Tuesday, April 28, 2009

توبہ آغوش رحمت ۲

گناہ اور اس کا علاج

((یَااٴَیُّھا النَّاسُ قَدْ جَائَتْکُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِی الصُّدُورِ وَہُدًی وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِینَ))۔ [1]

پیغمبر کہہ دیجئے کہ یہ قرآن فضل و رحمت خدا کا نتیجہ ھے لہٰذا انھیں اس پر خوش ھونا چاہئے کہ یہ ان کے جمع کئے ھوئے اموال سے کھیں زیادہ بھتر ھے“۔

صلح و صفا کی کنجی

انسان کو جب یہ معلوم ھوجاتا ھے کہ جس ذات نے اس پر ظاھری و باطنی نعمتیں کامل اور وسیع پیمانے پر عطا کی ھے ،لیکن اس نے گزشتہ عمر میں غفلت سے کام لیاھے، اور یہ بھی معلوم ھوجاتاھے کہ وہ تمام نعمتوں کو دنیا و آخرت کی سعادت اور خدا کے لطف و کرم کے دروازے کھولنے کے لئے بروئے کار نھیں لایاھے، بلکہ اکثر اوقات خدا کی مخالفت کی ھے جس کے نتیجہ میں گناھان صغیرہ و کبیرہ کا مرتکب ھوا ھے جس سخت خسارہ میںھے اور ھوا و ھوس اور ظاھری اور باطنی شیطان کی بندگی کا ٹیکا اس کی پیشانی پر لگ گیا ھے، تو اس پر واجب ھے کہ اپنے شرمناک ماضی کے جبران وتلافی کے لئے ، جھل و غفلت خطا و معصیت اور شرمناک اعمال اور شیطانی امور سے توبہ کرکے خدا کی بارگاہ میں استغفار کرے اور خدا کا بندہ بن جائے، اور اپنی زندگی میں صلح و صفا کا آفتاب چمکائے۔

جی ھاں، رحمت خدا سے مدد لینے اور اس کی عنایت خاص سے طاقت حاصل کرنے نیز اس کے ملکوتی فیض کو کسب کرنے کے لئے اس کو خدا کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور اس راستہ کو عزم و ارادہ ، اور عاشقانہ جھاد کی طرح ھمیشہ طے کرنا چاہئے تاکہ اس کا ظاھر و باطن فسق و فجور ،برائیوں و خطاؤں اور برے اخلاق سے مکمل پاک ھوجائے ،نیک و صالح اور عابد بندوں کی صف میں آجائے اور خدا کے غضب کے بدلے رحمت، اور دردناک عذاب کے بدلے جنت کا مستحق بن جائے۔

اس طرح سے اپنے ماضی کی نسبت بیداری اور توبہ و استغفار کرنا نیز اپنے ظاھر و باطن کو برائیوں اور گناھوں سے دھونا خدا سے صلح و دوستی کی کنجی ھے۔

چونکہ خداوندعالم کی بارگاہ میں توبہ و استغفار ،عظیم ترین عبادت، مفید فرصت ھے، اور قرآن کریم کی آیات اور معصومین علیھم السلام کی تعلیمات کا ایک عظیم حصہ اسی حقیقت سے مخصوص ھے، لہٰذا توبہ کرنے والے شخص پر لازم ھے کہ توبہ کے سلسلہ میں غور کرے تاکہ اس عظیم عبادت ،بھترین حقیقت اور سنھرے موقع سے فیضیاب ھوسکے۔

گناہ بیماری ھے

ھر انسان ذاتی طور پر اور باطنی لحاظ سے پاک و سالم اس دنیا میں آتا ھے۔

حرص، حسد، بخل، ریاکاری، فسق و فجور او ردیگر گناہ انسان کی ذات میں نھیں ھوتے بلکہ خاندان، معاشرہ اور دوستوں کی صحبت کی وجہ انسان گناھوں میں ملوث ھوتا ھے۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت ھے:

کُلُّ مَولودٍ یولد عَلَی فِطْرَةِ الإسْلَامِ، حَتّی یَکُونَ ابواہ یھودانہ وینصِّرانہ“۔[2]

ھر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ھوتا ھے،مگر اس کے ماں باپ اس کو یھودی یا نصرانی بنادیتے ھیں۔

منحرف استاد، منحرف معاشرہ اور منحرف سماج، انسان کی گمراھی میں بھت زیادہ موثر ھوتے ھيں۔

چنانچہ انسان انھیں اسباب کی بنا پر فکری و عملی اور اخلاقی لحاظ سے گمراہ ھوجاتا ھے ، اور گناھوں

میں ملوث ھوجاتا ھے، لیکن ان تمام چیزوں کا علاج بھی موجود ھے قرآن مجید کی نظر سے یہ بیماری قابل علاج ھے اور اس مرض کے دوا بیان کی گئی ھے، ارشاد ھوتا ھے:

((یَااٴَیُّھا النَّاسُ قَدْ جَائَتْکُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِی الصُّدُورِ وَہُدًی وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِینَ))۔[3]

پیغمبر کہہ دیجئے کہ یہ قرآن فضل و رحمت خدا کا نتیجہ ھے لہٰذا انھیں اس پر خوش ھونا چاہئے کہ یہ ان کے جمع کئے ھوئے اموال سے کھیں زیادہ بھتر ھے“۔

قرآن کی نظر میں یہ بیماری خداوندعالم کی مغفرت اور بخشش کے ذریعہ قابل علاج ھے:

((إِلاَّ الَّذِینَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ وَاٴَصْلَحُوا فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ))۔[4]

علاوہ ان لوگوں کہ جنھوں اس کے بعد توبہ کر لی اور اپنی اصلاح کرلی ، یقینا خدا غفور اور رحیم ھے“۔

ناامیدی کفر ھے

جس وقت قرآن مجید کی آیات اور معصومین علیھم السلام کی روایت کے ذریعہ یہ معلوم ھوجائے کہ ظاھری اور مخفی طور پر کئے جانے والے گناہ ایک بیماری ھے، اور یہ بیماری قابل علاج ھے، اس پر خداوندعالم پردہ ڈال سکتا ھے، توگناھگار کو چاہئے کہ اس خطرناک اور مھلک کنویں سے باھر نکلنے کی کوشش کرے، اپنے گناھوں کی بخشش کی امید رکھے، خداوندعالم کے لطف و کرم اور عنایت سے توقع رکھے اور اس مثبت امید کے سھارے حقیقی توبہ اور عاشقانہ صلح نیز اپنے گزشتہ گناھوں کی تلافی کرے تاکہ اس بیماری اور خسارے کو دور کرسکے، کیونکہ انسان یہ کام کرسکتا ھے، توبہ و استغفاراور اس بیماری کے علاج کے علاوہ چھوٹے ھوئے واجبات کی ادائیگی کرے، اس سلسلہ میں ناامیدی ویاس، سستی اور کسالت،شیطانی اور انحرافی نعرہ لگانا مثلاً کہنا کہ ”اب تو ھمارے سر سے پانی گزرگیا ھے، چاھے ایک بالشت ھو یا سو بالشت“ غرض یہ سب چیزیں حرام اور کفر کے برابر ھے۔

(( ۔۔۔ وَلَا تَایْئَسُوا مِنْ رَوْحِ اللهِ إِنَّہُ لَا یَایْئَسُمِنْ رَوْحِ اللهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الکَافِرُونَ))۔[5]

۔۔۔اور رحمت خدا سے مایوس نہ ھونا کہ اس کی رحمت سے کافر قوم کے علاوہ کوئی مایوس نھیں ھوتا ھے “۔

البتہ جو شخص خدا کی رحمت و مغفرت اور بخشش کا امیدوار ھو، اس کے لئے اپنی امید کے اسباب و وسائل فراھم کرنا ضروری ھے مثلاً گناھوں پر شرمندہ ھونا، ان سے کنارہ کشی کرنا، ترک شدہ واجبات کو ادا کرنا، لوگوں کے حق کو ان تک واپس لوٹانا، اپنے عمل اور اخلاق کی اصلاح کرنا، کیونکہ یہ ایک مثبت امید ھے اور بالکل اسی کسان کی طرح ھے کہ جس نے سردیوں کے موسم میں اپنی زمین کو جوتا بویا ھو،اور کھاد پانی کا خیال رکھاھو اس امید کے ساتھ کہ وہ گرمی میں فصل کاٹے گا۔

لیکن اگر انسان اپنی امید کے پورا ھونے کے اسباب فراھم نہ کرے تو اس کی امید بے فائدہ اور بے ثمر ھوگی اور اس کسان کی طرح ھوگی جس نے زمین میں کوئی کام نہ کیا ھو اور نہ ھی زمین میں بیج ڈالا ھو، لیکن فصل کاٹنے کی امید رکھتا ھو،تو کیا ایسا شخص فصل کاٹنے کی امید رکھ سکتا ھے؟ایک معتبر حدیث میں صحیح اور غلط امید کے بارے میں اشارہ ھوا ھے:

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ان لوگوں کے بارے میں سوال کیا گیا جو گناھوں میں ملوث رھتے ھیںاور گناھوں سے آلودگی کی حالت میں کھتے ھیں: ”ھم خداکی رحمت و مغفرت اور اس کی بخشش کے امیدوار ھے“۔ یھاں تک کہ ان کی موت آجاتی ھے، امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:”یہ لوگ غلط امید کے شکار ھیں، کیونکہ جو شخص کسی چیز کی امید رکھتا ھے تو اس کو حاصل کرنے کے لئے ضروری قدم بھی اٹھاتا ھے اور اگر کسی چیز سے ڈرتا ھے تو وہ اس سے پرھیز کرنا چاہئے۔[6]

علاج کرنے والے اطباء

جب ھمارے کے لئے یہ بات ثابت ھوچکی کہ گناہ کوئی ذاتی مسئلہ نھیں ھے بلکہ ایک بیماری کی طرح ھے جیسا کہ بعض اسباب کی بناپر انسان کے جسم میں بیماری پیدا ھوجاتی ھے، یہ ایک ایسی بیماری ھے کہ جو انسان کے دل و دماغ ،نفس اور ظاھر و باطن پر اثرانداز ھوتی ھے، اور جس طرح بدن کی بیماریاں طبیب کے پاس جانے اور اس کے لکھے ھوئے نسخہ پر عمل کرنے سے قابل علاج ھوتی ھيں، اسی طرح معنوی بیماری کے لئے بھی علاج کرنے والے طبیب موجود ھیں، لہٰذا ان کی طرف رجوع کیا جائے اور ان کے بتائے گئے احکام پر عمل کرتے ھوئے اپنے دل و دماغ سے اس بیماری کی جڑیں ختم کی جائیں، اگرچہ وہ بیماری بھت خطرناک مرحلہ تک پہنچ گئی ھو! اس طرح کی بیماریوں کے طبیب خود ذات پروردگار، انبیاء اور ائمہ معصومین علیھم السلام نیز علمائے ربّانی ھیں۔

گناھگار کے علاج کا نسخہ قرآن کریم، انبیاء، ائمہ اور علمائے ربانی ھيں، ان کی حکیمانہ باتیں اور مشفقانہ نصیحتیں اور دلسوز وعظ ان بیماریوں کا مرھم ھے۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اھل گناہ کو خطاب کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

اَیُّھاالنَّاسُ اَنْتُم کَالْمَرْضَیٰ وَرَبُّ العَالَمِینَ کَالطَّبِیبِ فَصَلاحُ الْمَرضَیٰ فِیمَا یَعْمَلُہُ الطَّبِیبُ وَ یُدَبِّرُہُ لَا فِیمَا یَشْتَھِیہِ المَریضُ وَ یَقْتَرِحُہُ “۔[7]

اے اھل گناہ! تم بیمار لوگوں کی طرح ھو، اور تمھارا پروردگار طبیب کی طرح، بیمار کی بھلائی طبیب تدبیر اور تجویز میں ھے، نہ کہ بیمار کے ذائقہ اور اس کی مرضی میں“۔

احادیث معصومین علیھم السلام میں بھی انبیاء کرام، ائمہ معصومین (علیھم السلام) اور علمائے ربانی کو بھی طبیب کا عنوان دیاگیا ھے۔

بیمار گناہ کو اپنے علاج کے لئے ان مھربان طبیبوں کے پاس جانا چاہئے اور ان کی مرضی کے مطابق عمل کرنا چاہئے اور اپنے صحت و سلامتی کے بارے میں امیدوار ھونا چاہئے اور اس کے لئے توبہ کے علاوہ اور کوئی راستہ نھیں ھے۔

محترم قارئین ! واضح رھے کہ ھم یھاں ان طبیبوں کے چند معنوی نسخوں کی طرف بھی اشارہ کرتے ھیں تاکہ بیمارگناہ ان نسخوں کا مطالعہ کرکے اپنا علاج کرلے یا علمائے کرام کی زبانی سن کر اپنے دکھ درد کو مٹالے، ارشاد ھوتا ھے:

((قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمْ اللهُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ))۔[8]

اے! پیغمبر کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبت کرتے ھو تو میری پیروی کرو۔ خدا بھی تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناھوں کو (بھی) بخش دے گا کہ وہ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والاھے“۔

((یَااٴَیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللهَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَیُکَفِّرْ عَنکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ ))[9]

ایمان والو! اگر تم تقوی الٰھی اختیار کرو گے تو وہ تمھیں حق و باطل میں فرق کی صلاحیت عطا کردے گا۔ تمھاری برائی کی پردہ پوشی کرے گا۔ تمھارے گناھوں کو معاف کردے گا ، یقینا وہ بڑا فضل کرنے والا ھے“۔

(( یَااٴَیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِیدًا ۔ یُصْلِحْ لَکُمْ اٴَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَمَنْ یُطِعْ اللهَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیمًا))۔[10]

ایمان والو! اللہ سے ڈرو،او ر سیدھی بات کرو ۔ تا کہ وہ تمھارے اعمال کی اصلاح فرمادے اور تمھارے گناھوں کو بخش دے اور جوشخص بھی خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ عظیم کامیابی کے درجے پر فائز ھوگا“۔

((یَااٴَیُّھا الَّذِینَ آَمَنُوا ھل اٴَدُلُّکُمْ عَلَی تِجَارَةٍ تُنجِیکُمْ مِنْ عَذَابٍ اٴَلِیمٍ . تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَرَسُولِہِ وَتُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللهِ بِاٴَمْوَالِکُمْ وَاٴَنفُسِکُمْ ذَلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنتُمْ تَعْلَمُونَ ۔ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِھا الْاٴَنْھارُ وَمَسَاکِنَ طَیِّبَةً فِی جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ))۔[11]

ایمان والو! کیا میں تمھیں ایک ایسی تجارت کی طرف رہنمائی کروں کہ جو تمھیں درد ناک عذاب سے بچا لے۔ تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور راہ خدا میں اپنی جان و مال سے جھاد کرو کہ یھی تمھارے حق میں سب سے بھتر ھے، اگر تم جاننے والے ھو۔ وہ تمھارے گناھوں کو بھی بخش دے گا او رتمھیں ایسی جنتوں میں داخل کردے گا جن کے نیچے نھریں جاری ھوںگی اور ان میں پاکیزہ محل ھو ںگے او ر یھی بھت بڑی کامیابی ھے“۔

((إِنْ تُقْرِضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا یُضَاعِفْہُ لَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ وَاللهُ شَکُورٌ حَلِیمٌ))۔[12]

اگر تم اللہ کو قرض الحسنہ دوگے تو وہ اسے دوگنا بنا دے گا اور تمھیں معاف بھی کردے گا کہ وہ بڑا قدر داں اور برداشت کرنے والا ھے“۔

((وَالَّذِینَ عَمِلُوا السَّیِّئَاتِ ثُمَّ تَابُوا مِنْ بَعْدِھا وَآمَنُوا إِنَّ رَبَّکَ مِنْ بَعْدِھا لَغَفُورٌ رَحِیمٌ))۔[13]

اور جن لوگوں نے برے اعمال کئے اور پھر توبہ کرلی اور ایمان لے آئے تو توبہ کے بعد تمھارا پروردگار بھت بخشنے والا اور بڑا مھربان ھے“۔

(( ۔۔۔ فَإِنْ تَابُوا وَاٴَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوْا الزَّکَاةَ فَخَلُّوا سَبِیلَھم إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ))۔[14]

۔۔۔ پھر اگر (وہ لوگ) توبہ کر لےں اور نماز قائم کریں اور زکاة اداکریں تو پھر ان کا راستہ چھوڑ دو ، بے شک خدا بڑا بخشنے والا اور مھربان ھے“۔

((وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِھم خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّئًا عَسَی اللهُ اٴَنْ یَتُوبَ عَلَیْھم إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ))۔[15]

اور دوسرے لوگ جنھوں نے اپنے گناھوں کا اعتراف کیا ، انھوں نے نیک اور بد اعمال مخلوط کردئے ھیں ،عنقریب خدا ان کی توبہ قبول کر لے گا کہ وہ بڑا بخشنے والا اور مھربان ھے“۔

قارئین کرام! مذکورہ آیات سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ اگر کوئی گناھگار خداوندعالم کی رحمت و معرفت کو حاصل کرنا چاھتا ھے اور یہ خواہش رکھتا ھے کہ اس کی توبہ قبول ھوجائے ،اس کا سیاہ نامہ اعمال معنوی سفیدی اور نور میں تبدیل ھوجائے، اور روز قیامت کے دردناک عذاب سے چھٹکارا مل جائے تو اسے چاہئے کہ قرآن مجید میں بیان شدہ نسخوں کے پیش نظر حسب ذیل امور پر عمل کرے:

۱۔ سیرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اتباع و پیروی کرے۔

۲۔ تقویٰ و پرھیزگاری کی رعایت کرے اور اپنے آپ کو گناھوں سے دور رکھے۔

۳۔ حق بات کھے، اور وقت پر گفتگو کرے۔

۴۔ خداوندعالم کی اطاعت کرے۔

۵۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت کرے۔

۶۔خدا پر ایمان رکھے۔

۷۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان رکھے۔

۸۔مال و دولت کے ذریعہ راہ خدا میں جھاد و کوشش کرے۔

۹۔راہ حق میں دل و جان سے کوشش کرے۔

۱۰۔ضرورت مندوں کو قرض الحسنہ دے۔

۱۱۔گناھوں سے دوری اختیار کرے اور خدا کی طرف پلٹ جائے۔

۱۲۔غلط و باطل عقائد سے اجتناب کرے۔

۱۳۔نماز قائم کرے۔

۱۴۔زکوٰة ادا کرے۔

۱۵۔خداوندعالم کی بارگاہ میں اپنے گناھوں کا اقرار و اعتراف کرے۔

جاءَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ فَقالَ:یٰارَسُولَ اللّٰہِ ،مٰاعَمَلُ اَھل الْجَنَّةِ؟ فَقالَ:اَلصِّدْقُ ،اِذا صَدَقَ الْعَبْدُ بَرَّ،وَ اِذا بَرَّاَ مِنَ وَاِذا اَمِنَ دَخَلَ الْجَنَّةُ۔فَقالَ یٰا رَسُولَ اللّٰہِ ،مٰاعَمَلُ اَھل النّٰارِ ،قٰالَ:اَلْکِذْبُ ،اِذا کَذَبَ الْعَبْدُ فَجَرَ وَاِذا فَجَرَ کَفَرَ ،وَاِذا کَفَرَ دَخَلَ النّٰارَ:“۔[16]

ایک شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ھوااور عرض کی: یا رسول اللہ ! اھل بہشت کا عمل کیا ھے؟ آپ نے فرمایا: صداقت، کیونکہ جس وقت خدا کا بندہ سچ بولتا ھے تو اس نے نیکی انجام دی ھے،اور جب نیکی کرتا ھے تو امان مل جاتی ھے اور جب امان مل جاتی ھے تو جنت میں داخل ھوجاتا ھے، سوال کرنے والے نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اھل جہنم کا عمل کیا ھے؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جھوٹ،کیونکہ جب انسان جھوٹ بولتا ھے تو گناہ کرتا ھے او رجب گناہ کرتا ھے تو ناشکری اور کفر سے دچار ھوجاتا ھے اور کفر کرتا ھے تو جہنم میں داخل ھوجاتا ھے“۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطھرات میں سے ایک زوجہ کھتی ھیں کہ میں نے رسول اکرم سے سوال کیا:

بِمَ یُعْرَفُ الْمُوٴْمِنُ ؟قٰالَ:بِوَقارِہِ ،وَلینِ کَلامِہِ ،وَصِدْقِ حَدیثِہِ:“[17]

یا رسول اللہ ! کن اعمال سے مومن کی پہچان ھوتی ھے؟ تو آپ نے فرمایا: وقار،نرم لہجہ اور صداقت سے“۔

حضرت داؤد علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے کھا:

اِجْتَمِعُوا ،فَاِنّی اُرِیدُ اَن اَقُومَ فیکُمْ بِکَلِمَتَیْن :فَاجْتَمَعُوا عَلٰی بابِہِ فَخَرَجَ عَلَیْھِمْ فَقٰالَ:یٰا بَنی اِسْرائیلَ ،لاٰ یَدْخُلْ اَجْوافَکُمْ اِلاّ طَیِّبٌ وَلاٰ یَخْرُجُ مِنْ اَفْواھِکُمْ اِلاّ طَیِّبٌ :“[18]

تم لوگ ایک جگہ جمع ھوجاؤ کہ میں تم سے کچھ گفتگو کرنا چاھتا ھوں، جب لوگ جناب داؤد علیہ السلام کے دروازہ پر جمع ھوگئے تو انھوں نے ان کے روبرو ھوکر خطاب کیا: اے بنی اسرائیل! پاک اور حلال چیزوں کے علاوہ کچھ نہ کھاؤ، اور صحیح اور حق بات کے علاوہ زبان مت کھولو“۔

جناب جابر کھتے ھیں: میں نے سنا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کعب بن عجرہ سے فرمارھے ھیں:

لا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ نَبَتَ لَحْمُہُ مِنَ السُّحْتِ ،اَلنّٰارُ اَوْلٰی بِہِ “ [19]

جس شخص کا گوشت حرام مال سے بڑھا ھو، وہ بہشت میں نھیں جاسکتا، بلکہ جہنم اس کے لئے زیادہ سزاوارھے“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے مروی ھے:

”’مَنْ نَقَلَہُ اللّٰہُ مِنْ ذُلِّ الْمَعاصی اِلٰی عِزِّ التَّقْویٰ اَغْنٰاہُ بِلا مالٍ، وَاَعَزَّہُ بِلا عَشیرَةٍ،وَا ٓنَسَہ بِلا اَنیسٍ:“[20]

جس شخص کو خداوندعالم گناھوں کی ذلت سے نکال کر تقویٰ کی عزت تک پہنچادے تو خدا اس کو بغیر مال عطاکئے بے نیاز بنادیتا ھے، اور بغیر قوم و قبیلہ کے عزت دیتا ھے، اور بغیر دوست کے انس و محبت عطا فرماتا ھے“۔

عَنِ اَمیرِ الْمُوٴْمِنینَ :اَلدُّنْیا مَمَرٌّ ،وَالنَّاسُ فیھا رَجُلاٰنِ:رَجُلٌ باعَ نَفْسَہُ فَاَوْبَقَھٰا ،وَرَجُلٌ ابْتاعَ نَفْسَہُ فَاَعْتَقَھا:“[21]

حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ھے: دنیا ایک گزرگاہ(یعنی راستہ) ھے جس سے دو طرح کے لوگ گزرتے ھیں: ایک وہ شخص جس نے اپنے آپ کو دنیا کے بدلے فروخت کردیا لہٰذا اس نے خود کو نابود کرلیا، دوسرے وہ شخص ھے جس نے دنیا سے اپنے آپ کو خرید لیا، لہٰذا اس نے خود کو آزاد کرلیا“۔

مروی ھے کہ ایک شخص حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ھوکر عرض کرتا ھے:

میں ایک گناھگار شخص ھوں اورگناہ پر صبر نھیں کرسکتا، لہٰذا مجھے نصیحت فرمایئے، تو امام علیہ السلام نے اس سے فرمایا: تو پانچ چیزوں کو انجام دے اس کے بعد جو چاھے گناہ کرنا:

۱۔ خداکا عطا کردہ رزق مت کھا۔

۲۔ خدا کی حکومت و ولایت سے باھر نکل جا۔

۳۔ ایسی جگہ تلاش کر جھاں خدا نہ دیکھتا ھو۔

۴۔ جس وقت ملک الموت تیری روح قبض کرنے آئے تو اس بچ کر بھاگ جانا۔

۵۔ جب (روز قیامت) تجھے مالکِ دوزخ ، دوزخ میں ڈالنا چاھے تو اس وقت دوزخ میں نہ جانا۔“[22]

قالَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسینِ علیہ السلام: اِنَّ الْمَعْرِفَةَ وَکَمالَ دینِ الْمُسْلِمِ تَرْکُہُ الْکَلامَ فیما لاٰ یُعْنیہِ، وَ قِلَّةُ مِرائِہِ وَ حِلْمُہُ وَ صَبْرُہُ وَ حُسْنُ خُلْقِہِ:“[23]

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ھیں:بے شک مسلمانوں کی معرفت اور دین کا کمال اس میں ھے کہ بے فائدہ گفتگو سے پرھیز کرے، نزاع و جھگڑے سے دور رھے، صبر و حلم اور حسن خُلق سے کام لے“۔

عَنِ الْبَاقِرِ (عَلَیہ السَّلام):مَنْ صَدَقَ لِسَانُہُ زَکیٰ عَمَلُہُ وَمَنْ حَسُنَتْ نِیَّتُہُ زِیْدَفِی رِزْقِہِ وَمَنْ حَسُنَ بِرُّہُ بِاَھلہِ زِیْدَفِی عُمْرِہِ“۔[24]

حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ھیں: جس شخص کی زبان سچ بولے اس کاعمل پاکیزہ ھوجاتا ھے، اور جس شخص کی نیت اچھی ھو اس کی روزی میں اضافہ ھوجاتا ھے اور جو شخص اپنے اھل و عیال کے ساتھ نیکی و احسان کرے اس کی عمر بڑھ جاتی ھے“۔

عَن اَبی عَبْدِاللّٰہِ(عَلَیہ السَّلام): اَوْرَعَ النّٰاسِ مَنْ وَقَفَ عِنْدَ الشُّبْھَةِ ۔اَعْبَدُ النَّاسِ مَنْ اَقامَ الْفَرائِضَ اَزْھَدُ النَّاسِ مَنْ تَرَکَ الْحَرامَ۔اَشَدُّ النَّاسِ اجْتِھاداً مَنْ تَرَکَ الذُّنُوبَ:“[25]

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:سب سے زیادہ باتقویٰ وہ شخص ھے جو خود کو مشتبہ چیزوں سے محفوظ رکھے، سب سے اچھا بندہ وہ ھے جو واجبات الٰھی کو بجالائے، زاہد ترین شخص وہ ھے جو حرام چیزوں کو ترک کرے، اور سب سے زیادہ جدو جہد کرنے والا شخص وہ ھے جو گناھوں چھوڑ دے“۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے ہشام بن حکم سے فرمایا:

رَحِمَ اللّٰہُ مَنِ اسْتَحْییٰ مِنَ اللّٰہِ حَقَّ الْحَیاءِ،فَحَفِظَ الرَّاٴْسَ وَما حَوٰی ،وَالْبَطْنَ وَ ما وَعیٰ،وَذَکَرَ الْمَوْتَ وَالْبِلیٰ،وَعَلِمَ اَنَّ الْجَنَّةَ مَحْفُوفَةٌ بِالْمَکٰارِہِ ،وَ النَّارَ مَحْفُوفَةٌ بِالشَّھَواتِ:“[26]

خداوندعالم رحمت کرے اس شخص پر جو خداکے سامنے اس طرح شرم کرے جس کا وہ حقدار ھے، آنکھ ،کان اور زبان کو گناھوں سے محفوظ رکھے ، اپنے کو لقمہ حرام سے بچائے رکھے، قبر اور قبر میں بدن کے بوسیدہ ھونے کو یاد رکھے، اور اس بات پر توجہ رکھے کہ جنت زحمت و مشکلات کے ساتھ ھے اور جہنم لذت شھوت کے ساتھ “۔

حضرات انبیاء کرام،اور ائمہ معصومین علیھم السلام نے ان نیک امور اور انسان کو شقاوت و ھلاکت سے بچانے والے اھم مسائل کو بیان کیا ھے جن کی تفصیل معتبر کتابوں میں بیان ھوئی ھے، مذکورہ احادیث اسی ٹھاٹے مارتے ھوئے قیمتی سمندر کے چند قطرے تھے ۔ اسی طرح علماء کرام سے وعظ و نصیحت نقل ھوئی ھيں جو انسان کی بیماری کے علاج کے لئے بھترین نسخے ھيں، جن کے ذریعہ انسان اپنے نفس کو گناھوں کی گندگی اور کثافت سے بچاسکتا ھے ، ذیل میں ان کے چند نمونے بھی ملاحظہ فرمالیں:

ایک عارف نے کھا: ھم نے چار چیزوں کو چار چیزوں میں طلب کیا لیکن راستہ کا غلط انتخاب کیا، اور ھم نے دیکھا وہ چار چیزیں دوسری چار چیزوں میں ھیں:

۱۔بے نیازی کو مال و دولت میں ڈھونڈا لیکن قناعت میں پایا۔

۲۔مقام و عظمت کو حسب ونسب میں تلاش کیا لیکن تقویٰ میں ملا۔

۳۔چین وسکون کو مال کی کثرت میں ڈھونڈا لیکن کم مال میں پایا۔

۴۔نعمت کو لباس، غذا اور لذتوں میں تلاش کیا لیکن اس کو بدن کی صحت و سلامتی میں دیکھا۔[27]

جناب لقمان نے اپنے فرزند کو وصیت کرتے ھوئے فرمایا: کل روز قیامت خدا کی بارگاہ میں، چار چیزوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا: اپنی جوانی کس چیز میں گزاری، اپنی عمر کو کس چیز میں تمام کیا، مال و دولت کھاں سے حاصل کی اور حاصل شدہ مال و دولت کھاں پر خرچ کیا؟ لہٰذا اس کے لئے جواب تیار کرلو۔[28]

ایک عارف کھتے ھیں:دانشوروں نے چارچیزوں پر اتفاق کیا ھے اور میں نے ان کو چار چیزوں سے انتخاب کیا ھے:

۱۔توریت: جس شخص نے قناعت کی وہ سیر ھوگیا۔

۲۔زبور: جس شخص نے سکوت اختیار کیا وہ صحیح و سالم رھے۔

۳۔انجیل: جس شخص نے ناحق چیزوں اور نامناسب لوگوں سے کنارہ کشی کی اس نے نجات پائی۔

۴۔ قرآن: جو شخص خدا کی پناہ میں چلا گیا وہ راہ مستقیم کی ہدایت پاگیا۔[29]

سلیمان علی “نے ”حمید طویل “سے کھا: مجھے موعظہ و نصیحت فرمائیے:تو ”حمید “نے کھا: اگر خلوت میںخدا کی معصیت کررھے ھو اور یہ جانتے ھو کہ خدا تمھیں دیکھ رھا ھے، تو تم نے بھت بڑے کام کی جرئت کی اور اگر تم یہ سوچو کہ خدا نھیں دیکھ رھا ھے تو تم کافر ھوگئے۔[30]

جناب جبرئیل نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! اگر روئے زمین پر ھم لوگ عبادت کیا کرتے تو تین کام انجام دیتے:

مسلمان کو پانی پلاتے، اھل و عیال رکھنے والوں کی مددکرتے،اور لوگوں کے گناھوں کو چھپایا کرتے۔[31]

ایک عالم بزرگوار نے فرمایا: خداوندا! تجھ سے امید رکھنا ،تیری سب سے بڑی عبادت ھے، اور تیری ثنا کرنامیری زبان پر شیرین ترین سخن ھے، اور تجھ سے ملاقات کا وقت ،میرے نزدیک محبوب ترین وقت ھے۔[32]

ایک عارف فرماتے ھیں: ابلیس پانچ چیزوں کی وجہ سے بدبخت اور ملعون ھوا ھے:

گناہ کا اقرار نہ کیا اور گناہ پر شرمندہ نہ ھوا، اپنی ملامت نھیں کی، توبہ کا ارادہ نہ کیا، اور رحمت خدا سے مایوس ھوگیا؛ لیکن جناب آدم پانچ چیزوں کی وجہ سے کامیاب ھوگئے: اپنی خطا کا اقرار کیا، شرمندہ ھوئے، اپنی ملامت کی، توبہ کرنے میں جلدی کی اور رحمت خدا سے ناامید نھیں ھوئے۔[33]

یحیٰ بن معاذ کھتے ھیں: جو شخص زیادہ کھانا کھاتا ھے تو اس کی طاقت میں اضافہ ھوتا ھے، اور جس کی طاقت زیادہ ھوجاتی ھے اس کی شھوت میں (بھی) اضافہ ھوجاتا ھے، اور جس کی شھوت میں اضافہ ھوجاتا ھے اس کے گناہ بھی زیادہ ھوتے ھیں، اور جس کے گناہ زیادہ ھوتے ھیں وہ سنگ دل بن جاتا ھے اور جو سنگ دل ھوجاتا ھے وہ دنیا کے زرق و برق اور اس کی آفات میں گرفتار ھوجاتا ھے۔[34]

اولیاء کی صفات کے بارے میں کھا گیا ھے کہ ان میں تین خصلتیں پائی جاتی ھیں:

۱۔ سکوت اختیار کرتے ھیں اور اپنی زبان کو محفوظ رکھتے ھیں کیونکہ یہ چیزیں نجات کا دروازے ھيں۔

۲۔ ان کا شکم خالی رھتا ھے، جو خیرات کی کُنجی ھوتی ھے۔

۳۔ دن بھر کے روزے اور رات بھر کی عبادت کی وجہ سے اپنے نفس کو زحمت میں ڈالتے ھیں۔[35]

قارئین کرام! اگر ھر گناھگار بندہ ؛خدا، رسول اور ائمہ معصومین علیھم السلام نیز علمائے کرام کے بتائے نسخہ پر عمل کرے تو یقینا اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ھیں اور اس کی بیمار روح کاعلاج ھونا ممکن ھے۔

گناھگار انسان کو اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے کہ انبیاء علیھم السلام کی بعثت ، ائمہ علیھم السلام کی امامت اور علمائے کرام کے علم و حکمت کا اصلی مقصد انسانوں کی فکری، روحی، اخلاقی اور عملی بیماریوں کا علاج کرنا ھے، لہٰذا گناھگار بندے کا مغفرت سے ناامید ھونا کوئی معنی نھیں رکھتا، لہٰذا اپنے دل کو یاس و ناامیدی سے آلودہ نھیں کرنا چاہئے، اپنے کو گناھوں پر باقی نھیں رکھنا چاہئے، اور نہ ھی اپنی شقاوت و بدبختی میں اضافہ کرنا چاہئے، بلکہ گناھگار انسان اس پر لازم ھے کہ خداوندعالم، انبیاء و ائمہ علیھم السلام کی تعلیمات خصوصاً خداوندعالم کی رحمت واسعہ اور اس کے لطف و کرم کے مدنظر اپنے گناھوں سے توبہ کرلے۔

توبہ” واجب ِفور ی“ھے

گزشتہ بحث میں ھم ثابت کرچکے ھیں کہ قرآن مجید اور الٰھی تعلیمات کی رو سے گناہ ایک بیماری ھے ، اور بتاچکے ھیں کہ یہ بیماری قابل علاج ھے، نیز یہ بھی واضح کرچکے ھیں کہ اس بیماری کے علاج کرنے والے اطباء یعنی خدا ، انبیاء ، ائمہ علیھم السلام اور علمائے دین ھیں، لہٰذا گناھگار بندے کو اپنی بیماری کے علاج کے لئے ان مقدس ترین اطباء کے پاس جانا چاہئے، اور ان کے تجویز کردہ نسخہ پر عمل کرنا چاہئے تاکہ اس بیماری سے شفا مل جائے ،صحت و سلامتی لوٹ آئے، اورنیک و صالح بندوں کے قافلہ میں شامل ھوجائے۔

گناھوں کے بیمار کو اس چیز پر توجہ رکھنا چاہئے کہ جس طرح انسان عام بیمار ی کے معلوم ھونے کے فوراً بعد اس کے علاج کے لئے طبیب یا ڈاکٹر کے پاس جاتا ھے تاکہ درد و تکلیف سے نجات حاصل ھونے کے علاوہ بیماری بدن میں جڑ نہ پکڑلے، جس کا علاج ناممکن ھوجائے، اسی طرح گناہ کی بیماری کے علاج کے لئے بھی جلدی کرنا چاہئے اور بھت جلد الٰھی نسخہ پر عمل کرتے ھوئے توبہ و استغفار کرنا چاہئے، تاکہ گناہ و ظلمت ،معصیت ، شرّ شیطان اور ھوائے نفس کا اس کی زندگی سے خاتمہ ھوجائے، اوراس کی زندگی میں رحمت و مغفرت، صحت و سلامتی کا نور چمکنے لگے۔

گناھگار کو چاہئے کہ خواب غفلت سے باھر نکل آئے، اپنی نامناسب حالت پر توجہ دے اور یہ سوچے کہ میں نے خداکے ان تمام لطف و کرم ،احسان اور اس کی نعمتوں کے مقابلہ میں شب و روز اپنی عمر کو نور اطاعت و عبادت اورخدمت خلق سے منور کرنے کے بجائے معصیت و گناہ اور خطا کی تاریکی سے اپنے کو آلودہ کیا ھے، اس موقع پر اپنے اوپر واجب قرار دے کہ اپنے تمام ظاھری و باطنی گناھوں کو ترک کرے، ھوائے نفس اور شیطان کی بندگی و اطاعت سے پرھیز کرے، خداوندعالم کی طرف رجوع کرے، اور صراط مستقیم پر برقرار رہنے کے ساتھ ساتھ حیا و شرم، عبادت و بندگی اور بندگان خدا کی خدمت کے ذریعہ اپنے ماضی کا تدارک کرے۔

فقھی اور شرعی لحاظ سے یہ واجب ”واجبِ فوری“ ھے ، یعنی جس وقت گناھگار انسان اپنے گناھوں کی طرف متوجہ ھوجائے، اور یہ احساس ھوجائے کہ اس نے کس عظیم مقدس ذات کی مخالفت کی ھے اور کس منعم حقیقی کی نعمت کو گناہ میں استعمال کیا ھے، اور کس مولائے کریم سے جنگ کے لئے آمادہ پیکار ھوا ھے، اور کس مھربان کے روبرو کھڑا ھوگیا ھے، تو فوری طور پر اپنے علاج کے لئے توبہ کرے اور ندامت کی حرارت اور حسرت کی آگ کے ذریعہ اپنے وجود سے گناھوں کے اثر کو جلادے، اور اپنے دل و جان اور روح سے فحشاء و منکر کی گندگی کو پاک کردے، اور اپنے اندر خدائی رحمت و مغفرت کو جگہ دے کیونکہ توبہ میں تاخیر کرنا خود ایک گناہ ھے اور خود کو عذاب الٰھی سے محفوظ سمجھنا اور اس حالت پر باقی رہنا گناھان کبیرہ میں سے ھے۔

حضرت عبد العظیم حسنی علیہ الرحمہ نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے ،انھوں نے حضرت امام رضا علیہ السلام سے ،انھوںنے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے، انھوں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ھے کہ عمرو بن عُبَید نے امام علیہ السلام سے سوال کیا: گناھان کبیرہ کون سے ھیں؟ تو آپ نے قرآن سے گناھان کبیرہ کی تفصیل بیان کرتے ھوئے فرمایا:خود کو عذاب الٰھی سے محفوظ سمجھنا بھی گناہ کبیرہ ھے۔[36]

کسی گناھگار کو یہ حق نھیں ھے کہ وہ توبہ و استغفار کے لئے کوئی زمانہ معین کرے اور خداوندعالم کی طرف بازگشت کو آئندہ پر چھوڑدے، اور اپنے درد کے علاج کو بوڑھاپے کے لئے چھوڑدے۔

کیونکہ اس بات کی کیا ضمانت ھے کہ جس امید کے سھارے اس بیماری کے علاج کو آئندہ پرچھوڑا جارھا ھے وہ اس وقت تک زندہ بھی رھے گا، کیا ایک جوان کا بوڑھاپے تک باقی رہنا ضروری ھے؟!! ھوسکتا ھے اسی غفلت کی حالت اور گناھوں و شھوت کے عالم میں ھی موت کا پیغام پہنچ جائے۔

ایسے بھت سے لوگ دیکھنے میں آئے ھیں جو کھتے تھے کہ ابھی تو جوانی ھے، بوڑھاپے میں توبہ کرلیں گے ،لیکن موت نے ان کو فرصت نہ دی اور اسی جوانی کے عالم میں توبہ کئے بغیر چل بسے۔

بھت سے گناھگار جوانوں کو دیکھا گیا جو کھتے تھے کہ ابھی تو ھم جوان ھيں لذت و شھوت سے فائدہ اٹھائیں، بوڑھاپے کے وقت توبہ کرلیں گے ، لیکن اچانک اسی جوانی کے عالم میں موت نے آکر اچک لیا!

اسی طرح بھت سے گناھگاروں کو دیکھا ھے جو کھتے تھے کہ ابھی تو وقت ھے بعد میں توبہ و استغفار کرلیں گے، لیکن گناھوں اور معصیت کی تکرار نے نفس کو ھوا و ھوس کا غلام بنالیا اور شیطان نے انھیں گرفتار کرلیا اور گناھوں کے اثر سے توبہ کی صلاحیت کھو بیٹھے، اور ھرگز توبہ و استغفار نہ کرسکے، اس کے علاوہ گناھوں کی کثرت ، ظلمت کی سنگینی اور خدا کی اطاعت سے زیادہ دوری کی بنا پر وہ خدا کی نشانیوں اور اس کے عذاب ھی کو جھٹلانے لگے، اور آیات الٰھی کا مذاق اڑانے لگے، اور خود اپنے ھاتھوں سے توبہ و استغفار کا دروازہ بند کرلیا!

(( ثُمَّ کَانَ عَاقِبَةَ الَّذِینَ اٴَسَائُوا السُّوئَی اٴَنْ کَذَّبُوا بِآیَاتِ اللهِ وَکَانُوا بِھا یَسْتَہْزِئُون))۔[37]

اس کے بعد برائی کرنے والوںکا انجام برا ھوا کہ انھوں نے خدا کی نشانیوں کو جھٹلایادیا اور برابر ان کا مذاق اڑاتے رھے“۔

گناہ، جذام اور برص کی طرح گناھگار انسان کے ایمان، عقیدہ، اخلاق، شخصیت، کرامت اور انسانیت کو کھاجاتے ھیں، انسانی زندگی اس منزل پر پھونچ جاتی ھے کہ انسان خدا کی آیات کی تکذیب کرنے لگتاھے، اور انبیاء، ائمہ معصومین علیھم السلام اور قرآن مجید کا مسخرہ کرتا ھوا نظر آتا ھے، اور اس پر کسی کے وعظ و نصیحت کا کوئی اثر نھیں ھوتا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ھوتا ھے:

((وَسَارِعُوا إِلَی مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُھا السَّمَاوَاتُ وَالْاٴَرْضُ اٴُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِین))۔[38]

اور اپنے پروردگار کی مغفرت اور اور اس جنت کی طرف جلدی کرو جس کی وسعت زمین و آسمان کے برابر ھے اور اسے صاحبان تقویٰ لئے مھیا کیاگیاھے“۔

اس آیت کے پیش نظر واجب ھے کہ انسان اپنے ظاھر و باطن کو گناھوں سے پاک کرنے اور مغفرت و بہشت حاصل کرنے کے لئے توبہ و استغفار کی طرف جلد از جلد قدم اٹھائے، اور توبہ و استغفار کے تحقق کے لئے جتنا ھوسکے جلدی کرے کیونکہ توبہ میں ایک لمحہ کے لئے تاخیر کرنا جائز نھیں ھے، قرآن مجید کی رُوسے توبہ میں تاخیر کرنا چاھے کسی بھی وجہ سے ھو ،ظلم ھے، اور یہ ظلم دوسرے گناھوں سے الگ خود ایک گناہ ھے۔

(( ۔۔۔ وَمَنْ لَمْ یَتُبْ فَاٴُوْلَئِکَ ھم الظَّالِمُونَ))۔[39]

۔۔۔اور جو شخص بھی توبہ نہ کرے تو سمجھ لو کہ یھی لوگ در حقیقت ظالموں میں سے ھے“۔

گناھگار کو اس حقیقت کا علم ھونا چاہئے کہ توبہ کا ترک کرنا اسے ستم گاروں کے قافلہ میں قرار دیدیتا ھے اور ستم گاروں کو خداوندعالم دوست نھیں رکھتا۔

(( ۔۔۔وَاللهُ لاَیُحِبُّ الظَّالِمِین))[40]

۔۔۔اور خدا، ظلم کرنے والوں کوپسند نھیںکرتا“۔

گناھگار کو معلوم ھونا چاہئے کہ ایسے شخص سے خداوندعالم، انبیاء اور ائمہ علیھم السلام سخت نفرت کرتے ھیں اور اس سے ناراض رھتے ھیں چنانچہ حضرت عیسی اپنے حواریوں کو تہدید کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

یا مَعْشَرَ الْحَوارِیّینَ ،تَحَبَّبُوا اِلَی اللّٰہِ بِبُغْضِ اَھل الْمَعاصی ،وَ تَقَرَّبُوا اِلَی اللّٰہِ بِالتَّباعُدِ مِنْھُمْ وَ الْتَمِسُوا رِضاہُ بِسَخَطِھِمْ:“[41]

اے گروہ حوارین! گناھگاروں اور معصیت کاروں سے دشمنی اور ناراضگی کا اظھار کرکے خود کو خدا کا محبوب بناؤ، آلودہ لوگوں سے دوری اختیار کرتے ھوئے خدا سے نزدیک ھوجاؤ، اور گناھگاروں کے ساتھ غیض و غضب اورغصہ کا اظھار کرکے خداوندعالم کی خوشنودی حاصل کرلو“۔

گناھگار انسان کو اس بات پر متوجہ ھونا چاہئے کہ ھر گناہ کے انجام دینے سے خدا کے نزدیک انسان کی شخصیت اور کرامت کم ھوجاتی ھے یھاں تک کہ انسان حیوان کی منزل میں پہنچ جاتا ھے بلکہ اس سے بھی پست تر ھوتا چلا جاتا ھے، یھاں تک کہ ایسا شخص قیامت کے دن انسان کی صورت میں محشور نھیں ھوسکتا۔

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام براء بن عازب سے فرماتے ھیں: ”تم نے دین کو کیسا پایا؟ انھوں نے عرض کیا: مولا! آپ کی خدمت میں آنے اور آپ کی امامت و ولایت کا اقرار کرنے نیز آپ کی اتباع اور پیروی سے پھلے یھودیوں کی طرح تھا، ھمارے لئے عبادت و بندگی ، اطاعت و خدمت بے اھمیت تھے۔ لیکن ھمارے دلوں میں ایمانی حقائق کی تجلی اور آپ کی اطاعت و پیروی کے بعد عبادت و بندگی کی قدر کا پتہ چل گیا، اس وقت حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: دوسرے لوگ قیامت کے دن گدھے کے برابر محشور ھوں گے، اور تم میں سے ھر شخص روز محشر بہشت کی طرف جارھا ھو گا۔[42]

توبہ واجب اخلاقی ھے

علمائے کرام ،اھل عرفان حضرات اور پاک دل دانشوروں نے اخلاقی مسائل کے بارے میں بھت سی کتابیں لکھی ھیں، اور اخلاق کی دوحصوں میں شرح کی ھے: اخلاق حسنہ، اور اخلاق سیئہ (برا اخلاق) غرور وتکبر، اور خود غرضی کو برے اخلاق اور تواضع و انکساری کو اخلاق حسنہ میں مفصل طور پر بیان کیاھے۔

ابلیس کے لئے پیش آنے والی صورتحال کی بنا پر خداوندعالم کی طرف سے ھمیشہ کے لئے لعنت کا طوق اس کے گلے میں ڈال دیا گیااور اس کو اپنی کی بارگاہ سے نکال دیا ، کیونکہ اس نے حکم خداکے مقابلہ میں غرور و تکبر کیا تھا، لیکن دوسری طرف جناب آدم اور جناب حوّا کی توبہ قبول کر لی گئی، جس کی وجہ تواضع و انکساری تھی، قرآن نے واضح کردیا کہ چونکہ غرور و تکبر خدا کی بارگاہ سے نکال دئے جانے کا سبب ھے لہٰذا اس سے دوری اختیار کرنا واجب ھے اور تواضع و انکساری انسان کو خدا سے نزدیک کردیتا ھے اور اس کو عبادت و بندگی سے رغبت میں مدد ملتی ھے ، نیز انسان اپنے گناھوں اور خطاؤں کے لئے خدا سے عذر خواھی کرتا ھے اور توبہ و استغفار کرتا ھے لہٰذا انسان پر واجب ھے کہ خودکو تواضع و انکساری سے آراستہ کرے، اور اس کی عظمت کے سامنے سرتسلیم خم کردے، خشوع و خضوع اورآنسو بھری آنکھوں کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضر ھو اور اس سے یہ عہد کرے کہ آئندہ گناھوں سے پرھیز کرے گا نیز اپنے گزشتہ کی تلافی کرے گا۔

خدائے مھربان جناب موسی بن عمران سے خطاب کرتے ھوئے فرماتا ھے:

یَابْنَ عِمْرانَ،ھَبْ لی مِنْ عَیْنَیْکَ الدُّمُوعَ،وَمِنْ قَبلکَ الْخُشُوعَ،وَ مِنْ بَدَنِکَ الْخُضُوعَ ثُمَّ ادْعُنی فی ظُلَمِ اللَّیالی تَجِدْنی قَریباً مُجیباً:[43]

اے موسیٰ بن عمران! میری بارگاہ میں اشکبار آنکھوں، خاشع قلب اور لرزتے ھوئے جسم کے ساتھ حاضر ھو، پھر شب کی تاریکی میں مجھے پکارو، مجھے نزدیک اور جواب دینے والا پاؤگے“۔

قرآن ابلیس کے بارے میں فرماتا ھے:

((قَالَ مَا مَنَعَکَ اٴَلاَّ تَسْجُدَ إِذْ اٴَمَرْتُکَ قَالَ اٴَنَا خَیْرٌ مِنْہُ خَلَقْتَنِی مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَہُ مِنْ طِینٍ۔ قَالَ فَاھبطْ مِنْھا فَمَا یَکُونُ لَکَ اٴَنْ تَتَکَبَّرَ فِیھا فَاخْرُجْ إِنَّکَ مِنَ الصَّاغِرِینَ))۔[44]

فرمایا: (اے ابلیس) تجھے کس چیز نے روکا تھا کہ میرے حکم کے بعد بھی سجدہ نھیں کیا۔ اس نے کھا کہ میں ان سے بھتر ھوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ھے اور انھیں خاک سے بنایا ھے۔ فرمایا تو یھاں سے چلا جا، تجھے ھماری بارگاہ میں رہنے کا حق نھیں ھے تو نے غرور سے کام لےا، نکل جا کہ تو ذلیل لوگوں میں سے ھے“۔

قرآن مجید نے شیطان کی شقاوت اور بدبختی کی وجہ حکم خدا کے سامنے غرور و تکبر بیان کی ھے، اور اسی تکبر کی بنا پر وہ بارگاہ الٰھی سے نکال دیا گیا،لہٰذا انسان کو غرور و تکبر سے پرھیز کرنا چاہئے کیونکہ یہ شیطانی صفت انسان کو حکمِ خدا کے مقابلہ میں لا کھڑ ا کرتی ھے۔

قرآن مجید، جناب آدم و حوا علیھما السلام کے بارے میں فرماتا ھے:

((قَالاَرَبَّنَا ظَلَمْنَا اٴَنفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنْ الْخَاسِرِینَ))۔[45]

ان دونوں نے کھا کہ پروردگار! ھم نے اپنے نفس پر ظلم کیا ھے اب اگر تو معاف نہ کرے گا اور ھم پررحم نہ کرے گا ،تو یقینا ھم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ھو جائےںگے“۔

قرآن نے جناب آدم و حوا علیھماالسلام کے اقرار و اعتراف اور طلب مغفرت کو جو واقعاً ایک پسندیدہ اور قابل تعریف عمل ھے،اس کوان کی توبہ کے عنوان سے بیان کیا ھے، سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۳۷ میں اس توبہ کا تذکرہ ھوا ھے، لیکن اس حقیقت پر بھی توجہ کرنا ضروری ھے کہ اقرار و اعتراف اور خداوندعالم کی طرف بازگشت ، خشوع و خضوع ، قلبی انکساری اور دل شکستگی کا ثمرہ ھے، چونکہ علمائے اخلاق کی نظر میں تکبر انسان اور ذات خدا کے درمیان ایک سخت حجاب ھے لیکن تواضع و خاکساری انسان اورذات خدا کے درمیان ایک سیدھا راستہ اور کھلا ھوا دروازہ ھے، کبر و تکبر کی حالت پر باقی رہنا ،ایک عظیم گناہ ھے، اور نخوت سے پرھیز کرنا ایک عظیم واجب ھے، اورتواضع و انکساری سے آراستہ ھونا ایک عظیم عمل ھے اور اپنے کو گناھوں سے دھونا عظیم عبادت و بندگی ھے؛ لہٰذا گناھوں سے توبہ کرنا خدا کی بارگاہ میں تواضع و انکساری اور کبر و نخوت سے دور ھونے کی نشانی اور اخلاقی علامت ھے۔

تکبر کے بارے میں ایک حدیث کے ضمن میں بیان ھوا ھے:

عَن حَکیمٍ قالَ:سَاٴَلَتْ اَبا عَبْدِاللّٰہِ (علیہ السلام ) عَنْ اَدْنَی الاِلْحادِ ،فَقالَ:اِنَّ الْکِبْرَ اَدْناہُ:“[46]

حکیم کھتے ھیں: میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے ”الحاد“ یعنی انکار خداوندی کے سب سے کم درجے کے بارے میں سوال کیا ،تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کا پست ترین درجہ تکبر اور غرور ھے“۔

حسین بن اعلا کھتے ھیں: میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا:

اَلْکِبْرُ قَدْ یَکونُ فی شِرارِ النَّاسِ مِنْ کُلِّ جِنْسٍ،وَالْکِبْرُ رِداءُ اللّٰہِ،فَمَنْ نازَعَ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ رِداءَ ہُ لَمْ یَزِدْہُ اللّٰہُ اِلاَّسَفالاً۔۔۔“[47]

تکبر کسی بھی جنس میں ھو وہ بدترین لوگوں میں سے ھے، بزرگی ذات خدا ھی کے لئے سزاوارھے ، لہٰذا جو شخص خدا کی بزرگی میں جھگڑے اور اس کی ذات اقدس کے ساتھ شریک ھونا چاھے تو اس کو خدا ذلیل کردیتا ھے“۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:

اَلْعِزُّ رِداءُ اللّٰہِ ،وَالْکِبْرُ اِزارُہُ ،فَمَنْ تَناوَلَ شَیْئاً مِنْہُ اَکَبَّہُ اللّٰہُ فی جَھَنَّمَ :“[48]

عزت ردائے خدا ھے، بزرگی اس کا جامہ ھے، جو شخص ان کو اپنے لئے سمجھے تو خداوندعالم اس کو جہنم میں ڈال دیتا ھے“۔

تواضع کے بارے میں احادیث :

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

اِنَّ فِی السَّماءِ مَلَکَیْنِ مُوَکَّلَیْنِ بِالْعِبادِ،فَمَنْ تَواضَعَ لِلّٰہِ رَفَعاہُ، وَمَنْ تَکَبَّرَ وَضَعاہُ:“[49]

بے شک آسمان میں دو فرشتے ھیں،جن کو خدا نے اپنے بندوں پر موکل قرار دیا ھے کہ جو شخص خدا کے سامنے تواضع و انکساری سے پیش آئے اسے سربلنداور جو شخص غرور و تکبر سے کام لے اسے ذلیل اور رسواکردیں“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ھے:

”’فَاِنَّ مَنْ تَواضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہُ،وَمَن تَکَبَّرَ خَفَضَہُ اللّٰہُ ،وَمَن اقْتَصَدَ فی مَعیشَتِہِ رَزَقَہُ اللّٰہُ ،وَمَنْ بَذَّرَ حَرَمَہُ اللّٰہُ ،وَمَنْ اَکْثَرَ ذِکْرَ الْمَوْتِ اَحَبَّہُ اللّٰہُ :“[50]

بے شک جو شخص خداکے سامنے تواضع وانکساری سے پیش آئےگا خداوندعالم اس کو بلند کردیگا اور جو شخص اس کے سامنے غرور و تکبر دکھائےگا خداوندعالم اس کو ذلیل و رسوا کردے گا،جو شخص زندگی میں درمیانی راستہ اپنائےگا خداوندعالم اس کو روزی عنایت فرمادے گا، جو شخص اسراف اور فضول خرچی سے کام لے گاخداوندعالم اس پر اپنی عنایت حرام کردے گااور جو شخص موت کو بھت زیادہ یاد رکھے تو خداوندعالم اس کو اپنا محبوب بنالے گا“۔

ایک مقام پر خداوندعالم نے جناب داؤد سے خطاب فرمایا:

یا داوُد کَما اَنَّ اَقْرَبَ النَّاسِ مِنَ اللّٰہِ الْمُتَواضِعونَ ،کَذٰلِکَ اَبْعَدُ النّٰاسِ مِنَ اللّٰہِ الْمُتَکَبِّرُونَ:“[51]

اے داؤد! جس طرح خداوندعالم سے زیادہ قریب متواضع افراد ھیں اسی طرح مغرور و متکبر لوگ خدا سے بھت زیادہ دور ھیں“۔



[1] سورہٴ یونس آیت ،۵۷۔

[2] عوالی اللئالی ج۱/۳۵،الفصل الرابع ،حدیث ۱۸؛بحار الانوارج۳/۲۸۱؛باب ۱۱،حدیث ۲۲۔

[3] سورہٴ یونس آیت ،۵۷۔

[4] سورہٴ آل عمران آیت ،۸۹۔

[5] سورہٴ یوسف آیت ۸۷۔

[6] عن ابی عبدالله (ع) قال:قلت لہ:قوم یعملون بالمعاصی و یقولون نرجو فلا یزالون کذلک حتی یاتیھم الموت فقال:ھوٴلاء قوم یترجحون فی الامانی کذبوا لیسوا براجین ان من رجا شئیا طلبہ ومن خاف من شیء ھرب منہ“۔

کافی ،ج۲،ص۶۸،باب الخوف والرجا ء ، حدیث ۵؛تحف العقول۔۳۶۲؛بحار الانوار ج۶۷/۳۵۷،باب ۵۹، حدیث۴۔

[7] عدة الداعی ص۳۷ الباب الاول فی لالحث علی الدعاء؛ارشاد القلوب ج ۱،ص۱۵۳ ،الباب السابع والاربعون فی الدعاء؛ بحار الانوار ج۸۱،ص۶۱،حدیث ۱۲۔

[8] سورہٴ آل عمران آیت ۳۱۔

[9] سورہٴ انفال آیت ،۲۹۔

[10] سورہٴ احزاب آیت ،۷۰۔۷۱۔

[11] سورہٴ صف آیت ۱۰۔۱۲۔

[12] سورہٴ تغابن آیت ۱۷۔

[13] سورہٴ اعراف آیت ۱۵۳۔

[14] سورہٴ توبہ آیت ۵۔

[15] سورہٴ توبہ آیت ۱۲۰۔

[16] مجموعہٴ ورام ،ج۱،ص۴۳۔،باب ما جاء فی الصدق و الغضب لله، ارشاد القلوب، ج۱ص۸۵۱۔باب ۵۱۔

[17] مجموعہٴ ورام ،ج۱،ص۴۳۔،باب ما جاء فی الصدق و لغضب لله، مستدرک الوسائل ج۸ص ۴۵۵ باب ۹۱ حدیث ۹۹۸۵۔

[18] مجموعہٴ ورام ،ج۱،ص۶۰۔ باب العتاب۔

[19] مجموعہٴ ورام ،ج۱،ص۶۱۔باب العتاب۔

[20] مجموعہٴ ورام ،ج۱،ص۶۵۔باب العتاب۔

[21] مجموعہٴ ورام ،ج۱،ص۷۵۔باب العتاب۔

[22] روی ان الحسین بن علی علیہ السلام جاء ہ رجل و قال:انا رجل عاص ولا اصبر عن المعصیة فعظنی بموعظة۔فقال علیہ السلام:افعل خمسة اشیاء واذنب ما شئت فاول ذلک لا تاکل رزق اللہ واذنب ما شئت والثانی اخرج من ولایة اللہ واذنب ما شئت والثالث اطلب موضعا لا یراک اللہ واذنب ماشئت والرابع اذاجاء ملک الموت لیقبض روحک فادفعہ عن نفسک واذنب ماشئت والخامس اذا اٴدخلک مالک فی النار فلا تدخل فی النار واذنب ماشئت“۔

جامع الاخبار ،ص۱۳۰،الفصل التاسع والثمانون فی الموعظة؛بحار الانوار ج۷۵ص۱۲۶،باب ۲۰،حدیث ۷۔

[23] تحف العقول ص۲۷۹؛بحار الانوار ،ج۷۵،ص۱۳۷،باب ۲۱،حدیث۳۔

[24] بحار الانوار ج۷۵،ص۱۷۵،باب۲۲،حدیث۵۔

[25] خصا ل ج۱،ص۱۶،حدیث ۵۶؛تحف العقول ص۴۸۹؛بحار الانوار ج۷۵،ص۱۹۲،باب ۲۳،حدیث۵۔

[26] تحف العقول ص۳۹۰؛بحار الانوار ج ۷۵،ص۳۰۵،باب ۲۵حدیث۱؛مستدرک الوسائل ج۸ص۴۶۴،باب ۹۳، حدیث ۱۰۰۲۲۔

[27] مواعظ العددیہ ص ۳۳۶۔

[28] عن ابی عبد اللہ علیہ السلام قال :کان فیما وعظ بہ لقمان ابنی ۔۔۔واعلم انک ستساٴل غدا اذا وقفت بین یدی اللہ عز وجل عن اربع :شبابک فیما ابلیتہ و عمرک فیما افنیتہ ومالک مما اکتسبتہ وفیماانفقتہ فتاھب لذلک واٴعد لہ جوابا“۔

کافی ج۲،ص۱۳۴،باب ذم الدنیا والزھد فیھا ،حدیث ۲۰؛بحارالانوارج۱۳،ص۴۲۵،باب ۱۸،حدیث ۱۹۔

[29] مواعظ عددیہ ص۲۴۰۔

[30] مجموعہ ورام ج۱، ص ۲۳۶ با ب محا سبة النفس ۔

[31] مجموعہ ورام ج۱، ص ۲۳۶، با ب ذکر الاٴشرار و الفجّار۔

[32] مواعظ عددیہ ص۱۹۰۔

[33] مواعظ عددیہ ص۲۷۸۔

[34] مواعظ عددیہ ص۲۸۰۔

[35] مواعظ عددیہ ص۱۹۲۔

[36] کافی ج۲،ص۲۸۵،باب الکبائر ،حدیث ۲۴؛وسائل الشیعہ ج۱۵،ص۳۱۸،باب ۴۶،حدیث ۲۰۶۲۹۔

[37] سورہٴ روم آیت ۱۰۔

[38] سورہٴ آل عمران آیت ،۱۳۳۔

[39] سورہٴ حجرات آیت ،۱۱۔

[40] سورہٴ آل عمران آیت ۵۷۔

[41] مجموعہٴ ورّام ج۲،ص۲۳۵،الجزء الثانی ؛بحار الانوار،ج۱۴،ص۳۳۰،باب ۲۱، حدیث ۶۴؛مستدرک الوسائل ج۱۲،ص۱۹۶،باب۶،حدیث ۱۳۸۶۵۔

[42] رجال علامہ بحر العلوم ،ج۲،ص۱۲۷۔

[43] عدة الداعی ۲۰۷، القسم الثالث فی الاداب المتاخرة؛بحار الانوار،ج۱۳،ص۳۶۱،باب۱۱،حدیث ۷۸۔

[44] سورہٴ اعراف آیت ۱۲۔۱۳۔

[45] سورہٴ اعراف آیت ۲۳۔

[46] اصول کافی ،ج۲،ص۳۰۹،باب الکبر ،حدیث ۱؛بحار الانوارج۷۰،ص۱۹۰،باب ۱۳۰،حدیث۱۔

[47] اصول کافی ،ج۲،ص۳۰۹،باب الکبر ،حدیث ۲؛بحار الانوارج۷۰،ص۲۰۹،باب ۱۳۰،حدیث۲۔

[48] اصول کافی ،ج۲،ص۳۰۹،باب الکبر ،حدیث ۳؛ثواب الاعمال ص۲۲۱،عقاب المتکبر؛بحار الانوار ج۷۰، ص۲۱۳، باب ۱۳۰، حدیث ۳۔

[49] اصول کافی ،ج۲،ص۱۲۲،باب التواضع ،حدیث ۲؛مشکاة الانوار ص۲۲۷،الفصل الثانی فی التواضع ؛بحار الانوار ج۷۰،ص۲۳۷،باب۱۳۰،حدیث ۴۴۔

[50] اصول کافی ،ج۲،ص۱۲۲،باب التواضع ،حدیث۳؛مجموعہ ورّام ج۲،ص۱۹۰،الجزء الثانی؛بحارالانوار ج۷۲، ص۱۲۶، باب ۵۱، حدیث ۲۵۔

[51] اصول کافی،ج۲،ص۱۲۳،باب التواضع،حدیث ۱۱؛وسائل الشیعہ ج۱۵،ص۲۷۲،باب ۲۸،حدیث ۲۰۴۹۴؛ بحار الانوار ج۷۲، ص۱۳۲، باب۵۱، حدیث۳۴ ۔

No comments: