع و لالچ کو جگہ نہ دے“۔

حسد

حسد بہت بری صفت اور بہت بری خصلت ھے۔

اس سلسلہ میں محققین کہتے ھیں: حسد یہ ھے کہ انسان کوئی نعمت کسی کے پاس دیکھے اور اس کے نابود ھونے کی آرزو کرے! در حقیقت حسد خداوندعالم کی حکمت کے فیصلوں کی نسبت ناراضگی کا نام ھے، کہ خداوندعالم نے فلاں کو ایسی نعمت کیوں دی ھے!!

تکبر، خود خواھی، جاہ و مقام کا عاشق ھونا اور باطن میں خباثت و بخل وغیرہ کی وجہ سے انسان کے دل میں حسد پیدا ھوتا ھے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

”إَنَّ الحَسَدَ یَاٴْ کُلُ الإِیمَانَ کَمَا تَاٴْکُلُ النَّارُ الحَطَبَ“ [142]

”بے شک حسد ایمان کو ایسے ھی کھا جاتا ھے جس طرح آگ سوکھی لکڑی کو“۔

نیر آپ ھی کا فرمان ھے:

” آفَةُ الدِّینِ الحَسَدُ وَالعُجْبُ وَالفَخْرُ“[143]

”دین کے لئے حسد، خود پسندی اور فخر (و مباھات)؛ آفت ھیں“۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ھے: پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ھرروز خدا سے چھ چیزوں کی پناہ مانگتے تھے:

شک، شرک، نخوت، خشم (غصہ)، تجاوزو ستمگری اور حسد۔[144]

نیز حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

جس وقت جناب موسیٰ علیہ السلام اپنے پروردگار سے مناجات کررھے تھے اور خدا سے گفتگو کررھے تھے، اچانک ایک شخص کو عرش خدا کے زیر سایہ دیکھا، تو عرض کی: پالنے والے یہ کون ھے کہ تیرے عرش نے اس پر سایہ کیا ھوا ھے؟ تو آواز قدرت آئی: یہ ان لوگوں میں سے ھے جس نے ان لوگوں سے جن کو خدا نے اپنے فضل وکرم اور احسان سے نعمتیں عنایت کی ھیں ؛حسد نھیں کیا ھے۔[145]

دشمنان خدا سے محبت

دشمنان خدا سے محبت رکھنا دل کی گندگی اور بیماری کی وجہ سے ھوتی ھے، انسان کو چاہئے کہ اچھائیوں اور اچھے لوگوں کو دوست رکھے، اور برائیوں اور برے لوگوں سے دشمنی کرے،لیکن اگر دل میں اس کے برعکس حالت پیدا ھوجائے تو یہ دل کی بیماری کی نشانی ھے، دل کی یہ بیماری قرآنی آیات اور معصومین علیھم السلام کی روایات کے ذریعہ علاج ھونا چاہئے، ورنہ تو دنیا و آخرت میں اس کے بڑے نقصاناتھیں۔

پیغمبر اور مومنین؛ کفار پر سخت دل اوراھل ایمان کے سلسلے میں ایک دوسرے پر مھربان ھیں، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ھوتا ھے:

” مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ وَالَّذِینَ مَعَہُ اٴَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ۔۔۔“[146]

”محمد اللہ کے رسول ھیں اور جو لوگ ا ن کے ساتھ ھیں وہ کفار کے لئے سخت ترین اور آپس میں انتھائی رحم دل ھیں “۔

اسی طرح قرآن مومنین سے فرماتا ھے:

”۔۔۔لاَتَتَّخِذُوا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ اٴَوْلِیَاءَ تُلْقُونَ إِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ کَفَرُوا بِمَا جَائَکُمْ مِنْ الْحَقِّ“[147]

”(اے ایمان والو!خبر دار )میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بنانا کہ تم ان کی طرف دوستی کی پیش کش کرو جب کہ انھوںنے اس حق کا انکا رکر دیا ھے جو تمھارے پاس آچکا ھے “۔

قرآن سورہ مجادلہ میں فرماتا ھے:آپ کبھی نہ دیکھیں گے جو قوم اللہ اور روز آخر ت پر ایمان رکھنے والی ھے وہ ان لوگوں سے دوستی کر رھی ھے جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کر نے والے ھیں چاھے وہ ان کے باپ دادا یا اولاد یا برادران یا عشیرہ اور قبیلہ والے ھی کیوں نہ ھوں ،اللہ نے صاحبان ایمان کے دلوں میں ایمان لکھ دیا اور ان کی اپنی خاص روح کے ذریعہ تائید کی ھے اور وہ انھیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نھریں جاری ھوں گی اورانھیں ھمیشہ رھنے والے ھوں گے ،خدا ا ن سے راضی ھوگا اور وہ خدا سے راضی ھوںگے،یھی لوگ اللہ گروہ ھیں اور آگاہ ھو جاوٴ کہ اللہ کا گروہ ھی نجات پانے والا ھے ۔ [148]

دینی برادران سے نقاق کرنا

نفاق کی برائی ، منافق کی ناپاکی و خباثت اور اپنے دینی برادران سے منافقانہ انداز سے پیش آنے(یعنی مومنین کے سامنے ایمان کا مظاھرہ کرنے دوسری طرف ان سے دشمنی کرنے) کی پستی اس قدر زیادہ ھے کہ خداوندعالم نے ان کے لئے سخت ترین عذاب اور جھنم میں دردناک جگہ مقرر کردی ھے۔

منافق، وہ شخص ھے جو دشمنان اسلام سے مل کرمومنین کے لئے مشکلات اور پریشانیاں پیدا کرے، اور مسلمانوں کے اسرار کو شیطان صفت خائن، اور فرعون صفت ظالموں تک پھنچائے، منافق کی بیماری کا علاج بہت مشکل اور کبھی کبھی لاعلاج ھوجاتا ھے۔

منافق کا ایمان فقط زبان پر، اس کا کفر اس کے دل میں، اس کی روح آلودہ، اس کا اخلاق فاسد اور اس کا کرد ار براھوتا ھے، اس کی فکر شیطانی اس کے صفات ابلیسی ھوتے ھیں اور اس کا کام لوگوں کو دھوکہ دینا ھوتا ھے، منافق بہت پست اور خطرناک آدمی ھوتا ھے۔

قرآن کے مختلف سوروں میں دین و ملت کے اس خائن کی متعدد نشانیاں مختلف مقامات پربیان ھوئی ھےں،ان کے علاوہ حدیث کی کتابوں میں بہت سی اھم روایات بھی بیان ھوئی ھیں ، جن میں سے چند کی طرف اشارہ کیا جارھا ھے جن میں اس خطرناک اور گھٹیاآدمی کی حالات بیان ھوئے ھےں:

محمد بن فضیل نے حضرت امام رضا علیہ السلام سے منافقین کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:

” لَیسُوا مِن عِتْرَةِ رَسُولِ اللهِ،وَلَیْسُوا مِنَ المُوٴمِنِینَ وَلَیْسُوا مِنَ الْمُسْلِمِینَ یُظْہِرُوْنَ الإِیمَانَ وَیُسِرّونَ الکُفْرَ وَالتَّکذِیبَ لَعَنَہُمُ اللهُ“[149]

جو لوگ زبان سے ایمان کا اقرا رکرتے ھیں لیکن ان کے باطن میں کفر و تکذیب چھپا ھو، وہ لوگ نہ عترت رسول خدا میں سے ھیں نہ گروہ مومنین میں سے اور نہ ھی گروہ مسلمین میں سے، خدا ان تمام لوگوں پر لعنت کرے“۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

”مِنْ عَلامَاتِ النِّفَاقِ :قَسَاوَةُ القَلْبِ وَجُمُودُ العَیْنِ وَالإِصْرَارُ عَلَی الذَّنبِ وَالحِرصُ عَلَی الدُّنیَا“[150]

”قساوت و سنگدلی، آنکھوں کا آنسوؤں سے خشک ھونا، گناھوں پر اصرار کرنا اور دنیا کے سلسلہ میں حد سے زیادہ رغبت رکھنا؛ نفاق کی نشانیاں ھیں“۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ھیں:

”جس شخص کا باطن اور ظاھر ایک نہ ھو؛ وہ کوئی بھی ھو، کھیں بھی ھو، کسی بھی سر زمین کا باشندہ ھو اور کسی بھی رتبہ و مقام پر ھو؛ منافق ھے، ۔[151]

دعا قبول ھونے کا یقین نہ رکھنا

گزشتہ صفحات میں سوء ظن اور بد گمانی کے سلسلہ میں وضاحت ھوچکی ھے۔

نماز میں تاخیر کرنا

نماز،مکمل عبادت، بندگی کا خوبصورت طریقہ اور پروردگار عالم کے سامنے خضوع و خشوع کا بہترین طریقہ ھے۔

نماز کے سلسلہ میں قرآنی آیات اور روایات میں بہت سے اھم حقائق کی طرف اشارہ کیا گیا ھے، یھاں جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جارھا ھے۔

نماز، انسان کو فحشاء ومنکر (برائیوں) سے روکتی ھے۔ نماز کا قائم کرنا مرد مومن کی نشانی ھے۔ تمام انبیاء علیھم السلام نماز کو برپا کرنے والے تھے۔ انبیاء علیھم السلام اپنے اھل خاندان کو نمازقائم کرنے کی دعوت دیتے تھے۔

تمام نمازوں کی پابندی کرنا واجب فرائض ھے۔بے نماز ی، رحمت خدا سے محروم ھے اور شفاعت کرنے والوں کی شفاعت اس کو نصیب نہ ھوگی۔ نماز، قوانین دین کی عظمت،طریقہ خوشنودی خدااور انبیاء علیھم السلام کا واضح راستہ ھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد نمازسب سے پھلی چیز ھے۔ ھر چیز کے لئے عظمت وشرف ھے دین کا شرف و عظمت نماز ھے۔ نماز، شیطان کے مقابلہ میں بہترین قلعہ ھے۔ نماز باعث نزول رحمت ھے۔ خداوندعالم کا سب سے بہترین و پسندیدہ عمل نماز ھے۔ نماز ، پیغمبروں کی آخری وصیت و سفارش ھے۔ نماز، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا نور چشم ھے۔نماز،انسان کو تقویٰ (الٰھی) سے نزدیک کرنے والی ھے۔ نماز، معرفت کے بعد سب سے اعلیٰ عمل ھے۔ نماز دین کا ستون ھے۔ نماز کو تمام تر شرائط کے ساتھ پڑھنا، باعث بخشش ھے۔ قیامت میں سب سے پھلے جس چیز کے بارے میں سوال کیا جائے گا وہ نماز ھے۔ خداوندعالم روز قیامت جس چیز کو سب سے پھلے دیکھے گا وہ نماز ھے۔ جس عمل کا سب سے پھلے حساب لےا جائے گا وہ نماز ھے۔ نماز کے ذریعہ انسان تکبر و غرورسے پاک ھوجاتا ھے۔ تقویٰ الٰھی اور پارسائی نیز گناھوں سے پرھیز کے ذریعہ ھی نمازقبول ھوسکتی ھے۔اول وقت نماز پڑھنے کی فضیلت، دنیا پر آخرت کی فضیلت کی طرح ھے۔ اول وقت نماز پڑھنے کی فضیلت، (آخری وقت کے مقابلہ میں) مال و اولاد سے بہتر ھے۔ نماز نہ پڑھنے والا شخص (گویا) کافر ھے۔ نماز نہ پڑھنے والا مرنے کے بعد یھود یا نصاری یا مجوس کی صف میں ھوگا۔ نماز کو سُبک اور ھلکا سمجھنے والا ؛ خدا و رسول کی نظر میں مردود ھے۔

نماز کا ترک کرنے، نماز کو ضایع کرنے،نماز کو سُبک سمجھنے اور نماز میں تاخیر کرنے سے دعا قبول نھیں ھوتی۔

نیکی اور صدقہ کا ترک کرنا

لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا اور غریبوں و محتاجوں کو صدقہ دینا؛ خوشنودی خدا اور رضاء الٰھی کا سبب نیز نزول رحمت اور باعث استجابت دعا ھے۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ھے:

”الصَّدَقَةُ تَمْنَعُ سَبْعِینَ نَوْعاً مِن اٴَنْواعِ البَلاءِ اٴَہْوَنُہَا الجُذامُ وَالبَرَصُ“[152]

”صدقہ دینے سے ستّر بلائیں دور ھوتی ھیں، جن میں سے سب سے کم جذام وبرص ھے“۔

نیز آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے: صدقہ دیا کرو، اور اپنے بیماروں کا علاج صدقہ سے کیا کرو، بے شک صدقہ پریشانیوں اور بیماریوں کو دفع کرتا ھے، صدقہ دینے سے تمھاری عمر اور نیکوں میں برکت ھوتی ھے۔[153]

صدقہ کے سلسلہ میں ایک عجیب و غریب واقعہ

جناب موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا ایک عابد تیس سال سے اولاد طلب کررھا تھا، لیکن اس کی دعا قبول نھیں ھوتی تھی، بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے ایک نبی کی عبادت گاہ میں گیا، او رکھا: اے پیغمبر خدا! آپ میرے لئے خدا سے دعا کریں تاکہ وہ مجھے اولاد عطا کردے، میں تیس سال سے اولاد کی لئے دعا کررھا ھوں لیکن میری دعا قبول نھیں ھورھی ھے۔

یہ سن کر نبی اللہ نے دعا کی اور کھا: اے عابد! میری دعا قبول ھوگئی ھے، خدا تمھیں بہت جلد ھی فرزند عطا کرے گا، لیکن قضاء الٰھی یہ ھے کہ وہ تمھارا بیٹا شب زفاف میں مرجائے گا!!

یہ سن کر عابد وھاں سے اٹھا اورگھر جاکر اپنی بیوی سے واقعہ بیان کیا، واقعہ سن کر بیوی نے کھا: ھم نے پیغمبر خدا کے ذریعہ سے ایک دعا چاھی تاکہ اس کے ذریعہ دنیا میں چین وسکون سے رھیں، لیکن جب اس کی جوانی کا عالم ھوگا چین وسکون کے بجائے ھم اس کے غم میں داغدار ھوجائیں گے، بھر حال قضائے الٰھی پر راضی رھنا چاہئے۔ یہ سن کر شوھر نے کھا: اب ھم دونوں بوڑھے ھوچکے ھیں شاید اس کی جوانی سے پھلے پھلے ھمارا خاتمہ ھوجائے اور ھمیں اس کا غم دیکھنا نہ پڑے۔

چنانچہ نو ماہ بعد اس کے یھاں ایک حسین و جمیل لڑکا پیدا ھوا، اس کی پرورش میں بہت زیادہ زحمتیں اٹھائیں یھاں تک کہ اس کی جوانی کا عالم آگیا، اس نے اپنے ماں باپ سے شادی کے لئے کھا، لیکن ماں باپ نے اس کی شادی کرنے میں تاخیر کی، تاکہ اس کی زندگی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں؛ لیکن آخر کار اس کی شادی معین کرنا پڑی، شبِ زفاف اس کی موت کے منتظر تھے کہ کب موت کا پیغام آئے اور ان کے فرزند نازنین کو چھین لے جائے، دولھا و دلھن نے رات صحیح و سالم گزاری، اور اسی طرح ایک ہفتہ گزر گیا اوروہ لوگ صحیح وسالم رھے۔ ماں باپ خوشی خوشی اس نبی کے پاس آئے، اور کھا: آپ نے ھمارے لئے فرزند کی دعا فرمائی تھی اور کھاتھا کہ وہ شب زفاف مرجائے گا، لیکن اس کی شادی کو ایک ہفتہ گزر چکا ھے لیکن (الحمدللہ) وہ صحیح وسالم موجود ھے!

یہ سن کر ان پیغمبرنے کھا: واقعاً تعجب ھے! میں نے اپنی طرف سے کوئی بات نھیں کھی تھی بلکہ کلام خدا سے الھام لیتے ھوئے کھا تھا، اب یہ دیکھنا ھوگا کہ آپ کے فرزند نے کونسا اھم کام کیا ھے جس کی وجہ سے خداوندعالم نے اس کی موت ٹال دی ھے۔ اس موقع پر جبرئیل امین نازل ھوئے اور کھا: آپ کو خدا سلام پھنچاتا ھے اور فرماتا ھے: اس فرزندکے ماں باپ سے کہہ دیجئے کہ حکم خدا وھی تھا جوتمھاری زبان پر جاری ھوا تھا، لیکن اس جوان نے ایسانیک کام کیا کہ میں نے اس کی عمر میں اضافہ کردیاھے، اور وہ نیکی یہ ھے کہ وہ جوان شب زفاف جب کھانا کھانے میں مشغول ھوا تو ایک محتاج بوڑھا اس کے دروازہ پر آیا اور کھانا مانگا، اس جوان نے اپنا مخصوص کھانا اس کو دیدیا، اس بوڑھے مرد نے وہ خوش ذائقہ کھانا کھایا تو میری بارگاہ میں دست دعا بلند کردئے اور کھا: پروردگارا! اس کی عمر میں اضافہ فرمادے۔

میں تمام جھان کا خلق کرنے والا ھوں اس بوڑھے محتاج کی دعا کی برکت سے اس کی عمر اسّی سال بڑھادی، تاکہ دنیا والے یہ جان لیں کہ مجھ سے معاملہ کرنے والوں کو کبھی بھی کوئی نقصان نھیں ھوتا اور میرے لئے کئے گئے اعمال کا اجر ضایع و برباد نھیں ھوتا۔[154]

گالی دینااور نازیبا الفاظ کا استعمال کرنا

انسان اپنی زبان سے حق بات، مفید گفتگو، لوگوں کی ھدایت اور لوگوں کی مشکلات دور کرکے بہترین ثواب اور عظیم فائدہ اٹھا سکتا ھے،لیکن اسی زبان سے بے ھودہ اور غیر منطقی باتوں کے ذریعہ نیز غیبت، تھمت، (غلط) شھرت، نا حق گفتگو، گالی اور نازیبا الفاظ استعمال کرکے عظیم گناھوں میں پھنس جاتا ھے، جس کی بنا پر اس کو درد ناک عذاب بھگتنا پڑے گا۔

علماء دین فرماتے ھیں: زبان اگرچہ چھوٹی ھوتی ھے لیکن اس کا گناہ عظیم ھوتا ھے۔

حضرت رسول خدا (ص) کا فرمان ھے:

”إِنَّ اٴَکْثَرَ خَطَایَا ابْنِ آدَمَ فِی لِسَانِہِ“[155]

”انسان کی زیادہ خطائیں زبان سے ھوتی ھیں“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے تھے: انسان کے اعمال میں شیطان کی شرکت کی نشانی یہ ھے کہ انسان گالیاں بکتا ھو، اور اس چیز کا کوئی ڈر نہ ھو کہ وہ کیا کہہ رھا ھے اور اس کے بارے میں دوسرے لوگ کیا کہہ رھے ھیں۔[156]

نیز حضرت امام صادق علیہ السلام کا فرمان ھے:

”البَذَاءُ مِنَ الجَفَاءُ فِی النَّارِ“ [157]

”گالی دینا باطل ھے اور باطل کا ٹھکانہ جھنم ھے“۔

بعض روایات میں وارد ھوا ھے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو گالی دے ، خدا اس کے رزق سے برکت ختم کردیتا ھے،اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ھے، اور اس کی زندگی کے سازو سامان کو نابود کردیتا ھے۔[158]



[1] دریائے ”خزر“ ایران کا ایک سمندر ھے،۔ جزر ومد : دریا کے پانی میں ھونے والی تبدیلی کو کھا جاتا ھے ، شب وروز میں دریاکا پانی ایک مرتبہ نیچے جاتا ھے اس کو ” جزر“ کھا جاتاھے اور ایک مرتبہ اوپر آتا ھے جس کو ”مد“ کھا جاتاھے ، اور پانی میں یہ تبدیلی سورج اور چاندکی قوہٴ جاذبہ کی وجہ سے ھوتی ھے۔(مترجم)

اس کی مچھلیوں کو مر جانا چاہئے اور اس کے چاروں ساحلوں کو گندگی سے بھر جانا چاہئے، اور جانوروں کا وھاں وجود نھیں ھونا چاہئے۔ لیکن ایساکیوں نھیں ھے؟

[2] نشانہ ھای از او ص ۱۵۱۔

[3] سورہ فاطر آیت ۱۰۔

[4] خصال :ج۲ص۶۳۹،من روی اٴن للہ عز وجل ۔۔۔،حدیث۱۴؛ بحارالانوار :ج۵۴ص ۳۲۰باب2، حدیث۲۔

[5] اسلام وھیئت ص444.

[6] اسلام وھیئت ص ۴۴۴۔

[7] اسلام وھیئت ص ۴۶۰۔

[8] نوری سال سے اتنی مسافت مراد یہ ھے جتنا نور ایک سال کی مدت میں دوری کو طے کرپائے گا، جبکہ نور ایک سیکنڈ میں تین لاکھ کلو میٹر کی رفتار سے چلتا ھے ۔

[9] اسلام وھیئت ص ۴۴۹۔

[10] کافی : ج۱ ص۱۱۸،باب معانی الاسماء۔۔۔،حدیث۹۔

[11] عوالی اللآلی:ج۴ص۱۳۲ ،حدیث ۲۲۷؛بحارالانوار :ج۶۸ ص ۲۳،باب۶۱،حدیث۱۔

[12] سوره آل عمراان، آیت 29.

[13] سورہ انعام آیت ۵۹۔

[14] سورہ نحل آیت۱۹۔

[15] سورہ سباٴ آیت۲۔

[16] دانستی ھای جھان علم، ص ۱۹۰۔

[17] المیزان جلد اول ص ۴۸۷۔

[18] تفسیر ابو الفتوح، جلد اول ص ۳۳۱

[19] کشف الاسرار جلد اول ص ۷۰۳۔

[20] سورہ مائدہ آیت ۱۵۔

[21] سورہ مائدہ آیت ۴۴۔

[22] اقبال :۳۴۹،بحارالانوار :ج۹۵ص۲۲۶،باب۲،اعمال خصوص یوم العرفہ ۔

[23] سورہ بقرہ آیت ۲۷۹۔”فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَاٴْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنْ اللهِ وَرَسُولِہِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُئُوسُ اٴَمْوَالِکُمْ لاَتَظْلِمُونَ وَلاَتُظْلَمُونَ۔“ ترجمہ:”اگر تم نے ایسا نہ کیا توخدا اور رسول سے جنگ کرنے کے لئے تیار ھوجاؤاور اگر توبہ کرلو تو اصل مال تمھارا ھی ھے نہ تم ظلم کروگے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا“۔

[24] سورہ نساء آیت ۱۰۔

[25] اصول کافی ج۲ ص ۲۷۶، باب الکبائر حدیث اول۔

[26] سورہ نساء آیت ۳۱۔

[27] عیون اخبار الرضا ج۲ ص ۱۲۵، باب ۳۵ ( ما کتبہ الرضا للمامون۔۔۔)؛ حدیث اول۔

[28] کافی ج ۲ باب الذنوب؛ بحار الانوار ج۷۳ باب۳۷، ۱۳۷، ۱۳۸، ۱۴۲ و جلد ۷۹ ابو اب المعاصی و الکبائر؛ میزان الحکمہ ج۱۸۷۹۴ الذنب۔

[29] سورہ شوریٰ آیت ۳۰۔

[30] کافی ج۲ص۲۶۹،باب الذنوب ،حدیث۳۔

[31] کافی ج۲ص۴۶۶،باب الذنوب ،حدیث۱۶۔

[32] کافی ج۲ص۲۷۵،باب الذنوب ،حدیث۲۶۔

[33] کافی ج۲ص۲۷۹،باب الکبائر،حدیث۹۔

[34] ائمہ علیھم السلام سے نقل شدہ بعض روایات کا مضمون اس مطلب کی طرف اشارہ کرتا ھے کہ مومن زندہ ھے اور کافر مردہ۔

[35] ” إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاٴَنصَابُ وَالْاٴَزْلاَمُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ “ سورہ مائدہ آیت۹۰(ایمان والو!شراب ،جوا،بت،پانسہ یہ سب گندے شیطانی اعمال ھے لہٰذا ان سے پرھیز کروتا کہ کامیابی حاصل کرسکو۔)

[36] یَسْاٴَلُونَکَ عَنْ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیہِمَا إِثْمٌ کَبِیرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُہُمَا اٴَکْبَرُ مِنْ نَفْعِہِمَا ۔۔۔“سورہ بقرہ آیت ۲۱۹۔ترجمہ:”یہ آپ سے شراب اور جوے کے بارے میںسوال کرتے ھیں تو کھے دیجئے ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ھے اور بہت سے فائدے بھی ھے لیکن ان کا گناہ فائدہ سے کھیں زیاد ہ بڑا ھے۔۔“۔۔

[37] وسائل الشیعہ ج۲۵، ابواب پینے والی حرام چیزیں، باب ۹ حدیث ۳۱۹۴۷وغیرہ۔

[38] وسائل الشیعہ ج۲۵، ابواب پینے والی حرام چیزیں، باب ۱۲ حدیث ۳۲۰۰۳۔

[39] وسائل الشیعہ ج۲۵، ابواب پینے والی حرام چیزیں، باب ۱۲ حدیث ۳۲۰۰۹۔

[40] وسائل الشیعہ ج۲۵، ابواب پینے والی حرام چیزیں، باب ۱۲ حدیث ۳۱۹۹۲۷۔

[41] وسائل الشیعہ ج۲۵، ابواب پینے والی حرام چیزیں، باب ۱۲ حدیث ۳۱۹۸۰۔

[42] اصول کافی، جلد اول ص ۴۰۳، باب ان الخمر راٴس کل اثم و شرّ، حدیث۸۔

[43] وسائل الشیعہ ج ۱۷ ابو ما یکتسب بہ ۔۔۔ باب ۲۵۔

[44] کافی ج۲ص۳۵۴،باب طلب عثرات الموٴمنین ۔۔۔،حدیث۱۔

[45] کافی ج۲ص۳۵۴،باب تتبع عثرات الموٴمنین ۔۔۔،حدیث۲۔

[46] کافی ج۲ص۳۷۴،باب مجالسة اٴھل المعاصی ،حدیث۱۔

[47] کافی ج۲ص۳۷۴،باب مجالسة اٴھل المعاصی ،حدیث۲۔

[48] کافی ج۲ص۳۷۷،باب مجالسة اٴھل المعاصی ،حدیث۱۰۔

[49] کافی ج۲ص۳۷۹،باب مجالسة اٴھل المعاصی ،حدیث۱۴۔

[50] محجة البیضاء ج۳ص ۳۸۸، کتاب آداب الصحبة و المباشرة۔

[51] معانی الاخبار ص ۱۶۹۔

[52] سورہ قصص آیت ۷۶۔

[53] سورہ شوریٰ آیت ۲۷۔

[54] سورہ مریم آیت ۲۸ ۔

[55] بحارالانوار :ج۷۲ ص ۲۷۳،باب۷۰،حدیث۱۔

[56] سورہ بقرہ:آیت ۱۴۔

[57] کافی ج۲ص۳۵۱،باب من آذی المسلمین ۔۔۔،حدیث۲۔

[58] کافی ج۲ص۳۵۱،باب من آذی المسلمین ۔۔۔،حدیث۶۔

[59] سورہ حجرات آیت ۱۱۔

[60] سورہ نحل آیت۹۱۔

[61] سورہ بقرہ آیت ۲۷۔

[62] مائدہ آیت اول۔

[63] سورہ اسراء آیت ۳۴۔

[64] کافی ج۲ص۲۹۰،باب فی اصول الکفر ۔۔۔،حدیث۸؛گناھان کبیر:۳۷۲۱۔

[65] کافی ج۲ص۲۹۰،باب المومن وعلاماتہ ۔۔۔،حدیث۲۸؛ تھوڑے اختلاف کے ساتھ؛ وگناھان کبیر:۱ص۳۷۲۔

[66] سورہ انعام آیت ۱۵۱۔

[67] بحارالانوار :ج۶۸ ص۳۲۹ ،باب۸۱،حدیث۱۔

[68] بحارالانوار :ج۶۸ ص ۳۳۶ ،باب۸۱،حدیث۹۔

[69] بحارالانوار :ج۶۸ ص ۳۳۶ ،باب۸۱،حدیث۲۰۔

[70] اصول کافی ج۲ ص باب الخوف والرجاء حدیث۸۔

[71] جھوٹ سے متعلق تفصیلی احادیث کے لئے درج ذیل کتابوں میں رجوع فرمائیں:

اصول کافی ج۲ ص۳۳۸، وسائل الشیعہ ج۱۲ص ۲۴۳، باب ۱۳۸؛ مستدرک الوسائل ج۹ ص ۸۳، باب ۱۲۰،و۔۔۔ ؛ بحار الانوار ج۶۹، ص ۲۳۲ باب ۱۱۴۔

[72] سورہ یٰس آیت ۱۵۔

[73] سورہ آل عمران آیت ۶۱۔

[74] سورہ زمر آیت ۳۔

[75] مستدرک الوسائل :ج۱۷ص۴۱۶،باب ۶ حدیث ۲۱۷۱۴ ۔

[76] بحارالانوار :ج۶۹ ص ۲۵۹ ،باب۱۱۴،حدیث۲۵۔

[77] بحارالانوار :ج۶۹ ص ۲۵۹ ،باب۱۱۴،حدیث۲۱۔

[78] بحارالانوار :ج۶۹ ص ۲۶۲ ،باب۱۱۴،حدیث۴۰۔

[79] کافی ج۲ص۳۴۰،باب الکذب ، حدیث ۱۱ ؛ بحارالانوار :ج۶۹ ص ۲۴۹ ،باب۱۱۴،حدیث۱۴۔

[80] تو حید صدوق:۷۲،باب التوحید ونفی التشبیہ۔

[81] بحارالانوار :ج۶۹ ص ۲۶۱ ،باب۱۱۴،حدیث۳۷۔

[82] بحارالانوار :ج۶۹ ص ۲۶۱ ،باب۱۱۴،حدیث۳۸۔

[83] جامع الاخبار ص ۱۷۳۔

[84] سورہ مائدہ آیات۴۴،۴۵،۴۷۔

[85] گناھان کبیرہ ج۲ ص ۳۶۵۔

[86] وسائل الشیعہ ج۹ص ۱۲ باب اول حدیث ۱۱۳۹۲۔

[87] بحارالانوار :ج۲۹ ص ۲۲۳ ، حدیث۸۔

[88] گناھان کبیرہ ج۲ص۲۲۳۔

[89] سورہ مطففین آیت ۱۔۷۔

[90] گناھان کبیرہ ج اول ص ۴۱۸۔

[91] سورہ انبیاء آیت ۴۷۔

[92] سورہ آل عمران آیت۱۳۴۔

[93] سورہ ابراھیم آیت ۷۔

[94] معانی الاخبار ص۲۶۹۔

[95] محجة البیضاء ج۸ص۱۰۶ کتاب النیة و الصدق و الاخلاص۔

[96] محجة البیضاء ج۸ص۱۰۴ کتاب النیة و الصدق و الاخلاص۔

[97] ثواب الاعمال :۲۶۹عقاب من کان ذا وجھین ۔۔۔،قلب سلیم :۶۱۔

[98] سور ہ حجرات آیت ۱۲۔

[99] اصول کافی ج۲ص ۷۱، باب حسن الظن بالله ۔۔۔ حدیث ۲؛ بحار الانوار ج۶۷ص۲۶۵، باب ۵۹، حدیث ۱۴۔

[100] بحار الانوار ج۶۷ص۲۶۵، باب ۵۹، ذیل حدیث ۱۴۔

[101] کافی ج۲ص۳۰۱،باب المراء والخصومة۔۔۔ ، حدیث ۵۔

[102] غر ر الحکم :۴۶۱حدیث ۱۰۵۷۰،میزان الحکمة :۸۷۴۲،الجھل ،حدیث ۲۸۵۹۔

[103] غر ر الحکم :۴۶۲حدیث ۱۰۵۷۸،میزان الحکمة :۳۵۰۸۷،العداوة ،حدیث ۱۲۰۳۰۔

[104] اختصاص :۲۳۰؛ میزان الحکمة :۳۵۰۸۷،العدواة،حدیث ۱۲۰۳۷۔

[105] کافی ج۲ص۳۱۳،باب العجب ، حدیث ۲۔

[106] کافی ج۲ص۳۱۳،باب العجب ، حدیث ۵۔

[107] کافی ج۲ص۳۱۴،باب العجب ، حدیث ۸۔

[108] سورہ ماعون آیت ۴۔۶۔

[109] محجّةالبیضاء ج۶،ص۱۳۹۔۱۴۱،کتاب ذم الجاہ والریا۔

[110] محجّةالبیضاء ج۶،ص۱۳۹۔۱۴۱،کتاب ذم الجاہ والریا۔

[111] حجّةالبیضاء ج۶،ص۱۳۹۔۱۴۱،کتاب ذم الجاہ والریا۔

[112] محجّةالبیضاء ج۶،ص۱۳۹۔۱۴۱،کتاب ذم الجاہ والریا۔

[113] محجّةالبیضاء ج۶،ص۱۳۹۔۱۴۱،کتاب ذم الجاہ والریا۔

[114] محجّةالبیضاء ج۶،ص۱۳۹۔۱۴۱،کتاب ذم الجاہ والریا۔

[115] سورہ نحل آیت ۲۳۔

[116] سورہ نحل آیت ۲۹۔

[117] بحارالانوار :ج۷۰ ص ۲۱۳ ،باب۱۳۰،حدیث۳۔

[118] کافی ج۲ص۳۱۰،باب الکبر ، حدیث ۶ ۔

[119] کافی ج۲ص۳۱۰،باب الکبر ، حدیث۱۰ ۔

[120] کافی ج۲ص۳۱۰،باب الکبر ، حدیث۱۲ ۔

[121] مجموعہٴ ورّام :ج۲۴۳۱،باب محاسبة النفس ۔

[122] سورہ بقرہ آیت ۲۱۸۔

[123] سفینة البحار ج۳ص۳۱۹، فی الخوف و الرجاء

[124] غر ر الحکم :۲۶۶ ، ذم الغفلة، ۵۷۵۰؛ میزان الحکمہ :۹ ۴۲۶۸، الغرور ، حدیث ۱۴۸۳۱۔

[125] مجموعہ ٴ ورام :ج۲ص۷۲؛میزان الحکمہ :۹ ۴۲۷۲، الغرور ، حدیث ۱۴۸۵۷۔

[126] مکارم الاٴخلاق :۴۵۱، الفصل الرابع ؛میزان الحکمہ :۹ ۴۲۷۲، الغرور ، حدیث ۱۴۸۵۸۔

[127] سورہ نساء آیت ۳۷۔

[128] وسائل الشیعہ :ج۹ص۴۵۲،باب عدم جواز المن ۔۔۔ ،حدیث۱۲۴۸۱۔

[129] بحارالانوار :ج۷۰ ص ۳۰۲ ،باب۱۳۶،حدیث۱۳۔

[130] بحارالانوار :ج۷۰ ص ۳۰۱ ،باب۱۳۶،حدیث۹۔

[131] بحارالانوار :ج۷۰ ص 300 ،باب۱۳۶،حدیث1.

[132] کافی ج۴ص۴۵،باب البخل والشح، حدیث ۴ ۔

[133] امالی صدوق ص۲۰،حدیث ۴۔

[134] بحارالانوار ج۷۰،ص ۱۶۲ ،باب۱۲۸،حدیث۱۰۔

[135] بحارالانوار ج۷۰،ص۱۶۳ ،باب۱۲۸،حدیث۱۷۔

[136] مصباح الشریعہ ص ۲۲۔

[137] بحارالانوار :ج۷۰ ص ۱۷۱ ،باب۱۲۹،حدیث۱۰۔

[138] بحارالانوار :ج۷۰ ص ۱۷۱ ،باب۱۲۹،حدیث۱۲۔

[139] )بحارالانوار :ج۶۹ ص ۱۹۹ ،باب۱۱۰۵،میزان الحکمہ ج۷ص۳۳۱۰، الطمع ،حدیث۱۱۱۸۸۔

[140] خصال :ج ۱ ص۱۲۱ حدیث ۱۱۳ ؛میزان الحکمہ :۷ ۳۳۱۰، الطمع، حدیث ۱۱۱۹۷۔

[141] مجموعہ ٴ ورام :ج۱ص۴۹، باب طمع ؛میزان الحکمہ :۷ ۳۳۱۲، الطمع، حدیث ۱۱۲۱۳۔

[142] کافی ج۲ص۳۰۶،باب الحسد ، حدیث ۲ ۔

[143] کافی ج۲ص۳۰۷،باب الحسد ، حدیث ۵ ۔

[144] بحارالانوار :ج۷۰ ص ۲۵۲ ،باب۱۳۱،حدیث۱۴۔

[145] بحارالانوار :ج۷۰ ص ۲۵۲ ،باب۱۳۱،حدیث۲۵۔

[146] سورہ فتح آیت ۲۹۔

[147] سورہ ممتحنہ آیت ۱۔

[148] سورہ مجادلہ آیت ۲۲۔

[149] بحارالانوار :ج۶۹ ص ۱۷۵ ،باب۱۰۳،حدیث۱۔

[150] اختصاص مفید :۲۲۸۔

[151] مصباح لشریعہ ص۲۵۔

[152] کنز العمال:۱۵۹۸۲؛ میزان الحکمہ :۷ ۳۰۳۶، الصدقة ، حدیث ۱۰۳۵۴۔

[153] کنز العمال:۱۶۱۱۳؛ میزان الحکمہ :۷ ۳۰۳۸، الصدقة ، حدیث ۱۰۳۶۰۔

[154] الستین الجامع ص ۴۴۔

[155] کنز العمال:۵۴۹۳۔

[156] کافی ج۲ص۳۲۳،باب البذاء ، حدیث۱۔

[157] کافی ج۲ص۳۲۵،باب البذاء ، حدیث۹۔

[158] کافی ج۲ص۳۲۵،باب البذاء ، حدیث۱۳۔

No comments: