Tuesday, April 28, 2009

روز عید الفطر اور روز جمعہ حضرت امام زین العابدین علیه السلام کی دعا

روز عید الفطر اور روز جمعہ حضرت امام زین العابدین علیه السلام کی دعا

(۱) یا مَن یَّرْحَمُ مَن لاّٰیَرْحَمُہُ الْعِبادُ (۲) وَ یا مَن یَّقْبَلُ مَن لاّٰتَقْبَلُہُ الْبِلادُ (۳) وَ یا مَن لاّ یَحْتَقِرُ اٴَہْلَ الْحاجَةِ إلَیْہِ (۴) وَ یا مَن لّایُخَیِّبُ الْمُلِحّینَ عَلَیْہِ (۵) وَ یا مَن لّایَجْبَہُ بِالرَّدِّ اٴَھلَ الدّآلَّةِ عَلَیْہِ (۶) وَ یا مَن یَّجْتَبی صَغیرَ ما یُتْحَفُ بہ وَ یَشْکُرُ یَسیرَ مایُعْمَلُ لَہُ (۷) وَ یا مَن یَّشْکُرُ عَلَی الْقَلیلِ وَ یُجازی بِالْجَلیلِ (۸) وَ یا مَن یَّدْنُوٓ إلیٰ مَن دَنا مِنْہُ (۹) وَ یا مَن یَّدْعُوٓ إلی نَفْسِہ مَنْ اٴَدْبَرَ عَنْہُ (۱۰) وَ یا مَن لّایُغَیِّرُ النِّعْمَةَ وَ لایُبادِرُ بِالنَّقِمَةِ (۱۱) وَ یا من یُّثْمِرُ الْحَسَنةَ حَتّی یُنْمِیَھا وَ یَتَجاوَزُ عَنِ السَّیِّئَةِ حَتّی یُعَفّیھا (۱۲) اِنْصَرَفَتِ الْاٴَمالُ دونَ مَدیٰ کَرََمِکَ بِالْحاجاتِ وَ امْتَلَاٴَتْ بِفَیْضِ جُودِکَ اٴَوعِیَةُ الطَّلِباتِ وَ تَفَسَّخَت دُّون بلوغ ِ نَعْتِکَ الصِّفاتُ فَلَکَ الْعُلُوُّ الْاٴَعْلی فوقَ کُلِّ عالٍ وَّ الْجلالُ الْاٴَمْجَدُ فوقَ کُلِّ جَلالٍ (۱۳) کُلُّ جَلیلٍ عندکَ صغیرٌ وَ کُلُّ شَریف ٍفی جَنْبِ شَرَفِکَ حَقیرٌ خابَ الْوافِدُونَ عَلَی غَیْرِک و خَسِرَ الْمُتَعَرِّضُونَ إلاّٰ لَکَ وَ ضاعَ الْمُلِمُّونَ إلّا بِکَ وَاٴَجْدَبَ الْمُنْتَجِعُونَ إلاّ مَنِ انْتَجَعَ فَضْلَکَ (۱۴) بابُکَ مَفتوحٌ لِّلرَّاغبینَ وَجُودُکَ مُباحٌ لِلسّآئِلینَ و إغاثَتُک قَریبةٌ مِّنَ الْمُسْتَغیثینَ (۱۵) لایَخیبُ مِنْکَ الْاٰمِلوُنَ و لایَیْاٴسُ مِنْ عَطآئِکَ الْمُتَعَرِّضُونَ وَ لایَشْقیٰ بِنَقِمَتِکَ الْمُسْتَغفِرُونَ (۱۶) رِزْقُکَ مَبْسُوطٌ لِّمَنْ عَصاکَ وَ حِلْمُکَ مُعْتَرِضٌ لِّمَن نّاواکَ عادَتُکَ الإْحْسانُ إلَی الْمُسیٓئینَ وَ سُنَّتُکَ الْإِبْقآءُ عَلَی الْمُعْتَدینَ حَتّی لَقَدْ غَرَّتْہُمُ اٴَناتُکَ عَنِ الرُّجُوعِ وَصَدَّہُمْ إمْھالُکَ عَنِ النُّزُوع ِ (۱۷) وَ إنَّما تَاٴَنَّیْتَ بِہِمْ لِیَفیٓئُوا إلیٓ اٴَمْرِکَ وَ اٴَمْہَلْتَہُمْ ثِقَةً بِدَوامِ مُلْکِکَ فَمَن کانَ مِنْ اٴہْلِ السَّعادَةِ خَتَمْتَ لَہُ بِھا وَ مَن کانَ مِنْ اٴَہْلِ الشَّقاوَةِ خَذَلْتَہُ لَھا (۱۸) کُلُّہُمْ صآئِرُونَ إلی حُکْمِکَ وَ اٴُمُورُہُمْ ءٰ ائِلَةٌ إلیٰ اٴَمْرِکَ لَمْ یَہِنْ عَلی طُولِ مُدَّتِہِمْ سُلْطانُکَ وَ لم یَدْحَضْ لِتَرْکِ مُعٰاجَلَتِہِمْ بُرْھانُکَ (۱۹) حُجَّتُکَ قآئِمَةٌ لاتُدْحَضُ وَ سُلْطانُکَ ثابِتٌ لاّیَزُولُ فَالْوَیْلُ الدّآئِمُ لِمَن جَنَحَ عَنْکَ وَ الْخَیْبَةُ الْخاذِلَةُ لِمَنْ خابَ مِنْکَ وَ الشَّقآءُ الْاٴَشْقیٰ لِمَنِ اغْتَرَّ بِکَ (۲۰) مآ اٴکثرَ تَصَرُّفَہُ فی عَذابِکَ وَ ما اٴَطْوَلَ تَرَدُّدَہُ فی عِقابِکَ وَ مٰآاٴبْعَدَ غایَتَہُ مِنَ الْفَرَج ِ وَ مآ اٴَقْنَطَہُ مِن سُھولَةِ الْمَخْرَجِ عَدْلاً مِّن قَضآئِکَ لاتَجُورُ فیہ وَ إنْصافاً مِنْ حُکْمِکَ لاتَحیفُ عَلَیْہِ (۲۱) فَقَدْظاہَرْتَ الْحُجَجَ وَ اٴَبْلَیْتَ الْاٴَعْذارَ وَ قَدْ تَّقَدَّمْتَ بِالْوَعیدِ وَ تَلَطَّفْتَ فِی التِّرغیبِ وَ ضَرَبْتَ الْاٴَمْثالَ و اٴَطَلْتَ الْإِمْھالَ وَ اٴخَّرْتَ وَ اٴنْتَ مُسْتَطیعٌ لِّلْمُعاجَلَةِ وَ تَاٴَنَّیْتَ وَ اٴنتَ مَلیٓءٌ بِالْمُبادََرَة ِ (۲۲) لَمْ تَکُنْ اٴَناتُکَ عَجْزاً وَّ لٓا إمْھالُکَ وَہْناً وَّ لآ إمْساکُکَ غَفْلةً وَّ لاانْتظارُکَ مُداراةً بَل لِّتَکُونَ حُجَّتُکَ اٴَبْلَغَ وَ کَرَمُکَ اٴَکْمَلَ وَ إحْسانُکَ اٴَوْفیٰ وَ نِعْمَتُکَ اٴَتَمَّ کُلُّ ذٰلِکَ کانَ وَ لَمْ تَزَلْ وَ ھو کآئِنٌ وَّ لاتَزالُ (۲۳) حُجَّتِکَ اٴَجَلُّ مِنْ اٴن تُوصَفَ بِکُلِّھا وَ مَجْدُکَ اٴرْفَعُ مِنْ اٴَن یُّحَدَّ بِکُنْہِہِ وَ نِعْمَتُکَ اٴکثَرُ مِنْ اٴن تُحْصیٰ بِاٴَسْرِھا وَ إحْسانُکَ اٴکْثَرُ مِنْ اٴن تُشْکَرَ عَلیٰٓ اٴَقَلِّہ (۲۴) وَ قَدْ قَصَّرَ بِیَ السُّکُوتُ عَن تَحْمیدِکَ وَ فَہَّہَنِیَ الإِْمْساکُ عَن تَمْجیدِکَ وَ قُصارایَ الإِْقْرارُ بِالْحُسُورِ لارَغْبَةً یّآ إلھیٓ بَلْ عَجْزاً (۲۵) فَھآٰ اٴنَا ذا اٴَؤمُّکَ بِالوِفادَةِ وَ اٴسْاٴَلُکَ حُسْنَ الرِّفادَةِ فَصَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَّ ء ٰالِہ وَاسْمَعْ نَجْوایَ وَاسْتَجِبْ دُعآئی وَ لاتَخْتِمْ یَوْمی بِخَیْبَتی وَ لاتَجْبَہْنی بِالرَّدِّ فی مَسْاٴَلَتی وَ اٴَکْرِم مِّنْ عِنْدِکَ مُنْصَرَفی وَ إلَیْکَ مُنْقَلَبیٰٓ إنَّکَ غَیْرُ ضآئِقٍ بِماتُریدُ و َلاعاجِزٍ عَمّا تُسْاٴَلُ وَ اٴَنْتَ عَلی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدیرٌ وَّ لاحَوْلَ وَ لاقُوَّةَ إلّٰا بِالله ِ الْعَلِیِّ الْعَظیمِ۔

(۱)اے وہ پروردگار جو اس پر بھی رحم کرتا ھے جس پر بندے رحم نھیں کرتے ھیں (۲)اور اسے بھی قبول کرلیتا ھے جسے کوئی شھرقبول نھیں کرتا ھے ۔(۳)اے وہ جو اپنے محتاجوں کو حقیر نھیں سمجھتا ھے (۴)اور اپنے سے اصرارکرنے والوں کو نامراد نھیں کرتا ھے (۵)اور محبت کا اظھارکرنے والوں کو ٹھکرانھیں دیتا ھے ۔(۶)اے وہ جو چھوٹے سے تحفہ کو بھی جمع کرلیتا ھے اور اپنی راہ میں ھونے والے معمولی عمل کی بھی قدر دانی کرتا ھے (۷)اے وہ جو مختصر عمل کی بھی قدر کرکے عظیم ترین جزاعنایت کر دیتا ھے (۸)اے وہ جو قریب ھونے والوں سے قریب ھوجاتا ھے (۹)اور منھ پھیر نے والوں کو بھی اپنی طرف دعوت دیتا ھے(۱۰) نعمتوں کو بدلتا نھیں ھے اور انتقام میں جلدی نھیں کرتا ھے(۱۱) نیکیوں کو ثمردار بنادیتا ھے تاکہ انھیں بڑھا سکے اور برائیوں سے درگذار کرتا ھے تاکہ انھیں مٹاسکے ۔

(۱۲)امیدیں تیرے کرم کی انتھاسے پھلے ھی حاجتیں لے کر واپس آگئیں اور مطالبات کے ظرف تیرے فیض کرم سے چھلکنے لگے اور صفتیں تیری حدنعمت تک پہنچنے سے پھلے ھی بکھر گئیں ۔تیرے لئے ھی تمام سربلند افراد سے بالا تر بلندی ھے اور ھر جلال سے بالاتر جلال ھے۔

(۱۳) اپنے مقام کا ھر جلیل تیرے سامنے صغیر ھے اور اپنی منزل کا ھر شریف تیرے شرف کے پھلومیں حقیر ھے تیرے غیر کی بارگاہ میں وارد ھونے والے ناکام ھوجاتے ھیں اور تیرے علاوہ کسی کے سامنے ھاتھ پھیلانے والے گھاٹے میں رہ جاتے ھیں ،تیرے علاوہ کسی کی جناب میں حاضر ھونے والے برباد ھوگئے اور تیرے فضل کے علاوہ کسی فضل کے تلاش کرنے والے مبتلائے قحط ھوگئے ۔

(۱۴)تیرا دروازہ طلبگاروں کے لئے ھمیشہ کھلارھتا ھے اور تیرا اکرم سائلوں کے لئے ھمیشہ عام رھتا ھے اور تیری فریاد رسی فریادیوں سے قریب تر ھے (۱۵)امید وار تجھ سے محروم نھیں رھتے ھیں اور طلبگار تیری عطاسے مایوس نھیں ھوتے ھیں اور استغفار کرنے والے تیرے عذاب کی بنا پر بدبخت نھیں ھوتے ھیں ۔

(۱۶)تیرا رزق تیرے گنھگاروں کے لئے بھی عام ھے اور تیرا حلم تیرے دشمنوں کے لئے پیش پیش رھتا ھے تیری عادت بد عمل افراد کے ساتھ بھی احسان ھے اور تیرا طریقہٴ کار ظالموں کو بھی چھوٹ دیدیتاھے ۔یھاں تک کہ تیری مھلت کی وجہ سے پلٹنے کے بارے میں دھوکہ میں رہ گئے اور تیری رحمت کے خیال نے انھیں گناھوںسے پرھیز کرنے سے روک دیا(۱۷) جب کہ تونے انھیں فرصت دی تھی کہ تیرے احکام کی طرف پلٹ آئیں اور انھیں مھلت دی تھی کہ تجھے اپنی سلطنت کے دوام کا اعتبار تھا اب اس کے بعد جو حقدار سعادت تھا اس کا خاتمہ سعادت پر ھوگیا اور جو اھل شقاوت میں تھا اسے شقاوت کے حوالہ کردیا ۔(۱۸)جب کہ سب تیرے ھی حکم کی طرف جارھے ھیں اور سب کے امور تیرے ھی امر کی طرف پلٹ کرآنے والے ھیں ۔ان کی مدت طویل بھی ھوگئی تو تیری سلطنت کمزور نھیں ھوئی۔

(۱۹) اور تو نے جلدی نھیں بھی کی تو تیری دلیل کمزور نھیں ھوئی تیری حجت برقرار ھے وہ زائل نھیں ھوسکتی ھے اور تیری سلطنت ثابت ھے اور تمام نھیں ھوسکتی ھے ۔دائمی افسوس اس کے لئے ھے جو تیری طرف سے کنارہ کش ھوگیا اور رسوا کن نامرادی اس کا مقدر ھے جو تیرے دربار سے نامراد ھوجائے اور بدترین بدبختی اس کا حصہ ھے جو تیرے کرم کے دھوکہ میں رہ جائے(۲۰) ایسے شخص کو عذاب میں کس قدر کروٹیں بدلنا پڑیں گی اور اسے عتاب میں کس قدر پلٹے کھانا پڑیں گے اور اس کا فائدہ منزل سکون سے کس قدر بعید ھے اور وہ اس کے چھٹکارہ کی سھولت سے کس قدر مایوس ھے ۔یہ سب تیرے فیصلہ کا عادلانہ نظام ھے جس میں تو کسی پر ظلم نھیں کرتا ھے(۲۱) تو نے دلیلوں کو کھول کر بیان کردیا ھے اور سب کے عذروں کو تمام کردیا ھے اور تو پھلے سے بھی عذاب کی دھمکی دے چکا تھا نھایت نرمی کے ساتھ ترغیب بھی کرچکا تھا تو نے مثالیں بھی بیان کردیں اور مھلت بھی طولانی کردی اور عذاب کو جلدی کے امکانات کے باوجود موخر کردیا اور اسباب سبقت سے مالا مال ھونے کے بعد بھی صبر وتحمل سے کام لیا۔ (۲۲)یہ تیرا توقف کوئی عاجزی نھیں تھا اور یہ تیری مھلت کوئی کمزوری نھیں تھی اور نہ عذاب روک لینے میں کسی غفلت کا کوئی دخل تھا اور نہ تو کسی مدارات کا انتظار کررھا تھا بات صرف یہ تھی(۲۳) کہ تو اپنی حجت کو بلیغ تر ،اپنے کرم کو کامل تر، اپنے احسانات کو مکمل اور اپنی نعمت کو اتم واکمل بنانا چاھتا تھا یہ سب ھوگیا اور ھورھاھے اور سب ھوتارھے گا اور تورھے گا تیری بزرگی اس امر سے اجل وارفع ھے کہ اس کی حقیقت کی تحدید کی جاسکے اور تیری نعمتیں اس بات سے زیادہ ھیں کہ ان کے مختصر کا بھی شکریہ ادا کیا جاسکے۔

(۲۴) میرے سکوت نے مجھے تیری حمد سے قاصر بنادیا اور میرے توقف نے تیری بزرگی کے بیان سے گونگابنادیا اب میری آخری حد امکان یہ ھے کہ میں اپنی عاجزی کا اقرارکرلوں لیکن کسی بے رغبتی کی بناپر نھیں ، بلکہ اپنی عاجزی کی بنا پر اے میرے پروردگار۔

(۲۵)اب میں تیری بارگاہ میں حاضری کا قصد کررھا ھوں اور تجھ سے بھترین عطا کا سوال کرھا ھوں لہٰذا محمد وآل محمدپر رحمت ناز ل فرما اور میری مناجات کو سن لے ،میری دعاؤں کو قبول کرلے اور میرے دن کا خاتمہ ناکامی پر نہ کرنا اور میرے سوال کا مقابلہ ٹھکرانے سے نہ کرنا ۔اپنی بارگاہ سے میری واپسی کو باعزت بنادے اور اپنی طرف میرے پلٹ کے آنے کو عزت واحترام سے آشنا کردے تیرے لئے کسی مقصد میں کوئی تنگی تو ھر شے پر قدرت رکھنے والا ھے اور خدائے علی وعظیم سے ہٹ کرکوئی قوت اور طاقت نھیں ھے ۔

...................تمام............................


No comments: