Tuesday, April 28, 2009

شرح دعاء کمیل 1

شرح دعاء کمیل

موٴلف : استاد حسین انصاریان

مترجم: اقبال حیدر حیدری

نام کتاب: شرح دعاء کمیل

موٴلف : استاد حسین انصاریان

مترجم: اقبال حیدر حیدری

ناشر: انصاریان پبلیشر

کمپوزنگ : ابو محمد ھندی

چاپ اول: ۱۴۲۵ھ ق،۱۳۸۳ھ ش

چاپ خانہ : نگین، قم

تعداد : ۳۰۰۰

عرض مترجم

بسم الله الرحمٰن الرحیم

الحمدُ لله ربّ العالمین و صلی الله علی محمد و آلہ الطاھرین۔

جس طرح انسان کو اپنی مصنوعات اور ماں باپ کو اپنی اولاد محبوب ھوتی ھے اس سے کہیں زیادہ خداوندعالم اپنی مخلوقات کو دوست رکھتا ھے، خصوصاً اشرف المخلوقات انسان کو نھایت درجہ چاہتا ھے، کیونکہ یھی انسان خلیفة اللہ ھے، لہٰذا انسان کو بھی اپنے محبوب خالق سے غافل نھیں ھونا چاہئے، اس نے انسان کو صرف پیدا ھی نھیں کیا ھے بلکہ اس کی آسائش کے لئے زمین و آسمان کے درمیان تمام نعمتوں کو خلق فرمایا ھے، لہٰذا انسان کو ھر حال میں خدا کی بے شمار نعمتوں کے مقابلہ میں کا شکر گزار بندہ رھنا چاہئے کیونکہ اگرانسان شکر کرے گا تو خدا بھی نعمتوں میں مزید اضافہ فرمائے گا۔

خداوندعالم کتنا رحیم ھے، اس کی رحمت کا اندازہ لگانا مشکل ھے، چنانچہ حدیثوں میں وارد ھوا ھے کہ خداوندعالم کی رحمت کے ۱۰۰ درجے ھیں ان میں سے ایک درجہ اس دنیا سے مخصوص ھے جس کی بنا پر وہ اپنے بندوں پر دنیا میں مھربان ھے ، اسی نے ماں کے دل میں رحم ڈالا تو وہ اپنے بچہ سے محبت کرتی ھے، اور ۹۹ درجے آخرت کے لئے مخصوص ھیں اب آپ اندازہ لگاسکتے ھیں کہ خداوندعالم روز قیامت اپنے بندوں پر کتنا مھربان ھوگا۔

قرآن کریم اور اھل بیت علیھم السلام کی احادیث کی بناپرانسان کتنا ھی بڑا خاطی او رگناھگار کیوں نہ ھو لیکن اگر خلوص نیت اور لازمی شرائط کے ساتھ خداوندمھربان کی بارگاہ میں حاضر ھوکر توبہ کرلے تو وہ معاف کردیتا ھے،یھی وجہ ھے کہ اس نے اپنے بندوں کو دعا کرنے کا حکم دیا ھے: ”وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُونِی اٴَسْتَجِبْ لَکُمْ “[1] (اور تمھارے پروردگار کا کھنا ھے کہ مجھ سے دعائیں مانگو، میں تمھاری دعاؤں کو قبول کروں گا) ، پس اگر ھم تمام شرائط کے ساتھ دعا کریں تو دعا کے حکم کی حکمت متقاضی ھے کہ خداھماری دعاؤں کو قبول کر ے کیونکہ اگر وہ قبول نہ کرے اور پھر بھی دعا کا حکم دے تواس کا یہ حکم لغو و عبث ھوجائے گا۔

لہٰذا ھمیں کبھی بھی اپنی دعاؤں کے قبول نہ ھونے سے مایوس نھیں ھونا چاہئے، کیونکہ مایوسی کفر ھے، بلکہ اگر ھماری دعا قبول نھیں ھورھی ھے تو ھمیں دعا کے شرائط اور اس کے طریقہ پر ایک بار پھر نظر کرنا چاہئے، الحمد للہ قرآن مجید اور احادیث معصومین علیھم السلام میں خود ایسی بھی دعائیں موجود ھیں جن کے اندر بارگاہ خداوندی میں دعا کرنے کے شرائط اور طریقہ بیان کئے گئے ھیں، ھمیں صرف غور سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ھے، انھیں میں سے ایک دعاء کمیل ھے یہ ایک ایسی عظیم الشان دعا ھے جس کو امام المتقین امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے خاص شاگرد جناب کمیل کو تعلیم فرمائی ھے، اور اس عظیم الشان دعا کے مطالب اس قدر عالی ھیں کہ اگر انسان توجہ کے ساتھ اور خلوص نیت سے پڑھے تو اس کے تمام گناہ معاف ھوسکتے ھیں۔

افسوس کے ساتھ کھنا پڑتا ھے کہ ھمارے یھاں یا یہ دعاپڑھی ھی نھیں جاتی او راگر پڑھی بھی جاتی ھے تو خالی عربی دعا کو دس پندرہ منٹ میں پڑھ لیا جاتا ھے، لیکن اگر ھم اس دعا کے معنی پر توجہ کرتے ھوئے اس عظیم الشان دعا کوپڑھیں تو آنکھوں سے آنسووٴں کا سیلاب جاری ھوسکتا ھے، اور جب انسان کی آنکھ میں آنسو ھوں اور اس کا دل بھرآیا ھواس وقت اگر خدا کی باگارہ میں توبہ کی جائے تو خدا ضرور قبول فرمائے گا، اور اگر انسان توبہ کرنے کے بعد پھر گناھوں میں ملوث ھوجائے اورپھر توبہ کرلے تو ممکن ھے کہ وہ اس توبہ کو بھی قبول کرلے، کیونکہ وہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا ھے، موت آنے سے پھلے پھلے توبہ کا دروازہ کھلا رہتا ھے، ھم کسی بھی وقت اس کی بارگاہ میں حاضر ھوکر توبہ کرسکتے ھیں۔

حجة الاسلام و المسلمین استاد حسین انصاریان کی کتاب ”شرح دعاء کمیل“ کا ترجمہ حاضر خدمت ھے، واقعاً یہ ایک جامع شرح ھے، اس کتاب کے مطالعہ کے بعد دعاء کمیل کے پڑھنے کا مزہ ھی کچھ اور ھے، خصوصاً دینی طلباء کے لئے یہ کتاب بہت مفید ھے انھیں حضرات پر لازم ھے کہ اس کتاب کے مطالب عام مومنین تک پھنچائیں تاکہ مومنین کی دعاؤں میں معنویت اور روحانیت پیدا ھو اور ان کی مرادیں پوری ھوجائیں،اگر اس کتاب کے مطالعہ کے دوران آپ حضرات کے بھی دل بھرآئیں اور آنکھوں میں آنسو آجائيں تو حقیر کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد کرلیجئے گا۔

آخر میں کتاب ہذا کی کمپوز نگ اور تصحیح میں تعاون کرنے والے رفقاء کا شکر گزار ھوں ، خداوندعالم ھم سب سے اس ناچیز خدمت کو قبول فرمائے۔ (آمین)

والسلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ

اقبال حیدر حیدری۔حوزہ علمیہ ۔قم۔

ihh2001@yahoo.com

عرض موٴلف

بسم الله الرحمٰن الرحیم

الحمدُ لله ربّ العالمین و صلی الله علی محمد و آلہ الطاھرین۔

حقیر گیارہ سال کی عمر سے اپنے والد محترم کے ساتھ ماہ رمضان المبارک کی شبوں میں تھران کے مشھور مذھبی جلسوں میں شرکت کیا کرتا تھا، وھاں پر مرحوم آیت اللہ حاج سید محمد مھدی لالہ زاری لوگوں کی ھدایت کے لئے بہترین معارف الٰھی بیان فرماتے تھے، اور شب جمعہ کی تاریکی میں دعاء کمیل کو ملکوتی لہجہ، قلب سوزاں اور گریہ کناں آنکھوں سے اس طرح پڑھتے تھے کہ دعاء کمیل میں شرکت کرنے والا ھر شخص اس معنوی دعا اور گریہ کناں لہجہ سے متاثر ھوئے بغیر نھیں رہ سکتا تھا۔

حقیر بھی دوسرے مومنین کی طرح اس عظیم الشان دعا سے متاثر تھااور بڑے ھی جوش و ولولہ کے ساتھ اس بابرکت دعا میں شرکت کیا کرتا تھا، مولائے عارفین امام عاشقین حضرت علی علیہ السلام کی تعلیم کردہ یہ دعا واقعاًلوگوں کیپاکیزگی روح اور گناھوں سے توبہ کا راستہ ھموار کرنے والی ھے۔

پھلی مرتبہ جیسے ھی حقیر نے اس دعا کو سنا تو تین روز کے اندر ھی الحمد للہ اس دعا کو حفظ کرلیا، اور پھر گھر میں اور اپنے ھم کلاس دوستوں کے درمیان پڑھا کرتا تھا۔

حوزہ علمیہ قم میں تحصیل علم کے لئے مشرف ھونے کے بعد جب تبلیغ کے لئے جانے لگا تو حقیر نے دعائے کمیل کے جلسات منعقد کرنااپنے اوپر فرض کرلیا، اور کچھ ھی مدت کے بعد حقیر کی دعاء کمیل پورے ایران اور بیرون ملک بھی مشھور ھوگئی،اور تصور سے زیادہ لوگ شرکت کرنے لگے، دعائے کمیل کے سلسلہ میں مومنین نے بہت سے نتائج و فوائد حاصل کئے ھیں کہ اگر ان کے بارے میں بیان کیا جائے تو خود ایک کتاب مستقل بن جائے گی۔

شبِ ولادت حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام ، حجة الاسلام و المسلمین جناب رحیمیان صاحب نے حقیر سے کھا کہ مومنین کے لئے دعاء کمیل کی ایک شرح لکھیں تاکہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اس دعا کی حقیقت کے سلسلے میں مزید معرفت حاصل کریں اور بصیرت کے ساتھ اس دعاکے جلسوں میں شرکت کریں ۔

چنانچہ خدا کا لطف و کرم اوراس کی توفیق شامل حال ھوئی کہ اپنی استطاعت کے مطابق دعاء کمیل کی شرح حاضر خدمت ھے، اب دیکھنا یہ ھے کہ آپ حضرات اس کتاب سے کس قدر فیضیاب ھوتے ھیں۔

آخر میں ”موسسہ دار العرفان“ کے شعبہ تحقیق میں مشغول دوستوں کا شکر گزار ھوں جنھوں نے اس کتاب کی تصحیح وغیرہ اور زیور طبع سے آراستہ کرنے میں زحمتیں برداشت کی ھیں، خداوندعالم مزید توفیق عنایت فرمائے۔

احقر العباد حسین انصاریان

دعاء کمیل

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بنام خدائے رحمن و رحیم

اٴَللّٰھُمَّ اِنّيِ اٴَسْاٴَ لُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتي وَ سِعَتْ کُلَّ شَيْءٍ،وَ بِقُوَّتِکَ الَّتي قَھَرْتَ

خدایا میراسوال اس رحمت کے واسطہ سے ھے جو ھر شے پر محیط ھے۔ اس قوت کے واسطہ سے ھے جو ھر چیز پر حاوی ھے

بِھٰا کُلَّ شَيْءٍ،وَخَضَعَ لَھٰا کُلُّ شَيْ ءٍ،وَذَلَّ لَھٰا کُلُّ شَيْ ءٍ، وَبِجَبَرُوتِکَ الَّتي غَلَبْتَ

اور اس کے لئے ھر شے خاضع اور متواضع ھے۔ اس جبروت کے واسطہ سے ھے جو ھر شے پر غالب ھے اور اس عزت کے واسطہ سے ھے

بِھٰا کُلَّ شَيْءٍ، وَ بِعِزَّتِکَ الَّتي لاٰ یَقُومُ لَھٰا شَيْءٌ، وَبِعَظَمَتِکَ الَّتي مَلَاٴَتْ کُلَّ

جس کے مقابلہ میں کسی میں تاب مقاومت نھیں ھے۔اس عظمت کے واسطہ سے ھے جس نے ھر چیز کو پر کردیا ھے

شَيْءٍ، وَ بِسُلْطٰانِکَ الَّذي عَلاٰ کُلَّ شَيْءٍ، وَبِوَجْھِکَ الْبٰاقي بَعْدَ فَنٰاءِ کُلِّ شَيْءٍ،

اور اس سلطنت کے واسطہ سے ھے جو ھر شے سے بلند تر ھے۔اس ذات کے واسطہ سے ھے جو ھر شے کی فنا کے بعد بھی باقی رھنے والی ھے

وَبِاٴَسْمٰائِکَ الَّتي مَلَاٴَتْ اَرْکٰانَ کُلِّ شَيْءٍ،وَبِعِلْمِکَ الَّذي اٴَحٰاطَ بِکُلِّ شَيْءٍ،

اور ان اسماء مبارکہ کے واسطہ سے ھے جن سے ھر شے کے ارکان معمور ھیں ۔اس علم کے واسطہ سے ھے جو ھر شے کا احاطہ کئے ھوئے ھے

وَبِنُورِ وَجْھِکَ الَّذي اٴَضٰاءَ لَہُ کُلُّ شَيْءٍ، یٰا نُورُ یٰا قُدُّوسُ،یٰا اٴَوَّلَ الْاٴَوَّلینَ،

اور اس نور ذات کے واسطہ سے ھے جس سے ھر شے روشن ھے۔اے نور ،اے پاکیزہ صفات،اے اوّلین سے اوّل اور آخرین سے آخر۔

وَیٰا آخِرَالْآخِرینَ۔

اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تَھْتِکُ الْعِصَمَ ۔اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُنْزِلُ النِّقَمَ۔

خدایا میرے گناھوں کو بخش دے جو ناموس کو بٹہ لگادیتے ھیں۔ان گناھوں کو بخش دے جو نزول عذاب کا باعث ھوتے ھیں۔

اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُغَیِّرُالنِّعَمَ۔اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تَحْبِسُ

ا ن گناھوں کو بخش دے جو نعمتوں کو متغیر کر دیا کرتے ھیں ۔ان گناھوں کو بخش دے جو دعاوٴں کو تیری بارگاہ تک پھنچنے سے روک دیتے ھیں ۔

الدُّعٰآءَ۔اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيَ الذُّنُوبَ الَّتِي تُنْزِلُ الْبَلآٰءَ۔اٴَللّٰھُمَّ اغْفِرْلي کُلَّ ذَنْبٍ اٴَذْنَبْتُہُ، وَکُلَّ خَطٓیئَةٍ اٴَخْطٰاٴْتُھٰا۔

ان گناھوں کو بخش دے جو امیدوں کو منقطع کر دیتے ھیں۔ان گناھوں کو بخش دے جو نزول بلاء کا سبب ھوتے ھیں۔ خدایا میرے تمام گناھوں اور میری تمام خطاوٴں کو بخش دے۔

اٴَللّٰھُمَّ إِنِّي اٴَتَقَرَّبُ إِلَیْکَ بِذِکْرِکَ،وَاٴَسْتَشْفِعُ بِکَ إِلٰی نَفْسِکَ،وَاٴَسْاٴَلُکَ

خدایامیں تیری یاد کے ذریعہ تجھ سے قریب ھو رھاھوں اور تیری ذات ھی کو تیری بارگاہ میں شفیع بنا رھا ھوں تیرے کرم کے سھارے میرا سوال ھے

بِجُودِکَ اٴَنْ تُدْنِیَني مِنْ قُرْبِکَ،وَاَنْ تُوزِعَنِي شُکْرَکَ،وَاَنْ تُلْھِمَنِي ذِکْرَکَ،اٴَللّٰھُمَّ إِنّي اٴَسْاٴَلُکَ

کہ مجھے اپنے سے قریب بنالے اور اپنے شکر کی توفیق عطا فرما اور اپنے ذکر کا الھام کرامت فرما۔خدایامیں نھایت درجہ

سُوٴٰالَ خٰاضِعٍ مُتَذَلِّلٍ خٰاشِعٍ اٴَنْ تُسٰامِحَنيوَتَرْحَمَنِي وَتَجْعَلَنِي بِقِسْمِکَ رٰاضِیاً

خشوع ،خضوع اور ذلت کے ساتھ یہ سوال کرر ھاھوں کہ میرے ساتھ مھربانی فرما۔مجھ پر رحم کر اور جو کچھ مقدر میںھے مجھے

قٰانِعاً،وَفي جَمیعِ الْاٴَحْوٰالِ مُتَوٰاضِعاً۔

اسی پر قانع بنادے۔مجھے ھر حال میں تواضع اور فروتنی کی توفیق عطا فرما۔

اٴَللّٰھُمَّ وَاٴَسْاٴَ لُکَ سُوٴٰالَ مَنِ اشْتَدَّتْ فٰاقَتُہُ،وَاٴَنْزَلَ بِکَ عِنْدَ الشَّدٰائِدِ

خدایا میرا سوال اس بے نوا جیسا ھے جس کے فاقے شدید ھوں اور جس نے اپنی حاجتیں تیرے سامنے رکھ دی ھوں

حٰاجَتَہُ،وَعَظُمَ فیمٰا عِنْدَکَ رَغْبَتُہُ۔اٴَللّٰھُمَّ عَظُمَ سُلْطٰانُکَ،وَعَلٰا مَکٰانُکَ،وَخَفِيَ

اور جس کی رغبت تیری بارگاہ میں عظیم ھو۔خدایا تیری سلطنت عظیم۔ تیری منزلت بلند۔تیری تدبیر مخفی ۔

مَکْرُکَ،وَظَہَرَ اٴَمْرُکَ،وَغَلَبَ قَہْرُکَ،وَجَرَتْ قُدْرَتُکَ،وَلٰا یُمْکِنُ الْفِرٰارُمِنْ حُکُومَتِکَ۔

تیرا امر ظاھر۔تیرا قھر غالب اور تیری قدرت نافذ ھے اور تیری حکومت سے فرار ناممکن ھے۔

اٴَللّٰھُمَّ لاٰاٴَجِدُ لِذُنِوبيغٰافِراً،وَلاٰ لِقَبٰائِحيسٰاتِراً،وَلاٰلِشَيْءٍ مِنْ عَمَلِيَ الْقَبیحِ

خدایا میرے گناھوں کے لئے بخشنے والا۔میرے عیوب کے لئے پردہ پوشی کرنے والا،میرے قبیح اعمال

بِالْحَسَنِ مُبَدِّلاً غَیْرَکَ،لاٰإِلٰہَ إِلاَّ اٴَنْتَ سُبْحٰانَکَ وَبِحَمْدِکَ،ظَلَمْتُ نَفْسِي،ُ

کو نیکیوں میں تبدیل کرنے والا تیرے علاوہ کوئی نھیں ھے۔ تو وحدہ لا شریک، پاکیزہ صفات اور قابل حمد ھے۔خدایا میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ھے۔

وَتَجَرَّاٴْت بِجَھْلي،وَسَکَنْتُ إِلٰی قَدِیمِ ذِکْرِکَ لي،وَمَنِّکَ عَلَيَّ۔

اپنی جھالت سے جسارت کی ھے اور اس بات پر مطمئن بیٹھا ھوں کہ تونے مجھے ھمیشہ یا د رکھا ھے اور ھمیشہ احسان فرمایا ھے۔

اٴَللّٰھُمَّ مَوْلاٰيَ کَمْ مِنْ قَبیحٍ سَتَرْتَہُ،وَکَمْ مِنْ فٰادِحٍ مِنَ الْبَلآٰءِ اٴَقَلْتَہُ،وَکَمْ مِنْ

خدایا میرے کتنے ھی عیب ھیںجنھیں تونے چھپا دیا ھے اور کتنی ھی عظیم بلائیں ھیں جن سے تونے بچایا ھے۔کتنی ٹھوکریں ھیں

عِثٰارٍوَقَیْتَہُ،وَکَمْ مِنْ مَکْرُوہٍ دَفَعْتَہُ،وَکَمْ مِنْ ثَنٰاءٍ جَمیلٍ لَسْتُ اٴَھْلاً لَہُ نَشَرْتَہُ۔

جن سے تونے سنبھالا ھے اور کتنی برائیاں ھیں جنھیں تونے ٹالا ھے۔کتنی ھی اچھی تعریفیں ھیں جن کا میں اھل نھیں تھا اور تونے میرے بارے میں انھیں نشر کیا ھے ۔

اٴَللّٰھُمَّ عَظُمَ بَلاٰئِي،وَاٴَفْرَطَ بيسُوٓءُ حٰالي،وَقَصُرَتْ بياٴَعْمٰالِي،وَقَعَدَتْ

خدایا میری مصیبت عظیم ھے ۔میری بدحالی حد سے آگے بڑھی ھوئی ھے ۔میرے اعمال میں کوتاھی ھے۔مجھے کمزوریوں

بِياٴَغْلاٰلِي،وَحَبَسَنِي عَنْ نَفْعِي بُعْدُ اٴَمَلِي وَخَدَعَتْنِي الدُّنِّیٰا بِغُرُورِھٰاوَنَفْسي بِجِنٰایَتِھٰا

کی زنجیروں نے جکڑکر بٹھا دیا ھے اور مجھے دور دراز امیدوں نے فوائد سے روک دیا ھے،دنیا نے دھوکہ میں مبتلا رکھا ھے اور نفس نے خیانت اور ٹال مٹول میں مبتلا رکھا ھے ۔

وَمِطٰالي یٰاسَیِّدِي،فَاٴَسْاٴَلُکَ بِعِزَّتِکَ اٴَنْ لاٰیَحْجُبَ عَنْکَ دُعٰائِي سُوٓءُ عَمَلِي و َفِعٰالِي،

میرے آقا و مولا! تجھے تیری عزت کا واسطہ ۔میری دعاوٴں کو میری بد اعمالیاں روکنے نہ پائیں اور میں

وَلاٰتَفْضَحْنِي بِخَفِيِّ مَا اطَّلَعْتَ عَلَیْہِ مِنْ سِرِّي،وَلاٰ تُعٰاجِلْني بِالْعُقُوبَةِ عَلٰی مٰا عَمِلْتُہُ

اپنے مخفی عیوب کی بنا پر بر سر عام رسوانہ ھونے پاوٴں۔میں نے تنھا ئیوں میں جو غلطیاں کی ھیں ان کی سزا فی الفور نہ

فيخَلَوٰاتي مِنْ سُوٓءِ فِعْلِي وَإِسٰائَتِي،وَدَوٰامِ تَفْریطي وَجَھٰالَتِي، وَکَثْرَةِ شَھَوٰاتي وَ غَفْلَتِي۔

ملنے پائے، چاھے وہ غلطیاں بد عملی کی شکل میں ھو ں یا بے ادبی کی شکل میں،مسلسل کوتاھی ھو یا جھالت یا کثرت خواھشات و غفلت۔

وَکْنِ اللّٰھُمَّ بِعِزَّتِکَ لي فی کُلِّ الْاٴَحْوٰالِ رَؤُوفاً،وَعَلَيَّ في جَمیعِ الْاُمُورِ

خدایا مجھ پرھر حال میں مھربانی فرما اور میرے اوپر تمام معاملات میں کرم فرما۔خدایا۔پروردگار۔میرے پاس

عَطُوفاً،إِلٰھيوَرَبّيمَنْ لي غَیْرُکَ،اٴَسْاٴَلُہُ کَشْفَ ضُرّي، وَالنَّظَرَ فياٴَمْرِي۔

تیرے علاوہ کون ھے جو میرے نقصانات کو دور کر سکے اور میرے معاملات پر توجہ فرماسکے۔

إِلٰھي وَمَوْلاٰيَ اٴَجْرَیْتَ عَلَيّحُکْماً اتَّبَعْتُ فیہِ ھَویٰ نَفْسي،وَلَمْ اٴَحْتَرِسْ فیہِ مِنْ

خدایا مولایا۔تونے مجھ پر احکام نافذ کئے اور میں نے خواھش نفس کا اتباع کیا اور اس با ت کی پرواہ نہ کی کہ دشمن

تَزْیینِ عَدُوِّي،فَغَرَّنِي بِمٰااٴَھْویٰ وَاٴَسْعَدَہُ عَلٰی ذٰلِکَ الْقَضٰٓاءُ فَتَجٰاوَزْتُ بِمٰاجَریٰ عَلَيَّ مِنْ

(شیطان) مجھے فریب دے رھا ھے۔ نتیجہ یہ ھوا کہ اس نے خواھش کے سھارے مجھے دھوکہ دیا اور میرے مقدر نے بھی اس کا سا تھ دےدیا

ذٰلِکَ بَعْضَ حُدُودِکَ،وَخٰالَفْتُ بَعْضَ اٴَوٰامِرِکَ۔

اور میں نے تیرے احکام کے معاملہ میں حدود سے تجاوز کیا اور تیرے بہت سے احکام کی خلاف ورزی کر بیٹھا ۔

فَلَکَ الْحَمْدُ عَلَيَّ فيجَمیعِ ذٰلِکَ،وَلاٰحُجَّةَ لِي فِیمٰاجَریٰ عَلَيَّ فیہِ قَضٰاوُٴکَ،

بھر حال اس معاملہ میں میرے ذمہ تیری حمد بجالانا ضروری ھے اور اب تیری حجت ھر مسئلہ میں میرے اوپر تمام ھے اور میرے پاس

وَاٴَلْزَمَنِيحُکْمُکَ وَبَلٰاوٴُکَ،وَقَدْ اٴَتَیْتُکَ یٰاإِلٰھِي بَعْدَ تَقْصیرِي وَإِسْرٰافِيعَلٰی نَفْسِي،

تیرے فیصلہ کے مقابلہ میں اور تیرے حکم و آزمائش کے سامنے کوئی حجت و دلیل نھیں ھے۔اب میں ان تمام کوتاھیوں اور اپنے نفس پر تمام زیادتیوں

مُعْتَذِراًنٰادِماً مُنْکَسِراًمُسْتِقیلًا مُسْتَغْفِراً مُنیباًمُقِرّاً مُذْعِناًمُعْتَرِفاً، لاٰ اٴَجِدُ مَفَرّاًمِمّٰا کٰانَ مِنّي،

کے بعد تیری بارگاہ میں ندامت انکسار، استغفار، انابت، اقرار، اذعان، اعتراف کے ساتھ حاضر ھو رھاھوں کہ میرے پاس ان گناھوں سے بھاگنے کے لئے کوئی

وَلاٰمَفْزَعاًاٴَتَوَجَّہُ إِلَیْہِ فياٴَمْرِي غَیْرَ قَبُولِکَ عُذْرِي،وَإِدخٰالِکَ إِیّٰايَ في سَعَةِ رَحْمَتِکَ۔

جائے فرار نھیں ھے اور تیری قبولیت معذرت کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نھیں ھے۔صرف ایک ھی راستہ ھے کہ تواپنی رحمت کاملہ میں داخل کر لے۔

اٴَللّٰھُمَّ فَاقْبَلْ عُذْري،وَارْحَمْ شِدَّةَ ضُرِّي،وَفُکَّنِيمِنْ شَدِّ وَثٰاقِي،یٰارَبِّ ارْحَمْ ضَعْفَ بَدَنِي،

لہٰذا پروردگار میرے عذر کو قبول فرما ۔میری شدت مصیبت پر رحم فرما۔مجھے شدید قید وبند سے نجات عطا فرما۔پروردگار میرے بدن کی کمزوری،

وَرِقَّةَ جِلْدي،وَدِقَّةَ عَظْمي،یٰامَنْ بَدَاٴَخَلْقِي وَذِکْرِي وَتَرْبِیَتِي وَبِرِّي وَتَغْذِیَتي ھَبْني لِابْتِدٰاءِ

میری جلد کی نرمی اور میرے استخواں کی باریکی پر رحم فرما۔اے میرے پیداکرنے والے ۔اے میرے تربیت دینے والے۔

کَرَمِکَ وَسٰالِفِ بِرِّکَ بي۔

اے نیکی کرنے والے! اپنے سابقہ کرم اور گذشتہ احسانات کی بنا پر مجھے معاف فرمادے۔

یٰاإِلٰھِيوَسَیِّدِي وَرَبِّي،اٴَتُرٰاکَ مُعَذِّبِي بِنٰارِکَ بَعْدَ تَوْحیدِکَ،وَبَعْدَمَاانْطَویٰ

پروردگار!کیا یہ ممکن ھے کہ میرے عقیدہٴ توحید کے بعد بھی تو مجھ پر عذاب نازل کرے، یا میرے

عَلَیْہِ قَلْبِيمِنْ مَعْرِفَتِکَ،وَلَھِجَ بِہِ لِسٰانِيمِنْ ذِکْرِکَ،وَاعْتَقَدَہُ ضَمیرِي مِنْ

دل میں اپنے معرفت کے باوجود مجھے مورد عذاب قرار دے کہ میری زبان پر مسلسل تیرا ذکر اور میرے دل میں برابراسے برباد بھی کردے ،

حُبِّکَ،وَبَعْدَصِدْقِ اعْتِرٰافِيوَدُعٰائِيخٰاضِعاً لِرُبُوبِیَّتِکَ،ھَیْھٰاتَ،اٴَنْتَ اٴَکْرَمُ مِنْ اٴَنْ تُضَیِّعَ

تیری محبت جاگزیں رھی ھے۔میں صدق دل سے تیری ربوبیت کے سامنے خاضع ھوں۔اب بھلا یہ کیسے ممکن ھے کہ جسے تونے پالا ھے

مَنْ رَبَّیْتَہُ،اٴَوْ تُبْعِدَ مَنْ اٴَدْنَیْتَہُ،اٴَوْتُشَرِّدَ مَنْ آوَیْتَہُ،اٴَوْتُسَلِّمَ إِلَی الْبَلاٰءِ مَنْ کَفَیْتَہُ وَرَحِمْتَہُ۔

جسے تونے قریب کیا ھے اسے دور کردے۔جسے تونے پناہ دی ھے اسے راندہٴ درگاہ بنادے اور جس پر تونے مھربانی کی ھے اسے بلاوٴں کے حوالے کردے۔

وَلَیْتَ شِعْري یٰاسَیِّدي وَإِلٰھي وَمَوْلٰايَاٴَتُسَلِّطُ النّٰارَعَلٰی وُجُوہٍ خَرَّتْ لِعَظَمَتِکَ

میرے سردار ۔میرے خدامیرے مولا ! کاش میں یہ سوچ بھی سکتا کہ جو چھرے تیرے سامنے سجدہ ریز رھے ھیں ان پر بھی توآگ کو مسلط کردے گا

سٰاجِدَةً،وَعَلٰی اٴَلْسُنٍ نَطَقَتْ بِتَوْحیدِکَ صٰادِقَةً،وَبِشُکْرِکَ مٰادِحَةً،وَعَلٰی قُلُوبٍ

اور جو زبانیں صداقت کے ساتھ حرف توحید کو جاری کرتی رھی ھیں اور تیری حمد وثنا کرتی رھی ھیں یا جن دلوں کو تحقیق کے ساتھ تیری خدائی

اعْتَرَفَتْ بِإِلٰھِیَّتِکَ مُحَقِّقَةً،وَعَلٰی ضَمٰائِرَحَوَتْ مِنَ الْعِلْمِ بِکَ حَتّٰی صٰارَتْ خٰاشِعَةً،وَ

کا اقرار ھے یا جو ضمیر تیرے علم سے اس طرح معمور ھیں کہ تیرے سامنے خاضع وخاشع ھیں یا جواعضاء و جوارح تیر ے مراکز

عَلٰی جَوٰارِحَ سَعَتْ إِلٰی اٴَوْطٰانِ تَعَبُّدِکَ طٰائِعَةً،وَاٴَشٰارَتْ بِاسْتِغْفٰارِکَ مُذْعِنَةً۔

عبادت کی طرف ھنسی خوشی سبقت کرنے والے ھیں اور تیرے استغفا ر کو یقین کے ساتھ اختیار کرنے والے ھیں ؛ان پر بھی تو عذاب کرے گا۔

مٰاھٰکَذَا الظَّنُّ بِکَ،وَلاٰاُخْبِرْنٰابِفَضْلِکَ عَنْکَ یٰاکَریمُ یٰارَبِّ،وَاٴَنْتَ تَعْلَمُ

ھر گز تیرے بارے میں ایسا خیال بھی نھیں ھے اور نہ تیرے فضل وکرم کے بارے میں ایسی کو ئی اطلاع ملی ھے ۔

ضَعْفيعَنْ قَلیلٍ مِنْ بَلاٰءِ الدُّنْیٰا وَ عُقُوبٰاتِھٰا، وَمٰا یَجْرِي فیھٰامِنَ الْمَکٰارِہِ عَلٰی اٴَھْلِھٰا،

پروردگار اتو جانتا ھے کہ میں دنیا کی معمولی بلا اور ادنیٰ سی سختی کو برداشت نھیں کر سکتا اور میرے لئے اس کی ناگواریاں

عَلٰی اٴَنَّ ذٰلِکَ بَلاٰءٌ وَمَکْرُوہٌ قَلیلٌمَکْثُہُ،یَسیرٌ بَقٰائُہُ، قَصِیرٌ مُدَّتُہُ، فَکَیْفَ احْتِمٰالِي لِبَلاٰءِ الْآخِرَةِ،

قابل تحمل ھیں جب کہ یہ بلائیں قلیل اور ان کی مدت مختصر ھے۔تو میں ان آخرت کی بلاوٴں کو کس طرح برداشت کروں گا

وَجَلیلِ وُقُوعِ الْمَکٰارِہِ فیھٰا،وَھُوَبَلاٰءٌ تَطُولُ مُدَّتُہُ،وَیَدُومُ مَقٰامَہُ،وَلاٰیُخَفَّفُ عَنْ

جن کی سختیاں عظیم،جن کی مدت طویل اور جن کا قیام دائمی ھے۔جن میں تخفیف کا بھی کوئی امکان نھیں ھے اس لئے کہ یہ بلائیں

اٴَھْلِہِ،لِاٴَنَّہُ لاٰیَکُونُ إِلاّٰ عَنْ غَضَبِکَ وَانْتِقٰامِکَ وَسَخَطِکَ،وَھٰذٰا مٰالاٰتَقُومُ لَہُ السَّمٰاوٰاتُ

تیرے غضب اور انتقام کا نتیجہ ھیں اور ان کی تاب زمین وآسمان نھیں لاسکتے ،تو میں ایک بندہٴ ضعیف و ذلیل

وَالْاَرْضُ، یا سَیِّدِي،فَکَیْفَ لِي وَاٴَنٰاعَبْدُکَ الضَّعیفُ الذَّلیلُ الْحَقیرُ الْمِسْکینُ الْمُسْتَکینُ۔

و حقیر ومسکین وبے چارہ کیا حیثیت رکھتا ھوں؟!

یٰاإِلٰھي وَرَبّي وَسَیِّدِي وَمَوْلاٰيَ،لِاٴَيِّ الْاُمُورِإِلَیْکَ اٴَشْکُو،وَلِمٰامِنْھٰااٴَضِجُّ

خدایا۔ پروردگارا۔ میرے سردار۔میرے مولا! میں کس کس بات کی فریاد کروں اور کس کس کام کے لئے آہ وزاری اور

وَاٴَبْکي،لِاٴَلیمِ الْعَذٰابِ وَشِدَّتِہِ،اٴَمْ لِطُولِ الْبَلاٰءِ وَ مُدَّتِہِ،فَلَئِنْ صَیَّرْتَنيلِلْعُقُوبٰاتِ مَعَ

گریہ وبکا کروں ،قیامت کے دردناک عذاب اور اس کی شدت کے لئے یا اس کی طویل مصیبت اور دراز مدت کے لئے کہ اگر تونے

اٴَعْدَائِکَ،وَجَمَعْتَ بَیْني وَ بَیْنَ اٴَہْلِ بَلاٰئِکَ،وَفَرَّقْتَ بَیْنِي وَبَیْنَ اٴَحِبّٰائِکَ

ان سزاوٴں میں مجھے اپنے دشمنوں کے ساتھ ملادیا اور مجھے اھل معصیت کے ساتھ جمع کردیا اور میرے اوراپنے احباء اور

وَاٴَوْلِیٰائِکَ،فَھَبْنِِي یٰاإِلٰھي وَسَیِّدِي وَمَوْلاٰيَ وَرَبِّي،صَبَرْتُ عَلٰی عَذٰابِکَ فَکَیْفَ

ولیاء کے درمیان جدائی ڈال دی ۔تو اے میرے خدا۔میرے پروردگار ۔میرے آقا۔میرے سردار! پھر یہ بھی طے ھے کہ اگر میں

اٴَصْبِرُعَلٰی فِرٰاقِکَ،وَھَبْنِي صَبَرْتُ عَلٰی حَرِّ نٰارِکَ فَکَیْفَ اٴَصْبِرُ عَنِ النَّظَرِإِلٰی

تیرے عذاب پر صبر بھی کر لوں تو تیرے فراق پر صبر نھیںکر سکتا۔اگر آتش جھنم کی گرمی برداشت بھی کر لوں تو تیری کرامت نہ دیکھنے کو

کَرٰامَتِکَ،اٴَمْ کَیْفَ اٴَسْکُنُ فِی النّٰارِ وَرَجٰائِي عَفْوُکَ۔

برداشت نھیں کر سکتا ۔بھلا یہ کیسے ممکن ھے کہ میں تیری معافی کی امید رکھوں اور پھر میں آتش جھنم میں جلادیا جاوٴں ۔

فَبِعِزَّتِکَ یٰا سَیِّدي وَمَوْلٰايَ اُقْسِمُ صٰادِقاًلَئِنْ تَرَکْتَنينٰاطِقاً،لَاٴَضِجَّنَّ إِلَیْکَ بَیْنَ

تیری عزت و عظمت کی قسم اے آقاو مولا! اگر تونے میری گویائی کو باقی رکھا تو میں اھل جھنم کے درمیان بھی

اٴَھْلِھٰا ضَجیجَ الْآمِلینَ،وَلَاٴَصْرُخَنَّ إِلَیْکَ صُرٰاخَ الْمُسْتَصْرِخینَ،وَلَاٴَبْکِیَنَّ عَلَیْکَ بُکٰاءَ

امیدواروں کی طرح فریاد کروں گا۔اور فریادیوں کی طرح نالہ و شیون کروں گااور ”عزیز گم کردہ “کی طرح تیری دوری

الْفٰاقِدینَ،وَلَاُنٰادِیَنَّکَ اٴَیْنَ کُنْتَ یٰاوَلِيَّ الْمُوْٴمِنینَ،یٰاغٰایَةَ آمٰالِ الْعٰارِفینَ،یٰا غِیٰاثَ

پر آہ وبکا کروں گا اور تو جھاں بھی ھوگا تجھے آوازدوں گا کہ تو مومنین کا سرپرست، عارفین کا مرکز امید،فریادیوں کا فریادرس۔

الْمُسْتَغیثینَ،یٰاحَبیبَ قُلُوبِ الصّٰادِقینَ،وَیٰا إِلٰہَ الْعٰالَمینَ۔

صادقین کا محبوب اور عالمین کا معبود ھے۔

اٴَفَتُرٰاکَ سُبْحٰانَکَ یٰاإِلٰھي وَ بِحَمْدِکَ تَسْمَعُ فیھٰاصَوْتَ عَبْدٍ مُسْلِمٍ سُجِنَ فیھٰا

اے میرے پاکیزہ صفات ،قابل حمد وثنا پروردگار کیا یہ ممکن ھے کہ تواپنے بندہٴ مسلمان کو اس کی مخالفت کی بنا پر جھنم میں

بِمُخٰالَفَتِہِ،وَذٰاقَ طَعْمَ عَذٰابِھٰا بِمَعْصِیَتِہِ ،وَحُبِسَ بَیْنَ اٴَطْبٰاقِھٰا بِجُرْمِہِ وَجَریرَتِہِ وَھُوَ یَضِجُّ

گرفتار اور معصیت کی بنا پر عذاب کا مزہ چکھنے والااور جرم و خطا کی بنا پر جھنم کے طبقات کے درمیان کروٹیں بدلنے والا بنادے

إِلَیْکَ ضَجیجَ مُوٴَمِّلٍ لِرَحْمَتِکَ،وَیُنٰادیکَ بِلِسٰانِ اٴَھْلِ تَوْحیدِکَ،وَ یَتَوَسَّلُ

اور پھر یہ دیکھے کہ وہ امید وار ِرحمت کی طرح فریاد کناں اور اھل توحید کی طرح پکارنے والا ،ربوبیت کے وسیلہ سے التماس کرنے والا ھے اور تو اس کی آواز

إِلَیْکَ بِرُبُوبِیَّتِکَ۔

نھیں سنتا ھے۔

یٰامَوْلاٰيَ،فَکَیْفَ یَبْقٰی فِي الْعَذٰابِ وَھُوَیَرْجُوْمٰاسَلَفَ مِنْ حِلْمِکَ،اٴَمْ کَیْفَ تُوْٴلِمُہُ

خدایا تیرے حلم و تحمل سے آس لگانے والا کس طرح عذاب میں رھے گا اور تیرے فضل وکرم سے امیدیں وابستہ

النّٰارُوَھُوَیَاٴْمُلُ فَضْلَکَ وَرَحْمَتَکَ،اٴَمْ کَیْفَ یُحْرِقُہُ لَھیبُھٰاوَاٴَنْتَ تَسْمَعُ صَوْتَہُ وَتَرٰی

کرنے والا کسطرح جھنم کے الم ورنج کا شکار ھوگا۔جھنم کی آگ اسے کس طرح جلائے گی جب کہ تواس کی آواز کو سن رھا ھو

مَکٰانَہُ،اٴَمْ کَیْفَ یَشْتَمِلُ عَلَیْہِ زَفیرُھٰاوَاٴَنْتَ تَعْلَمُ ضَعْفَہُ،اٴَمْ کَیْفَ یَتَقَلْقَلُ بَیْنَ اٴَطْبٰاقِھٰا

ور اس کی منزل کو دیکھ رھا ھو،جھنم کے شعلے اسے کس طرح اپنے لپیٹ میں لیں گے جب کہ تو اس کی کمزوری کو دیکھ رھا ھوگا۔

وَاٴَنْتَ تَعْلَمُ صِدْقَہُ،اٴَمْ کَیْفَ تَزْجُرُہُ زَبٰانِیَتُھٰاوَھُوَ یُنٰادیکَ یٰارَبَّہُ،اٴَمْ کَیْفَ یَرْجُوفَضْلَکَ

وہ جھنم کے طبقات میں کس طرح کروٹیں بدلے گا جب کہ تو اس کی صداقت کو جانتا ھے ۔ جھنم کے فرشتے اسے کس طرحجھڑکیں گے

فيعِتْقِہِ مِنْھٰافَتَتْرُکُہُ فیھٰا،ھَیْھَاتَ مَاذٰلِکَ الظَّنُّ بِکَ،وَلاَالْمَعْرُوفُ مِنْ

جبکہ وہ تجھے آواز دے رھا ھوگا اور تو اسے جھنم میں کس طرح چھوڑ دے گا جب کہ وہ تیرے فضل و کرم کا امیدوار ھوگا ،ھر گزتیرے بارے

فَضْلِکَ،وَلامُشْبِہٌ لِمٰاعٰامَلْتَ بِہِ الْمُوَحِّدینَ مِنْ بِرِّکَ وَاٴِحْسٰانِکَ۔

میں یہ خیال اور تیرے احسانات کا یہ انداز نھیں ھے ۔تونے جس طرح اھل توحید کے ساتھ نیک برتاوٴ کیا ھے اس کی کوئی مثال نھیں ھے۔

فَبِا لْیَقینِ اٴَقْطَعُ لَوْلاٰمٰاحَکَمْتَ بِہِ مِنْ تَعْذیبِ جٰاحِدیکَ،وَقَضَیْتَ بِہِ مِنْ إِخْلاٰدِ

میں تویقین کے ساتھ کہتا ھوں کہ تونے اپنے منکروں کے حق میں عذاب کا فیصلہ نہ کردیا ھوتا اور اپنے دشمنوں کوھمیشہ جھنم

مُعٰانِدیکَ لَجَعَلْتَ النّٰارَکُلَّھٰابَرْداًوَ سَلاٰماً،وَمٰاکٰانَ لِاٴَحَدٍ فیھٰا مَقَرّاً وَلاٰ مُقٰاماً، لٰکِنَّکَ

میں رکھنے کا حکم نہ دے دیا ھوتا تو ساری آتش جھنم کو سرد اور سلامتی بنا دیتا اور اس میں کسی کا ٹھکانا اور مقام نہ ھوتا۔

تَقَدَّسَتْ اٴَسْمٰاوٴُکَ اٴَقْسَمْتَ اٴَنْ تَمْلَاٴَھٰا مِنَ الْکٰافِرینَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنّٰاسِ اٴَجْمَعینَ،وَ اٴَنْ

لیکن تونے اپنے پاکیزہ اسماء کی قسم کھائی ھے کہ جھنم کو انسان و جنات کے کافروں سے پُر کرے گا اور معاندین کو اس میں

تُخَلِّدَ فیھٰاالْمُعٰانِدینَ،وَاٴَنْتَ جَلَّ ثَنٰاوٴُکَ قُلْتَ مُبْتَدِئاً،وَتَطَوَّلْتَ بِالْإِنْعٰامِ مُتَکَرِّماً،اٴَفَمَنْ

ھمیشہ ھمیشہ رکھے گا۔اور تونے ابتداھی سے یہ کہہ دیا ھے اور اپنے لطف و کرم سے یہ اعلان کر دیا ھے کہ ”مومن

کٰانَ مُوٴْمِناًکَمَنْ کٰانَ فٰاسِقاً لاٰیَسْتَوُوْنَ۔

اور فاسق برابر نھیں ھوسکتے“۔

إِلٰھي وَسَیِّدِي،فَاٴَسْاٴَلُکَ بِالْقُدْرَةِ الَّتي قَدَّرْتَھٰا، وَ بِالْقَضِیَّةِ الَّتي

تو خدایا ۔مولایا۔میں تیری مقدر کردہ قدرت اور تیری حتمی حکمت و قضاوت اور ھر محفل نفاذ پر غالب آنے والی عظمت کا حوالہ دے کر

حَتَمْتَھٰا وَ حَکَمْتَھٰا، وَغَلَبْتَ مَنْ عَلَیْہِ اٴَجْرَیْتَھٰا،اٴَنْ تَھَبَ لِي فِي ھٰذِہِ اللَّیْلَةِ وَفي ھٰذِہِ السّٰاعَةِ

تجھ سے سوال کرتاھوں کہ مجھے اِسی رات میں اور اِسی وقت معاف کردے ۔میرے سارے جرائم،سارے گناہ اور ساری

کُلَّ جُرْمٍ اٴَجْرَمْتُہُ،وَکُلَّ ذَنْبٍ اٴَذْنَبْتُہُ،وَکُلَّ قَبیحٍ اٴَسْرَرْتُہُ،وَکُلَّ جَھَلٍ عَمِلْتُہُ،کَتَمْتُہُ

ظاھری اور باطنی برائیاں اور ساری جھالتیں جن پر میں نے خفیہ طریقہ سے یا علی الاعلان ،چھپا کر یا ظاھر کر کے عمل کیا ھے اور میری

اٴَوْاٴَعْلَنْتُہُ،اٴَخْفَیْتُہُ اٴَوْ اٴَظْھَرْتُہُ،وَکُلَّ سَیِّئَةٍ اٴَمَرْتَ بِإِثْبٰاتِھاَ الْکِرٰامَ الْکٰاتِبینَ،اَلَّذینَ وَکَّلْتَھُمْ

تمام خرابیاں جنھیں تونے درج کر نے کا حکم کراماً کاتبین کو دیا ھے جن کواعمال کے محفوظ کرنے کے لئے معین کیا ھے اور میرے

بِحِفْظِ مٰایَکُونُ مِنِّي،وَجَعَلْتَھُمْ شُھُوداًعَلَيَّمَعَ جَوٰارِحِي،وَکُنْتَ اٴَنْتَ الرَّقیبَ عَلَيَّ

اعضاء و جوارح کے ساتھ ان کو میرے اعمال کا گواہ قرار دیا ھے اور پھر تو خود بھی ان سب کی نگرانی کررھا ھے اور جوان سے مخفی

مِنْ وَرٰائِھِمْ، وَالشّٰاھِدَ لِمٰاخَفِيَ عَنْھُمْ، وَبِرَحْمَتِکَ اٴَخْفَیْتَہُ، وَبِفَضْلِکَ سَتَرْتَہُ،وَاٴَنْ تُوَفِّرَ حَظِّي

رہ جائے اس کا گواہ ھے سب کو معاف فرمادے۔یہ تو تیری رحمت ھے کہ تونے انھیں چھپا دیا ھے اور اپنے فضل وکرم سے ان عیوب پر پر

مِنْ کُلِّ خَیْرٍاٴَنْزَلْتَہُ ،اٴَوْإِحْسٰانٍ فَضَّلْتَہُ،اٴَوْ بِرٍّ نَشَرْتَہُ،اٴَوْرِزْقٍ بَسَطْتَہُ،اٴَوْذَنْبٍ

دہ ڈال دیا ھے۔میرے پروردگار اپنی طرف سے نازل ھونے والے ھر خیر و احسان اور نشر ھونے والی ھرنیکی ۔ھر وسیع رزق۔

تَغْفِرُہُ،اٴَوْخَطَاءٍ تَسْتُرُہُ۔

ھر بخشے ھوئے گناہ۔عیوب کی ھر پردہ پوشی میں سے میرا وافر حصہ قرار دے۔

یٰارَبِّ یٰارَبِّ یٰارَبِّ، یٰاإِلٰھي وَسَیِّدِي وَمَوْلٰايَ وَمٰالَکَ رِقّي، یٰامَنْ بِیَدِہِ

اے میرے رب ۔اے میرے رب۔اے میرے رب۔اے میرے مولا اور آقا! اے میری بندگی کے مالک۔اے

نٰاصِیَتِي،یٰاعَلیماً بِضُرِّي وَمَسْکَنَتي،یٰاخَبیراً بِفَقْرِي وَ فٰاقَتِي۔

میرے مقدر کے صاحب اختیار۔ اے میری پریشانی اور بے نوائی کے جاننے والے ۔اے میرے فقر و فاقہ کی اطلاع رکھنے والے!

یٰارَبِّ یٰارَبِّ یٰارَبِّ،اٴَسْاٴَلُکَ بِحَقِّکَ وَقُدْسِکَ،وَاٴَعْظَمِ صِفٰاتِکَ

اے میرے پروردگار ۔اے میرے رب۔اے میرے رب! تجھے تیری قدوسیت ۔تیرے حق اور تیرے عظیم ترین اسماء

وَاٴَسْمٰائِکَ،اٴَنْ تَجْعَلَ اٴَوْقٰاتِي مِنَ اللَّیْلِ وَالنَّھٰارِ بِذِکْرِکَ مَعْمُورَةً،وَبِخِدْمَتِکَ

وصفات کا واسطہ دے کر یہ سوال کرتاھوں کہ دن اور رات میں جملہ اوقات اپنی یاد سے معمور کردے۔اپنی خدمت کی مسلسل توفیق عطا

مَوْصُولَةً،وَاٴَعْمٰاليعِنْدَکَ مَقْبُولَةً،حَتّٰی تَکُونَ اٴَعْمٰاليوَاٴَوْرٰادِي کُلُّھٰاوِرْداً

فرما۔میرے اعمال کو اپنی بارگاہ میں مقبول قرار دے تاکہ میرے جملہ اعمال اور جملہ اوراد (یعنی ورد کی جمع) سب تیرے لئے

وَاحِداً،وَحٰالِي في خِدْمَتِکَ سَرْمَداً۔

ھوں۔ اور میرے حالات ھمیشہ تیری خدمت کے لئے وقف رھیں۔

یٰاسَیِّدِي یَامَنْ عَلَیْہِ مُعَوَّلِي،یٰا مَنْ إِلَیْہِ شَکَوْتُ اٴَحْوٰالي،یٰارَبِّ یٰارَبِّ

میرے مولا۔میرے مالک! جس پر میرا اعتماد ھے اور جس سے میں اپنے حالات کی فریاد کرتا ھوں۔

یٰارَبِّ،قَوِّعَلٰی خِدْمَتِکَ جَوٰارِحِي،وَاشْدُدْ عَلَی الْعَزیمَةِ جَوٰانِحِي،وَھَبْ لِيَ الْجِدَّ في

۔اے رب۔ اے رب۔ اے رب! اپنی خدمت کے لئے میرے اعضاء و جوارح کو مضبوط کر دے اور اپنی طرف رخ کرنے کے لئے میرے ارادہٴ دل کو

خَشْیَتِکَ،وَالدَّوٰامَ فِي الْإِتِّصٰالِ بِخِدْمَتِکَ،حَتّٰی اٴَسْرَحَ إِلَیْکَ فيمَیٰادینِ السّٰابِقینَ،وَ

مستحکم بنادے۔اپنا خوف پیدا کرنے کی کوشش اور اپنی مسلسل خدمت کرنے کا جذبہ عطا فرما تاکہ تیری طرف سابقین کے ساتھ آگے

اٴُسْرِعَ إِلَیْکَ فِي الْبٰارِزینَ،وَاٴَشْتٰاقَ إِلٰی قُرْبِکَ فِي الْمُشْتٰاقینَ،وَاٴَدْنُوَ مِنْکَ

بڑھوں اور تیز رفتار افراد کے ساتھ قدم ملا کر چلوں ۔مشتاقین کے درمیان تیرے قرب کا مشتاق شمار ھوں اور مخلصین کی طرح تیری

دُنُوَّالْمُخْلِصینَ،وَاٴَخٰافَکَ مَخٰافَةَ الْمُو قِنینَ،وَ اٴَجْتَمِعَ فِي جِوٰارِکَ مَعَ الْمُوٴْمِنینَ۔

قربت اختیار کروں۔صاحبان یقین کی طرح تیرا خوف پیدا کروں اور مومنین کے ساتھ تیرے جوار میں حاضری دوں۔

اٴَللّٰھُمَّ وَمَنْ اٴَرٰادَنِي بِسُوءٍ فَاٴَرِدْہُ وَمَنْ کٰادَنِيفَکِدْہُ،وَاجْعَلْنِيمِنْ اٴَحْسَنِ عَبیدِکَ

خدایا جو بھی کوئی میرے لئے برائی چاھے یا میرے ساتھ کوئی چال چلے تو اسے ویساھی بدلہ دینا اور مجھے بہترین حصہ پانے

نَصِیباً عِنْدَکَ،وَاٴَقْرَبِھِمْ مَنْزِلَةً مِنْکَ،وَاٴَخَصِّھِمْ زُلْفَةً لَدَیْکَ،فَإِنَّہُ لاٰیُنٰالُ ذٰلِکَ

والا ،قریب ترین منزلت رکھنے والا اور مخصوص ترین قربت کا حامل بندہ قرار دینا کہ یہ کا م تیرے جود وکرم کے بغیر نھیں ھو سکتا۔

إِلاّٰبِفَضْلِکَ،وَجُدْ لِي بِجُودِکَ،وَاعْطِفْ عَلَيَّ بِمَجْدِکَ،وَاحْفَظْنِي بِرَحْمَتِکَ،وَاجْعَلْ

خدایا میرے اوپرکرم فرما۔اپنی بزرگی سے، رحمت نازل فرما اپنی رحمت سے میرا تحفظ فرمااورمیری زبا ن کو اپنے ذکر سے گویا فرما۔

لِسٰانِي بِذِکْرِکَ لَھِجاً،وَقَلْبِي بِحُبِّکَ مُتَیَّماً،وَمُنَّ عَلَيَّ بِحُسْنِ إِجٰابَتِکَ،وَاٴَقِلْنِي

میرے دل کو اپنی محبت کا عاشق بنادے اور مجھ پر بہترین قبولیت کے ساتھ احسان فرما۔

عَثْرَتِي،وَاغْفِرْ زَلَّتِي،فَإِنَّکَ قَضَیْتَ عَلٰی عِبٰادِکَ بِعِبٰادَتِکَ،وَاٴَمَرْتَھُمْ

میری لغزشوں سے در گذرفرما۔تو نے اپنے بندوں پر عبادت فرض کی ھے ۔انھیں دعا کا حکم دیا ھے

بِدُعٰائِکَ،وَضَمِنْتَ لَھُمُ الْإِجٰابَةَ۔

اوران سے قبولیت کا وعدہ فرمایا ھے۔

فَإِلَیْکَ یٰارَبِّ نَصَبْتُ وَجْھِي،وَإِلَیْکَ یٰارَبِّ مَدَدْتُ یَدِي،

اب میں تیری طرف رخ کئے ھوئے ھوں اور تیری بارگاہ میں ھاتھ پھیلائے ھوں ۔تیری عزت کا واسطہ میری

فَبِعِزَّتِکَ اسْتَجِبْ لِيدُعٰائِي،وَبَلِّغْنِي مُنٰايَ،وَلاٰتَقْطَعْ مِنْ فَضْلِکَ رَجٰائِي،

دعا قبول فرما، مجھے میری مراد تک پھنچادے۔ اپنے فضل وکرم سے میری امیدوں کو منقطع نہ فرمانا۔مجھے تمام

وَاکْفِنِي شَرَّ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ مِنْ اٴَعْدٰائِي۔

دشمنان جن وانس کے شر سے محفوظ فرمانا۔

یٰا سَریعَ الرِّضٰا،إِغْفِرْ لِمَنْ لاٰیَمْلِکُ إِلَّا الدُّعٰاءَ،فَإِنَّکَ فَعّٰالٌ لِمٰا تَشٰاءُ،یٰا مَنِ

اے بہت جلد راضی ھوجانے والے ! اس بندہ کو بخش دے جس کے اختیار میں سوائے دعا کے کچھ نھیں ھے کہ توھی ھر شے کا

اسْمُہُ دَوٰاءٌ،وَذِکْرُہُ شِفٰاءٌ،وَطٰاعَتُہُ غِنیً،إِرْحَمْ مَنْ رَاٴْسُ مٰالِہِ الرَّجٰاءُ،وَسِلاٰحُہ الْبُکٰاءُ،

صاحب اختیار ھے۔اے وہ پروردگار جس کانام دوا،جس کی یاد شفا اور جس کی اطاعت مالداری ھے، اس بندہ پر رحم فرماجس کا سرمایہ فقط

یٰاسٰابِغَ النِّعَمِ،یٰادٰافِعَ النِّقَمِ،یٰا نُورَ الْمُسْتَوْحِشینَ فِي الظُّلَمِ ،یٰا عٰالِماً لاٰ یُعَلَّمُ،صَلِّ عَلٰی

امیداور اس کا اسلحہ فقط گریہ ھے، اے کامل نعمتیں دینے والے ۔ اے مصیبتوں کو رفع کرنے والے اور تاریکیوں میں وحشت زدوں کو

مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ،وَافْعَلْ بِي مٰااٴَنْتَ اٴَھْلُہُ،وَ صَلَّی اللّٰہ عَلٰی رَسُولِہِ وَالْاٴَئِمَّةِ الْمَیٰامینَ مِنْ

روشنی دینے والے ۔محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور میرے ساتھ وہ برتاوٴ کر جس کا تواھل ھے۔اپنے رسول اور ان کی مبارک ”آل

آلِہِ ،وَسَلَّمَ تَسْلیماً کَثیراً۔

آئمہ معصومین(ع)“پر صلوات و سلام فراوان نازل فرما۔

دعا کی اھمیت

دعا؛ خداوندعالم کی بارگاہ میں احتیاج اور ضرورت کے اظھار کا نام ھے۔

دعا؛ کائنات کے مالک اور ھر شئے سے بے نیازکی بارگاہ میں فقر وناداری کے بیان کا نام ھے۔

دعا؛ کریم باوفا کے دروازہ پر بے نوا فقیر کی التجا اور قادر مطلق کی بارگاہ میںکمزوروناتواںکے جھولی پھیلانے کا نام ھے۔

دعا؛ رحمن ورحیم ،حکیم وکریم ،سمیع وبصیرپروردگارکی بارگاہ میں ؛ضعیف و ناتواں، فقیر و مسکین اور ذلیل و مستکین بندہ کی امداد طلب کرنے کا نام ھے۔

دعا؛ خداوندکریم ، مالک الملک ، غفور وودود ،علیم وقدیرخدائے یگانہ اور بے عیب حکمراںکی بارگاہ میں تواضع وانکساری خشوع اور خضوع سے پیش ھونے کا نام ھے۔

دعا؛ محبوب خدا، معشوق زاھدین، نور چشم عارفین،راز ونیاز مشتاقین، مصیبت کے ماروں کی رات کا اجالا،غریبوں کی تکیہ گاہ اور محتاجوں کے دل کا چراغ ھے۔

دعا ،قرآن کی روشنی میں

فیض بے نھایت کا مرکز، جود وکرم کا موجیں مارتا ھوا سمندر، ھدایت ورھبری کا انتظام کرنے والا، علم ودانش کو نازل کرنے والاخداوندرب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ھے:

” قُلْ مَا یَعْبَاٴُ بِکُمْ رَبِّی لَوْلاَدُعَاؤُکُمْ۔۔۔“[2]

”(اے پیغمبر ! ) کہہ دو اگر تمھاری دعائیں نہ ھوتیں تو پروردگار تمھاری پروا بھی نہ کرتا“۔

دعا؛ خدا وندعالم کی توجہ کا وسیلہ اور دعا کرنے والے پر رحمت الٰھی کے نزول کا سبب ھے، جس کے ذریعہ انسانی زندگی سے شقاوت اور بدبختی کا خاتمہ ھوجاتا ھے، اور دعا کرنے والے کی زندگی میں سعادت او رخوش بختی آجاتی ھے۔

محبت کرنے والوں کا محبوب، عشق کرنے والوں کا معشوق، یاد کرنے والوں کا مونس و غنموا اور شکر گزاروں کا ھمنشین،نیز بندوںکا ناصر ومدد گار اور اھل دل حضرات کا معتمد قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ھے:

” وَإِذَا سَاٴَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ اٴُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِی إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیبُوا لِی وَلْیُؤْمِنُوا بِی لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُونَ۔“[3]

”اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں ان سے قریب ھوں، پکارنے والے کی آواز سنتا ھوں، جب بھی پکارتا ھے ،لہٰذا مجھ سے طلب قبولیت کریں اور مجھ پر ھی ایمان و اعتماد رکھیں شاید اس طرح راہ راست پر آجائیں“۔

جی ھاں! خدا کے علاوہ کوئی بھی بندوں سے قریب نھیں ھے، وہ ایسا قریب ھے جس کی وجہ سے انسان وجود میں آیا ھے، اسی نے شکم مادر میں اس کی پرورش کی ھے، رحم مادر سے اس دنیا میں بھیجا ھے، اپنے اس مھمان کے لئے دنیا کی تمام مادی اور معنوی نعمتیں فراھم کی ھےں، اس کی ھدایت اور دنیا وآخرت میں اس کی سعادت اور خوشبختی کے لئے انبیاء کرام کو بھیجا ھے، اور قرآن کریم اور ائمہ معصومین علیھم السلام جیسی بے مثال نعمت سے نوازا ھے، اس کی پیاس کے وقت صاف اور شفاف پانی پیدا کیا ، اس کے کھانے کے لئے مناسب ترین لذیذ غذائیں فراھم کی ھیں اور اس کی بیماریوں کے علاج کا بندوبست کیا۔تنھائی کو دور کرنے کے لئے بیوی بچے اور دوست مھیا کئے۔بدن چھپانے کے لئے مختلف قسم کے کپڑے پھنائے۔لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت ڈالی، اس کی سخت سے سخت مشکلات کو آسان کیا اس کی صحت و سلامتی کو باقی رکھا ،اس کے مرتبہ اور وقار میں اضافہ کیا۔

یہ تمام نعمتیں خدا کے علاوہ اور کون دے سکتا ھے، اور خدا کے علاوہ کون ھے جو انسان کی تمام ضرورتوں اور حاجتوں کو جانتا ھو؟ یقینا صرف خدا ھی ھے جو انسان کے سب سے زیادہ نزدیک ھے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:

”وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہِ نَفْسُہُ وَنَحْنُ اٴَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیدِ۔“[4]

” اور ھم نے انسان کو پیدا کیا اور ھمیں معلوم ھے کہ اس کا نفس کیا کیا وسوسے پیدا کرتا ھے اور ھم اس سے رگِ گردن سے زیادہ قریب ھیں“۔

انبیائے کرام جو عقل ودرایت ، بصیرت اور کرامت کے لحاظ سے تمام انسانوں سے افضل ھیں اور ان کے دل ودماغ دوسروں سے زیادہ نورانی ھیں، ان کا علم غیب و شھود دونوں کی بہ نسبت کامل اور ایک جیسا ھے، اور تمام چیزوں کی حقیقت کو اسی طرح جانتے ھیں جس طرح سے ھیں، وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اس کے ساتھ وابستگی قائم کئے رکھتے تھے اور ان کی زندگی میں کوئی دن ایسا نہ آتا تھا جس میں اپنی عمر کا کچھ حصہ دعا میں بسر نہ کرتے ھوں، اور دعا کے ذریعہ اپنے محبوب کی بارگاہ میں حاضر نہ ھوتے ھوں۔

کیوں نہ ھو یہ حضرات دعا کو اپنی ترقی کا ذریعہ ،روح کے لئے رشد ، دل کی پاکیزگی اور باطن سے مادیت کا غبار ہٹانے کا ذریعہ اور زندگی کی راہ میں خداوندعالم کے فراق سے پیدا ھونے والی تمام مشکلات کا حل سمجھتے تھے،انھیں اس بات کا یقین تھا کہ خدا کی بارگاہ میں دعا کرنے والا کوئی بھی انسان اپنی حاجت لئے بغیر واپس نھیں پلٹتا۔ اسی وجہ سے دعا کے قبول ھونے پر ایمان رکھتے تھے اور ذرہ برابر بھی شک وترد ید کا شکار نھیں ھوتے تھے، وہ اپنی تمام دعاؤں کے قبول ھونے کے لئے نھایت خضوع کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں درخواست کرتے تھے اور انھیں سوفیصد اطمینان ھوتا تھا کہ ایک محتاج اور نیازمند کی دعا بے نیاز کی بارگاہ میں قبول ھوگی۔

قرآن مجید نے اس حقیقت کو واضح طور پر حضرت ابراھیم علیہ السلام کی زبان سے اس طرح بیان کیا ھے:

” الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی وَہَبَ لِی عَلَی الْکِبَرِ إِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ إِنَّ رَبِّی لَسَمِیعُ الدُّعَاءِ ۔“[5]

”شکر ھے اس خدا کا جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل و اسحاق جیسی اولاد عطا کی، بے شک میرا پروردگار دعاؤں کا سننے والا ھے“۔

دعااس طاقت کا نام ھے کہ جس کے ذریعہ حضرت زکریا علیہ السلام نے بڑھاپے کے عالم میں خداوند رحمن کی بارگاہ میں بیٹے کی درخواست کی اور خداوندعالم نے آپ کی دعا کو مستجاب فرمایا اور آپ اور آپ کی بیوی (جو دونوں ھی بوڑھے تھے) کو حضرت یحییٰ جیسا فرزند عطا کیا۔[6]

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے اصحاب کی خواھش اور اصرار پر خداوندعالم کی بارگاہ میں آسمان سے دسترخوان نازل ھونے کی دعا فرمائی، جس کو خداوندعالم نے مستجاب فرمایا اور ان کے اصحاب ودوستوں کے لئے آسمان سے بہترین غدا نازل فرمائی۔[7]

خداوندعالم نے اپنے بندوں کو ھر حال میں دعا کرنے ، ھرخوشی اورغم میں اپنی بارگاہ میں سرِ تسلیم خم کرنے کا حکم دیاھے، اور اس کی بارگاہ رحمت میں اپنے ھاتھوں کو اٹھا کر دعا کریں اور ٹوٹے ھوئے دل کی وجہ سے آنکھوں سے نکلے ھوئے آنسو وؤں کے ساتھ اپنی حاجتوں کو خدا کے سامنے پیش کریں اوراس کے حتمی وعدے کے پیش نظر اپنی دعا کے قبول ھونے کی امید رکھےں، اس کا واضح اعلان ھے :”جو شخص دعا سے منھ موڑے گا، ذلیل وخوار ھوگا، اور آخر کار جھنم میں داخل کردیا جائے گا، جیسا کہ سورہ مومن (غافر) میں خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

” وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُونِی اٴَسْتَجِبْ لَکُمْ إِنَّ الَّذِینَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِینَ۔“[8]

”اور تمھارے پروردگار کا ارشاد ھے کہ مجھ سے دعائیں کرو میں قبول کروں گا، اور یقینا جو لوگ میری عبادت سے اکڑتے ھیں وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جھنم میں داخل ھوں گے“۔

دعا کی اھمیت احادیث کی روشنی میں

خداوندعالم کا تمام مخلوقات پربہت بڑا احسان ھے خصوصاً انسان پرکہ اس نے اپنی بے انتھا رحمت کا دسترخوان بچھایا اور اس کا لطف و کرم سبھی کے لئے عام ھے۔

اس کی بارگاہ سے کوئی ناامید نھیں ھوتا، اس کی بارگاہ سے کسی کو دھتکارا نھیں جاتااور اس کی بارگاہ میں کسی طرح کا کوئی بخل روا نھیں ھے۔

اس کا جود وکرم اور اس کی بخشش دائمی ھے، اور اس کی عطا سبھی تک پھنچے والی ھے، اور وہ خود منتظر ھے کہ اس کے بندے اس کی درگاہ میں پیش ھوں۔

حضرت داؤد علیہ السلام سے خطاب ھوا:

اھل زمین سے کھو: کیوں مجھ سے دوستی نھیں کرتے؟ کیا میں اس کا اھل نھیں ھوں، میں ایسا خدا ھوں جس کے یھاں بخل نھیں ھے، اورمیرے علم میں جھل کا تصور نھیں، میرے صبر میں کمزوری کا دخل نھیں،میری صفت میں تبدیلی کا کوئی تصور نھیں، میرا وعدہ کبھی خلاف نھیں ھوتا، میری رحمت بے کراں ھے، اور اپنے فضل وکرم سے واپس نھیں پلٹتا، روز ازل سے میں نے عھد کیا ھے، اور محبت کی خوشبومیں جل رھا ھوں، میں نے اپنے بندوں کے دل میں نور معرفت روشن کیا ھے، جو مجھے دوست رکھتا ھے میں بھی اس کو دوست رکھتا ھوں، اور جو میرا رفیق (اور ھمدم)ھے میں بھی اس کا رفیق (اور ھمدم )ھوں، اس کا ھم نشین ھوں جو شخص خلوت میں میرا ذکر کرتا ھے، اور اس کا مونس ھوں جو میری یاد سے مانوس ھوتاھے۔

اے داؤد ! جو شخص مجھے تلاش کرے گا میں اسے مل جاؤں گا، اور جس شخص کو میں مل جاؤں پھراس کو مجھے گم نھیں کرنا چاہئے۔ اے داوٴد ! (تمام) نعمتیں ھماری طرف سے ھیں(تو پھر) دوسروں کا شکر کیوں ادا کیا جاتا ھے، ھم ھی تو بلاؤں کو دور کرتے ھیں، (پھر کیوں) دوسرے سے امید رکھی جاتی ھے، ھم ھی سب کو پناہ دینے والے ھیں تو پھر کیوں دوسروں کی پناہ تلاش کی جاتی ھے، مجھ سے دور بھاگتے ھیں لیکن آخر کار میری طرف آناھی پڑے گا۔!!

قارئین کرام ! ایسی خوبصورت اور معنی سے لبریز عبارتیں اسلامی کتب میں بہت زیادہ ملتے ھیں، اور ایسے کلمات، قرآن کریم کی آیات کے ساتھ ساتھ خداوندعالم کی طرف سے ایک عظیم خوشخبری ھے، جن کے ذریعہ خداکے بندے اس کے فضل وکرم کے امیدوار ھوسکتے ھیں، اور اپنی حاجت روائی کے لئے اس کی عظیم باگارہ میں دست دعا پھیلاسکتے ھیں، اور اس یقین کے ساتھ کہ اپنے مقاصد کو دعا ھی کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا ھے، اور ایسا کم ھوتا ھے کہ انسان بغیر دعا کے اپنے کسی اھم مقصد تک پھونچ جائے۔ اسی وجہ سے اسلامی روایات خصوصاً اھل بیت وعصمت وطھارت علیھم السلام کے کلمات میں دعا کی عظمت اوراھمیت بیان کی گئی ھے۔

حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ھے:

”إنَّ الدُّعاءَ ھُو العِبادَة“[9]

”یقینا دعا ھی عبادت ھے“۔

اسی طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے یہ بھی نقل ھوا ھے:

”الدُّعاءُ مُخُّ العِِبادَةِ “[10]

”دعا مغز عبادت ھے“۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ھے:

”اٴَفضَلُ العِبادَةِ الدُّعاءُ “[11]

”دعا بہترین عبادت ھے“۔

اسی طرح آپ نے ارشاد فرمایا:

”۔۔۔مَا مِن شیءٍ اٴفضَلُ عِندَاللّہِ عزَّوجلَّ مِن اٴن یُسئَلَ ویُطْلَبَ مِمّا عِندَہ ،ومااٴَحَدٌ اٴَبغضُ إِلی الله مِمّن یَستَکبِرُعَن عِبادَتِہِ وَلا یَسئَلُ ماعِندَہُ“ [12]

”خدا کے نزدیک کوئی بھی چیز اس سے بہتر نھیں ھے کہ اس سے ان فیوض و برکات کی درخواست کی جائے جن کا وہ مالک ھے، اور کوئی شخص خدا کے نزدیک اس شخص سے زیادہ مبغوض نھیں ھے جو خدا کی بارگاہ میں دعا کرنے سے منھ موڑے، اور خدا کی بارگاہ سے فضل وکرم کا طلب گار نہ ھو“۔

حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام سے روایت ھے :

”اَحَبُّ الاٴعْمَالِ إلَی اللهِ تَعَالیٰ فِی الْاٴَرْضِ اَلدُّعَاءُ“۔[13]

”روئے زمین پر خدا کے نزدیک سب سے محبوب عمل دعا ھے“۔

اسی طرح آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:

”الدُّعاءُ مَفاتِیحُ النِّجَاحِ،ومَقالیدُ الفَلاحِ،وَخَیْرُ الدُّعاءِ مَاصَدَرَ عَن صَدْرٍ نَقِیٍّ وَقَلْبٍ تَقِیٍّ، وَفِی المُناجاةِ سََبَبُ النَّجاةِ وَبِالإخلاصِ یَکُوْنُ الْخَلاٰصُ،فَاذا اشتَدَّ الفَزَعُ فَإلَی اللّہِ المَفزَعُ“[14]

”دعاکامیابی کی کلیداورکامرانی کا خزانہ ھے۔ اور بہترین دعا وہ ھے جو پاک وپاکیزہ سینہ اور پرھیزگار قلب سے نکلے، مناجات، نجات کا وسیلہ اور چھٹکارے کا ذریعہ ھے، اور جب انسان مشکلات میں گھر جائے تو اس کو چاہئے کہخدا کی بارگاہ کو اپنی پناہ گاہ قرار دے“۔

اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

” ۔۔۔ فَإذا نَزَلَ البَلاءُ فَعَلَیکُم بِالدُّعاءِ وَالتَّضَرُّعِ إلَی اللّہِ“[15]

”جس وقت بلائیں نازل ھوں تو تمھیں چاہئے کہ دعا کرو اور بارگاہ رب العزت میں گریہ وزاری کے ساتھ حاضر ھو“۔

اسی طرح آپ کا ارشاد ھے:

”عَلَیکَ بِالدُّعاءِ؛فَإنَّ فیہِ شِفاءً مِن کُلِّ داءٍ“[16]

”تم لوگوں کو دعا کرنا چاہئے کیونکہ یھی ھر درد کی دوا ھے“۔

ایک ساتھ مل کر دعا کرنے کی اھمیت

جس وقت مومنین ایک دوسرے کے ساتھ مل کر دعا کرتے ھیں اور اجتماعی شکل میں خداوندعالم کی بارگاہ میں راز ونیاز ،توبہ اور گریہ وزاری کرتے ھیں اور تمام لوگ اس کی بارگاہ میں دست گدائی پھیلاتے ھیں حقیقت میں ان کی دعا باب اجابت سے نزدیک ھوجاتی ھے، کیونکہ دعا کرنے والے اس مجمع میں کوئی نہ کوئی ایسا شخص ھوتا ھے جس کا دل ٹوٹا ھوا ھو یا جو حقیر و بے نواھو یا کوئی خدا کا عاشق یا کوئی عارف ھوگا یا کوئی باایمان مخلص ھوگاجس کے اخلاص ،گریہ وزاری اور اضطرار اور نالہ وفریاد کی وجہ سے سب لوگ رحمت الٰھی کے مستحق قرار پائیںاور سب کی دعا مستجاب ھوجائے اور خداوندعالم کی مغفرفت کی بوچھار ھوجائے،جیسا کہ اسلامی روایات میں وارد ھواھے کہ ھوسکتا ھے خداوندعالم اپنے اس ایک بندہ کی وجہ سے سب لوگوں کی دعا قبول کرلے اور اس کی گریہ وزاری کی وجہ سے تمام لوگوں پر رحمت نازل کردے، سب کی حاجتیں پوری کردے اور ان سب کو معاف کردے، اور ان کی خالی جھولیوں کواپنے مخصوص فیض و کرم سے بھر دے۔

اس سلسلے میں وحی الٰھی کے منبع علم الٰھی کی منزل معرفت کے خزانہ ، رحمتوں کے باب یعنی ائمہ معصومین علیھم السلام سے روایات وارد ھوئی ھیںجن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ھے:

” عَن اٴبی عَبدِاللّہِ(ع)قال:مَااجتَمَعَ اٴَربَعَةٌ قَطُّ عَلی اٴمرٍواحِدٍ فَدَعَوا إلّا تَفَرَّقواعَن إجَابَةٍ“[17]

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: جب چار افراد مل کر کسی ایک چیز کے بارے میں دعا کرتے ھیں ، جب وہ ایک دوسرے سے الگ ھوتے ھیں ان کی دعا قبول ھوچکی ھوتی ھے،(یعنی ان کے جدا ھونے سے پھلے پھلے ان کی دعا قبول ھوجاتی ھے)

”قَال النَّبِیُّ(ص) :لا یَجتَمِعُ اٴربَعونَ رَجُلاً فی اٴمرٍ واحِدٍ إلّااسْتَجابَ الّلہُ تَعالی لَہُم حَتّی لَو دَعَوْا عَلی جَبَلٍ لَاٴزالُوہُ۔ “[18]

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ارشاد فرمایا: کوئی چالیس افراد مل کر کسی کام کے لئے دعا نھیں کرتے مگر یہ کہ خدا ان کی دعا قبول کرلیتا ھے یھاں تک کہ اگر یہ لوگ کسی پھاڑ کے بارے میں دعا کرےں تو وہ بھی اپنے جگہ سے ہٹ جائے گا۔

عالم ربانی ، عارف عاشق ”ابن فھد حلّی“ اپنی عظیم الشان کتاب ”عدّة الداعی“ میں روایت نقل کرتے ھیں (جیسا کہ صاحب وسائل الشیعہ نے اس روایت کو نقل کیا ھے):

”إن الله اٴوحَی إلی عیسَی علیہ ا لسلام : یا عِیسَی! تَقَرَّبْ إلَی المُومِنینَ،وَمُرْھُم اٴَن یَدعُونِی مَعَکَ“[19]

”خدا وندعالم نے جناب عیسیٰ علیہ السلام پر وحی کی کہ اے عیسیٰ! مومنین کے مجمع کے قریب ھوجاؤ اور ان کو حکم دو کہ میری بارگاہ میں تمھارے ساتھ دعا کریں“۔

”عَن اٴَبی عَبدَاللهِعلیہ ا لسلام قالَ:کانَ اٴبی علیہ ا لسلام إذا اٴحْزَنَہُ اٴمرٌجَمَعَ النِساءَ وَالصِّبیانَ ثُم دَعا وَاٴمَّنُوا“[20]

”حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: ھمارے والد بزرگوار ھمیشہ اس طرح کیا کرتے تھے کہ جب کسی کام کی وجہ سے غمگین اور پریشان ھوتے تھے تو عورتوں او ربچوں کو جمع کیا کرتے تھے اوراس وقت آپ دعا فرماتے تھے اور وہ سب آمین کہتے تھے“۔

ناامیدی اور مایوسی کفار سے مخصوص ھے

دعا کرنے والے کو اس کا علم ھونا چاہئے کہ خداوندعالم نے خود اس کو دعا کا حکم دیا ھے اور اس کے قبول ھونے کی ضمانت بھی لی ھے،نیز دعا کا قبول کرنا خداوند عالم کے لئے بہت ھی آسان ھے، کیونکہ اس کائنات کی تمام چیزیں اس کی حکمرانی کے تحت گردش کرتی ھیں اور وہ صرف ایک اشارہ سے دعا کرنے والوںکی دعا قبول ھونے کے سارے اسباب فراھم کرسکتا ھے۔

لہٰذا کسی بھی شخص کے لئے یہ مناسب نھیں ھے کہ خدائے رحمن جس کی قدرت، بصیرت، کرم، لطف، فیض اور اس کی رحمت بے انتھا ھے؛ اس سے مایوس اور نا امید ھو چونکہ خداوندعالم اپنے بندوں سے محبت کرتا ھے خصوصاً جب کوئی بندہ اس سے راز ونیاز اور دعا میں مشغول ھوتا ھے، اورمایوسی او رناامیدی قرآن مجید کے فرمان کے مطابق کفار سے مخصوص ھے:

” وَلاَتَیْئَسُوا مِنْ رَوْحِ اللهِ إِنَّہُ لاَیَیْئَسُ مِنْ رَوْحِ اللهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الکَافِرُونَ۔“[21]

”اور رحمت خدا سے مایوس نہ ھونااس کی رحمت سے کافر قوم کے علاوہ کوئی مایوس نھیں ھوتا“۔

قرآن مجید نے واضح طور پر اس بات پر زور دیا ھے کہ رحمت خدا سے ناامید اور مایوس نہ ھوں:

”۔۔۔لاٰ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ ۔۔۔“ [22]

نیز اس سلسلہ میں حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ارشاد فرماتے ھیں:

”الفَاجِرُ الرَّاجِی لِرَحْمَةِ اللهِ تَعالَی اٴقْرْبُ مِنْھا مِنَ العَابِدِ الْمُقَنَّطِ“[23]

”رحمت الٰھی سے مایوس عبادت گزار کے مقابلہ میں رحمت الٰھی کا امیدوار بدکار ، رحمت الٰھی سے زیادہ نزدیک تر ھے“۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

”الیَاٴسُ مِن رَوحِ اللهِ اٴشدُّ بَرداً مِنَ الزَّمہَریرِ“۔ [24]

”رحمت خدا سے ناامیدی کی ٹھنڈک ، تیز سردی کی ٹھنڈک سے بھی زیادہ ھے“۔

معارف اسلامی اور روایات معصومین(ع) میں رحمت خدا سے مایوسی اور ناامیدی کو گناہ کبیرہ میں شمار کیا گیا ھے،اور رحمت خدا سے مایوسی کے لئے عذاب کا حتمی وعدہ دیا گیا ھے۔

اگر دعا کرنے والے شخص کی دعا جلدی قبول نہ ھو تو اس کو مایوس نھیں ھونا چاہئے کیونکہ دعا کا قبول ھونا اس کے لئے مفید نہ ھوجیسا کہ قرآن کریم اور روایات معصومین(ع)سے معلوم ھوتا ھے، شاید دعا قبول ھونے کا موقع اور محل نہ ھو، اور شاید اس کی ایک وجہ یہ ھوکہ خدا چاہتا ھو کہ دعا کرنے والا اور مناجات کرنے والا اپنی دعا اور مناجات میں لگا رھے اس وجہ سے اس کی دعا قبول نہ ھوئی ھو، یا ھوسکتا ھے کہ اس کی وجہ یہ ھو کہ دعا کرنے والے کو ا اس دعا کے بدلے میں آخرت میں ایک عظیم مرتبہ ملنے والا ھو، اور قیامت کے روز اس کی دعا قبول ھونے والی ھو، بھر حال رحمت خدا سے مایوسی کسی بھی صورت میں عقلی، شرعی، اخلاقی اور انسانی فعل نھیں کھا جاسکتا، اور ایک مومن کبھی بھی رحمت الٰھی سے مایوس نھیں ھوتا۔

چنانچہ دعاسے مربوط مسائل کے سلسلہ میں اسلامی کتب میں بہت اھم روایات بیان ھوئی ھیں، لہٰذا ھم یھاں پر اپنے موضوع کے لحاظ سے ان میں سے بعض کا تذکرہ مناسب سمجھتے ھےں:

۱۔ ”عَنْ اٴبِی عَبْدِ اللهِ عَلَیْہِ السَّلاٰمُ قَالَ : إِنَّ الْعَبْدَ لَیَدْعُو فَیَقُوْلُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لِلْمَلَکَیْنِ قَدِاُسْتَجَبتُ لَہُ، َولٰکِنِ اْْحْبِسُوہُ بِحاجَتِِہِ، فَاِنِّی اٴُحِبُّ اٴنْ اٴسمَعَ صَوْتَہُ واِنَّ الْعَبْدَ لَیَدْعُو فَیَقُوْلُ اللهُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی : عَجِّلُوْا لَہُ حَاجَتَہُ، فَاِنِّی اُبْغِضُ صَوْتَہُ!![25]

”حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: بے شک جب بند ہ اپنے خدا کی بارگاہ میںدعا کرتا ھے، تو خداوندعالم اپنے دو فرشتوں سے فرماتا ھے: میں نے اس کی دعا قبول کرلی ھے، لیکن تم اس کی حاجت براری کوفی الحال روک لو، تاکہ وہ دعا کرتا رھے: کیونکہ میں اس کے گڑگڑانے کی آواز (بار بار)سننا چاہتا ھوں۔ اور کبھی بندہ کے دعا کرتے ھی خدااپنے فرشتوں سے فرماتا ھے: اس کی حاجت کوبہت جلد پورا کردو کیونکہ مجھے اس کی آواز اچھی نھیں لگ رھی ھے“۔

۲۔”عن منصور الصیقل قال: قُلتُ لِاٴبِی عَبدِاللهِعلیہ السلام:رُبَّما دَعا الرَّجُلُ بِالدّعاءِ فَاستُجیبُ لَہ ثُمّ اٴُخِّرَ ذَلکَ اِلی حینٍ قالَ فقالَ :نَعَمْ۔قُلتُ:وَلِمَ ذَاکَ

لِیَزدَادَ مِنَ الدُّعاءِ؟قالَ نَعَمْ“۔[26]

”منصور صیقل کہتے ھیں کہ میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت مبارک میں عرض کیا: کبھی کوئی شخص دعا کرتا ھے اور(دعا کرتے ھی) اس کی دعا قبول ھوجاتی ھے ، اور ایک زمانہ تک اس کی حاجت پوری نھیں ھوتی ھے۔ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ھاںایسا ھی ھے، تو میں نے عرض کیا: ایسا کیوںتاکہ وہ اس سے بار بار مانگے ؟

تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ھاں (ایسا ھی ھے)“۔

دعا کے شرائط

دعا کرنے والا اگریہ چاھے کہ اس کی دعا قبول ھوتواس کے لئے ضروری ھے کہ دعا سے پھلے دعا کے شرائط کا لحاظ کرے، اور یہ شرائط اھل بیت علیھم السلام سے مروی رویات کی صورت میں مختلف معتبر کتابوں جیسے کتاب”اصول کافی“ ،”محجة البیضاء“ ، ”وسائل الشیعہ“ اور ”جامع احادیث الشیعہ “وغیرہ میں بیان ھوئے ھیں۔

دعا کے شرائط بغیر کسی تفسیر ووضاحت کے اس طرح ھیں:

طھارت جیسے وضو، غسل اور تیمم ، حق الناس کی ادائیگی، اخلاص، دعا کو صحیح طریقہ سے پڑھنا، حلال روزی، صلہٴ رحم، دعا سے پھلے صدقہ دینا، خدا کی اطاعت کرنا، گناھوں سے پرھیز، اپنے عمل کی اصلاح، سحر کے وقت دعا، نماز وتر میں، فجر صادق کے وقت، طلوع آفتاب کے وقت اللہ سے گڑگڑا کر اپنی حاجت پوری ھونے کی دعا کرنا، بدھ کے روز ظھر وعصر کی نماز کے درمیان دعا کرنا دعاسے پھلے صلوات پڑھنا۔[27]

شب جمعہ

اھل بیت عصمت وطھارت علیھم السلام کی روایات میں شب جمعہ کو دعاکابہترین اور مناسب وقت قرار دیا گیا ھے، اور شب جمعہ کو عظمت کے لحاظ سے شب قدر کی طرح قرار دیا گیا ھے۔

بزرگ علماء کرام، اھل بصیرت اوراولیاء اللہ کہتے ھیں:

اگر ھوسکے تم لوگ شب جمعہ کو دعا،ذکراور استغفار میںبسر کرو اور اس کے انجام سے غفلت نہ کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ مومنین پر رحم وکرم کرتے ھوئے اعمال کے اجرمیں اضافہ کے لئے فرشتوں کو آسمان اول پر بھیجتا ھے تاکہ تمھاری نیکیوں میں اضافہ کریں اور تمھارے گناھوں کو مٹادیں۔

ایک معتبر حدیث میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ھوا ھے:

ھوسکتا ھے کہ کوئی مومن کسی چیز کے لئے دعا کرے، اور خداوندعالم اس کی حاجت پوری کرنے میں دیر کرے، یھاں تک کہ جمعہ کا روز آجائے اور اس دن اس کی حاجت پوری کی جائے۔[28]

اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ھوا ھے کہ جس وقت برادران یوسف(ع) نے اپنے باپ سے یہ درخواست کی کہ وہ خدا کی بارگاہ میں ان کے گناھوں کی بخشش کی دعا فرمائیں توجناب یعقوب علیہ السلام نے فرمایا: میں عنقریب تم لوگوںکی مغفرت کے لئے خداوندعالم سے استغفار کروں گا، اور اس دعا اور طلب مغفرت کو شب جمعہ کی سحر تک روکے رکھا تاکہ ان کی دعا (شب جمعہ کی سحر میں) قبول ھوجائے[29]

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:

خداوندعالم ھر شب جمعہ اپنے فرشتوں کوحکم دیتا ھے کہ اے فرشتو! اپنے رب اعلیٰ کی طرف سے شب جمعہ کی ابتداء سے آخر تک یہ آواز دیتے رھو کہ کیا کوئی ایسا مومن بندہ ھے جو طلوع فجر سے پھلے پھلے دنیا وآخرت کی حاجت کے لئے اپنے پروردگار کوپکارے، تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کیا کوئی ایسا مومن بندہ ھے جو طلوع فجر سے پھلے پھلے اپنے گناھوں کی توبہ کرے تاکہ میں اس کی توبہ قبول کروں؟ کیا کوئی ایسا مومن بندہ ھے جس کی روزی میں نے کم کردی ھواور وہ مجھ سے روزی زیادہ کراناچاہتا ھو تاکہ میں طلوع فجر سے پھلے پھلے اس کی روزی زیادہ کردوں؟ تاکہ اس کی روزی میں وسعت کردوں۔کیا کوئی مومن مریض ھے اور طلوع صبح سے پھلے پھلے مجھ سے صحت وسلامتی چاہتاھے تاکہ میں اس کو شفا اور عافیت عطا کردوں؟کیا کوئی بندہ مومن غمگین اور قیدی ھے،اوروہ طلوع صبح سے پھلے پھلے مجھ سے زندان سے رھائی چاھے تاکہ میں اس کی دعا کو مستجاب کرلوں؟ کیا کوئی مظلوم مومن بندہ ھے جو طلوع صبح سے پھلے پھلے مجھ سے ظالم سے چھٹکارہ پانے کی درخواست کرے کہ میں ظالم سے بدلہ لوں اور اس کا حق اس کو دلوادوں؟ چنانچہ فرشتہ صبح تک اس طرح کی آواز لگاتا رہتا ھے۔[30]

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

شب جمعہ گناھوں سے پرھیز کرو کیونکہ اس شب میں گناھوں کی سزا کئی گُنا ھوجاتی ھے، جیسا کہ نیکیوں کا ثواب بھی چند برابر ھوتا ھے، اور جو شخص شب جمعہ میں معصیت خدا کو ترک کرے خداوند عالم اس کے گزشتہ گناھوں کو اس شب کی برکت سے معاف کردیتا ھے، اور اگر کوئی شخص شب جمعہ علی الاعلان گناہ کا مرتکب ھو تو خداوندعالم اس کی عمر کے برابر اس کوعذاب میں مبتلا کردیتا ھے، اور شب جمعہ علی الاعلان گناہ کرنے کا عذاب اس وجہ سے چند برابر ھوجاتا ھے کیونکہ اس نے ”شب جمعہ کی حرمت“ کو پامال کیا ھے۔[31]

قارئین کرام ! شب جمعہ کے لئے بہت سی دعائیں ، ذکر اور ورد بیان ھوئے ھیں جن میں سے دعاء کمیل خاص اھمیت کی حامل ھے۔

کمیل بن زیاد نخعی

شیعہ سنی بزرگ علماء نے کمیل بن زیاد کی قوت ایمان، قدرت روح، پاک وپاکیزہ فکر، خلوص نیت، اخلاق حسنہ اور بہترین اعمال سے آراستہ ھونے کے لحاظ سے تعریف وتوصیف کی ھے۔

دونوں فرقوں کے علماء کمیل بن زیاد کی عدالت، جلالت، عظمت اور ان کی کرامت کے سلسلہ میں متفق ھےں۔

کمیل بن زیاد حضرت امیر المومنین اور حضرت امام حسن مجتبیٰ علیھما السلام کے خاص اصحاب میں سے تھے [32]

حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو اپنے دس قابل اطمینان اصحاب میں شمار کیا ھے۔[33]

جناب کمیل بن زیاد حضرت علی علیہ السلام کے بہترین شیعہ، عاشق ، محب اور دوستدار تھے۔[34]

جو وصیتیں اور نصیحتیں حضرت علی علیہ السلام نے کمیل بن زیاد کو فرمائی ھیں ، وہ کمیل بن زیاد کے بہترین ایمان اور معرفت پر دلالت کرتی ھیں۔

اھل سنت حضرات جو حق وعدالت اور انصاف ومروت سے دوری کی وجہ سے اھل بیت علیھم السلام کے چاھنے والوں کے سلسلہ میں مثبت نظریہ نھیں رکھتے ھیں؛ لیکن پھر بھی کمیل بن زیاد کو تمام امور میں مورد اطمینان قرار دیتے ھیں۔[35]

عرفاء ،صاحبان سیر وسلوک اور دیدار محبوب کے مشتاق افراد کمیل بن زیاد کو حضرت علی علیہ السلام کا ھمراز اور آپ کے معنوی معارف کا خزانہ سمجھتے ھیں۔

کمیل بن زیاد نے پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی حیات طبیہ میں۱۸ سال زندگی گزاری اور شمع رسالت کے نور سے بھرہ مند رھے۔

جناب کمیل ؛ایک عظیم انسان اور طیب وطاھر وجود کے مالک تھے، جو اپنی لیاقت کی بنا پر حجاج بن یوسف ثقفی کے ھاتھوں شھادت کے عظیم درجہ پر فائز ھوئے، جیسا کہ آپ کے محبوب (حضرت علی علیہ السلام) نے ان کی شھادت کے بارے میں پیشن گوئی فرمائی تھی۔

جب خونخوار حجاج بن یوسف ظالم اموی حکمراںکی طرف سے عراق کا گورنربنایا گیا، اس وقت اس نے کمیل بن زیاد کو تلاش کرنا شروع کردیاتاکہ ان کو محبت اھل بیت علیھم السلام کے جرم میں اور شیعہ ھونے کے جرم میں جو بڑا جرم تھا قتل کرے۔

کمیل بن زیاد ؛ حجاج کی نگاھوں سے چھپے ھوئے تھے ، جس کی بنا پر حجاج نے کمیل بن زیاد کے رشتہ داروں کا وظیفہ بیت المال سے بند کردیا ، جس وقت جناب کمیل کو اس چیز کی خبر پھنچی کہ میرے رشتہ داروں کا وظیفہ

میری وجہ سے بند کردیا گیا ھے، تو آپ نے فرمایا:

”اب میرا آخری وقت ھے میری وجہ سے میرے رشتہ داروں کا وظیفہ اور رزق بند ھونا مناسب نھیں ھے“۔

یہ کہہ کر اپنی مخفی گاہ سے باھر نکلے اور حجاج کے پاس خود چلے گئے، حجاج نے کھا:میں تجھے سزا دینے کے لئے تلاش کررھا تھا۔

جناب کمیل بن زیاد نے کھا: جو تو کرسکتا ھے کر گزر، یہ میری آخری عمر ھے، اور عنقریب ھی ھم اورتم خدا کی بارگاہ میں جانے والے ھیں، میرے مولا (علی بن ابی طالب علیہ السلام) نے مجھے پھلے ھی یہ خبر دے دی ھے کہ تو میرا قاتل ھے۔

حجاج نے حکم دیا کہ کمیل بن زیاد کا سر قلم کردیا جائے اس وقت اس مرد الٰھی اور نورانی شخصیت کی عمر ۹۰ سال تھی، چنانچہ حجاج کے ھاتھوں آپ کی شھادت واقع ھوگئی، آپ کامرقد مطھر ”ثویّہ“ نامی علاقے میں ھے جو نجف اور کوفہ کے درمیان ھے جھاں پر ھر روز عام وخاص سیکڑوں افرادیارت کے لئے جاتے ھیں۔

دعاء کمیل

عارفین عاشق اور عاشقین عارف، بیدار دل اور حقائق سے آشنا حضرات کی نظر میں دعاء کمیل کی وھی اھمیت ھے جو تمام مخلوقات میں انسان کی ھے، جس طرح انسان کو اشرف المخلوقات شمار کیا جاتاھے اسی طرح دعاء کمیل کواشرف دعا شمار کیا جاتا ھے، اور اس کو ”انسان الادعیہ“ (دعاؤں کا انسان) کھا جاتا ھے۔

علامہ کم نظیر ، محقق خبیر اور محدث بصیر حضرت علامہ مجلسی نے اس دعا کو دو سری اور دعاؤ ں میں سب سے بہتر قرار دیا ھے۔

چنانچہ علامہ موصوف اپنی کتاب ”زاد المعاد“ میں سید بن طاووس کی کتاب ”اقبال“ سے نقل کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

”جناب کمیل نے فرمایا: ایک روز میں شھر بصرہ میں اپنے مولا وآقا حضرت علی علیہ السلام کی خدمت بابرکت میں حاضر تھا، اس وقت ۱۵ شعبان المعظم کے سلسلہ میں گفتگو ھونے لگی، آپ نے فرمایا: جو شخص اس رات کو جاگ کر گزارے اور حضرت خضر علیہ السلام کی دعا پڑھے، تو اس کی دعا ضرور قبول ھوگی۔ جس وقت آپ وھاں سے گھر تشریف لائے تومیں بھی آپ کے پیچھے پیچھے پھونچا، جب امام علیہ السلام نے مجھے دیکھا تو فرمایا: کیا کوئی کام ھے؟ میں نے عرض کیا:

مولا! دعائے حضرت خضر(ع)کی خاطر آپ کی خدمت میں آیا ھوں۔

آپ نے فرمایا: بیٹھ جاؤ، اس کے بعد آپ نے مجھ سے فرمایا:

اے کمیل! جب اس دعا کو یاد کرلو تو اس کو ھر شب جمعہ یا مھینہ میں ایک بار یا سال میں ایک بار یا (کم سے کم) اپنی زندگی میں ایک بار (ضرور) پڑھ لینا، اس دعا کے پڑھنے سے دشمن کے شر سے محفوظ رھوگے، اور تمھاری غیبی مدد ھوگی، روزی زیادہ کردی جائے گی، اور تمھارے گناہ بخش دئے جائیں گے۔

اے کمیل ! (یاد رکھو) تمھارا ھمارے ساتھ زیادہ رھنا اور ھماری زیادہ تعریف کرنا اس بات کا سبب بنا کہ اس عظیم الشان دعاسے تمھیں سرفراز کروں۔

اور اس کے بعد آپ نے پوری دعا تلقین فرمائی۔

با معرفت مناجات کرنے والے عالم ربّانی مرحوم کفعمی اپنی عظیم الشان کتاب ”مصباح“ میں تحریر کرتے ھیں کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام اس دعا کو سجدہ کی حالت میں پڑھتے تھے۔[36]

اس دعا کو پڑھنے والے کو چاہئے کہ شب جمعہ کو تمام شرائط کا لحاظ کرنے کے ساتھ روبقبلہ ھو اور خشوع وخضوع کے ساتھ آنسووٴں سے بھری آنکھیں اور لرزتی ھوئی آواز میں اس دعا کو پڑھے ، کہ اس طرح دعا پڑھنا باب اجابت سے نزدیک ھے اور اس کے آثار جلدی ظاھر ھوتے ھیں۔ [37]

آنسو بھر ی آنکھیں خداوندعالم کی نظر میں بہت اھمیت رکھتی ھیںاور آنسو بھری آنکھیں اور سوز دل سے رونااور گڑ گڑانا گناھوں کی بخشش اور خدا وندعالم کے غضب کو خاموش کرنے نیز رحمت الٰھی نا زل ھونے کا سبب ھوتی ھیں۔[38]

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ھے:

”گریہ ونالہ اورفریاد کے علاوہ کوئی چیز ایسی نھیں ھے جس کے لئے کوئی پیمانہ نہ ھو، کیونکہ گریہ کا ایک قطرہ دریامیں لگی آگ کو خاموش کردیتا ھے، جب آنکھیں آنسوٴوں سے نم ھوجائیں، جب چھرہ پر ذلت و خواری کے آثار ظاھر ھوں اور جب انسان کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑیں تو خداوندعالم اس پر آتش جھنم کوحرام کردیتا ھے، بےشک اگر امت میں کوئی ایک بھی رونے والا موجود ھو تو تمام امت شامل رحمت الٰھی ھوجاتی ھے۔[39]

اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا یہ بھی ارشاد ھے کہ قیامت کے دن تین آنکھوں کے علاوہ سب آنکھیں گریاں کناں نظر آئیں گی:

۱۔ وہ آنکھ جو خدا کی حرام کردہ چیزوں کو نہ دیکھے۔

۲۔ وہ آنکھ جو راہ خدا میں جاگے۔

۳۔ وہ آنکھ جو راتوں کو خوف خدا سے روتی رھے۔[40]

” بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“

”شروع کرتا ھوں اس اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ھے۔“

دعاء شریف کمیل کا آغاز بے نھایت نورانی مرکز ” بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ سے ھونے کی چند دلیلیں ھوسکتی ھیں:

حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام ؛ حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے نقل کرتے ھیں کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: پرودگار عالم کاارشاد ھے:

۱۔” کُلّ اٴَمرٍ ذِی بالٍ لا یُذکَر بِسمِ اللهِ فِیہِ فَہُوَ اٴَبتَرُ “[41]

”ھر وہ اھم کام جو خدا کے نام سے شروع نہ کیا جائے وہ بے فائدہ ھے یعنی وہ مقصد تک نھیں پھونچ سکتا“

۲۔ مرحوم طبرسی نے اپنی عظیم الشان کتاب ”مکارم الاخلاق“ میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے یہ روایت نقل کی ھے:

” مَا مِن اٴَحدٍ دَہَمَہُ اٴَمرٌ یَغُمُّہُ اٴَوکَرَّبَتہُ کُرْبَةٌ فَرَفَعَ رَاٴْسَہُ اِلَی السَّمَاءِ ثُمَّ قالَ ثَلاثَ مَرّاتٍ بِسمِ اللهِ الرَّحمَنِ الَّرحِیمِ اِلّا فَرَّجَ اللهُ کُربَتَہُ وَاٴَذْہَبَ غََمَّہُ اِن شآءَ اللهُ تَعالی“[42]

” کوئی پریشان اور غمگین شخص ایسا نھیں جو اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاکر تین بار ”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ پڑھے ، اور خدا اس کی پریشانی اور غم واندوہ کودور نہ کرے، اگر خداوندمتعال کا ارادہ شامل حال ھو “۔

۳۔ ”لایُرَدُّ دُعاءٌ اٴوَّلُہُ ”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“[43]

”جس دعا کی ابتداء ”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ سے کی جائے وہ بارگاہ الٰھی میں ردّ نھیں ھوگی“۔

۴۔حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جھنم کے شعلوں کو ۱۹ شمار کیا ھے اور فرمایا جو شخص ان ۱۹ شعلوں سے محفوظ رھنا چاھے اس کو ھمیشہ ”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ کا ورد کرتے رھنا چاہئے ، جس کے ۱۹ حرف ھیں تاکہ خداوندعالم اس کے ھر حرف کو جھنم کے ایک شعلہ کے لئے سپر قرار دے۔

۵۔ نیز حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے روایت ھے کہ جب کوئی استاد اپنے شاگرد کو ”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ کی تعلیم دے تو خداوندعالم اس بچے ، اس کے ماں اور اس استاد کے لئے آتش جھنم سے نجات کا پروانہ لکھ دیتا ھے۔

۶۔ اسی طرح پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے روایت ھے کہ میری امت کو روز قیامت حساب وکتاب کے میدان میں روک لیا جائے گا، اور ان کے اعمال کا حساب وکتاب کیا جائے گا ، اور ان کے اعمال کو ایک ترازو میں رکھا جائے گا ان کی نیکیاں ؛ برائیوں پر بھاری ھیں، یہ دیکھ کر دوسری امتیں چلائیں گی کہ اس امت کی تھوڑی سی نیکیوں کی وجہ سے کیوں ان کا پلہ بھاری ھے؟ تو اس وقت ان کے نبی جواب دیں گے: کیونکہ یہ امت اپنے ھر کام کا آغاز خداوندعالم کے تین ناموں سے کیا کرتی تھی: ”اللّٰہِ“”الرَّحْمٰنِ“”الرَّحِیْمِ“ کہ اگر ان ناموں کو ترازوکے ایک پلہ میں رکھ دیا جائے اور دوسرے پلڑے میں تمام انسانوں کی نیکیاں اور برائیاںرکھ دیں جائیں تو ان تینوں ناموں کا پلڑا بھاری رھے گا۔

۷۔ حضرت امام رضا علیہ السلام سے مروی ھے کہ ”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ اسم اعظم سے اتنا نزدیک ھے جتنی آنکھ کی سیاھی سے سفیدی نزدیک ھوتی ھے۔[44]

بے شک جب کوئی دعا (خصوصاً دعاء کمیل)حضرت حق کے اسم اعظم سے شروع ھو تو یقیناً باب اجابت سے ٹکرائے گی، اور پڑھنے والے کی مرادیں پوری ھوںگی۔

”بسم الله“ وہ شراب طھور ھے کہ اسے جس وقت ساقی عشق کے ھاتھوں سے دل وجان نوش کریں تو ایسا وجد اور نشاط طاری ھوتا ھے جس کی توصیف کرنا مشکل ھے، اور وہ معشوق کے عشق میں کھوجائے اور اپنے محبوب کے وصال کے لئے بغیر کسی خستگی اور تھکن کے راستہ کو طے کرتا چلا جاتا ھے۔

”بِسْمِ اللّٰہِ“ کے کچھ دل چسپ نکات

لفظ”اسم“ علم صرف ونحو کے لحاظ سے ”سمّو“ سے نکلا ھے جس کے معنی رفعت، بلندی، بزرگی اور برتری کے ھیں۔

خداوندمھربان نے اپنے اس نورانی اور اثر بخش کلام میں لفظ”اسم“ سے حرف ”با“ کو متصل کیا ھے، تاکہ انسان اس لفظ کو جاری کرتے وقت یہ توجہ کرے کہ محبوب کے نام سے محبوب کی بارگاہ میں متوسل ھونا چاہتا ھے اور اس محبوب سے متوسل ھونا صرف زبان سے اس کا نام لینا کافی نھیں ھے بلکہ جب تک اپنے دل سے اخلاقی اور معنوی گندگی کو دور نہ کرے اور اپنی زبان کو اور بے ھودہ باتوں نیز غیر خدا کے ذکر سے استغفار کے پانی سے پاک نہ کرے اس وقت تک اپنے اندر محبوب سے متوسل ھونے اور اس کے جلوہ کے نظارہکا امکان پیدا نھیں ھوسکتا، نیز اس اھم بات کی طرف بھی توجہ رھے کہ دل و جان کی طھارت، اخلاص نیت، اور اپنی نیازمندی اور حضرت حق کی بے نیازی کے اقرار کے بغیر ، خداوندمنان کا نام زبان پر جاری کرنا اس کی شان میں بے ادبی اور گستاخی ھے:

ہزار بار بشویم دھان بہ مشک وگلاب

ھنوز نام تو بردن کمال بی ادبی است

(اگر ہزار بار بھی مشک وگلاب سے اپنا منھ دھوکر بھی تیرا نام لیا جائے تو بھی انتھائی بے ادبی ھے)

خداوندمتعال چونکہ مصدرپاکیزگی، طھارت اور تقدس ھے اور یہ خاکی انسان بالکل بے بضاعت اور ھیچ ھے، لہٰذا یہ ادنیٰ درجہ والا انسان بغیر کسی واسطہ کے عزت وجلالت کی طرف عروج نھیں کرسکتا، اس لئے خداوندعالم نے ”بسم اللہ“ کو اپنے اور اس کے درمیان واسطہ قرار دیاتاکہ انسان اس عظیم المرتبت اور آسمانی کلام کے ذریعہ اپنے دل وجان میں اس کے اثرات مرتب کرکے رفعت وبلندی کی سیڑھی پر قدم رکھے اورغیبی طور پر جمال وجلال کا مشاھدہ کرنے کی صلاحیت کا راستہ ھموار کرے۔

ایک عارف عاشق اور صاحب دل فرماتے ھیں: حرف ”ب“ حرکت اور سلوک کی ابتداء پر اشارہ کرتاھے اور حرف ”ب“ سے حرف ”س“ تک معرفت کا ایک عظیم مید ان ھے، حرف”ب“ اور” اسم“کے درمیان سے لفظ ”اسم“ کے الف کا نہ پڑھا جانا اس بات کی طرف اشارہ ھے کہ جب تک اس راستہ پر چلنے والے کی انانیت اور غرور؛ نور توحید میں غرق نہ ھوجائے اور وہ اپنے کو دوست کی محبت کے عشق کی آگ میں نہ جلادے اس طرح کہ وہ تسلیم اور بندگی کا پتلا بن جائے ، اس وقت تک وہ رازِ معرفت تک رسائی حاصل نھیں کرسکتا ھے، اور اس نورانی سلسلہ میں ”میم“ تک نھیں پھونچ پائے گا۔

بعض حضرات کا کھنا ھے کہ ”ب“ اس کی نیکی واحسان کی طرف اشارہ ھے جو سب کے لئے ھے، اور اکثر اوقات عام لوگوں سے تعلق رکھتا ھے، اور ”سین“ سے مراد خداوندعالم کے اسراران خاص افراد کے لئے ھیں جو دل والے ھیں، اور ”میم“ اس محبت کی نشانی ھے جو خاص الخاص اور اصحاب اسرار کے لئے مخصوص ھے۔

عظیم الشان کتاب ”اصول کافی“ ، ”توحید صدوق“، ”معانی الاخبار“ اور ”تفسیر عیاشی“ میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ھے کہ ان تینوں حروف سے خدا کے ایک ایک اسماء حسنیٰ کی طرف اشارہ ھے، ”با“ سے بھای الٰھی ، ”سین“ سے سناء الٰھی (جس کے معنی بلندی اور رفعت نور کے ھیں) اور ”میم“ سے خداوندعالم کی مجد اور عظمت مرادھے۔

بعض عرفاء کا کھنا ھے : ”با“ سے بصیر کی طرف اشارہ ھے اور سین سے سمیع کی طرف اور میم سے”مُحصی“ (شمار کرنے والے) کی طرف اشارہ ھے۔

گویا” بسم اللہ“ پڑھنے والے کو درج ذیل معنی کی طرف متوجہ کیا جاتا ھے:

میں بصیر ھوں؛ لہٰذا(اے انسان) تیرے ظاھری اور باطنی تمام اعمال کو جانتا ھوں، اورمیں سمیع ھوں جس کے نتیجہ میں تیری تمام باتوں اور دعاؤں کو سنتا ھوں، اور مُحصی ھوں جس کے نتیجہ میںتیرے ھر سانس کوشمار کرتا ھوں۔ اس بنا پر اپنے عمل میں ریاکاری اور خود نمائی سے اجتناب کر، تاکہ اس کی جزا میں تجھے دائمی ثواب عنایت کردوں، اور میرے سمیع ھونے کے سایہ میں باطل اور بے ھودہ باتوں سے پرھیز کر، تاکہ تجھے فیض وصفا اور غفران وصلاح کی خلعت پھناؤں، اور چونکہ میں مُحصی ھوں لہٰذا ایک لمحہ کے لئے بھی مجھ سے غافل نہ ھو تاکہ اس کے بدلے میں اپنی بارگاہ میں ملاقات کے لئے بلالوں۔

محبوب کے عشق میں مجذوب اور اس کی راہ میں آگے بڑھنے والے اس کی محبت میںجلنے والے عرفاء کہتے ھیں:

”بسم اللہ“ کے آسمانی اور عرفانی معنی سے وھی شخص واقف ھوسکتا ھے جو محبوب (خدا) کی بلاؤں پر صبر کرے، اور اپنے باطن کو صراط مستقیم پر قائم رکھے تاکہ ”میم“ کی نورانی فضا کا مشاھدہ کرسکے۔

لفظ مبارک ”الله“ اس ذات مقدس کا نام کامل اور اسم جامع ھے جس میں تمام صفات کمال وجمال اور جلال سبھی جمع ھیں۔

بعض علماء نے کلمہ ”الله“ میں تین معنی پوشیدہ بتائے ھیں:

۱۔دائم ازلی، قائم ابدی اور ذات سرمدی۔

۲۔ وھم وخیال اور عقل اس کی معرفت میں حیران اور سرگرداں ھے،اور روح ودرک اس کی طلب میں پریشان اور ناتواں ھے۔

۳۔ خدا کی ذات تمام مخلوقات اور موجودات کے پلٹنے کی آخری منزل اور سب کا مرجع ھے۔

علماء عرفان نے کھا ھے کہ لفظ ”الله“ اسم اعظم ھے اور توحید کی بنیاد اسی پر ھے ، اور یھی کلمہ اگر کافر اپنی زبان سے جاری کرے تو ایمان کے دائرے میں داخل ھوجاتا ھے (بشرطیکہ اس کا دل اس کی زبان کی تصدیق کرے)

کافر اسی کلمہ کے زبان پر لانے سے غفلت ، کثافت اوروحشت کی دنیا سے نکل کرے ھوشیاری، پاکیزگی و محبت اور امن کی دنیا میں داخل ھوجاتا ھے، لیکن اگر کوئی کافر ”لا الہ الا الله“ کے بجائے ”لا الہ الا الرحمن“ کھے تو وہ اپنے کفر سے نھیں نکل سکتا اور اسلام کے دائرہ میں داخل نھیں ھوسکتا۔ بندگان الٰھی کی فلاح ونجات اسی نوارانی اور طیب وطاھر کلمہ کے زیر سایہ ھے۔

ذکرکرنے والوں کا کمالِ منقبت اسی شریف اور کامل اسم کی وجہ سے ھے، ھر کام کی ابتداء اسی نام سے ھوتی ھے اور اس کا اختتام اسی کے انتظام میں ھے۔ رسالت کی بنیاد کا استحکام اسی نام سے ھے کہ ”محمد رسول الله“ اور بنیادی ولایت کی پائیداری اسی کے ذریعہ ھے جو ” علی ولی الله“ ھے۔

کلمہ ”الله“ کی ایک خاصیت یہ ھے کہ اگر اس کے شروع سے ”الف“ کوہٹا دیا جائے تو ”لله“ باقی بچتا ھے،: ۔۔۔”لِلّٰہِ الاٴَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ۔۔۔“[45] اور اگر اس کے شروع سے ”لام“ ہٹا دیا جائے تو ”لہ“ باقی بچتا ھے: ”۔۔۔لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ۔۔۔“ [46]اور اگر دوسرے ”لام“ کو بھی ہٹا دیا جائے تو ”ھو“ باقی بچتا ھے جو ذات حق پر دلالت کرتا ھے: ”قُلْ ہُوَ اللهُ اَحَدٌ“[47]لہٰذا جو نام اس قدر خصوصیت رکھتا ھے وہ اسم اعظم ھے۔

لفظ ”رحمن“ رحمت سے نکلا ھے، اور علماء صرف ونحو اور لغوی حضرات کے لحاظ سے یہ کلمہ مبالغہ کا صیغہ ھے، جو کثرت (رحمت) پر دلالت کرتا ھے، لیکن علماء اسلام اور الہٰیات کے ماھر علماء کے نزدیک ”رحمن“ کے معنی ”تمام موجودات اور مخلوقات پر عام رحمت کرنے والے کے ھےں جس میں عبادت اور خدمت کو نھیں دیکھا جاتا“ (یعنی چاھے کوئی عبادت خدا کرتا ھو یا نہ کرتا ھو اس کی رحمت عام سب کو شامل ھوتی ھے)

لیکن صاحبان کشف ویقین کے نزدیک ”رحمن“ کے معنی تمام ذرات کو اپنی قابلیت اور استعدادکے مطابق وجود او رکمالات سے نوازتا ھے“ کیونکہ اگر یہ عطا نہ ھوتا تو نہ کوئی وجود ھوتا اور نہ کوئی کمال !۔

بعض اھل بصیرت نے کھا ھے کہ ”رحمن“ کے معنی :”حضرت حق کا تمام موجودات کو خیر اور احسان پھونچانے کا ارادہ، اور ان سے شر کو دور کرنے کے ھیں“

تمام ظاھری اور باطنی نعمتیں اس ذات حق کے رحمانیت کے جلوے ھی ھیں جس کے بعض پھلو سورہ مبارکہ ”الرحمن“ میں بیان ھوئے ھیں۔

لفظ ”رحیم“ علماء لغت کے نزدیک صفت مشبہ ھے اور ثبات اور دوام (ھمیشگی) پر دلالت کرتا ھے، یعنی وہ خدا جس کی رحمت اور مھربانی ھمیشگی اور ثابت ھے۔

اس سلسلہ میں علماء اسلام نے کھا ھے: خداوندعالم کی رحمت رحیمیہ (رحیم ھونے کے لحاظ سے) مومنین اور صاحبان یقین سے مخصوص ھے، کیونکہ ان افراد نے ھدایت کوقبول کیا ھے اور خداوندعالم کے حلال وحرام کو مانا ھے، اور اخلاق حسنہ سے مزین ھیں نیز اس کی نعمتوں پر شکر گزار ھیں۔

اسلامی کتب میں بیان ھوا ھے : خدا وندعالم کی رحمت رحمانیہ کے معنی یہ ھیں: ”وہ تمام موجودات اور تمام انسانوں چاھے وہ مومن ھوںیاکافر، صالح ھوں یا بدکار ، کو روزی پھونچاتا ھے“ ،اور رحمت رحیمیہ کے معنی : ”نوع بشریت میں معنوی کمالات کا ودیعت فرمانا“ اور ”دنیا وآخرت میں مومنین کی بخشش کرنا ھے“۔

No comments: