Tuesday, April 28, 2009

شرح دعاء کمیل ۵

”اِٴلٰھي وَمَوْلاٰيَ اٴَجْرَیْتَ عَلَيّحُکْماً ا تَّبَعْتُ فیہِ ھَویٰ نَفْسي، وَلَمْ اٴَحْتَرِسْ فیہِ مِنْ تَزْیینِ عَدُوِّي،فَغَرَّنِي بِمٰااٴَھْویٰ وَاٴَسْعَدَہُ عَلٰی ذٰلِکَ الْقَضٰٓاءُ فَتَجٰاوَزْتُ بِمٰاجَریٰ عَلَيَّ مِنْ ذٰلِکَ بَعْضَ حُدُودِکَ،وَخٰالَفْتُ بَعْضَ اٴَوٰامِرِکَ۔“

”خدایا مولایا۔تونے مجھ پر احکام نافذ کئے اور میں نے خواھش نفس کا اتباع کیا اور اس با ت کی پرواہ نہ کی کہ دشمن (شیطان)مجھے فریب دے رھا ھے۔نتیجہ یہ ھوا کہ اس نے خواھش کے سھارے مجھے دھوکہ دیا

اور میرے مقدر نے بھی اس کا سا تھ دےدیا اور میں نے تیرے احکام کے معاملہ میں حدود سے تجاوز کیا اور تیرے بہت سے احکام کی خلاف ورزی کر بیٹھا “۔

وظائف اور ذمہ داریاں

خداوندعالم جن چیزوں کے ذریعہ انسان کی زندگی کو سنوارنا چاہتا ھے، جیسے صحیح عقائد جن کی جگہ قلب ھے، اخلاق حسنہ جن کی جگہ نفس اور باطن انسان ھے،اور اعمال صالحہ، جن کو اعضاء و جوارح سے انجام دیا جاتا ھے، انھیں تمام چیزوں کو وظائف اور ذمہ داریاں کھاجاتا ھے، اور یہ چیزیں خدا کی ربوبیت، اس کے علم و حکمت، اور اس کی رحمت و احسان کے جلوے ھیںاور یہ انسان کی دنیا وآخرت کی بھلائی کے پیش نظر قرار دی گئی ھیں۔

بے شک اگر خداوندعالم کی طرف سے معین کردہ وظائف پر خلوص نیت اور عشق و محبت کے ساتھ عمل کیا جائے چاھے کسی بھی حالت میں انجام دئے جائیں انسان کمال اور سعادت کی منزلوں پر فائز ھوجائے گا، رضائے الٰھی اس کے شامل حال ھوگی، الیاء اللہ بھی اس سے خوش ھوں گے،اس کی زندگی طیب و طاھر ھوجائے گی، اور آخرت میں خدا کے لطف وکرم کے زیر سایہ جنت میں ھمیشہ ھمیشہ کے لئے انبیاء، صدیقین، شھداء اور صالحین کے ساتھ قرار پائے گا۔

خدا کی اطاعت اور اس کی فرمانبردای میں مانع ھونے والی چیزھوائے نفس ھے، جس کے معنی انسانی خواھشات کا بے لگام ھوجانا ھے، اور جب انسان ان خواھشوں کا شکار ھوجاتا ھے تو دنیاوی زرق و برق کو دیکھ کر ان میں غرق ھوجاتا ھے اور پھر گناھوں میں ڈوب جاتا ھے،

اور اپنی تمام تر طاقت کو انھیں کے لئے خرچ کرتا ھے، اگرچہ دوسروں پر ظلم و ستم اور ان کے حقوق کو پائمال ھی کیوں نہ کرنا پڑے، اور اپنے اندر موجود شیطنت کی وجہ سے ایسے امور کی طرف دعوت دیتا ھے کہ نہ اسے اصول اعتقاد کی خبر رہتی ھے اور نہ ھی اخلاقی کردارکی، اور پھر یھاں تک آگے بڑھ جاتا ھے کہ نہ اپنے اوپر رحم کرتا ھے اور نہ ھی دوسروں پر،

اور ایک خطرناک حیوان کی طرح حقائق اور واقعیات کو نادیدہ کرتے ھوئے زندگی کو تباہ کرڈالتا ھے، یھاں تک کہ موت آکر اس کا گلا دبالیتی ھے، اور اس کی گندگی اور کثافت سے دنیا کو پاک کردیتی ھے۔

اگر رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ایک بہت اھم روایت کے ضمن میں فرمایا ھے:

”اٴَعدَی عَدُوِّکَ نَفسُک الَّتِی بَیْنَ جَنْبَیْکَ“[1]

”(خبردار!) تمھارا سب سے بڑادشمن ؛ تمھارے دو پھلو ٴوںکے درمیان موجود تمھارا مادّی نفس ھے“۔

تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان حق ھے اور نفس کے سلسلہ میں ایک بہت اھم چیلنج ھے۔

جی ھاں! نفس امّارہ، اور جس چیز کو قرآن کریم کی زبان میں ھوائے (نفس )سے تعبیر کیا گیا ھے، یہ انسان کاسب سے خطرناک دشمن ھے، کیونکہ انسان اسی ھوائے نفس کی بنا پر اپنی دنیا و آخرت کو تباہ کرڈالتا ھے، اور یھی ھوائے نفس ھوتی ھے جو انسان کو تمام برائیوں میں غرق کردیتی ھے اور ھر نیکی سے روک دیتی ھے۔

حضرت امام رضا علیہ السلام سے مروی ھے : کسی شخص نے مجھ سے دنیا و آخرت کی بھلائی کو جمع کرنے والی صفت کے بارے میں سوال کیا، تو میں نے کھا: اپنے نفس کی مخالفت کرو۔[2]

حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے:

”اٴَفْضَلُ الجِھادِ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَہُ الَّتِی بَیْنَ جَنْبَیْہِ“[3]

سب سے بڑا جھاد ؛”جھاد بالنفس“ ھے۔

نیز آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) حضرت علی علیہ السلام سے فرماتے تھے:

”یَاعَلِیُّ اٴَفْضَلُ الجِھادِ مَنْ اٴَصْبَحَ لَایَھُمُّ بِظُلْمِ اٴَحَدٍ“[4]

”یا علی! سب سے بڑا جھادیہ ھے کہ انسان صبح اٹھے تو کسی پر ظلم و ستم کا ارادہ نہ رکھتا ھو“۔

اگر انسان ھوائے نفس کا شکار ھوجائے، یعنی اپنی بے حساب شھوت کے ذریعہ خداوندعالم کی مخالفت کرے تو ھوائے نفس اس کو قیدی بنا کر دھوکہ میں ڈال دیتی ھے، اور یاد خدا، یاد قیامت ، موقع حساب و کتاب ، وقت موت اور خدا کے واجب کردہ وظائف اور ذمہ داریوں کو بھلا دیتی ھے، اور اس وقت قضائے الٰھی جو اس سلسلہ میں انسان انسان کی آزادی اور اس کا اختیارھے اس دھوکا دھڑی میں غدّار دشمن کی مدد کرتی ھے، اور انسان کو اس آزادی اور اختیار سے ناجائز فائدہ اٹھانے پر مجبور کردیتی ھے، اور خداوندعالم کی اطاعت اور وظائف پر عمل کرنے کے بجائے، ظلم و ستم او ردوسروں پر تجاوز کرنے لگتا ھے، اورانسان خداوندعالم کی معین کردہ حدود اور دیگر اصول سے تجاوز کرتا ھے، اور خداوندعالم کے سعادت بخش احکام کی مخالفت کرتا ھے۔

”فَلَکَ الْحَمْدُ عَلَيَّ فيجَمیعِ ذٰلِکَ،وَلاٰحُجَّةَ لِي فِیمٰاجَریٰ عَلَيَّ فیہِ قَضٰاوُٴکَ،وَاٴَلْزَمَنِيحُکْمُکَ وَبَلٰاوُٴکَ،“

”بھر حال اس معاملہ میں میرے ذمہ تیری حمد بجالانا ضروری ھے اور اب تیری حجت ھر مسئلہ میں میرے اوپر تمام ھے اور میرے پاس تیرے فیصلہ کے مقابلہ میں اور تیرے حکم و آزمائش کے سامنے کوئی حجت و دلیل نھیں ھے “۔

انسان پر خدا کی حجتیں

انسان کے پاس ایسی کوئی حجت نھیں ھے جو دنیا میں اپنی ضلالت وگمراھی، کجی اور انحراف اور گناہ و معصیت کے سلسلہ میں خدا کی بارگاہ میں پیش کرسکے۔

مثلاً اگرانسان کھے: میں طاقت و قدرت نھیں رکھتا تھا، تو یہ تو بہت بڑا جھوٹ ھے، چونکہ اس کا بدن صحیح و سالم تھا، مختلف نعمتوں سے نوازا گیا تھا لہٰذا اپنے وظائف کو انجام دینے پر قدرت رکھتا تھا۔

اور اگرانسان کھے: عقل سے محروم تھا، یہ بھی بہت بڑا جھوٹ ھے،چونکہ اگر عقل سے محروم ھوتا تو کس طرح اپنے دنیا میں کاروبار، تجارت اور دوسرے امور انجام دیتا تھا؟!

اور اگرانسان کھے: اگر میری ھدایت کے لئے خدا کی طرف سے کوئی نبی، امام یا کتاب ھدایت کا انتظام ھوتا تو میں ان کی پیروی کرتا؛ تو پھر اس کے جواب میں کھا جائے گا: ھدایت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے گئے، بارہ معصوم امام ھدایت کے لئے معین کئے گئے، لیکن تجھے کیا ھوگیا تھا تو نے اپنے دنیاوی مسائل کو حل کرنے کے لئے ھر ممکن سعی و کوشش کی ، لیکن ھدایت کے سلسلہ میں کوئی قدم نھیں اٹھایا؟!

اور اگر انسان کھے: ھدایت کے لئے کوئی عالم دین، کتاب ھدایت اور معنویت سے آباد مسجد کا انتظام نہ تھا، تو کھا جائے گا: یہ جھوٹ او رتھمت ھے، کیونکہ ھماری ھدایت کی آواز ھر طرف سے آرھی تھی لیکن تیرا تکبر، خودپسندی اور ھوائے نفسانی ”صد ائے ھدایت“ سننے میں مانع ھوئی اور تو نے حق کی پیروی نھیں کی ھے!

قارئین کرام! مذکورہ حقائق کے پیش نظر خداوندعالم کی طرف سے دنیا و آخرت میں انسان کو محکوم کرنے کے لئے حجت کا دروازہ کھلا ھے، اور انسان کے لئے اپنا عذر پیش کرنے اور عذاب الٰھی سے بچنے کے لئے کوئی بھی بھانہ اور عذر قابل قبول نھیں ھے۔

اس واضح اور آشکار حقیقت(انسان پر خدا کی حجت حکم فرما ھے ، اور وہ عذاب الٰھی کا مستحق ھے) خدا کے پیش نظر ھم صرف ایک اھم روایت نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ھیں، جو اسلامی معتبر کتابوں میں بیان ھوئی ھے۔

حمید بن زیاد نے حسن بن محمد کَندی سے اور انھوں نے احمد بن حسن میثمی سے، انھوں نے ابان بن عثمان سے اور انھوں نے عبد الاعلی سے روایت کی ھے :

”سَمِعْتُ اٴَباعَبدِ اللّٰہِ علیہ السلام یَقولُ:یُوٴْتَی بِالْمَراٴَةِ الحَسناءِ یَوْمَ القِیامَةِ الَّتِی قَدِ افْتُتِنَتْ فِی حُسْنِھا فَتَقولُ:یَارَبِّ حَسَّنْتَ خَلْقِی حَتَّی لَقِیتُ مَا لَقِیتُ؛فَیُجاءُ بِمَریَمَ علیھا السلام فَیُقالُ:اٴَنْتِ اٴَحْسَنُ اٴَوْھٰذِہِ؟ قَدْحَسَّنَّاھَا فَلَمْ تُفْتَتَنْ،وَ یُجاءُ بالرَّجُلِ الحَسَنِ الَّذِی قَدْ افْتُتِنَ فِی حُسْنِہِ فَیَقولُ:یَارَبِّ حَسَّنْتَ خَلْقِی حَتّی لَقِیتُ مِنَ النِّساءِ مَا لَقِیتُ فَیُجاءُ بِیُوسُفَ علیہ السلام فَیُقالُ:اٴَنْتَ اٴَحْسَنُ اٴَوْ ھٰذَا؟قَدْ حَسَّنَّاہُ فَلَمْ یُفْتَتَنْ۔ وَ یُجاءُ بِصاحِبِ البَلاَءِ الَّذِی قَدْ اٴَصَابَتْہُ الفِتْنَةُ فِی بَلَائِہِ فَیَقُولُ :یَارَبِّ شَدَّدْتَ عَلَیَّ البَلَاءَ حَتَّی افْتُتِنْتُ فَیُوٴْتَی بِاٴَیّوبَ علیہ السلام ، فیقال:اٴَبَلِیَّتُکَ اٴَشَدُّ اٴَوْ بَلِیَّةُ ھٰذَا؟فَقَدْ ابْتُلِیَ فَلَمْ یُفْتَتَنْ“[5]

”میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا: روز قیامت ایک حسین و جمیل عورت کو لایا جائے گا جس نے اپنے حسن و جمال کی وجہ سے دنیا میں گناہ ومعصیت کو اپنا شعار بنایا، تو وہ اپنی بے گناھی ثابت کرنے کے لئے کھے گی: پالنے والے! تو نے مجھے خوبصورت پیدا کیا لہٰذا میں اپنے حسن و جمال کی بنا پر گناھوں کی مرتکب ھوگئی، اس وقت جناب مریم (سلام اللہ علیھا) کو لایا جائے گا، اور کھا جائے گا: تو زیادہ خوبصورت ھے یا یہ خاتون باعظمت؟ ھم نے اس کو بہت زیادہ خوبصورت خلق فرمایا لیکن پھر بھی انھوں نے اپنے کو محفوظ رکھا، اور برائیوں سے دور رھیں۔

اور پھر ایک خوبصورت مرد کو لایا جائے گاوہ بھی اپنی خوبصورتی کی بنا پر گناھوں میں غرق رھا ، وہ بھی کھے گا: پالنے والے ! تو نے مجھے خوبصورت پیدا کیا ، جس کی بنا پر میں نامحرم عورتوں کے ساتھ گناھوں میں ملوث رھا۔ اس وقت جناب یوسف (علیہ السلام) کو لایا جائے گا، اور کھا جائے گا: تو زیادہ خوبصورت ھے یا یا عظیم انسان، ھم نے انھیں بھی بہت خوبصورت پیدا کیا لیکن انھوں نے بھی اپنے آپ کو گناھوں سے محفوظ رکھااور فتنہ و فساد میں غرق نہ ھوئے۔

اس کے بعد ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا، جو بلاء اور مصیبتوں میںگرفتار رہ چکا تھا اور اسی وجہ سے اس نے اپنے کو گناھوں میں غرق کرلیا تھا، وہ بھی عرض کرے گا: پالنے والے! چونکہ تونے مجھے مصیبتوں اور بلاؤں میں گرفتار کردیا تھا جس سے میرا حوصلہ اور استقامت جاتی رھی اور میں گناھوں میں غرق ھوگیا، اس وقت جناب ایوب (علیہ السلام) کو لایا جائے گااور کھا جائے گا: تمھاری مصیبتیں زیادہ ھیں یا اس عظیم انسان کی ، یہ بھی مصیبتوں میں گھرے لیکن انھوں اپنے آپ کو محفوظ رکھا اور فتنہ وفساد کے گڑھے میں نہ گرے“۔

”وَقَدْ اٴَتَیْتُکَ یٰااِٴلٰھِي بَعْدَ تَقْصیرِي وَاِٴسْرٰافِيعَلٰی نَفْسِي،مُعْتَذِراًنٰادِماً مُنْکَسِراًمُسْتِقیلًا مُسْتَغْفِراً مُنیباًمُقِرّاً مُذْعِناًمُعْتَرِفاً،لاٰاٴَجِدُ مَفَرّاًمِمّٰا کٰانَ مِنّي،وَلاٰمَفْزَعاًاٴَتَوَجَّہُ اِٴلَیْہِ فياٴَمْرِي غَیْرَ قَبُولِکَ عُذْرِي،وَاِٴدخٰالِکَ اِٴیّٰايَ في سَعَةِ رَحْمَتِکَ۔“

”اب میں ان تمام کوتاھیوں اور اپنے نفس پر تمام زیادتیوں کے بعد تیری بارگاہ میں ندامت انکسار، استغفار، انابت، اقرار، اذعان، اعتراف کے ساتھ حاضر ھو رھاھوں کہ میرے پاس ان گناھوں سے بھاگنے کے لئے کوئی جائے فرار نھیں ھے اور تیری قبولیت معذرت کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نھیں ھے۔صرف ایک ھی راستہ ھے کہ تواپنی رحمت کاملہ میں داخل کر لے “۔

عاشقانہ راز و نیاز اور مناجات

دعائے کمیل کے اس حصے میں حضرت علی علیہ السلام نے ان تمام چیزوں کی طرف اشارہ کیا ھے جن کی وجہ سے خدا کی رحمت اور بخشش شامل حال ھوتی ھے، جیسے:اپنی عبادت کو ناقص تصور کرنا، اپنے آپ کو شھوت پرست قرار دینا، شرمندگی کے ساتھ معذرت خواھی کرنا، دل شکستہ سے بخشش کی درخواست کرنا، خدا کی طرف رجوع کرتے ھوئے اس سے توبہ کرنا، گناھوں کا اعتراف کرنا اور خدا کی پناھگاہ کے علاوہ کسی دوسری پناھگاہ کا تصور ذھن سے نکال دینا۔

یہ آہ وبکا، گریہ و زاری اور توبہ و اقرار ؛ ایک ایسی حقیقت ھے جس کو خداوندعالم اپنے گناھگار بندے اور توبہ کرنے والے سے سننے کو دوست رکھتا ھے۔ مروی ھے کہ :ایک صاحب جو عرفان و معرفت حاصل کرنا چاہتے تھے ،کسی ولی اللہ کے پاس گئے اور کھا: میں خدا کی بارگاہ میں حاضری دینا چاہتا ھوں اور اس کے حضور میں مشرف ھونا چاہتا ھوں، آپ بتائیں کہ ربّ ودود ، خدائے غفور اورمالک الملک کے لئے کیا تحفہ لے کر جاؤں؟ کیونکہ خالی ھاتھ جانا اس کی شان کے خلاف ھے۔چنانچہ اس ولی اللہ اور عاشق خدا نے کھا: وھاں وہ چیز تحفہ لے کر جاؤ جو وھاں نہ ھو، وھاں پر تمام کمالات: علم، حلم، قدرت، رحمت، مشیت، لطف، کرامت، صدق، عدالت، سطوت اورھیبت موجود ھے، لیکن وھاں یہ چیزیں نھیں ھیں: سوز دل، بہتے ھوئے آنسو، آہ و بکاراور تضرع و انکساری۔

جی ھاں! خداوندعالم، توبہ کرنے والے گناھگار اور ھر طرف سے مایوس و مغلوب بندہ کی آواز سننے کو بہت زیادہ پسند کرتاھے، اور یہ بات قابل انکار نھیں ھے کہ ھرمعشوق اپنے عاشق کی آواز اور التماس کو سننا چاہتا ھے، جیسا کہ ھر عاشق اپنے محبوب کی نظر التفات اور توجہ کا منتظر رہتا ھے نیز اس کے تقاضوں کوپورا کرنا چاہتا ھے۔

یوسف و زلیخا

بعض علماء کرام نے نقل کیا ھے: زلیخا نے اپنی قدرت سے ناجائز فائدہ اٹھاکر اپنے کو تھمت سے بری الذمہ کرنے کے لئے حضرت یوسف(ع) کو زندان میں تو ڈلوادیا، لیکن اپنی بے انتھا محبت اوردلسوز عشق کی تاب نہ لاسکی ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھ گئی کہ یوسف(ع) کے ایمان و تقویٰ کی بنا پر جناب یوسف سے وصال تو ممکن نھیں ھے،لہٰذا کم از کم محبوب کی آواز ھی سن لے، اور اس کے نالہ و فریاد کی آواز ھی کو سن لے، چنانچہ اس نے اپنے ایک غلام کو ساتھ لیا، اور زندان میں گئی، اس غلام سے کھا کہ یوسف کو تازیانے مارو، لیکن جیسے ھی غلام نے جناب یوسف کے حسن و جمال اور الٰھی ھیبت کو دیکھا تو ان کو تازیانے لگانے کی ھمت نہ کرسکا، ادھر اسے زلیخا کا بھی خوف تھا، اس نے جناب یوسف کو موٹے موٹے کپڑے پھنائے اور ان کے اوپر سے تازیانہ مارنے شروع کئے، تاکہ جناب یوسف کو اذیت نہ ھو۔

زلیخا بہت دیر تک انتظار کرتی رھی لیکن اپنے محبوب کی آواز نہ سن سکی، غلام سے کھا: زور سے مارو، اس وقت غلام نے جناب یوسف سے کھا: کھیں زلیخا مجھے زور سے نہ مارنے کی سزا نہ دینے لگے،آپ ان کپڑوں کو اتار دیجئے اور مجھے معاف کیجئے گا، جناب یوسف نے اپنی بزرگواری کے تحت اس بات کو قبول کرلیا، جیسے ھی آپ کے بدن پر تازیانے پڑے تو آہ ونالہ کی آواز بلند ھوئی جس سے زلیخا جیسی عاشق کے دل کو سکون ملا۔

چون زلیخا ز او شنید این بار آہ گفت بس کین آہ بود از جایگاہ

پیش از ین آن آہ ھا ناچیز بود آہ این باری زجای تیز بود

گر یود در ماتمی صد نوحہ گر آہ صاحب درد را باشد اثر

قوم یونس(ع)

جس وقت قوم یونس کو یہ معلوم ھوا کہ یونس اس بستی سے چلے گئے ھیں اور انھوں نے عذاب الٰھی کے آثاردیکھ لئے تو ان کو یقین ھوگیا کہ اس عذاب سے نجات کا ایک ھی راستہ ھے اور وہ خداوندعالم کی بارگاہ میں توبہ او رگریہ و زاری اور اپنے گناھوں کا اعتراف ھے۔ چنانچہ سب چھوٹے بڑے، پیر و جوان اور مرد عورتیں پرانے لباس پھن کر پابرھنہ بیابان کی طرف چل دئے۔ مرد ایک طرف عورتیں دوسری طرف ، شیر خوار بچوں کو ان کی ماؤں سے الگ کردیا گیااور سب مل کر خدا کی بارگاہ میںگریہ و زاری کرنے لگے اور روروکر اس کی بارگاہ میں توبہ کرنے لگے۔

یھاں تک کہ حیوانات بھی نالہ و فریاد کرنے لگے، کلمہ توحید ان کی زبان پر جاری ھوا، دلسوز نالہ و فریاد اور محبت کے ساتھ توبہ اور پشیمانی کا اظھار کیا، شرک و معصیت اورنافرمانی سے باز آگئے، ان میں سے ایک گروہ نے پکار کر کھا: پالنے والے! یونس نے کھا تھا کہ غلاموں کو آزاد کردو تاکہ ثواب کے مستحق قرار پاؤ، اور جھاں بھی تمھیں کوئی شخص مشکلات اور پریشانی میں دکھائی دے اس کی مدد کرو، پالنے والے! اس وقت یہ غلام تیری بارگاہ میں بے چارہ ھیںتیرے علاوہ ھمارا کوئی فریادرس نھیں ھے لہٰذاھماری مدد فرما۔

چنانچہ جب اس قوم کا راز و نیاز اور سوز و گریہ اور مناجات، بارگاہ الٰھی میں قبول ھوئی تو ان کو نجات مل گئی، عذاب کا بادل چھٹ گیا، اور رحمت خدا کی گھٹا چھاگئی، سب کی توبہ قبول ھوگئی اور سب خوش وخرم شھر میں واپس آگئے، اور اپنے کاروبار اور زندگی میں مشغول ھوگئے۔ بھر حال خداوندعالم کی طرف توجہ کرنا اور اس کی بارگاہ میں گناھوں کا اقرار کرنا، اپنی بے چارگی کا اعلان کرنا اور خدا سے طلبِ بخشش کرنا ، حقیقی توبہ کے مقدمات ھیں جن کے ذریعہ خداوندعالم کا لطف و کرم شامل ھوتا ھے۔

”اٴَللّٰھُمَّ فَاقُبَلْ عُذْري،وَارْحَمْ شِدَّةَ ضُرِّي،وَفُکَّنِيمِنْ شَدِّوَثٰاقِي،

یٰارَبِّ ارْحَمْ ضَعْفَ بَدَنِي،وَرِقَّةَ جِلْدي،وَدِقَّةَ عَظْمي،

یٰامَنْ بَدَاٴَخَلْقِيوَذِکْرِي وَتَرْبِیَتِيوَبِرِّيوَتَغْذِیَتيھَبْني

لِابْتِدٰاءِ کَرَمِکَ وَسٰالِفِ بِرِّکَ بي۔“

”لہٰذا پروردگار میرے عذر کو قبول فرما ۔میری شدت مصیبت پر رحم فرما۔

مجھے شدید قید وبند سے نجات عطا فرما۔پروردگار میرے بدن کی کمزوری،

میری جلد کی نرمی اور میرے استخواں کی باریکی پر رحم فرما،اے میرے پیداکرنے والے ۔

اے میرے تربیت دینے والے! اے نیکی کرنے والے! اپنے سابقہ کرم اور گذشتہ

احسانات کی بنا پر مجھے معاف فرمادے“۔

محبوب کا دربار

دعا کے اس حصہ میں عارف عاشق ،تائب صادق اور بہترین مناجات کرنے والااحساس کرتا ھے کہ خداوندعالم کی رحمت اور لطف و کرم کے دروازے کھلے ھوئے ھیں، اور ھمارا محبوب خدا ھمارے راز و نیاز سننے کے لئے تیار ھے؛ لہٰذا عرض کرتا ھے:

میرے عذرر کو قبول فرما، جو میری نادانی اور جھالت ھے، لڑکپن اور گناہ ھیں، میں ھوائے نفس کا قیدی ھوں اور میرا ارادہ ضعیف اور کمزور ھے، لیکن اب چونکہ تیری بارگاہ میں توبہ کی توفیق حاصل ھوگئی ھے، اور جھالت کے اندھیرے سے نکل آیا ھوں اور میری جوانی کا نشہ ختم ھوگیا ھے، ایک حد تک نفس پرستی سے چھٹکارا مل گیا ھے، اورگناھوں کے ترک کرنے اور تیری اطاعت کرنے پرمیرا ارادہ محکم ھوگیا ھے، لہٰذا میں نے گناھوں سے دوری اختیار کی ھے اور شیطان و ھوائے نفس سے دور بھاگ کرتیری بارگاہ میںحاضر ھوا ھوں، لہٰذا اپنے لطف وکرم اور عنایت سے میری گزشتہ برائیوں اور مفاسد کی اصلاح فرمادے۔

پالنے والے! میرے برے حالات کی سختی، خود غرضی، حرص، حسد ،بخل، طمع ریاکاری، خودنمائی اور دوسرے برے صفات کی وجہ سے ھیں، اگر یہ بدحالی میرے اندر باقی رھی تو ایک خطرناک بیماری اور ناسور میں بدل جائی گی، جو مجھے ھلاک کردے گی، جس کے علاج کے لئے کوئی راستہ باقی نہ بچے گا، لہٰذا میرے اس حال پر رحم فرما، اور اگر تیری رحمت میرے شامل حال ھوگئی تو میری بری حالت اچھی حالت میں بدل جائے گی، اورمیں اخلاق حسنہ سے مزین ھوجاؤں گا، تیرے کرم کے زیر سایہ میرا تکبر؛ تواضع میں، حرص؛ قناعت میں، حسد؛ رشک میں، بخل؛ جود و سخاوت میں، لالچ؛ رضایت میں اور ریاکاری؛ اخلاص میں بدل جائے گی۔

پالنے والے! میرے اعضاء و جوارح ، عقل و خرد، دل و جان ،ھاتھ پیر اور قلب و روح پر شیطان اور ھوائے نفس کی زنجیروں نے قبضہ کرلیا ھے، مجھے عبادت و طاعت اور کار خیر سے روکتے ھیں، او رتیری بارگاہ میں آنے سے میرے قدموں کو روک لیتے ھیں۔ پالنے والے! اب جبکہ تیری عطا کردہ توفیق کے سبب دل سے آہ و فغاں کررھا ھوں، آنکھوں سے ندامت اور حسرت کے آنسو بھارھا ھوں،تیری بارگاہ میں فریاد کررھا ھوں، اور تیرے حضور میں ان تمام زنجیروں سے رھائی کا طالب ھوں، پالنے والے!میرے اوپر اپنی رحمت اور لطف وکرم کا سایہ فرمادے، اور میرے ھاتھوں اور پاؤں سے شیطانی اور ھوائے نفس کی زنجیروں کو کھول دے، اور مجھے مکمل طریقہ سے آزاد بنادے، اور اس ذلت و روسوائی سے نکال دے۔

اگر آج جبکہ میں اس دنیا میں ھوں تیری رحمت میری فریاد کو نہ پھنچے اور مجھے ان زنجیروں کی سختیوں اور شیطانی وسوسوں اور ھوائے نفس کی تکلیفوں اور برے اخلاق نیز فرعونی اور قارونی حالات سے نجات نہ دی تو کل روز قیامت مجھے ان زنجیروں میں گرفتار ھونا پڑے گا، جن کے بارے میں قرآن مجید نے خبر دی ھے، کہ وہ زنجیریں کفار، مشرکین اور مجرمین کے ھاتھ پیروں میںڈالی جائےں گی اور ان کو جھنم کی طرف کھینچا جائے گا:

” إِنَّا اٴَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِینَ سَلَاسِلَاْ وَاٴَغْلاٰلاً وَسَعِیرًا۔“[6]

”بے شک ھم نے کافروں کے لئے زنجیریں طوق اور بھڑکتے ھوئے شعلوں کا انتظام کیا ھے“۔

” خُذُوہُ فَغُلُّوہُ . ثُمَّ الْجَحِیمَ صَلُّوہُ. ثُمَّ فِی سِلْسِلَةٍ ذَرْعُہَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا فَاسْلُکُوہُ. إِنَّہُ کَانَ لاَیُؤْمِنُ بِاللهِ الْعَظِیم۔“[7]

”اب اسے پکڑلو اور گرفتار کرلو۔پھر اسے جھنم میں جھونک دو۔پھر ایک ستر گز کی رسی میں اسے جکڑ لو۔یہ خدائے عظیم پر ایمان نھیں رکھتا تھا“۔

اگر آج تونے مجھے ان زنجیروں اور قید و بند سے آزاد نہ کیاتو پھر ایک دن وہ بھی آئے گا کہ میری آزادی کے لئے کوئی بھی راستہ باقی نھیں رھے گا۔

قارئین کرام! جو افراد ان زنجیروں اور قید و بند سے آزاد ھیں، تووہ لوگ بڑے ھی شوق و اطمینان کے ساتھ خداوندعالم کی عبادت و اطاعت اور اعمال صالحہ میں مشغول ھوجاتے ھیں،اور اپنی عمر کے آخری روز ندائے”ارْجِعِیٓ اِلَیٰ رَبِّکِ رَاضِیَةً مَرْضِیَّةً“[8]سن کر اپنے معشوق کی طرف پرواز کرنے کے لئے اپنے پروں کو پھیلاتے ھیں، اور ھمیشہ ھمیشہ کے لئے آغوش رحمت میں پھنچ جاتے ھیں۔

لیکن وہ لوگ جوان قید و بند اور زنجیروں میں جکڑے ھوتے ھیں،وہ خدا کی اطاعت و بندگی اور نیک کام کی طرف قدم نھیں اٹھاسکتے، یہ لوگ اس چند روزہ دنیا میں شیطان کے قیدی اور ھوائے نفس کے اسیر ھوتے ھیںاور اپنی عمر کے آخری حصے میں بہت زیادہ حسرت و ناامیدی اور سخت پریشانی میں اپنی جان دیتے ھیں اور احساس کرتے ھیں کہ انھوں نے اپنی تمام ھستی کو نابود کرلیا ھے اور ایسے لاچار ھوگئے ھیں کہ مال و دولت بھی ان کے کام نھیں آسکتے، ان کی روح آگ کی زنجیروں میں بندھی ھوئے دوزخ کی طرف کھینچی جارھی ھوگی!!

مرگ ھارون الرشید کا عجیب و غریب واقعہ

جس وقت خراسان میں ھارون الرشید کی بیماری بہت زیادہ بڑھ گئی، اس نے حکم دیا”طوس“ سے فلاںطبیب کو بلایا جائے، اور اس نے اپنا پیشاب ایک شیشی میں کیا، اور دوسرے لوگوں کا پیشاب بھی شیشی میں کرکے اس کے پاس بھیجا تاکہ پیشاب کے ذریعہ بیماری کا پتہ لگاسکے، طبیب نے ان شیشیوں کو چیک کیا اور ایک شیشی کو دیکھ کر کھا: جس شخص کا یہ پیشاب ھے اس سے کہہ دو کہ وصیت کرنے کے لئے آمادہ ھوجائے، چونکہ اس کی طاقت جواب دے چکی ھے، اور اس کے بدن کی بنیاد ڈھیر ھوچکی ھے۔ جیسے ھی ھارون الرشید نے یہ خبر سنی تو اپنی زندگی سے مایوس ھوگیا اور درج ذیل رباعی پڑھنے لگا:

ان الطبیب بطبہ و دوائہ لا یستطیع دفاع نحب قد اٴتی

ما للطبیب یموت بالداء الذی قد کان یبرء مثلہ فیما مضی

”طبیب اپنی طبابت اور دواؤں کے ساتھ آنے والی موت کا علاج کرنے پر قادر نھیں ھے، کیونکہ اگر قدرت رکھتا ھوتا تو جو جس بیماری کا وہ خود علاج کرچکا ھے اسی بیماری میں کیوں مرجاتا ھے“۔؟!

اسی وقت اس کو خبر دی گئی کہ اس کی موت کی خبر پھیل چکی ھے، چنانچہ اس خبر کو جھوٹی ثابت کرنے کے لئے ایک گاڑی پر سوار ھوا تاکہ اپنے آپ کو دکھائے کہ میں ابھی زندہ ھوں، لیکن جیسے ھی گاڑی پر بیٹھا حیوان کا پیر مڑگیا، تو اس وقت اس نے کھا: مجھے اتاردو، خبر پھیلانے والے سچ کہہ رھے ھیں، اور اس کے بعد اپنے لئے کفن منگوایا، اور ایک شخص کی طرف مخاطب ھوکر کھا: یھیں میرے بستر کے پاس میری قبر بناؤ، اور جب اس کی قبر تیار ھوگی، قبر کو دیکھ کر ان آیات کو پڑھا:

”مَا اٴَغْنَی عَنِّی مَالِیَ . ہَلَکَ عَنِّی سُلْطَانِیہ۔“[9]

”میرا مال بھی میرے کام نہ آیااور میری حکومت بھی برباد ھوگئی“۔

میں ایک ایسا مجرم ھوں جس کا کام تمام ھوچکا ھے، اور اس حقیقت کو اقرار کرتا ھوں:میرے مال و دولت نے مجھے عذاب خدا سے ذرہ برابر بھی نہ بچایا، اور آج جب میری مشکل کا وقت ھے تو انھوں نے میرا ساتھ چھوڑ دیا،اور نہ صرف یہ کہ مال و دولت نے میرا ساتھ نھیں دیا اور میری مشکل کو حل نہ کیا، بلکہ میری قدرت اور سلطنت بھی نابود ھوگئی اور میرے ھاتھوں سے جاتی رھے۔[10]ے میرے خدا! روز قیامت کی زنجیروں اور قید وبند کے پیش نظر میرے جسم کی ناتوانی اور کمزوری، میری نازک کھال اور نرم ہڈیوں پر حم فرما، کہ اگر گناھوں کی یہ زنجیریں مجھے باندھے رھےں گیں، تو کل روز قیامت آگ کی زنجیریں میرے جسم، میرے تمام اعضاء و جوارح پر بندھی ھوں گی، اورمیں اپنے جسم کی ناتوانی، کمزوری، ہڈی اور کھال کی نرمی کے ساتھ ھمیشہ ھمیشہ کے لئے ان زنجیروں میں بندھا رھوں گا، اور دوزخ کے طبقات میں جلتا رھوں گا، اور پھر کبھی مجھے موت بھی نھیں آئے گی!!

دقیق حساب و کتاب

قارئین کرام! ھم بھی اس شخص کی طرح جس کا نام توبہ تھا، اور شیخ بھائی کے قول کے مطابق اپنے نفس کا حساب و کتاب کیا کرتا تھا، روز و شب اپنا حساب و کتاب کریں۔اس شخص کی ساٹھ سال کی عمر تھی، اس نے اپنی عمر کا دنوں میں حساب لگایا،تو” ۲۱۶۰۰ “ دن ھوئے، تواس نے ایک چیخ ماری اورکھا: وائے بر من اگرھر روز میں نے کم سے کم ایک گناہ بھی کیا ھو تو ”۲۱۶۰۰“ گناھوں کا مرتکب ھوا، کس طرح ان گناھوں کے ساتھ خدا سے ملاقات کے لئے جاؤں؟ یہ کہہ کر زمین پر گرا، اور اس دنیا سے چل بسا۔[11]

پالنے والے! اے میرے غفور رحیم خدا! میں جیسا بھی ھوں، ھوں تو تیرا بندہ، تیرا خلق شدہ ھوں، تیری قدرت کے زیر سایہ ھوں، تیرے ارادے اور مرضی کا محکوم ھوں، کوئی دوسرا راستہ بھی نھیں ھے، اے وہ خدا جس نے مٹی سے میری خلقت کا آغاز کیا، اس کے بعد نطفہ سے، اس کے بعد علقہ بنایا، اس کے بعد مضغہ بنایا،یعنی جس وقت میں کچھ بھی نھیں تھا، مجھ پر توجہ کی اور لطف وکرم کیا مجھے یاد رکھا، مجھے خلق فرمایا، اور اس کے بعد میری مادی و معنوی تربیت کا انتظام کیا، مجھ پر لطف و کرم کی بارش کی، مختلف نعمتوں اوربہترین غذاؤں سے نوازا، اب میں نھایت خشوع و خضوع اور تواضع و انکساری کے ساتھ تیری بارگاہ میں درخواست کرتا ھوں کہ اسی گزشتہ کرم اور پھلے کی طرح احسان کے ذریعہ مجھے بخش دے،اور میرے گناھوں سے درگزر فرما، اور دنیا و آخرت کے عذاب سے رھائی عنایت فرما۔ (آمین یا رب العالمین)

”یٰااِٴلٰھِي وَسَیَّدِي وَرَبِّي،اٴَتُرٰاکَ مُعَذِّبِي بِنٰارِکَ بَعْدَ تَوْحیدِکَ،

وَبَعْدَمَاانْطَویٰ عَلَیْہِ قَلْبِيمِنْ مَعْرِفَتِکَ،وَلَھِجَ بِہِ لِسٰانِيمِنْ ذِکْرِکَ،

وَاعْتَقَدَہُ ضَمیرِي مِنْ حُبِّکَ،وَبَعْدَصِدْقِ اعْتِرٰافيوَدُعٰائيخٰاضِعاً

لِرُبُوبِیَّتِکَ۔“

”پروردگار!کیا یہ ممکن ھے کہ میرے عقیدہٴ توحید کے بعد بھی تو مجھ پر عذاب نازل کرے، یا میرے دل میں اپنے معرفت کے باوجود مجھے مورد عذاب قرار دے کہ میری زبان پر مسلسل تیرا ذکر اور میرے دل میں برابر تیری محبت جاگزیں رھی ھے۔میں صدق دل سے تیری ربوبیت کے سامنے خاضع ھوں “۔

نھیں، تیری ذات مقدس کی قسم! انبیاء اور ائمہ علیھم السلام، عارفین، عاشقین، عابدین، زاھدین اور توبہ کرنے والوں میں سے کوئی بھی تجھے ایسا نھیں مانتا کہ ان تمام حقائق اور معرفت کے بعد جو خود تیری توفیق سے مجھے حاصل ھوئے ھیں، مجھے آتش جھنم میںجلائے گا، بلکہ تجھے تو ایسا جانتے ھیں کہ مجھے قیامت کے روز اپنے لطف و کرم کے زیر سایہ رکھے گا، اور اپنی رحمت کا سھارا دے گا، میری برائیوں سے چشم پوشی کرے گا، اور اپنی بھشت میں مجھے جگہ دے گا، اور اپنے اولیاء کے ساتھ محشور کرے گا۔

توحید

جو شخص بھی قرآنی آیات اور روایات و احادیث، خصوصاً اللہ تعالیٰ کے بارے میں احادیث کو علماء سے سنا ھے اور آفرینش مخلوق میں غور و فکر کرنے اور اس جھان ھستی پر دقت کرنے نیز نظام خلقت میں اندیشہ کرنے سے خداوندعالم اور اس کے صفات کی معرفت حاصل کی ھے، وہ عقلی اور عملی طور پر اس کے علاوہ ھر معبود کو باطل اور اس کے علاوہ ھر مالک کو ھالک (یعنی ھلاک کرنے والا) جانتا ھے، اپنی زبان اور دل بلکہ اپنے وجود کے ھر ھر ذرہ سے کلمہ طیبہ ”لا الٰہ الا اللّٰہ“ کا اقرا رکرتا ھے، تو اس کا دل ”خانہ توحید“ ھے اور اس کا عمل ھر بت کی نفی کرتا ھے، اور ایسا ھی شخص شرعی اصطلاح میں ”موحّد“ کھا جاتا ھے۔ تمام انبیاء اور پیغمبروں کی دعوت اسی ”توحید“ کی طرف ھوتی تھی۔

سبھی انبیاء علیھم السلام تمام لوگوں کی اسی توحید کی دعوت کرتے تھے اوراسی کی یکتائی اور اکیلے ھونے پر ایمان رکھنے کی تبلیغ کرتے تھے؛ جیسا کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات سے بھی نتیجہ یھی نکلتا ھے کہ تمام انبیاء علیھم السلام کی دعوت ”توحید عملی“کا پھلو رکھتی تھی، اور غیر الٰھی نظام کو مردود جانتے تھے۔

”اعتقاد توحید“کے معنی و مفھوم یہ ھےں کہ انسان فکری لحاظ سے اپنے کو شرک و بت پرستی سے پاک رکھے، اس سلسلہ میں وہ مشرکین جو خدا کے لئے شریک کے قائل ھیںاسی طرح وہ لوگ جو ”خیر و شر“ کو ”یزدان اور اھریمن“ کی طرف سے جانتے ھیں، یا کسی میں خدا کے حلول کے قائل ھیں یا مختلف ارباب کے قائل ھیں، اسی طرح وہ افراد جو خدا کو مرکب شمار کرتے ھیں جیسے نصاریٰ، نیز فرقہ ”مجسمہ“ جو خدا وندعالم کے جسم کا قائل ھے، جن میںھمارے زمانہ میںجاھل ترین فرقہ ”وھابیت“ ھے۔

اسی طرح توحید کے عملی میدان میں جو اسی عقیدہ توحید کی ایک قسم ھے جو چیز اھمیت کی حامل ھے وہ یہ ھے کہ کہ صرف ایک خدا کی عبادت کی جائے اور اس کے علاوہ کسی غیر کی اطاعت سے پرھیز کیا جائے ان میں سے پھلا کام یعنی ”صرف ایک خدا کی عبادت“؛ خدا کی صحیح معرفت، اس کے بارے میں مستحکم عقیدہ اور اس پر پائیدار رھنے سے حاصل ھوتا ھے اور دوسرا یعنی ”غیر کی اطاعت سے پرھیز“ باطل کے غلط عقائد و نظریات سے پرھیز کی بنا پر اس لئے کہ باطل کے یھی کھوکھلے عقائد انسان کو غیر خدا کی عبادت و اطاعت پر آمادہ کرتے ھیں۔

اس عملی پھلو ( جو خدا ئے واحد و یکتاکی اطاعت و بندگی ھے) کی طرف آسمانی کتابوں اور انبیاء الٰھی نے دعوت دی ھے، چونکہ شرک فعلی اور عملی ”قولی شرک“ کی طرح عقیدہ شرک کی واضح نشانی ھے، اسی وجہ سے انبیاء علیھم السلام نے ”شرک عملی“ پر بہت توجہ دلائی ھے۔ اسی وجہ سے ”توحید عملی“ انسانی زندگی ، انسانی خاصیتوں کے ظھور اور غلامی کی زندگی سے نجات کے لئے بہت موثر ھے، اور جھوٹے خداؤں اورارباب کی اطاعت کی قدرت کو ختم کردیتی ھے،(یعنی اگر انسان” توحید عملی“کو دل و جان سے قبول کرتا ھو تو پھر وہ کسی طاقت کے سامنے سر نھیں جھکائے گا۔)

انبیاء علیھم السلام کی یہ کوشش رھی ھے کہ معاشرہ کو اس قسم کے شرک کو بھی پاک کیا جائے، اور انسانیت کو آزادی اور انسانی شرافت سے سرفراز کیا جائے۔ اور اپنے زمانہ کے فرعون اور ظالم و جابر حاکموں کے سامنے سر نہ جھکائیں، اگرچہ اس قسم کے لوگوں نے ھمیشہ توحید کا شدت کے ساتھ مقابلہ کیا ھے، لیکن انبیاء علیھم السلام نے ھر موقع پر ”شرک عملی“ سے بھی پرھیز کی دعوت دی ھے۔

شرک عملی کے اثر کی دوسری علت یہ تھی کہ بعض نااھل لوگوں نے مستکبروں کی عبادت و پرستش کی عادت ڈال دی تھی جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:

” إِذَا قِیلَ لَہُمْ لاَإِلَہَ إِلاَّ اللهُ یَسْتَکْبِرُونَ ۔“[12]

” ان سے جب کھا جاتا تھا کہ اللہ کے علاوہ کوئی خدا نھیںھے تو اکڑ جاتے تھے“۔

کیونکہ انسان کو غلام بنانے اور ان کے حقوق کو پامال کرنے والوں کے لئے یہ کلمہ ایک بہت بڑا چیلنچ ھے، چونکہ عقیدہ توحید اور زبان سے کلمہ توحید کا اقرار کرنے کی وجہ سے مستکبرین کا ”واجب الاطاعة“ھونا خطرہ میں پڑجاتا ھے، اور ان کا حکم، جاہ و جلال او ران کے امتیازات مٹی میں مل جاتے ھیں[13]

اس بنا پر خداوندعالم کی توحید کا عقیدہ اور یہ عقیدہ کہ اس کی ذات مقدس کی کوئی شبیہ، مانند اور شریک نھیں ھے، اس کی ذات عین صفات ھیں، اور وھی تمام چیزوں پر حاکم ھے، موت و حیات، ظاھر و باطن، ملک و ملکوت، غیب و شھود، پیداکرنے والا، مارنے والا، اس دنیا میں انقلاب برپاکرنے والا المختصر یہ کہ تمام کی تمام چیزیں اسی کے دست قدرت میں ھےں، دوسرے الفاظ میں یوں بیان کیا جائے: جس خدا کی معرفت انبیاء، ائمہ اور قرآن نے بیان کی ھے، اورزندگی کے تمام امور میں اس کے احکام کی اطاعت، ھر بت، بت پرست اور بت تراش کی نفی کرنااور ھر شیطان و طاغوت اور طاغوت خواھی کے ماحول کی نفی کرنا؛ھی ”توحید محض“ اور ”محض توحید“ ھے؛ کہ جو شخص دل و جان سے اس حقیقت کوقبول کرے، اور ”لا الہ الاالله“، ”لااثر فی الوجود الا الله“، اور ”لاحول و لا قوة الا بالله“ کا نعرہ بلند کرے،تو ایسا ھی شخص حقیقی موحّد (یعنی یکتا پرست)، واقعی مومن اور صراط مستقیم پر چلنے والا ھے۔

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی ذات مبارک جو اپنے دل کی آنکھوں سے حقائق کی حقیقتوں کا مشاھدہ فرماتے تھے، ”نہج البلاغہ“ کے مختلف خطبوں میں معرفت خدا کے بارے میں اس حقیقت کا انکشاف کیا ھے:

”اول الدین معرفتہ۔۔۔“۔[14]

”دین کی ابتداء اس کی معرفت ھے اور معرفت کا کمال اس کی تصدیق ھے، تصدیق کا کمال توحید کا اقرار ھے اور توحید کا کمال اخلاص عقیدہ ھے اور اخلاص کا کمال زائد صفات کی نفی ھے،کہ صفت کا مفھوم خود ھی گواہ ھے کہ وہ موصوف سے کوئی الگ شئے ھے اور موصوف کا مفھوم ھی یہ ھے کہ وہ صفت سے جداگانہ کوئی ذات ھے۔ اس کے لئے الگ سے صفات کا اثبات ایک شریک کا اثبات ھے اور اس کا لازمی نتیجہ ذات کا تعدد ھے اور تعدد کا مقصد اس کے لئے اجزاء کا عقیدہ ھے اور اجزاء کا عقیدہ صرف جھالت ھے معرفت نھیں ھے، اور جو بے معرفت ھوگیا اس نے اشارہ کرنا شروع کردیا اور جس نے اس کی طرف اشار ہ کیا اس نے اسے ایک سمت میں محدود کردیا، اور جس نے محدود کردیا اس نے اسے گنتی کا ایک شمار کرلیا(جو سراسر خلاف توحید ذات ھے)۔

جس نے یہ سوال اٹھایا کہ وہ کس چیز میں ھے اس نے اسے کسی کے ضمن میں قرار دیدیا، اور جس نے یہ کھا کہ وہ کس کے اوپر قائم ھے اس نے نیچے کا علاقہ خالی کرالیا، اس کی ھستی حادث نھیں ھے او راس کا وجود عدم کی تایکیوں سے نھیں نکلا۔ وہ ھر شئے کے ساتھ ھے لیکن مل کر نھیں، اور ھر شئے سے الگ ھے لیکن جدائی کی بنا پر نھیں، وہ فاعل ھے لیکن حرکات و آلات کے ذریعہ نھیں اور وہ اس وقت بھی بصیر تھا جب دیکھی جانے والی مخلوق کا پتہ نھیں تھا۔ وہ اپنی ذات میں بالکل اکیلا ھے اور اس کا کوئی ایسا ساتھی نھیں ھے جس کو پاکر انس محسوس کرے اور کھوکر پریشان ھوجانے کا احساس کرے۔۔۔“۔

اسی طرح ایک دوسر ے خطبہ میں ارشاد فرماتے ھیں:

”فاللهَ اللهَ ایُّہَاالنَّاسُ۔۔۔۔“[15]

”لوگو! اللہ کو یاد رکھو اور اس سے ڈرتے رھو اس کتاب کے بارے میں جس کا تم کو محافظ بنایا گیا ھے اور ان حقوق کے بارے میں جن کا تم کو امانت دار قرار دیا گیا ھے، اس لئے کہ اس نے تم کو بیکار نھیں پیدا کیا ھے اور نہ مھمل چھوڑدیا ھے اور نہ کسی جھالت اور تاریکی میں رکھا ھے، تمھارے لئے آثار کو بیان کردیا ھے۔ اعمال کو بتادیا ھے، اور مدت حیات کو لکھ دیا ھے۔ وہ کتاب نازل کردی ھے جس میں ھر شئے کا بیان پایا جاتا ھے اور ایک مدت تک اپنے پیغمبر کو تمھارے درمیان رکھ چکا ھے۔ یھاں تک کہ تمھارے لئے اپنے اس دین کو کامل کردیا ھے جسے اس نے پسندیدہ قرار دیا ھے اور تمھارے لئے پیغمبر کی زبان سے ان تمام اعمال کو پھنچا دیا ھے جس کو وہ دوست رکھتا ھے یا جن سے نفرت کرتا ھے، اپنے اوامر و نواھی کو بتادیا ھے، اور دلائل تمھارے سامنے رکھ دئے ھیں، اور حجت تمام کردی ھے، اور ڈرانے دھمکانے کا انتظام کردیا ھے، اور عذاب کے آنے سے پھلے ھی ھوشیار کردیا ھے، لہٰذا اب جتنے دن باقی رہ گئے ھیں انھیں میں تدارک کرلو اور اپنے نفس کو صبر پر آمادہ کرلو کہ یہ دن ایام غفلت کے مقابلہ میں بہت تھوڑے ھیں جب تم نے موعظہ سننے کا بھی موقع نھیں نکالا۔ خبردار! اپنے نفس کو آزاد مت چھوڑدو ورنہ یہ آزادی تم کو ظالموں کے راستہ پر لے جائے گی، اور اس کے ساتھ نرمی نہ برتو ورنہ یہ تمھیں مصیبتوں میں جھونک دے گا۔۔۔“۔

جو شخص عقیدہ توحید کو قرآن کریم، انبیاء، ائمہ علیھم السلام اور اولیاء اللہ سے حاصل کرے، اور اپنے واجبات پر عمل کرے، گناھوں اور معصیت سے دوری کرے اور اپنی زندگی سے خدا کے علاوہ دوسرے معبود کی نفی کرے؛ تو ایسا شخص موحّد(یکتا پرست) کھلانے کاحقدار ھے، اور اپنے اس اعتقاد توحید کی خاطر اور توحید کے مبنیٰ پر عمل پیرا ھونے کی وجہ سے یقینا وہ نجات یافتہ ھے اور خداوندعالم سے اس جزا کی بنا پراجر کریم، رزق بے حساب اور رحمت واسعہ سے مالامال ھوگا۔

قَالَ رَسولُ اللّٰہِ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم): ”خَیْرُالعِبَادَةِ قَوْلُ لاَاِلہَ اِلاَّ اللّٰہُ “[16]

”حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشادھے: ”لاَاِلہَ اِلاَّ اللّٰہُ “ کھنابہترین عبادت ھے۔

قَالَ رَسولُ اللّٰہِ(ص): ”مَنْ مَاتَ وَلَا یُشْرِکْ بِاللّٰہِ شَیْئاً اَحْسَنَ اَوْ اٴَساءَ دَخَلَ الجَنَّةَ“[17]

”حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے: جو شخص اس حال میں مرجائے کہ اس نے کسی چیز کوخدا کا شریک قرار نہ دیا ھو ، چاھے اس نے نیکی کی ھو یا نہ کی ھو (برائیوں کی بخشش کے بعد) بھشت میں داخل ھوجائے گا“۔

عَن اٴَبی جَعْفَرٍ (علیہ السلام):۔۔۔مَا مِن شَیْءٍ اٴَعْظَمُ ثَواباً مِن شَھَادَةِ اٴنْ لَااِلہَ اِلاَّ اللّٰہُ؛لِاٴَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَایَعْدِلُہُ شَیْءٌ وَلَا یَشْرَکُہُ فِی الاٴَمْرِ اَحَدٌ“[18]

”حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں: ”لاَاِلہَ اِلاَّ اللّٰہُ “کی شھادت دینے کا ثواب ھر چیز سے بڑھ کرھے، کیونکہ کوئی بھی چیز خداوندعالم کے برابر نھیں ھے، اور کوئی بھی اس کے ساتھ خدائی میں شریک نھیں ھے“۔

”قَالَ اَبو عَبدِ اللّٰہِ (علیہ السلام):اِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالی حَرَّمَ اٴَجْسادَ المُوَحِّدِینَ عَلَی النَّارِ“[19]

”امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ھے: بے شک خداوندعالم نے موحّد (یکتا پرست)کے جسم کو آتش جھنم پر حرام قرار دیا ھے“۔

”قَالَ اَبوعَبدِ اللّٰہِ (علیہ السلام):قَوْلُ لَا اِلہَ اِلاَّ اللّٰہُ ثَمَنُ الجَنَّةِ“[20]

”نیز آپ کا فرمان ھے: ”لاَاِلہَ اِلاَّ اللّٰہُ “ کھناجنت کی قیمت ھے“۔

”قَالَ رَسولُ اللّٰہِ(ص): اِنَّ لَا اِلہَ اِلاَّ اللّٰہُ کَلِمةٌ عَظِیمَةٌ کَرِیمَةٌ عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ ،مَنْ قَالَھا مُخْلِصاً اسْتَوْجَبَ الجَنَّةَ،وَمَنْ قَالَھا کَاذِباً عَصَمَتْ مَالُہُ وَدَمُہُ وَکاَنَ مَصیرُہُ اِلَی النَّارِ“[21]

”حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ھے:کلمہٴ ”لاَاِلہَ اِلاَّ اللّٰہُ “ خدا کے نزدیک ایک بااھمیت کلمہ ھے،جو شخص خلوص کے ساتھ اس کا اقرار کرے وہ جنت کا حقدار ھوتا ھے، اور اگر کوئی اس کو صرف زبان سے (جھوٹ)کھے تو (بھی) اس کی جان و مال محفوظ ھے، لیکن اس کا ٹھکانہ جھنم ھے“۔

”قَالَ رَسولُ اللّٰہِ(ص):وَالَّذِی بَعَثَنِی بِالْحَقِّ بَشِیراً لَا یُعَذِّبُ اللّٰہُ بِالنَّارِ مُوَحِّداً اٴَبَداً“[22]

”نیز آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے: قسم اس پروردگار کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بشارت دینے والا بناکر مبعوث کیا خداوندعالم کسی بھی موحد (یکتاپرست) کو آتش جھنم میں عذاب نھیں کرے گا“۔

ان تمام باتوں کے مدّنظر:

اے خدائے مھربان! اے عاشق اھل توحید! کوئی بھی تجھے ایسا نھیں مانتا کہ اگر میں تیری توحید واقعی کا خالصانہ طور پر اقرار کروں اور تیری معرفت و شناخت کے ساتھ اپنے دل میں ھمیشہ ایمان رکھوں، اور میری زبان پر توحید کاکلمہ جاری ھو اور میرے باطن میں تیرا عشق موجود رھے، اور کیا تیری یکتائی کے سچے اقرارکے بعدتیری ربوبیت کے مقابلہ میں میر ی تواضع کے بعد (بھی)تو مجھے عذاب میں مبتلا کرے گا؟!

”ھَیْھٰاتَ،اٴَنْتَ اٴَکْرَمُ مِنْ اٴَنْ تُضَیِّعَ مَنْ رَبَّیْتَہُ،اٴَوْ تُبْعِدَ مَنْ اٴَدْنَیْتَہُ،

اٴَوْتُشَرِّدَ مَنْ آوَیْتَہُ،اٴَوْتُسَلِّمَ اِٴلَی الْبَلاٰءِ مَنْ کَفَیْتَہُ وَرَحِمْتَہُ“۔

”اب بھلا یہ کیسے ممکن ھے کہ جسے تونے پالا ھے اسے برباد بھی کردے، جسے تونے قریب کیا ھے اسے دور کردے۔جسے تونے پناہ دی ھے اسے راندہٴ درگاہ بنادے اور جس پر تونے مھربانی کی ھے اسے بلاوٴں “۔

ربوبیت کے جلوے

ھمارے مھربان خدا نے انسان کی ابتدائے آفرینش سے مرتے دم تک کے لئے دو طرح کی تربیت کے اسباب فراھم کئے ھیں:

الف۔ مادّی تربیت۔

ب۔ معنوی تربیت۔

الف۔ مادی تربیت۔ مادی تربیت کے اسباب بے شمار نعمتیں ھیں جن سے یا تو انسان خود اپنے اختیار سے بھرہ مند ھوتا ھے جیسے کھانا، پینا اور سانس لینا وغیرہ، یا خداوندعالم کے ارادہ سے اس کے مادّی رشد و تکامل کے لئے موثر ھوتا ھے جیسے انسان کی تعجب خیز طاقت جو بدن میں مختلف مادّوں کے ذریعہ پیدا ھوتی ھے۔

سورہ یونس میں مختصر طور پر اس مطلب کی طرف اشارہ ھوتا ھے:

” قُلْ مَنْ یَرْزُقُکُمْ مِنْ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ اٴَمَّنْ یَمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاٴَبْصَارَ وَمَنْ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنْ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنْ الْحَیِّ وَمَنْ یُدَبِّرُ الْاٴَمْرَ فَسَیَقُولُونَ اللهُ فَقُلْ اٴَفَلاَتَتَّقُونَ۔“[23]

” پیغمبر ذرا ان سے پوچھئے کہ تمھیں زمین و آسمان سے کون رزق دیتا ھے اور کون تمھاری سماعت و بصارت کا مالک ھے اور کون مردہ سے زند ہ اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ھے اور کون سارے امور کی تدبیر کرتا ھے تو یہ سب یھی کھےں گے:”اللہ“تو آپ کہئے کہ اس سے کیوں نھیں ڈرتے“۔

ھم بدن کے اعضاء میں سے ایک عضو کی تشریح کرنے اور تمام حقائق کو سمجھنے سے عاجز ھیں اور اس کے شکر و سپاس سے ناتوان ھیں تو تمام بدن اور تمام اعضاء بدن نیز ان کے درمیان موجود ھم آھنگی اور نظم و ضبط کو کیسے سمجھ پائیں گے ، اسی طرح ان اعضائے بدن کے باھر کی دنیا سے رابطہ کو بھی اچھی اس مطلب کو سمجھنے سے ھم قاصر ھیں۔

بدن کے عصبی خلیوں کی تعداد جو تقریباً ۱۵ ارب ھیں،اوراس مشکل نظام کو دیکھتے ھوئے اقرار کرنا چاہئے جیسا کہ پروفیسر ”اشٹن بوخ“نے کھا ھے کہ اس طرح کے نظام اور مشین کو بنانے کے لئے ایک الکٹرونک ماھر کو چالیس ہزار سال کا وقت درکار ھے!!

”یُخْرِجُ الحَیَّ۔۔۔“ انسان کو نطفہ سے اور نطفہ کو مٹی سے خلق کیا ھے، اسی طرح حیوان کو انڈوں سے اور نباتات کو تخم سے پیدا کیا ھے۔

وہ ذات کون ھے جو اس د نیا کے تعجب آور نظام کو چلاتی ھے؟ اس سوال کے جواب میں تمام ھی لوگوں کی فطرت اور عقل یھی جواب دیگی: ”خدا“۔ تو پھر ان سے کہئے کہ پھر اس کے ساتھ شرک و کفر کیوں کرتے ھو؟! اور اس کے امر و نھی کی مخالفت سے پرھیز کیوں نھیں کرتے؟!

ب۔ معنوی تربیت کے اسباب: عقل، فطرت، وجدان، نبوت، امامت، کتب آسمانی بالخصوص قرآن کریم جن کو خداوندعالم نے ھدایت اور تربیت کے اسباب قرار دیا ھے اور انسان کو آزادی و اختیار دیا ھے، تاکہ اس آزادی سے فائدہ اٹھاتے ھوئے سعی و کوشش کرے اور اس کی بہترین تربیت ھوسکے، تاکہ خداوندعالم کا لطف و کرم اور اس کی رحمت شامل حال ھو اور خدا کی معرفت کے نتیجہ میںاس کی بھشت میں داخل ھوجائے۔

حضرت امیر المومنین دعائے کمیل کے اس حصہ میں خدا کی بارگاہ میں عرض کرتے ھیں: جو شخص مختلف مادّی اور معنوی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ھوئے ایک حد تک خدا کی معرفت حاصل کرلیتا ھے اور اس کی ربوبیت و تربیت کے جلووں کو قبول کرلیتا ھے، جس کو خداوندعالم نے اپنے قرب کی بارگاہ اور فضائے رحمت میں پناہ دی ھے، تو بہت بہت بعید ھے کہ تو اس کو تباہ و برباد کرے اور اس کو برائیوں اور فساد کے حوالے کردے، اور چونکہ خدا نے پناہ دی ھے لہٰذا اب مجھے کیسے بھگادے گا؟!حالانکہ تو نے ھی مجھ پر فضل وکرم کیا اور اپنے رحمت کے زیر سایہ قرار دیا، تو کیا مجھے بلاء و مصیبت اور سختیوں کی خطرناک موجوں کو حوالے کردے گا؟!

تو اس قدر مھربان اور اس قدر کریم و بزرگوار ھے کہ جب انسان بہت سے گناھوں میں ملوث ھوجاتا ھے، اس موقع پر خطاب کرتا ھے:

”نَادَیتُمُونِی فَلَبَّیتُکُم سَاٴلتُمونِی فَاٴعطَیتُکُم،بَارَزتُمُونِی فَاٴمھَلتُکُم ،تَرَکتُمُونِی فَرَعیتُکُم، عَصَیتُمُونِی فَسَتَرتُکُم ،فَاِن رَجَعتُم اِلیَّ قَبِلتُکُم ،وَاِن اٴدبَرتُم عَنِّی انتَظَرتُکُم،اٴنَا اٴجوَدُ الاٴجوَدِینَ وَاٴکرَمُ الاٴکرَمِینَ وَاٴرحَمُ الرَّاحِمِینَ“[24]

”(اے میرے بندو!) تم نے مجھے پکارا میں نے جواب دیا، تم نے مجھ سے طلب کیا تو میں نے عطا کیا، میری مخالفت کی تو میں نے تھیں (توبہ کی) مھلت دی، تم نے مجھے چھوڑ دیا میں نے تمھاری رعایت کی، تم نے میری معصیت کی میں نے تمھاری پردہ پوشی کی، اگر اب بھی میری طرف پلٹ کر آجاؤ تو میں تمھیں قبول کرلوں گا، اور اگر مجھ سے منھ موڑ لیا تو میں تمھارا انتظار کرتا رھوں گا، میں سب سے زیادہ بخشنے والا اور سب سے زیادہ کریم و مھربان ھوں“۔

جناب موسیٰ (ع)اور قارن

علامہ مجلسی رحمة اللہ علیہ نے علی بن ابراھیم قمی سے اس طرح روایت کی ھے: جب قارون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کو جھٹلایا، اور زکوٰة دینے سے انکار کردیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تھمت لگائی ، تو حضرت موسیٰ نے پروردگار عالم کی خدمت میں شکایت کی، اس وقت آواز قدرت آئی: میں نے زمین و آسمان کو حکم دیدیا ھے کہ تیری اطاعت کریں، جو حکم بھی دینا چاھو دے سکتے ھو، (وہ اطاعت کریں گے)

جناب موسیٰ علیہ السلام قارون کے محل کی طرف روانہ ھوئے، جبکہ قارون نے اپنے خادموں کو حکم دیا تھا کہ موسیٰ کے لئے دروازہ نہ کھولنا، جس وقت جناب موسیٰ قارون کے محل پر پھنچے تو دیکھا کہ دروازہ بند ھے، جناب موسیٰ نے دروازے کی طرف اشارہ کیا تو تمام دروازے کھل گئے۔ جیسے قارون کی نگاہ جناب موسیٰ پر پڑی فوراً سمجھ گیا کہ موسیٰ عذاب کے ساتھ وارد ھوئے ھیں، تو اس نے کھا: اے موسیٰ! تمھیں ھمارے درمیان موجود رشتہ داری کا واسطہ ، مجھ پر رحم کرو، اس وقت جناب موسیٰ علیہ السلام نے کھا: اے پسر لاوی! مجھ سے بات نہ کر کیونکہ اب یہ تیری باتیں کوئی فائدہ نھیں دےں گی۔ اس وقت زمین کو حکم دیا: قارون کو نگل جا! فوراً پورا قصر اور جو اس میں موجود تھا، زمین میں دھنستا چلا گیا، قارون نے ایک بار پھر روتے ھوئے جناب موسیٰ کو رشتہ داری کا واسطہ دیا ، لیکن جناب موسیٰ نے جواب دیا: اے پسر لاوی! مجھ سے بات نہ کر۔ قارون نے بہت زیادہ استغاثہ کیا لیکن جناب موسیٰ علیہ السلام جو اس نا اھل کی حرکتوں سے رنجیدہ تھے؛ انھوں نے اس کی ایک نہ سنی۔ (اور وہ زمین میں دھنستا چلا گیا)

قارون کی ھلاکت کے بعد جب جناب موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر گئے، تو اس وقت خداوندعالم نے فرمایا: اے موسیٰ! قارون اور اس کی قوم نے تم سے استغاثہ اور فریاد کی لیکن آپ نے نہ سنی، مجھے میری عزت و جلالت کی قسم ! اگر(اس موقع پر بھی) وہ مجھ سے فریاد کرتا مجھ سے مدد مانگتا تو میں اس کی فریاد رسی کرتا، لیکن چونکہ اس نے تم سے فریاد کی اور تم سے توسل کیا لہٰذا اس کو تمھارے حوالے چھوڑ دیا!!

حق تعالیٰ گفت: قارون زار زار خواند ای موسیٰ تو را ہفتاد بار

تو ندادی ھیچ بار او را جواب گر بہ زاری یک رھم کردی خطاب

گر تو او را آفریدہ بودہ ای در عذابش آرمیدہ بودہ ای

آنکہ بر بی رحمتان رحمت کند اھل رحمت را ولی نعمت کند[25]

(ترجمہ :خداوندعالم نے جناب موسیٰ سے کھا: اے موسیٰ ! تمھیں قارون نے روتے ھوئے ۷۰ مرتبہ پکارا۔

لیکن تم نے اس کی ایک مرتبہ بھی نھیں سنی، اس کے رونے اور چلانے کیسے تمھیں رحم نہ آیا۔

اگر تم نے اسے پیدا کیا ھوتا تو اس کو عذاب اور سزا کس طرح دیتے!!

جو شخص دوسروں پر رحم کرے اس پر خداوندعالم رحم کرتا ھے)

ماں اور عاق شدہ بیٹا

”تفسیر نیشاپوری“میں بیان ھوا ھے: حضرت رسول اکرم (ص)کے زمانہ میں ایک جوان کا آخری وقت آن پھنچا۔ آنحضرت سے درخواست کی گئی کہ اس جوان کی عیادت فرمائیں۔ چنانچہ آنحضرت اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے، دیکھا تو اس کی زبان ”شھادتین“ کی گواھی دینے کے لئے بند ھے!

آنحضرت نے سوال کیا: کیا یہ جوان تارک نماز ھے؟ لوگوں نے کھا نھیں۔

فرمایا: کیا زکوٰة نھیں دیتا تھا؟ لوگوںنے کھا: دیتا تھا۔

فرمایا: کیا باپ نے اسے عاق کیاھے؟ لوگوں نے کھا نھیں۔

فرمایا: کیا ماں کا عاق شدہ ھے۔ تو لوگوں نے جواب دیا: ھاں یا رسول اللہ۔

فرمایا: اس کی ماں کو بلایا جائے، اور جب وہ آگئی تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس سے بیٹے کو معاف کرنے کے لئے کھا۔

ماں نے کھا: میں کس طرح اس کو معاف کردوں، اس نے میری صورت پر طمانچہ مارا ھے،اور میری آنکھ خراب کردی ھے۔

اس وقت آنحضرت نے کھا: آگ لائی جائے، تو اس کی ماں نے فوراً سوال کیا: آگ کا کیا کیجئے گا؟ تو آنحضرت نے فرمایا: اس جوان کو سزائے اعمال تک پھنچایا جائے گا، اور اس کو جلایا جائے گا!

یہ سن کر ماں پکار اٹھی: میںاس کو جلانے پر ھرگز راضی نھیں ھوں ،کیونکہ میں نے اس کو نوماہ اپنے شکم میں رکھا ھے، اور اپنی جان کی بازی لگاکر اس کی تربیت کی ھے، اور دوسال تک دودھ پلایا ھے،سالوں تک یہ میرے پاس رھا ھے، اگر اس کو جلانے کی بات ھے تو میں اس کو معاف کئے دیتی ھوں، تاکہ وہ جلنے سے بچ جائے۔

قارئین کرام! جب مجازی تربیت کرنے والی ماں اس بات پر راضی نھیں ھے کہ اس کاگناھگار بیٹا آگ میں جلایا جائے، تو پھر حقیقی پالنے والا جس نے انسان کے ھر نقص اور کمی کو دور کرکے اسے منزل کمال تک پھنچایا، اگر وہ جھالت ونادانی اور ارادہ کی کمزوری کے تحت لغزشوں سے دوچار ھوجائے کیا وہ اپنے بندے کو آگ میں جلانے پر راضی ھوسکتا ھے ؟

”ھَیْھٰاتَ،اٴَنْتَ اٴَکْرَمُ مِنْ اٴَنْ تُضَیِّعَ مَنْ رَبَّیْتَہُ“۔

حق نمک

”ایک روایت ھے : ”یزید بن مھلب“ کا شھر خراسان کے ایک بزرگوار بنام ”وکیع“ پر کچھ قرض تھا، اس نے اس وکیع کے نمائندہ سے اپنا قرض لینے کے لئے ایک شخص کو بھیجا، چنانچہ اس شخص نے وکیع کے نمائندہ پر سختی کی اور اس کو اذیت دی۔

ایک روز یزید بن مھلب کا نمائندہ، وکیع کے نمائندہ کو یزید بن مھلب کے پاس لے گیا تاکہ قرض ادا کرنے کے لئے مزید فرصت طلب کرے؛ اس وقت کھانے کے لئے دسترخوان بچھایا گیا، یزیدبن مھلب کے نمائندہ نے وکیع کے نمائندہ سے کھا:

اٹھو اور یھاں سے باھر نکل جاؤ۔ اس وقت وکیع کے نمائندہ نے کھا: چاھے میرے ھاتھ پیر توڑ ڈالو لیکن جب تک یھاں کھانا نہ کھالوں نھیں اٹھوں گا، اور کھانا کھانا شروع کردیا، کھانا کھانے کے بعد اس نے یزید بن مھلب سے مھلت مانگی، تو یزید بن مھلب نے اپنے نمائندہ سے کھا: اب وکیع کے نمائندہ سے قرض کا مطالبہ نہ کرنا، چونکہ اس نے ھمارے دسترخوان سے کھانا کھایا ھے اور ھمارا نمک چکھ لیا ھے، ھماری غیرت گوارہ نھیں کرتی کہ اب اس کو اذیت دی جائے“۔

قارئین کرام ! یقینا وہ بندہ جس نے اپنے کریم مولا اللہ تعالیٰ کا مادی او رمعنوی نمک کھایا ھے تو اس کا لطف وکرم اور رحمت و بزرگواری اس کو عذاب میں جلانے کا اقتضاء نھیں کرتی ھے۔

میزبان پر مھمان کا حق

ارباب تاریخ نے لکھا ھے: ”معن بن زائدہ“ جو ایک بڑا سردار تھا؛ اس کے پاس کسی جگہ سے تین سو قیدی لائے گئے۔ معن نے ان سب کو قتل کرنے کا حکم دیدیا۔ اسیروں کے درمیان سے ایک نوجوان جو ابھی سن بلوغ تک نھیںپھنچا تھا اس نے کھا:

اے امیر! تجھے خدا کا واسطہ ، جب تک ھمیں تھوڑا تھوڑا پانی نہ پلادے اس وقت تک ھمیں قتل نہ کر۔ معن نے کھا: سب کو پانی پلادو۔ جب اسیروں نے پانی پی لیا، تو اس نوجوان نے کھا: اے امیر! اب ھم تیرے مھمان ھوگئے ھیں، اور مھمانوازی کرنا شرافت وبزرگی کی نشانی ھے۔ چنانچہ اس وقت معن نے کھا: تو نے سچ کھا، اور اسی موقع پر سب کو آزاد کرنے کا حکم صادر کردیا۔

جی ھاں! جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے بیان کیا ھے، بہت زیادہ بعید ھے کہ وہ خدائے مھربان جس نے بندوں کو اپنے دسترخوان سے مادّی اور معنوی نعمتیں کھلائی ھیں ؛ وہ ان کو عذاب میں بھی مبتلا کرے گا۔!!

”وَلَیْتَ شِعْري یٰاسَیِّدي وَاِٴلٰھي وَمَوْلٰايَ اٴَتُسَلِّطُ النّٰارَعَلٰی وُجُوہٍ خَرَّتْ لِعَظَمَتِکَ سٰاجِدَةً،وَعَلٰی اٴَلْسُنٍ نَطَقَتْ بِتَوْحیدِکَ صٰادِقَةً، وَبِشُکْرِکَ مٰادِحَةً،وَعَلٰی قُلُوبٍ اعْتَرَفَتْ بِاِٴلٰھِیَّتِکَ مُحَقِّقَةً، وَعَلٰی ضَمٰائِرَحَوَتْ

مِنَ الْعِلْمِ بِکَ حَتّٰی صٰارَتْ خٰاشِعَةً،وَ عَلٰی جَوٰارِحَ سَعَتْ اِٴلٰی اٴَوْطٰانِ

تَعَبُّدِکَ طٰائِعَةً،وَاٴَشٰارَتْ بِاسْتِغْفٰارِکَ مُذ ْعِنَةً۔ مٰاھٰکَذَاالظَّنُّ بِکَ،وَلاٰاُخْبِرْنٰابِفَضْلِکَ عَنْکَ یٰاکَریمُ،یٰارَبِّ“۔

”میرے سردار ۔میرے خدامیرے مولا ! کاش میں یہ سوچ بھی سکتا کہ جو چھرے تیرے سامنے سجدہ ریز رھے ھیں ان پر بھی توآگ کو مسلط کردے گا۔اور جو زبانیں صداقت کے ساتھ حرف توحید کو جاری کرتی رھی ھیں اور تیری حمد وثنا کرتی رھی ھیں یا جن دلوں کو تحقیق کے ساتھ تیری خدائی کا اقرار ھے یا جو ضمیر تیرے علم سے اس طرح معمور ھیں کہ تیرے سامنے خاضع وخاشع ھیں یا جو اعضاء و جوارح تیرے مراکز عبادت کی طرف ھنسی خوشی سبقت کرنے والے ھیں اور تیرے استغفا ر کو یقین کے ساتھ اختیار کرنے والے ھیں ؛ ان پر بھی تو عذاب کرے گا!!ھر گز تیرے بارے میں ایسا خیال بھی نھیں ھے اور نہ تیرے فضل وکرم کے بارے میں ایسی کو ئی اطلاع ملی ھے، یا کریم و یا رب“۔

مکمل عبادت

تمام عبادتوں میںجس عبادت کو جامع اور کامل عبادت کھا جاسکتا ھے وہ صرف نماز ھے، نمازی ؛ نماز کے ذریعہ اپنے مکمل خضوع و خشوع اور تواضع و انکساری کے ساتھ بارگاہ خداوندی میں حاضر ھوتا ھے، نماز کے ذریعہ خدا کی توحید اور اس کی یکتائی کا اقرار کرتا ھے، نمازی اسی نماز کے ذریعہ خداوندعالم کی بارگاہ میں اس کی نعمتوں کاشکریہ اداکرتا ھے۔ اور معرفت کی بنیاد پر اس کی خدائی کا اعتراف کرتا ھے، اور نمازی کے اعضاء و جوارح اس کے ارادہ کے تحت مکمل شوق کے ساتھ مساجد، خانہ کعبہ اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور ائمہ معصومین کے روضوں پر حاضری دیتے ھیں۔

اس کے علاوہ،وہ اھل معرفت جنھوں نے خدا کو ،خود اپنے وجودکو اور اپنی غرض خلقت کو ایک حد تک پہچان لیا ھے۔ اس کی عظمت کے سامنے سجدہ ریز ھوتے ھےں، خلوت و بزم، سکون اور پریشانی کے عالم میں اسی کی یکتائی کا اقرار کرتے ھےں، زبان حال اور زبان مقال سے اس کی بے شمار نعمتوں کا شکر ادا کرتے ھےں، اپنے نورانی دل اورمستحکم قلب میں تحقیق و معرفت کی بنیاد پر اس کی الوھیت کا اقرار کرتے ھےں، اس کی معرفت سے مملو باطن سے اس کی درگاہ باعظمت میں خضوع کرتے ھےں اور اس کی رضاء اور خوشنودی کو حاصل کرنے کے لئے اپنے اعضاء و جوارح سے مساجد و عبادت گاھوں میں جاتا ھے۔

یہ افراد کس طرح خداوندعالم کی نسبت بدگمان ھوسکتے ھیں؟ اور کیوں اس سے حسن ظن نہ رکھیں؟ کس نبی و پیغمبر، کس امام اور کس آسمانی کتاب نے یہ بیان کیا ھے کہ خدا ایسے بندوں کو عذاب میں مبتلا کرے گا،اور ایسے چھروں، زبانوں، دلوںاور اعضاء و جوارح کو آتش جھنم میں جلائے گا؟!

اس طرح کے افراد کو انبیاء، ائمہ علیھم السلام اور آسمانی کتابوںنے خبر دی ھے کہ مومنین، اعمال صالحہ انجام دینے والے اور بہترین کردار سے آراستہ افراد اگرچہ کھیں کھیں ان کے قدموں میں لغزش پیدا ھوگئی ھو لیکن وہ ان کو توبہ اور مغفرت کے ذریعہ جبران کردیتے ھیں، وہ لوگ ھرگز آتش جھنم اور فراق محبوب کی آگ میں نھیں جلائے جائیں گے۔

قارئین کرام! اب ھم یھاں پر جامع ترین عبادت یعنی نماز کے بارے میں کچھ احادیث نقل کرتے ھیں اور خداوندعالم کی بارگاہ میں بصد عاجزی کے ساتھ عرض کرتے ھیں کہ ھم سب کو اس کے تمام شرائط خصوصاً خلوص کے ساتھ انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ھمیں عذاب سے نجات مل سکے۔(آمین یا رب العالمین)

حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے نماز کے سلسلے میں درج ذیل احادیث بیان ھوئی ھیں:

”الصَّلاةُ مِن شَرایِعِ الدِّینِ،وَفِیھَا مَرضَاةُ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ،وَھِیَ مِنْھَاجُ الاٴَنْبِیاءِ “[26]

”نمازدینی قانون ھے اس میں پروردگار عالم کی خوشنودی ھے اور نماز انبیاء علیھم السلام کا راستہ ھے“۔

”جَعَلَ اللَّہُ جَلَّ ثَناوٴُہُ قُرَّةَ عَیْنِی فِی الصَّلاةِ ،وَحَبَّبَ اِلَیَّ الصَّلاةَ کَمَا حَبَّبَ اِلَی الجائِعِ الطَّعَامَ،وَاِلَی الظَّمآنِ المآءَ، وَاِنَّ الجائِعَ اِذَااٴَکَلَ شَبِعَ ،وَاِنَّ الظَّمآنَ اِذَا شَرِبَ رَوِیَ،وَاٴَنا لا اٴَشْبَعُ مِن الصَّلاةِ“[27]

”وہ خداوند عالم ، جس کی بڑی تعریفیں ھیں؛ اس نے نماز کو میری آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ھے، اور اس نے میرے لئے نماز کو محبوب قرار دیا ھے، جیسا کہ بھوکے کے لئے کھانا اور پیاسے کے لئے پانی محبوب ھوتا ھے، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ جب بھوکا کھانا کھالیتا ھے اور پیاسا پانی پی لیتا ھے تو سیر ھوجاتا ھے، لیکن میں نماز سے سیر نھیں ھوتا“۔

”اِذَا قُمتَ اِلَی الصَّلاةِ وَ تَوَجَّھتَ وَقَرَاٴْتَ اٴُمَّ الکِتابِ وَمَا تَیَسَّرَ مِنَ السُّوَرِ ثُمَّ رَکَعتَ فَاٴَتمَمتَ رُکُوعَھا وَ سُجودَھا وَ تَشَھَّدتَ وَسَلَّمتَ ،غُفِرَلَکَ کُلُّ ذَنْبٍ فیمَا بَینَکَ وَ بَیْنَ الصَّلاةِ الَّتِی قَدَّمتَھا اِلی الصَّلاةِ المُوٴَخَّرَةِ“[28]

”جب تم نماز کے لئے تیارھو،اور قبلہ کی طرف رخ کرلو اور سورہ حمد و دوسرا سورہ پڑھ چکو، اس کے بعد رکوع و سجدہ کیا اور رکوع و سجدے بجالاکر تشھد و سلام پڑھ چکو، تو اس نماز اور دوسری نماز کے درمیان تمھارے گناہ بخش دئے جائیں گے“۔

اسی طرح حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے نماز کے متعلق درج ذیل احادیث منقول ھوئی ھیں:

”الصَّلاةُ تَستَنْزِلُ الرَّحْمَةَ“[29]

”نماز کے ذریعہ رحمتیں نازل ھوتی ھیں“۔

”الصَّلاةُ قُربَانُ کُلِّ تِقیٍّ“[30]

”نماز ، ھر پرھیزگار شخص کو خدا سے نزدیک کرنے والی ھے“۔

”اٴُوصِیکُم بِالصَّلاةِ وَحِفْظِھَا،فَاِنَّھا خَیْرُ العَمَلِ وَھِیَ عَمُودُ دِینِکُم“[31]

”میں تم کو نماز قائم کرنے واور اس کی حفاظت کی وصیت کرتا ھوں، کیونکہ نماز بہترین عمل اور دین کا ستون ھے“۔

”اِنَّ الِانسانَ اِذَا کَانَ فِی الصَّلاةِ فَاِنَّ جَسَدَہُ وَثِیَابَہُ وَکُلَّ شَیْءٍ حَولَہُ یُسَّبِّحُ “[32]

”جب انسان نماز کی حالت میں ھوتا ھے تو اس کے جسم و لباس اور جو چیز بھی اس کے اطراف میں موجود ھوتی ھے، وہ تسبیح پرودرگار کرتی ھے“۔

”یَاکُمیلُ!لَیسَ الشَّاٴنُ اٴن تُصَلِّیَ وَتَصُومَ وَ تَتَصَدَّقَ،اِنَّما الشَّاٴنُ اٴن تَکُونَ الصَّلاةُ فُعِلَت بِقَلبٍ نَقِیٍّ،وَعَمَلٍ عِندَاللّٰہِ مَرضِیٍّ،وَخُشوعٍ سَوِیٍ “[33]

”اے کمیل! نماز پڑھ لینا یا روزہ رکھ لینا اور صدقہ دینا کافی نھیں ھے، بلکہ نماز پاک دل سے پڑھی جائے اور اور کسی بھی کام کو خوشنودی خدا کے لئے انجام دیا جائے، اور خدا کے سامنے (ھر حال میں) خشوع و خضوع کے ساتھ رھا جائے“۔

نماز کے دنیاوی و اُخروی فائدوں کو حاصل کرنے کے لئے قرآن کریم کے بعد شیعہ معتبر کتابوں جیسے: ”کتب اربعہ“، ”وسائل الشیعہ“ وغیرہ کی طرف رجوع کیا جاسکتا ھے۔

خدا سے حسن ظن رکھنا

حقیقت میںجو انسان ایک حد تک ایمان، عمل صالح اور اخلاق سے مزین ھواور انھیں چیزوں میں اپنی عمر کو تمام کرنا چاہتاھو، تو اس کوخداوندعالم کے لطف وکرم اور حمت و مغفرت کی نسبت حسن ظن رکھنا چاہئے؛ یعنی: اسے چاہئے کہ روز قیامت عذاب کے خوف کے ساتھ ساتھ اپنے کو یہ بشارت بھی دے کہ اس کا مولائے حقیقی ، وقت موت، عالم برزخ اور قیامت کے دن اس کے ساتھ لطف و کرم سے کام لے گا،اور اس کے گناھوں کو بخش دے گا، اور اس کے دینی کاموں کو قبول کرے گا، نیز اس کے لئے بھشت کے دروازے کھول دے گا، اور اپنے اولیاء کے ساتھ محشور کرے گا“۔

حضرات ائمہ معصومین علیھم السلام سے منقول روایت میں حسن ظن کو نیک کاموں کا نتیجہ بتایا گیا ھے:

”قَالَ عَلِیٌّ علیہ السلام: حُسنُ الظَّنِ اٴن تُخْلِصَ العَمَلَ، وَ تَرجُوَ مِنَ اللّٰہِ اَنْ یَعْفُوَعَنِ الزَّلَلِ “[34]

”حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:(خدا سے) حسن ظن یہ ھے کہ اپنے نیک کاموں میں خلوص نیت سے کام لو اور خدا سے اپنے گناھوں کی بخشش و مغفرت کی امید رکھو“۔

”عَن الصَّادِقِ علیہ السلام:حُسنُ الظَّنِ بِاللّٰہِ اٴن لَا َترجُوَ اِلاَّ اللّٰہَ وَلا تَخافَ اِلاَّ ذَنبَکَ“[35]

”حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: خدا سے حسن ظن یہ ھے کہ انسان خدا کے علاوہ کسی غیر سے امید نہ رکھے،اور اپنے گناھوں کے علاوہ کسی اور چیز سے نہ ڈرے“۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) حسن ظن کے بارے میں یوں ارشاد فرماتے ھیں:

”وَالَّذِی لَااِلہَ اِلاَّ ھُو ،لَا یَحُسنُ ظَنُّ عَبدٍ مُوٴمِنٍ بِاللّٰہِ اِلاَّ کَانَ اللّٰہُ عِندَ ظَنِّ عَبْدِہِ المُوٴمِنِ؛لِاٴَنَّ اللّٰہَ کَریمٌ بِیَدِہِ الخَیرَاتُ ، یَسْتَحیِی اٴَن یکونَ عَبدُہُ المُوٴمِنُ قَد اٴَحْسَنَ بِہِ الظَّنَّ ثُمَّ یُخلِفُ ظَنَّہُ وَرَجاہُ، فَاٴَحسِنُوا بِاللّٰہِ الظَّنَّ وَارْغَبُو اِلَیْہِ “[36]

”قسم اس خدا کی جس کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے،کسی بھی بندہ مومن کا گمان خدا کی نسبت نیک نھیں ھوسکتا مگر یہ کہ گمان کرنے والا بندہ خدا پر ایمان رکھتا ھو،اس لئے خداوندعالم کریم ھے اور تمام خوبیاںاسی کے دست قدرت میں ھےں، کیونکہ جب بندہ مومن خدا سے نیک گمان کرتا ھے تو خدا کو شرم محسوس ھوتی ھے کہ اس کے نیک گمان سے خلاف ورزی کرے، پس خداسے نیک گمان کرو اور اس کے مشتاق رھو“۔

نیز آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ھیں:

”لَایَمُوتَنَّ اٴَحَدُکُم حَتَّی یَحْسُنَ ظَنُّہُ بِا للّہِ عَزَّ وَجَلَّ ؛فَاِنَّ حُسنَ الظَّنِّ بِاللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ثَمَنُ الجَنَّةِ“[37]

”تم سے کوئی شخص اس دنیا سے نھیں جاتا مگر یہ کہ خدا سے حسن ظن رکھتا ھو، چونکہ خدا وندعالم سے حسن ظن رکھنا، بھشت کی قیمت ھے“۔

نیز آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے:

”حُسنُ الظَنِّ بِاللّٰہِ مِن عَبادَةِ اللّٰہِ“[38]

”خداوندعالم پر حسن ظن رکھنا، اس کی عبادت ھے“۔

”وَاٴَنْتَ تَعْلَمُ ضَعْفيعَنْ قَلیلٍ مِنْ بَلاٰءِ الدُّنْیٰاوَعُقُوبٰاتِھٰا،وَمٰا

یَجْرِي فیھٰامِنَ الْمَکٰارِہِ عَلٰی اٴَھْلِھٰا،عَلٰی اٴَنَّ ذٰلِکَ بَلاٰءٌ

وَمَکْرُوہٌ قَلیلٌ مَکْثُہُ،یَسیرٌبَقٰائُہُ،قَصِیرٌمُدْتُہُ،فَکَیْفَ احْتِمٰالِي

لِبَلاٰءِ الْآخِرَةِ ، وَجَلیلِ وُقُوعِ الْمَکٰارِہِ فیھٰا،وَھُوَبَلاٰءٌ تَطُولُ مُدَّتُہُ،

وَیَدُومُ مَقٰامَہُ،وَلاٰیُخَفَّفُ عَنْ اٴَھْلِہِ،لِاٴَنَّہُ لاٰیَکُونُ اِٴلاّٰ عَنْ غَضَبِکَ

وَانْتِقٰامِکَ ، وَسَخَطِکَ،وَھٰذٰا مٰالاٰتَقُومُ لَہُ السَّمٰاوٰاتُ وَالْاَرْضُ،

یٰا سَیِّدِي،فَکَیْفَ لي وَاٴَنٰاعَبْدُکَ الضَّعیفُ الذَّلیلُ

الْحَقیرُ الْمِسْکینُ الْمُسْتَکینُ۔“

” پروردگار اتو جانتا ھے کہ میں دنیا کی معمولی بلا اور ادنیٰ سی سختی کو برداشت نھیں کر سکتا اور میرے لئے اس کی ناگواریاں ناقابل تحمل ھیں جب کہ یہ بلائیں قلیل اور ان کی مدت مختصر ھے۔

تو میں ان آخرت کی بلاوٴں کو کس طرح برداشت کروں گا جن کی سختیاں عظیم،جن کی مدت طویل اور جن کا قیام دائمی ھے۔جن میں تخفیف کا بھی کوئی امکان نھیں ھے اس لئے کہ یہ بلائیں تیرے غضب اور انتقام کا نتیجہ ھیں اور ان کی تاب زمین وآسمان نھیں لاسکتے، تو میں ایک بندہٴ ضعیف و ذلیل و حقیر ومسکین وبے چارہ کیا حیثیت رکھتا ھوں؟!

دنیا و آخرت کی بلائیں

دنیا کی بلائیں اور مصیبتیں آخرت کی کی بلاؤں اور مصیبتوں سے چند لحاظ سے فرق رکھتی ھیں، جیسا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:

اول: دنیا کی مصیبتیں اور بلائیں جیسے طوفان، زلزلہ، سیلاب، خشک سالی، قحطی، مھنگائی اور انسانی بیماریاںکم نقصان دہ اور کم مدت کے لئے ھوتی ھیں، لیکن آخرت کی بلائیں اور مصیبتیں عرصہ دراز کے لئے اور جاودانہ ھوتی ھیں۔

دوم: کبھی بلائیں انسان کے لئے امتحان کا پھلو رکھتی ھیں ، جن پرانسان کو صبر و ضبط سے کام لینا چاہئے تاکہ اس صبر کی وجہ سے اس کے ایمان میں اضافہ ھوجائے، اور خدا کی طرف سے عظیم ثواب کا مستحق بن جائے، نیز رضائے الٰھی حاصل ھوجائے، جیسا کہ انبیاء علیھم السلام نے اپنی قوم کے آزارو اذیت پر صبر کیا ھے، صبر و استقامت کی مثال جناب آسیہ، مومن آل فرعون، حبیب نجّار اور راہ خدا کے دیگر مجاھدین نے پیش کی ھے، لیکن آخرت کی بلائیں اور مصیبتیں صرف اور صرف گناہ و معصیت اور خدا کے نافرمانی کی سزا کا پھلورکھتی ھیں۔

اور یہ کہ آخرت کی بلائیں و مصیبتیں امتحان و آزمائش کا پھلو نھیں رکھتی، بلکہ انجام دئے ھوئے اعمال کی سزا ھوتی ھیں، اور ان پر سزا کا تصور بھی نھیں پایا جاتا، اور بفرض محال اگر کسی نے اس عذاب اور سزا پر صبر کر بھی لیا تو اس کا کوئی اجر و ثواب نھیں ھوگا!!

قرآن مجید میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ھے کہ اگر انسان خدا و رسول کی اطاعت میں صبر و استقامت کا اظھار کرے اور گناھوں کے مقابلہ میں صبر سے کام لے تو اس کو خدا وندعالم کی معیت (یعنی ھمراھی)حاصل ھوجاتی ھے۔

چنانچہ ارشاد خداوندعالم ھوتا ھے:

”۔۔۔وَاصْبِرُوا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِینَ۔“[39]

”اور صبر کرو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ھے “۔

قرآن مجید نے صابرین کو بشارت دی ھے اور ان کو خدا کی صلوات و رحمت اور مغفرت کا مستحق قرار دیا ھے۔[40]

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے:

”الصَّبرُ ثَلاثةٌ:صَبرٌ عِندَ المُصِیبَةِ ،وَصَبرٌ عَلَی الطَّاعَةِ، وَصَبرٌعَنِ المَعْصِیَةِ“۔[41]

”صبر ، تین طرح کا ھوتا ھے: مصیبت کے وقت صبر،( خدا و رسول کی)اطاعت پر صبر اور گناہ و معصیت کے مقابلہ میں صبر“۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے صابرین کی تفسیر میں بیان فرمایا ھے: صابرین وہ لوگ ھیں جو خدا (و رسول) کی اطاعت اور گناہ و معصیت پر صبر کریں، حلال طریقہ سے رزق و روزی حاصل کریں، حد اعتدال میں رہ کر راہ خدا میں خرچ کریں،اور اپنے خرچ سے باقی ماندہ مال و دولت کو آخرت کے لئے بھیج دیں، اس وقت صابرین کامیاب وکامران ھیں۔[42]

عذاب برزخ اور قیامت

قرآن مجید کی بہت سی آیات خصوصاً تیسویں پارے کی آیات برزخ اور قیامت کے مختلف عذاب کے بارے میں اشارہ کرتی ھیں، اسی طرح بہت سی روایات میں بھی اس عذاب کے بارے میں بیان موجود ھے۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام دشمنان خدا کے بارے میں فرماتے ھیں:

”۔۔۔ اور جو شخص دشمن خدا ھوگا، اس پر ایک ایسا بدترین شکل کا فرشتہ جس کے بدن سے بدترین بدبو آرھی ھوگی؛ وہ اس سے آکر کھے گا: تجھے بشارت ھو بہت زیادہ کھولتے ھوئے پانی پینے کی اور جھنم میں داخل ھونے کی۔ دشمن خدا اپنے غسل دینے والے اور جنازہ اٹھانے والوں کو اچھی طرح جانتا ھے، ان کو قسم دے کر کھے گا: مجھے قبر کے حوالے نہ کرو، لیکن جب اس کو قبر کے حوالے کردیا جائے گا، تو دو فرشتے سوال کرنے کے لئے اس پر وارد ھونگے اور اس کا کفن ہٹاکر اس سے کھیں گے: تیرا خدا کون ھے، تیرا دین کیا ھے؟ او رتیرے پیغمبر کون ھیں۔ تو جواب دے گا: میں کچھ نھیں جانتا، دو فرشتے کھیں گے:تو نھیں جانتا ۔ پس اس کی زبان باھر نکلواکر اس پر کوڑے لگائیں گے، اور اس طرح ماریں گے جس سے ھر جاندار چیز خوف و وحشت زدہ ھوجائے، جن و انس اس کی آواز کو نھیں سنتے۔اس وقت یھی فرشتے اس کی قبر سے جھنم کی طرف ایک دروازہ کھول دیں گے، اور اس سے کھیں گے: اسی بدترین حالت میں لیٹا رہ، اور اس کو اس طرح فشار قبر دیں گے کہ اس کا مغز اس کے ناخن اور گوشت کے ذریعہ باھر نکلے گا، اور خداوندعالم اس پر زمین کے سب سے خطرناک سانپ اور بچھو کو مسلط کردے گا، اور وہ قیامت تک اس کو اسی طرح اذیت دیتے رھیں گے۔[43]

اسی طرح شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے عذاب دوزخ کے بارے میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے درج ذیل روایت نقل کی ھے:

”اھل جھنم دردناک عذاب کی سختیوں سے کتّوں اور بھیڑیوں کی طرح فریاد کریں گے، وھاں پر کسی کو موت نھیں آئے گی، ان کے عذاب میں کوئی تخفیف نھیں ھوگی، وھاں انھیں ھمیشہ بھوک و پیاس لگتی رھے گی، ان کی آنکھیں کمزور اور ان میں روشنی کم ھوگی،گونگے، بھرے اور اندھے ھوں گے، ان کے چھرے سیاہ ھوں گے، پشیمان ، مطرود اور غضب پروردگار میں مبتلا ھوں گے،ان پر کسی طرح کا رحم نھیں کیا جائے گا، اور ان کے عذاب میں تخفیف نھیں ھوگی،دوزخ ان کو جلائے گا اور ان کے پینے کے لئے کھولتا ھوا پانی ھوگا، علاوہ براین ان کے پینے کے لئے ایک بہت بدبودار اور زھر سے بدتر چیز ھوگی، ان پر آگ کے کوڑے برسائے جائیں گے، اور بڑے بڑے ہتھوڑوں سے ٹھوکا جائے گا، غضب کے فرشتے ان پر (ذرابھی) رحم نھیں کریں گے، ان کے چھرے جھلسے ھوئے ھوں گے، اور وہ لوگ شیطان کے ھم نشین ھوں گے،ان کو طوق و زنجیروں میں باندھا جائے گا، اگر وہ دعا (بھی) کریں گے تو قبول نھیں ھوگی، اگر ان کی کوئی حاجت ھوگی تو اس کو پورا نھیں کیا جائے گا، یہ ھے حال اھل جھنم کا ![44]

علی بن ابراھیم قمی اپنی تفسیر میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ھیں:

ایک روز جناب رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) تشریف فرماتھے، کہ فرشتہ وحی جناب جبرئیل امین غمگین اور حزن و ملال کے عالم میں نازل ھوئے، ان کا چھرہ متغیر تھا، پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے سوال کیا: اے جبرئیل ! حزن و ملال کی وجہ کیا ھے؟ توجناب جبرئیل نے کھا: میں کیسے پریشان اور ملول نہ ھوں، آج خداوندعالم نے ”منافیخ دوزخ“ کو معین کیا ھے، آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: ”منافیخ دوزخ“ کیا ھیں؟

جبرئیل نے کھا: خداوندعالم نے آتش جھنم کو حکم دیا کہ ہزار سال تک جلے تاکہ سرخ ھوجائے، اس کے بعد دوسرا حکم دیا کہ ہزار سال تک جلے تاکہ سفید ھوجائے، اس کے بعد حکم دیا کہ ہزار سال جلے تاکہ سیاہ ھوجائے اور وہ سیاہ و تاریک مادہ بغیر روشنی کے ھے، اگر اس کی زنجیر کے ستّر ذراع کے حلقہ کو زمین پر رکھ دیا جائے تو ساری دنیا پگھل جائے گی، اور اگر ”زقّوم و ضریع“کا ایک قطرہ دنیا کے پانی میں ملادیا جائے تو تمام اھل زمین اس کی بدبو سے مرجائیں گے۔

اس وقت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور جبرئیل بہت روئے، یھاں تک کہ خداوندعالم نے ایک فرشتہ بھیجا کہ آپ کا پروردگار آپ پرسلام بھیجتا ھے اور فرماتا ھے: اگر (تمھاری امت) گناھوں کی مرتکب ھوئی تو اس کو اس عذاب سے محفوظ کردیا ھے۔[45]

بدکاروں اور دشمنان خدا کو ایسی جگہ رکھا جائے گا کہ ھر طرف سے تنگی ھوگی اس کے راستے تاریک اور اس کی ھلاکت کے مراکز نامعلوم ھوں گے،اور ان کا ھمیشہ ھمیشہ کے لئے اسی جھنم میں ٹھکانہ ھوگا، اس کا شربت کھولتا ھوا پانی، اور ان کا مکان ”جحیم“ ھوگا، آگ کے شعلے اور اس کی لپٹیں گھیرے ھوں گی، ان کی آرزو موت ھوگی (لیکن موت کھاں؟!!) ان کی آزادی کا کوئی راستہ نہ ھوگا، ان کے پیروں کو ان کی پیشانی کے ساتھ باندھ دیا جاکے گا اور ان کے چھرے گناھوں کی تاریکی سے سیاہ ھوں گے، اور وھاں چلّاتے ھوں گے: اے داروغہٴ جھنم! ھم بے حال ھوچکے ھیں، داروغہٴ جھنم! زنجیروں نے ھمیں جکڑدیا ھے، اور ھماری کھال جلی جارھی ھے، لہٰذا ھمیں یھاں سے باھر نکال دے، کہ پھر کبھی گناہ نھیں کریں گے، اس وقت آگ کے شُعلے آواز دیں گے: یھاں سے تمھارا بھاگنا ممکن نھیں ھے، اب امان ملنے کی کوئی صورت نھیں ھے، یھاں سے باھر نکلنے کا راستہ ھمیشہ کے لئے بند ھے، دور ھوجاؤ اور بکواس بند کرو، اگر تمھیں یھاں سے چھٹکارا مل بھی جائے تو تم پھر اسی طرح گناھوں میں ملوث رھوگے۔

اس موقع پر اھل دوزخ اپنی رھائی سے ناامید ھوجائیں گے، دنیا میں عبادت خدا کے سلسلہ میں کی ھوئی تقصیر کے بارے میں افسوس کریں گے، لیکن وہ پشیمانی ان کو نجات نھیں دے گی، اور ان کا غم و اندوہ سودمند ثابت نھیں ھوگا، ھاتھ پیر بندھے ھوئے ان کو زمین پر پھینک دیا جائے گا، اوپر ،نیچے، دائیں اور بائیں ھر طرف سے آگ ھی آگ ھوگی، ان کا کھانا آگ، پینا آگ، کپڑے آگ اور ان کا بستر بھی آگ ھی کا ھوگا۔

ان کو بھڑکتے ھوئے انگاروں، بدبودار گندے کپڑوں اورخطرناک گرز اور بھاری بھاری زنجیروں میں رکھا جائے گا، اور وہ چیخ رھے ھوں گے فریاد کریں گے اور موت کی تمنا کریں گے، لیکن جب بھی موت طلب کریں گے ان کے سر کے اوپر کھولتا ھوا پانی ڈالدیا جائے گا، اور آگ کے گرز مارے جائےں گے، ان کے منھ سے خون اور پیپ باھر نکلے گی، اور ان کا جگر پیاس کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے ھوجائے گا، ان کی آنکھیں باھر نکل آئیں گی، ان کے چھروں کی کھال اتر جائے گی، درد و تکلیف کی وجہ سے ان کے بال گرجائیںگے، جب ان کی کھال جل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری نئی کھال پیدا ھوجائے گی،ان کی ہڈیوں کا گوشت اتر جائے گا، ان کی آنکھیں اندھی، زبان گونگی اور ان کے کان بھرے ھوجائےں گے۔[46]

قارئین کرام! آئیے خدا کی بارگاہ میں عرض کرتے ھیں:

پرورگارا! ان دردناک عذاب ،سختی اور پریشانیوں کو برداشت کرنے کی ھم میں طاقت نھیں ھے، ھم تو تیرے ضعیف، کمزور، ذلیل، حقیر اور مسکین بندے ھیں!

اگر چہ میری عبادت کامل نھیں ھے، اور گناہ بھی کم نھیں ھے لیکن دل و جان سے تیرا عاشق ھوں۔ انبیاء(ع)اور ائمہ علیھم السلام کو دوست رکھتاھوں اور تیری عبادت و بندگی سے دورنھیں ھوں، میرا مشغلہ گناہ کرنا نھیں ھے، میرا کام خطا و عصیان نھیں ھے۔ اگر میرے گناہ زیادہ ھیں صرف ھوائے نفس اور شھوت کی وجہ سے ھیں، میں تیری کامل اور خالص عبادت انجام دینا چاہتا ھوں، میں تو یہ چاہتا ھوں کے میرا دامن ھر گناہ سے پاک ھو، میں شیطان اور طاغوت سے بیزار ھوں، ھوائے نفس کی شرارت سے نالاں ھوں۔ تیرے فراق کا مریض اور تیرے وصال کا بھوکا ھوں۔ پالنے والے ! مجھے معاف کردے، اور میری مدد فرما، مجھے میرے گناھوں سے چھٹکارا دے اور عبادت و بندگی میں مشغول کردے، مجھے آتش جھنم سے امان دیدے اورمیرے لئے بھشت کے دروازے کھول دے۔(آمین)

”یٰااِٴلٰھي وَرَبّي وَسَیِّدي وَمَوْلاٰيَ،لِاٴَيِّ الْاُمُورِاِٴلَیْکَ اٴَشْکُو،وَلِمٰامِنْھٰااٴَضِجُّ وَاٴَبْکی،لِاٴَلیمِ الْعَذٰابِ وَشِدَّتِہِ،اٴَمْ لِطُولِ الْبَلاٰءِ وَ مُدَّتِہِ،فَلَئِنْ صَیَّرْتَنيلِلْعُقُوبٰاتِ مَعَ اٴَعْدَائِکَ،وَجَمَعْتَ بَیْنی وَ بَیْنَ اٴَہْلِ بَلاٰئِکَ،وَفَرَّقْتَ بَیْنِی وَبَیْنَ اٴَحِبّٰائِکَ وَاٴَوْلِیٰائِکَ،فَھَبْنِِي یٰااِٴلٰھي وَسَیِّدِي وَمَوْلاٰيَ وَرَبِّي،صَبَرْتُ عَلٰی عَذٰابِکَ فَکَیْفَ اٴَصْبِرُعَلٰی فِرٰاقِکَ،وَھَبْنِي صَبَرْتُ عَلٰی حَرِّ نٰارِکَ فَکَیْفَ اٴَصْبِرُ عَنِ النَّظَرِاِٴلٰی کَرٰامَتِکَ،اٴَمْ کَیْفَ اٴَسْکُنُ فِی النّٰارِ وَرَجٰائِي عَفْوُکَ“۔

”اے میرے خدا! پروردگارا! میرے سردار! میرے مولا! میں کس کس بات کی فریاد کروں اور کس کس کام کے لئے آہ وزاری اور گریہ وبکا کروں ،قیامت کے دردناک عذاب اور اس کی شدت کے لئے یا اس کی طویل مصیبت اور دراز مدت کے لئے کہ اگر تونے ان سزاوٴں میں مجھے اپنے دشمنوں کے ساتھ ملادیا اور مجھے اھل معصیت کے ساتھ جمع کردیا اور میرے اوراپنے احباء اور اولیاء کے درمیان جدائی ڈال دی۔ تو اے میرے خدا۔میرے پروردگار ۔میرے آقا۔میرے سردار! پھر یہ بھی طے ھے کہ اگر میں تیرے عذاب پر صبر بھی کر لوں تو تیرے فراق پر صبر نھیںکر سکتا۔اگر آتش جھنم کی گرمی برداشت بھی کر لوں تو تیری کرامت نہ دیکھنے کو برداشت نھیں کر سکتا ۔بھلا یہ کیسے ممکن ھے کہ میں تیری معافی کی امید رکھوں اور پھر میں آتش جھنم میں جلادیا جاوٴں ۔

محبوب سے شکایت

مولائے عاشقین حضرت امیر المومنین علیہ السلام دعا کے اس حصے ”لِاٴَيِّ الْاُمُورِاِٴلَیْکَ اٴَشْکُو“میں اپنے محبوب کی بارگاہ میں اپنی پریشانیوں اور بلاؤں کی شکایت کرتے ھوئے گریہ و زاری کرتے ھیں؟

چنانچہ آپ اس شکایت میں کہتے ھیں: میں اپنی مشکلات، رنج و غم اور بلاؤں کو دور کرنے کے لئے تیرے علاوہ کسی کو نھیں پہچانتا۔ سبھی تیرے محتاج اور تیرے سامنے جھولی پھیلائے ھوئے ھیں، سبھی تیرے سامنے ناتواں اور کمزور ھیں، ان کے بس میں کچھ بھی نھیں ھے، لہٰذا کسی ضعیف او رکمزور سی مشکل کے حل کی کوئی امید نھیں کی جاسکتی۔

تمام مشکلات کو حل کرنے کی کُنجی تیرے ھی ھاتھ میں ھے۔

تمام دردوں اور بلاؤں کا علاج تیرے ایک اشارہ سے ھوجاتا ھے۔

تو ھی وہ ذات ھے جو اھل مشکل کی مشکل کشائی کرتا ھے اور رنج و غم میں گرفتار لوگوں کی پریشانیوں کو دور کرتا ھے۔

تو ھی وہ ذات ھے جس کی بارگاہ میں صدیقہ طاھرہ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا برسات کے موسم کی طرح آنسو بھاتی ھوئی کہتی تھیں:

”پالنے والے!

(تیری بارگاہ سے کچھ چیزوں کی سوالی ھوں اور تو ھی ان کو عنایت کرسکتا ھے) تجھ سے ھدایت، تقویٰ، عفت، بے نیازی اور ایسے عمل کی توفیق چاہتی ھوںجس سے تو راضی و خوشنود ھوجائے۔

پالنے والے! ھمارے کمزوروں کو طاقت، غریبوں کو مال و دولت اور ھمارے جاھلوں کو علم و حلم کی دولت عطا فرما۔

پالنے والے! محمد و آل محمد پررحمت نازل فرما، اور ھمیں شکر، اپنی یاد، عبادت اور اطاعت پر مدد فرما، تجھے تیری مھربانی کا واسطہ، اے ارحم الراحمین“۔[47]

توھی وہ ھے جس کے سامنے توحید کے علمبردار حضرت ابراھیم نے اپنے بیٹے اسماعیل کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد اپنے دست دعا بلند کردئے اور نھایت خشوع و خضوع سے حقائق کی درخواست کی جن کو صرف تو ھی عطا کرسکتا ھے:

”پالنے والے!

کعبہ کے بنانے کو ھم سے قبول فرما، کیونکہ تو ھی (ھماری دعاؤں کا)سننے والا اور (ھمارے اخلاص سے)آگاہ ھے۔

”پالنے والے!

تو ھم دونوں کو اپنا فرمانبردار بندہ بنااور اور ھماری ذریت و اولاد کو بھی اپنا فرمانبردار بنااو رھم کو ھمارے حج کی جگہ دکھادے او رھماری توبہ کو قبول کرلے، کیونکہ تو بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا ھے۔

پروردگارا

! مکہ والوں میں انھی میں سے ایک رسول کو بھیج جو ان کے سامنے تیری آیات کی تلاوت کرے آسمانی کتابیں اور حکمت کی باتیں سکھائے، اور ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے ، بے شک توھی غالب اور صاحب تدبیر ھے“۔[48]

”پالنے والے! تو ھی وہ ھے جس کے حضور میں نوح جیسا اولو االعزم پیغمبر اپنی قوم کے نو سو پچاس برس آزار و اذیت برداشت کرتا رھا تیرے لئے، اس کے بعد تیری بارگاہ میں شکایت کی اور تونے اپنی قدرت کا مزا چکھادیا اور ان پر دردناک عذاب نازل کیااور ان سب کو نیست و نابود کردیا اور جناب نوح اور آپ کے مومن ساتھیوں کو عذاب سے نجات بخشی۔

تو ھی وہ ھے جس نے جنگ بدر میں مسلمانوں کی قلیل تعداد (دشمن کے ایک سوم حصہ)کے ذریعہ دشمن کی یقینی فتح کو شکست سے بدل دیا اور مومنین کو پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی دعا کے ذریعہ دشمنوں پر فتحیاب کردیا۔

اب میں بلاء و مصائب اور پریشانیوں کی تیری بارگاہ میں شکایت کرتا ھوں۔

”پالنے والے!

تو ھی وہ ھے جو ایک نظر (رحمت) کے ذریعہ میری ساری پریشانیاںدور کردیتا ھے اور میرے لئے سکون اور اطمینان کے اسباب مھیا کردیتا ھے۔

”پالنے والے!

تو ھی وہ ذات ھے جس کے حضور میں ھر پیغمبر، امام،مومن،تائب اور پریشان حال نے اپنی شکایت پیش کی اور تیری بارگاہ میں گریہ و زاری کی تو تونے ھی اس کو پناہ دی، تسلی دیتے ھوئے اس کی پریشانیوں کو ختم کیا اور اس کے چین و سکون کے اسباب فراھم کئے۔

کون ایسا دردمند ھے جو تیری بارگاہ میں آیا ھو اور تو نے اس کے درد کا علاج نہ کیا ھو؟ کون ایسا محتاج ھوگا جو تیرے در پر سوالی بن کر آئے اور تو نے اس کی ضرورت کو پورانہ کیا ھو؟ کون ایسا حاجت مند ھوگا جو تیری چوکھٹ پر اپنی حاجت لے کر آیا ھو اور تو نے اس کو ناامید کیا ھو؟

کون ایسا غریب و فقیر ھوگا جو تیرے در پر آیا ھو اور تو نے اس پر اپنے فضل وکرم کی بارش نہ کی ھو؟ کون ایسا دعا کرنے والا ھوگا جس نے تجھ سے دعا کی ھو اور تو نے اس کو قبول نہ کیا ھو؟

کون ایسا پریشان حال ھوگا جو تیرے درِ رحمت پر آیا ھو اور تو نے اس کی مشکل کو حل نہ فرما یاھو؟ کون ایسا توبہ کرنے والا ھوگا جس نے تیری بارگاہ میں رو رو کر توبہ کی ھو اور تو نے اس کی توبہ کو قبول نہ کیا ھو؟ وغیرہ وغیرہ۔

گریہ و زاری

رونا اور آنسو بھانا، خداوندعالم کی عظیم نعمتوں میں سے ھے، رونا تواضع و انکساری کی نشانی اور باطن کی پاکیزگی کی علامت ھے۔

قرآن کریم نے گریہ و زاری، آہ و فغاں اور آنسوؤں کو مرد مومن اور خدا وندعالم کے عاشق و عارف کی نشانی قرار دی ھے۔[49]

حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ھے:

”اُوصِیکَ یَا عَلِیُّ فِی نَفْسِکَ بِخِصالٍ فَاحْفَظْھا، اللّھُمَّ اٴَعِنْہُ۔۔۔وَ الرَّابِعَةُ البُکاءُ لِلّٰہِ یُبنٰی لَکَ بِکُلِّ دَمْعَةٍ بَیتٌ فِی الجَنَّةِ “[50]

”یا علی! تمھیں چند چیزوں کی خصلت کے بارے میں سفارش کرتا ھوں، ان کی حفاظت کرنا، خدایا! اس کی مدد فرما۔۔۔۔ان میں سے چوتھی خصلت خدا کے لئے رونا ھے، جس کے ایک آنسو پر جنت میں تمھارے لئے ایک گھر بن جائے گا“۔

نیز آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے:

”طُوبَی لِصُورَةٍ نَظَرَ اللّٰہُ اِلَیھَا تَبکِی عَلی ذَنْبِ مِنْ خَشیَةِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ،لَمْ یَطَّلِعْ عَلَی ذالکَ الذَّنبِ غَیرُہُ“[51]

”خوشا نصیب اس صورت کے کہ جس پر خدا ایک نظر کرلے اور وہ گناھوں پر خدا سے ڈرتا ھو اور وہ بھی اس گناہ پر جس کو خدا کے علاوہ کوئی دوسرا نھیں جانتا“۔

نیز آپ ھی کا فرمان ھے:

”وَلاَعَلَی الَّذِینَ إِذَا مَا اٴَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لاَاٴَجِدُ مَا اٴَحْمِلُکُمْ عَلَیْہِ تَوَلَّوا وَاٴَعْیُنُہُمْ تَفِیضُ مِنْ الدَّمْعِ حَزَنًا اٴَلاَّ یَجِدُوا مَا یُنفِقُونَ۔“ (سورہ توبہ آیت۹۲)

”اور ان پر بھی کوئی الزام نھیں ھے جو آپ کے پاس آئے کہ انھیں بھی سواری پر لے لیجئے اور آپ ھی نے کہہ دیا کہ ھمارے پاس سواری کا انتظام نھیں ھے اور وہ آپ کے پاس سے اس عالم میں پلٹے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور انھیں اس بات کا رنج تھاکہ ان کے پاس راہ خدا میںخرچ کرنے کے لئے کچھ نھیں ھے“۔

”وَمَنْ ذَرَفَتْ عَینَاہُ مِنْ خَشْیَةِ اللّٰہِ کاَنَ لَہُ بِکُلِّ قَطْرِةٍ مِن دُمُوعِہِ مِثْلُ جَبَلِ اٴُحُدٍ یَکُونُ فِی میزانِہِ مِنَ الاٴجرِ“[52]

”جس شخص کی آنکھیں خوف خدا میں آنسو بھائےں تو اس کے ھر آنسو کی جزا اس کے عمل کی ترازو میں کوہ احدکے ھم پلہ ھو“۔

نیز آپ نے فرمایا:

”مَن خَرَجَ مِن عَینَیہِ مِثلُ الذُّبابِ مِنَ الدَّمعِ مِن خَشْیَةِ اللّٰہِ آمَنَہُ اللّٰہُ بِہِ یَوْمَ الفَزَعِ الاٴکبَرِ“[53]

”اگرخوف خدا سے کسی شخص کی آنکھ سے پرِکاہ کے برابر بھی آنسو نکل آئے تو خداوندعالم اس کو روز قیامت کے عذاب سے امان دیدے گا“۔

اسی طرح حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ھے:

”بُکاءُ العُیُونِ وَ خَشیَةُ القُلوبِ مِن رَحمَةِ اللّٰہِ تَعالی ذِکْرُہُ ،فَاِذا وَجَدتُمُوھَا فَاغْتَنِمُوا الدُّعاءَ“[54]

”آنکھ کے آنسو اوردلوں میں خوف ؛ خدا کی رحمت ھے، جب یہ دونوں چیزیں حاصل ھوجائیں تو دعا کو غنیمت جانو کیونکہ خوف و گریہ کے ساتھ دعا مستجاب ھوتی ھے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

”مَا مِن شَیْءٍ اِلاَّ وَلَہُ کَیلٌاٴَو وَزنٌ اِلاَّ الدُّموعَ،فَاِنَّ القَطرَةَ مِنھَا تُطْفِیٴُ بِحاراً مِن نَارٍ،وَاِذَا اغْرَوْرَقَتِ الْعَینُ بِمائِھا لَم یَرْھَق وَجْھَہ قَتَرٌوَلاَذِلَّةٌ،فَاِذَا فاضَت حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ،وَلَوْاٴَنّ باکیاً بَکٰی فِی اٴُمَّةٍ لَرُحِمُوا“[55]

”تمام چیزوں کے لئے ایک پیمانہ موجود ھے سوائے آنسوؤں کے،کہ آنسوؤں کا ایک قطرہ دریائے آتش کو خاموش کردیتا ھے، جس وقت آنکھوں سے آنسو جاری ھوجاتے ھیں تو رونے والے شخص کو کوئی سختی اور پریشانی نھیں پھنچتی،اور اگر آنکھ سے آنسو بہہ نکلیں تو خدا وندعالم اس پر آتش جھنم کو حرام کردیتا ھے،اور اگر کسی بھی امت کا کوئی شخص آنسو بھائے تو اس پوری امت پر رحم کیا جائے گا“۔

یحیٰ بن معاذ کہتے ھیں: جو شخص خواب میں اپنے کوروتا ھوا دیکھے تو وہ شخص جاگتے ھوئے شاد و خرم ھوگا، زندگانی دنیا خواب کی طرح ھے اور آخرت بیداری کا عالم، لہٰذا دنیا میں گریہ کرو تاکہ آخرت میں شاد و خرمّ رھو۔

دوستوں کی جدائی

اگر کوئی شخص انبیاء، پیغمبر ، ائمہ علیھم السلام اور اولیاء الٰھی کو دوست رکھنے والا ھو اور اس کی تمام تر کوششیں ان کا وصال اور دیدار ھو، اورقیامت میں ان کے دیدار کا شیدائی ھو اور ان بزرگواروں کی ھمنشینی سے سرفراز ھونا چاہتا ھو، لیکن خداوندعالم بعض گناھوں کے سبب ان کے اور اس کے درمیان جدائی ڈال دے اور ان کی ھم نشینی کے بجائے ان کے دشمنوں کے ساتھ قرار دیدے تو در حقیقت اس کے لئے یہ ایک سخت عذاب ھوگا، جو عذاب دوزخ اور آتش جھنم سے زیادہ سخت ھوگا۔

دوست اور محبوب کی جدائی کا صدمہ بچھڑے یار سے پوچھئے لیکن اگر کسی نے محبوب کی جدائی کا درد نہ دیکھا ھو اس کے سامنے درد یار کا بیان بے معنی ھے!

فراق محبوب کا مزہ ، جناب آدم علیہ ا لسلام نے برداشت کیا ھے کہ ”درخت ممنوعہ“ کے نزدیک جانے سے اپنے اس عظیم مقام کو کھودیا اور فرشتوں کی ھم نشینی اور بھشت میں زندگی بسر کرنے سے محروم ھوگئے!

درد فراق کو جناب ایوب علیہ السلام نے چکھا ھے، جنھوں نے امتحان پرودگار کی خاطر اپنے اھل و عیال، مال و دولت اور جسم کی صحت و سلامت سب کو قربان کردیا۔

فراق محبوب کا مزہ ،جناب یونس علیہ السلام نے چکھا جو اس عظیم دنیا کی وسیع فضا سے محروم ھوکر شکم ماھی میں گرفتار ھوگئے۔

فراق محبوب کا مزہ ،جناب یعقوب علیہ السلام نے چکھا ھے جنھوں اپنے محبوب (بیٹے جناب یوسف) کے فراق میں اس قدر گریہ کیا کہ آنکھوں کی بینائی جاتی رھی۔

فراق محبوب کا مزہ ،جناب یوسف علیہ السلام نے چکھا ھے جو یعقوب(ع)جیسے شفیق باپ سے دور ھوگئے اور چاہ کنعان میں جاپھونچے۔

لیکن خداوند مھربان نے جناب آدم کے درد فراق کاآدم کی توبہ کے ذریعہ علاج کیا، اسی طرح جناب ایوب(ع) کے درد فراق کا ان کے گم شدہ اھل و عیال اور مال کو واپس کرکے علاج کیا، اور یونس(ع) کو کا شکم ماھی سے نجات دیکر علاج کیا ھے، اسی طرح یعقوب و یوسف کو ایک دوسرے سے ملاکر ان کا درد کا علاج کیا ھے۔

اے درد فراق میں بے قرار افراد کے علاج کرنے والے! ھم تیرے بندے ھیں اور تیرے انبیاء، ائمہ(ع)اوراولیاء کے چاھنے والے ھیں ھمیں قیامت کے دن ان کے فراق و جدائی میں مبتلا نہ کرنا، ان کے فراق کے عذاب اور عذاب جھنم سے نجات دیدے، بالفرض اگر ھم تیرے عذاب پر صبر بھی کریں اور اپنے انبیاء، ائمہ اور اولیاء ھم نشینی سے محروم کردے لیکن تیری جدائی اور دوری پر کس طرح صبر کا یارا ھوگا؟!!

اھل کرامت کے مقام کی آرزو

پالنے والے! بالفرض اگر میں نے تیری آگ کی حرارت کا مقابلہ کربھی لیا، لیکن جیسا کہ تو اپنے بندوں کے ساتھ لطف و کرم سے کیسے چشم پوشی کرسکتا ھوں؟

حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ھے کہ: ”خداوندعالم نے کسی کو نھیں پیدا کیا مگر یہ کہ اس کا جنت و جھنم میں مقام مقرر فرمادیاھے۔ جب اھل بھشت، بھشت میں اور اھل دوزخ دوزخ میں داخل ھوجائیں گے تواھل بھشت ایک آواز سنیں گے کہ اھل دوزخ کی طرف دیکھو، اس وقت جھنمیوں کے ٹھکانے دکھائے جائیں گے اور کھا جائے گا کہ اگر تم لوگ بھی خدا کی معصیت اور نافرمانی کرتے تو اسی (جھنم )میں داخل کئے جاتے۔ چنانچہ اس عذاب سے نجات ملنے پر اس قدر خوشحال ھوں گے کہ اگر بھشت میں موت ھوتی تو وہ مرجاتے۔

اس وقت منادی اھل جھنم سے کھے گاکہ اپنے اوپر کی طرف نگاہ کرو، جب وہ لوگ جنت میںان کے لئے مقرر کردہ اپنے مقام دیکھیں گے تو ان سے کھا جائے گا کہ تم خدا کی اطاعت و بندگی کرتے تو اس مقام تک پھنچ جاتے، چنانچہ یہ سن کر ان کی اس قدر حالت غیر ھوجائے گی کہ اگر جھنم میں موت ھوتی تو وہ مرجاتے“۔

پالنے والے! جیسا کہ تو اپنےنیکبندوں پر لطف وکرم کرے گا کیا میں اس کو دیکھ کر اس سے چشم پوشی کرلوں اور اس کی آرزو نہ کروں؟!

عفو و بخشش کی امید

اے میرے مولا! میں کس طرح جھنم میں آرام سے رہ سکتا ھوں حالانکہ میری ساری امید تیرے عفو و بخشش کے اوپر ھے، وہ عفو وبخشش جس کا قرآن مجید میں ،پشیمان گناھگاروں کو وعدہ دیا گیا ھے؟

پالنے والے! بہت سے مواقع پر بے چارے اور پریشان حال لوگ دوسروں سے لَو لگائے ھیں اور ان سے لطف و کرم اور عفو و بخشش کی امید رکھتے ھیں لیکن وہ محروم نھیں ھوتے، تو جن لوگوں نے تجھ سے لَو لگائی ھو اور تیرے عفو و بخشش کو سھارا بنایا ھو تو تو ان کو کیسے ناامید کرسکتا ھے۔

مرحوم عطّار اپنی کتاب ”الٰھی نامہ“ میں روایت کرتے ھیں: ایک بدکار، فاسق و فاجر اور رناچنے والی عورت مکہ میں رہتی تھی اور شھر کے ناچ گانے کے پروگراموں میں شرکت کیا کرتی تھی، اور اپنی اداؤں کے ذریعہ پروگرام کو گرم کئے رکھتی تھی۔رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی ہجرت کے بعدجب اس عورت کا حسن و جمال ختم ھوگیا اور اس کی آواز جاتی رھی اس کا یہ دھنداٹھنڈا ھوگیا اور فقر و فاقہ میں گرفتار ھوگئی، مشکلات اور پریشانی کی وجہ سے مدینہ میں آئی اور رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ھوئی، چنانچہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس سے سوال کیا کس غرض سے مدینہ آئی ھے؟ کیا دنیاوی تجارت کے لئے آئی ھے یا اُخروی تجارت کے لئے؟ اس نے کھا: نہ دنیا کے لئے اور نہ آخرت کے لئے، بلکہ میں نے آپ کے جود و کرم اور بخشش کے بارے میں سنا ھے لہٰذا آپ سے امیدیں لے کر اس شھر میں آئی ھوں؟ پیغمبر اکرم اس کی بات سے بہت خوش ھوئے او راپنی ردا اس کو عنایت کردی، اور اصحاب سے مخاطب ھوکر فرمایا: تم میں سے جو شخص استطاعت رکھتا ھے اس کے لحاظ سے اس عورت کی مدد کرو۔

جی ھاں، ایک بدکار عورت تیرے بندے اور پیغمبر (جو تیرے بے نھایت لطف و کرم کا مظھر ھیں)کے جود و کرم کی امید میں مدینہ آئی اور بہت سا مال ودولت لے کر واپس گئی، کیا ممکن ھے کہ میں تیرے عفو و بخشش اور لطف و احسان کی امید پر تیری بارگاہ میں حاضر ھوں اور تیرے رحم و کرم کی بارگاہ سے خالی ھاتھ واپس لوٹ جاؤں۔؟!!

”فَبِعِزَّتِکَ یٰا سَیِّدي وَمَوْلٰايَ اُقْسِمُ صٰادِقاًلَئِنْ تَرَکْتَني نٰاطِقاً،لَاٴَضِجَّنَّ اِٴلَیْکَ بَیْنَ اٴَھْلِھٰاضَجیجَ الْآمِلینَ، وَلَاٴَصْرُخَنَّ اِٴلَیْکَ صُرٰاخَ الْمُسْتَصْرِخینَ،وَلَاٴَبْکِیَنَّ عَلَیْکَ بُکٰاءَ الْفٰاقِدینَ، وَلَاُنٰادِیَنَّکَ اٴَیْنَ کُنْتَ یٰاوَلِيَّ الْمُوْٴمِنینَ، یٰاغٰایَةَ آمٰالِ الْعٰارِفینَ،یٰا غِیٰاثَ الْمُسْتَغیثینَ، یٰاحَبیبَ قُلُوبِ الصّٰادِقینَ،وَیٰا اِٴلٰہَ الْعٰالَمینَ“۔

”تیری عزت و عظمت کی قسم اے آقاو مولا! اگر تونے میری گویائی کو باقی رکھا تو میں اھل جھنم کے درمیان بھی امیدواروں کی طرح فریاد کروں گا۔اور فریادیوں کی طرح نالہ و شیون کروں گااور ”عزیز گم کردہ“ کی طرح تیری دوری پر آہ وبکا کروں گا اور تو جھاں بھی ھوگا تجھے آوازدوں گا کہ تو مومنین کا سرپرست، عارفین کا مرکز امید،فریادیوں کا فریادرس ۔صادقین کا محبوب اور عالمین کا معبود ھے“۔

قارئین کرام ! دعا کے اس حصے میں گزشتہ کی طرح صدق دل سے توبہ ،مناجات، راز و نیازاور دعا کرنے والا اپنے محبوب کی بارگاہ میں اس کی نظر رحمت کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے حاضر ھوتا ھے، اور اس فرض کے بعد کہ اس کو جھنم کا مستحق قرار دیا گیا ھے،اس کو جھنم سے نجات کا پروانہ عطا کردے۔

درحقیقت اگر کوئی شخص عذاب میں گرفتار ھو اور عذاب سے بھی سخت اپنے محبوب کے فراق اور اس کی جدائی کے غم میں گرفتار ھو اس کی حالت کیا ھوگی؟

کس درد مند کی آہ و فغاں اس سے زیادہ دلسوز ھوسکتی ھے جس نے اپنے محبوب و معشوق کھودیا ھو؟

کہتے ھیں : ایک ماں اپنے بیٹے کی قبر پر زار زار گریہ کررھی تھی، وھاں سے ایک عابد و عارف کا گزر ھوا ، اس عورت کی حالت زار دیکھ کر کھا: خوشا نصیب، اس ماں پر جو یہ جانتی ھے کہ وہ اپنے کس گوھر کو اپنے ھاتھ سے کھو بیٹھی ھے!!

طفل می گرید چو راہ خانہ را گم می کند

چون نگریم من کہ صاحب خانہ را گم کرداہ ام [56]

”بچہ گھر کے گم ھونے پر گریہ کرتا ھے تو میں نے صاحب خانہ کو گم کردیا ھے لہٰذا میرا رونا کوئی تعجب کی بات نھیں ھے“۔

واقعاً قیامت کاکیا عجیب و غریب منظر ھوگا، لوگوں کے لئے وہ دن کیساعجیب و غریب ھوگا؛ خوشانصیب ھیں وہ لوگ جو اس دن رحمت خدا کے مستحق قرار پائیں گے اور رضائے الٰھی حاصل کرکے عذاب جھنم سے نجات حاصل کریں گے۔

کیا اچھا ھوگا کہ موت کا پیغام آنے سے پھلے پھلے اور ھمارے نامہ اعمال پر تالے لگانے سے قبل ھم اپنے آپ کو قرآن مجید کے سامنے پیش کریں تاکہ اس کے بیانات کی روشنی میں اپنی حالت سے مزید واقف ھوجائیں۔

ھارون اور بھلول

ھارون رشید حج سے واپس آکر کوفہ میں ٹھھرا، ایک روز راستہ سے چلا جارھا تھا، راستے میں بھلول نے اس کو نام لے کر تین دفعہ پکارا: ھارون،ھارون،ھارون، اس نے تعجب کیا کہ کون ھے جو مجھے نام لے کر پکار رھا ھے؟ کھنےوالوں نے کھا: بھلول دیوانہ، اس نے محمل کا پردہ اٹھایا اور بھلول سے کھا: مجھے پہچانتے ھو؟ کھا: ھاں، کھا میں کون ھوں؟ کھا کہ تو وھی ھے کہ اگر کسی نے مشرق میں ظلم کیا ھو اور تو مغرب میں ھو تو قیامت کے دن کا مالک تجھ سے باز پرس کرے گا، یہ سن کر ھارون رونے لگا اور کھا: بھلول میری حالت کو کس طرح پاتے ھو؟ تو بھلول نے جواب دیا: اپنے کو قرآن مجید کے سامنے پیش کر:

”اِنَّ الاٴَبْرَارَ لَفِی نَعِیمٍ وَاِنَّ الفُجَّارَ لَفِی جَحِیمٍ۔“[57]

” بیشک نیک لوگ نعمتوں میںھوںگے۔اور بدکار افراد جھنم میں ھوں گے“۔

کھا: ھماری سعی و کوشش کا کیاھوگا؟ تو بھلول نے کھا:

”۔۔۔ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللهُ مِنْ الْمُتَّقِینَ ۔“[58]

” خدا صرف صاحبان تقویٰ کے اعمال کو قبول کرتا ھے“۔

کھا: پیغمبر سے ھماری رشتہ داری کا کیاھوگا؟ تو بھلول نے کھا:

” فَإِذَا نُفِخَ فِی الصُّورِ فَلاَاٴَنسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَئِذٍ وَلاَیَتَسَائَلُونَ ۔“[59]

” پھر جب صور پھونکا جائے گا تو نہ رشتہ داریاں ھوں گی اور نہ آپس میں کوئی ایک دوسرے کے حالات پوچھے گا“۔

کھا: رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی شفاعت کام نہ آئے گی؟ تو بھلول نے کھا:

” یَوْمَئِذٍ لٰا َتنْفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلاَّ مَنْ اٴَذِنَ لَہُ الرَّحْمَانُ وَرَضِیَ لَہُ قَوْلاً (۔“[60]

” اس دن کسی کی سفارش کام نہ آئے گی سوائے ان کے جنھیں خدا نے اجازت دےدی ھو اور وہ ان کی بات سے راضی ھو“۔

کھا: اے بھلول کیا تمھاری کوئی حاجت ھے؟ بھلول نے کھا: میرے گناھوں کو معاف کردے اور بھشت میں داخل کردے۔ تو ھارون نے کھا: مجھ میں اتنی قدرت نھیں کہ میں یہ کام انجام دے سکوں،لیکن میں نے سنا ھے کہ آپ مقروض ھیں، کیا میں آپ کا قرض ادا کردوں؟ تو بھلول نے کھا: قرض کو قرض کے ذریعہ ادا نھیں کیا جاتا، جو کچھ تیرے پاس ھے وہ لوگوں کا مال ھے لہٰذا تم ان سب کے مقروض ھو، لہٰذا تم پر ان کا مال ان کو واپس کردینا واجب ھے۔

ھارون نے کھا: کیا آپ کے لئے کوئی خدمت گزار معین کردوں کہ آخر عمر تک آپ کی خدمت کرتا رھے؟

بھلول نے کھا: میں خدا کا بندہ ھوں، اور اسی کا رزق کھاتا ھوں، کیا تم یہ سمجھتے ھوکہ خدا تمھیں یاد کئے ھوئے ھے اور مجھے بھول گیا ھے!

گنج زر گر نبود گنج قناعت باقی است

آن کہ آن داد بہ شاھان بہ گدایان این داد [61]

”اگر زرو سیم کا خزانہ نھیں ھے تو قناعت کا خزانہ باقی ھے، (خدا) نے اس کو بادشاھوں تو دیا ھے تو (قناعت) فقیروں کو دی ھے۔

”اٴَفَتُرٰاکَ سُبْحٰانَکَ یٰااِٴلٰھي وَ بِحَمْدِکَ تَسْمَعُ فیھٰاصَوْتَ عَبْدٍ مُسْلِمٍ سُجِنَ فیھٰا بِمُخٰالَفَتِہِ،وَذٰاقَ طَعْمَ عَذٰابِھٰا بِمَعْصِیَتِہِ ،وَحُبِسَ بَیْنَ اٴَطْبٰاقِھٰا بِجُرْمِہِ وَجَریرَتِہِ وَھُوَ یَضِجُّ اِٴلَیْکَ ضَجیجَ مُوٴَمِّلٍ لِرَحْمَتِکَ،وَیُنٰادیکَ بِلِسٰانِ اٴَھْلِ تَوْحیدِکَ،وَیَتَوَسَّلُ اِٴلَیْکَ بِرُبُوبِیَّتِکَ“۔

”اے میرے پاکیزہ صفات ،قابل حمد وثنا پروردگار کیا یہ ممکن ھے کہ تواپنے بندہٴ مسلمان کو اس کی مخالفت کی بنا پر جھنم میں گرفتار اور معصیت کی بنا پر عذاب کا مزہ چکھنے والااور جرم و خطا کی بنا پر جھنم کے طبقات کے درمیان کروٹیں بدلنے والا بنادے اور پھر یہ دیکھے کہ وہ امید وار ِرحمت کی طرح فریاد کناں اور اھل توحید کی طرح پکارنے والا ، ربوبیت کے وسیلہ سے التماس کرنے والا ھے اور تو اس کی آواز نھیں سنتا ھے“۔

صاحب یقین ،متقی اور پرھیزگار افراد جب قرآن مجید اور احادیث میں دوزخ کے اوصاف کو پڑھتے ھیں توان کے بدن میں لرزہ پیدا ھوتا ھے، ان کے رونگٹے کھڑے ھوجاتے ھیں اور دل میں خوف و وحشت طاری ھوجاتی ھے اور مبھوت ھوکر رہ جاتے ھیں، اپنے دل و جان سے اس ھولناک عالم سے خدا کی پناہ مانگتے ھیں، واجبات کو ادا کرنے اور محرّمات کو ترک کرنے کے لئے مزید کوشش کرتے ھیں یھاں تک کہ کبھی کبھی تو اسی عالم میں اپنی جان بھی قربان کر بیٹھتے ھیں!!

سلمان اور خوف زدہ جوان

شیخ مفید علیہ الرحمہ ابن عمیر کے واسطہ سے حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ھیں: سلمان کوفہ کے بازارسے گزر رھے تھے ، دیکھا کہ ایک جوان زمین پر پڑا ھوا ھے اور لوگ اس کے چاروں طرف جمع ھیں، (سوال کرنے پر)جناب سلمان کوبتایا گیا کہ یہ جوان غش کھاکر گرپڑا ھے، کچھ دعائیں پڑھ دیجئے تاکہ اس کو ھوش آجائے، جیسے ھی سلمان اس کے سرھانے پھنچے تو اس جوان نے کھا: اے سلمان! جو کچھ میرے بارے میں ان لوگوں نے کھا وہ صحیح نھیں ھے؛ میں جب اس بازار سے گزر رھا تھا تو لوھار کو ہتھوڑے کے ذریعہ لوھے کو مارتے دیکھا تو مجھے قرآن مجید کی یہ آیت یاد آگئی:

” وَلَہُمْ مَقَامِعُ مِنْ حَدِیدٍ۔“[62]

” اور ان کے لئے لوھے کے گرز مھیا کئے گئے ھیں“۔

عذاب خدا کے خوف کی وجہ سے میری عقل پریشان ھوگئی، سلمان نے اس جوان سے کھا: واقعاً تم ایک عظیم انسان ھو آج سے تم میرے (دینی) بھائی ھو، اور ان دونوں کے درمیان دوستی اور رفاقت پیدا ھوگئی، ایک روز جوان مریض ھوا،اس کی زندگی کے آخری لمحات تھے، سلمان اس کے سرھانے پھنچے ، سلمان نے کھا: اے ملک الموت! میرے بھائی کے ساتھ حسن سلوک کرنا، جواب آیا: میں ھر مومن کے ساتھ حسن سلوک کرتاھوں۔[63]

ایک خاتون عذاب کی آیت سن کر بے ھوش گئی

عالم عالیقدر ملا فتح اللہ کاشانی تفسیر ”منہج الصادقین“ میں روایت کرتے ھیں: ایک روز رسول خدا مسجد میں نماز پڑھ رھے تھے، سورہ حمد کی تلاوت کے بعد سورہ حجر کی تلاوت فرمارھے تھے، جب اس آیت پر پھنچے:

” وَإِنَّ جَہَنَّمَ لَمَوْعِدُہُمْ اٴَجْمَعِینَ . لَہَا سَبْعَةُ اٴَبْوَابٍ لِکُلِّ بَابٍ مِنْہُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ۔“[64]

” اور جھنم ایسے تمام لوگوں کی آخری وعدہ گاہ ھے۔اس کے سات دروازے ھیں اور ھر دروازے کے لئے ایک حصہ تقسیم کیاگیا ھے “۔

ایک اعرابی عورت جو رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ساتھ نماز پڑھ رھی تھی، اس نے ان دونوں آیات کوسن کرایک چیخ ماری اور بے ھوش ھوگئی، رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) جب نماز سے فارغ ھوئے اور اس کی یہ حالت دیکھی تو فرمایا: ا کے لئے پانی لے کر آؤ، پانی چھڑکنے سے اس کو ھوش آیا۔

چنانچہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس عورت سے فرمایا: کیوں تیری یہ حالت غیر ھوئی؟ اس نے کھا: یا رسول اللہ! جب آپ کو نماز پڑھتے دیکھا تو آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کا شوق دل میں پیدا ھوا ، لیکن جیسے ھی آپ نے ان دو آیات کی تلاوت کی تو میں سن کر تاب نہ لاسکی اور بے ھوش ھوکر زمین پر گر پڑی، اس کے بعد اس عورت نے کھا:افسوس کہ میرے بدن کا ھر حصہ دوزخ کے ساتوں دروازوں میں تقسیم ھوگا۔

آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: ایسا نھیں ھے، بلکہ اس آیت سے مراد یہ ھے کہ بدکاروں کے ھر گروہ کو اس کے گناہ کے لحاظ سے دوزخ کے دروازوں سے داخل کیا جائے گا۔ اس وقت اس عورت نے کھا: یا رسول اللہ میرے پاس سات غلاموں کے علاوہ کچھ نھیں ھے آپ گواہ رھنا کہ جھنم کے ھر دروازہ سے نجات کے لئے ساتوں غلاموں کو راہ خدا میں آزاد کرتی ھوں۔

چنانچہ جناب جبرئیل نازل ھوئے اور کھا: یا رسول اللہ! اس عورت کو بشارت دیدیجئے کہ خداوندعالم نے جھنم کے ساتوں دروازوں کو تجھ پر حرام قرار دیدیا ھے، اور تیرے لئے بھشت کے دروازوں کو کھول دیا ھے۔

حدیث قدسی میں بیان ھوا ھے:

اے فرزند آدم ! میں اس جھنم کوخلق نھیں کیا مگر کافر، بخیل ، غیبت کرنے والے، عاق پدر، عاق مادر، زکوٰة نہ دینے والے، سود لینے والے، زنا کرنے والے، (مال) حرام جمع کرنے والے، قرآن کو بھول جانے والے اور اپنے پڑوسیوں کو آزار و اذیت دینے والوں کے لئے۔ سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کرےں ، ایمان لے آئےں اور عمل صالح انجام دےں۔

اے میرے بندو! خود اپنے اوپر رحم کرو، کیونکہ تمھارے جسم کمزور، سفر طولانی، وزن زیادہ، (بال سے زیادہ)باریک راستہ، دہکتی ھوئی آگ، اسرافیل کی ندا اور رب العالمین کی قضاوت در پیش ھے۔[65]

بہترین وخوبصورت نصیحت

ایک شخص سفر پر جانا چاہتا تھا، حاتم اصمّ سے کھا: آپ مجھے کچھ نصیحت کیجئے، تو حاتم نے کھا:

اگر دوستی چاہتے ھو تو تمھارے لئے خدا کی دوستی کافی ھے۔

اگر ساتھی چاہتے ھو تو تمھارے لئے کرام الکاتبین (یعنی نامہ اعمال لکھنے والے فرشتے) کافی ھیں۔

اگر عبرت چاہتے ھو تو تمھارے لئے یہ دنیا عبرت کے لئے کافی ھے۔

اگر مونس و ھمدم چاہتے ھو تو تمھارے لئے قرآن کریم کافی ھے۔

اگر کام چاہتے ھو تو عبادت تمھارے لئے کافی ھے۔

اگر نصیحت چاہتے ھو تو موت تمھارے لئے کافی ھے۔

اگر یہ چیزیں تمھارے لئے کافی ھوگئیں تو پھر دوزخ سے نجات مل جائے گی۔

قارئین کرام! (اگر خدا توفیق دے گا) تو خدا کی ربوبیت سے توسّل کی شرح ”یاربّ یاربّ یاربّ “ کے ذیل میں بیان کی جائے گی۔(انشاء اللہ)

”یٰامَوْلاٰيَ،فَکَیْفَ یَبْقٰی فِي الْعَذٰابِ وَھُوَیَرْجُوْمٰاسَلَفَ

مِنْ حِلْمِکَ،اٴَمْ کَیْفَ تُوْٴلِمُہُ النّٰارُوَھُوَیَاٴْمُلُ فَضْلَکَ وَرَحْمَتَکَ،

اٴَمْ کَیْفَ یُحْرِقُہُ لَھیبُھٰاوَاٴَنْتَ تَسْمَعُ صَوْتَہُ وَتَرٰی مَکٰانَہُ،اٴَمْ

کَیْفَ یَشْتَمِلُ عَلَیْہِ زَفیرُھٰاوَاٴَنْتَ تَعْلَمُ ضَعْفَہُ،اٴَمْ کَیْفَ یَتَقَلْقَلُ بَیْنَ

اٴَطْبٰاقِھٰا وَاٴَنْتَ تَعْلَمُ صِدْقَہُ،اٴَمْ کَیْفَ تَزْجُرُہُ زَبٰانِیَتُھٰاوَھُوَ

یُنٰادیکَ یٰارَبَّہُ،اٴَمْ کَیْفَ یَرْجُوفَضْلَکَ فيعِتْقِہِ

مِنْھٰافَتَتْرُکُہُ فیھٰا“۔

”خدایا تیرے حلم و تحمل سے آس لگانے والا کس طرح عذاب میں رھے گا اور

تیرے فضل وکرم سے امیدیں وابستہ کرنے والا کس طرح جھنم کے الم ورنج کا شکار ھوگا۔

جھنم کی آگ اسے کس طرح جلائے گی جب کہ تواس کی آواز کو سن رھا ھو اور اس کی منزل کو دیکھ رھا ھو،جھنم کے شعلے اسے کس طرح اپنے لپیٹ میں لیں گے جب کہ تو اس کی کمزوری کو دیکھ رھا ھوگا۔وہ جھنم کے طبقات میں کس طرح کروٹیں بدلے گا جب کہ تو اس کی صداقت کو جانتا ھے ۔ جھنم کے فرشتے اسے کس طرح جھڑکیں گے جبکہ وہ تجھے آواز دے رھا ھوگا اور تو اسے جھنم میں کس طرح چھوڑ دے گا جب کہ وہ تیرے فضل و کرم کا امیدوار ھوگا۔“

خداوندعالم کا لطف و کرم اور رحمت

قرآن کریم اور احادیث سے یہ بات واضح ھوتی ھے کہ: خدا وندعالم اپنے تمام بندوں پر لطف و کرم اور احسان کرتا ھے، اسی وجہ سے اس نے اپنے بندوں کو مادی اور معنوی نعمتوں سے نوازا ھے،اس نے اپنے بندوں کو نعمت عطا کرنے میں کسی طرح کے بخل سے کام نھیں لیا ھے اور نہ ھی اُس سے کام لے گا۔

یہ تو بعض انسان ھیں جو مادی اور معنوی نعمتوں کے حصول میں سستی اور کاھلی سے کام لیتے ھیں، اور خدا کے لطف و کرم اور احسان سے خود منھ موڑلیتے ھیں، اور خود بخود محرومیت کے کنویں میں گر پڑتے ھیں، اور خدا کی تمام تر نعمتوں سے مستفید ھونے کی لیاقت کو ختم کرلیتے ھیں۔

جو شخص بھی چاھے وہ جائز طریقہ سے کوشش کرکے خداوندعالم کی نعمتوں کو حاصل کرسکتا ھے بغیر کسی ممانعت کے، اور اپنی خالصانہ سعی و کوشش کے ذریعہ اور اپنے صحیح ایمان و اعتقاد کے ذریعہ خداوندعالم کی معنوی عنایات تک پھنچ سکتا ھے، اور دنیا و آخرت میں خدا کی خصوصی رحمت اس کے شامل حال ھوگی جس کے جلوے دنیاوی زندگی اور بھشت بریں میں ملاحظہ کرے گا۔ خدا وندعالم کے لطف و کرم اور احسان کے حیرت انگیز جلوے یہ ھیں کہ: خداوندعالم تھوڑے سے نیک کام پر بہت زیادہ اجر و ثواب عطا کرتا ھے۔

جناب سلیمان(ع) اور ایک دیھاتی

خداوندعالم کے منتخب رسول جناب سلیمان اپنے تمام تر شاھی شان و شوکت کے ساتھ ایک راستہ سے چلے جارھے تھے، راستہ میں ایک دیھاتی بھی سفر کررھا تھا، اس نے جناب سلیمان(ع) کو دیکھ کر کھا: پالنے والے! جناب داوٴد کے بیٹے سلیمان کو کیا بادشاہت اور سلطنت عطا کی ھے، ھوا نے اس آواز کو جناب سلیمان تک پھنچادیا، حضرت سلیمان(ع) اس آواز کو سن کر اس کے پاس آئے او رکھا: جس چیز کی طاقت اورذمہ داری کو پورا کرنے کی قدرت تم میں نھیں ھے اس کی آرزو نہ کرو؛ اگر خداوندعالم تیری ایک تسبیح کو قبول کرلے تو سلیمان کی حکومت سے بہتر ھے، کیونکہ تسبیح کا ثواب باقی رہ جائے گا اور سلیمان کی حکومت فناھوجائے گی!![66]

مرحوم شیخ صدوق علیہ الرحمہ اپنی گرانقدر کتاب ”ثواب الاعمال“ میں ایک بہت اھم روایت نقل کرتے ھیں:

”عَن اِسماعِیلَ بنِ یَسارٍ قَالَ:سَمِعْتُ اٴَبا عبدِ اللّٰہِ علیہ السلام یَقُولُ:اِیّاکُم وَالکَسَلُ اِنَّ رَبَّکُم رحیمٌ یَشْکُرُ القَلیلَ،اِنَّ الرَّجُلَ لیُصلِّی الرَّکْعَتَیْنِ تَطَوُّعاً یُرِیدُ بِھِما وَجْہَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَیُدخِلُہُ اللّٰہُ بِھِما الجَنَّةَ، وَاِنَّہُ لِیَتَصَدَّقُ بِالدِّرْھَمِ تَطَوُّعاً یُرِیدُ بِہِ وَجہَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فَیُدْخِلُہُ اللّٰہُ بِہِ الجَنَّةَ،وَاِنَّہُ لَیَصُومُ الیَوْمَ تَطَوُّعاً یُرِیدُ بِہِ وَجہَ اللّٰہِ فَیُدْخِلُہُ اللّٰہُ بِہِ الجَنَّةَ!!“[67]

”اسماعیل بن یسار کہتے ھیں: میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سناھے: سستی اور کاھلی سے پرھیز کرو، کیونکہ تمھارا پروردگار مھربان ھے، تھوڑے عمل پر بھی اجر کثیر عطا فرماتا ھے؛ جو شخص دو رکعت مستحب نماز پڑھے اور اس کا قصد رضائے پروردگار کا حصول ھو تو خداوندعالم اس کو ان دورکعت کے بدلے بھشت میں داخل کردے گا۔ اور اگر اپنی مرضی سے صدقہ دے اور اس صدقہ سے بھی رضائے الٰھی کا قصد ھو تو خداوندعالم اس کی وجہ سے اس کو بھشت میں داخل فرمادے گا، او راگر اپنی مرضی سے کسی ایک روز(مستحب) روزہ رکھے جبکہ خوشنودی پروردگار اس کے پیش نظر ھو تو خداوندعالم اسی ایک روزہ کے سبب بھشت میں جگہ عنایت فرمادے گا!!،،

امیر المومنین علیہ السلام حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے روایت نقل کرتے ھیں:

”مَا مِنْ شَیءٍ اٴَکْرَمُ عَلَی اللهِ مِنْ ابنِ آدمَ، قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللهِ! وَلاٰ الْمَلاٰئِکَةِ؟ قَالَ: اٴَلْمَلاٰئِکَةُ مَجْبُورُوْنَ بِمَنْزِلَةِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ“۔

”خداوندعالم کی نظر میں انسانوں سے قیمتی کوئی مخلوق نھیں ھے، لوگوں نے سوال کیا: یا رسول اللہ (ص)! کیا فرشتوں سے بھی بہتر ھیں؟ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: فرشتے چاند وسورج کی طرح عبادت اور دوسرے امور پر مجبور ھیں“۔

یہ انسان ھی تو ھے جوصاحب اختیا ر اور نعمت آزادی سے بھرہ مند ھے وہ جب بھی ان خدا داد نعمتوں کواطاعت الٰھی میں بروئے کار لائے تو خداوندعالم ایسی خاص رحمت و کرم اور بے نھایت لطف و کرم سے نوازے گا۔

ایک بہت اھم حدیث

”قاَلَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) الصَّلاةُ عَمودُ الدِّینِ وَفِیھَا عَشرُ خِصالٍ:زَینُ الوَجہِ،وَنُورُالقَلبِ،وَراحَةُ البَدَنِ،وَاٴُنسُ القُبورِ،وَمُنزِلُ الرَّحْمَةِ،وَمِصباحُ السَّمآءِ، وَ ثِقْلُ المیزانِ، وَمَرضاةُ الرَّبِّ،وَثَمَنُ الجَنَّةِ،وَحِجابٌ مِنَ النَّارِ،وَمَن اٴَقامَھا فَقَد اٴَقامَ الدّینَ، وَمَن تَرَکَھا فَقَد ھَدَمَ الدّینَ“[68]

حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ھے: نماز دین کا ستون ھے اور اس میں دس صفات پائے جاتے ھیں: چھرہ نورانی، دل میں روشنی، جسم میں راحت و سکون، مونس قبر، رحمت نازل کرنے والی، آسمان کا چراغ، روز قیامت اعمال کی ترازو میں وزن کا سبب، خوشنودی پروردگار، جنت کی قیمت اور آتش دوزخ میں رکاوٹ ھے، جو شخص نمازپڑھتا ھے (گویا) اس نے دین کو قائم کیا اور جو شخص نماز نہ پڑھتا ھو (گویا) اس نے دین کو نابود کردیا“۔

واقعاً تعجب کی بات ھے کہ خداوندکریم نے دو رکعت نماز پڑھنے والے کے لئے کیا کیا ثواب اور آثار قرار دئے ھیں!! جبکہ دو رکعت نماز پڑھنا کسی کے لئے باعث زحمت و مشقت بھی نھیں ھے۔

نیز آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے:

”ما مِن صَلاةٍ یَحْضُرُ وَقتُھا اِلاَّ نَادَی مَلَکٌ بَیْنَ یَدَیِ النَّاسِ:اٴَیُّھَاالنَّاسُ! قُومُوا اِلَی نِیرانِکُمُ الَّتِی اَوْقَدْتُمُوھَا عَلَی ظُھُورِکُم فَاٴَطْفِوٴُھَا بِصَلاَ تِکُم“[69]

”کسی بھی نماز کا وقت نھیں آتامگر یہ کہ ایک فرشتہ ان کے سامنے آکر اعلان کرتا ھے:اے لوگو! (اپنے گناھوں کے ذریعہ) جس آگ کو روشن کیا ھے، قیام کرو اور اس کو نماز کے ذریعہ خاموش کردو“۔

امام صادق اورایک وحشت زدہ قافلہ

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں : امام صادق علیہ السلام ایک قافلہ کے ساتھ ایک بیابان سے گزر رھے تھے۔ اھل قافلہ کو خبردار کیا گیا کہ راستے میں چور بیٹھے ھوئے ھیں۔ اھل قافلہ اس خبر کو سن کر پریشان اور لرزہ براندام ھوگئے۔ اس وقت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: کیا ھوا؟ تو لوگوں نے بتایا کہ ھمارے پاس (بہت) مال و دولت ھے اگر و ہ لٹ گیا تو کیا ھوگا؟! کیا آپ ھمارے مال کو اپنے پاس رکھ سکتے ھیں تاکہ چور آپ کو دیکھ کر وہ مال آپ سے نہ لوٹیں۔ آپ نے فرمایا: تمھیں کیا خبر شاید وہ ھمیں ھی لوٹنا چاہتے ھوں؟ تو پھر اپنے مال کو میرے حوالے کرکے کیوں ضایع کرنا چاہتے ھو، اس وقت لوگوں نے کھا: تو پھر کیا کریں کیا مال کو زمین میں دفن کردیا جائے؟ آپ نے فرمایا: نھیں ایسا نہ کرو کیونکہ اس طرح تو مال یونھی برباد ھوجائے گاھوسکتا ھے کہ کوئی اس مال کو نکال لے یا پھر دوبارہ اس جگہ کو تلاش نہ کرسکو۔ اھل قافلہ نے پھر کھا کہ تو آپ ھی بتائےے کیاکریں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کو کسی کے پاس امانت رکھ دو، تاکہ وہ اس کی حفاظت کرتا رھے ، اور اس میں اضافہ کرتا رھے، او رایک درھم کو اس دنیا سے بزرگ تر کردے اور پھر وہ تمھیں واپس لوٹادے، اور اس مال کو تمھارے ضرورت سے زیادہ عطا کرے!!

سب لوگوں نے کھا: وہ کون ھے؟ تب امام علیہ السلام نے فرمایا: وہ ھے”ربّ العالمین“ ھے۔ لوگوں نے کھا: کس طرح اس کے پاس امانت رکھیں؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: غریب اور فقیر لوگوں میں صدقہ دیدو۔ سب نے کھا: ھمارے درمیان کوئی غریب یا فقیر نھیں ھے جس کو صدقہ دیدیں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: اس مال کے ایک تھائی صدقہ دینے کی نیت کرلو تاکہ خداوندعالم چوروں کی غارت گری سے محفوظ رکھے، سب نے کھا: ھم نے نیت کرلی۔ اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا:

”فَاٴَنْتُمْ فِی اٴمَانِ الله فَامْضُوْا“۔

”پس (اب) تم خدا کی امان میں ھو لہٰذا راستہ چل پڑو“۔

جس وقت قافلہ چل پڑا راستہ میں چوروں کا گروہ سامنے دکھائی پڑا، اھل قافلہ ڈرنے لگے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: (اب) تم کیوں ڈررھے ھو؟ تم لوگ تو خدا کی امان میں ھو۔ چور آگے بڑھے اور امام علیہ السلام کے ھاتھوں کو چومنے لگے اور کھا: ھم نے کل رات خواب میں رسول اللہ کو دیکھا ھے جس میں آنحضرتنے فرمایا: کہ تم لوگ اپنے کو آپ کی خدمت میں پھنچنواؤ۔ لہٰذا اب ھم آپ کی خدمت میں ھیں تاکہ آپ اور آپ کے قافلہ والوں کوچوروں کے شر سے محفوظ رکھیں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: تمھاری کوئی ضرورت نھیں ھے جس نے تم لوگوں کے شر کو ھم سے دور کیا ھے وہ دوسرے دشمنوں کے شر کو ھم سے دور کرے گا۔ اھل قافلہ صحیح و سالم شھر میں پھنچ گئے؛ سب نے ایک سوم مال غریبوں میں تقسیم کیا، ان کی تجارت میں بہت زیادہ برکت ھوئی، ھر ایک درھم کے دس درھم بن گئے، سب لوگوں نے تعجب سے کھا:واقعاً کیا برکت ھے؟

امام صادق علیہ السلام نے اس موقع پر فرمایا:

”اب جبکہ تمھیں خدا سے معاملہ کرنے کی برکت معلوم ھوگئی ھے تو تم اس کام کو آگے بڑھانا“۔[70]

اولیاء الٰھی کا لطف و کرم

حضرت امیر المومنین علیہ السلام جس وقت صفین کے علاقے میں پھنچے، تو معاویہ نے ھر طرف سے پانی بند کردیا تھا، تاکہ امام علیہ السلام کا لشکر پیاس کی شدت سے زیادہ نہ لڑسکے۔ امام علیہ السلام نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی سرپرستی میں کچھ لوگوں کو حکم دیا کہ پانی کا راستہ کھول دو، حضرت امام حسین(ع)نے چند لوگوں کے ساتھ مل کر حملہ کیا اور پانی تک پھنچ گئے، معاویہ کی طرف سے پانی پر معین شدہ لوگ بھاگ کھڑے ھوئے، اور پانی پر فرزندان توحید کا قبضہ ھوگیا۔ بعض لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کو مشورہ دیا کہ اب آپ بھی معاویہ کے لشکر پر پانی بند کردیں۔ تو آپ نے فرمایا: قسم بخدا ھم یہ کام ھر گز نھیں کریں گے۔ اس کے بعد آپ نے معاویہ کے پاس اپنے ایک نمائندہ کو بھیجا تاکہ اپنے لشکر کے سقاؤں کو بھیج کر ضرورت بھر کا پانی بھروالے!!

امام رضا علیہ السلام کا ایک عجیب خط

بزنطی جوشیعہ دانشمند راوی اور امام رضا علیہ السلام کے معتبر او رمطمئن صحابی بیان کرتے ھیں: میں نے اس خط کو پڑھا ھے جو امام رضا علیہ السلام نے خراسان سے حضرت امام جواد (محمد تقی) علیہ السلام کو مدینہ بھیجا تھا، جس میں تحریر تھا: مجھے معلوم ھوا ھے کہ جب آپ بیت الشرف سے باھر نکلتے ھیں اور سواری پر سوار ھوتے ھیں تو خادمین آپ کو چھوٹے دروازے سے باھر نکالتے ھیں، یہ ان کا بخل ھے تاکہ آپ کا خیر دوسروں تک نہ پھنچے،میں بعنوان پدر اور امام تم سے یہ چاہتاھوں کہ بڑے دروازے سے رفت و آمد کیا کرو، اور رفت و آمد کے وقت اپنے پاس درھم و دنیار رکھ لیا کرو تاکہ اگر کسی نے تم سے سوال کیا تو اس کو عطا کردو، اگر تمھارے چچا تم سے سوال کریں تو ان کو پچاس دینار سے کم نہ دینا، اور زیادہ دینے میں خود مختار ھو، اور اگر تمھاری پھوپھیاں تم سے سوال کریں تو ۲۵ درھم سے کم نھیں دیں اگر زیادہ دینا چاھیں تو تمھیں اختیار ھے۔ میری آرزو ھے کہ خدا تم کو بلند مرتبہ پر فائز کرے، لہٰذا راہ خدا میں انفاق کرو ،اور خدا کی طرف سے تنگدسی سے نہ ڈرو![71]

قارئین کرام! جب بندوں پر اولیاء الٰھی اپنے لطف و کرم کی بارش اس طرح کرتے ھیں تو پھر خدائے رحمن کا لطف وکرم اور اس کی رحمت کا کیا حال ھوگا؟!

خداوندعالم کے بے نھایت اسی لطف و کرم اور رحمت کے پیش نظر حضرت امیر المومنین علیہ السلام دعا کے اس حصہ میں یہ فقرہ کھنے کے بعد کہ: ”افتراک سبحانک یا الٰھی“کیا کوئی تجھے اس طرح جانتا ھے کہ اپنے مسلمان بندہ کو کچھ مخالفت کی وجہ سے جھنم میں ڈال کر اس کی آواز کو سنے۔۔۔۔؟ نھیں، نھیں، کوئی بھی اھل معرفت تجھے اس طرح سے نھیں پہچانتا، بلکہ ”ھیھات ماذلک الظن بک۔۔۔“۔

”ھَیْھَاتَ مَاذٰلِکَ الظَّنُّ بِکَ،وَلاَالْمَعْرُوفُ مِنْ فَضْلِکَ،

وَلامُشْبِہٌ لِمٰاعٰامَلْتَ بِہِ الْمُوَحِّدینَ مِنْ بِرِّکَ وَاٴَحْسٰانِکَ۔

فَبِا لْیَقینِ اٴَقْطَعُ لَوْلاٰ مٰا حَکَمْتَ بِہِ مِنْ تَعْذیبِ

جٰاحِدیکَ،وَقَضَیْتَ بِہِ مِنْ اِٴخْلاٰدِ مُعٰانِدیکَ لَجَعَلْتَ

النّٰارَکُلَّھٰابَرْداًوَ سَلاٰماً،وَمٰاکٰانَ لِاٴَحَدٍ فیھٰامَقَرّاًوَلاٰمُقٰاماً،لٰکِنَّکَ

تَقَدَّسَتْ اٴَسْمٰاوٴُکَ اٴَقْسَمْتَ اٴَنْ تَمْلَاٴَھٰامِنَ الْکٰافِرینَ مِنَ

الْجِنَّةِ وَالنّٰاسِ اٴَجْمَعینَ،وَ اٴَنْ تُخَلِّدَ فیھٰاالْمُعٰانِدینَ،

وَاٴَنْتَ جَلَّ ثَنٰاوٴُکَ قُلْتَ مُبْتَدِئاً،وَتَطَوَّلْتَ

بِالْاِٴنْعٰامِ مُتَکَرِّماً،اٴَفَمَنْ کٰانَ مُوٴْمِناًکَمَنْ

کٰانَ فٰاسِقاً لاٰیَسْتَوُوْنَ“۔

” ھر گز تیرے بارے میں یہ خیال اور تیرے احسانات کا یہ انداز نھیں ھے ۔

تونے جس طرح اھل توحید کے ساتھ نیک برتاوٴ کیا ھے اس کی کوئی مثال نھیں ھے۔

میں تویقین کے ساتھ کہتا ھوں کہ تونے اپنے منکروں کے حق میں عذاب کا فیصلہ نہ کردیا ھوتا اور اپنے دشمنوں کوھمیشہ جھنم میں رکھنے کا حکم نہ دے دیا ھوتا تو ساری آتش جھنم کو سرد اور سلامتی بنا دیتا اور اس میں کسی کا ٹھکانا اور مقام نہ ھوتا۔

لیکن تونے اپنے پاکیزہ اسماء کی قسم کھائی ھے کہ جھنم کو انسان و جنات کے کافروں سے پُر کرے گا اور معاندین کو اس میں ھمیشہ ھمیشہ رکھے گا۔

اور تونے ابتداھی سے یہ کہہ دیا ھے اور اپنے لطف و کرم سے یہ اعلان کر دیا ھے کہ ”مومن اور فاسق برابر نھیں ھوسکتے“۔

آغوش مھر و محبت

انبیاء، ائمہ معصومین علیھم السلام اور اولیاء الٰھی نیز عبادت گذار بندے ، خدا وندعالم کے بارے میں یہ گمان نھیں رکھتے کہ خداوندمھربان ان پر عذاب نازل کرے گا۔ وہ خدا جس نے قرآن کریم میں خود اپنے آپ کوسب سے زیادہ مھربان اور سب سے زیادہ رحم و کریم، غفور و رحیم، عزیز و ودود، ملک و قدّوس ، لطیف و صاحب فضل اور توبہ قبول کرنے والے کے نام سے تعارف کرایا ھے۔

عذاب قیامت کا اھل ایمان سے کوئی رابطہ نھیں ھے، عذاب خدا تو انکار حق اور خدا سے دشمنی کا نتیجہ ھے۔ عذاب آخرت متکبرین ، مغرورین اور گناھگاروں کے اعمال کا نتیجہ ھے۔ عذاب آخرت گناھوں اور آلودگیوں کا نتیجہ ھے۔ عذاب آخرت کو انسانی کارخانے نے وجود بخشا ھے اگر وہ اس کو پیدا نہ کرتا تو کوئی بھی اس کو وجود عطا نھیں کرسکتا تھا۔

جو شخص منکر اور معاند (دشمن) نھیں ھے اور اس کے دل میں توحید، ایمان اورعشق و محبت کا چراغ روشن ھے اور ایک حد تک اخلاق حسنہ اور عمل شائستہ سے مزین ھو تو پھر وہ عذاب میں کس طرح اور کیوں مبتلا ھو؟!

اس کا سامنا تو ایک مقدس، مھربان اور کریم ذات سے ھے، وھی جس نے ھر گناھگار کو توبہ کے لئے دعوت دی ھے تاکہ اس کو بخش دے، اور ھر روز (دنیا کے مصائب سے) ھارے ھوئے انسان کو آواز دیتا ھے تاکہ اس کو نجات دیدے، اور ھر دردمند کو دعوت دیتا ھے تاکہ اس کا علاج کردے۔

ایک شخص نے کسی عارف سے سوال کیا: میرا دامن گناھوں سے آلودہ ھے، کیا تمھارا گمان ھے کہ مجھے وھاں (قیامت) میں قبول کرلیا جائے؟ چنانچہ اس شخص کی بات سن کر اس عارف نے کھا: وائے ھو تم پر! خدا اپنے سے منھ موڑنے والوں اور پشت کرنے والوں کو حق و حقیقت کی دعوت دیتا ھے، کس طرح ممکن ھے کہ جو شخص خود اس کے دروازے پر التجا کررھا ھو اس کو اپنے دروازے سے دور بھگادے؟!!

مرحوم ابن فھد حلی اپنی کتاب ”عدة الداعی“ میں روایت کرتے ھیں: جس وقت خداوندعالم نے جناب موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کے پاس بھیجا، تاکہ اس کو (گناھوں سے )ڈرائےں، تو خداوندعالم نے فرمایا: فرعون سے کھو کہ میں غضب و عذاب کی نسبت، عفو و بخشش،گناھگاروں کے مقابلہ میں بردباری اور فقیروں کی دعاؤں قبول کرنے میں جلدی کرتا ھوں۔

گناھوں کے مقابلہ میں حضرت ابراھیم کی بے قراری

درج ذیل آیہ شریفہ:

” وَکَذَلِکَ نُرِی إِبْرَاہِیمَ مَلَکُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَلِیَکُونَ مِنَ الْمُوقِنِینَ۔“[72]

”اور اسی طرح ھم ابراھیم کو آسمان و زمین کے اختیارات دکھلاتے ھیں اور اس لئے کہ وہ یقین کرنے والوں میں شامل ھوجائیں“۔

کے ذیل میں علمائے تفسیر نے لکھا ھے:

جس وقت خداوندعالم نے جناب ابراھیم علیہ السلام کی آنکھیں زمین و آسمان کے حقائق پر کھول دیں اور ان کی آنکھوں سے تمام حجابات اٹھادئے ، اور انھوں نے زمین اور جو کچھ اس میں تھا، اس کا مشاھدہ کیاتو ایک عورت اور مرد کو زنا کرتے دیکھا، آپ نے ان پر نفرین و لعنت کی ، چنانچہ وہ دونوں وھیں ھلاک ھوگئے، اس کے بعد پھر دو عورت و مرد کو اسی حالت میں دیکھا، ان کے لئے بھی نفرین کی تو وہ بھی ھلاک ھوگئے ، اس کے بعد ایک مرد و عورت کو پھر اسی حالت میں دیکھا، جناب ابراھیم نفرین کرنا ھی چاہتے تھے کہ وحی الٰھی نازل ھوئی: اے ابراھیم! میرے بندوں اور کنیزوں پر نفرین نہ کرو، بے شک میں بخشنے والا، مھربان، بردبار اور جبّار ھوں، میرے بندوں کے گناہ مجھے نقصان نھیں پھنچاسکتے، جیسا کہ بندوں کی اطاعت (بھی)مجھے کوئی فائدہ نھیں پھنچاتی ھے۔

میں اپنے بندوں کے ساتھ تین کاموں میں سے ایک انجام دوں گا: یا وہ توبہ کرلیں گے اور میں ان کی توبہ قبول کرلوں گا، ان کے گناھوں کو بخش دوں گا اور ان کے عیوب چھپادوں گا، یا ان سے اپنے عذاب کو د ور رکھوں گا، کیونکہ میں جانتا ھوں کہ ان کی نسل سے مومن اولاد پیدا ھوں گی،لہٰذا ان کے ناشکرے والدین کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرتا ھوں تاکہ ان کے صلب سے مومن اولاد پیدا ھوجائیں، اور جب ان کے ذریعہ مومن اولاد پیدا ھوجاتی ھے تو اگر ان کے والدین نے توبہ نھیں کی تو ان کو عذاب میں مبتلاکردیتا ھوں۔ لیکن اگر دونوں گزشتہ باتوں میں سے کوئی بھی نہ ھو ، تو ان کے لئے آخرت میں ایسا درد ناک عذاب تیار کررکھا ھے اور وہ اس سے کھیں زیادہ بزرگ ھے جتنا آپ ان کے لئے چاہتے ھیں۔

اے ابراھیم! میرے بندوں کو میرے حوالہ چھوڑدو، کیونکہ میں بردبار، دانا، حکیم اور جبّار ھوں، اپنے علم و دانائی کی بنا پر ان کی زندگی کی تدبیر کرتا ھوں، اور ان کے سلسلہ میں اپنی قضا وقدر کو جاری کرتا ھوں۔[73]

تعجب آور حقیقت

کتاب با عظمت ”علم الیقین“ محدث بزرگ،فلسفی، حکیم اور عارف کم نظیر حضرت علامہ فیض کاشانی نے بیان کیا ھے:

ایک شخص کو قیامت میں حاضر کیا جائے گا ،اس کے گناھوں کا پلہ نیکیوں کے مقابلہ میں بھاری ھوگا، اس کے لئے جھنم کا حکم صادر ھوجائے گا، اس وقت خدا کی طرف سے جناب جبرئیل کو حکم ھوگا کہ میرے اس بندے کے پاس جاؤ اور اس سے سوال کرو کہ کیا دنیا میں کسی عالم کے پاس بیٹھتے تھے تاکہ وہ تمھاری شفاعت کرے، وہ گناھگار کھے گا: نھیں،خطاب ھوگا: کیا کسی عالم کے دسترخوان پر کھانا کھایا ھے؟ وہ کھے گا: نھیں، خطاب ھوگا: کیا کسی عالم کی جگہ پر بیٹھے ھو؟ گناھگار کھے گا: نھیں، اس سے کھا جائے گا: کیا کسی عالم کے ھمنام ھو؟کھے گا: نھیں، سوال ھوگا: کیا تمھارے کوئی ایسا دوست ھے جو عالم کا دوست ھو؟ اس موقع پر وہ کھے گا: ھاں۔ خطاب ھوگا: اے جبرئیل! میرے اس بندہ کو اپنے بے نھایت لطف و کرم کی بدولت بخش دیا، اس کے ساتھ نوازش کرو، اور اس کو جنت میں داخل کردو۔

جناب داؤد کے ھم عصر ایک جوان پر خدا کا لطف و کرم

شیخ صدوق علیہ الرحمہ روایت کرتے ھیں: ایک جوان حضرت داؤد علیہ السلام کی محفل میں شرکت کیا کرتا تھا،وہ جوان بہت کمزور اور پتلا دبلا تھا، زیادہ تر چپ چاپ رھا کرتا تھا۔

ایک روز ملک الموت جناب داؤد علیہ السلام کے پاس آئے، درآنحالیکہ اس جوان کو مخصوص طریقہ سے دیکھ رھے تھے، جناب داؤد نے کھا: اس پر نظر رکھے ھوئے ھو؟ اس نے کھا: جی ھاں، مجھے حکم ھے کہ سات روز کے بعد اس کی روح قبض کرلوں۔جناب داؤد علیہ السلام کو اس جوان پر رحم آیا اور اس سے کھا: اے جوان کیا تمھاری زوجہ ھے؟اس نے کھا: میں نے ابھی تک شادی نھیں کی ھے۔

جناب داوٴد علیہ السلام نے کھا: فلاں صاحب عظمت شخص کے پاس جاؤ اور اس سے کھو کہ جناب داوٴد علیہ السلام نے کھا ھے کہ اپنی لڑکی کی مجھ سےشادی کردو، اور مقدمات فراھم کرلو تاکہ آج ھی رات میں یہ شادی ھوجائے۔ اس کے بعد جناب داوٴد علیہ السلام نے اس جوان کو کافی پیسہ دیاتاکہ اس کے ذریعہ ضروری سامان خرید لے او رکھا: سات دن کے بعد میرے پاس آنا۔

وہ جوان گیا اور شادی کے سات دن بعد حضرت داوٴد علیہ السلام کے پاس آیا، انھوں نے اس کے حالات پوچھے تو اس نے کھا: میرا حال آپ سے بہتر ھے، حضرت داوٴد علیہ السلام اس کی روح قبض ھونے کے منتظر تھے، لیکن ایسا کچھ نھیں ھوا، فرمایا: جاؤ او ردوبارہ سات دن کے بعد میرے پاس واپس آنا۔

وہ جوان واپس چلا گیا، اور پھر سات دن کے بعد واپس آیا، پھر بھی اس کی موت نھیں آئی، آپ نے پھر ایک بار اس کو کھا: جا ؤاور سات دن کے بعد پھر آنا، وہ گیا اور سات دن کے بعد پھر واپس آگیا، اس روز ملک الموت پھر آگئے، تو حضرت داوٴد علیہ السلام نے ملک الموت سے کھا: کیا تم نے نھیں کھا تھا کہ اس جوان کو سات دن کے بعد مرنا ھے؟ ملک الموت نے کھا: کھا تھا۔ حضرت داوٴد علیہ السلام نے کھا: تو کیا وجہ ھے اس کو تین ہفتہ گذر گئے ھیں لیکن تم نے اس کی روح قبض نہ کی؟! ملک الموت نے کھا: اے داوٴد، خداوندعالم نے اس جوان پر تمھارے رحم آنے کی بنا پر اس پر رحم کردیا اور اس کی عمر تیس سال بڑھادی ھے۔[74]

قارئین کرام! خداوندعالم ، اگر کوئی انسان تھوڑا ساھاتھ پھیلائے تو اس کی طرف اپنے رحمت کی بارش کردیتا ھے، اور اس کو ھر طرف سے اپنے لطف و کرم سے نوازتا ھے۔

اسیر کی آزادی کے لئے پانچ صفات

ایک بہت اھم حدیث میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ھے:

چند اسیروں کو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں لایا گیا، آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ایک شخص کے علاوہ سب کو قتل کرنے کا حکم دیدیا، اس نے تعجب سے سوال کرتے ھوئے عرض کیا: آپ نے میری آزادی کا فرمان صادر کیا ھے؟ تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: جبرئیل امین نے مجھے خبر دی ھے کہ تیرے اندر پانچ صفات ھیں جن کو خدا دوست رکھتا ھے:

”اٴلغَیْرَةُ الشَّدِیْدَةُ عَلٰی حَرَمِکَ، وَالسَّخَاءُ، وَحُسْنُ الْخُلُقِ، وَصِدْقُ الْلِسَانِ، وَالشُّجَاعَةُ“۔

”اپنے محرموں کے بارے میں بہت زیادہ غیرت، سخاوت، اخلاق حسنہ، زبان میں سچائی، اور شجاعت“۔

چنانچہ وہ شخص اس عجیب واقعہ کو دیکھ کر مسلمان ھوگیا، اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ساتھ جھاد کیا اور جام شھادت نوش کیا!![75]

غلام اھل توحید

حضرت امام صادق علیہ السلام نے ایک خطاکار غلام کو تازیانے مارنے کا حکم دیا۔

اس غلام نے کھا: اے فرزند رسول! آپ اس کو تازیانہ مارنے کا حکم دیتے ھیں جس کا شفاعت کرنے والا آپ کے علاوہ کوئی نھیں، آپ کا فضل و کرم اور احسان کھاں ھے؟ اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کو رھا کردو۔

اس موقع پر اس غلام نے کھا: آپ نے مجھے رھا نھیں کیا ھے، بلکہ اس نے رھا کرایا ھے جس نے میری زبان پر یہ کلمات جاری کئے ھیں۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: پروردگار کعبہ کی قسم! یہ غلام اھل توحید ھے، اس نے خدا کے ساتھ کسی غیر خدا کو شریک نھیں کیا ھے!

ھاں! اھل توحید کے ساتھ فضل و کرم کے علاوہ معاملہ نہ ھوا ھے اور نہ ھی ایسا ھوگا۔جو شخص خدا کی وحدانیت کی گواھی دے اور ایک حد تک خداکی مرضی کے مطابق عمل کرے، تو ایسا شخص خدا وندعالم کے بے کراں لطف و کرم سے نوازا جائے گا۔

حضرت یوسف(ع) کی بے گناھی کی گواھی دینے والے کا انجام

قرآن مجید کی بعض تفاسیر میں منقول ھے: جب حضرت یوسف(ع)مصر کی مسند حکومت پر جلوہ افروز ھوئے، تو انھوں نے سوچا کہ اپنی حکومت کے لئے ایک وزیر کی ضرورت ھے، تاکہ معاشرہ کی اصلاح اور تربیت کا بندو بست کرے، اور ان کے ساتھ عدل و محبت کا سلوک کرے۔

اس وقت جناب جبرئیل امین نازل ھوئے او رکھا:

خدا فرماتا ھے کہ تمھیں ایک وزیر کی ضرورت ھے، جناب یوسف(ع) نے کھا: میں بھی یھی سوچ رھا ھوں، لیکن اس منصب کے لئے مناسب شخص کے بارے میں علم نھیں ھے؟

جبرئیل نے فرمایا:

کل جب آپ حکومت کے دروازے سے باھر نکلیں تو جو شخص سب سے پھلے آپ سے ملاقات کرے وھی اس عھدہ کا حقدار ھے، چنانچہ جب دوسرے روز حضرت یوسف باھر نکلے تو سب سے پھلے ایسا شخص ملا، جو بہت کمزور اور دبلا پتلا اور اچھی شکل والا نہ تھااور اپنی پیٹھ پر ایندھن لادے ھوئے ھے، جناب یوسف نے خود سے کھا:

یہ شخص وزارت کی صلاحیت نھیں رکھتا، اور چاھا کہ اس سے منھ پھیر کر چلے جائیں، لیکن جناب جبرئیل نازل ھوئے اور کھا:

اس کو مت چھوڑئےے اور اس کو اپنی وزارت کے لئے انتخاب کرلیجئے، کیونکہ اس کا آپ پر احسان ھے، یھی وہ شخص ھے جس نے عزیز مصر کے دربار میں آپ کی سچائی کی گواھی دی تھی، اس میں آپ کی وزارت کا عھدہ سنبھالنے کی صلاحیت ھے۔

قارئین کرام! جب خداوندعالم حضرت یوسف کی پاکیزگی کی صحیح گواھی دینے والے کو جناب یوسف کا وزیر بنادیا، تو اگر کوئی شخص پوری عمر اس کی وحدانیت کی گواھی دے تو اس کے ساتھ کیا کرے گا؟!!

جی ھاں، خدائے رحمن و مھربان کا لطف وکرم اوراس کا احسان کوئی ایسی شئے نھیں ھے جو کسی کی سمجھ میںآسکے، اس مقام پر عقلمندوں کی عقل اور خردمندوں کی خرد اور ھوشیاروں کے ھوش اُڑجاتے ھیں، اور کسی میں بھی ان حقائق کو کما حقہ سمجھنے کی طاقت نھیں ھے۔

” اِٴلٰھي وَسَیِّدِي،فَاٴَسْاٴَلُکَ بِالْقُدْرَةِ الَّتي قَدَّرْتَھٰا،وَبِالْقَضِیَّةِ الَّتي حَتَمْتَھٰاوَحَکَمْتَھٰا،وَغَلَبْتَ مَنْ عَلَیْہِ اٴَجْرَیْتَھٰا،اٴَنْ تَھَبَ

لِي فِي ھٰذِہِ اللَّیْلَةِ وَفي ھٰذِہِ السّٰاعَةِ کُلَّ

جُرْمٍ اٴَجْرَمْتُہُ،وَکُلَّ ذَنْبٍ اٴَذْنَبْتُہُ،وَکُلَّ قَبیحٍ اٴَسْرَرْتُہُ،

وَکُلَّ جَھَلٍ عَمِلْتُہُ،کَتَمْتُہُ اٴَوْاٴَعْلَنْتُہُ،

اٴَخْفَیْتُہُ اٴَوْ اٴَظْھَرْتُہُ“۔

” تو خدایا ۔مولایا۔میں تیری مقدر کردہ قدرت اور تیری حتمی حکمت و قضاوت

اور ھر محفل نفاذ پر غالب آنے والی عظمت کا حوالہ دے کر تجھ سے سوال کرتاھوں

کہ مجھے اِسی رات میں اور اِسی وقت معاف کردے۔ میرے سارے جرائم،

سارے گناہ اور ساری ظاھری اور باطنی برائیاں اور ساری جھالتیں جن پر میں

نے خفیہ طریقہ سے یا علی الاعلان، چھپا کر یا ظاھر کر کے عمل کیا ھے“۔

قارئین کرام ! دعا کے ابتدائی حصہ میں ”اللّٰھم اغفر لی الذنوب اللتی۔۔۔“ کے جملات میں گناہ اور اس کے آثار کے بارے میں تفصیل کے ساتھ شرح دی جاچکی ھے، دوبارہ شرح کرنے کی ضرورت محسوس نھیں ھوتی۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام دعا کے اس حصہ میں خلوت اورجلوت میں ھونے والے گناھوں کی طرف اشارہ فرماتے ھیں اور خدا وندعالم کی بارگاہ میں ان کی بخشش کی دعا فرماتے ھیں۔

جی ھاں، شب جمعہ ، راز و نیاز کا وقت اور مناجات و توبہ کے لمحات ھیں، چشم پُرنم اور نالہ و زاری کے ساتھ تیری بارگاہ میں حاضر ھوا ھوں، تاکہ تو میرے تمام گناھوں کو بخش دے، اور اس رات میں میرے اوپر رحمت و عنایت اور کرامت و مغفرت کے دروازے کھول دے۔(آمین)

آمد بہ درت امیدواری کو را بہ جز از تو نیست یاری

محنت زداہ ای نیازمندی خجلت زدہ ای گناھگاری

از یار جدا افتاد عمری و ز دوست بماندہ روزگاری

شاید ز در تو بازگردد نومید چنین امیدواری

بخشای ز لطف بر ”عراقی“ کو ماندہ کنون و زینھاری

تیرے دروازے پر ایک امیدوار شخص آیاھے کہ تیرے علاوہ اس کا کوئی ناصر و مددگار نھیں ھے۔

یہ گناھگار، شرمندہ ،پریشان حال اور نیاز مند ھے۔

ایک مدت تک اپنے محبوب (خدا) سے دور رھا اور اپنے دوست سے بے مروتی کی ھے۔

تیرے در سے خالی ھاتھ اور ناامید شاھد ھی پلٹے

”عراقی“ پر اپنا خاص لطف و کرم فرما تاکہ وہ بے یار و مددگار نہ رھے۔

” وَکُلَّ سَیِّئَةٍ اٴَمَرْتَ بِاِٴثْبٰاتِھاَ الْکِرٰامَ الْکٰاتِبینَ،اَلَّذینَ

وَکَّلْتَھُمْ بِحِفْظِ مٰایَکُونُ مِنِّي،وَجَعَلْتَھُمْ شُھُوداً

عَلَیَّ مَعَ جَوٰارِحِي،وَکُنْتَ اٴَنْتَ الرَّقیبَ عَلَیَّ

مِنْ وَرٰائِھِمْ،وَالشّٰاھِدَ لِمٰاخَفِيَ عَنْھُمْ،وَبِرَحْمَتِکَ اٴَخْفَیْتَہُ،

وَبِفَضْلِکَ سَتَرْتَہُ،وَاٴَنْ تُوَفِّرَحَظّي مِنْ کُلِّ خَیْرٍاٴَنْزَلْتَہُ ،

اٴَوْاِٴحْسٰانٍ فَضَّلْتَہُ،اٴَوْ بِرٍّ نَشَرْتَہُ،اٴَوْرِزْقٍ بَسَطْتَہُ،اٴَوْذَنْبٍ

تَغْفِرُہُ،اٴَوْخَطَاءٍ تَسْتُرُہُ“۔

” اور میری تمام خرابیاں جنھیں تونے درج کر نے کا حکم کراماً کاتبین کو دیا ھے جن کواعمال کے محفوظ کرنے کے لئے معین کیا ھے اور میرے اعضاء و جوارح کے ساتھ ان کو میرے اعمال کا گواہ قرار دیا ھے اور پھر تو خود بھی ان سب کی نگرانی کررھا ھے اور جوان سے مخفی رہ جائے اس کا گواہ ھے سب کو معاف فرمادے۔یہ تو تیری رحمت ھے کہ تونے انھیں چھپا دیا ھے اور اپنے فضل وکرم سے ان عیوب پر پردہ ڈال دیا ھے۔میرے پروردگار اپنی طرف سے نازل ھونے والے ھر خیر و احسان اور نشر ھونے والی ھرنیکی ۔ھر وسیع رزق۔ھر بخشے ھوئے گناہ۔ عیوب کی ھر پردہ پوشی میں سے میرا وافر حصہ قرار دے“۔

کرام الکاتبین اور انسان کے اعضاء وجوارح

کرام الکاتبین (فرشتوں)کے ذریعہ انسان کے تمام اعمال کا لکھا جانا اور ان کے ساتھ انسانی کردار پر اعضاء وجوارح کا گواھی دینا، یہ وہ حقیقت ھے جس پر قرآنی آیات اور روایات معصومین علیھم السلام دلالت کرتی ھیں۔

”وَاِنَّ عَلَیْکُم لَحَافِظینَ کِراماً کَاتِبینَ یَعْلَمونَ مَا تَفْعَلونَ۔“[76]

”اور یقینا تمھارے سروں پر نگھبان مقرر ھیں۔جو باعزت لکھنے والے ھیں“۔

” حَتَّی إِذَا مَا جَائُوہَا شَہِدَ عَلَیْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاٴَبْصَارُہُمْ وَجُلُودُہُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ .وَقَالُوا لِجُلُودِہِمْ لِمَ شَہِدْتُمْ عَلَیْنَا قَالُوا اٴَنطَقَنَا اللهُ الَّذِی اٴَنطَقَ کُلَّ شَیْءٍ۔۔۔“[77]

”یھاں تک کہ جب سب جھنم کے پاس آئےں گے تو ان کے کان ان کی آنکھیں اور جلد (کھال) ان کے اعمال کے بارے میں ان کے خلاف گواھی دیں گے۔ اور وہ اپنے اعضاء سے کھیں گے کہ تم نے ھمارے خلاف کیسے شھادت دیدی تو وہ جواب دیں گے کہ ھمیں اسی خدا نے گویا بنایا ھے جس نے سب کو گویائی عطا کی ھے۔۔۔“۔

” یَوْمَ تَشْہَدُ عَلَیْہِمْ اٴَلْسِنَتُہُمْ وَاٴَیْدِیہِمْ وَاٴَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ۔“[78]

”قیامت کے دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ھاتھ پاؤں سب گواھی دیں گے کہ یہ کیا کررھے تھے “۔

”الْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلَی اٴَفْوَاہِہِمْ وَتُکَلِّمُنَا اٴَیْدِیہِمْ وَتَشْہَدُ اٴَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ ۔“[79]

”آج ھم ان کے منھ پر مھر لگا دیں گے اور ان کے ھاتھ بولیں گے اور ان کے پاؤں گواھی دیں گے کہ یہ کیسے اعمال انجام دیا کرتے تھے“۔

” مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلاَّ لَدَیْہِ رَقِیبٌ عَتِیدٌ۔“[80]

”وہ کوئی بات منھ سے نھیں نکالتا مگر یہ کہ ایک نگھبان اس کے پاس موجود رہتا ھے“۔

کرام الکاتبین ، رقیب و عتید ، انسان کی زبان،کان، ھاتھ اور پیر کے علاوہ زمین پر انسان کے اعمال کی گواھی دے گی،اور انسان کی سعی و کوشش کے بارے میں خبر دے گی، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ھوتا ھے:

”یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اٴَخْبَارَھَا بِاٴَنَّ رَبَّکَ اٴَوْحَیٰ لَھا۔“[81]

”اس دن وہ اپنی خبریں بیان کرے گی کہ تمھارے پروردگار نے اسے اشارہ کیا ھے “۔

اسی طرح خدا و رسول اور ائمہ علیھم السلام بھی انسان کے اعمال کو دیکھتے ھیں اور روز قیامت ان کے خلاف گواھی دیں گے، جیسا کہ سورہ توبہ میں ارشاد ھوتا ھے:

”وَقُلْ اعْمَلُوا فَسَیَرَی اللهُ عَمَلَکُمْ وَرَسُولُہُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَی عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَةِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ ۔“[82]

”اور پیغمبر کہہ دیجئے کہ تم لوگ عمل کرتے رھو کہ تمھارے عمل کو اللہ رسول اور صاحبان ایمان سب دیکھ رھے ھیںاور عنقریب تم اس خدائے عالم الغیب والشھادہ کی طرف پلٹا دئے جاؤگے اور وہ تمھیں تمھارے اعمال سے باخبر کرے گا“۔

البتہ اس طرح کی آیات سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ گواھوں کی گواھی، کفار، معاندین (دشمن خدا و رسول) اور خدا و رسول کی مخالفت کرنے والے اور ماھر مجرمین کے خلاف ھوگی، کیونکہ مومنین اور توبہ کرنے والوں پر روز قیامت خداوندعالم کی رحمت نازل ھوگی، اور ان کے نامہ اعمال کسی غیر کے سامنےپیش نہ ھوں گے، اور خداوندمھربان گواھوں کی یاد داشت کو بھلا دے گا ، اور ان کی عزت و آبرو کو محفوظ رکھے گا۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

”مَن تَابَ اللّٰہُ عَلَیہِ،اٴُمِرَتْ جَوَارِحُہُ اٴَنْ تَسْتُرَ عَلَیہِ،وَبِقاعُ الاٴَرضِ اٴنْ تَکْتُمَ عَلَیہِ،وَاٴُنسِیَتِ الحفَظَةُ ماکَانَتْ تَکتُبُ عَلَیہِ“[83]

”جو شخص خدا کی بارگاہ میں توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرلے تو اس کے اعضاء و جوارح کوحکم ھوگا کہ اس کے گناھوں کو چھپادیں، اور زمین کے حصوں کو حکم دے گا کہ اس کے گناھوں کو چھپالیںاور جو کچھ بھی نامہ اعمال لکھنے والوں نے لکھا ھے ان کو بھی بھلادیں۔

حضرت امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ھے:

”اِذا تَابَ العَبدُ المُوٴمنُ تَوْبةً نَصوحاً اٴَحَبَّہُ اللّٰہُ فَسَتَرَ عَلَیہِ فِی الدُّنیا وَ الٓاخِرةِ، قُلتُ وَ کَیْفَ یَسْتُرُ عَلَیْہِ؟قَالَ:یُنْسِی مَلَکَیْہِ ماَ کَتَبا علیہ مِنِ الذُّنوبِ۔۔۔فَیَلْقَی اللّٰہَ حِینَ یَلقَاہُ وَلیسَ شَیْءٌ یَشْھَدُ عَلَیہِ بِشَیْءٍ مِن الذُّنُوبِ“[84]

”جب کوئی بندہ ٴمومن خالص توبہ کرتا ھے تو خداوندعالم اس سے محبت کرنے لگتا ھے، اور دنیا و آخرت میں اس کے گناھوں کو چھپالیتا ھے۔ معاویہ بن وھب کہتے ھیں کہ (خداوندعالم) کس طرح اس کے گناھوں کو چھپالیتا ھے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کے گناھوں کو لکھنے والے فرشتوں کو بھلا دیتا ھے، پس وہ روز قیامت اس حال میں خدا سے ملاقات کرے گا کہ کوئی بھی اس کے خلاف گواھی دینے والا نہ ھوگا“۔

”یٰارَبِّ یٰارَبِّ یٰارَبِّ، یٰااِٴلٰھيوَ سَیِّدِي وَمَوْلٰايَوَمٰالَکَ

رِقّی،یٰامَنْ بِیَدِہِ نٰاصِیَتِي،یٰاعَلیماً بِضُرِّي

وَمَسْکَنَتي،یٰاخَبیراً بِفَقْرِي وَ فٰاقَتِي۔ یٰارَبِّ یٰارَبِّ یٰارَبِّ،

اٴَسْاٴَلُکَ بِحَقِّکَ وَقُدْسِکَ،وَاٴَعْظَمِ صِفٰاتِکَ وَاٴَسْمٰائِکَ،

اٴَنْ تَجْعَلَ اٴَوْقٰاتِي مِنَ اللَّیْلِ وَالنَّھٰارِ بِذِکْرِکَ مَعْمُورَةً،

وَبِخِدْمَتِکَ مَوْصُولَةً، وَاٴَعْمٰاليعِنْدَکَ مَقْبُولَةً،

حَتّٰی تَکُونَ اٴَعْمٰاليوَاٴَوْرٰادِي کُلُّھٰاوِرْداً وَاحِداً،وَحٰالِي

في خِدْمَتِکَ سَرْمَداً۔ یٰاسَیِّدِي یَامَنْ عَلَیْہِ مُعَوَّلِي،

یٰا مَنْ اِٴلَیْہِ شَکَوْتُ اٴَحْوٰالي،یٰارَبِّ یٰارَبِّ یٰارَبِّ“۔

”اے میرے رب ۔اے میرے رب۔اے میرے رب۔اے میرے مولا اور آقا! اے میری بندگی کے مالک۔اے میرے مقدر کے صاحب اختیار۔ اے میری پریشانی اور بے نوائی کے جاننے والے۔ اے میرے فقر و فاقہ کی اطلاع رکھنے والے! اے میرے پروردگار۔ اے میرے رب۔اے میرے رب! تجھے تیری قدوسیت ۔تیرے حق اور تیرے عظیم ترین اسماء وصفات کا واسطہ دے کر یہ سوال کرتاھوں کہ دن اور رات میں جملہ اوقات اپنی یاد سے معمور کردے۔اپنی خدمت کی مسلسل توفیق عطا فرما۔میرے اعمال کو اپنی بارگاہ میں مقبول قرار دے تاکہ میرے جملہ اعمال اور جملہ اوراد (یعنی ورد کی جمع) سب تیرے لئے ھوں اور میرے حالات ھمیشہ تیری خدمت کے لئے وقف رھیں۔ میرے مولا۔میرے مالک! جس پر میرا اعتماد ھے اور جس سے میں اپنے حالات کی فریاد کرتا ھوں۔ اے رب۔اے رب۔اے رب!“

اسم اعظم

عرفاء اور اولیاء الٰھی کے ایک گروہ کا یہ عقیدہ ھے: لفظ مبارک ”ربّ“ جس کے معنی: مالک، پالنے والے اور صاحب اختیار کے ھیں جو اپنی مخلوق کی بے لوث تربیت کرتا ھے، یہ لفظ ”اسم اعظم“ ھے، جس کے ذریعہ انسان پر رحمت خدا نازل ھوتی ھے، اور اس کی پریشانیاںدور ھوجاتی ھیں، بلکہ اس کے گناہ اور خطائیں بخش دی جاتی ھیں گویا اس کے گناہ آب مغفرت سے دھل کر صاف ستھرے ھوجاتے ھیں۔

تمام انبیاء اور ائمہ علیھم السلام کی دعا، مناجات اور مشکلات و پریشانی کے وقت اسی نام سے متوسل ھونے کی علت یھی ھو سکتی ھے کہ لفظ ”ربّ“ کو اسم اعظم جانتے تھے۔

حضرت آدم و حوا علیھما السلام نے توبہ کے وقت عرض کیا:

”رَبَّنَا ظَلَمْنَا اٴَنفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنْ الْخَاسِرِینَ ۔“[85]

”پروردگار ھم نے اپنے نفس پر ظلم کیا ھے اب اگر تو معاف نہ کرے گا تو ھم خسارہ اٹھانے والوں میں ھوجائیں گے“۔

جناب نوح نے نو سو پچاس برس تک کفار و مشرکین کے ظلم و ستم سھنے اور ھدایت سے پریشان ھوکر بارگاہ الٰھی میں عرض کرتے ھیں:

”۔۔۔ رَبِّ لاَتَذَرْ عَلَی الْاٴَرْضِ مِنْ الْکَافِرِینَ دَیَّارًا۔“[86]

”(اور نوح نے کھا)پروردگارا! اس زمین پر کافروں میں سے کسی بسنے والے کو نہ چھوڑنا“۔

حضرت ابراھیم علیہ السلام اپنی دعا اور مناجات میں فرماتے تھے:

” رَبِّ ہَبْ لِی حُکْمًا وَاٴَلْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ ۔“[87]

”خدایا !مجھے علم و حکمت عطا فرما اور مجھے صالحین کے ساتھ ملحق کردے“۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نیاز اور احتیاج کے وقت عرض کرتے تھے:

”۔۔۔ رَبِّ إِنِّی لِمَا اٴَنزَلْتَ إِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیرٌ ۔“[88]

”عرض کی پروردگار یقینا میںاس خیر کا محتاج ھوں جو تو میری طرف بھیج دے“۔

حضرت سلیمان علیہ السلام مغفرت اور بے نظیر حکومت کی درخواست کرتے تھے:

”۔۔۔ رَبِّ اغْفِرْ لِی وَہَبْ لِی مُلْکًا لاَیَنْبَغِی لِاٴَحَدٍ مِنْ بَعْدِی۔۔۔“[89]

”پروردگارا!مجھے معاف فرما اور ایک ایسا ملک عطا فرما جو میرے بعد کسی کے لئے سزا وار نہ ھو“۔

حضرت زکریا علیہ السلام اپنے لئے بیٹے کی درخواست ان الفاظ میں کرتے ھیں:

”۔۔۔رَبِّ لَا تَذَرْنِی فَرْداً وَ اٴَنْتَ خَیْرُ الوَارِثِینَ۔“[90]

”پروردگار مجھے اکیلا نہ چھوڑدینا کہ تو تمام وارثوں سے بہتر وارث ھے“۔

حضرت یوسف علیہ السلام شکر گزاری اور اپنی حاجتوں کی برآری کے لئے عرض کرتے ھیں:

”رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی مِنْ الْمُلْکِ وَعَلَّمْتَنِی مِنْ تَاٴْوِیلِ الْاٴَحَادِیثِ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ

وَالْاٴَرْضِ اٴَنْتَ وَلِیِّ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِی مُسْلِمًا وَاٴَلْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ۔“[91]

”پروردگار تو نے مجھے ملک بھی عطا کیا ھے اور خوابوں کی تعبیر کا علم بھی دیا ،تو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ھے اور دنیا و آخرت میں میرا ولی اور سرپرست ھے مجھے دنیا سے فرما نبردار اٹھانا اور صالحین سے ملحق کردینا“

جناب ایّوب علیہ السلام بھی پریشانیوں کے عالم میں دست بہ دعا ھوتے ھیں:

”۔وَاٴَیُّوْبَ إِذْ نَادَیٰ رَبَّہُ اٴَنِّی مَسَّنِیَ الضُّرُّوَاٴَنْتَ اٴرحَمُ الرَّاحِمِین ۔“[92]

”اور ایوب کو یاد کرو جب انھوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ مجھے بیماری نے چھو لیا ھے اور تو بہترین رحم کرنے والا ھے“۔

اسی طرح پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا:

” وَقُلْ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاٴَنْتَ خَیْرُ الرَّاحِمِین۔“[93]

”اور پیغمبر آپ کہئے کہ پروردگار میری مغفرت فرما اور مجھ پر رحم کر کہ تو بہترین رحم کرنے والا ھے“۔

صالحین اور مومنین ، جب زمین و آسمان کی خلقت میں غور و فکر کرتے ھیں تو کہتے ھیں:

”۔۔۔رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذَا بَاطِلًا۔۔۔“[94]

”خدایا !تو نے یہ سب بیکار نھیں پیدا کیا ھے“۔

وہ ابلیس جو نھایت تکبر اور عصیان کی حالت میں تھا، خدا سے روز قیامت تک کی مھلت اسی نام کے ذریعہ طلب کی :

” قَالَ اٴَنظِرْنِی إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ ۔“[95]

”اس نے کھا پھر مجھے قیامت تک کی مھلت دیدے“۔

خدا کی بارگاہ کا مردود شیطان (بھی)خدا کو اس نام سے پکارتا ھے تو اس کو قیامت تک کی مھلت مل گئی۔

حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے منقول ھے کہ جو شخص خداوندعالم کو ”یاربّ“ کہہ کر پکارے تو اس کی دعا قبول ھوتی ھے۔

اسی طرح منقول ھے کہ جب کوئی بندہ مومن خدا کو ایک بار اس نام سے پکارتا ھے اور کہتا ھے:”یاربّ“ تو خدا اس کے جواب میں کہتا ھے: ”لبیک“ اور جب بندہ مومن خدا کو اس نام سے دوسری اور تیسری بار پکارتا ھے تو خدا کہتا ھے: مانگ تیری کیا حاجت ھے، تاکہ تیری حاجت پوری کردوں۔[96]

مقبول اعمال

تمام انبیاء، ائمہ معصومین علیھم السلام اور اولیاء الٰھی ھمیشہ بارگاہ رب العزت میں یہ دعا کرتے تھے: اے خدائے مھربان! ھمارے اعمال کو قبول فرما، اور ھمارے ساتھ لطف وکرم کا معاملہ فرما۔

یہ تمام بزگوار حضرات اس حقیقت سے آگاہ تھے: اگر کوئی شخص عمل انجام نھیں دے گا توکل روز قیامت اس کی جزا بھی نھیں ملے گی، اور اگر کسی شخص نے عمل انجام دئے ھیں لیکن عمل کے لئے ضروری شرائط جیسے ایمان اور اخلاص نہ ھو،تو بھی خدا کی رحمت سے محروم رھے گا۔لہٰذا عمل کو اس کے تمام شرائط کے ساتھ انجام دینا بہت زیادہ اھمیت کا حامل ھے، اور جب انسان شائستہ طریقہ سے اعمال انجام دے ، تو خداوندعالم کی بارگاہ میں اس کے قبول ھونے کی دعا کرے: ”وَاٴَعْمٰالي عِنْدَکَ مَقْبُولَةً“۔

قرآن و حدیث میں اس بات کی بہت تاکید کی گئی ھے: وہ عمل قابل قبول ھے جس کا انجام دینے والا صاحب ایمان ھو اور خدا کی خوشنودی کے لئے ھو اور اس کے احکام وفرامین کے مطابق ھو۔

جاننا چاہئے کہ مومن کے ھی اعمال قبول ھوتے ھیں اور مومن ھی کے گناہ بخشے جائیں گے۔ کافر اور معاند (دشمن خدا و رسول) کے اعمال قبول نھیں ھوں گے چاھے وہ عمل کتنا ھی عظیم اور اھم ھو، او ران کا چھوٹے سے چھوٹا گناہ بھی قابل بخشش نھیں ھوتا۔

عمل کی اھمیت،اس کے حالات اور اس کے ثواب کے بارے میں بہت سی اھم روایات معتبر کتابوں میں بیان ھوئی ھیں، جن میں چند ایک کی طرف اشارہ کیا جارھا ھے:

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

”الشَّرفُ عِندَ اللّٰہِ سُبحانَہُ بِحُسنِ الاٴعمَالِ لا بِحُسنِ الاٴقوَالِ“[97]

” خدا کے نزدیک شرف اور بزرگواری اچھے اعمال کے سبب ھے، اچھی باتوں کے ذریعہ نھیں“۔

”العَمَلُ شِعارُ المُوٴمِنِ“[98]

”عمل مومن کا شعار ھے“۔

”المُداوَمَةَ المُداوَمَةَ!فَاِنَّ اللّٰہَ لَم یَجْعَل لِعَمَل المُوٴ مِنینَ غَایَةً اِلاَّ المَوتَ“[99]

”ھمیشہ اعمال صالحہ انجام دیتے رھو ،ھمیشہ اعمال صالحہ انجام دیتے رھو کیونکہ خداوندعالم نے مومن کے عمل کرنے کے لئے موت کے علاوہ اورکوئی حدقرار نھیں دی ھے “۔

”اٴَعلَی الاٴعمَالِ اِخلاصُ الإیمانِ وَ صِدْقُ الوَرَعِ وَالإیقَان“[100]

”بہترین اعمال؛ ایمان میں اخلاص اور تقویٰ ویقین میں صداقت ھے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ھے:

”دَعَا اللّٰہُ النَّاسَ فِی الدُّنیا بِآبائِھِم لِیَتَعَارَفُوا، وفِی الٓاخِرَةِ بِاٴعْمالِھِم لِیُجَازَوُا “[101]

”خداوندعالم دنیا میں انسانوں کو ان کے باپ کے ناموں سے پکارتا ھے ،تاکہ ایک دوسرے کی پہچان ھوسکے، لیکن آخرت میں ان کے اعمال کے ذریعہ پکارے گا تاکہ ان کو جزا یا سزا دی جاسکے“۔ اس کے بعد فرمایا:

”یَا اٴَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا، یَا اٴَیُّہَا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا“، حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ھے:

”اٴفضَلُ الاٴعمَالِ اِیمَانٌ بِاللّٰہِ وَتَصدیقٌ بِہ وَجِھادٌ فِی سَبیلِ اللّٰہِ وَحَجُّ مَبرورٌ، وَاٴھوَنُ عَلیکَ مِن ذَالکَ اِطعامُ الطَّعامِ وَلِینُ الکَلامِ وَالسَّماحَةُ وَحُسنُ الخُلقِ، وَاٴھوَنَ عَلیکَ مِن ذَالکَ اٴنْ لاٰ تَتَّھِمَ اللّٰہَ فِی شَیْءٍ قَضاہُ اللّٰہُ عَلَیکَ“[102]

”سب سے بہتر ین اعمال، خدا پر ایمان اور اس کی تصدیق ھے، راہ خدا میں جھاد اور قبول شدہ حج ھے، ان سے کم درجہ فقیروں کو کھانا کھلانا، گفتگو میں نرم لہجہ اختیار کرنا اور خوش اخلاق ھونا ھے، اس سے کم یہ ھے کہ قضا قدر الٰھی میں چون و چرا کرکے اس پر بہتان نہ باندھو“۔

نیز آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ھے:

”سَیّدُ الاٴعمَالِ ثَلاثُ خِصالٍ :اِنصافُکَ النَّاسَ مِن نَفسِکَ،وَمُواسَاتُکَ الاٴَخُ فِی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ،وَذِکرُ اللّٰہِ تَعالی عَلی کُلِّ حالٍ “[103]

”تین خصلتیں اعمال کی سردار ھیں: اپنے ساتھ انصاف کرنا، دینی بھائیوں کی امداد کرنااور ھر حال میں یاد خدا کرتے رھنا“۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

”فَطُوبَی لِمَن اٴخلَصَ للّٰہِ عَمَلَہُ وَعِلمَہ وَحُبَّہ وَ بُغضَہ وَاٴخذَہ وَتَرکَہ وَکَلامَہ وَصَمتَہ وَفِعلَہ وَقَولَہ“[104]

”لائق مبارکبادھے وہ شخص جس کا علم و عمل، دوستی و دشمنی، لین دین، گفتگو اور سکوت اختیار کرنااور رفتار وگفتار خالص خدا کے لئے ھو“۔

حضرت رسول خدا (ص) جناب ابوذر سے وصیت فرماتے ھیں:

”کُن بِالعَمَلِ بِالتَّقوَی اٴشدَّ اھتِمَاماً مِنکَ بِالعَمَلِ ؛فَاِنَّہُ لَایَقِلُّ عَمَلٌ بِالتَّقوَی،وَکَیفَ یَقِلُّ عَمَلٌ یُتَقَبَّل، یَقُولُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ :”اِنَّما یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ المُتَّقینَ ۔“[105]

”عمل سے زیادہ تقویٰ الٰھی کااہتمام کرو، کیونکہ تقویٰ کے ساتھ کوئی بھی عمل قلیل نھیں ھے، کیونکہ جو عمل قبول ھوجائے وہ کم نھیں ھے، خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے: ”ھم صرف متقین کے (اعمال) قبول کرتے ھیں“۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

”اِنَّکَ لَن یُتَقَبَّلُ مِن عَمَلِکَ اِلاَّ مَا اٴخلَصتَ فِیہِ“[106]

”یقینا تمھارے وھی اعمال قبول ھوں گے جن میں اخلاص پایا جاتا ھوگا“۔

بھر حال صاحب ایمان اور اھل یقین نیز پرھیزگارافراد کا عمل قابل قبول ھے، اعمال کے قبول ھونے کی اھمیت اس قدر زیادہ ھے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

”مَن قَبِلَ اللّٰہُ مِنْہُ صَلاةً وَاحِدَةً لَم یُعَذِّبْہُ۔وَمَن قَبِلَ مِنْہُ حَسَنَةً لَم یُعَذِّبْہُ“[107]

”جس شخص کی ایک نماز بارگاہ الٰھی میں قبول ھوجائے تو وہ اس پرعذاب نھیں کرے گا، اسی طرح اگر کسی انسان سے ایک نیک کام قبول کرلیا گیاتو اس کو بھی عذاب نھیں ھوگا“۔

”مَن قَبِلَ اللّٰہُ مِنْہُ حَسَنَةً وَاحِدَةً لَم یَعَذِّبْہُ اٴبَداً وَدَخَلَ الجَنَّةَ“[108]

”جس شخص کا ایک نیک عمل بارگاہ الٰھی میں قبول ھوجائے تو اس پر عذاب نھیں ھو گا، اور اس کو بھشت میں داخل کیا جائے گا“۔

پالنے والے! ھم کو اعمال صالحہ بجالانے میں سستی اور کاھلی سے محفوظ فرما، اور اپنی عبادت پر ھمارے کوششوں میں اضافہ فرما، اور ھمارے دل کو مکمل طور پر بیداری عنایت کردے!۔



[1] بحار الانوار :۶۲۶۷،باب ۴۵،حدیث ۱۔

[2] سفینة البحار ج۸ ص ۲۹۸۔

[3] وسا یل الشیعہ:۱۶۳۱۵،باب ۱،حدیث۲۰۲۱۶۔

[4] وسا یل الشیعہ:۱۶۲۱۵،باب ۱،حدیث۲۰۲۱۴۔

[5]کافی:۲۲۸۸،حدیث یاجوج ماجوج،حدیث ۲۹۱؛بحار الانوار:۲۸۵۷،باب ۱۳،حدیث۳۔

[6] سورہ انسان(دھر)آیت ۴۔

[7] سورہ حاقہ آیت۳۰تا۳۳۔

[8] سورہ فجر آیت ۲۸(اے نفس مطمئن اپنے رب کی طرف پلٹ آ اس عالم میں کہ تو اس سے راضی ھے اور وہ تجھ سے راضی ھے۔)

[9] سورہ حاقہ آیت۲۸۔۲۹۔

[10] تفسیر نمونہ ج ۲۴ ص ۴۶۴۔

[11] تفسیر نمونہ، ج ۲۴ ص ۴۶۵۔

[12] سورہ صافات آیت ۳۵۔

[13] الٰھیات در نہج البلاغہ، ۱۲۹۔

[14] نہج البلاغہ، خطبہ اول ، (ترجمہ علامہ ذیشان حیدر جوادی مرحوم ص 27)

[15] نہج البلاغہ، خطبہ۸۶، (ترجمہ علامہ ذیشان حیدر جوادی مرحوم ص ۱۵۱)

[16] کافی:۵۰۶۲باب تسبیح ،حدیث ۵؛توحید صدوق:۱۸،باب ثواب الموحدین ،حدیث ۲۔

[17] توحید صدوق:۱۹،باب ثواب الموحدین والعارفین،حدیث ۵۔

[18] توحید صدوق:۱۹،باب ثواب الموحدین ،حدیث ۳۔

[19] توحید صدوق:۲۰،باب ثواب الموحدین ،حدیث ۷۔

[20] توحید صدوق:۲۱،باب ثواب الموحدین ،حدیث ۱۳۔

[21] توحید صدوق:۲۳،باب ثواب الموحدین ،حدیث ۱۸۔

[22] توحید صدوق:۲۹،باب ثواب الموحدین ،حدیث ۳۱۔

[23] سوره یونس، آیت 31.

[24] تفسیر کشف الاسرار:۳۷۴۳۔

[25] عطار نیشاپوری، منطق الطیر ،حکایت موسی و قارون۔

[26] خصال :۵۲۲۲،حدیث ۱۱؛میزان الحکمة:۳۰۹۲۷،الصلاة ،حدیث ۱۰۵۲۸۔

[27] مکارم الاخلاق:۴۶۱،الفصل الخامس؛میزان الحکمة:۷ ۳۰۹۲، الصلاة ،حدیث ۱۰۵۳۵۔

[28] مالی صدوق:۵۴۹،حدیث ۲۲؛میزان الحکمة:۳۰۹۶۷،الصلاة ،حدیث ۱۰۵۵۶۔

[29] غررالحکم:۱۷۵،حدیث۳۳۴۱،میزان الحکمة:۳۰۹۲۷،الصلاة ،حدیث ۱۰۵۳۲۔

[30] خصال:۶۲۰۲؛میزان الحکمة:۳۰۹۴۷،الصلاة ،حدیث ۱۰۵۳۷۔

[31] امالی طوسی:۵۲۲،حدیث۱۱۵۷؛میزان الحکمة:۳۰۹۴۷،الصلاة ،حدیث ۱۰۵۴۳۔

[32] علل الشرایع:۳۳۶۲،باب ۳۳،حدیث۲؛میزان الحکمة:۳۱۰۴۷،الصلاة ،حدیث ۱۰۵۸۵۔

[33] تحف العقول :۱۷۴۔وصیة لکمیل بن زیاد ،میزان الحکمة:۳۱۰۶۷،الصلاة ،حدیث ۱۰۵۹۲۔

[34] غرر الحکم:۸۳،حدیث ۱۳۲۷؛میزان الحکمة:۳۴۰۲۷،الظن،حدیث ۱۱۵۹۰۔

[35] کافی:۲ص۷۲،باب حسن الظن،حدیث۴،میزان الحکمة:۳۴۰۲۷، الظن،حدیث۱۱۵۸۹۔

[36] کافی:۷۱۲،باب حسن الظن،حدیث۲:میزان الحکمة:۳۴۰۰۷،الظن ،حدیث ۱۱۵۸۲۔

[37] امالی شیخ طوسی:۳۷۹،حدیث۸۱۴؛میزان الحکمة:۳۴۰۰۷،الظن ،حدیث ۱۱۵۸۲۔

[38] میزان الحکمة:۳۴۰۰۷،الظن ،حدیث ۱۱۵۸۴۔

[39] سورہ انفال آیت ۴۶۔

[40] وَبَشِّرْ الصَّابِرِینَ۔الَّذِینَ إِذَا اٴَصَابَتْہُمْ مُصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ ۔“(سورہ بقرہ آیات ۱۵۵تا۱۵۶)

”۔۔۔اور اے پیغمبر آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دیدے جو مصیبت پڑنے کے بعد یہ کہتے ھیں کہ ھم اللہ ھی کے لئے ھیں اور اسی کی بارگاہ میں واپس جانے والے ھیں“۔

[41] کافی:۹۱۲،باب الصبر،حدیث۱۵۔

[42] مکارم الاخلاق، ص ۴۴۶، الفصل الرابع فی موعظة رسول الله (ص) ؛ مستدرک الوسائل ج۱۱ص۲۶۱۔

[43] تفسير قمي، جلد اول، ص 370، ولوج النکرین فی القبر؛ محجۀ الیضاء، جلد8، ص 304، کتاب ذکر الموت و مابعده، بحار الانوار، جلد 6، ص 224، باب 8، حدیث 26.

[44] امالی شیخ صدوق، مجلس ۸۲ حدیث ۱۴۔ محجة البضاء: ۸ص ۳۶۰، کتاب ذکر الموت ومابعدہ، بحار الانوار ج ۸ص ۲۸۱، باب ۲۴ حدیث ۲۔

[45] تفسیر قمی، ج۲ ص ۸۱، ذیل آیہ:”کلما اٴرادوا اٴن یخرجوا منھا۔۔۔“، محجة البضاء: ۸ص ۳۶۱، کتاب ذکر الموت ومابعدہ۔

[46] محجة البضاء: ۸ص ۳۵۴، کتاب ذکر الموت، القول فی صفة جھنم۔

[47] بحار الانوار ج۸۷ص ۳۳۸، باب ۹ حدیث ۵۳”یوم الخمیس“

[48] سورہ بقرہ آیت ۱۲۷تا ۱۲۹۔” و اذ یرفع ابراھیم۔۔۔“[49] ”وَإِذَا سَمِعُوا مَا اٴُنزِلَ إِلَی الرَّسُولِ تَرَی اٴَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنْ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنْ الْحَقِّ ۔۔۔“ (سورہ مائدہ آیت ۸۳۔)”اور جب اس کلام کو سنتے ھیں جو رسول پر نازل ھوا ھے تو تم دیکھتے ھو کہ ان کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ھو جاتے ھے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا ھے۔۔۔“۔

[50] بحار الانوار :۳۹۱۶۶،باب۳۸،حدیث۶۸؛میزان الحکمة:۵۳۶۲،البکاء ،حدیث ۱۸۲۹۔

[51] جامع الاخبار:۹۷،الفصل الرابع و الخمسون؛میزان الحکمة:۵۳۶۲،البکاء ،حدیث ۱۸۳۰۔

[52] امالی صدوق:۴۳۱،المجلس السادس و الستون ؛میزان الحکمة:۵۳۶۲،البکاء ،حدیث ۱۸۳۱۔

[53] بحار الانوار:۳۳۶۹۰:باب۱۹،حدیث۳۰؛میزان الحکمة: ۵۳۶۲،البکاء ،حدیث ۱۸۳۴۔

[54] مکارم الاخلاق؛۳۱۷،فی البکاء،میزان الحکمة:۵۳۶۲،البکاء،حدیث ۱۸۳۵۔

[55] بحار الانوار : ۹۰ ۳۳۱، باب ۱۹ حدیث ۴۱؛ میزان الحکمة:۵۳۶۲،البکاء،حدیث ۱۸۴۱۔

[56] صائب تبریزی ، دیوان اشعار شمارہ ۴۹۰۔

[57] سورہ انفطار آیت ۱۳،۱۴۔

[58] سورہ مائدہ آیت ۲۷۔

[59] سورہ موٴمنون آیت ۱۰۱۔

[60] سورہ طہ آیت ۱۰۹۔

[61] حافظ شیرازی، دیوان اشعار شمارہ ۱۱۲۔

[62] سورہ حج آیت ۲۱۔

[63] امالی شیخ مفید ص ۱۳۶، مجلس ۱۳، حدیث ۴، بحار الانوار ج ۲۲ص ۳۸۵، باب ۱۱، حدیث ۲۷۔

[64] سورہ حجر آیت ۴۳۔۴۴۔

[65] کلمة الله ۔

[66] ربیع الآثار ۔

[67] ثواب الاعما ل:۳۹؛بحار الانوار :۲۵۳۹۳،باب۳۰،حدیث۱۹۔

[68] مواعظ عددیہ :۳۷۱۔

[69] من لایحضرہ الفقیہ:۲۰۸۱،باب فضل الصلاة،حدیث ۶۲۴۔

[70] عیون اخبار الرضا ج۲ص ۴ باب ۳۰ حدیث۹؛ بحار الانوار :۹۳ ۱۲۰،باب۱۴،حدیث۲۳۔

[71] عیون اخبار الرضا ج۲ص ۸، حدیث۲۰۔

[72] سورہ انعام آیت ۷۵۔

[73] تفسیر برھان ذیل آیہ ۷۵ سورہ انعام ، حدیث ۹۔

[74] بحار الانوار ج۴ ص ۱۱۱، باب ۳حدیث ۳۱۔

[75] وسائل الشیعہ، ج۲ص۱۵۵، حدیث ۲۵۲۹۱؛ بحار الانوار ج۶۸ص ۳۷۴، باب ۹۲ حدیث ۲۵۔

[76] سورہ انفطار آیت ۱۰تا۱۲۔

[77] سورہ فصلت آیت ۲۰تا۲۱۔

[78] سورہ نور آیت ۲۴۔

[79] سورہ یس آیت ۶۵۔

[80] سورہ ق آیت ۱۸۔

[81] سورہ زلزال آیت۴تا۵۔

[82] سورہ توبہ آیت ۱۰۵۔

[83] ثواب الاعمال:۱۷۹،باب۲۰،ثواب التوبة۔

[84] بحار الانوار :۲۸۶،باب۲۰،حدیث۳۱۔

[85] سورہ اعراف آیت ۲۳۔

[86] سورہ نوح آیت ۲۶۔

[87] سورہ شعراء آیت ۸۳۔

[88] سورہ قصص آیت ۲۴۔

[89] سورہ ص آیت ۳۵۔

[90] سورہ انبیاء آیت ۸۹۔

[91] سورہ یوسف آیت ۱۰۱۔

[92] سورہ انبیاء آیت ۸۳۔

[93] سورہ موٴ منون آیت ۱۱۸۔

[94] سورہ آل عمران آیت۱۹۱۔

[95] سورہ اعراف آیت ۱۴۔

[96] مستدرک الوسائل ج۵ ص ۲۲۰، باب ۳۱ حدیث ۵۷۳۸، اصول کافی ج۲ ص ۵۲۰ ،باب من قال یا رب۔۔۔؛ وسائل الشیعہ ج۷ص ۲۸۵ باب ۳۲، مستدرک الوسائل ج۵ ص ۲۱۹ باب ۳۱؛ بحار الانوار ج۹۰ص ۲۳۳ باب ۱۲ و غیرہ میں اس سلسلہ کی بہت سی روایات بیان ھوئی ھیں۔

[97] غررالحکم:۱۵۳،لاینفع قول بغیر العمل،حدیث۲۸۳۸؛میزان الحکمة: ۴۰۵۰۹، العمل، حدیث ۱۴۲۶۰۔

[98] غررالحکم :۱۵۱،حدیث۲۷۷۷؛میزان الحکمة ۹:۴۰۵،النحل ،حدیث۱۴۲۶۴۔

[99] مستدرک الوسائل :۱۳۰۱،باب۱۹،حدیث۱۷۷؛میزان الحکمة: ۴۰۶۰۹، العمل، حدیث۱۴۲۹۲۔

[100] غرراحکم :۱۵۵،الاخلاص فی العمل وآثارہ،حدیث۲۸۹۹۔

[101] بحا ر الانوار:۲۰۸۷۸،باب۲۳،حدیث۷۲۔

[102] کنز العمّال :۴۳۶۳۹؛میزان الحکمة :۴۰۶۶۹،العمل،(۱)،حدیث۱۴۲۲۔

[103] مشکاة الانوار:۵۵،الفصل الخامس عشر؛میزان الحکمة :۴۰۶۴۹،العمل،(۱)،حدیث۱۴۳۲۶۔

[104] تحف العقول:۹۱؛بحار الانوار:۲۴۱۷۴،باب ۹،حدیث۱۔

[105] بحار الانوار:۸۸۷۴،باب۴؛ میزان الحکمة:۴۰۶۶۹،العمل،حدیث۱۴۳۳۳۔

[106] غررالحکم:۱۵۵،حدیث۲۹۱۳؛میزان الحکمة: ۴۰۶۶۹، العمل، حدیث۱۴۳۳۵۔

[107] کافی :۲۶۶۳،باب فضل الصلاة ،حدیث۱۱؛میزان الحکمة: ۹ ۴۰۷۰، العمل، حدیث۱۴۳۵۰۔

[108] مجموعہٴ ورّام:۸۶۲؛میزان الحکمة:۴۰۷۰۹،العمل ،حدیث۱۴۳۵۱۔


No comments: