Tuesday, April 28, 2009

توبہ آغوش رحمت۷

نیکیوں سے مزین ھونا اور برائیوں سے پرھیز کرنا (۲)

یتیموں پر احسان

قرآن مجید نے تقریباً ۱۸ /مقامات پر یتیم سے محبت اور اس کے مال کی حفاظت اور اس کی تربیت و ترقی کی سفارش کی ھے۔

(( ۔۔۔ وَیَسْاٴَلُونَکَ عَنْ الْیَتَامَی قُلْ إِصْلاَحٌ لَھم خَیْرٌ وَإِنْ تُخَالِطُوھم فَإِخْوَانُکُمْ وَاللهُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنْ الْمُصْلِحِ وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَاٴَعْنَتَکُمْ إِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ))۔[128]

اور یہ لوگ تم سے یتیموں کے بارے میں سوال کرتے ھیں تو کہہ دوکہ ان کے حال کی اصلاح بھترین بات ھے اور اگر ان سے مل جل کر رھو تو یہ بھی تمھارے بھائی ھیں اور اللہ بھتر جانتا ھے کہ مصلح کون ھے اور مفسد کون ھے اگر وہ چاھتا تو تمھیں مصیبت میں ڈال دیتا لیکن وہ صاحب عزت بھی ھے اور صاحب حکمت بھی ھے“۔

((وَآتُوا الْیَتَامَی اٴَمْوَالَھم وَلاَتَتَبَدَّلُوا الْخَبِیثَ بِالطَّیِّبِ وَلاَتَاٴْکُلُوا اٴَمْوَالَھم إِلَی اٴَمْوَالِکُمْ إِنَّہُ کَانَ حُوبًا کَبِیرًا))۔[129]

اور یتیموں کو ان کامال دےدو اور ان کے مال کو اپنے مال سے نہ بدلو اور ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھاجاوٴ کہ یہ گناہ کبیرہ ھے“۔

(( إِنَّ الَّذِینَ یَاٴْکُلُونَ اٴَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْمًا إِنَّمَا یَاٴْکُلُونَ فِی بُطُونِھم نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیرًا))۔[130]

جو لوگ ظالمانہ انداز سے یتیموں کا مال کھا جاتے ھیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھر رھے ھیں اور عنقریب واصل جہنم ھوں گے“۔

(( ۔۔۔وَاٴَنْ تَقُومُوا لِلْیَتَامَی بِالْقِسْطِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَیْرٍ فَإِنَّ اللهَ کَانَ بِہِ عَلِیمًا))۔[131]

۔۔۔اور ان کمزور بچوں کے بارے میں انصاف کے ساتھ قیام کرو اور جو بھی تم کا ر خیر کروگے خدا س کا بخوبی جاننے والا ھے“۔

((وَلاَتَقْرَبُوا مَالَ الْیَتِیمِ إِلاَّ بِالَّتِی ہِیَ اٴَحْسَنُ حَتَّی یَبْلُغَ اٴَشُدَّہُ۔۔۔))۔[132]

اور خبردار مال یتیم کے قریب بھی نہ جانا مگر اس طریقہ سے جو بھترین طریقہ ھو یھاں تک کہ وہ توانائی کی عمر تک پہنچ جائیں۔۔۔“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرماتے ھیں:

مَنْ قَبَضَ یَتیماً مِنْ بَیْنِ الْمُسْلِمینَ اِلیٰ طَعامِہِ وَشَرابِہِ ،اَدْخَلَہُ اللّٰہُ الْجَنَّةَ اَلْبَتَّةَ اِلا اَنْ یَعْمَلَ ذَنْباً لَا یَغْفَرُ“۔[133]

جو شخص کسی مسلمان یتیم بچہ کی پرورش اور خرچ کی ذمہ داری لے لے تو یقینا خداوندعالم اس پر جنت واجب کردیتا ھے، مگر یہ کہ غیر قابل بخشش گناہ کا مرتکب ھوجائے“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ھے:

اِنَّ فِی الْجَنَّةِ داراً یُقالُ لَھا دارُ الْفَرَحِ ،لَا یدْخُلُھا اِلاَّ مَنْ فَرَّحَ یَتامَی الْمُوٴمِنینَ“۔[134]

بے شک جنت میں ایک مکان ھے جس کو ”دار الفرح“ (یعنی خوشیوں کا گھر) کھا جاتا ھے، اس میں صرف وھی مومن داخل ھوسکتے ھیں جنھوں نے یتیم مومن بچوں کو خوشحال کیا ھو“۔

اَتَی النَّبِیَ رَجُلٌ یَشْکُو قَسْوَةَ قَلْبِہِ ،قالَ:اَتُحِبُّ اَنْ یَلینَ قَلْبُکَ وَتُدْرِکَ حاجَتَکَ؟اِرْحَمِ الْیَتیمَ ، وَامْسَحْ رَاٴْسَہُ،وَاَطْعِمْہُ مِنْ طَعامِکَ،یَلِنْ قَلْبُکَ ،وَتُدْرِکَ حاجَتَکَ“۔[135]

ایک شخص پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ھوا، اور اپنی سنگدلی کی شکایت کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اگرتم چاھتے ھو کہ تمھارا دل نرم ھوجائے، اور اپنی مراد حاصل کرلو؟ تم یتیم بچوں پر مھربانی کرو، ان کے سرپر دست شفقت پھیرو، ان کو کھانا کھلاؤ، تو تمھارا دل نرم ھوجائے گااور تمھیں تمھاری مرادیں مل جائےں گی“۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

مامِنْ مُوٴمِنٍ وَلَا مُوٴمِنَةٍ یَضَعُ یَدَہُ عَلیٰ رَاٴْسِ یَتیمٍ تَرَحُّماً لَہُ اِلّا کَتَبَ اللّٰہُ لَہُ بِکُلِّ شَعْرَةٍ مَرَّتْ یَدُہُ عَلَیْھَا حَسَنَةً“۔[136]

جب کوئی مومن کسی یتیم کے سر پر دست نوازش پھیرتا ھے تو خداوندعالم اس کے ھاتھ کے نیچے گزرنے والے ھر بال کے بدلہ نیکی اور حسنہ لکھ دیتا ھے“۔

مسکینوں پر احسان کرنا

مسکین یعنی وہ شخص جو زمین گیراورلاچار ھوگیا ھو، اور تھی دستی اور غربت کا شکار ھوگیا ھو، جس کے لئے درآمد کا کا کوئی طریقہ باقی نہ رہ گیا ھو۔

ھر مومن پر خدا کی طرف سے ذمہ داری اور وظیفہ ھے کہ اپنے مال سے اس کی مدد کرے، اور اس کی عزت کو محفوظ رکھتے ھوئے اس کی مشکلات کو دور کرنے کوشش کرے۔

قرآن مجید نے مساکین پر توجہ کو واجب قرار دیا ھے، اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کو عبادت خدا شمار کیا ھے، کیونکہ خداوندعالم مساکین پر خاص توجہ، اور ان کے چین و سکون کا راستہ ھموار کئے جانے کو پسند کرتا ھے۔

مساکین کی نسبت لاپرواھی کرنا بھت بُرا ھے اور قرآن مجید کے فرمان کے مطابق روز قیامت ایسا شخص عذاب الٰھی میں گرفتار ھوگا۔

(( وَآتِ ذَا الْقُرْبَی حَقَّہُ وَالْمِسْکِینَ وَابْنَ السَّبِیلِ وَلاَتُبَذِّرْ تَبْذِیرًا))۔[137]

اور دیکھو قرابتداروں ،مسکین اور غربت زدہ مسافر کو اس کاحق دےدو اور خبردار اسراف سے کام نہ لینا“۔

(( ۔۔۔ وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینَ وَابْنَ السَّبِیلِ وَالسَّائِلِینَ وَفِی الرِّقَابِ۔۔۔))۔[138]

۔۔۔اور محبت خدا میں قرابتداروں ،یتیموں ،مسکینوں ،غربت زدہ مسافروں ، سوال کرنے والوں اور غلاموں کی آزادی کے لئے مال دے۔۔۔“۔

(( إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاکِینِ وَالْعَامِلِینَ عَلَیْھا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُھم وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِینَ وَفِی سَبِیلِ اللهِ وَاِبْنِ السَّبِیلِ فَرِیضَةً مِنْ اللهِ وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ))۔[139]

صدقات و خیرات بس فقراء ،مساکین اور ان کے کام کرنے والے اور جن کی تالیف قلب کی جاتی ھے اور غلاموں کی گردن کی آزادی میں اور قرضداروں کے لئے راہ خدا میں اور غربت زدہ مسافروں کے لئے ھیں یہ اللہ کی طرف سے فریضہ ھے اور اللہ خوب جاننے والاھے اور صاحب حکمت ھے“۔

مساکین کی نسبت بے توجھی اور ان کی مدد نہ کرنا نہ صرف یہ کہ آخرت کے عذاب کا باعث ھے بلکہ انسان کی زندگی میں بھی اس کے برے آثار ظاھر ھوتے ھیں۔

خداوندعالم نے سورہ ”ن و القلم“ آیات ۱۷ تا ۳۳ میں ان بھائیوں کی داستان کو بیان کیا ھے جن کو باپ کی میراث میں ایک بھت بڑا اور پھل دار باغ ملا، لیکن انھوں نے اپنے باپ کے برخلاف عمل کیا ان کا باپ غریب غرباء کا بھت خیال رکھتا تھا،انھوں نے باپ کی میراث ملتے ھی ایک میٹنگ کی اور یہ طے کیا کہ کل صبح جب باغ کے پھلوں کو اتارا جائے گا تو کسی بھی غریب و مسکین کی مدد نھیں کی جائے گی، اور باغ کے دروازہ کو بند کردیا جائے تاکہ کوئی غریب و مسکین آنے نہ پائے، لیکن ان کی اس شیطانی و پلید فکر کی وجہ سے بحکم خدا اسی رات بجلی گری اور پھلوں سے لدے ھوئے تمام باغ کو جلا ڈالا، اور اس سرسبز علاقے میں اس باغ کی ایک مٹھی راکھ کے علاوہ کچھ باقی نہ بچا۔

جیسے ھی وہ لوگ صبح صبح اپنے منصوبہ کے مطابق پھل اتارنے کے لئے باغ میں پہنچے تو باغ کی یہ عجیب و غریب حالت دیکھی تو ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے، اور فریاد بلند کی کہ افسوس !!ھمارے اوپر کہ ھم نے احکام الٰھی اور اس کے حدود سے تجاوز کیا اور اھل طغیان و تجاوز ھوگئے۔

قرآن مجید مشکلات نازل ھونے اورفقر و تنگدستی میں مبتلا ھونے کا باعث مساکین کی مدد نہ کرنے کو بیان کرتا ھے:

(( وَاٴَمَّا اِذَا مَا ابْتَلَاہُ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِزْقَہُ فَیَقُولُ رَبِّی اٴَھَانَنِ ۔ کَلَّابَلْ لَا تُکْرِمُونَ الْیَتِیمَ۔وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَیٰ طَعَامِ الْمِسْکِینِ۔ وَتَاٴْکُلُونَ التُّرَاثَ اٴَکْلاً لَّماً وَتُحِبُّونَ الّمَالَ حُبًّا جَمّاً))۔[140]

اورجب آزمائش کے لئے روزی کو تنگ کردیا توکہنے لگا کہ میرے پروردگار نے میری توھین کی ھے۔ایسا ھرگز نھیں ھے بلکہ تم یتیموں کا احترام نھیں کرتے ھو۔اور لوگوں کو مسکینوں کوکھانا کھانے پر آمادہ نھیں کرتے ھو اور میراث کے مال کو اکٹھا کر کے حلال وحرام سب کھاجاتے ھو۔اور مال دنیا کو بھت دوست رکھتے ھو“۔

قرآن مجید نے سورہ الحاقہ میں ایک گروہ کے لئے بھت سخت عذاب کے بارے میں بیان کیا ھے جن کے عذاب کے دو سبب بیان کئے ھیں:

۱۔ خدا پر ایمان نہ رکھنا۔

۲۔ مساکین کو کھانے کھلانے میںرغبت نہ رکھنا۔

آیات کا ترجمہ اس طرح ھے:

لیکن جس کا نامہ اعمال بائیں ھاتھ میں دیا جائے گا وہ کھے گا: ”اے کاش یہ نامہ اعمال مجھے نہ دیا جاتا۔ اور مجھے اپنا حساب نہ معلوم ھوتا۔ اے کاش اس موت ھی نے میرا فیصلہ کردیا ھوتا۔میرا مال بھی میرے کام نہ آیا۔ اور میری حکومت بھی برباد ھوگئی“۔ اب اسے پکڑو اور گرفتار کرلو۔ پھر اسے جہنم میں جھونک دو۔ پھر ایک ستر گز کی رسی میں اسے جکڑ لو۔ یہ خدائے عظیم پر ایمان نھیں رکھتا تھا۔ اور لوگوں کو مسکینوں کے کھلانے پر آمادہ نھیں کرتا تھا۔تو آج اس کا یھاں کوئی غمخوار نھیں ھے۔ اور نہ پیپ کے علاوہ کوئی غذا ھے۔ جسے گناھگاروں کے علاوہ کوئی نھیں کھاسکتا“۔[141]

قارئین کرام! واقعاً غرباء اورمساکین کی طرف توجہ کرنا اتنااھم ھے کہ جس سے غفلت کرنے والا خداوندعالم کی نظر میں قابل نفرت ھے اور روز قیامت سخت ترین عذاب کا حقدار ھوگا۔

جناب جبرئیل سے نقل ھوا ھے کہ فرمایا:

اَنا مِنَ الدُّنْیا اُحِبُّ ثَلاثَةَ اَشْیاءَ:اِرْشادَ الضّالِّ وَاِعانَةَ الْمَظْلومِ وَمَحَبَّةَ الْمَساکِینِ“۔[142]

میں دنیا کی تین چیزوں کو دوست رکھتا ھوں: راستہ بھٹکے ھوئے کی راہنمائی، مظلوم کی مدد اور مساکین کے ساتھ محبت“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

فَمَنْ واسا ھُمْ بِحَواشِی مالِہِ وَسَّعَ اللّٰہُ عَلَیْہِ جِنانَہُ وَاَنالَہُ غُفْرانْہُ وْرِضْوانَہُ۔۔۔[143]

جو شخص اپنے پاس جمع ھوئے مال سے مساکین کی مدد اور ان کی پریشانیوں کودور کرے،تو خداوندعالم اس کے لئے جنت کو وسیع فرمادیتا ھے اور اس کو اپنی رحمت و مغفرت میں داخل کرلیتا ھے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

جو شخص کسی مومن کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے تو روز قیامت اس کی جزاکو کوئی نھیں جان سکتا، نہ مقرب فرشتے اور نہ پیغمبر مرسل ، سوائے خداوندعالم کے ، کہ صرف وھی اس شخص کے اجر کے بارے میں آگاہ ھے“۔

کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلانا باعث مغفرت و بخشش ھے اور اس کے بعد امام صادق علیہ السلام نے اس آیہ شریفہ کی تلاوت فرمائی[144]:

(( اَوْ اِطْعَامٌ فِی یَوْمٍ ذِی مَسْغَبَةٍ۔یَتِیماً ذَا مَقْرَبَةٍ۔اَوْ مِسْکِیناً ذَامَتْرَبَةٍ))۔[145]

یا بھوک کے دن میں کھانا کھلانا ۔کسی قرابتدار یتیم کو۔یا خاکسار مسکین کو“۔

نیک گفتار

قرآن مجید کی متعدد آیات زبان کے سلسلہ میںھونے والی گفتگو، زبان کی عظمت اور گوشت کے اس لوتھڑے کی اھمیت کو بیان کرتی ھے۔

زبان ھی کے ذریعہ انسان دنیا و آخرت میں نجات پاتا ھے یا اسی زبان کے ذریعہ دنیا و آخرت تباہ و برباد ھوجاتی ھے۔

زبان ھی کے ذریعہ انسان گھر اور معاشرہ میں چین و سکون پیدا کرتا ھے یا اسی زبان کے ذریعہ گھر اور معاشرہ میں تباھی و بربادی پھیلادیتا ھے۔

زبان ھی یا اصلاح کرنے والی یا فساد برپا کرنے والی ھوتی ھے،اسی زبان سے لوگوں کی عزت و آبرو اور اسرار کو محفوظ کیا جاتا ھے یا دوسروں کی عزت و آبرو کو خاک میں ملادیا جاتا ھے۔

قرآن کریم تمام انسانوں خصوصاً صاحبان ایمان کو دعوت دیتا ھے کہ دوسروں کے ساتھ صرف نیک گفتار میں کلام کرو۔

زبان کے سلسلہ میں قرآنی آیات کے علاوہ بھت سی اھم احادیث بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے بیان ھوئی ھیں کہ اگر کتب احادیث میں بیان شدہ تمام احادیث کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب بن سکتی ھے۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ھے:

اِذا اَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ اَصْبَحَتِ الْاَعْضاءُ کُلُّھا تَسْتَکْفِی اللِّسانَ،اَیْ تَقولُ:اِتَّقِ اللّٰہَ فِینَا ،فَاِنَّکَ اِنِ اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنا ،وَاِنِ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنا“۔[146]

جس وقت انسان صبح کرتا ھے تو اس کے تمام اعضاء و جوارح بھی صبح کرتے ھیں ، چنانچہ تمام اعضاء زبان سے کھتے ھیں: ھمارے سلسلہ میں تقویٰ الٰھی کی رعایت کرنا کیونکہ اگر تو راہ مستقیم پر رھے گی تو ھم بھی مستقیم رھیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ھوگئی تو ھم بھی ٹیڑھے پن میں گرفتار ھوجائیں گے“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:

اَللِّسانُ میزانُ الْاِنْسانِ “۔[147]

زبان انسان کی میزان (اور ترازو) ھے (یعنی انسان کی شرافت اور اس کی بزرگی یا پستی اس کی زبان سے سمجھی جاتی ھے)

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ھے:

ٰیُعَذِّبُ اللّٰہُ اللِّسانَ بِعَذابٍ لَایُعَذِّبُ بِہِ شَیْئاً مِنَ الْجَوارِحِ فَیَقولُ:یارَبِّ عَذَّبْتَنِی بِعَذابٍ لَمْ تُعَذِّبْ بِہِ شَیْئاً مِنَ الْجَوارِحِ ، فَیُقالُ لَہُ:خَرَجَتْ مِنْکَ کَلِمَةٌ فَبَلَغَتْ مَشارِقَ الْاَرْضِ وَمَغارِبَھا فَسُفِکَ بِھَا الدَّمُ الْحَرامُ ،وَانْتُھِبَ بِہِ الْمالُ الْحَرامُ، وَانْتُھِکَ بِہِ الْفَرْجُ الْحَرامُ“۔[148]

خداوندعالم زبان کو ایسے عذاب میں مبتلا کرے گا کہ کسی دوسرے حصہ پر ایسا عذاب نھیں کرے گا، اس وقت زبان گویا ھوگی:خدایا! تو نے مجھے ایسے عذاب میں مبتلا کیا ھے کہ کسی حصہ کو ایساعذاب نھیں کیا ھے، چنانچہ اس سے کھا جائے گا: تجھ سے ایسے الفاظ نکلے ھیں جو مشرق و مغرب تک پہنچ گئے ھیں جن کی وجہ سے بے گناہ کا خون بھا، بے گناہ کا مال غارت ھوا اور بے گناہ کی آبرو خاک میں مل گئی!“

حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ھے:

کَمْ مِنْ اِنْسانٍ اَھْلَکَہُ لِسانٌ“۔[149]

کتنے لوگ ایسے ھیں جو اپنی زبان کی وجہ سے ھلاک ھوجاتے ھیں“۔

بھر حال ھمیں شب و روز اپنی زبان کی حفاظت کرنا چاہئے، اور اس کو بولنے کے لئے آزاد نھیں چھوڑدینا چاہئے، کس جگہ، کس موقع پر، کس کے پاس اور کس موضوع پر گفتگو کرنے کے لئے غور و فکر کرنا ضروری ھے، نیز ھر حال میں خدا اور قیامت پر توجہ رکھنا ضروری ھے، کھیں ایسا نہ ھو کہ انسان زبان کے ذریعہ ایسا گناہ کر بیٹھے کہ اس سے توبہ کرنا مشکل اور ان کے نقصان کی تلافی کرنا محال ھو۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: ”مومن اور مخالف سے نیکی اور خوبی کے ساتھ گفتگو کرو، تمھاری گفتگو صرف نیک اور منطقی ھونا چاہئے“۔

مومنین سے خنداں پیشانی اور خوش روئی کے ساتھ گفتگو کرنا چاہئے، اور وہ بھی نیکی اور اچھائی سے، اور مخالفوں (غیر شیعہ) سے اس طرح گفتگو کرو کہ ان کے لئے ایمان کے دائرہ میں داخل ھونے کا راستہ ھموار ھوجائے، اور اگر وہ ایمانی دائرے میں داخل نہ ھوسکے تو اس سے دوسرے مومنین حفظ و امان میں رھیں، اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: دشمنان خدا کے ساتھ تواضع ومدارا ت سے پیش آنا، اپنے اور دوسرے مومنین کی طرف سے صدقہ ھے۔[150]

حضرت امام باقر علیہ السلام سے آیہ شریفہ (( وَ قولوا لِلنَّاسِ حُسناً)) کے ذیل میں روایت ھے کہ لوگوں سے اس طرح نیک گفتار کرو جس طرح تم اپنے ساتھ گفتگو کیا جانا پسند کرتے ھوکیونکہ خداوندعالم مومن اور قابل احترام حضرات کی نسبت بدگوئی اور نازیبا الفاظ پسند نھیں کرتا (یعنی مومنین کو برا بھلا کہنے والوں کو دوست نھیں رکھتا) اور باحیا، بردبار، ضعیف اور باتقویٰ لوگوں کو دوست رکھتا ھے۔[151]

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ھے:

کَلامُ ابْنِ آدَمَ کُلُّہُ عَلَیْہِ لَا لَہُ اِلاَّ اَمْرٌ بِالْمَعْروفِ ،وَنَھْیٌ عَنِ الْمُنْکَرِ ،اَوْ ذِکْرُ اللّٰہِ “۔[152]

تمام لوگوں کی گفتگو ان کے نقصان میں ھے سوائے امر بالمعروف ،نھی عن المنکر اور ذکر خدا کے“۔

سورہ بقرہ آیت ۸۳ کے لحاظ سے جس کی شرح گزشتہ صفحات میں بیان ھوچکی ھے ماں باپ ، رشتہ داروں اورمساکین کے ساتھ احسان اور تمام لوگوں سے نیک گفتار اور اچھی باتیں معنوی زیبائیوں میں سے ھیں، گناہ خصوصاً گناہ کبیرہ سے توبہ کرنے والے کے لئے اپنی توبہ ، عمل اور گفتار کی اصلاح کے لئے اس آیت کے مضمون پر پابندی کرنا ضروری ھے اور اس مذکورہ آیت میں بیان شدہ اھم مسائل پر خوشحالی اور نشاط کے ساتھ عمل کرے تاکہ اس کے اندر موجود تمام برائیاں دُھل جائیں اور اس کے عمل، اخلاق اور گفتار کی اصلاح ھوجائے۔

اخلاص

اخلاص اور خلوص نیت ایک بھت عظیم مسئلہ ھے جس پر قرآن مجید کی آیات اور روایات معصومین علیہم السلام میں بھت زیادہ تازور دیا گیا ھے۔

صرف مخلص افراد ھی کی فکر و نیت ، عمل اور اخلاق قابل اھمیت ھے اور صرف وھی لوگ اجر عظیم اور رضوان الٰھی کے مستحق ھوتے ھیں۔

اگر ھماری کوشش ، اعمال اور اخلاقی امور غیر خدا کے لئے ھوں تو ان کی کوئی اھمیت نھیں ھے، اور خدا کے نزدیک اس کا کوئی ثواب نھیں ھے۔

جو شخص اپنے گناھوں سے توبہ کرتا ھے تو قرآن مجید کے فرمان کے مطابق اس کو اپنی حالت اور گفتگو کی اصلاح کرنا چاہئے، اور تمام امور میں خداوندعالم کی پناہ میں چلا جائے، اور اپنے دین اور تمام دینی امور میں خلوص خدا کی رعایت کرے، اور ریاکاری اور خودنمائی سے پرھیز کرے، اپنے دینی فرائض میں صرف اور صرف خدا سے معاملہ کرے، تاکہ اھل ایمان کی ھمراھی حاصل ھوجائے، اس سلسلہ میں درج ذیل آیہ شریفہ بھت زیادہ قابل توجہ ھے:

(( إِلاَّ الَّذِینَ تَابُوا وَاٴَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللهِ وَاٴَخْلَصُوا دِینَھم لِلَّہِ فَاٴُوْلَئِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِینَ وَسَوْفَ یُؤْتِ اللهُ الْمُؤْمِنِینَ اٴَجْرًا عَظِیمًا))۔[153]

علاوہ ان لوگوں کے کے جو توبہ کر لیں اور اپنی اصلاح کر لیں اور خدا سے وابستہ ھوجائیں اور دین کو خالص اللہ کے لئے اختیار کریں تو یہ صاحبان ایمان کے ساتھ ھوں گے اور عنقریب اللہ ان صاحبان ایمان کو اجر عظیم عطا کرے گا“۔

((اٴَلاَلِلَّہِ الدِّینُ الْخَالِصُ۔۔۔))۔[154]

آگاہ ھو جاوٴ کے خالص بندگی اللہ کے لئے ھے۔۔۔“۔

جو شخص ریاکاری ،خود نمائی اور شرک کا گرفتار ھو تو بارگاہ خداوندی سے اس کا کوئی سروکار نھیںھے۔

(( ۔۔۔ فَاعْبُدْ اللهَ مُخْلِصًا لَہُ الدِّینَ ))۔[155]

۔۔۔لہٰذا آپ (پیغمبر اکرم) مکمل اخلاص کے ساتھ خدا کی عبادت کریں“۔

جن لوگوں کے اعمال میں اخلاص نھیں ھوتا ان کے اعمال خدا کی نظر میں ھیچ ھوتے ھیں لیکن خلوص کے ساتھ اعمال انجام دینے والوں کے اعمال کا خریدار خداوندمھربان ھے۔

(( ۔۔۔وَلَنَا اٴَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اٴَعْمَالُکُمْ وَنَحْنُ لَہُ مُخْلِصُونَ))۔[156]

”(اے پیغمبر! بدکار اور مشرکین سے کھو) ھمارے لئے ھمارے اعمال ھیں اور تمھارے تمھارے لئے اعمال اور ھم تو صرف خدا کے مخلص بندے ھیں“۔

ریاکاری کی وجہ سے عمل باطل ھوجاتا ھے اور اس کی اھمیت ختم ھوجاتی ھے، لیکن اخلاص سے عمل میں اھمیت پیدا ھوتی ھے اور اخلاص کے ذریعہ ھی آخرت میں جزائے خیر اورثواب ملنے والا ھے۔

توبہ کرنے والے کے لئے اپنی نیت کی اصلاح کرنا اور اپنے ارادہ کو خدا کی مرضی کے تابع قرار دےنالازم و ضروری ھے تاکہ توبہ کا درخت ثمر بخش ھوسکے۔

اخلاص پیدا کرنے کا طریقہ خدا اور قیامت پر توجہ اور اولیاء الٰھی کے حالات پر غور و فکر کرنا ھے، اور انسان اس بات کا معتقد ھو کہ جنت و جہنم کی کلید خدا کے علاوہ کسی کے پاس نھیں ھے، اور انسان کی سعادت و شقاوت کا کسی دوسرے سے کوئی تعلق نھیں ھے۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اخلاص کے فوائد کے بارے میں ارشاد فرماتے ھیں:

مَا اَخْلَصَ عَبْدٌلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ اَرْبَعِینَ صَباحاً اِلّا جَرَتْ یَنابِیعُ الْحِکْمَةِ مِنْ قَلْبِہِ عَلیٰ لِسانِہِ “۔[157]

جب کوئی بندہ چالیس دن تک خدا کے لئے اخلاص سے کام کرے تو خداوندمھربان اس کی زبان پر حکمت کا چشمہ جاری کردیتا ھے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام کا ارشادھے:

اِنَّ الْمُوٴمِنَ لَیَخْشَعُ لَہُ کُلُّ شَیْءٍ وَیَھابُہُ کُلُّ شَیْءٍ ثُمَّ قالَ:اِذاکانَ

مُخْلِصاً لِلّٰہِ اَخافَ اللّٰہُ مِنْہُ کُلَّ شَیْءٍ حَتّیٰ ھَوامَّ الْاَرْضِ وَ سِباعَھا وَ طَیْرَ السَّماءِ؛“[158]

بے شک” مومن انسان “کے لئے ھر چیز خاشع و خاضع ھے اور سبھی اس سے خوف زدہ ھيں، اس کے بعد فرمایا: جس وقت مومن انسان خدا کا مخلص بندہ بن جاتاھے تو خداوندعالم اس کی عظمت اور ھیبت کو تمام چیزوں کے دلوں میں ڈال دیتا ھے، یھاں تک کہ روئے زمین پر وحشی درندے اور آسمان پر اڑنے والے پرندے بھی اس کی عظمت کا اعتراف کرتے ھیں“۔

حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ھے:

سَبَبُ الْاِخْلاصِ الْیَقینُ“۔[159]

یقین وایمان کے ذریعہ اخلاص پیدا ھوتا ھے“۔

اَصْلُ الْاِخْلاصِ الْیَاٴْسُ مِمّا فِی اَیْدِی النّاسِ“۔[160]

اخلاص کی اصل ،دوسروں کے پاس موجود تمام چیزوں سے ناامیدی ھے“۔

مَنْ رَغِبَ فِیما عِنْدَ اللّٰہِ اَخْلَصَ عَمَلَہُ“۔[161]

جو شخص خداوندعالم کی رحمت و رضوان اور بہشت کا خواھاں ھے اسے اپنے عمل میں اخلاص پیدا کرنا چاہئے“۔

صبر

قرآن و احادیث میں صبر و شکیبائی کے سلسلہ میں حکم دیا گیا ھے جو واقعاً ایک الٰھی ، اخلاقی اور انسانی مسئلہ ھے، جس کو خداوندعالم پسند کرتا ھے، جو عظیم اجر و ثواب کا باعث ھے۔ صبر حافظ دین ھے اور انسان کو حق و حقیقت کی نسبت بے توجہ ھونے سے روکتا ھے، صبر کے ذریعہ انسان کے دل و جان میں طاقت پیدا ھوتی ھے، نیز صبر انسان کو شیاطین (جن و انس) سے حفاظت کرنے والا ھے۔

اگر سخت حوادث و ناگوار حالات(جو دین و ایمان کو غارت کرنے والے ھیں ) ، عبادت و اطاعت اور گناہ کے وقت صبر سے کام لیا جائے تو انسان یہ سوچتے ھوئے کہ حوادث بھی قواعد الٰھی سے ھم آہنگ ھیں، ان کو برداشت کرلیتا ھے،اور اپنی نجات کے لئے دشمنان خدا سے پناہ نھیں مانگتا، عبادت و اطاعت خدا کے وقت اپنے کو بندگی کے مورچہ پر کھڑا ھوکر استقامت کرتا ھے، اور گناہ و معصیت سے لذت کے وقت لذتوں کو چھوڑنے کی سختی کو برداشت کرتا ھے اور قرآن مجید کے فرمان کے مطابق خداوندعالم کی صلوات و رحمت کا مستحق قرار پاتا ھے۔

(( وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِنْ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنْ الْاٴَمْوَالِ وَالْاٴَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرْ الصَّابِرِینَ۔ الَّذِینَ إِذَا اٴَصَابَتْھم مُصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ۔ اٴُوْلَئِکَ عَلَیْھم صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّھم وَرَحْمَةٌ وَاٴُوْلَئِکَ ھم الْمُھتدُونَ))۔[162]

اور ھم یقینا تمھیں تھوڑے خوف تھوڑی بھوک اور اموال ،نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبر آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دیدیں ۔ جو مصیبت پڑنے کے بعد یہ کھتے ھیں کہ ھم اللہ ھی کے لئے ھیں اور اسی بارگاہ میں واپس جانے والے ھیں ۔کہ ان کے لئے پروردگار کی طرف صلوات اور رحمت ھے اور وھی ہدایت یافتہ ھیں“۔

(( ۔۔۔وَالْمَلَائِکَةُ یَدْخُلُونَ عَلَیْھم مِنْ کُلِّ بَابٍ۔ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ))۔[163]

اور ملائکہ ان کے پاس ھر دروازے سے حاضر ی دیں گے ۔کھیں گے کہ تم پر سلامتی ھو کہ تم نے صبر کیا ھے اور اب آخرت کا گھر تمھاری بھترین منزل ھے“۔

(( مَا عِنْدَکُمْ یَنفَدُ وَمَا عِنْدَ اللهِ بَاقٍ وَلَنَجْزِیَنَّ الَّذِینَ صَبَرُوا اٴَجْرَھم بِاٴَحْسَنِ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ))۔[164]

جوکچھ تمھارے پاس ھے وہ سب خرچ ھو جائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ھے وھی باقی رہنے والا ھے اور ھم یقینا صبر کرنے والوں کو ان کے اعمال سے بھتر جزا عطا کریں گے“۔

(( اٴُوْلَئِکَ یُؤْتَوْنَ اٴَجْرَھم مَرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوا۔۔۔))۔[165]

یھی وہ لوگ ھیں جن کو دھری جزادی جائے گی چونکہ انھوں نے صبر کیا ھے۔۔۔“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ھے:

مَنْ یَتَصَبَّرْ یُصَبِّرْہُ اللّٰہُ وَمَنْ یَسْتَعْفِفُ یُعِفَّہُ اللّٰہُ وَمَنْ یَسْتَغْنِ یُغْنِہِ اللّٰہُ وَمَا اُعْطِیَ عَبْدٌ عَطا ءً ھُوَ خَیْرٌ وَ اَوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ“۔[166]

جو شخص صبر سے کام لے تو خداوندعالم اس کو صبر کی توفیق عطا کرتا ھے، اور جو شخص عفت و پارسائی کو اپناتا ھے تو خداوندعالم اس کو پارسائی تک پہنچادیتا ھے اور جو شخص خداوندعالم سے بے نیازی طلب کرتا ھے تو خداوندعالم اس کو بے نیاز بنادیا ھے ، لیکن بندہ کو صبر سے بھتر اور وسیع تر کوئی چیز عطا نھیں ھوتی“۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

اَلْحَقُّ ثَقِیلٌ،وَقَدْ یُخَفِّفُہُ اللّٰہُ عَلیٰ اَقْوامٍ طَلَبُوا الْعاقِبةَ فَصَبَرُوا نُفُوسَھُمْ ،وَوَثِقُوا بِصِدْقِ مَوْعُودِ اللّٰہِ لِمَنْ صَبَرُوا ،اِحْتَسِبْ فَکُنْ مِنْھُمْ وَاسْتَعِنْ بِاللّٰہِ“۔[167]

حق کڑوا ھوتا ھے لیکن خداوندعالم اپنی عاقبت کے خواھاںلوگوں کے لئے شیرین بنادیتا ھے، جی ھاں ، جو لوگ صبر کے سلسلہ میں دئے گئے وعدہ الٰھی کو سچ مانتے ھیں خدا ان کے لئے حق کو آسان کردیتا ھے، خدا کے لئے نیک کام انجام دو اور حقائق کا حساب کرو جس کے نتیجہ میں تم صبر کرو اور خدا سے مدد طلب کرو“۔

نیز آپ کا ھی کا ارشاد ھے:

اِصْبِرْ عَلیٰ مَرارَةِ الْحَقِّ ،وَاِیَّاکَ اَنْ تَنْخَدِعَ بِحَلاوَةِ الْباطِلِ“۔[168]

صبر کے کڑوے پن پر صبر کرو اور باطل کی شیرینی سے فریب نہ کھاؤ“۔

ایک شخص نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے کسی مسئلہ کے بارے میں نظر خواھی کی تو امام علیہ السلام نے اس شخص کے نظریہ کے برخلاف اپنی رائے کا اظھار فرمایا، اور امام نے اس کے چھرے پر بے توجھی کے آثار دیکھے تو اس سے فرمایا: ، حق پر صبر کرو، بے شک کسی نے صبر نھیں کیا مگر یہ کہ خداوندعالم نے اس کے بدلے اس سے بھتر چیز عنایت فرمادی۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ھے:

اَلْجَنَّةُ مَحْفُوفَةٌ بِالْمَکارِہِ وَالصَّبْرِ ،فَمَنْ صَبَرَ عَلَی الْمَکارِہِ فِی الدُّنْیا دَخَلَ الْجَنَّةَ وَ جَھَنَّمُ مَحْفوفَةٌ بِاللَّذّاتِ وَالشَّھَواتِ ،فَمَنْ اَعْطیٰ نَفْسَہُ لَذَّتھا وَشَھْوَتَھا دَخَلَ النّارَ“۔[169]

”(جان لو کہ) جنت پر ناگواری اور صبر کا پھرہ ھے، جس شخص نے دنیا میں ناگواریوں پر صبر کیا و ہ جنت میں داخل ھوجائے گا، اور جہنم پر خوشیوں اور حیوانی خواہشات کا پھرہ ھے چنانچہ جو شخص بھی لذات اور شھوات کے پیچھے گیا تو وہ جہنم میں داخل ھوجائے گا“۔

نیز آپ ھی کا ارشاد گرامی ھے:

اَلصَّبْرُ صَبْرانِ:صَبْرٌ عَلَی الْبَلاءِ حَسَنٌ جَمیلٌ ،وَاٴَفْضَلُ الصَّبْرَیْنِ الْوَرَعَ عَنِ الْمَحارِمِ“۔[170]

صبر کی دو قسمیں ھیں: بلاء و مصیبت پر صبر جو بھتر اور زیبا ھے ، لیکن دونوں قسموں میں بھترین صبر اپنے کو گناھوں سے محفوظ رکھنا ھے“۔

یہ حقیقت ھے کہ تمام چیزوں میں صبر اس لئےضروری ھے کہ انسان کا دین، ایمان، عمل اور اخلاق صحیح و سالم رھے، اور انسان کی عاقبت بخیر ھوجائے واقعاً انسان کے لئے کیا بھترین اور خوبصورت زینت ھے ۔

گناھوں سے توبہ کرنے والے انسان کو چاہئے کہ مشق و تمرین کے ذریعہ اپنے کو صبر سے مزین کرلے،گناھوں سے پاک رہنے کی کوشش کرے تاکہ ھوائے نفس ،شیطانی وسوسہ اور گناھوں کی آلودگی سے ھمیشہ کے لئے آسودہ خاطر رھے کیونکہ صبر کے بغیر توبہ برقرار نھیں رہ سکتی، اور اس کے سلسلہ میں رحمت خدا کا تدوام نھیں ھوتا۔

مال حلال

خداوندمھربان نے اپنی تمام مخلوق کی روزی اپنے اوپر واجب قرار دی ھے خداوندعالم کسی بھی مخلوق کی روزی کو نھیں بھولتا۔

انسان کی روزی پہنچانے کے بھت سے مخصوص طریقے ھیں : منجملہ: میراث، ھبہ، خزانہ مل جانا اور ان سب میں اھم حلال کاروبار ھے۔

حلال کاروبار جیسے زراعت، صنعت، بھیڑ بکریاں چرانا، دستی ہنر، تجارت اور محنت و مزدوری کرنا۔

نا جائز طریقہ سے حاصل ھونے والا مال ؛حرام ھے اور اس سے فائدہ اٹھانا روز قیامت میں درد ناک عذاب کا باعث ھے۔

چوری، غصب، رشوت، کم تولنا، غارت گری اور ظلم و ستم کے ذریعہ کسی کے مال کو ہڑپ لینا ممنوع ھے اور ان کاموں کا کرنے والا رحمت الٰھی سے محروم ھوجاتا ھے۔

قرآن مجید اوراحادیث معصومین علیہم السلام، حلال طریقہ سے مال حاصل کرنے کی تاکید کرتے ھیں، یھاں تک کہ قرآن مجید حکم دیتا ھے کہ پھلے حلال مال کھاؤ اس کے بعد عبادت خدا بجالاؤ:

((یَااٴَیُّھا الرُّسُلُ کُلُوا مِنْ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا۔۔۔))۔[171]

اے میرے رسولو!تم پاکیز ہ غذائیں کھاوٴ اور نیک کام کرو ۔۔۔“۔

ام عبد اللہ نے افطار کے وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ایک پیالہ دودھ بھجوایا تو آنحضرت نے دودھ لانے والے سے فرمایا: اس دودھ کو لے جاؤ اور اس سے معلوم کرو کہ یہ دودھ کھاں سے آیاھے؟ وہ واپس گیا اور آکر عرض کیا: یہ دودھ گوسفند کا ھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر فرمایا: گوسفند کھاں سے آیا ھے: چنانچہ پیغام آیا: اس کو میں نے اپنے مال سے خریدا ھے، اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ دودھ نو ش فرمایا۔

دوسرے روز ام عبد اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ھوکر عرض کرتی ھیں: کل میں نے آپ کے لئے دودھ بھیجا لیکن آپ نے واپس کردیا اور سوال و جواب کے بعد نوش فرمایا، مسئلہ کیا تھا؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: مجھ سے پھلے تمام انبیاء کو حکم دیا گیا ھے کہ صرف پاک اور حلال چیز یں کھائیں اور صرف عمل صالح انجام دو۔[172]

قرآن مجید نے روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو حکم دیا کہ پاکیزہ اور حلال رزق کھاؤ اور روزی حاصل کرنے کے لئے شیطان کی پیروی نہ کرو، کیونکہ شیطان ان کو برائی، گناہ اور خدا پر تھمت لگانے کا حکم دیتا ھے۔

(( یَااٴَیُّھا النَّاسُ کُلُوا مِمَّا فِی الْاٴَرْضِ حَلاَلًا طَیِّبًا وَلاَتَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُبِینٌ ۔إِنَّمَا یَاٴْمُرُکُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَاٴَنْ تَقُولُوا عَلَی اللهِ مَا لاَتَعْلَمُونَ))۔[173]

اے انسانو!زمین میں جو کچھ بھی حلال و طیب ھے اسے استعمال کرو اور شیطانی اقدامات کا ا تباع نہ کرو کہ وہ تمھارا کھلا ھوا دشمن ھے۔وہ بس تمھیں بدعملی اور بدکاری کا حکم دیتا ھے اور اس بات پر آمادہ کرتا ھے کہ خدا کے خلاف جھالت کی باتیں کرتے رھو“۔

اھل ایمان کو چاہئے کہ مال حاصل کرنے کے لئے اندازہ سے کام لیں ،حلال خدا پر قناعت کریں ، دوسروں کے مال پر آنکھیں نہ جمائیں، اور اپنے دل وجان سے اس اھم حقیقت پر توجہ رکھیںکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اعلان فرمایا ھے:

حُرْمَةُ مالِ الْمُسْلِمِ کَدَمِہِ“۔[174]

مسلمان کا مال اس کے خون کی طرح محترم ھے“۔

یعنی جس طرح سے ایک مومن کی جان اور اس کی زندگی کی حفاظت کے لئے کوشش کرتے ھو اسی طرح اس کے مال کی حفاظت کے لئے بھی کوشش کرو، کیونکہ کسی مومن کے مال کو ناحق غارت کرنا اس کا ناحق خون بھانے کی طرح ھے۔

حلال روزی حاصل کرنا اورخداوندعالم کی عطا کردہ روزی پر قناعت کرنا، معنوی زیبائیوں میں سے ھے، بلکہ زیبائی اور نیکیوں سے آراستہ ھونے کے اصول میں سے ھے۔

ھر ایک توبہ کرنے والے پر یہ چیز فوراً واجب اور ضروری ھے کہ وہ اپنے مال کی اصلاح کرے، یعنی اگر کسی دوسرے کا حق اس پر ھے تو اپنی خوشی سے اسے الگ کرکے مالک تک پہنچا دے اور زندگی بھر یہ دھیان رکھے کہ صرف حلال لقمہ کھائے، اور حرام مال سے اجتناب کرے۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ھے:

مَنْ اَکَلَ لُقْمَةً مِنْ حَرامٍ لَمْ تُقْبَلْ لَہُ صَلاةٌ اَرْبَعِینَ لَیْلَةً“۔[175]

جو شخص ایک لقمہ حرام کھائے تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نھیں ھوتی“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ھی کا فرمان ھے:

اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ الّجَنَّةَ جَسَداً غُذِیَ بِحَرامٍ“۔[176]

خداوندعالم نے حرام غذا کھانے والوں کے بدن پر جنت کو حرام قرار دیا ھے “۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک عجیب حدیث میں ارشاد فرماتے ھیں:

تَرْکُ لُقْمَةٍ حَرامٍ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ صَلاةِ اَلْفَیْ رَکْعَةٍ تَطَوُّعاً“۔[177]

ایک حرام لقمہ سے اجتناب کرنا خدا کے نزدیک مستحبی دو ہزار رکعت نماز سے زیادہ پسندیدہ ھے“۔

تقویٰ

اپنے کو گناھوں اور معصیتوں سے محفوظ رکھنا اور ھلاک کنندہ آفات و بلاؤں سے حفظ کرنا ایک ایسی حقیقت ھے جس کو قرآن کریم اور دینی تعلیمات نے ”تقویٰ“ کے عنوان سے یاد کیا ھے۔

تقویٰ اس حالت کا نام ھے جو گناھوں سے اجتناب اور عبادت خدا سے حاصل ھوتی ھے اور تقویٰ دینی اقدار و معنوی زیبائی میں ایک خاص عظمت رکھتا ھے۔

صرف متقی افراد ھی میں ہدایت الٰھی کے آثار ظاھر ھوتے ھیں اور جنت بھی صرف اور صرف اھل تقویٰ کے لئے آمادہ کی گئی ھے:

(( ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَرَیْبَ فِیہِ ہُدًی لِلْمُتَّقِینَ))۔[178]

یہ وہ کتاب ھے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نھیں ھے۔یہ صاحبان تقویٰ اور پرھیز گار لوگوں کے لئے مجسم ہدایت ھے“۔

(( وَاٴُزْلِفَتْ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِینَ))۔[179]

اورجس دن جنت پر ھیزگاروں سے قریب تر کردی جائے گی“۔

(( ۔۔۔ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ))۔[180]

۔۔۔اور اللہ سے ڈرو شاید تم کامیاب ھو جاوٴ“۔

(( ۔۔۔ وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِینَ))۔[181]

۔۔۔اور اللہ سے ڈرتے رھو اور یہ سمجھ لو کہ خدا پر ھیزگاروں ھی کے ساتھ ھے“۔

(( ۔۔۔ فَإِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ))۔[182]

۔۔۔بے شک خدا متقین کو دوست رکھتا ھے“۔

(( ۔۔۔ فَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ))۔[183]

۔۔۔لہٰذا اللہ سے ڈرو شاید تم شکر گذار بن جاوٴ“۔

(( ۔۔۔ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ سَرِیعُ الْحِسَابِ))۔[184]

۔۔۔اور اللہ سے ڈرو کہ وہ بھت جلد حساب کرنے والا ھے“۔

(( ۔۔۔ لِلَّذِینَ اٴَحْسَنُوا مِنْھم وَاتَّقَوْا اٴَجْرٌ عَظِیمٌ))۔[185]

۔۔۔ان کے نیک کام اور متقی افراد کے لئے نھایت درجہ اجر عظیم ھے“۔

(( ۔۔۔ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللهُ مِنْ الْمُتَّقِین))۔[186]

۔۔۔خدا صرف صاحبان تقویٰ کے اعمال قبول کرتا ھے “۔

(( وَمَا عَلَی الَّذِینَ یَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِھم مِنْ شَیْءٍ۔۔۔))۔[187]

اور صاحبان تقویٰ پر ان کے حساب کی ذمہ داری نھیں ھے۔۔۔“۔

(( ۔۔۔ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ))۔[188]

۔۔۔اور اللہ سے ڈرتے رھو کہ شاید تم پر رحم کیا جائے“۔

(( ۔۔۔وَاللهُ وَلِیُّ الْمُتَّقِینَ))۔[189]

۔۔۔تو اللہ صاحبان تقویٰ کا سرپرست ھے“۔

(( ۔۔۔إِنَّ اٴَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللهِ اٴَتْقَاکُمْ۔۔۔))۔[190]

۔۔۔تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وھی ھے جو زیادہ پرھیزگار ھے۔۔۔“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اھل تقویٰ کے کچھ نشانیاں بیان کی ھیں، منجملہ:

صداقت،ادائے امانت، وفائے عہد، عجز و بخل میں کمی، صلہ رحم، کمزوروں پر رحم، عورتوں سے کم موافقت کرنا، خوبی کرنا، اخلاق حسنہ، بردباری میں وسعت، اس علم پر عمل جس کے ذریعہ خدا کے قریب ھوجائے، اور اس کے بعد فرمایا: خوش نصیب ھیں یہ افراد، کیونکہ ان کی آخرت سعادت بخش نیک اور اچھی ھوگی۔[191]

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ھے:

لَوْاَنَّ السَّماواتِ وَالْاَرْضَ کانَتا رَتْقاً عَلیٰ عَبْدٍ ثُمَّ اتَّقَی اللّٰہَ لَجَعَلَ اللّٰہُ لَہُ مِنْھُما فَرَجاً وَمَخْرَجاً“۔[192]

اگر کسی بندہ پر زمین و آسمان کے دروازے بند ھوجائیں ، لیکن اگر وہ بندہ تقویٰ الٰھی اختیار کرے تو خدا اس کے لئے زمین و آسمان کے دروازے کھول دیتاھے“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

خَصْلَةٌ مَنْ لَزِمَھا اَطاعَتْہُ الدُّنْیا وَالْآخِرَةُ وَ رَبِحَ الْفَوْزَ بِالْجَنَّةِ،قیلَ:وَما ھِیَ یا رَسولَ اللّٰہِ؟ قالَ:التَّقْویٰ ،مَنْ اَرادَ اَنْ یَکونَ اَعَزَّ النّاسِ فَلْیَتَّقِ اللّٰہِ “۔[193]

ایک خصلت جس شخص میں بھی پائی جائے دنیا و آخرت اس کی اطاعت کرنے لگیں، اوراس کو جنت میں مقام ملے، اصحاب نے کھا: یا رسول اللہ! وہ کونسی خصلت ھے؟ تو آپ نے فرمایا: تقویٰ ، جو شخص لوگوں میں سب سے زیادہ قابل احترام ھونا چاھتا ھے، اسے خدا سے تقویٰ اختیار کرنا چاہئے“۔

نیکی

قرآن مجید کے فرمان کے مطابق خدا، روز قیامت ،ملائکہ، قرآن اور انبیاء علیھم السلام پر ایمان رکھنا، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، سفر میں بے خرچ ھونے والوں اور سائلین کی مالی مدد کرنا، نیز غلاموں کو آزاد کرنا، نماز قائم کرنا، زکوٰة ادا کرنا، وفائے عہد، سختیوں، بیماریوں اور کارزار میں صبر کرنا ، یہ سب نیکی اور تقویٰ کی نشانیاں ھيں۔[194]

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ھے:

اِنَّ اَسْرَعَ الْخَیْرِ ثَواباً الْبِرُّ ،وَاَسْرَعَ الشَّرِّ عِقاباً الْبَغْیُ“۔[195]

بیشک نیکی کا ثواب سب سے جلدی ملتا ھے اور سب سے جلدی عقاب خداوند عالم سے سر پیچی کا پھونچتاھے۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نیک افراد کی دس خصلتیں بیان کی ھے:

یُحِبُّ فِی اللّٰہِ وَ یُبْغِضُ فِی اللّٰہِ ،وَیُصاحِبُ فِی اللّٰہِ ،وَیُفارِقُ فِی اللّٰہِ ،وَ یَغْضَبُ فِی اللّٰہِ، وَیَرْضیٰ فِی اللّٰہِ ،وَیَعْمَلُ لِلّٰہِ ، وَیَطْلُبُ اِلَیْہِ ، وَ یَخْشَعُ خَائِفاً مَخوفاً طاھراً مُخْلِصاً مُسْتَحْیِیاً مُراقِباً، وَیُحْسِنُ فِی اللّٰہِ“۔[196]

کسی سے محبت کرے تو خدا کے لئے، دشمنی کرے تو خدا کے لئے، دوستی کرے تو خدا کے لئے، کسی سے دوری کرے تو خدا کے لئے، غصہ کرے تو خدا کے لئے، کسی سے راضی ھو تو خدا کے لئے، اعمال انجام دے تو خدا کے لئے، خدا سے محبت کرے، اس کے سامنے خشوع کرے اورخوف ،طھارت، اخلاص، حیاء اور مراقبت کی حالت میں رھے، نیز خدا کے لئے نیکی کرے“۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں کہ تین چیزیں نیکی کے راستے ھیں:

سَخاءُ النَّفْسِ،وَطیبُ الْکَلامِ،وَالصَّبْرُ عَلَی الْاَذیٰ“۔[197]

راہ خدا میں جان کی بازی لگادینا، نیک گفتار اور لوگوں کی طرف سے دی جانے والی اذیتوں کے مقابلہ میں صبر کرنا“۔

حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:

اَرْبَعٌ مِنْ کُنوزِ الْبِّرِّ:کِتْمانُ الْحاجَةِ،وَکِتْمانُ الصَّدَقَةِ،وَکِتْمانُ الْوَجَعِ،وَکِتْمانُِ الْمُصِیبَةِ“۔[198]

نیکیوں کا خزانہ چار چیزیںھیں: اپنی حاجت کو مخفی رکھنا، چھپاکرصدقہ دینا، اور مشکلات و پریشانیوں کو مخفی رکھنا“۔

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں:

مَنْ حَسُنَ بِرُّہُ بِاِخْوانِہِ وَاَھْلِہِ مُدَّ فِی عُمْرِہِ“۔[199]

جس نے اپنے (دینی) بھائیوں کے ساتھ نیکی کی خدا اس کی عمر طولانی کردیتا ھے“۔

غیرت

غیرت اور حمیّت، اخلاق حسنہ میں سے ھیں، غیرت کی وجہ سے انسان کی ناموس اور اھل خانہ نامحرموں اور خائنوں کے شر سے محفوظ رھتے ھیں۔

غیرت ،انبیاء اور اولیاء الٰھی کے برجستہ صفات میں سے ھے۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ھے:

کانَ اِبْراھیمُ اَبِی غَیوراً، وَاَنااَغْیَرُ مِنْہُ، وَاَرْغَمَ اللّٰہُ اَنْفَ مَنْ لَا یَغارُ مِنَ الْمُوٴْمِنینَ“۔[200]

جناب ابراھیم کے باپ غیور اور صاحب حمیت تھے اور میں ان سے زیادہ غیرت رکھتا ھوں، جو مومن غیرت نہ رکھتا ھو تو خدا اس کو ذلیل کردیتاھے“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام اھل کوفہ کو نصیحت کرتے ھوئے بلند آواز میں فرماتے تھے:

اَما تَسْتَحْیونَ وَلَا تَغارونَ؟!نِساوٴُکُمْ یَخْرُجْنَ اِلَی الْاَسْواقِ یُزاحِمْنَ الْعُلوجَ“۔[201]

تمھاری حیا کھاں چلی گئی ؟!کیا تمھیں غیرت نھیں آتی، تمھاری عورتیں بازاروں میں جاتی ھیں اور نامحرم اور بدمعاش لوگ ان کو پریشان کرتے ھیں“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ھے:

اِنَّ الْجَنَّةَ لَیوجَدُ رِیحُھا مِنْ مَسیرَةِ خَمْسِمائَةِ عَامٍ،وَلَا یَجِدُھا عاقٌّ وَلَادَیُّوثٌ،قِیلَ:یَا رَسُولَ اللّٰہِ ،مَا الدَّیُّوثِ؟قالَ:الَّذِی تَزْنِی امْرَاٴَتُہُ وَھُوَ یَعْلَمُ بِھَا“۔[202]

بے شک جنت کی خوشبو پانچ سو سال کی دوری سے محسوس کی جاسکتی ھے، لیکن ماں باپ کا عاق کیا ھوا او ردیّوث جنت کی بو نھیں سونگ سکتے، سوال ھوا کہ یا رسول اللہ! دیّوث کون ھے؟ تو آپ نے فرمایا: دیّوث وہ شخص ھے جس کی بیوی زنا کرے اور وہ جانتا ھو لیکن بے توجھی سے کام لے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

اِنَّ اللّٰہَ غَیورٌ ،یُحِبُّ کُلَّ غَیورٍ،وَمِنْ غَیرَتِہِ حَرَّمَ الْفَواحِشَ ظاھرھا وَبَاطِنَھا“۔[203]

بے شک خداوندعالم غیور ھے اور غیرت رکھنے والے ھر شخص کو دوست رکھتا ھے، اس کی غیرت یہ ھے کہ اس نے تمام ظاھری و باطنی گناھوں کو حرام قرار دیا ھے“۔

عبرت

حوادث زمانہ سے عبرت حاصل کرنا، گزشتہ اور عصر حاضر کے لوگوں کے حالات سے پند حاصل کرنا عقلمندی کی نشانی ھے۔قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:

(( لَقَدْ کَانَ فِی قَصَصِھم عِبْرَةٌ لِاٴُوْلِی الْاٴَلْبَابِ۔۔۔))۔[204]

یقینا (قرآن میں بیان ھونے والے) ان واقعات میں صاحبان عقل کے لئے سامان عبرت ھے۔۔“۔

قرآن مجید ،صاحبان عقل و فھم ،اھل فکر و بصیرت اور آخر کار تمام ھی انسان کو حکم دیتا ھے کہ رشد و کمال حاصل کرنے اور پلیدی و برائی سے دوری کے لئے تمام چیزوں سے عبرت حاصل کرو:

(( ۔۔۔فَاعْتَبِرُوا یَااٴُولِی الْاٴَبْصَارِ))۔[205]

۔۔۔اے صاحبا ن نظر! عبرت حاصل کرو“۔

حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ھے:

اَفْضَلُ الْعَقْلِ الْاِعْتِبارُ،وَاَفْضَلُ الْحَزْمِ الْاِسْتِظْھارُ،وَ اَکْبَرُ الْحُمْقِ الْاِغْترِارُ“۔[206]

سب سے افضل عقل عبرت حاصل کرنے والی عقلھے، بھترین دور اندیشی یہ ھے کہ انسان غور و فکر کے ساتھ کسی امر میں مداخلت کرے،اور سب سے بڑی حماقت دنیا سے دھوکہ کھانا ھے“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام جاھلوں، گناھگاروں، ستمگروں اوربدمعاشی کرنے والوں کو چیلنج فرماتے ھیں کہ گزشتہ لوگوں کے واقعات سے عبرت حاصل کرو:

اِنَّ لَکُمْ فِی الْقُرونِ السّالِفَةِ لَعِبْرَةً،اَیْنَ الْعَمالِقَةُ وَاَبْناءُ الْعِمالِقَةُ؟ اَیْنَ الْفَراعِنَةُ وَاَبْناءُ الْفِرَاعِنَة؟اَیْنَ اَصْحابُ مَدائِنِ الرَّسِّ الَّذِینَ قَتَلُوا النَّبِیِّینَ،وَاَطْفَاٴُواسُنَنَ الْمُرْسَلینَ،وَاَحْیُواسُنَنَ الْجَبّارینَ؟!“[207]

تمھارے لئے گزشتہ قوموں میں عبرت کا سامان فراھم کیا گیا ھے، کھاں ھیں (شام و حجاز کے) عمالقہ او ران کی اولاد، کھاں ھیں(مصر کے) فراعنہ اور ان کی اولاد؟ کھاں ھیں (آذربائیجان کے) اصحاب الرس؟ جنھوں نے انبیاء کو قتل کیا، اور مرسلین کی سنتوں کو خاموش کیا اور جباروںکی سنتوںکو زندہ کیا ؟کھاں گئے اور کیا ھوئے؟!

خیر

قرآن مجید اوراحادیث کی روشنی میں دنیا و آخرت میں کام آنے والے مثبت اور مفید کاموں پر” خیر “کا اطلاق کیا گیا ھے۔

قرآن کی زبان میں خیر کے معنی ثواب آخرت، رحمت الٰھی، مال حلال، نماز جمعہ، آخرت، ایمان، نصیحت پر عمل کرنا، توبہ، تقویٰ اور انھیں کی طرح دوسری چیزیں ھیں۔

یہ چیزیں انسان کے ظاھر و باطن کی اصلاح کے لئے بھترین راستے ھیں۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ھے:

اَرْبَعٌ مَنْ اُعْطَیھُنَّ فَقَدْ اُعْطِیَ خَیْرَ الدُّنْیا وَالْآخِرَةِ :بَدَناً صابِراً ، وَلِساناً ذاکِراً وَقَلْباً شاکِراً، وَزَوْجَةً صالِحَةً“۔[208]

جس شخص کو چار چیزیں مل جائیں اس کو دنیا و آخرت کا خیر مل جاتا ھے: جس کے بدن میں سختیوں اور بلاؤں پر صبر کرنے کی طاقت ھو، جو زبان ذکر خدا میں رطب اللسان رھے، جو دل، شکرخدا کرتا رھے اور مناسب اور شائستہ بیوی“۔

حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ھے:

جُمِعَ الْخَیْرُ کُلُّہُ فِی ثَلاثِ خِصالٍ:اَلنَّظَرِ وَالسُّکوتِ وَالْکَلامِ ، فَکُلُّ نَظَرٍ لَیْسَ فِیہِ اعْتِبارٌ فَھُوَ سَھْوٌ،وَکُلَّ سُکوتٍ لَیْسَ فِیہِ فِکْرٌ فَھُوَ غَفْلَةٌ،وَکُلُّ کَلامٍ لَیْسَ فِیہِ ذِکْرٌ فَھُوَ لَغْوٌ“۔[209]

تمام نیکی اور خیر تین خصلتوں میں جمع ھیں: نگاہ، سکوت اور قول، جس نظر میں عبرت نھیں ھے وہ سھو ھے، جس سکوت اور خاموشی میں غور و فکر نہ ھو وہ غفلت ھے اور ھر وہ کلام جس میں ذکر (خدا) نہ ھو تو لغو و بے ھودہ ھے“۔

تحصیل علم

علم، عالم اور متعلم کے سلسلہ میں قرآن مجید اور احادیث میں بھت زیادہ تاکید کی ھے۔

علم: چراغ راہ، حرارت عقل، بینائی وبصیرت ، ارزش و اقدار اور شرافت وکرامت ھے۔

دنیا اور آخرت میں اھل ایمان کے درجات بلند ھیں لیکن ان سے زیادہ بلند درجات مومن علماء کے ھیں۔

(( ۔۔۔ یَرْفَعْ اللهُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَالَّذِینَ اٴُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ۔۔۔))۔[210]

۔۔۔اور جب تم سے کھا جائے کہ اٹھ جاوٴ تو اٹھ جاوٴ کہ خدا صاحبا ن ایمان اور جن کو علم دیا گیا ھے ان کے درجات کو بلند کرنا چاھتا ھے۔۔۔“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ھے:

اُطْلُبُوا العِلْمَ وَلَوُ بِالصِّینِ ،فَاِنَّ طَلَبَ الْعِلْمِ فَرِیضَةٌ عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ“۔[211]

علم حاصل کرو چاھے چین جانا پڑے، بے شک علم حاصل کرنا ھر مسلمان پر واجب ھے“۔

نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ھی کا فرمان ھے:

طالِبُ الْعِلْمِ بَیْنَ الْجُھّالِ کَالْحَیِّ بَیْنَ الْاَمْواتِ“۔[212]

طالب عالم جاھلوں کی نسبت مردوں کے درمیان زندہ کی طرح ھے“۔

حضرت رسول خدا :صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علم حاصل کرنے والوں کے لئے فرمایا:

اِذا جاءَ الْمَوْتُ لِطالِبِ الْعِلْمِ وَھُوَ عَلیٰ ھٰذِہِ الْحالَةِ ماتَ وَھُوَ شَھِیدٌ“۔[213]

جب تحصیل علم کے دوران کسی طالب علم کی موت آجائے تو وہ شھید ھوتاھے“۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایک عجیب و غریب حدیث نقل ھوئی ھے:

مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ فَھُوَ کَالصَّائِمِ نَھارُہُ،الْقائِمِ لَیْلُہُ،وَاِنَّ باباً مِنَ الْعِلْمِ یَتَعَلَّمُہُ الرَّجُلُ خَیْرٌ لَہُ مِنْ اَنْ یَکونَ لَہُ اَبو قُبَیْسٍ ذَھَباً فَاَنْفَقَہُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ“۔[214]

علم حاصل کرنے والا اس شخص کی طرح ھے جو دن میں روزہ رکھے اور رات بھر عبادت کرے، بے شک انسان جب علم کا ایک باب حاصل کرلیتا ھے تو اس سے کھیں بھتر ھے کہ ابو قبیس نامی پھاڑ کے برابر اس کو سونا مل جائے اور وہ راہ خدا میں خرچ کردے“۔

نیز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

مَنْ کانَ فِی طَلَبِ الْعِلْمِ کانَتِ الْجَنَّةُ فِی طَلَبِہِ“۔[215]

جو شخص علم کا طلب گار ھو تو جنت بھی اس کے طلبگار ھوتی ھے“۔

توبہ کرنے والے کو اپنی حالت سنورانے کے لئے اس سے بھتر اور کیا راستہ ھوگا کہ نیکیوں اور برائیوں کو پہچانے اور احکام الٰھی کی معرفت حاصل کرکے ان پر عمل کرے؟

درج ذیل آیہ شریفہ کے پیش نظر انسان دینی معرفت کے بغیرکیا اخلاقی حقائق پر عمل کرسکتاھے؟

(( ۔۔۔ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہِ وَاٴَصْلَحَ۔۔۔))۔[216]

۔۔۔اور اس کے بعد توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلے ۔۔۔“۔

امید

امید ایک ایسی حقیقت اور حالت ھے کہ جس سے اھل ایمان خصوصاً گناھوں سے توبہ کرنے والوں کے دل میں خداوندعالم کی رحمت و مغفرت کی روشنی پیداھوتی ھے۔

جن لوگوں کا خدا اور آخرت پر یقین ھوتا ھے ، اور اپنی استعداد کے مطابق واجبات پر عمل کرتے ھیںاور حرام چیزوں سے پرھیز کرتے ھیںاور اپنے اندر غرور ،خود پسندی اور انانیت کو جگہ نھیں دیتے، توان کو امیدرکھنا چاہئے کہ خداوندعالم روز قیامت ان پر توجہ فرمائے گا، اور ان کی مدد کرے گا، اور ان کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے گا، ان لوگوں کو خدا کی طرف سے حاصل ھوئی توفیق کے ذریعہ اس عظیم سرمایہ کے باوجود مایوس اور ناامیدنھیں ھونا چاہئے، اور یہ جاننا چاہئے کہ قرآن مجید نے ان کے ایمان و عمل صالح کی وجہ سے نجات کی سند دی ان کے نجات کی سند ان کے ایمان اور عمل کے ذریعہ قرآن مجید ھے۔

قرآن مجید نے بھت سی آیات میں عمل صالح اور اخلاق حسنہ رکھنے والے مومنےن کو بہشت اور فوز عظیم کی بشارت دی ھے اور خدا کا وعدہ کبھی خلاف نھیں ھوسکتا۔

(( إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَالَّذِینَ ھاجَرُوا وَجَاہَدُوا فِی سَبِیلِ اللهِ اٴُوْلَئِکَ یَرْجُونَ رَحْمَةَ اللهِ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ))۔[217]

بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی اور راہ خدا میں جھاد کیا وہ رحمت الٰھی کی امید رکھتے ھیں اور خدا بھت بخشنے والا ھے اور مھربان ھے“۔

((وَبَشِّرْ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴَنَّ لَھم جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِھا الْاٴَنْھار۔۔۔))۔[218]

اے پیغمبر آپ ایمان رکھنے والوں اور عمل صالح کرنے والوں کو بشارت دیدیں کہ ان کے لئے باغات ھیں جن کے نیچے نھریں جاری ھیں۔۔۔“۔

قرآن مجید میں اس طرح کی بھت سی آیات موجود ھیں،لہٰذا ان تمام مستحکم و مضبوط سندوں کے باوجود کسی مومن کے لئے رحمت خدا سے مایوس ھوجاناسزاوار نھیں ھے، اور اسی طرح قطعی طور پر دی جانے والی بشارت میں شک کرنا بھی سزاوار نھیںھے۔

جن لوگوں کی ایک مدت عمر گناھوں میں گزری ھے، جنھوں نے اپنے واجبات پر عمل نھیں کیا ھے ان کو یہ معلوم ھونا چاہئے کہ ان پر رحمت خدا کا دروازہ بند نھیں ھوا ھے، خداوندمھربان توبہ قبول کرتا ھے، اور اس حقیقت پر یقین ھونا چاہئے کہ خداوندعالم کی قدرت بے نھایت ھے اور بندوں کے گناہ اگرچہ تمام پھاڑوں، دریاؤں اور ریگزاروں کے برابر ھی کیوں نہ ھو ں ان تمام کو بخش دینا اس کے لئے کوئی مشکل کام نھیں ھے۔

(( ۔۔۔لاَتَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ))۔[219]

۔۔۔رحمت خدا سے مایوس نہ ھونا ،اللہ تمام گناھوں کا معاف کرنے والا ھے اور وہ یقینا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ھے“۔

توبہ کرنے والے کو توبہ کے وقت خدا کی رحمت و مغفرت کا امید وار رہنا چاہئے ،کیونکہ رحمت و مغفرت سے مایوسی قرآن مجید کے فرمان کے مطابق کفر ھے۔[220]

توبہ کرنے والے کو معلوم ھونا چاہئے کہ اس کی حالت بیمار کا طرح ھے اور اس کی بیماری کے علاج کرنے والا طبیب خدا ھے اور کوئی ایسا مرض نھیں ھے جس کی شفاء خدا کے یھاں نہ ھو۔

رحمت و مغفرت سے مایوسی کے معنی یہ ھیں کہ (نعوذ باللہ) خدا بیمار کا علاج کر نے کی طاقت نھیں رکھتا۔

بھر حال رحمت خدا کی امید کو ایمان و عمل اور توبہ کا ثمرہ حساب کرے کیونکہ ایمان و عمل اور بغیر توبہ کی امید رکھنا ایک شیطانی صفت ھے جس کو قرآن مجید کی زبان میں ”امنیہ“ کھا جاتا ھے۔

(( یَعِدُھم وَیُمَنِّیھم وَمَا یَعِدُھم الشَّیْطَانُ إِلاَّ غُرُورًا))۔[221]

شیطان ان سے وعدہ کرتا ھے اور انھیں امیدیں دلاتا ھے اور وہ جو بھی وعدہ کرتا ھے وہ دھوکہ کے سوا کچھ نھیں ھے“۔

ایک شخص نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: آپ مجھے نصیحت فرمائیے،تو آپ نے فرمایا:

لَا تَکُنْ مِمَّنْ یَرْجُوالْآخِرَةَ بِغَیْرِ الْعَمَلِ وَیُرَجِّی التَّوْبَةَ بِطولِ الْاَمَلِ ،یَقولُ فِی الدُّنْیا بِقَوْلِ الزّاھِدِینَ، وَیَعْمَلَ فِیھَا بِعَمَلِ الرّاغِبِینَ“۔[222]

ان لوگوں میں نہ ھوجانا جو عمل کے بغیر آخرت کی امید رکھتے ھیں اور طولانی امیدوں کی بنا پر توبہ کو ٹال دیتے ھیں،دنیا میں زاہدوں جیسی باتیں کرتے ھیں اور راغبوں جیسا کام کرتے ھیں کچھ مل جاتا ھے تو سیر نھیں ھوتے اور نھیں ملتا ھے تو قناعت نھیں کرتے“۔

نیز آپ ھی کا ارشاد ھے:

تمھاری امیدرکھنے والی چیزیں ان چیزوں سے زیادہ ھو جن کی امید نھیں رکھتے ، جناب موسیٰ بن عمران آگ کی چنگاری کی امید میں اپنے اھل و عیال کے پاس سے گئے، تو ”کلیم اللہ “کے مرتبہ پر فائز ھوگئے اور منصب نبوت کے ساتھ واپس پلٹے، ملکہ سبا جناب سلیمان اور ان کے ملک کو دیکھنے کے لئے گئی لیکن جناب سلیمان کے ھاتھوں مسلمان ھوکر پلٹی، فرعون کے جادو گر

فرعون سے عزت ومقام حاصل کرنے کے لئے گئے لیکن حقیقی مسلمان ھوکر واپس پلٹے“۔[223]

چھٹے امام علیہ السلام فرماتے ھیں:

لَا یَکُونُ الْمُوٴْمِنُ مُوٴْمِناً حَتّی یَکُونَ خائِفاً راجِیاً ،وَلَا یَکُونُ خائِفاً راجِیاً حَتّی یَکُونَ عامِلاً لِمٰا یَخافُ وَ َرْجُو“۔[224]

مومن اس وقت مومن بنتا ھے جبکہ خوف و رجاء (امید) کی حالت میں رھے، اور خوف و رجاء پیدانھیں ھوتا مگرجب تک خوف وامید کے لحاظ سے عمل انجام نہ دیا جائے“۔

عدالت

قرآن مجید اور احادیث میں بیان ھونے والے اھم مسائل میں سے عدالت بھی ھے، عدل ، خداوندعالم کی صفت اور انبیاء و اولیاء الٰھی کے خصائص میں سے ھے۔

عادل انسان ؛ محبوب خدا، اھل نجات اور زندگی کے لئے پُر نور چراغ ھوتا ھے۔

عدل ،اس حقیقت کا نام ھے کہ جس کو نظام کائنات کی وجہ کھا گیا ھے:

بِالْعَدْلِ قامَتِ السَّماواتُ وَالْاَرْضُ“۔[225]

عدل کے ھی ذریعہ زمین و آسمان قائم ھیں“۔

قرآن مجید نے عدالت کے سلسلہ میں بھت سی آیات میں گفتگوکی ھے، اور زندگی کے ھر موڑ پر تمام انسانوں کو عدالت سے کام لینے کا حکم دیا ھے:

(( إِنَّ اللهَ یَاٴْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِیتَاءِ ذِی الْقُرْبَی۔۔۔))۔[226]

بیشک اللہ عدل ،احسان اور قرابتداروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتاھے۔۔۔“۔

(( إِنَّ اللهَ یَاٴْمُرُکُمْ اٴَنْ تُؤَدُّوا الْاٴَمَانَاتِ إِلَی اٴَھلھا وَإِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اٴَنْ تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِ۔۔۔))۔[227]

بیشک اللہ تمھیں حکم دیتا ھے کہ امانتوں کو ان کے اھل تک پہنچا دو اور جب کوئی فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔۔۔“۔

(( یَااٴَیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامِینَ لِلَّہِ شُہَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلاَیَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی اٴَلاَّ تَعْدِلُوا اعْدِلُوا ہُوَ اٴَقْرَبُ لِلتَّقْوَی۔۔۔))۔[228]

اے ایمان والو ! خدا کے لئے قیام کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواھی دینے والے بنو ،اور خبردار کسی قوم کی عداوت تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ انصاف ترک کردو ۔انصاف کرو کہ یھی تقویٰ سے قریب ترھے۔۔۔“۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ھے:

عَدْلُ ساعَةٍ خَیْرٌ مِنْ عِبادَةِ سَبْعینَ سَنَةً ،قیامٌ لَیْلُھا وَ صِیامٌ نَھارُھا ،وَجَوْرُ ساعَةٍ فِی حُکْمٍ اَشَدُّ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ مَعاصِی سِتّینَ سَنَةً“۔[229]

ایک گھنٹہ عدالت سے کام لینا اس ستر سال کی عبادت سے بھتر ھے جس میں رات بھر عبادت کی جائے اور دن کو روزہ رکھا جائے، اور ایک گھنٹہ ظلم کرنا خدا کے نزدیک ساٹھ سال کے گناھوں سے زیادہ بُراھے!“

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

مَنْ طابَقَ سِرُّہُ عَلَانِیَتَہُ ،وَوافَقَ فِعْلُہُ مَقَالَتَہُ ،فَھُوَ الَّذِی اَدَّی الْاَمانَةَ وَتَحَقَّقَتْ عَدالَتُہُ“۔[230]

جس شخص کا ظاھر و باطن ایک ھو ،اور اس کے قول و عمل میں مطابقت پائی جاتی ھو، ایسا ھی شخص امانت ادا کرنے والا ھے اور اس کی عدالت ثابت ھے“۔

نیز آپ ھی کا فرمان ھے:

اَلْعَدْلُ اَساسُ بِہِ قَوامُ الْعالَمِ“۔[231]

عدالت اس پایہ کا نام ھے جس پر دنیا قائم ھے“۔

ایک اور جگہ ھمارے مولا و آقا نے فرمایا:

اَلْعَدْلُ رَاٴْسُ الاِْیمانِ ،وَجِماعُ الاِْحْسانِ ،وَاَعلیٰ مَراتِبِ الْاِیمانِ“۔[232]

عدالت سرچشمہ ایمان ، جامع احسان اور ایمان کے بلند درجات میں سے ھے“۔

قارئین کرام! گزشتہ صفحات کا خلاصہ یہ ھے: ایمان، نماز ، انفاق، آخرت پر یقین، ماں باپ کے ساتھ نیکی، رشتہ داروں کے ساتھ احسان، یتیموں کے ساتھ نیک سلوک ، مساکین کا خیال رکھنا، نیک گفتار اپنانا، اخلاص، صبر، مال حلال، تقویٰ، نیکی، غیرت، عبرت، خیر، تحصیل علم، امید اور عدالت کو اپنانا۔

یہ تمام چیزیں بھترین اعمال اور بھترین اخلاق ھیں جو معنوی زیبائیوں سے تعلق رکھتی ھیں، اور گناھوں سے توبہ کے بعد انسانی اصلاح کے بھترین اسباب ھیں۔ان کے علاوہ نیت، نیکی، حریت، حکمت، قرض الحسنہ، محبت و مودت، انصاف، ولایت، صلح کرانا، وفائے عہد، عفو و بخشش، توکل، تواضع، صدق، خیرخواھی، الفت و معاشرت، جھاد اکبر، امر بالمعروف و نھی عن المنکر، زہد، شکر، ذمہ داری، سخاوت اور ان جیسی دوسری چیزیں اصلاح کے اسباب اور معنوی زیبائیوں میں سے ھیں کہ اگر گزشتہ آیات و روایات کی توضیح کے ساتھ بیان کیا جائے تو چند جلدیں کتاب ھوسکتی ھیں، لہٰذا ان چیزوں کی زیادہ تفصیل سے صرف نظر کرتے ھوئے اپنے عزیز قارئین کو مفصل کتابوں کے مطالعہ کی دعوت دیتے ھیں جیسے تفاسیر قرآن، اصول کافی، جامع السعادات، معراج السعادة، محجة البیضاء، عرفان اسلامی (۱۲جلدیں تالیف موئف کتاب ہذا) معانی الاخبار، خصال صدوق اورمواعظ العددیہ وغیرہ ۔


[128] سورہ۷ بقرہ آیت ۲۲۰۔

[129] سورہٴ نساء آیت ۲۔

[130] سورہٴ نساء آیت ۱۰۔

[131] سورہٴ نساء آیت ۱۲۷۔

[132] سورہٴ انعام آیت ۱۵۲۔

[133] الترغیب ج۳،ص۳۴۷۔

[134] کنزالعمال ص۶۰۰۸؛تفسیر معین ص۱۲،

[135] الترغیب ج۳،ص۳۴۹۔

[136] ثواب الاعمال ص۱۹۹،ثواب من مسح یدہ علی راٴس یتیم؛بحار الانوار ج۷۲، ص۴، باب۳۱، حدیث۹۔

[137] سورہٴ اسراء آیت ۲۶۔

[138] سورہٴ بقرہ آیت ۱۷۷۔

[139] سورہٴ توبہ آیت ۶۰۔

[140] سورہٴ فجر آیت ۱۶تا ۲۰۔

[141] سورہٴ حاقہ آیت ۲۵تا ۳۷۔

[142] مواعظ العددیہ ص۱۴۷۔

[143] تفسیر امام حسن عسکری ص۳۴۵،حدیث ۲۲۶؛تفسیر صافی ج۱،ص۱۵۱،ذیل سورہٴ بقرہ آیت ۸۳ ؛بحار الانوار ج۶۶، ص۳۴۴، باب۳۸۔

[144] کافی ج۲،ص۲۰۱،باب اطعام الموٴمن ،حدیث ۶؛وسائل الشیعہ ج۲۴،ص۳۰۹،باب ۳۲،حدیث۳۰۶۲۷۔

[145] سورہٴ بلد آیت ۱۴۔۱۶۔

[146] محجة البیضا ء ج۵، ص۱۹۳،کتاب آفات اللسان۔

[147] غررالحکم ص۲۰۹،اللسان میزان ،حدیث ۴۰۲۱۔

[148] کافی ج۲،ص۱۱۵،باب الصمت و حفظ اللسان ،حدیث۱۶؛بحار الانوار ج۶۸،ص۳۰۴،باب۷۸،حدیث۸۰۔

[149] غررالحکم ص۲۱۳،حظہ اللسان واھمیتہ ،حدیث ۴۱۵۹۔

[150] تفسیر صافی ج۱،ص۱۵۲،ذیل سورہٴ بقرہ آیت ۸۳ ؛بحار الانوار ج۷۲،ص۴۰۱،باب ۸۷،حدیث ۴۲۔

[151] تفسیرعیاشی ج۱،ص۴۸،حدیث۶۳،؛تفسیرصافی ج۱،ص۱۵۲،ذیل سورہٴ بقرہ آیت ۸۳؛بحار الانوار ج۷۱،ص۱۶۱، باب ۱۰، حدیث۱۹۔

[152] مواعظ العددیہ ص۸۷۔

[153] سورہٴ نساء آیت ۱۴۶۔

[154] سورہٴ زمر آیت ۳۔

[155] سورہٴ زمر آیت ۲۔

[156] سورہٴ بقرہ آیت ۱۳۹۔

[157] عیون اخبار الرضا ج۲،ص۶۹،باب ۳۱،حدیث ۳۲۱؛بحا رالانوار ج۶۷،ص ۲۴۲،باب ۵۴،حدیث ۱۰۔

[158] جامع الاخبار ص۱۰۰،الفصل ۵۶فی الاخلاص؛بحار الانوار ج۶۷،۲۴۸،باب ۵۴،حدیث۲۱۔

[159] غررالحکم :۶۲،فوائد الیقین ،حدیث۷۴۶۔

[160] غرر الحکم :۳۹۸،الفصل التاسع ،حدیث ۹۲۴۹۔

[161] غررالحکم :۱۵۵،الاخلاص فی العمل ،حدیث۲۹۰۷۔

[162] سورہٴ بقرہ آیت ۱۵۵۔۱۵۷۔

[163] سورہٴ رعد آیت ۲۳۔۲۴۔

[164] سورہٴ نحل آیت ۹۶۔

[165] سورہٴ قصص آیت ۵۴۔

[166] کنزل العمال حدیث۶۵۲۲۔

[167] نہج البلاغہ ص۶۹۹،نامہ ۵۳؛تحف العقول ص۱۴۲؛بحار الانوارج۷۴،ص۲۵۹،باب ۱۰،حدیث ۱۔

[168] غررالحکم :۷۰،الصبر علی الحق ،حدیث ۹۹۳۔

[169] کافی ج۲،ص۸۹،باب الصب ،حدیث ۷؛بحار الانوار ج۶۸،ص۷۲،باب ۶۲،حدیث ۴۔

[170] کافی ج۲،ص۹۱،باب الصبر،حدیث ۱۴؛وسائل الشیعہ ج۱۵،ص۲۳۷،باب ۱۹،حدیث ۲۰۳۷۱۔

[171] سورہٴ موٴمنون آیت ۵۱۔

[172] الدر المنثور ج۵،ص۱۰۔

[173] سورہٴ بقرہ آیت ۱۶۸۔۱۶۹۔

[174] تفسیر معین ص۲۵۔

[175] کنز العمال : ۹۲۶۶۔

[176] کنز العمال :۹۲۶۱؛ تفسیر معین ص۲۶۔

[177] تفسیر معین ص۲۶

[178] سورہٴ بقرہ آیت ۲۔

[179] سورہٴ شعراء آیت ۹۰۔

[180] سورہٴ بقرہ آیت ۱۸۹۔

[181] سورہٴ بقرہ آیت ۱۹۴۔

[182] سورہٴ آل عمران ۷۶۔

[183] سورہٴ آل عمران ۱۲۳۔

[184] سورہٴ مائدہ آیت ۴۔

[185] سورہٴ آل عمران ۱۷۲۔

[186] مائدہ آیت ۲۷۔

[187] سورہٴ انعام آیت ۶۹۔

[188] سورہٴ حجرات آیت ۱۰۔

[189] سورہٴ جاثیہ آیت ۱۹۔

[190] سورہٴ حجرات آیت ۱۳۔

[191] تفسیر عیاشی ج۲،ص۲۱۳،حدیث۵۰؛ بحار الانوار ،ج۶۷،ص ۲۸۲،باب ۵۶،حدیث۲۔

[192] عدة الداعی ص۳۰۵،فصل فی خواص متفرقة ؛بحار الانوار ج۶۷،ص۲۸۵،باب ۵۶،حدیث۸۔

[193] کنزل الفوائد ج۲،ص۱۰،فصل من کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ؛بحار الانوار ج۶۷،ص۲۸۵،باب ۵۶،حدیث۷۔

[194] سورہٴ بقرہ آیت ۱۷۷۔

[195] خصال ج۱،ص۱۱۰،حدیث ۸۱؛ثواب الاعمال ص ۱۶۶؛بحار الانوار ج۷۲،ص۲۷۳،باب ۷۰ ،حدیث۱۔

[196] تحف العقول ص۲۱؛بحار الانوارج۱،ص۱۲۱،باب ۴،حدیث۱۱۔

[197] محاسن ج۱،ص ۶،باب۱ حدیث۱۴؛بحار الانوار ج۶۸،ص۸۹،باب ۶۲،حدیث۴۱۔

[198] تحف العقول ص۲۹۵؛بحار الانوار ج۷۵،ص۱۷۵،باب ۲۲،حدیث۵۔

[199] تحف العقول ص۳۸۷؛بحار الانوار ج۷۵،ص۳۰۲،باب ۲۵،حدیث۱؛مستدرک الوسائل ج۱۲،ص۴۲۱،باب ۳۲، حدیث ۱۴۴۹۸۔

[200] من لایحضرہ الفقیہ ج۳،ص۴۴۴،باب الغیرة،حدیث۴۵۴۰؛مکارم اخلاق ص۲۳۹؛بحار الانوار ج۱۰۰، ص۲۴۸ ، باب۴، ص۳۳۔

[201] کافی ج۵،ص۵۳۷،باب الغیرة،حدیث۶؛وسائل الشیعہ ج۲۰،ص۲۳۵،باب ۱۳۲،حدیث۲۵۵۲۱۔

[202] من لایحضرہ الفقیہ ج۳،ص۴۴۴،باب الغیرة،حدیث۴۵۴۲؛خصال ج۱،ص۳۷،حدیث۱۵؛بحار الانوار ج۷۶، ص۱۱۴، باب۸۴،حدیث۱۔

[203] وسایل الشیعہ ج۲۰،ص۱۵۳،باب ۷۷،حدیث۲۵۲۸۳۔

[204] سورہٴ یوسف آیت ۱۱۱۔

[205] سورہٴ حشر آیت ۲۔

[206] غرر الحکم ص۵۲،اٴفضل العقل وکمالہ ،حدیث۳۷۴؛تفسیر معین ص۵۴۵۔

[207] نہج البلاغہ :۴۱۵،خطبہ ۱۸۱،الوصیة بالتقوی؛بحار الانوار ج۳۴،ص۱۲۴،باب ۳۱،شرح نہج البلاغہ ج۱۰،ص۹۲۔

[208] جعفریات ص۲۳۰؛مستدرک الوسائل ج۲،ص۴۱۴،باب۶۴،حدیث۲۳۳۸۔

[209] امالی صدوق ص۲۷،مجلس ۸ ،حدیث۲؛تحف العقول ص۲۱۵؛بحار الانوار ج۶۸،ص۲۷۵،باب۷۸،حدیث۲۔

[210] سورہٴ مجادلہ آیت ۱۱۔

[211] روضة الواعظین ج۱،ص۱۱،باب الکلام فی ماھیة العلوم ؛مشکاة الانوار ص۱۳۵،الفصل الثامن ؛بحار الانوار ج۱،ص ۱۸۰، باب ۱، حدیث۶۵۔

[212] امالی طوسی ص۵۷۷، مجلس ۱۴،حدیث ۱۱۹۱؛بحار الانوارج۱،ص۱۸۱،باب۱،حدیث۷۱۔

[213] ترغیب و ترھیب ج۱،ص۹۷۔

[214] منیة المریدص۱۰۰،فصل ۲؛بحار الانوار ج۱،ص۱۸۴،باب۱،حدیث۹۶۔

[215] کنزل العمال ص۲۸۸۶۲۔

[216] سورہٴ انعام آیت ۵۴۔

[217] سورہٴ بقرہ آیت ۲۱۸۔

[218] سورہٴ بقرہ آیت ۲۵۔

[219] سورہٴ زمر آیت ۵۳۔

[220] سورہٴ یوسف آیت ۸۷۔

[221] سورہٴ نساء آیت ۱۲۰۔

[222] نہج البلاغہ ص۷۹۵،حکمت ۱۵۰؛بحار الانوار ج۶۹،ص۱۹۹،باب ۱۰۵،حدیث۳۰۔

[223] عن صادق عن ابائہ عن عليعلیھم السلام قال:کن لما لا ترجو اٴرجی منک لما ترجو،فان موسی بن عمران علیہ السلام خرج یقتبس لا ھلہ نارا فکلمہ اللہ عز وجل فرجع نبیا وخرجت ملکة سباٴ فاٴسلمت مع سلیمان علیہ السلام وخرج سحرة فرعون یطلبون العزة لفرعون فرجعوا موٴمنین۔

من لایحضرہ الفقیہ ج۴،ص۳۹۹،حدیث ۵۸۵۴؛بحار الانوار ج۶۸،ص۱۳۴،باب ۶۳،حدیث۹۔

[224] کافی ج۲ ص ۷۱، باب الخوف الرجاء ،حدیث ۱۱؛بحار الانوارج ۶۷،ص۳۶۵،باب۵۹،حدیث۹۔

[225] عوالی اللئالی ج۴،ص۱۰۲،حدیث۱۵۰۔

[226] سورہٴ نحل آیت ۹۰۔

[227] سورہٴ نساء آیت ۵۸۔

[228] سورہٴ مائدہ آیت ۸۔

[229] جامع الاخبار ص۱۵۴،الفصل لسادس عشر؛مشکاة الانوارص۳۱۶،الفصل الخامس فی الظلم والحرام؛بحار الانوار ج۷۲، ص۳۵۲، باب ۸۱،حدیث۶۱۔

[230] غررا لحکم ص۲۱۱،حدیث ۴۰۶۹۔

[231] بحار الانوارج۷۵،ص۸۳،باب ۱۶،حدیث۸۷۔

[232] غررالحکم ص۴۴۶،مدح العقل ،حدیث ۱۰۲۰۶؛مستدرک الوسائل ج۱۱،ص۳۱۹،باب ۳۷،حدیث ۱۳۱۴۶۔


No comments: