Tuesday, April 28, 2009

توبہ آغوش رحمت۶

نیکیوں سے مزین ھونا اور برائیوں سے پرھیز کرنا (۱)

((کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ اٴَنَّہُ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوء اً بِجَھالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہِ وَاٴَصْلَحَ فَاٴَنَّہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ))۔[1]

۔۔۔ تمھارے پروردگار نے اپنے اوپررحمت لازم قرار دے لی ھے کہ تم میں جو بھی از روئے جھالت برائی کرے گا اور اس کے بعد تو بہ کر کے اپنی اصلاح کرلے گا تو خدا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ھے“۔

زیبائی اور برائی گزشتہ صفحہ میں بیان ھونے والے دو عنوان سے باطنی ،معنوی، اخلاقی اور عملی زبیائی او ربرائی مراد ھے۔

جو شخص اپنے ارادہ و اختیار اور شناخت و معرفت کے ذریعہ الٰھی حقائق (اخلاقی حسنات) اور عملی واقعیات ( احکام خداوندی) کو اپنے صفحہ دل پر نقش کرلیتا ھے، اس نقش کو ایمان کے روغن سے جلا دیتا ھے، اور زمانہ کے حوادث و آفات سے نجات پالیتا ھے، جس کے ذریعہ سے انسان بھترین سیرت اور خوبصورت وشائستہ صورت بنالیتا ھے۔

الٰھی حقائق یا اخلاقی حسنات خداوندعالم کے اسماء و صفات کے جلوے اور ارادہ پروردگار کے عملی واقعیات کے جلوے ھیں،اسی وجہ سے یہ چیزیں انسان کی سیرت و صورت کو بازار مصر میں حُسن یوسف کی طرح جلوہ دیتے ھیں، اور دنیا و آخرت میں اس کو خریدنے والے بھت سے معشوق نظر آتے ھیں۔

لیکن وہ انسان جو اپنے قلم و ارادہ و اختیار سے جھل و غفلت غرور و تکبر ،بُرے اخلاق اور برے اعمال کو اپنے صفحہ دل پرنقش کرلیتا ھے ، جس کی وجہ سے وہ گناھوں میں غرق ھوتا چلا جاتا ھے، جو انسان کی ھمیشگی ھلاکت کے باعث ھیں، انھیں کی وجہ سے ان کی صورت بدشکل اور تیرہ و تاریک ھوجاتی ھے۔

اخلاقی برائیاں ،بُرے اعمال شیطانی صفات کا انعکاس اور شیطانی حرکتوں کا نتیجہ ھیں، اسی وجہ سے انسان کی سیرت و صورت پر شیطانی نشانیاں دکھائی دیتی ھیں، جس کی بنا پر خدا، انبیاء اور ملائکہ نفرت کرتے ھیں اور دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی اس کے دامن گیر ھوجاتی ھے۔

معنوی و روحانی زیبائی و برائی کے سلسلہ میں ھمیں قرآن مجید کی آیات اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وائمہ معصومین علیھم السلام کی احادیث کا مطالعہ کرنا چاہئے، تاکہ ان الٰھی حقائق اور آسمانی تعلیمات سے آشنائی کے ذریعہ اپنے کو مزین کریں، اور توبہ و استغفار کے ذریعہ قرآن مجید کے فرمان کے مطابق اپنے ظاھر و باطن کی اصلاح کو کامل کرلیں:

(( وَإِذَا جَائَکَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِآیَاتِنَا فَقُلْ سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ اٴَنَّہُ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوء اً بِجَھالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہِ وَاٴَصْلَحَ فَاٴَنَّہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ))۔[2]

اور جب وہ لوگ آپ کے پاس آئیں جو ھماری آیت وں پر ایمان رکھتے ھیں تو ان سے کہئے کہ سلام علیکم ۔۔۔تمھارے پروردگار نے اپنے اوپررحمت لازم قرار دے لی ھے کہ تم میں جو بھی از روئے جھالت برائی کرے گا اور اس کے بعد تو بہ کر کے اپنی اصلاح کرلے گا تو خدا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ھے“۔

اھل ہدایت و صاحب فلاح

(( الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاھم یُنفِقُونَ۔ وَالَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِمَا اٴُنْزِلَ إِلَیْکَ وَمَا اٴُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْآخِرَةِ ھم یُوقِنُونَ۔ اٴُوْلَئِکَ عَلَی ہُدًی مِنْ رَبِّھم وَاٴُوْلَئِکَ ھم الْمُفْلِحُونَ))۔[3]

جولوگ غیب پر ایمان رکھتے ھیں ۔پابندی سے پورے اھتمام کے ساتھ نماز ادا کر تے ھیں اور جو کچھ ھم نے رزق دیا ھے اس میں سے ھماری راہ میں خرچ بھی کرتے ھیں ۔وہ ان تمام باتوں پر بھی ایمان رکھتے ھیں جنھیں (اے رسول) ھم نے آپ پر نازل کیا ھے اور جو آپ سے پھلے نازل کی گئی ھیں اور آخرت پر بھی یقین رکھتے ھیں۔یھی وہ لوگ ھیں جو اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت کے حامل ھیں اور یھی لوگ فلاح یافتہ اور کامیاب ھیں“۔

مذکورہ آیت سے درج ذیل نتائج برآمد ھوتے ھیں:

۱۔ غیب پر ایمان ۔

۲۔ نماز قائم کرنا۔

۳۔ صدقہ اور حقوق کی ادائیگی۔

۴۔ قرآن اور دیگر آسمانی کتابوں پر ایمان۔

۵۔ آخرت پر یقین۔

غیب پر ایمان

غیب سے مراد ایسے امور ھیں جن کو ظاھری حواس سے درک نھیں کیا جاسکتا، چونکہ ان کو حواس کے ذریعہ نھیں درک کیا جاسکتا لہٰذا ان کو غیبی امور کھا جاتا ھے۔

غیب ، ان حقائق کو کھتے ھیں جن کو دل اور عقل کی آنکھ سے درک کیا جاسکتا ھے،جس کے مصادیق خداوندعالم، فرشتے، برزخ، روز محشر، حساب، میزان اور جنت و جہنم ھے، ان کا بیان کرنا انبیاء ، ائمہ علیھم السلام اور آسمانی کتابوں کی ذمہ داری ھے۔

ان حقائق پر ایمان رکھنے سے انسان کا باطن طیب و طاھر، روح صاف و پاکیزہ، تزکیہ نفس، روحی سکون اور قلبی اطمینان حاصل ھوتا ھے نیز اعضاء و جوارح خدا و رسول اور اھل بیت علیھم السلام کے احکام کے پابند ھوجاتے ھیں۔

غیب پر ایمان رکھنے سے انسان میں تقویٰ پیدا ھوتا ھے، اس میں عدالت پیدا ھوتی ھے، اور انسان کی تمام استعداد شکوفہ ھوتی ھیں، یھی ایمان اس کے کمالات میں اضافہ کرتا ھے، نیز خداوندعالم کی خلافت و جانشینی حاصل ھونے کا راستہ ھموار ھوتا ھے۔

کتاب خدا ،قرآن مجید جو احسن الحدیث ، اصدق قول اور بھترین وعظ و نصیحت کرنے والی کتاب ھے،جس کے وحی ھونے کی صحت و استحکام میں کوئی شک و شبہ نھیں ھے، اس نے مختلف سوروں میں مختلف دلائل کے ذریعہ ثابت کیا ھے کہ قرآن کتاب خدا ھے، جن کی بنا پر انسان کو ذرہ برابر بھی شک نھیں رھتا، قرآن کریم کی بھت سی آیات میں غیب کے مکمل مصادیق بیان کئے گئے ھیں اور ان آیات کے ذیل میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے بھت اھم احادیث بیان ھوئی ھیں جن کے پر توجہ کرنے سے انسان کے لئے غیب پر ایمان و یقین کا راستہ ھموار ھوجاتا ھے۔

خدا

قرآن مجید نے خداوندعالم کو تمام کائنات اور تمام موجودات کے خالق کے عنوان سے پہچنوایا ھے، اور تمام انسانوں کو خدا کی عبادت کی دعوت دی ھے، اس کا شریک اس کی ضدو مثل اوراس کا کفوقرار دینے سے سخت منع کیا ھے اور اس کو غفلت و جھالت کا نتیجہ بتایا ھے، اور کسی چیز کو اس کے خلاف بیان کرنے کو فطرت و وجدان کے خلاف شمار کیا ھے، اس عالم ہستی میں صحیح غور و فکر کرنے کی رغبت دلائی ھے، اور فطری، عقلی، طبیعی اور علمی دلائل و شواہد کے ذریعہ غیر خدا کے خالق ھونے کو باطل قرار دیا ھے، اور اس جملہ کو بے بنیاد، بے معنی اور مسخرہ آمیز بتایا ھے کہ ”یہ چیزیں خود بخود وجود میں آگئی ھیں“ اس کی شدت کے ساتھ ردّ کی ھے اور علمی منطق اور عقل سلیم سے کوسوں دور بتایا ھے، المختصر: قرآن مجید نے اپنی آیات کے اندر انسان کے جھل اور غفلت جیسی بیماریوں کا علاج بتایا ھے، اورفطرت و وجدان کو جھنجھوڑتے ھوئے عقل و دل کی آنکھوں کے سامنے سے شک و تردید اور اوھام کے پردوں کو ہٹادیا ھے، اور خداوندعالم کے وجود کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا ھے ، نیز اس معنی پر توجہ دلائی ھے کہ آئینہ ہستی کی حقیقت روز روشن سے بھی زیادہ واضح ھے، اور خدا کی ذات اقدس میں کسی کے لئے شک و تردید کا کوئی وجود نھیں ھے:

(( ۔۔۔ اٴَفِی اللهِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ یَدْعُوکُمْ لِیَغْفِرَ لَکُمْ مِنْ ذُنُوبِکُمْ۔۔۔))۔[4]

۔۔۔ کیا تمھیں اللہ کے وجود کے بارے میں بھی شک ھے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ھے اور تمھیں اس لئے بلاتا ھے کہ تمھارے گناھوں کو معاف کردے۔۔“۔

((یَااٴَیُّھا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمْ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ۔ الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ الْاٴَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَاٴَنْزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَخْرَجَ بِہِ مِنْ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَکُمْ فَلاَتَجْعَلُوا لِلَّہِ اٴَندَادًا وَاٴَنْتُمْ تَعْلَمُونَ))۔[5]

اے انسانو! پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمھیں بھی پیدا کیا ھے اور تم سے پھلے والوں کو بھی خلق کیا ھے ۔شاید کہ تم اسی طرح متقی اور پرھیز گار بن جاوٴ۔اس پروردگار نے تمھارے لئے زمین کا فرش اور آسمان کا شامیانہ بنایا ھے اور پھر آسمان سے پانی برسا کر تمھاری روزی کے لئے زمین سے پھل نکالے ھیں لہٰذا اس کے لئے جان بوجھ کر کسی کو ھمسر اور مثل نہ بناوٴ“۔

جی ھاں! اس نے ھمیں اور ھم سے پھلے انسانوں کو خلق کیا، آسمانوں کو بنایا، تمھاری زندگی کے لئے زمین کا فرش بچھایا، تمھارے لئے بارش برسائی، جس کی وجہ سے مختلف قسم کے پھل اور اناج پیدا ھوئے، اگر یہ تمام عجیب و غریب چیزیں اس کا کام نھیں ھے تو پھر کس کا کام ھے؟

اگر کوئی کھتا ھے کہ ان تمام عجیب و غریب خلقت کی پیدائش کی علت ”تصادف“(یعنی اتفاقی) ھے تو اس کی مستحکم منطقی اور عقلی دلیل کیا ھے؟ اگر کھا گیاکہ یہ چیزیں خود بخود پیدا ھوگئیں تو کیا اس کائنات کی چیزیں پھلے سے موجود نھیں تھیں جو خود بخود وجود میں آگئیں، اس کے علاوہ جو چیز موجود ھے وہ خود بخود وجود میں آجائیں اس کے کوئی معنی نھیں ھیں، پس معلوم ھوا کہ ان تمام چیزوں کا خالق اور ان کو نظم دینے والا علیم و بصیر و خبیر ”اللہ تعالیٰ“ ھے جس نے ان تمام چیزوں کو وجود بخشا ھے، اور اس مضبوط اور مستحکم نظام کی بنیاد ڈالی ھے، لہٰذا انسان پر واجب ھے کہ اس کے حکم کی اطاعت کرے، اس کی عبادت و بندگی کرے تاکہ تقویٰ، پاکیزگی اور کمال کی معراج حاصل کرے:

(( اعْبُدُوا رَبَّکُمْ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون))۔[6]

۔۔۔تم لوگ اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمھیں بھی پیدا کیا ھے اور تم سے پھلے والوں کو بھی خلق کیا ھے ۔شاید کہ تم اسی طرح متقی اور پرھیز گار بن جاوٴ“۔

مفضل بن عمر کوفی کھتے ھیں: مجھ سے حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

وجود خدا کی سب سے پھلی دلیل اس دنیا کا نظم و ترتیب ھے کہ تمام چیزیں بغیر کسی کمی و نقصان کے اپنی جگہ پر موجود ھيںاور اپنا کام انجام دے رھی ھيں۔

مخلوقات کے لئے زمین کا فرش بچھایا گیا، آسمان پر زمین کے لئے روشنی دینے والے سورج چاند اور ستارے لٹکائے گئے، پھاڑوں کے اندر گرانبھا جواھرات قرار دئے گئے، ھر چیز میں ایک مصلحت رکھی گئی اور ان تمام چیزوں کو انسان کے اختیار میں دیدیا گیا، مختلف قسم کی گھاس، درخت اور حیوانات کو اس کے لئے خلق کیا تاکہ آرام و سکون کے ساتھ زندگی بسر کرسکےں۔

اس دنیا کے نظم وترتیب کو دیکھو کہ جھاں ھر چیز ذرہ برابر کمی و نقصان کے بغیر اپنی مخصوص جگہ پرھے جو اس بات کی بھترین دلیل ھے کہ یہ دنیا حکمت کے تحت پیدا کی گئی ھے، اس کے علاوہ تمام چیزوں کے درمیان ایک رابطہ پایا جاتا ھے اور سب ایک دوسرے کے محتاج ھیں جو خود اس بات کی بھترین دلیل ھے کہ ان تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا ایک ھی ھے، ان تمام چیزوں کے پیدا کرنے والے نے ان تمام چیزوں کے درمیان الفت پیدا کی ھے اور ایک دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرا کا محتاج قرار دیا ھے!

مفضل کھتے ھیں: معرفت خدا کی گفتگو کے تیسرے دن جب امام ششم کی خدمت میں حاضر ھوا، تو امام علیہ السلام نے فرمایا: آج چاند ،سورج اور ستاروں کے بارے میں گفتگو ھوگی:

اے مفضل! آسمان کا رنگ نیلا دکھائی دیتا ھے او رجھاں تک انسان آسمان کو دیکھتا چلا جاتا ھے اس کو کوئی تکلیف نھیں ھوتی، کیونکہ نیلا رنگ نہ صرف یہ کہ آنکھ کے لئے نقصان دہ نھیں ھے بلکہ آنکھ کی طاقت کے لئے مفید بھی ھے۔

اگر سورج نہ نکلتا اور دن نہ ھوتا تو پھر دنیا کے تمام امور میں خلل واقع ھوجاتا، لوگ اپنے کاموں کو نہ کرپاتے، بغیر نور کے ان کی زندگی کا کوئی مزہ نہ ھوتا، یہ ایک ایسی حقیقت ھے جو روز روشن سے بھی زیادہ واضح ھے۔

اگر سورج غروب نہ ھوتا اور رات کا وجود نہ ھوتا تو لوگوں کو سکون حاصل نہ ھوتا اور ان کی تھکاوٹ دور نہ ھوتی، ھاضمہ نظام غذا کو ہضم نہ کرپاتا او راس غذائی طاقت کو دوسرے اعضاء تک نہ پہنچاتا۔

اگر ھمیشہ دن ھوا کرتا تو انسان لالچ کی وجہ سے ھمیشہ کام میں لگارھتا جس سے انسان کا بدن رفتہ رفتہ جواب دیدیتا، کیونکہ بھت سے لوگ مال دنیا جمع کرنے میں اس قدر لالچی ھیں کہ اگر رات کا اندھیرے ان کے کاموں میں مانع نہ ھو تا تو اس قدر کام کرتے کہ اپاہج ھوجاتے!

اگر رات نہ ھوا کرتی تو سورج کی گرمی سے زمین میں اس قدر گرمی پیدا ھوجاتی کہ روئے زمین پر کوئی حیوان اور درخت باقی نہ رھتا۔

اسی وجہ سے خداوندعالم نے سورج کو ایک چراغ کی طرح قرار دیا کہ ضرورت کے وقت اس کو جلایاجاتا ھے تاکہ اھل خانہ اپنی ضرورت سے فارغ ھوجائیں، اور پھر اس کو خاموش کردیتے ھیں تاکہ آرام کرلیں! پس نور اور اندھیرا جو ایک دوسرے کی ضدھیں دونوں ھی اس دنیا کے نظام اور انسانوں کے لئے خلق کئے گئے ھیں۔

اے مفضل! غور تو کرو کہ کس طرح سورج کے طلوع و غروب سے چار فصلیں وجود میں آتی ھیں تاکہ حیوانات او ردرخت رشد ونمو کرسکیں اور اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائیں۔

اسی طرح دن رات کی مدت کے بارے میں غور فکر کرو کہ کس طرح انسان کی مصلحت کا لحاظ رکھا گیا ھے اکثر آباد زمین پر دن ۱۵/ گھنٹے سے زیادہ نھیں ھوتا اگر دن سو یا دوسو گھنٹے کا ھوتا تو کوئی بھی جانداز زمین پر باقی نہ بچتا۔

کیونکہ اس قدر طولانی دن میں دوڑ دھوپ کرتے ھوئے ھلاک ھوجاتے، درخت وغیرہ سورج کی گرمی سے خشک ھوجاتے!

اسی طرح اگر سو یا دوسو گھنٹے کی رات ھوا کرتی، تمام جاندار روزی حاصل نھیں کرسکتے تھے اور بھوک سے ھلاک ھوجاتے، درختوں اور سبزیوں کی حرارت کم ھوجاتی، جس کے نتیجہ میںان کا خاتمہ ھوجاتا، جیسا کہ آپ نے دیکھا ھوگا کہ بھت سی گھاس اگر ایسی جگہ اُگ آئیں جھاں پر سورج کی روشنی نہ پڑے ھو تو وہ بر باد ھوجایا کرتی ھیں۔

سردیوں کے موسم میں درختوں اور نباتات کے اندر کی حرارت او رگرمی مخفی ھوجاتی ھے تاکہ ان میں پھلوں کا مادہ پیدا ھو، سردی کی وجہ سے بادل اٹھتے ھیں، بارش ھوتی ھے،جس سے حیوانوں کے بدن مضبوط ھوتے ھیں، فصل بھار میں درخت اور نباتات میں حرکت پیدا ھوتی ھے اور آہستہ آہستہ ظاھر ھوتے ھیں، کلیاں کھلنے لگتی ھیں، حیوانات بچے پیدا کرنے کے لئے ایک دوسرے کے پاس جاتے ھیں،گرمی کے موسم میں گرمی کی وجہ سے بھت سے پھل پکنے لگتے ھیں، حیوانات کے جسم میں بڑھی ھوئی رطوبت جذب ھوتی ھے، اور روئے زمین کی رطوبت کم ھوتی تاکہ انسان عمارت کا کام اور دیگر کاموں کو آسانی سے انجام دے سکے، فصل پائیز میں ھوا صاف ھوتی ھے تاکہ انسان کے جسم کی بیماریاں دور ھوجائیں اور بدن صحیح و سالم ھوجائے، اگر کوئی شخص ان چار فصلوں کے فوائد بیان کرنا چاھے تو گفتگو طولانی ھوجائے گی!

سورج کی روشنی کی کیفیت پر غور و فکر کرو کہ جس کو خداوندعالم نے اس طرح قرار دیا ھے کہ پوری زمین اس کی روشنی سے فیضیاب ھوتی ھے، اگر سورج کے لئے طلوع و غروب نہ ھوتا تونور کی بھت سی جھتوں سے استفادہ نہ ھوتا، پھاڑ،دیوار اور چھت نور کی تابش میں مانع ھوجاتے، چونکہ خداوندعالم نور خورشید سے تمام زمین کو فیضیاب کرنا چاھتا ھے لہٰذا سورج کی روشنی کو اس طرح مرتب کیا ھے کہ اگر صبح کے وقت کھیں سورج کی روشنی نھیں پہنچتی تو دن کے دوسرے حصہ میں وھاں سورج کی روشنی پہنچ جاتی ھے، یا اگر کسی جگہ شام کے وقت روشنی نہ پہنچ سکے تو صبح کے وقت روشنی سے فیضیاب ھوسکے، پس معلوم ھوا کہ کوئی جگہ ایسی نھیں ھے جوسورج کی روشنی سے فائدہ نہ اٹھائے، واقعاً یہ خوش نصیبی ھے کہ خداوندعالم نے سورج کی روشنی کو زمین رہنے والے تمام موجودات چاھے وہ جمادات ھوں یا نباتات یا دوسری جاندار چیزیں سب کے لئے پیدا کی اور کسی کو بھی اس سے محروم نہ رکھا۔

اگر ایک سال تک سورج کی روشنی زمین پر نہ پڑتی تو زمین پر رہنے والوں کا کیا حال ھوتا؟ کیا کوئی زندہ رہ سکتا تھا؟

رات کا اندھیرا بھی انسان کے لئے مفید ھے جو اس کو آرام کرنے پر مجبور کرتا ھے، لیکن چونکہ رات میں بھی کبھی روشنی کی ضرورت ھوتی ھے، بھت سے لوگ وقت نہ ھونے یا گرمی کی وجہ سے رات میں کام کرنے پر مجبور ھوتے ھیں یا بعض مسافر رات کو سفر کرتے ھیں ان کو روشنی کی ضرورت ھوتی ھے، تو اس ضرورت کے تحت خداوندعالم نے چاند او رستاروں کو خلق فرمایا ھے تاکہ وہ اپنی نور افشانی سے خدا کی مخلوق کے لئے آسائش کا سامان فراھم کرےںاور اپنی منظم حرکت کے ذریعہ مسافروںکو راستہ کی طرف راہنمائی کریں اور کشی میں سوار مسافرین کو راستہ بھٹکنے سے روکے رھیں۔

ستاروں کی دو قسم ھوتی ھیں، ایک ثابت ستارے جو ایک جگہ اپنے معین فاصلہ پر رھتے ھیں، اور دوسرے ستارے گھومتے رھتے ھیں ایک برج سے دوسرے برج کی طرف جاتے ھیں ، یہ ستارے اپنے راستہ سے ذرہ برابر بھی منحرف نھیں ھوتے، ان کی حرکت کی بھی دو قسمیں ھیں: ایک عمودی حرکت ھوتی ھے جو دن رات میں مشرق سے مغرب کی طرف انجام پاتی ھے، اور دوسری اس کی اپنی مخصوص حرکت ھوتی ھے، اور وہ مغرب سے مشرق کی طرف ھوتی ھے، جیسے اگر ایک چیونٹی چکّی کے پاٹ پر بیٹھ کر بائیں جانب حرکت کرے درحالیکہ چکّی داہنی جانب چلتی ھے، لہٰذا چیونٹی کی دو حرکت ھوتی ھيں ایک اپنے ارادہ سے اور دوسری چکّی کی وجہ سے، کیا یہ ستارے جن میں بعض اپنی جگہ قائم ھیں اور بعض منظم طور پر حرکت کرتے ھیں کیا ان کی تدبیر خداوندحکیم کے علاوہ ممکن ھے؟ اگر کسی صاحب حکمت کی تدبیر نہ ھوتی تو یا سب ساکن ھوتے یا سب متحرک، اور اگر متحرک بھی ھوتے تو اتنا صحیح نظم و ضبط کھاں پیدا ھوتا؟

ستاروں کی رفتار انسانوں کے تصور سے کھیں زیادہ ھے، اور ان کی روشنی اس قدر شدید ھے کہ اس کو دیکھنے کی تاب کسی بھی آنکھ میں نھیں ھے ، خداوندعالم نے ھمارے اور ان کے درمیان اس قدر فاصلہ قرار دیا ھے کہ ھم ان کی حرکت کو درک نھیں کرسکتے، اور نہ ھی ان کی روشنی ھماری آنکھوں کے لئے نقصان دہ ھے، اگر اپنی مکمل رفتار کے ساتھ ھم سے نزدیک ھوتے، تو ان کے نور کی شدت کی وجہ سے ھماری آنکھیں نابینا ھوجاتیں، اسی طرح جب پے در پے بجلی کڑکتی وچمکتی ھے آنکھ کے لئے نقصان دہ ثابت ھوسکتی ھے، جس طرح سے اگر کچھ لوگ ایک کمرہ میں موجود ھوں اور وھاں پر تیز روشنی والے بلب روشن ھوں اور اچانک خاموش کردئے جائیں تو آنکھیں پریشان ھوجاتی ھيں اور کچھ دکھائی نھیں دیتا۔

اے مفضل! اگر رہٹ کے ذریعہ کسی کنویں سے پانی نکال کر کسی باغ کی سینچائی کی جائے، عمارت، کنویں اور پانی نکالنے کے وسائل اس قدر منظم اور قاعدہ کے تحت ھوں کہ باغ کی صحیح سنچائی ھوسکے ، اگر کسی ایسی رہٹ کو دیکھے تو کیا انسان کہہ سکتا ھے کہ یہ خود بخود بن گئی ھے، اور کسی نے اس کو نھیں بنایا ھے اور کسی نے منظم نھیں کیا ھے، یہ بات واضح ھے کہ عقل سلیم اس کے دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کرتی ھے کہ ایک ماھر اور ھوشیار شخص نے اس رہٹ کو اس اندازسے بنایا ھے، اور جب انسان پانی نکالنے والی ایک چھوٹی سی چیز کو دیکھنے کے بعد اس کے بنانے والے کی طرف متوجہ ھوجاتا ھے تو پھر کس طرح ممکن ھے کہ ان تمام گھومنے والے اور ایک جگہ باقی رہنے والے ستاروں، شب و روز، سال کی چار فصلوں کو حساب شدہ دیکھے جبکہ ان میں ذرا بھی انحراف اور بے نظمی نھیں پائی جاتی تو کیا انسان اس قدر عظیم اور عجیب و غریب چیزوں کو دیکھ کر ان کے پیدا کرنے والے کو نھیں پہچان سکتا؟[7]

ایک شخص حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضرھوکر عرض کرتا ھے: مجھے علم کے عجائبات سکھادیجئے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا: کیا تجھے اصل علم کے بارے میں کچھ خبر ھے جو عجائب کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاھتا ھے؟ تو اس نے کھا: یا رسول اللہ! اصل علم کیا ھے؟ تو حضرت نے فرمایا: معرفت خدا، اور حق معرفت، اس نے کھا: حق معرفت کیا ھے؟ آپ نے فرمایا: خدا کی مثل و مانند اور شبیہ نہ ماننا، اور خدا کو واحد، احد، ظاھر، باطن، اول و آخر ماننا اور یہ کہ اس کا کوئی کفو و نظیر نھیں ھے، اور یھی معرفت کاحق ھے۔[8]

پورے قرآن کریم میں اس مسلم اور ھمیشگی حقیقت پر توجہ دلائی گئی ھے کہ وہ حقیقت اصل جھان اوراس دنیا کو پیدا کرنے والے اور اس کو باقی رکھنے والی کی ھے، انسان کے حواس کو ظاھری آنکھوں سے درک نھیں کیا جاسکتا، لہٰذا غیب کھا جاتا ھے، اور یہ تمام موجوات فنا ھونے والی ھیں لیکن اس کی ذات باقی ھے ، نیز یہ کہ تمام موجوات کے لئے آغاز و انجام ھوتا ھے لیکن اس کے لئے کوئی آغاز اور انجام نھیں ھے، وھی اول ھے اور وھی آخر ۔

قرآن کریم کے تمام سوروں اور اس کی آیات میں اس حقیقت کو ”اللہ تعالیٰ“ کھا گیا ھے، اور ھر سورے میں متعدد بار تکرار ھوا ھے، اور تمام واقعیات اور تمام مخلوقات اسی واحد قھار کے اسم گرامی سے منسوب ھیں ۔

ھم جس مقدار میں خدا کی مخلوقات اور متعدد عالم کو ایک جگہ ضمیمہ کرکے مطالعہ کریں تو ھم دیکھیں گے:

یہ تمام مجموعہ ایک چھوٹے عالم کی طرح ایک نظام کی پیروی کرتا ھے یھاں تک کہ اگر تمام وسیع و عریض عالم کو جمع کریں اور انسانی علم و سائنس کے جدید وسائل جیسے ٹلسکوپ "Telescop"وغیرہ کے ذریعہ کشف ھونے والی چیزوں کو ملاحظہ کریں تو جو نظام اور قوانین ایک چھوٹے نظام میں دیکھے جاتے ھیں ان ھی کو مشاہدہ کریں گے، اور اگر عالَموں کو ایک دوسرے سے جدا کرکے تجزیہ و تحلیل کریں یھاں تک کہ ایک چھوٹے سے ”مولکل“"Molecule" (یعنی کسی چیز کا سب سے چھوٹا جز )کو بھی دیکھیں گے تو ملاحظہ فرمائیں گے کہ اس کا نظام اس عظیم جھان سے کچھ بھی کم نھیں ھے، حالانکہ یہ تمام موجودات ایک دوسرے سے بالکل الگ ھیں۔

المختصر یہ کہ تمام عالموں کا مجموعہ ایک موجود ھے، اور اس پر ایک ھی نظام کی حکومت ھے ، نیز اس عالم کے تمام اجزاء و ذرات اپنے اختلاف کے باوجود ایک ھی نظام کے مسخر ھیں۔

(( وَعَنَتْ الْوُجُوہُ لِلْحَیِّ الْقَیُّوم۔۔۔))۔[9]

اس دن سارے چھرے خدائے حی وقیوم کے سامنے جھکے ھوںگے۔

اس آیہ شریفہ سے معلوم ھوتا ھے کہ ان تمام مخلوقات کا پیدا کرنے والا اور ان کی تدبیر کرنے والا خداوندعالم ھے۔

(( وَإِلَہُکُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ لاَإِلَہَ إِلاَّ ہُوَ الرَّحْمَانُ الرَّحِیمُ))۔[10]

اور تمھار ا خدا بس ایک ھے ۔اس کے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے وھی رحمن بھی ھے اور وھی رحیم بھی “۔

فرشتے

قرآن مجید کی تقریباً ۹۰ /آیات میں فرشتوں کا ذکر ھوا ھے۔

قرآن کریم نے فرشتوں کے دشمن کو کافر شمار کیا ھے، اور ملائکہ کا انکار کرنے والوں کو گمراہ قرار دیاھے۔

((مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِلَّہِ وَمَلاَئِکَتِہِ وَرُسُلِہِ وَجِبْرِیلَ وَمِیکَالَ فَإِنَّ اللهَ عَدُوٌّ لِلْکَافِرِینَ))۔[11]

اورجو بھی اللہ، ملائکہ، مرسلین، جبرئیل و مکائیل کا دشمن ھوگا ، اسے معلوم رھے کہ خدا بھی تمام کافروں کا دشمن ھے“۔

(( ۔۔۔ وَمَنْ یَکْفُرْ بِاللهِ وَمَلاَئِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلًا بَعِیدًا))۔[12]

۔۔۔اورجو شخص اللہ، ملائکہ، آسمانی کتابوں، رسولوں اور روز قیامت کا انکار کرے گا وہ یقینا گمراھی میں بھت دور نکل گیا ھے“۔

نہج البلاغہ کے پھلے خطبہ میںحضرت علی علیہ السلام فرشتوں کے سلسلہ میں بیان فرماتے ھیں:

بعض سجدہ میں ھیں تو رکوع کی نوبت نھیں آتی ھے، بعض رکوع میں ھیں تو سر نھیں اٹھاتے، بعض صف باندھے ھوئے ھیں تو اپنی جگہ سے حرکت نھیں کرتے، بعض مشغول تسبیح ھیں تو خستہ حال نھیں ھوتے، سب کے سب وہ ھیں کہ ان کی آنکھوں پر نیند کا غلبہ ھوتا ھے اور نہ عقلوں پر سھوو نسیان کا، نہ بدن میں سستی پیدا ھوتی ھے اور نہ دماغ میں نسیان کی غفلت۔

ان میں سے بعض کو وحی کا امین بنایا ھے اور رسولوں کی طرف قدرت کی زبان بنایا گیا ھے جو اس کے فیصلوں اور احکام کو برابر لاتے رھتے ھیں، اور کچھ بندوں کے محافظ اور جنت کے دروازوں کے دربان ھیں اوران میں بعض وہ بھی ھیں جن کے قدم زمین کے آخری طبقہ میں ثابت ھیں اور گردنیں بلند ترین آسمانوں سے بھی باھر نکلی ھوئی ھیں، ان کی اطراف بدن اقطار عالم سے وسیع تر ھیں اور ان کے کاندھے پایہ ھای عرش اٹھانے کے قابل ھیں، ان کی نگاھیں عرش الٰھی کے سامنے جھکی ھوئی ھیں، اور وہ اس کے نیچے پروں کو سمیٹے ھوئے ھیں، ان کے اور دیگر مخلوقات کے درمیان عزت کے حجاب اور قدرت کے پردے حائل ھیں، وہ اپنے پروردگار کے بارے میں شکل و صورت کا تصور بھی نھیں کرتے ھیں، نہ اس کے حق میں مخلوقات کے صفات جاری کرتے ھیں، وہ نہ اسے مکان میں محدود کرتے ھیں اور نہ اس کی طرف اشباہ و نظائر سے اشارہ کرتے ھیں۔[13]

جی ھاں، فرشتے بھی عالم غیب کے مصادیق ھیں جن کے بارے میں قرآن مجید اور روایات میں بیان ھوا ھے، انسانی زندگی سے رابطہ کے پیش نظر خصوصاً نامہ اعمال لکھنے ، انسان کے اچھے برے اعمال یا ان کی گفتگو اور زحمتوں کے لکھنے کے لئے معین ھیں، یھی فرشتے ان کی روح قبض کرنے اور اھل جہنم پر عذاب دینے پر بھی مامور ھیں، ملائکہ پر ایمان رکھنے سے انسان کی زندگی پر مثبت آثار پیدا ھوتے ھیں، اور خداوندعالم کی اس نورانی مخلوق پر اعتقاد رکھنا معنوی زیبائیوں میں سے ھے۔

برزخ

موت کے بعد سے روز قیامت تک کی مدت کو قرآنی اصلاح میں برزخ کھا جاتا ھے۔

اس دنیا سے رخصت ھونے والے افراد پھلے برزخ میں وارد ھوتے ھیں، اپنے عقائد و اعمال اور اخلاق کی بنا پر ان کی ایک زندگی ھوتی ھے ، یہ ایک ایسی زندگی ھے جو نہ دنیا کی طرح ھے اور نہ آخرت کی طرح ھے۔

((حَتَّی إِذَا جَاءَ اٴَحَدَھم الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِی ۔لَعَلِّی اٴَعْمَلُ صَالِحًا فِیمَا تَرَکْتُ کَلاَّ إِنَّھا کَلِمَةٌ ہُوَ قَائِلُھا وَمِنْ وَرَائِھم بَرْزَخٌ إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ))۔[14]

یھاں تک کہ جب ان میں کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پروردگار مجھے پلٹا دے ۔شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں۔ھر گز نھیں یہ ایک بات ھے جو یہ کہہ رھا ھے اور ان کے پیچھے ایک عالم برزخ ھے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ھے“۔

لیکن چونکہ قانون خلقت نہ نیک افراد کو اور نہ برے لوگوں کودنیا میں واپس پلٹنے کی اجازت دیتا ، لہٰذا ان کو اس طرح جواب دیا جائے گا: ”نھیں نھیں، ھرگز پلٹنے کا کوئی راستہ نھیں ھے“،اور یھی جواب انسان کی زبان بھی جاری ھوگا، لیکن یہ جملہ بے اختیار اور یونھی اس کی زبان پر جاری ھوگا، یہ وھی جملہ ھوگا کہ جب کوئی بدکار انسان یا کوئی قاتل اپنے کئے کی سزا کو دیکھتا ھے تو اس کی زبان پر بھی یھی جملہ ھوتا ھے، لیکن جب سزا ختم ھوجاتی ھے یا بلاء دور ھوجاتی ھے تو وہ انسان پھر وھی پرانے کام شروع کردیتا ھے۔

آیت کے آخر میں ایک چھوٹا سا لیکن پُر معنی اور اسرار آمیز جملہ برزخ کے بارے میں بیان ھوا ھے:” اس کے بعد روز قیامت تک کے لئے برزخ موجود ھے“۔

در اصل دو چیزوں کے درمیان حائل ھونے والی چیز کو برزخ کھتے ھیں، اس کے بعد سے دو چیزوں کے درمیان قرار پانے والی چیز کو برزخ کھا جانے لگا، اسی وجہ سے دنیا و آخرت کے درمیان قرار پانے والے عالم کو ”عالم برزخ “کھا جاتا ھے۔

عالم قبر یا عالم ارواح کے سلسلہ میں منقولہ دلائل موجود ھیں، قرآن مجید کی بھت سی آیات برزخ پر دلالت کرتی ھیں جن میں سے بعض بطور اشارہ اور بعض صراحت کے ساتھ بیان کرتی ھیں۔

آیہ کریمہ (( وَمِنْ وَرَائِھم بَرْزَخٌ إلیٰ یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ))، عالم برزخ کے بارے میں واضح ھے۔

جن آیات میں وضاحت کے ساتھ عالم برزخ کے بارے میں بیان کیا گیا ھے وہ شہداء کے سلسلہ میں نازل ھوئیں ھيں، جیسے:

(( وَلاَتَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ اٴَمْوَاتًا بَلْ اٴَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّھم یُرْزَقُونَ))۔[15]

اور خبر دار راہ خدا میں قتل ھونے والوںکو مردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ھیں اور اپنے پروردگار کے یھاں رزق پارھے ھیں“۔

نہ صرف یہ کہ شہداء کے لئے برزخ موجود ھے بلکہ کفار ،فرعون جیسے ظالم وجابر اور اس کے ساتھیوںکے بارے میں برزخ موجود ھے، سورہ مومن کی آیت نمبر ۲۶ میں اس چیزکی طرف اشارہ کیا گیا ھے:

((النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْھا غُدُوًّا وَعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ اٴَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ اٴَشَدَّ الْعَذَابِ))[16]

وہ جہنم جس کے سامنے ھر صبح و شام پیش کئے جاتے ھیں اور جب قیامت برپا ھوگی تو فرشتوں کو حکم ھوگا کہ فرعون والوں کو بدترین عذاب کی منزل میں داخل کردو“۔

شیعہ سنی مشھور کتابوں میں بھت سی روایات بیان ھوئی ھیں جن میں عالم برزخ ،عالم قبر اور عالم ارواح کے بارے میں مختلف الفاظ وارد ھوئے ھیں، چنانچہ نہج البلاغہ میں وارد ھوا ھے کہ جب حضرت امیر المومنین علیہ السلام جنگ صفین کی واپسی پر کوفہ کے اطراف میں ایک قبرستان سے گزرے تو قبروں کی طرف رخ کرکے فرمایا:

اے وحشت ناک گھروں کے رہنے والو! اے ویران مکانات کے باشندو! اور تاریک قبر کے بسنے والو! اے خاک نشینو! اے غربت، وحدت اور وحشت والو! تم ھم سے آگے چلے گئے ھو اور ھم تم سے ملحق ھونے والے ھیں، دیکھو تمھارے مکانات آباد ھوچکے ھیں تمھاری بیویوں کا دوسرا عقد ھوچکا ھے اور تمھارے اموال تقسیم ھوچکے ھیں، یہ تو ھمارے یھاں کی خبر ھے، اب تم بتاؤ کہ تمھارے یھاں کی خبر کیا ھے؟

اس کے بعد اصحاب کی طرف رخ کرکے فرمایا: اگر انھیں بولنے کی اجازت مل جاتی تو تمھیں صرف یہ پیغام دیتے کہ بھترین زاد راہ؛ تقویٰ الٰھی ھے“۔[17]

حضرت امام سجاد علیہ السلام سے روایت ھے:

اِنَّ الْقَبْرَ اِمّا رَوْضَةٌ مِنْ رِیاضِ الْجَنَّةِ ،اَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النّیرانِ“۔[18]

قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ھے، یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ھے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ھے:

اَلبَرْزَخُ الْقَبْرُ،وَھُوَ الثَّوابُ وَالْعِقابُ بَیْنَ الدُّنْیا وَالْآخِرَةُ۔۔۔وَاللّٰہِ مَانَخافُ عَلَیْکُم اِلاَّ الْبَرْزَخَ“۔[19]

برزخ وھی قبر ھے کہ جھاں دنیا و آخرت کے درمیان عذاب یا ثواب دیا جائے گا، خدا کی قسم، ھم تمھارے بارے میں برزخ سے ڈرتے ھیں“۔

روای نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا: برزخ کیا ھے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا:

القَبْرُ مُنْذُ حینِ مَوْتِہِ اِلیٰ یَوْمِ القِیامَةِ“۔[20]

موت سے لے کر روز قیامت تک قبر میں رہنے کا نام ھی برزخ ھے“۔

عظیم الشان کتاب ”کافی“ میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ھے:

فی حُجُراتٍ فِی الجَنَّةِ یَاٴْکُلُونَ مِنْ طَعامِھا،وَ یَشْرَبُونَ مِنْ شَرابِھا ،وَیَقولُونَ :رَبَّنا اَقِمْ لَنَا السَّاعَةَ ،وَانْجِزْ لَنا ما وَعَدْتَنا“۔[21]

مرنے کے بعد مومنین کی ارواح جنت کے حجروں میں رھتی ھے، (وہ لوگ) جنتی غذا کھاتے ھیں، جنت کا پانی پیتے ھیں، اور کھتے ھیں: پالنے والے! جتنا جلدی ھوسکے روز قیامت برپا کردے اور ھم سے کئے ھوئے وعدہ کووفا فرما“۔

عالم برزخ پر عقیدہ کے سلسلہ میں قرآن مجید اور روایات میں بیان موجود ھے، جو معنوی زیبائیوں میں سے ھے، جس پر توجہ رکھنے سے نیک افراد اور بدکار لوگوں کی زندگی پر مفید آثار برآمد ھوتے ھیںاور جس سے انسان تقویٰ، پرھیزگاری اور ظاھر و باطن کی پاکیزگی حاصل ھوتی ھے۔

محشر

روز قیامت اور روز محشرایک ایسی حقیقت ھے جس کے با رے میں تمام آسمانی کتابوں، انبیاء کرام اور ائمہ معصومین علیہم السلام نے خبر دی ھے جھاں پر تمام لوگ اپنی نیکی یا بدی کی جزا یا سزا پائےں گے ۔

روز قیامت پر اعتقاد رکھنا ایمان کا ایک حصہ ھے اور اس کا انکار کرنا کفر ھے۔

قرآن مجید میں ایک ہزار آیات سے زیادہ اور بھت سی احادیث میں قیامت سے متعلق تفصیلی بیان ھوا ھے:

((رَبَّنَا إِنَّکَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لاَرَیْبَ فِیہِ إِنَّ اللهَ لاَیُخْلِفُ الْمِیعَادَ))۔[22]

خدا یا! تو تمام انسانوں کواس دن جمع کرنے والا ھے جس میں کوئی شک نھیں ھے ۔اور اللہ کا وعدہ غلط نھیں ھوتا “۔

((فَکَیْفَ إِذَا جَمَعْنَاھم لِیَوْمٍ لاَرَیْبَ فِیہِ وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَا کَسَبَتْ وَھم لاَیُظْلَمُونَ))۔[23]

اس وقت کیا ھوگا جب ھم سب کو اس دن جمع کریں گے جس میں کسی شک اور شبہہ کی گنجائش نھیں ھے اورھر نفس کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر (ذرہ برابر) ظلم نھیں کیا جائے گا“۔

((وَلَئِنْ مُتُّمْ اٴَوْ قُتِلْتُمْ لَإِلَی اللهِ تُحْشَرُون))۔[24]

اور تم اپنی موت سے مرو یا قتل ھو جاوٴسب اللہ ھی کی بارگاہ میں حاضر کئے جاوٴگے“۔

(( ۔۔۔وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِی إِلَیْہِ تُحْشَرُونَ))۔[25]

۔۔۔اور اس خدا سے ڈرتے رھو جس کی بارگاہ میں حاضر ھونا ھے“۔

(( ۔۔۔لَیَجْمَعَنَّکُمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ لاَرَیْبَ فِیہِ۔۔۔))۔[26]

۔۔۔وہ تم سب کو قیامت کے دن اکٹھا کرے گا جس میں کسی شک کی گنجائش نھیںھے۔۔۔“۔

(( ۔۔۔وَالْمَوْتَی یَبْعَثُھم اللَّہُ ثُمَّ إِلَیْہِ یُرْجَعُونَ))۔[27]

۔۔۔اور مردوں کو تو خدا ھی اٹھا ئے گا اور پھر اس کی بارگاہ میں پلٹا دئے جائیں گے“۔

(( ۔۔۔وَسَیَرَی اللهُ عَمَلَکُمْ وَرَسُولُہُ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَی عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّھادَةِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ))۔[28]

وہ یقینا تمھارے اعمال کو دیکھ رھا ھے اور رسول بھی دیکھ رھا ھے اس کے بعد تم حاضر وغیب کے عالم خدا کی بارگاہ میں واپس کئے جاوٴگے اور وہ تمھیں تمھارے اعمال سے با خبر کرے گا“۔

(( ثُمَّ إِنَّکُمْ بَعْدَ ذَلِکَ لَمَیِّتُونَ۔ ثُمَّ إِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ تُبْعَثُونَ))۔[29]

پھر اس کے بعد تم سب مر جانے والے ھو۔پھر اس کے بعد تم روز قیامت دوبارہ اٹھائے جاوٴگے“۔

(( لاَ اٴُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیَامَةِ۔ وَلاَاٴُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ ۔ اٴَیَحْسَبُ الْإِنسَانُ اٴَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَہُ۔ بَلَی قَادِرِینَ عَلَی اٴَنْ نُسَوِّیَ بَنَانَہُ))۔[30]

میں روز قیامت کی قسم کھاتا ھوں۔اور برائیوں پر ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ھوں۔کیا یہ انسان یہ خیال کرتا ھے کہ ھم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کرسکیں گے۔یقینا ھم اس بات پر قادر ھیں کہ اس کی انگلیوں کے پورتک درست کرسکیں“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں: جناب جبرئیل حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ھوئے او رآنحضرت کو قبرستان بقیع میں لے گئے ، آپ کو ایک قبر کے پاس بٹھایا اور اس قبر کے مردہ کو آواز دی کہ بہ اذن الٰھی اٹھ کھڑا ھو، وہ فوراً باھر آگیا! ایک ایسا شخص جس کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے قبر سے باھر نکلادر حالیکہ اپنے منھ سے گردوخاک ہٹاتے ھوئے کھتا تھا:”الحمد لله و الله اکبر“، اس وقت جناب جبرئیل نے اس سے کھا: بہ اذن خدا واپس ھوجا،اس کے بعد پیغمبر اکرم کو ایک دوسری قبر کے پاس لے گئے اور اس سے کھا: حکم خدا سے اٹھ کھڑا ھو، چنانچہ ایک شخص نکلا جس کا چھرہ سیاہ تھا اور کہنے لگا: ھائے افسوس! ھائے ھلاکت و بیچارگی! چنانچہ جناب جبرئیل نے اس سے کھا: حکم خدا سے واپس ھوجا۔ اس کے بعد جناب جبرئیل نے کھا: اے محمد! تمام مردے اسی طرح سے روز قیامت محشور ھوں گے۔[31]

لقمان حکیم اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ھوئے فرماتے ھیں:اے میرے بیٹے! اگر تمھیں مرنے میں شک ھے تو سونا چھوڑو لیکن نھیں چھوڑسکتے ، اگر روز قیامت قبر سے اٹھائے جانے میں شک رکھتے ھو تو بیدار رہنا چھوڑدو لیکن نھیں چھوڑسکتے ، لہٰذا اگر سونے اور جاگنے میں غور و فکر کرو تو یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ تمھارا اختیار کسی دوسرے کے ھاتھ میں ھے، بے شک نیند موت کی طرح ھے اور بیداری اور جاگنا مرنے کے بعد قبر سے اٹھانے کی مانند ھے۔[32]

بھر حال پورے قرآن کریم میں قیامت اور اس کے صفات کے بارے میں بھت زیادہ تکرار، تاکید اور وضاحت کے ساتھ بیان ھوا ھے، صرف بعض مقامات پر استدلال اور برھان بیان ھوا، برخلاف اثبات توحید کے کہ جھاں پر دلیل و برھان کے ساتھ ساتھ خداوندعالم کی قدرت و حکمت کا بیان بھی ھوا ھے، کیونکہ جب انسان توحید خدا کو قبول کرلیتا ھے تو اس کے لئے معاد اور قیامت کا مسئلہ واضح ھوجاتا ھے۔

اسی وجہ سے قرآن مجید میں روز قیامت کی تشریح و توصیف سے پھلے یا اس کے بعد خدا کی قدرت و توانائی کے بارے میں بیان ھوا ھے، درحقیقت خداوندعالم کے وجود کے دلائل یقینی طور پر معاد کے دلائل بھی ھیں۔

جھاں پر روز قیامت اور مردوں کے زندہ ھونے پر واضح دلیل بیان ھوئی ھے ، وھاں بھی یھی دلیل و برھان قائم کی گئی ھے؛ کیونکہ کوئی بھی یہ نھیں کھتا: قیامت کا ھونا کیوں ضروری ھے؟ تاکہ گناھوں کے بارے میں فیصلہ ھوسکے، اور نیک افراد اور برے لوگوں کو جزا یا سزا دی جاسکے،اس پر کوئی اعتراض نھیں کرتا بلکہ انکار کرنے والوں کا اعتراض اور اشکال یہ ھوتا ھے کہ کس طرح یہ جسم خاک میں ملنے کے بعد دوبارہ زندہ ھوگا؟ اسی وجہ سے خداوندعالم نے واضح طور پر یا دلائل توحید کے ضمن میںروز قیامت کے دلائل سے زیادہ منکرین کے لئے جواب دئے ھیں تاکہ منکرین سمجھ لیں کہ جس قدرت خدا کے ذریعہ یہ کائنات خلق ھوئی ھے اسی قدرت کے پیش نظر قیامت کوئی مشکل کام نھیں ھے، وھی خالق جس نے شروع میں حیات اور وجود بخشا تو اس کے لئے دوبارہ زندہ کرنا اور دوبارہ حیات دینا کوئی مشکل کام نھیں ھے۔[33]

قرآن مجید نے منکرین، مخالفین اور ملحدین کے اعتراض کو سورہ یٰس میں اس طرح بیان کیا ھے:

(( اٴَوَلَمْ یَرَ الْإِنسَانُ اٴَنَّا خَلَقْنَاہُ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا ہُوَ خَصِیمٌ مُبِینٌ۔ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلاً وَنَسِیَ خَلْقَہُ قَالَ مَنْ یُحْیِ الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیمٌ۔ قُلْ یُحْیِیھا الَّذِی اٴَنشَاٴَھا اٴَوَّلَ مَرَّةٍ وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ))۔[34]

توکیا انسان نے یہ نھیں دیکھا کہ ھم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا ھے اور وہ

یکبارگی ھمارا کھلا ھوا دشمن ھوگیا ھے۔اور ھمارے لئے مثل بیان کرتا ھے اور اپنی خلقت کو بھول گیا ھے کھتا ھے کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ھے۔ (اے رسول!) آپ کہہ دیجئے کہ جس نے پھلی مرتبہ پیدا کیا ھے وھی زندہ بھی کرے گا اور وہ ھر مخلوق کا بھتر جاننے والا ھے“۔

ان آیات میں پھلے انسان کو یہ سمجھایا گیا ھے کہ تو پھلے تو کچھ نھیں تھا اور ایک نطفہ سے زیادہ ارزش نھیں رکھتا تھا،لہٰذا انسان کو غور و فکر کی دعوت دی جاتی ھے کہ کیا انسان تونے نھیں دیکھا، توجہ نھیں کی، غور وفکر نھیں کیا کہ ھم نے تجھے ایک نطفہ سے خلق کیا ھے اور اب اتناطاقتور، صاحب قدرت اور باشعور ھوگیا کہ اپنے پروردگار سے مقابلہ کے لئے کھڑا ھوگیا اور علی الاعلان اس سے پر برسرپیکارھے؟!

پھلے انسان کو مخاطب کیاگیا ھے،یعنی ھر انسان چاھے کسی مذھب کا ماننے والا ھو یا اس کا علم و دانش کسی بھی حد میں ھو اس حقیقت کو درک کرسکتا ھے۔

اس کے بعد نطفہ کے بارے میں گفتگو کی ھے، (لغت میں نطفہ کے معنی ناچیز او ربے ارزش پانی کے ھیں)تاکہ انسان مغرور نہ ھوجائے لہٰذا تھوڑا بھت اپنی ابتداء کے بارے میں بھی جان لے کہ وہ پھلے کیا تھا؟ اس کے علاوہ صرف یھی ایک ناچیز قطرہ اس کی رشد و نمو کے لئے کافی نھیں تھا بلکہ اس ایک قطرہ میں چھوٹے چھوٹے ہزاروں سلولز تھے جو آنکھوں سے نھیں دیکھے جاسکتے اور یہ زندہ سلولز رحم مادر میں بھت چھوٹے سلولز سے باھم ملے اور انسان ان چھوٹے موجود سے وجود میں آیا ھے۔

اپنے رشد و نمو کی منزل کو یکے بعد دیگرے طے کیا ، سورہ مومنون کی ابتدائی آیات نے ان چھ مراحل کی طرف اشارہ کیا ھے: نطفہ، علقہ (مضغہ) ہڈیوں کا ظاھر ھونا، ہڈیوں پر گوشت پیدا ھونا اور آخر میں روح کی پیدائش اور حرکت۔

انسان پیدائش کے وقت ضعیف و ناتواں بچہ تھا، اس کے بعد تکامل کے مرحلوں کو تیزی کے ساتھ طے کیا یھاں تک کہ عقلانی اور جسمانی بلوغ تک پہنچ گیا۔

یہ کمزور اور ناتواں بچہ اس قدر طاقتور ھوا کہ خدا کے مد مقابل کھڑا ھوگیا، اس نے اپنی عاقبت کو بالکل ھی بھلادیااور ”خصیم مبین“ کا واضح مصداق بن گیا۔

انسان کی جھالت کا اندازہ لگائیں کہ ھمارے لئے مثال بیان کرتا ھے اور اپنے زعم ناقص میں داندان شکن دلیل حاصل کرلی ھے، حالانکہ اپنے پھلے وجود کو بھول گیا ھے اور کھتا ھے: ان بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرنے والا کون ھے ؟!

جی ھاں، وہ منکر معاند(دشمن) خصیم مبین (کھلا ھوا دشمن) بغض و کینہ رکھنے والااور بھول جانے والا، جنگل بیابان سے ایک بوسیدہ ہڈی کو پالیتا ھے جس ہڈی کے بارے میں یہ بھی معلوم نھیں ھے کہ کس کی ھے؟ اپنی موت پر مرا ھے یا زمان جاھلیت کی جنگ میں دردناک طریقہ سے ماراگیا ھے یا بھوک کی وجہ سے مرگیا ھے؟ بھر حال ہڈی کو پاکر یہ سوچتا تھا کہ قیامت کے انکار پر ایک دندان شکن دلیل مل گئی ھے، غصہ اور خوشحالی کی حالت میں اس ہڈی کو اٹھاکر کھتا ھے: اسی دلیل کے سھارے میں محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) سے ایسا مقابلہ کروں گا جس کا کوئی جواب نہ دیا جاسکے!

تیزی کے ساتھ چل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور فریاد بلند کی: ذرا بتائےے تو سھی کہ اس بوسیدہ ہڈی کو کون دوبارہ لباس ِحیات پہناسکتا ھے؟ اس کے بعد اس ہڈی کو مسلتے ھوئے زمین پر ڈال دیا ، وہ سوچتا تھا کہ رسول خدا ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے پاس اس کو کوئی جواب نھیں پن پائے گا۔

قابل توجہ بات یہ ھے کہ قرآن مجید نے ایک چھوٹے سے جملہ (( نسی خلقہ)) کے ذریعہ پورا جواب دیدیا، اگرچہ اس کے بعد مزید وضاحت اور دلائل بھی بیان کئے ھیں۔

ارشاد ھوا: اگر تو نے اپنی پیدائش کو نہ بُھلایا ھوتا تو اس طرح کی بے بنیاد دلیل نہ دیتا؛ اے بھولنے والے انسان! ذرامڑکرتو دیکھ اور اپنی پیدائش کے بارے میں غور و فکر کر کہ اول خلقت میں کس قدر ذلیل پانی تیرا وجود تھا، ھر روز ایک نئی زندگی کی شروعات تھی، تو ھمیشہ موت و معاد کی حالت میں ھے، لیکن اے بھولنے والے انسان! تو نے سب کچھ بالائے طاق رکھ دیا اور اپنی خلقت کو بھول گیا اور اب پوچھتا ھے کہ کون اس بوسیدہ ہڈی کو دوبارہ زندہ کرسکتا ھے؟یہ ہڈی جب مکمل طور پر بوسیدہ ھوجائے گی تو خاک بن جائے گی، کیا تو روز اول خاک نھیں تھا؟! فوراً ھی پیغمبر کو حکم ھوتا ھے کہ اس مغرور اور بھولنے والے سے کہہ دو: ”وھی اس کو دوبارہ زندہ کرے گا جس نے روز اول اس کو پیدا کیا ھے“۔[35]

اگر آج یہ بوسیدہ ہڈی باقی رہ گئی ھے تو پھلے تو یہ ہڈی بھی نھیں تھی یھاں تک کہ مٹی اور خاک بھی نھیں تھی، جی ھاں جس نے اس انسان کو عدم کی وادی سے وجود عطا کیا تو اس کے لئے بوسیدہ ہڈی سے دوبارہ پیدا کرنا بھت آسان ھے۔

اگر تو یہ سوچتا ھے کہ یہ بوسیدہ ہڈیاں خاک ھوکر تمام جگھوں پر پھیل جائیں گی، تو ان ہڈیوںکو کون پہچان سکتا ھے اور کون ان کو مختلف جگہ سے جمع کرسکتا ھے؟ تو اس چیز کا جواب بھی واضح اور روشن ھے کہ وہ تمام مخلوقات سے آگاہ ھے اور اس کی تمام خصوصیات کو جانتا ھے:

((وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ))

اور وہ ھر مخلوق کا بھترین جاننے والا ھے“۔

جس کے پاس اس طرح کا علم اور قدرت ھو تو اس کے لئے معاد اور مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا کوئی مشکل کام نھیں ھے۔

ایک مقناطیس کے ذریعہ مٹی کے نیچے بکھرے ھوئے لوھے کے ذرات کو جمع کیا جاسکتا ھے جبکہ

یہ مقناطیس ایک بے جان چیز ھے، تو کیاخداوندعالم انسان کے بکھرے ھوئے ھر ذرہ کو ایک اشارہ سے جمع نھیں کرسکتا؟

وہ نہ صرف انسان کی خلقت سے آگاہ ھے بلکہ انسان کی نیتوں اور اس کے اعمال سے بھی آگاہ ھے ، انسان کا حساب و کتاب اس کے نزدیک واضح و روشن ھے۔

لہٰذا اس کے اعمال، اعتقادات اور نیتوں کا حساب کرنا اس کے لئے کوئی مشکل نھیں ھے:

(( ۔۔۔ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِی اٴَنفُسِکُمْ اٴَوْ تُخْفُوہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ۔۔۔))۔[36]

۔۔۔تم اپنے دل کی باتوں کا اظھار کرو یا ان پر پردہ ڈالو، وہ سب کا محاسبہ کرلے گا۔۔۔“۔

اسی وجہ سے جناب موسیٰ علیہ السلام کو حکم ملا کہ فرعون (جو معاد کے بارے میں شک کرتا تھا اور صدیوں پرانے لوگوں کو دوبارہ زندہ کرنے اور ان کے حساب و کتاب سے تعجب کرتا تھا)سے کہہ دو :

(( ۔۔۔ عِلْمُھا عِنْدَ رَبِّی فِی کِتَابٍ لاَیَضِلُّ رَبِّی وَلاَیَنسَی))۔[37]

۔۔۔ان باتوں کا علم میرے پروردگار کے پاس اس کا کتاب میں محفوظ ھے، وہ نہ بہکتا ھے اور نہ بھولتا ھے“۔[38]

بھر حال روز قیامت ،روز محشر اورحساب و کتاب کا مسئلہ غیب کے مصادیق میں سے ھے، جس پرقرآنی آیات اور روایات کی روشنی میں اعتقاد اور ایمان رکھنا معنوی اور روحانی زبیائیوں میں سے ھے،جس سے انسان رشد و کمال کے درجات اور صحیح تربیت حاصل کرلیتاھے، جو انسانی زندگی میں بھت موثر اور ثمر بخش نتائج کا حامل ھے۔

حساب

روز قیامت میں تمام انسانوں کے عقائد، اخلاق اور اعمال کا حساب و کتاب ایک ایسی حقیقت ھے جس کو قرآن کریم اور معارف الٰھی نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ھے۔

یہ بات قابل قبول نھیں ھے کہ نیک افراد صدق و صفا، اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ میں اپنی پوری عمر بسر کریں اور دوسروں کو بھی فیض پہنچائیں، اور ان کے مرنے کے بعد ان کے اعمال کی فائل بند ھوجائے اور ان کا حساب و کتاب نہ کیا جائے، ان کی زندگی کی کتاب کا دوبارہ مطالعہ نہ کیا جائے اور ان کو کوئی جزا یا انعام نہ ملے۔

اسی طرح یہ بات بھی قابل قبول نھیں ھے کہ ناپاک کفارو مشرکین ،ملحداور اھل طاغوت، ظلم و ستم، جھالت و غفلت، پستی و ناپاکی، خیانت و ظلم اور غارت گری میں اپنی پوری عمر گزار نے والے، لوگوں پر ظلم و ستم کریں ان کو اذیت پہنچائیں، بھت سے افراد کو ان کے حق سے محروم کردیں، ان کے مرنے کے بعد ان کے اعمال کی فائل بند کردی جائے، ان کا کوئی حساب و کتاب نہ کیا جائے، ان کی زندگی کی کتاب کا دوبارہ مطالعہ نہ کیا جائے اور ان کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا جائے۔

خداوندعالم کے عدل ، حکمت، رحمت اور غضب کا تقاضا ھے کہ ایک روز تمام انسانوں کو جمع کرے، ان کے عقائد اور اعمال کا حساب کرے، اور ھر شخص کو اس کے نامہ اعمال کے لحاظ سے جزا یا سزا دے۔

نیک اور صالح افراد کے حساب و کتاب کے بارے میں قرآن مجید فرماتا ھے:

(( وَمِنْھم مَنْ یَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ اٴُوْلَئِکَ لَھم نَصِیبٌ مِمَّا کَسَبُوا وَاللهُ سَرِیعُ الْحِسَابِ))۔[39]

اور بعض کھتے ھیں کہ پروردگار ھمیں دنیا میں بھی نیکی عطا فرمااور آخرت میں بھی اور ھم کو عذاب سے محفوظ فرما۔یھی وہ لوگ ھیں جن کے لئے ان کی کمائی کا حصہ ھے اور خدا بھت جلد حساب کرنے والا ھے“۔

(( ثُمَّ رُدُّوا إِلَی اللَّہِ مَوْلاَھم الْحَقِّ اٴَلاَلَہُ الْحُکْمُ وَہُوَ اٴَسْرَعُ الْحَاسِبِینَ))۔[40]

پھر سب اپنے مولائے برحق پروردگار کی طرف پلٹا دیئے جاتے ھیں ۔۔۔آگاہ ھو جاوٴ کہ فیصلہ کا حق صرف اسی کو ھے اور وہ بھت جلد ی حساب کرنے والاھے۔‘ ‘

(( فَاٴَمَّا مَنْ اٴُوتِیَ کِتَابَہُ بِیَمِینِہِ۔فَسَوْفَ یُحَاسِبُ حِسَاباً یَسِیراً))۔[41]

پھر جس کو نامہ اعمال داہنے ھاتھ میں دیا جائے گا۔اس کا حساب آسان ھوگا“۔

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اپنے آباء و اجداد کے حوالہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت فرماتے ھیں کہ آپ نے فرمایا:

لَا تَزولُ قَدَما عَبْدٍٴ یَوْمَ الْقِیامَةِ حَتّیْ یُسْاٴَلَ عَنْ اٴَرْبَعٍ :عَنْ عُمْرِہِ

فِیما اَفْناہُ،وَشَبابِہِ فِیما اَبْلاہُ وَعَنْ مَالِہِ مِنْ اَیْنَ کَسَبَہُ وَفِیمااَنْفَقَہُ،وَعَنْ حُبِّنَا اَھل الْبَیْتِ“۔[42]

روز قیامت انسان کے قدم نھیں بڑھیں گے مگر یہ کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں سوال کیا جائے : کس چیز میں اپنی عمر گزاری، جوانی کو کن چیزوں میں گزارا، مال و دولت کھاں سے حاصل کی اور کھاں خرچ کی ، نیز محبت اھل بیت( علیھم السلام) کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔

بے شک جن مومنین نے اپنی عمر او رجوانی کو عبادت و اطاعت میں صرف کیا ھوگا، اور قرآن کے حکم کے مطابق اپنی دولت کو خرچ کیا ھے، اور محبت اھل بیت علیھم السلام میں اپنی عمر گزاری ھے، تو روز قیامت ایسے افراد کا حساب آسان ھوگا، اور حشر کے میدان میں ان کو کوئی پریشانی نھیں ھوگی، اور ان کا حساب و کتاب بھت جلد ھوجائے گا۔

ایک شخص امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں عرض کرتا ھے: اے فرزند رسول! میں آپ کی خدمت میں ایک حاجت رکھتا ھوں، تو امام علیہ السلام نے فرمایا: مجھ سے مکّہ میں ملنا، میںمکّہ میں حضرت سے ملا اور اپنی حاجت کے بارے میں کھا تو حضرت نے فرمایا: منیٰ میں مجھ سے ملنا، چنانچہ میں منیٰ میں حضرت سے ملااور اپنی حاجت کے بارے میں کھا، تو امام علیہ السلام نے کھا: کھو کیا کہنا چاھتے ھو؟ میں نے کھا: میں ایک ایسے گناہ کا مرتکب ھوا ھوں کہ خدا کے علاوہ کوئی اس سے مطلع نھیں ھے، اس گناہ کا بوجھ مجھے مارے ڈال رھا ھے، میں آپ کی خدمت میں حاضر ھوا ھوں تاکہ اس سے نجات مل جائے، اور اس گناہ کے بوجھ سے سبکدوش ھوجاؤں، تو امام علیہ السلام نے فرمایا: جب خداوندعالم روز قیامت برپا کرے گا اور اپنے مومن بندوں کا حساب کرے گا تو ان کے تمام گناھوں سے آگاہ کرے گا، پھر اپنی رحمت و مغفرت میں جگہ دے گا اور اپنے بندے کے بخشے گئے گناھوں سے کسی فرشتہ یا رسول کو بھی باخبر نھیں کرے گا![43]

مومنین کے حساب کے سلسلے میں ایک بھت اھم روایت علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے اپنی گزانقدر کتاب بحار الانوار میں امالی شیخ طوسی علیہ الرحمہ کے حوالہ سے حضرت علی علیہ السلام سے نقل کی ھے، جو واقعاً تعجب خیز اور امیدوار کرنے والی ھے! روایت یوں ھے:

یُوقَفُ الْعَبْدَ بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ فَیَقُولُ :قیسُوا بَیْنَ نِعَمی عَلَیْہِ وَ بَیْنَ عَمَلِہِ ،فَتَسْتَغْزِقُ النِّعَمُ الْعَمَلَ، فَیَقولونَ:قَدِ اسْتَغْرَقَ النِّعَمُ الْعَمَلَ،فَیَقُولُ : ھَبُوا لَہُ نِعَمِی ،وَ قیسُوا بَیْنَ الْخَیْرِ وَ الشَّرِّ مِنْہُ،فَاِنِ اسْتَوَی الْعَمَلانِ اَذْھَبَ اللّٰہُ الشَّرَّ بِالْخَیْرِ وَاَدْخَلَہُ الْجَنَّةَ ،وَاِنْ کانَ لَہُ فَضْلٌ اَعْطاہُ اللّٰہُ بِفَضْلِہِ، وَاِنْ کاَنَ عَلَیْہِ فَضْلٌ وَھُوَ مِنْ اَھل التَّقْویٰ لَمْ یُشْرِکْ بِاللّٰہِ تَعالیٰ وَاتَّقَی الشِّرْکَ بِہِ فَھُوَ مِنْ اَھل الْمَغْفِرَةِ یَغْفِر اللّٰہُ لَہُ بِرَحْمَتِہِ اِنْ شاءَِ وَ یَتَفَضَّلُ عَلَیْہِ بِعَفْوِہِ“۔[44]

بندہ کو خدا کی بارگاہ میں حاضر کیا جائے گا اور خدا فرمائے گا:میری نعمتوں اور اس کے اعمال کا موازنہ کرو، چنانچہ جب نعمتیں اس کے تمام اعمال کو چھپالیں گی تو فرشتے عرض کریں گے: پالنے والے! اس کے اعمال پر تیری نعمتیں غالب ھیں، خطاب ھوگا: میری نعمتوں کو بخش دو، اس کی نیکیوں اور برائیوں کے درمیان موازنہ کرو، اگر اس کی نیکیاں اور برائیاں برابر ھوگئیں تو اس کی برائیوں کو نیکیوں کے احترام میں بخش دو، اس کو بہشت میں وارد کردو، اور اگر اس کی نیکیاں زیادہ ھیں تو نیکیوں کی وجہ سے اس کو مزید عطا کردو، اوراگر اس کی برائیاں زیادہ ھیں لیکن اھل تقویٰ ھے اور خدا کے ساتھ شرک نھیں کیا ھے ، تو یہ شخص مغفرت کا سزاوار ھے، خداوندعالم اگر چاھے تو اپنی رحمت کے ذریعہ اس کے گناھوں کو بخش دے گا اور اپنے عفو وکرم سے اس پر فضل و کرم کرے گا!“

علامہ مجلسی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب بحار الانوار میں اصول کافی سے روایت نقل کرتے ھیں کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: روز قیامت نعمتوں، نیکیوں اور برائیوں کے درمیان مقائسہ کیا جائے گا۔

نعمتوں اور نیکیوں کا آپس میں موازنہ کیا جائے گا، نعمتیں ، نیکیوں سے زیادہ ھوں گی، برائیوں کی فائل کی شکست ھوگی، مومن انسان کو حساب کے لئے بلایا جائے گا، اس وقت قرآن کریم بھترین صورت میں اس مومن بندے کے پاس حاضر ھوکر یوں گویا ھوگا: پروردگارا! میں قرآن ھوں اور یہ تیرا مومن بندہ، اس نے میری تلاوت کے لئے زحمتیں اٹھائی ھیں، راتوں میری تلاوت میں مشغول رھا ھے، نماز شب میں اپنی آنکھوں سے آنسو بھائے ھیں، پالنے والے! اس سے راضی ھوجا، اس وقت خدائے عزیز و جباربندہ مومن سے خطاب فرمائے گا: اپنا داہنا ھاتھ کھول ، چنانچہ اس کے داہنے ھاتھ کو اپنی رضوان سے بھردے گا اور بائیں ھاتھ کو اپنی رحمت سے بھر دے گا، اور پھر اپنے مومن بندہ سے خطاب فرمائے گا: یہ بہشت تیرے لئے مباح ھے، قرآن پڑھتا جا اور بلند و بالادرجات کی طرف بڑھتا جا، چنانچہ انسان جس مقدار میں قرآن کی آیتوں کی تلاوت کرتا رھے گا اسی مقدار میں جنت کے درجات پر فائز ھوتا جائے گا۔[45]

گناھگاروں، بدکاروں، ملحدوں اور بے دین لوگوں کے حساب اور ان کے نامہ اعمال کے پڑھے جانے کے سلسلہ میں قرآن مجید اور روایات میں پڑھتے ھیں:

(( ۔۔۔وَمَنْ یَکْفُرْ بِآیَاتِ اللهِ فَإِنَّ اللهَ سَرِیعُ الْحِسَابِ))۔[46]

۔۔۔اور جو بھی آیات الٰھی کا انکار کرے گا تو خدا بھت جلد حساب کرنے والاھے“۔

(( ۔۔۔وَالَّذِینَ لَمْ یَسْتَجِیبُوا لَہُ لَوْ اٴَنَّ لَھم مَا فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَہُ مَعَہُ لَافْتَدَوْا بِہِ اٴُوْلَئِکَ لَھم سُوءُ الْحِسَابِ وَمَاٴْوَاھم جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِھادُ))۔[47]

۔۔۔اور جو اس کی بات کو قبول نھیں کرتے انھیں زمین کے سارے خزانے بھی مل جائیں اور اسی قدر اور بھی مل جائے تو یہ بطور فدیہ دے دیں گے لیکن ان کے لئے بد ترین حساب ھے اور ان کا ٹھکانا جہنم ھے اور وہ بھت بُرا ٹھکانا ھے“۔

(( وَکَاٴَیِّنْ مِنْ قَرْیَةٍ عَتَتْ عَنْ اٴَمْرِ رَبِّھا وَرُسُلِہِ فَحَاسَبْنَاھا حِسَابًا شَدِیدًا وَعَذَّبْنَاھا عَذَابًا نُکْرًا))۔[48]

اور کتنی ھی بستیاں ایسی ھیں جنھوں نے حکم خدا و رسول کی نافرمانی کی تو ھم نے ان کا شدید محاسبہ کر لیا اور انھیں بد ترین عذاب میں مبتلا کردیا“۔

(( اِلاَّ مَنْ تَوَلّٰی وَکَفَرَ۔فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ۔اِنَّ اِلَیْنَا اِیَابَھُمْ۔ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَھُمْ))۔[49]

مگر منھ پھیرلے اور کافر ھوجائے۔تو خدا اسے بھت بڑے عذاب میں مبتلا کرے گا۔پھر ھمارے ھی طرف ان سب کی باز گشت ھے۔اور ھمارے ھی ذمہ ان سب کا حساب ھے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام درج ذیل آیہ قرآن (( ۔۔۔إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اٴُوْلَئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُولًا))۔[50] کے بارے میں فرماتے ھیں:

یَسْاٴَلُ السَّمْعَ عَمّا یَسْمَعُ ،وَالْبَصَرَ عَمّا یَطْرِفُ،وَالْفُوٴادَ عَمّا عَقَدَ عَلَیْہِ“۔[51]

روز قیامت خدا وندعالم کانوں سے سنی ھوئی ، آنکھوں سے دیکھی گئی اور دل میں پیدا ھونے والی چیزوںکے بارے میں سوال فرمائے گا“۔

ایک شخص نے حضرت امام سجاد علیہ السلام سے عرض کیا: اگر کسی مومن کا کوئی حق کافر کے ذمہ باقی رہ گیا ھے تو روز قیامت کافر سے مومن کے نفع میں کیا چیز لی جائے گی، حالانکہ کافر اھل جہنم ھوگا؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: کافر پر حق کے برابر مومن کے گناھوں کو کافر کی گردن پر ڈالدیا جائے گا اور کافر اپنے گناھوں اور اس حق کے گناھوں کے برابر عذاب میں گرفتار ھوگا![52]

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:

ظلم و ستم کی تین قسمیں ھیں: ایک وہ ستم جس کو معاف نھیں کیا جائے، دوسرے وہ ستم جس کو چھوڑا نھیں جائے گا، تیسرے وہ ستم جو بخش دیا جائے گا اور اس کا مطالبہ نھیں ھوگا۔

لیکن وہ ستم جو معاف نھیں ھوگا وہ خدا کے ساتھ شرک کرنا ھے، جیسا کہ خداوندعالم نے ارشاد فرمایا ھے:

((إِنَّ اللهَ لاَیَغْفِرُ اٴَنْ یُشْرَکَ بِہ۔۔۔))۔[53]

اللہ اس بات کو معاف نھیں کر سکتا کہ اس کا شریک قرا دیا جائے۔۔۔“۔

وہ ستم جو بخش دیا جائے گا، وہ انسان کا اپنے نفس پر ظلم و ستم ھوگا جو انسان نے گناھان صغیرہ کے ذریعہ انجام دیا ھوگا۔

لیکن وہ ستم جس کو چھوڑا نھیں جائے گا، وہ دوسروں پر کیا ھوا ظلم ھوگا، یہ ستم چاقو یا تازیانہ سے کیا ھوا ستم نھیںھوگا بلکہ اس سے (بھی) کمتر اور چھوٹا ظلم ھوگا۔[54]

حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ھے:

یُوٴْتیٰ یَوْمَ الْقِیامَةِ بِصاحِبِ الدَّیْنِ یَشْکُو الْوَحْشَةَ ،فَاِنْ کاَنَتْ لَہْ حَسَناتُ اْخِذَ مِنْہُ لِصاحِبِ الدَّیْنِ ،وَقالَ:وَاِنْ لَمْ تَکُنْ لَہُ حَسَناتٌ اُلْقِیَ عَلَیْہِ مِنْ سَیِّئاتِ صاحِبِ الدَّیْنِ۔“[55]

ایک مقروض کو روز قیامت حاضر کیا جائے گا جو خوف و وحشت کی شکایت کرتا ھوگا،تو اگر اس کے پاس نیکیاں ھوں گی تو صاحب قرض کو اس کی نیکیاں دیدی جائیں گی، او راگر نیکیاں نہ ھوں گی تو صاحب قرض کی برائیاں اس کی گردن پر ڈال دی جائیں گی“۔

حساب و کتاب اور روز قیامت بندوں کے اعمال کی کتاب کا دوبارہ مطالعہ بھی غیب کے

مصادیق میں سے ھے، جس پر عقیدہ رکھنا قرآن و حدیث کی بنا پر ایمان کا جزء ھے اور معنوی زیبائیوں میں سے ھے۔

میزان

انسان کے اعمال کو پرکھنے کی میزان اور ترازو چاھے جس کیفیت کے ساتھ بھی ھو ایک اھم مسئلہ ھے،جس کا ذکر قرآن کریم اور اور احادیث اھل بیت علیھم السلام میں تفصیلی طور پر ھوا ھے، جو روز قیامت کے مسائل میں سے ایک مسئلہ ھے۔

((وَالْوَزْنُ یَوْمَئِذٍ الْحَق۔۔۔))۔[56]

آج کے دن اعمال کا وزن ایک برحق شئے ھے۔۔۔“۔

(( وَ نَضَعُ المَوَازِینَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیَامَةِ فَلاَ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئاً۔۔۔))۔[57]

اور ھم قیامت کے دن انصاف کی ترازو قائم کریں گے“۔

ہشام بن سالم کھتے ھیں: میں نے اس آیت کے بارے میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ روز قیامت ”میزان“ سے کیا مراد ھے؟ تو حضرت نے فرمایا: اس سے مراد انبیاء اور اوصیاء انبیاء علیھم السلام ھے۔[58]

جی ھاں، روز قیامت میں بندوں کے اعمال ، عقائد اور اخلاق کو انبیاء اور ائمہ معصومین علیھم السلام کے ساتھ تولا جائے گا، اگر انسان کے عقائد، اعمال اور اخلاق انبیاء اور ائمہ علیھم السلام کے عقائد و اعمال کے ساتھ ھم آہنگ ھوں گے تو ایسا شخص اھل نجات ھے، اور درحقیقت اس کا پلڑا بھاری ھوگا، اور اگر انسان کے اعمال انبیاء و ائمہ علیھم السلام سے ھم آہنگ نہ ھوں گے تو ایسا شخص نجات نھیں پاسکتا، چونکہ اس کا پلڑا ھلکا او ربے وزن ھوگا، قرآن مجید نے ان دونوں مسائل کے بارے میں یوں اشارہ کیا ھے:

(( ۔۔۔فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِینُہُ فَاٴُوْلَئِکَ ھم الْمُفْلِحُونَ ۔ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُہُ فَاٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ خَسِرُوا اٴَنفُسَھم بِمَا کَانُوا بِآیَاتِنَا یَظْلِمُونَ))۔[59]

۔۔۔پھر جن کے نیک اعمال کا پلہ بھاری ھو گا وھی نجات پانے والے ھیں۔اور جن کا پلہ ھلکا ھوگیا یھی وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے نفس کو خسارہ میں رکھا کہ وہ ھماری آیت وں پر ظلم کر رھے تھے“۔

(( ۔۔۔وَاِنْ کاَنَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ اٴَتَیْنَا بِھَا وَکَفَیٰ بِنَا حَاسِبِینَ))۔[60]

اور کسی کا عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ھے تو ھم اسے لے آئیں گے اور ھم سب کا حساب کرنے کے لئے کافی ھیں “۔

(( فَاٴَمَّا مَن ثَقُلَتْ مَوَازِینُہُ ۔فَھُوَ فِی عِیشَةٍ رَاضِیَةٍ۔وَاٴَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُہُ ۔فَاٴُ مُّہُ ھَاوِیَةٌ۔وَمَا اٴَدْرَاکَ مَاھِیَہْ۔نَارٌ حَامِیَةٌ))۔[61]

تو اس دن جس کی نیکیوں کا پلہ بھاری ھوگا۔وہ پسندیدہ عیش میں ھوگا۔اور جس کا پلہ ھلکا ھوگا ۔اس کا مرکز ھاویہ ھے۔اور تم کیا جانو کہ ھاویہ کیا مصیبت ھے۔یہ ایک دہکتی ھوئی آگ ھے“۔

عقائد حقہ، اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ خاص اھمیت سے برخوردار ھیں، عدل الٰھی کی میزان میں ناقابل تصور وزن رکھتے ھیں اور سخت مقامات پر باعث نجات ھیں۔

حضرت امام باقر علیہ السلام اپنے آباء و اجداد کے سلسلے میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

حُبّی وَحُبُّ اَھل بَیْتِی نافِعٌ فِی سَبْعَةِ مَواطِنَ اَھْوَالُھُنَّ عَظیمَةٌ،عِنْدَ الْوَفاةِ ، وَفِی الْقَبْرِ ، وَ عِنْدَ النُّشورِ، وَ عِنْدَ الْکِتابِ، وَعِنْد الْحِسابِ،وَ عِنْدَ الْمِیزانِ،وَ عِنْدَ الصِّراطِ“۔[62]

ھماری اور ھمارے اھل بیت کی محبت سات خطرناک مقامات پر کام آئے گی، موت کے وقت، قبرمیں، قیامت میں دوبارہ زندہ ھونے کے وقت، نامہ اعمال کے وقت، حساب کے وقت، میزان پر، اور پُل صراط پر گزرتے وقت“۔

قارئین کرام! ھم جانتے ھیں کہ محب کی محبت محبوب سے کسب آثار کے لئے بھت اھم چیز ھے، جو محبت انسان کے لئے سات مقامات پر کام آنے والی ھے، جو انسان کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آنحضرت کے اھل بیت علیھم السلام کی پیروی اور اطاعت کرنے کے لئے آمادہ کرے۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ھیں:

ما یُوضَعُ فی میزانِ امْرِیءٍ یَوْمَ الْقِیامَةِ اَفْضَلُ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ“۔[63]

روز قیامت انسان کی ترازومیں حسن خلق سے بھتر کوئی چیز نھیں ھے“۔

حضرت امام رضا علیہ السلام مامون عباسی کے لئے ایک خط میں تحریر فرماتے ھیں:

وَتُوٴْمِنُ بِعَذابِ الْقَبْرِ،وَمُنْکَرٍ وَنَکِیرٍ وَ الْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْمِیزانِ وَالصِّراطِ“۔[64]

عذاب قبر، منکر و نکیر اور مرنے کے بعد روز قیامت میں محشور ھونے، میزان اور پُل صراط پر ایمان رکھ“۔

میزان کا مسئلہ بھی گزشتہ مسائل کی طرح غیب کے مصادیق میں سے ھے، اور قرآن کریم اور حدیث کی بنا پر اس پر ایمان رکھنا واجب ھے، جس کے انسان کی زندگی میں بھت سے مفید آثار نمایاں ھوتے ھیں۔

بہشت و جہنم

بہشت “متقین کے لئے ھمیشگی اور ابدی مقام ھے، اور ”جہنم “اھل کفر و معصیت کا ھمیشگی مقام ھے، جن کے بارے میں قرآن مجید کی بھت سی آیات اور اسلامی تعلیمات خصوصاً احادیث اھل بیت علیھم السلام میں تفصیل کے ساتھ بیان ھوا ھے۔

ھم ان دونوں کی وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس نھیں کرتے، کیونکہ اکثر مومنین مجالس اور دیگر طریقوں سے یا اسلامی کتابوں میں ان دونوں کے بارے میں سن چکے یا پڑھ چکے ھیں۔

جنت ودوزخ پر ایمان رکھنا دینی ضروریات میں سے ھے اور ان دونوں پر ایمان نہ رکھنا کفر کے برابر ھے۔

بہشت اپنی تمام تر مادی و معنوی نعمتوں کے ساتھ نیک اور صالح افراد کی جزا اور جہنم اپنے تمام ظاھری و باطنی عذاب کے ساتھ بدکاروں کے لئے جائے سزا ھے۔

بہشت و جہنم غیب کے مصادیق میں سے ھے، ان دونوں کے بارے میں بیان کرنا صرف اورصرف وحی الٰھی کی ذمہ داری ھے، انسان کا علم جس کے درک کرنے سے قاصرھے، اسی وجہ سے انسان وحی الٰھی پر توجہ کئے بغیر ان دونوں کے بارے میں اپنا نظریہ بیان نھیں کر سکتا،اگرچہ علم و دانش کے لحاظ سے بلند مقام پر پہنچ چکا ھے۔

خداوندعالم ؛اھل صدق و صداقت اور نیک افراد کے بارے میں ارشاد فرماتا ھے:

(( قَالَ اللهُ ہَذَا یَوْمُ یَنفَعُ الصَّادِقِینَ صِدْقُھم لَھم جَنَّاتٌ تَجْرِی مِنْ تَحْتِھا الْاٴَنھارُ خَالِدِینَ فِیھا اٴَبَدًا رَضِیَ اللهُ عَنْھم وَرَضُوا عَنْہُ ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ))۔[65]

اللہ نے کھا کہ یہ قیامت کا دن ھے جب صادقین کو ان کا سچ فائدہ پہنچائے گا تو ان کے لئے باغات ھوں گے جن کے نیچے نھریں جاری ھوں گی اور وہ ان میں ھمیشہ ھمیشہ رھیں گے ۔خدا ان سے راضی ھوگا اور وہ خدا سے راضی ھوں گے ،اور یھی ایک عظیم کامیابی ھے“۔

اسی طرح خداوندعالم گناھگاروں کے بارے میں ارشاد فرماتا ھے:

(( وَالَّذِینَ کَسَبُوا السَّیِّئَاتِ جَزَاءُ سَیِّئَةٍ بِمِثْلِھا وَتَرْہَقُھم ذِلَّةٌ مَا لَھم مِنْ اللهِ مِنْ عَاصِمٍ کَاٴَنَّمَا اٴُغْشِیَتْ وُجُوہُھم قِطَعًا مِنْ اللَّیْلِ مُظْلِمًا اٴُوْلَئِکَ اٴَصْحَابُ النَّارِ ھم فِیھا خَالِدُونَ))۔[66]

اور جن لوگوں نے برائیاں کمائی ھیں ان کے لئے ھر بُرائی کے بدلے ویسی ھی بُرائی ھے اور ان کے چھروں پر گناھوں کی سیاھی بھی ھوگی اور انھیں عذاب الٰھی سے بچانے والا کوئی نہ ھوگا ۔ان کے چھرے پر جیسے سیاہ رات کی تاریکی کا پردہ ڈال دیا گیا ھو۔وہ اھل جہنم ھیں اور اسی میں ھمیشہ رہنے والے ھیں“۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں: جس وقت روز قیامت برپا ھوگی، خداوندعالم ایک منادی کو حکم دے گا کہ اس کی بارگاہ میں یہ اعلان کرے: غریب اورنادار لوگ کھاں ھو؟ بھت سے لوگ جمع ھوجائیں گے، اس وقت خدا فرمائے گا: اے میرے بندو! تووہ آواز دیں گے: لبیک یا اللہ، اس وقت خدا فرمائے گا: میں نے تم لوگوں کو ذلیل کرنے کے لئے غریب و نادار نھیں بنایا تھالیکن اس لئے کہ آج کے دن تمھیں نعمتوں سے مالامال کردوں، جاؤ اور لوگوں کو تلاش کرو کہ جس نے بھی تمھارے ساتھ نیکی کی ھو ، اس کی نیکی میری خوشنودی کے لئے تھی، لہٰذا اس کے عمل کی جزا یہ ھے کہ اس کو بہشت میں داخل کردو۔[67]

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اگر کوئی مومن کسی دوسرے مومن کی ضرورت کے وقت حاجت پوری نہ کرے، اپنی طرف سے یا دوسرے کے ذریعہ اس کی مشکل کو آسان نہ کرے تو خداوندعالم روز قیامت اس کے چھرہ کو سیاہ کردے گا، اس کی آنکھیں اندھی ھوجائیں گی اور اس کے دونوں ھاتھ گردن سے بندھے ھوں گے، اور کھا جائے گا: یہ وہ خیانت کار ھے جس نے خدا و رسول کے ساتھ خیانت کی ھے، اس کے بعد حکم دیا جائے گا کہ اس کو آتش جہنم میں ڈال دو۔[68]

حضرت امیر المومنین علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت فرماتے ھیں کہ آنحضرت نے فرمایا: یا علی!جو شخص مجھ سے محبت کا دعویٰ کرے درحالیکہ آپ سے دشمنی رکھتا ھو ایسا شخص جھوٹا ھے، یا علی! جس وقت قیامت برپا ھوگی اےک منادی عرش سے آواز دے گا، علی علیہ السلام کے عاشق اور ان کے شیعہ کھاں ھیں؟ علی کے محب اور دوستدار اور جس کو علی دوست رکھتے ھیں کھاں ھو؟ جن لوگوں نے رضائے الٰھی کے لئے دوستی کی ھے اور ایک دوسرے سے محبت کی ھے، جنھوں نے خدا کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ کرم و بخشش سے کام لیا ھے، وہ لوگ جنھوں نے اپنی ضرورت کے باوجود دوسروں کی حاجت کو پورا کیا ھے ، جن لوگوں کی زبان گرمی کے روزہ کی وجہ سے خشک ھوئی ھے، جنھوں نے رات کے اندھیرے میں عبادتیں کی ھیںجبکہ دوسرے لوگ سوئے ھوئے تھے، جن لوگوں نے خوف خدا سے گریہ کیا ھے؟ آج تم لوگوں کے لئے کوئی خوف و ھراس نھیں ھے، تم لوگ (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھی ھو، تمھاری آنکھیں منور ھوں، تم اپنی ازواج کے ساتھ خوش و خرم بہشت میں داخل ھوجاؤ۔[69]

جنت و دوزخ کے بارے میں قرآن مجید کی سیکڑوں آیات اور بھت سی احادیث بیان ھوئی ھیں اور امام صادق علیہ السلام کے فرمان کے مطابق (بہشت و جہنم) اب بھی موجود ھیں اور یہ غیب کے مصادیق میں سے ھیں، جس پر ایمان و عقیدہ رکھنے سے صالح مومنین اور بدکاروں کی زندگی پر مثبت آثار ظاھر ھوتے ھیں، کیونکہ طالب بہشت اپنے کو عقائد حقہ، اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ سے آراستہ ھونے کی کوشش کرتا ھے اور جہنم سے ڈرنے والا درد ناک عذاب کے باعث خود کوگناھوں سے محفوظ کرتاھے۔

قارئین کرام! گزشتہ صفحات میں خدا، فرشتوں، برزخ، قیامت، حساب و کتاب، میزان اور بہشت و جہنم کے بارے میں بیان کئے گئے مطالب آیہ (( الَّذِینَ یُوٴْمِنونَ بِالْغَیْبِ))۔[70] کی تفسیر تھی۔

قرآن کریم اور احادیث معصومین علیھم السلام پر غور و فکر کرتے ھوئے غیب پر ایمان رکھنا ھر مرد و زن کے لئے ممکن ھے، اور ان چیزوں پر اعتقاد و ایمان رکھنا شرعی اور عقلی طور پر واجب ھے، کیونکہ غیب پر ایمان رکھنا دین کے اصول اور ضروری دین میں سے ھے، ان عقائد کے بارے میں کسی انسان کو کسی کی تقلید کرنے کا کوئی حق نھیں ھے، کیونکہ ھر انسان کے دل میں ان چیزوں پر ایمان ھونا ضروری ھے۔

غیب پر ایمان رکھنے سے انسان کو بلند مقامات عطا ھوتے ھیں، غیب پر ایمان رکھنے والا شخص محبوب خدا بن جاتا ھے،اس کے لئے دنیا و آخرت کی نجات کا دروازہ کھل جاتا ھے، اس کے لئے آج اور کل کی سعادت کا راستہ ھموار ھوجاتا ھے، جس سے انسان کو خدا کی عبادت اور پیغمبر و ائمہ علیھم السلام کی اطاعت کے لئے طاقت ملتی ھے۔

قرآن مجید نے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات میں غیب پر ایمان رکھنے کے بارے میں تاکید کی ھے اور اس کے بعد نماز و انفاق، آسمانی کتابوں اور قیامت کے دن پر ایمان کے بارے میں بیان کیا ھے جو غیب پر ایمان رکھنے کے آثار ھیں۔

قرآن اور اس سے قبل نازل ھونے والی کتابوں( جن کی تصدیق قرآن کریم نے فرمائی ھے) پر ایمان رکھنا قرآن کریم کی آیات اور اس کی تفسیر میں غور و فکر کے بعدھی ممکن ھے۔

قرآن کریم کے ایک (چھوٹے سے )سورے جیسے سورہ توحید یا سورہ کوثر کا جواب اگر ممکن ھوتا تو دشمنان اسلام اپنی تمام تر ترقی کے باوجودجواب لے آئے ھوتے، لیکن قیامت تک کسی قوم و ملت میں اتنی طاقت نھیں ھے کہ وہ قرآن کی مثل لے آئے:

(( وَإِنْ کُنتُمْ فِی رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَاٴْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِہِ وَادْعُوا شُہَدَائَکُمْ مِنْ دُونِ اللهِ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ))۔[71]

اگر تمھیں اس کلام کے بارے میں کوئی شک ھے جسے ھم نے اپنے بندے پر نازل کیا ھے تو اس جیسا ایک ھی سورہ لے آوٴ اور اللہ کے علاوہ جتنے تمھارے مددگار ھیں سب کو بلا لو اگر تم دعوے اور خیال میں سچے ھو“۔

(( قُلْ لَئِنْ اجْتَمَعَتْ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَی اٴَنْ یَاٴْتُوا بِمِثْلِ ہَذَا الْقُرْآنِ لاَیَاٴْتُونَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُھم لِبَعْضٍ ظَہِیرًا))۔[72]

”(اے رسول)آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ھوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نھیں لاسکتے، چاھے سب ایک دوسرے کے مددگار و پشت وپناہ ھی کیوں نہ ھو جائیں“۔

ان دونوں آیات کے پیش نظر قرآن کریم کے خداوندعالم کی طرف نازل ھونے میں ذرہ برابر بھی شک باقی نھیں رھتا، لہٰذا قرآن کریم جیسی عظیم الشان کتاب اور دیگر آسمانی کتابوں پر ایمان رکھنا، کوئی مشکل کام نھیں ھے۔

اسی طرح قرآنی آیات اور دلائل میں غور و فکر کے ذریعہ آخرت پر ایمان حاصل کرنا بھی ایک آسان کام ھے۔

غیب،قرآن کریم ،دیگر آسمانی کتب اور آخرت پر ایمان و یقین رکھنا معنوی زیبائیوں میں سے ھے۔

نماز

نماز وہ حقیقت ھے جس سے انسان کے ظاھر و باطن میں مادی اور معنوی طھارت و پاکیزگی پیدا ھوتی ھے، جس سے انسان کا ظاھر و باطن مزین ھوجاتا ھے، اور نمازی کے لئے ایک خاص نورانیت حاصل ھوتی ھے۔

قرآن کریم نے بھت سی آیات میں نماز کی طرف دعوت دی ھے، اور اس کو ایک فریضہ الٰھی کے عنوان سے بیان کیا ھے، نہ صرف یہ کہ نماز کاحکم دیا ھے بلکہ واجبی حکم دیا گیا ھے۔

(( وَاٴَقِیمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ وَمَا تُقَدِّمُوا لِاٴَنفُسِکُمْ مِنْ خَیْرٍ تَجِدُوہُ عِنْدَ اللهِ إِنَّ اللهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ))۔[73]

اور تم نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو کہ جو کچھ اپنے واسطے پھلے بھیج دوگے سب خدا کے یھاں مل جائے گا ۔خدا تمھارے اعمال کا دیکھنے والا ھے“۔

قرآن مجید نے بھت سی آیات میں مشکلات کے دور ھونے، سختیوں کے آسان ھونے اور بھت سے نیک کاموں میں امداد ملنے کے لئے نماز اور صبر کی دعوت دی ھے:

(( وَاسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ وَإِنَّھا لَکَبِیرَةٌ إِلاَّ عَلَی الْخَاشِعِینَ))۔[74]

صبر اور نماز کے ذریعہ مدد مانگو ۔نماز بھت مشکل کام ھے مگر ان لوگوں کے لئے جو خشوع و خضوع والے ھیں“۔

البتہ یہ بات معلوم ھونا چاہئے کہ وھی نماز انسان کو طاقت و بلندی عطا کرتی ھے جس میں فقھی اور معنوی شرائط پائے جاتے ھوں، جس نماز میں لباس اور مکان مباح ھو، وضو اور غسل کا پانی اور تیمم کی مٹی مباح ھو، جس نماز میں ترتیب اور طماٴنینہ (یعنی اطمینان) اور وقت کی رعایت کی گئی ھو، جس نماز میں سستی اور بے توجھی نہ پائی جاتی ھو، جس نماز میں نیت پاک ھو اور اس میں اخلاص پایا جاتا ھو، تو اس طرح کی نماز انسان کی مشکلات اور سختیوں میںمددگار ثابت ھوتی ھے، اور پھر انسان کے لئے تمام نیک کام کرنے کا راستہ ھموار ھوجاتا ھے۔

قرآن مجید نے بھت سی آیات میں نماز کو ایمان کی نشانی قرار دیا ھے۔

(( اِنَّمَا الْمُوٴْمِنُونَ الَّذِینَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوبُھُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ آیَا تُہُ زَادَتْھُمْ اِیمَاناً وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُونَ۔الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ یُنْفِقُونَ))۔[75]

صاحبان ایمان در حقیقت وہ لوگ ھیں جن کے سامنے ذکر خدا کیا جائے تو ان کے دلوں میں خوف خدا پیدا ھو اور اس کی آیات کی تلاوت کی جائے تو ان کے ایمان میں اضافہ ھوجاتا ھے اور وہ لوگ اللہ ھی پر توکل کرتے ھیں۔وہ لوگ نماز کو قائم کرتے ھیں اور ھمارے دیئے ھوئے رزق سے انفاق بھی کرتے ھیں“۔

قرآن کریم نے سستی ،حالت غنودگی اور حضور قلب میں مانع ھونے والی ھر چیز کو حالت میں نماز پڑھنے سے منع کیا ھے، بلکہ ایسے وقت میں نماز کی ادائیگی چاھی ھے کہ جب خوشی و نشاط، صدق و صفا اور خلوص اور حضور قلب کے ساتھ نماز پڑھی جاسکے اور تمام ظاھری و باطنی شرائط کا لحاظ کیا جائے:

(( یَااٴَیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَقْرَبُوا الصَّلاَةَ وَاٴَنْتُمْ سُکَارَی حَتَّی تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ۔۔۔))۔[76]

اے ایمان والو ! خبر دار نشہ کی حالت میں نما زکے قریب بھی نہ جانا جب تک یہ ھوش نہ آجائے کہ تم کیا کہہ رھے ھو۔۔۔“۔

قرآن مجید نے اپنے اھل و عیال کو نماز کی دعوت کو اخلاق انبیاء بتایا ھے، اور نمونہ کے طور پر حضرت اسماعیل کی دعوت کو بیان کیاھے:

(( وَکَانَ یَاٴْمُرُ اٴَھلہُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّکَاةِ وَکَانَ عِنْدَ رَبِّہِ مَرْضِیًّا))۔[77]

اور وہ اپنے گھر والوں کو نما ز اور زکوٰة کا حکم دیتے تھے اور اپنے پروردگار کے نزدیک پسندیدہ تھے“۔

قرآن مجید نے بیان کیا ھے کہ نمازانسان کو فحشاء و منکر سے روکتی ھے۔ جی ھاں، یہ بات تجربہ سے ثابت ھوچکی ھے کہ واقعی نماز انسان کو برائیوں سے روک دیتی ھے، اور انسان کے دل و جان میں پاکیزگی بھر دیتی ھے، اعضاء وجوارح کو خدا کی اطاعت کرنے پر آمادہ کردیتی ھے۔

(( ۔۔۔ وَاٴَقِمْ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلاَةَ تَنْہَی عَنْ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ۔۔۔))۔[78]

۔۔۔اور نماز قائم کرو کہ نماز ھربُرائی اور بدکاری سے روکنے والی ھے۔۔۔۔

قرآن کریم نے بے نمازی، بخیل، اھل باطل اور قیامت کی تکذیب کرنے والوں کو جہنمی قرار دیا ھے:

((قَالُوا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّینَ۔وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِینَ۔ وَکُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِینَ۔ وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّینِ))۔[79]

وہ کھیں گے ھم نماز گذارنھیں تھے۔اور مسکین کو کھانا نھیں کھلایا کرتے تھے۔ لوگوں کے بُرے کاموں میں شامل ھو جایا کرتے تھے۔اور روز قیامت کی تکذیب کیاکرتے تھے“۔

قرآن مجید نے حقیقت نماز سے غافل اور ریاکاری کرنے والے نمازی کو دین کا جھٹلانے والا قرا دیا ھے:

(( فَوَیْلٌ لِلْمُصَلِّینَ ۔الَّذِینَ ھُمْ عَن صَلَاتِھِمْ سَاھُونَ۔الَّذِینَ ھُمْ یُرَآءُ ونَ ))۔[80]

تو تباھی ھے ان نمازیوں کے لئے ۔جو اپنی نمازوں سے غافل رھتے ھیں۔دکھانے کے لئے عمل کرتے ھیں “۔

نماز اور اس کے فقھی و معنوی شرائط کے سلسلہ میں بھت سی روایات بھی بیان ھوئی ھیں جن میں چند کو بطور نمونہ پیش کیا جاتا ھے:

حضرت امام باقر علیہ السلام ایک روایت کے ضمن میں کچھ چیزوں کی سفارش کرتے ھوئے فرماتے ھیں: اپنی نماز کو بھی سبک نہ سمجھو کیونکہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے آخری وقت میں فرمایاھے:

لَیْسَ مِنّی مَنِ اسْتَخَفَّ بِصَلاتِہِ لَایَرِدُّ عَلَیَّ الْحَوْض لَا وَاللّٰہِ ،لَیْسَ مِنّی مَنْ شَرِبَ مُسْکِراً لَا یَرِدُّ عَلَیَّ الْحَوْضَ لَا وَاللّٰہِ۔“[81]

جو شخص نماز کو سبک سمجھے وہ مجھ سے نھیں ھے، خدا کی قسم حوض کوثر پر میرے پاس ایسا شخص نھیں پہنچ سکتا، اور ایسا شخص بھی مجھ سے نھیں ھے جو شراب پئے، خدا کی قسم ایسا شخص (بھی) میرے پاس حوض کوثر پر نھیں پہنچ سکتا“۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداوندعالم کی بارگاہ میں عرض کیا:پالنے والے!ایسے وقت پر نماز پڑھنے والے کی کیا جزاء ھے ؟ تو خطاب ھوا:

اُعْطِیہِ سُوٴْلَہُ ،وَاُبیحُہُ جَنَّتِی“۔[82]

میںاس کے سوالوں کو پورا ،ا اور اس کے لئے جنت مباح کردوں گا“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ھے:

اَحَبُّ الْعِبادِ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ رجلٌ صَدوقٌ فی حَدِیثِہِ مُحافِظٌ عَلیٰ صَلَواتِہِ وَمَاافْتَرَضَ اللّٰہُ عَلَیْہِ مَعَ اَداءِ الْاَمانَةِ“۔[83]

خداوندعالم کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ھے جو اپنی گفتگو میں صداقت سے کام لے ،نماز و دیگر عبادتوں کی حفاظت کرے اور امانت ادا کرے“۔

ابن مسعود کھتے ھیں: میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا: کونساعمل خداوندعالم کے نزدیک سب سے بھترھے؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اَلصَّلَاةُ لِوَقْتِھَا“۔[84]

نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

لَا تُضَیِّعُوا صَلاَتَکُمْ فَاِنَّ مَنْ ضَیَّعَ صَلَاتَہُ حُشِرَ مَعَ قَارُونَ وَھامانَ ،وَکاَنَ حَقّاً عَلَی اللّٰہِ اَنْ یُدْخِلَہُ النّارَ مَعَ الْمُنافِقینَ ، فَالْوَیْلُ لِمَنْ لَمْ یُحافِظْ عَلیٰ صَلَاتِہِ وَاَداءِ سُنَّةِنَبِیِّہِ“۔[85]

اپنی نمازوں کو برباد نہ کرو، بے شک جس نے نماز کو ضایع کیا وہ قارون اور ھامان کے ساتھ محشور ھوگا، اور خداوندعالم اس کو منافقین کے ساتھ جہنم میں ڈال دے گا، پس وائے ھونماز اور سنت پیغمبر کی حفاظت نہ کرنے والے شخص پر !“

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

یُعْرَفُ مَنْ یَصِفُ الْحَقَّ بِثَلَاثِ خِصالٍ:یُنْظَرُ اِلیٰ اَصْحابِہِ مَنْ ھُمْ؟وَاِلیٰ صَلَاتِہِ کَیْفَ ھِیَ وَفِی اَیِّ وَقْتٍ یُصَلّیھا ،فَاِنْ کَانَ ذَا مالٍ نُظِرَ اَیْنَ یَضَعُ مالَہُ ؟“۔[86]

جو شخص حق کی معرفت کا دعویٰ کرے وہ تین خصلتوں کے ذریعہ پہچانا جاتا ھے، اس کو دیکھا جائے کہ اس کی دوستی کن لوگوں سے ھے، اور اس کی نماز کس طرح کی ھے اور کس وقت پڑھتا ھے، اور اگر مالدار ھے تو اپنی دولت کھاں خرچ کرتا ھے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ھمارے شیعوں کو تین چیزوں کے ذریعہ پہچانو: نماز کے اوقات پر، کہ کس طرح اس کے معین وقت پر ادا کرتے ھیں، دوسرے رازداری میںکہ کس طرح ھمارے دشمنوں سے اسرار کو چھپاتے ھیں، تیسرے مال و دولت کے سلسلہ میں کہ اپنے دینی بھائیوں سے کس طرح مواسات کرتے ھیں۔[87]

انفاق

جو کچھ خداوندعالم مومنین کو عطا کرتا ھے وہ اس کو راہ خدا میں خرچ کردیتے ھیں۔

(( ۔۔۔وَمِمَّا رَزَقْنَاھم یُنفِقُونَ))۔[88]

۔۔۔اور جو کچھ ھم نے رزق دیا ھے اس میں سے ھماری راہ میں خرچ بھی کرتے ھیں“۔

اھل ایمان لوگوں کی مشکلات دور کرنے کے لئے اپنے مال و دولت، مقام، آبرو، عہدہ اور موقعیت سے فائدہ اٹھاتے ھیں اور خلوص و محبت کے ساتھ خدا کی عطا کردہ نعمتوں کو کسی ریاکاری اور کسی احسان کے بغیر خرچ کرتے ھیں۔

اھل ایمان کی زکوٰة پر توجہ ،نماز، روزہ اور حج کی طرح ھوتی ھے، اور مالی واجبات کو نماز کی ادائیگی کی طرح اھمیت دیتے ھیں۔

اھل ایمان زکوٰة، انفاق، صدقہ اور مومنین کے مدد کرنے میں ذرہ بھی بخل نھیں کرتے۔

قرآن مجید نے بھت سی آیات میں لوگوں کو انفاق کا حکم دیا ھے اور اس سلسلہ میں اس قدر اھمیت دی ھے کہ راہ خدا میں انفاق نہ کرنے کوخود اپنے ھاتھوں ھلاکت میں ڈالنے کے برابر مانا ھے۔

(( وَاٴَنفِقُوا فِی سَبِیلِ اللهِ وَلاَتُلْقُوا بِاٴَیْدِیکُمْ إِلَی التَّھلکَةِ وَاٴَحْسِنُوا إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ))۔[89]

اور راہ خدا میں خرچ کرو اور اپنے نفس کو ھلاکت میں نہ ڈالو ۔نیک برتاوٴ کرو کہ خدا نیک عمل کرنے والوں کے ساتھ ھے“۔

قرآن مجید نے انفاق نہ کرنے کو انسان کی آخرت خراب ھونے کا باعث بتایا ھے، اور اس کو کفر و ظلم کے برابر قرار دیا ھے، نیز یہ اعلان کرتا ھے کہ جن لوگوں نے انفاق میں بخل سے کام لیا وہ روز قیامت اپنا کوئی دوست یا شفیع نھیںپائیں گے۔

(( یَااٴَیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاکُمْ مِنْ قَبْلِ اٴَنْ یَاٴْتِیَ یَوْمٌ لاَبَیْعٌ فِیہِ وَلاَخُلَّةٌ وَلاَشَفَاعَةٌ وَالْکَافِرُونَ ھم الظَّالِمُونَ))[90]

اے ایمان والو ! جو تمھیں رزق دیا گیا ھے اس میںسے راہ خدا میں خرچ کرو قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس دن نہ تجارت ھوگی نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش ۔اور کافرین ھی اصل میںظالمین ھیں“۔

قرآن مجید انفاق کو انسان کے لئے خیر سمجھتا ھے، اور بخل سے محفوظ رہنے کو فلاح و بھبودی کا باعث مانتا ھے۔

(( فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَاٴَطِیعُوا وَاٴَنفِقُوا خَیْرًا لِاٴَنْفُسِکُمْ وَمَنْ یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَاٴُوْلَئِکَ ھم الْمُفْلِحُونَ))۔[91]

لہٰذا جھاں تک ممکن ھو اللہ سے ڈرو اور ان کی بات سنو اور اطاعت کرو اور راہ خدا میں خرچ کرو کہ اس میں تمھارے لئے خیر ھے اور جو اپنے ھی نفس کے بخل سے محفوظ ھو جائے وھی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ھیں“۔

قرآن مجید راہ خدا میں انفاق کرنے کا اجز و ثواب ۷۰۰برابر اور اس سے بھی زیادہ شمار کرتا ھے، چنانچہ انفاق کے مسئلہ کو ھماری آنکھوں دیکھی حقیقت سے مثال بیان کی ھے تاکہ اس خداپسند عمل کے سلسلہ میں لوگوں کا ایمان پختہ ھوجائے:

(( مَثَلُ الَّذِینَ یُنفِقُونَ اٴَمْوَالَھم فِی سَبِیلِ اللهِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ اٴَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِی کُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللهُ یُضَاعِفُ لِمَنْ یَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ))۔[92]

جو لوگ راہ خدا میں اپنے اموال کو خرچ کرتے ھیں ان کے عمل کی م-ثال اس دانہ کی ھے جس سے سات بالیاں پیدا ھوں اور پھر ھر بالی میں سو سو دانے ھوںاور خدا جس کے لئے چاھتا ھے اضافہ بھی کردیتا ھے کہ وہ صاحب وسعت بھی ھے اورعلیم و دانا بھی“۔

شب و روز ، ظاھر بظاھر اور مخفی طور پر انفاق کرنا ایک ایسی حقیقت ھے جس پر قرآن کریم نے بھت زور دیاھے،اور یہ ایک خداپسند عمل ھے جس کا اجر بھی خداوندعالم عنایت فرماتا ھے، جس کی بدولت انسان کو موت اور قیامت کا خوف نھیں رھتا:

(( الَّذِینَ یُنفِقُونَ اٴَمْوَالَھم بِاللَّیْلِ وَالنَّھارِ سِرًّا وَعَلاَنِیَةً فَلَھم اٴَجْرُھم عِنْدَ رَبِّھم وَلاَخَوْفٌ عَلَیْھم وَلاَھم یَحْزَنُونَ))۔[93]

جو لوگ اپنے اموال کو راہ خدا میں رات میں ۔دن میں خاموشی سے اور علی الاعلان خرچ کرتے ھیں ان کے لئے پیش پروردگار اجر بھی ھے اورانھیں نہ کوئی خوف ھوگا اور نہ حزن“۔

قرآن مجید نے آیات الٰھی کی تلاوت کرنے، نماز قائم کرنے اور راہ خدا میں خرچ کرنے کو ایسی تجارت قرار دیا ھے جس میں کسی طرح کا کوئی نقصان نھیں اور جس میںفائدہ ھی فائدہ ھے:

(( إِنَّ الَّذِینَ یَتْلُونَ کِتَابَ اللهِ وَاٴَقَامُوا الصَّلَاةَ وَاٴَنْفَقُوا مِمَّا

رَزَقْنَاھم سِرًّا وَعَلَانِیَةً یَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُور )) ۔[94]

یقینا جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ھیں اورا نھوں نے نماز قائم کی ھے اور جو کچھ ھم نے بطور رزق دیا ھے اس میں سے ھماری راہ میں خفیہ اور علانیہ خرچ کیا ھے یہ لوگ ایسی تجارت کے امید وار ھیں جس میں کسی طرح کی تباھی نھیں ھے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

تمھارے بدن کے تمام اعضاء و جوارح پر زکوٰة واجب ھے، بلکہ ھر بال اور عمر کے ھر لمحہ پر زکوٰة واجب ھے“۔

آنکھ کی زکوٰة اور اس کا انفاق یہ ھے کہ دوسروں کو عبرت کی نگاہ سے دیکھے اور خدا کی حرام کردہ چیزوں سے اجتناب کرے۔

کان کی زکوٰة یہ ھے کہ انسان علم و حکمت، قرآن اور موعظہ و نصیحت کو سنے،اور ان چیزوں کو سنے جن کے ذریعہ دنیا و آخرت کی نجات شامل ھو خصوصاً جھوٹ، غیبت ا ورتھمت وغیرہ جیسے شیطانی کاموں سے پرھیز کرے۔

زبان کی زکوٰة یہ ھے کہ تمام مسلمانوں کے ساتھ نیکی کرنے، خواب غفلت میں سوئے ھوئے مسلمانوں کو بیدار کرنے اور خداوندعالم کی تسبیح و تھلیل کرنے کے لئے اپنی زبان کھولے۔

ھاتھ کی زکوٰة یہ ھے کہ خدا کی عطا کردہ نعمتوں اور مال و دولت کو اس کی راہ خرچ کرے، اس سے ایسے مطالب لکھے جس سے مسلمانوں کی فلاح و بھبودی ھو اور لوگوں کو اطاعت خدا پر آمادہ کرے، اور اپنے ھاتھ کو ظلم و ستم اور فساد سے محفوظ رکھے۔

پیروں کی زکوٰة یہ ھے کہ راہ خدا میں اٹھیں، خدا کے حقوق کی ادائیگی میں چلیں، خدا کے مخلص بندوں کی زیارت کے لئے بڑھیں، علمی مجالس میں شرکت کریں، اصلاح معاشرہ اورصلہ رحم کے لئے بڑھیں، اور ایسے کاموں کی طرف اٹھیں جن سے دین و دنیا کی اصلاح ھوسکے۔

یہ ایسے مسائل ھیں جن کو ایک انسان انجام دے سکتا ھے، اور سبھی اتنی صلاحیت رکھتے ھیں کہ ان تمام چیزوں پر عمل کریں، لیکن وہ تجارت جس سے خدا کے مقرب بندوں کے علاوہ کوئی آگاہ نھیں ھے، اس سے کھیں زیادہ ھیں کہ ھم شمار کریں، صرف ارباب عمل ھی اس سے آگاہ ھیں، اولیاء الٰھی کا شعار زکوٰة ِکامل کے سلسلہ میں دوسروں سے بالکل الگ ھے۔[95]

حضرت امام عسکری علیہ السلام قرآن مجید میں بیان ھونے والی آیات میں (( وَ آتُوْا الزَّکوٰة)) کے سلسلہ میں فرماتے ھیں:

مال ، آبرو اور قدرت بدن کی زکوٰة دینا مراد ھے۔

مال کی نسبت اپنے مومن بھائیوں سے مواسات کرنامراد ھے۔

آبرو کے سلسلہ میں زکوٰة یہ ھے کہ اپنی عزت و آبرو کے ذریعہ اپنے دینی بھائیوں کی مدد کرے اور ان کی مشکلات کو دور کرے۔

طاقت کی زکوٰة انسان کااپنے برادر مومن کی ھر ممکن طریقہ سے مدد کرناھے۔

یہ تمام چیزیں یعنی مال ، آبرواور طاقت کی زکوٰة کے ساتھ ساتھ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور پ کے اھل بیت علیھم السلام کی ولایت کا معتقد رھے، اسی صورت میں خداوندعالم ھمارے اعمال کو پاکیزہ قرار دیتا ھے، اور ان کا چند برابر اجر دیتا ھے کیونکہ یہ عنایت اور توفیق ان حضرات کے لئے ھے جو ولایت محمد و آل محمد(ص) کو قبول کریں اور ان کے دشمنوں سے بیزار رھیں۔[96]

حضرت امیر المومنین علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت فرماتے ھیں:

قِراءَ ةُ الْقُرآنِ فِی الصَّلاةِ اَفْضَلُ مِنْ قِراءَ ِة الْقُرآنِ فِی غَیْرِالصَّلاةِ، وَذِکْرُاللّٰہِ اَفْضَلُ مِنَ الصَّدَقَةِ، وَالصَّدَقَةُ اَفْضَلُ مِنَ الصَّوْمِ ،وَالصَّوْمُ جُنَّةٌ“۔[97]

نماز میں قرآن پڑھنا غیر نماز میں پڑھنے سے بھتر ھے، اور زندگی کے تمام حالات میں یاد خدا کرنا صدقہ دینے سے بھتر ھے، اور صدقہ روزہ سے افضل ھے، اور روزہ آتش جہنم کے لئے سپر اور ڈھال ھے“۔

امام زین العابدین علیہ السلام حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے روایت کرتے ھیں:

بے شک جنت میں ایک ایسا درخت ھے جس کے اوپر سے نئے لباس نکلتےھیں، اور اس کے نیچے سے خاکستری رنگ کے گھوڑے نکلتے ھیں، جن پر زین اور لگام ھوتے ھیں، ان گھوڑوں کے پر ھوتے ھیں! وہ پیشاب پاخانہ نھیں کرتے، ان پر اولیاء الٰھی سوار ھوتے ھیں اور جنت میں جھاں جانا چاھیں جاتے ھیں۔

ان میں سے کم ترین درجہ والے افراد بارگاہ خداوندی میں عرض کریں گے: پالنے والے! کس چیز کی وجہ سے تیرے بندے اس عظیم مرتبہ پر پہنچے ھیں؟ اس وقت خداوندعالم جواب دے گا: نماز شب، روزہ، دشمن سے بے خوف جھاد، اور راہ خدا میں صدقہ دینے میں بخل نہ کرنے کی وجہ سے یہ لوگ اس عظیم مرتبہ پر پہنچے ھیں“۔[98]

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اَلا وَمَنْ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَلَہُ بِوَزْنِ کُلِّ دِرْھَمٍ مِثْلُ جَبَلِ اُحُدٍ مِنْ نَعِیمِ الْجَنَّةِ؛“[99]

آگاہ ھوجاؤ! کہ جس شخص نے بھی راہ خدا میں صدقہ دیا تو اس کے ھر درھم کے بدلے جنت میں کوہ احد کے برابر نعمتیں ملیں گی“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام اپنے آباء و اجداد کے متعلق حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ھیں:

کُلُّ مَعْروفٍ صَدَقَةٌ ،وَالدَّالُّ عَلَی الْخَیْرِ کَفَاعِلِہِ ،وَاللّٰہِ یُحِبُّ اِغاثَةَ اللَّھْفانِ“۔[100]

ھر نیک کام صدقہ ھے،اور ھر خیر کے لئے رہنما ھے جیسے خود اس کا فاعل ھو، خداوندعالم صاحب حزن و ملال کی فریاد کو سنتا ھے“۔

صدقہ و انفاق کے سلسلہ میں ایک عجیب و غریب و اقعہ

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام فرماتے ھیں : امام صادق علیہ السلام ایک قافلہ کے ساتھ ایک بیابان سے گزر رھے تھے۔ اھل قافلہ کو خبردار کیا گیا کہ راستے میں چور بیٹھے ھوئے ھیں۔ اھل قافلہ اس خبر کو سن کر پریشان اور لرزہ براندام ھوگئے۔ اس وقت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: کیا ھوا؟ تو لوگوں نے بتایا کہ ھمارے پاس (بھت) مال و دولت ھے اگر و ہ لوٹ گیا تو کیا ھوگا؟! کیا آپ ھمارے مال کو اپنے پاس رکھ سکتے ھیں تاکہ چور آپ کو دیکھ کر وہ مال آپ سے نہ لوٹیں۔ آپ نے فرمایا: تمھیں کیا خبر شاید وہ ھمیں ھی لوٹنا چاھتے ھوں؟ تو پھر اپنے مال کو میرے حوالے کرکے کیوں ضایع کرنا چاھتے ھو، اس وقت لوگوں نے کھا: تو پھر کیا کریں کیا مال کو زمین میں دفن کردیا جائے؟ آپ نے فرمایا: نھیں ایسا نہ کرو کیونکہ اس طرح تو مال یونھی برباد ھوجائے گا،ھوسکتا ھے کہ کوئی اس مال کو نکال لے یا پھر دوبارہ تم اس جگہ کو تلاش نہ کرسکو۔ اھل قافلہ نے پھر کھا کہ تو آپ ھی بتائےے کیاکریں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کو کسی کے پاس امانت رکھ دو، تاکہ وہ اس کی حفاظت کرتا رھے ، اور اس میں اضافہ کرتا رھے، او رایک درھم کو اس دنیا سے بزرگ تر کردے اور پھر وہ تمھیں واپس لوٹادے، اور اس مال کو تمھارے ضرورت سے زیادہ عطا کرے!!

سب لوگوں نے کھا: وہ کون ھے؟ تب امام علیہ السلام نے فرمایا: وہ”ربّ العالمین“ ھے۔ لوگوں نے کھا: کس طرح اس کے پاس امانت رکھیں؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: غریب اور فقیر لوگوں کو صدقہ دیدو۔ سب نے کھا: ھمارے درمیان کوئی غریب یا فقیر نھیں ھے جس کو صدقہ دیدیں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: اس مال کا ایک تھائی حصہ صدقہ کی نیت سے الگ کرلو تاکہ خداوندعالم چوروں کی غارت گری سے محفوظ رکھے، سب نے کھا: ھم نے نیت کرلی۔ اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا:

فَاٴَنْتُمْ فِی اٴمَانِ الله فَامْضُوْا“۔

پس (اب) تم خدا کی امان میں ھو لہٰذا راستہ چل پڑو“۔

جس وقت قافلہ چل پڑا راستہ میں چوروں کا گروہ سامنے دکھائی دیا، اھل قافلہ ڈرنے لگے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: (اب) تم کیوں ڈررھے ھو؟ تم لوگ تو خدا کی امان میں ھو۔ چور آگے بڑھے اور امام علیہ السلام کے ھاتھوں کو چومنے لگے اور کھا: ھم نے کل رات خواب میں رسول اللہ کو دیکھا ھے جس میں آنحضرتنے فرمایا: کہ تم لوگ اپنے کو آپ کی خدمت میں پیش کرو۔ لہٰذا اب ھم آپ کی خدمت میں ھیں تاکہ آپ اور آپ کے قافلہ والوں کوچوروں کے شر سے محفوظ رکھیں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: تمھاری کوئی ضرورت نھیں ھے جس نے تم لوگوں کے شر کو ھم سے دور کیا ھے وہ دوسرے دشمنوں کے شر کو ھم سے دور کرے گا۔ اھل قافلہ صحیح و سالم شھر میں پہنچ گئے؛ سب نے ایک سوم مال غریبوں میں تقسیم کیا، ان کی تجارت میں بھت زیادہ برکت ھوئی، ھر ایک درھم کے دس درھم بن گئے، سب لوگوں نے تعجب سے کھا:واقعاً کیا برکت ھے؟

امام صادق علیہ السلام نے اس موقع پر فرمایا:

اب جبکہ تمھیں خدا سے معاملہ کرنے کی برکت معلوم ھوگئی ھے تو تم اس پر ھمیشہ عمل کرتے رہنا“۔[101]

امام جواد علیہ السلام کے نام امام رضا علیہ السلام کا ایک اھم خط

بزنطی جوشیعہ دانشور راوی اور امام رضا علیہ السلام کے معتبر او رمطمئن صحابی ھیں ،بیان کرتے ھیں: میں نے اس خط کو پڑھا ھے جو امام رضا علیہ السلام نے خراسان سے حضرت امام جواد (محمد تقی) علیہ السلام کو مدینہ بھیجا تھا، جس میں تحریر تھا:

مجھے معلوم ھوا ھے کہ جب آپ بیت الشرف سے باھر نکلتے ھیں اور سواری پر سوار ھوتے ھیں تو خادمین آپ کو چھوٹے دروازے سے باھر نکالتے ھیں، یہ ان کا بخل ھے تاکہ آپ کا خیر دوسروں تک نہ پہنچے،میں بعنوان پدر اور امام تم سے یہ چاھتاھوں کہ بڑے دروازے سے رفت و آمد کیا کریں، اور رفت و آمد کے وقت اپنے پاس درھم و دینار رکھ لیا کریں تاکہ اگر کسی نے تم سے سوال کیا تو اس کو عطا کردو، اگر تمھارے چچا تم سے سوال کریں تو ان کو پچاس دینار سے کم نہ دینا، اور زیادہ دینے میں خود مختار ھو، اور اگر تمھاری پھوپھیاں تم سے سوال کریں تو ۲۵/ درھم سے کم نھیں دیں اگر زیادہ دینا چاھیں تو تمھیں اختیار ھے۔ میری آرزو ھے کہ خدا تم کو بلند مرتبہ پر فائز کرے، لہٰذا راہ خدا میں انفاق کرو، اور خدا کی طرف سے تنگدسی سے نہ ڈرو![102]

قارئین کرام! اس حقیقت پر بھی توجہ رکھنا چاہئے کہ قرآن مجید نے بھت سی آیات میں اس صدقہ سے منع کیا ھے جس میں دوسروں پر منت اور احسان یا اس میں اذیت پائی جاتی ھو، صدقہ و خیرات صرف اور صرف رضائے الٰھی کے لئے ھونا چاہئے، اور صدقہ لینے والے دوسروں کی منت اور احسان جتانے کی شرمندگی سے محفوظ رھيں، ورنہ تو وہ صدقہ باطل ھوجائے گا او رخدا کی نظر میں اس کا کوئی اجر و ثواب نھیں ھوگا۔

(( الَّذِینَ یُنفِقُونَ اٴَمْوَالَھم فِی سَبِیلِ اللهِ ثُمَّ لاَیُتْبِعُونَ مَا اٴَنفَقُوا مَنًّا وَلاَاٴَذًی لَھم اٴَجْرُھم عِنْدَ رَبِّھم وَلاَخَوْفٌ عَلَیْھم وَلاَھم یَحْزَنُونَ))۔[103]

جو لوگ راہ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ھیں اور اس کے بعد احسان نھیں جتاتے اور اذیت بھی نھیں دیتے ان کے لئے پروردگار کے یھاں اجر بھی ھے اور ان کے لئے نہ کوئی خوف ھے نہ حزن“۔

((یَااٴَیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتُبْطِلُوا صَدَقَاتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاٴَذَی۔۔۔))۔[104]

اے ایمان والو ! اپنے صدقات کو منت گذاری اور اذیت سے برباد نہ کرو۔۔۔“۔

بھر حال نماز، انفاق اور معنوی زیبائیوں میں سے جو کچھ بھی خداوندعالم نے انسان کو عطا فرمایا ھے، اورگناھوں سے توبہ و استغفار کے بعد ظاھر و باطن کے اصلاح کرنے کے راستہ ھيں۔

غیب پر ایمان رکھنا، نماز کا قائم کرنا، خدا داد نعمتوں میں سے اس کی راہ میں خرچ کرنا، قرآن اور دیگر آسمانی کتابوں اور آخرت پر یقین وایمان جیسا کہ گزشتہ صفحات میں وضاحت کی گئی ھے ؛ یہ تمام ایسے حقائق ھیں کہ جس انسان میں بھی پائے جائیں وہ راہ ہدایت پر ھے اور دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ھے۔

(( اٴُوْلَئِکَ عَلَی ہُدًی مِنْ رَبِّھم وَاٴُوْلَئِکَ ھم الْمُفْلِحُونَ))۔[105]

یھی وہ لوگ ھیں جو اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت کے حامل ھیں اور فلاح یافتہ اور کامیاب ھیں“۔

بعض اھل تحقیق جیسے راغب اصفھانی کے نزدیک فلاح و بھبودی کے معنی یہ ھیں: فلاح یعنی ایسی زندگی جس میںموت نہ ھو، ایسی عزت جس میں ذلت نہ ھو، ایسا علم جس میں جھالت کا تصور نہ ھو، ایسی ثروت جھاں فقر و تنگدستی نہ ھو،اور یہ فلاح آخرت میں مکمل طریقہ سے ان انسانوں کو نصیب ھوگی جو لوگ غیب ((خدا، فرشتے، برزخ، محشر، حساب، میزان اور جنت و دوزخ))پر ایمان رکھتے ھوں، نماز قائم کرتے ھوں، زکوٰة ادا کرتے ھوں، صدقہ و انفاق کرتے ھوں، قرآن او ردیگر آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے ھوں اور آخرت پر یقین رکھتے ھوں۔

یہ بات بھی معلوم ھونا چاہئے کہ انسان کو بارگاہ الٰھی میں مقبول ھونے کے لئے صرف گناھوں سے توبہ کرنا اور گناھوں سے دوری کرلینا کافی نھیں ھے بلکہ قرآن کریم کی آیات کے پیش نظر جن میں سے بعض کو آپ حضرات نے گزشتہ صفحات میں ملاحظہ فرمایا ھے، توبہ کے بعد اپنی حالت ،اقوال اور اعمال کی اصلاح کرنا بھی ضروری ھے، یا دوسرے الفاظ میں یوں کہئے کہ عمل صالح، اخلاق حسنہ اور معنوی زیبائیوں کی طرف توجہ کے ذریعہ اپنی توبہ کو کامل کرے اور اپنے گزشتہ کی تلافی کرے اور برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے۔

(( إِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاٴُوْلَئِکَ یُبَدِّلُ اللهُ سَیِّئَاتِھم حَسَنَاتٍ وَکَانَ اللهُ غَفُورًا رَحِیمًا))۔[106]

علاوہ اس شخص کے جو توبہ کر لے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل بھی کرے ، تو پروردگار اس کی برائیوں کو اچھائیوں سے تبدیل کردے گا اور خدا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ھے“۔

عمل صالح اور اخلاق حسنہ کے سلسلہ میں جو گناھوں سے توبہ کے بعدظاھر و باطن کے اصلاح کے اسباب میں سے ھے ، قرآن مجید ماں باپ ، رشتہ دار، یتیموں اور مسکینوںکے ساتھ نیکی اور احسان، تمام لوگوں کے ساتھ نیک گفتار ، نماز قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے کا حکم دیتا ھے، چونکہ ھمارا ارادہ یہ ھے کہ لازمی حد تک قرآن مجید اور احادیث سے مدد لیتے ھوئے معنوی زیبائیوں کو بیان کریں تاکہ ھماری حالت اور عمل کی اصلاح ھوسکے، کچھ چیزیں گزشتہ صفحات میں بیان ھوچکی ھیں ان کی تکرار کی ضرورت نھیں ھے، صرف ھر آیت کے ذیل میں نئے اور جدید مطلب کی وضاحت کرنے پر اکتفاء کرتے ھیں، عزیز قارئین ! اب آپ قرآن مجید کی روشنی میں اخلاقی واقعیات کی طرف توجہ فرمائیں:

(( ۔۔۔لاَتَعْبُدُونَ إِلاَّ اللهَ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَاٴَقِیمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ۔۔۔))۔[107]

خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ ،قرابتداروں ،یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاوٴ کرنا۔لوگوں سے اچھی باتیں کرنا ۔نماز قائم کرنا۔ زکوٰة ادا کرنا۔۔۔“۔

گزشتہ صفحات میں عبادت خدا اور احکام الٰھی کی فرمانبرداری کے عنوان سے نمازاور انفاق کے سلسلہ میں لازمی حد تک وضاحت کی گئی ھے لہٰذا مذکورہ آیت کے ذریعہ ماں باپ، رشتہ داروں ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیکی اور احسان، نیز دوسرے لوگوں کے ساتھ نیک گفتار کے سلسلہ میں کچھ چیزیں بیان کرتے ھیں:

ماں باپ کے ساتھ نیکی

قرآن مجید کی متعدد آیات نے تمام لوگوں کو خدا کی عبادت کے بعد ماں باپ کے ساتھ نیکی اور احسان کرنے کا حکم دیا ھے، اس حکم سے شرعی اور اخلاقی وجوب کی بُوآتی ھے، یہ ایک ایسا حکم ھے جس کی اطاعت خدا کی عین بندگی اور عبادت ھے اور اس کی مخالفت گناہ و معصیت اور روز قیامت کے عذاب کا باعث ھے۔

خداوندعالم کا ارشاد ھوتا ھے:

(( وَاعْبُدُوا اللهَ وَلاَتُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا۔۔۔))۔[108]

اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی شئے کو اس کا شریک نہ بناوٴ اور والدین کے ساتھ نیک برتاوٴکرو۔۔۔“۔

ماں باپ کے ساتھ نیکی اور احسان کرنا ان زحمتوں اور احسان کی تلافی ھے جس کو ان دونوں نے اپنی اولاد کے ساتھ کیا ھے، جنھوں نے پیدائش کے وقت سے اب تک کسی بھی طرح کے احسان اور زحمت سے دریغ نھیں کیا۔

انھوں نے تمام مقامات پر اپنی اولاد کو اپنے اوپر مقدم کیا، ان کے سلسلہ میں ایثار کیا قربانیاں دیں اور اپنی طرف سے درگزر کیا، بلاؤں کے طوفان اور سخت سے سخت حالات میں اولاد کی حفاظت کی، اور اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ھوئے اپنی آغوش میں بٹھایا، اولاد کے چین و سکون کے لئے راتوں جاگتے رھے، اور سخت سے سخت حالات کی تلخیوں کو خوش ھوکر برداشت کیا، اس کی تربیت میں بھت سی مصیتیں برداشت کیں، اور اپنے خون جگر سے ان کو غذا دی، بھت سی سختیوں اور پریشانیوں کو تحمل کیا تاکہ اولاد کسی مقام پر پہنچ جائے، لہٰذا اب اولاد کی ذمہ داری ھے کہ ماں باپ کے ساتھ نیکی اور احسان کرکے ان کی زحمتوں کے ایک معمولی سے حصہ کی تلافی کرے۔

(( وَقَضَی رَبُّکَ اٴَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اٴَحَدُھما اٴَوْ کِلَاھما فَلاَتَقُلْ لَھما اٴُفٍّ وَلاَتَنْھرھما وَقُلْ لَھما قَوْلًا کَرِیمًا۔ وَاخْفِضْ لَھما جَنَاحَ الذُّلِّ مِنْ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھما کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیرًا))۔[109]

اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ھے کہ تم سب اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاوٴ کرنا اور اگر تمھارے سامنے ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ھوجائیں تو خبر دار ان سے اف نہ کہنا اور انھیں جھڑکنا بھی نھیں اور ان سے ھمیشہ شریفانہ گفتگو کرتے رہنا ۔اور ان کے لئے خاکساری کے ساتھ اپنے کاندھوں کو جھکا دینا اور ان کے حق میں دعا کرتے رہنا کہ پروردگار ان دونوں پر اسی طرح رحمت نازل فرما جس طرح کہ انھوں نے پچپن میں مجھے پالا ھے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے سوال ھوا کہ ماں باپ کے سلسلہ میں جس احسان کی سفارش ھوئی ھے اس سے کیا مراد ھے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ان کے ساتھ نیکی اور بھلائی کے ساتھ زندگی کرو، ان کو مجبور نہ کرو کہ وہ تم سے کسی چیز کا سوال کریں اگرچہ وہ بے نیاز ھوں، بلکہ ان کے کہنے سے پھلے ھی ان کی ضرورتوں کو پورا کردو، کیا خداوندعالم نے قرآن مجید میں نھیں فرمایا ھے:

(( لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ۔۔۔))۔[110]

تم نیکی کی منزل تک نھیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے راہ دا میں انفاق نہ کرو۔۔۔“۔

ان کو ”اُف“ تک نہ کھو، اور ان کو اپنے سے دور نہ کرو، ان کو مایوس نہ کرو، اگر ان کی وجہ سے تم کو کوئی پریشانی ھے بھی تو اس کو برداشت کرو اور اپنی زبان پر کوئی ایسا لفظ نہ لاؤ جس سے وہ ناراحت ھوں، اگر انھوں نے تمھیں مارنے کے لئے ھاتھ اٹھایا یا تم کو مار بھی دیا ھو تو صبر کرو، اور ان سے جدا نہ ھوں، اور ایسی حالت میں ان سے کھو: خداوندعالم تم سے درگزر فرمائے، اور اپنی مغفرت میں جگہ عنایت فرمائے، کہ”قول کریم“ سے مراد یھی ھے، پیار اور محبت بھری نگاھوں سے ان کی طرف دیکھا کرو، مھربانی کی نگاہ کے علاوہ ان کو نہ دیکھو، اپنی آواز کو ان کی آواز سے بلندتر نہ کرو، ان کے ھاتھ سے اپنا ھاتھ اوپر نہ اٹھاؤ، اور ان کے چلتے ھوئے ان سے آگے آگے نہ چلو۔[111]

حضرت امام صادق علیہ السلام نیکی اور احسان کی وضاحت کرتے ھوئے فرماتے ھیں: اگر خداوندعالم کے نزدیک ”اُف“ سے کمتر کوئی لفظ ھوتا تو اولاد کو اپنے ماں باپ کے لئے کہنے سے منع فرماتا۔ نیز اولاد کو یہ بات معلوم ھونا چاہئے کہ عاق کا سب سے کم درجہ ماں باپ کے لئے لفظ ”اُف“ کا استعمال کرنا ھے[112]

کتاب شریف”کافی“ میں روایت بیان ھوئی ھے کہ ماں باپ کی طرف ترچھی نگاھوں سے دیکھنا (بھی) عاق کا ایک مرحلہ ھے!۔[113]

ایک شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا: اولاد پر باپ کا حق کیا ھے؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

لَا یُسَمِّیِہِ بِاسْمِہِ ،وَلَا یَمْشی بَیْنَ یَدَیْہِ ،وَلَا یَجْلِسُ قَبْلَہُ،وَلَا یَسْتَسِبُّ لَہُ“۔[114]

باپ کا نام لے کر نہ پکارے، اس کے آگے نہ چلے، اس کی طرف پیٹھ کرکے نہ بیٹھے اور اپنے برے کاموں کے ذریعہ اپنے بے گناہ باپ کو ذلیل و رسوا نہ کرے“۔

ایک روایت میں بیان ھوا ھے: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین بار فرمایا: ذلیل و رسوا ھو، اصحاب نے سوال کیا: یا رسول اللہ! آپ کس کے بارے میں فرمارھے ھیں؟ تو آپ نے فرمایا: جس کے ماں باپ ضعیف العمر ھوں اوروہ ان کے ساتھ نیکی و احسان نہ کرکے بہشت میں داخل نہ ھو۔[115]

جناب حذیفہ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا: میرا باپ مشرکین کی طرف سے میدان جنگ میں آیا ھوا ھے کیا آپ مجھے اس پر حملہ کرنے اوراس کو قتل کرنے کی اجازت دیتے ھیں؟ تو آپ نے فرمایا: نھیں، تم یہ کام نہ کرو، کوئی دوسرا اس سے مقابلہ کرے۔[116]

تفسیر امام حسن عسکری علیہ السلام میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت ھے:

اٴَفْضَلُ والِدَیْکُمْ وَاَحَقُّھُما بِشُکْرِکُمْ مُحَمَّدٌ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وَعَلِیٌّ علیہ السلام “۔[117]

تمھارا سب سے بھترین باپ اور تمھارے شکریہ کے سزاوار ترین ذات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور علی علیہ السلام ھیں“۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ھے:

اَنَا وَ عَلَیٌّ اَبَوَاھٰذِہِ الْاُمَّةِ ،وَلَحَقُّنا عَلَیْھِمْ اَعْظَمُ مِنْ حَقِّ اَبَوَیْ وِلَادَتِھِمْ فَاِنَّا نُنْقِذُھُمْ اِنْ اَطاعونا مِنَ النّارِ اِلیٰ دَارِالْقَرارِ، وَنُلْحِقُھُمْ مِنَ الْعُبودِیَّةِ بِخِیارِ الْاَحْرارِ“۔[118]

میں اور علی دونوں اس امت کے باپ ھیں، بے شک ھمارا حق اس باپ سے بھی زیادہ ھے جو اسے دنیا میں لانے کا سبب بنا، ھم اس امت کو آتش جہنم سے نجات دیتے ھیں اگر ھماری اطاعت کریں ، اور ان کو جنت میں پہنچادیں گے اگر ھمارے حکم پر عمل کرے، اور ان کو عبادت کے سلسلہ میں منتخب بندوں سے ملحق کردیں گے“۔

رشتہ د اروں سے نیکی کرنا

رشتہ داروں سے مراد ماں باپ کے حسبی اور نسبی رشتہ دار مراد ھیں۔

انسان کا چچا، ماموں، پھوپھی، خالہ، اولاد، داماد ،بھو اور اولاد کی اولاد رشتہ دار کھلاتے ھیں۔

بھائی ، بہن،بھتیجے، بھانجے، داماد اور بھوویں اور ھر وہ شخص جو نسبی یا سببی رشتہ رکھتا ھو انسان کے رشتہ دار حساب ھوتے ھیں۔

ان کے ساتھ صلہ رحم اور نیکی یہ ھے کہ ان سے ملاقات کرے، ان کی مشکلات کو دور کرے اور ان کی حاجتوں کو پورا کرے۔

رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحم اور نیکی کرنا خداوندعالم کا حکم اور ایک اخلاقی و شرعی ذمہ داری ھے، جس کا اجر ثواب عظیم اور اس کا ترک کرنا عذاب الیم کا باعث ھے۔

قرآن مجید نے پیمان شکنی، قطع تعلق اور زمین پر فتنہ و فساد پھیلانے کو خسارہ اور گھاٹااٹھانے والوں میں شمار کیا ھے:

(( الَّذِینَ یَنقُضُونَ عَہْدَ اللهِ مِنْ بَعْدِ مِیثَاقِہِ وَیَقْطَعُونَ مَا اٴَمَرَ اللهُ بِہِ اٴَنْ یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الْاٴَرْضِ اٴُوْلَئِکَ ھم الْخَاسِرُونَ))۔[119]

جو خدا کے ساتھ مضبوط عہد کرنے کے بعد بھی اسے توڑ دیتے ھیں اور جسے خدا نے جوڑ نے کا حکم دیا ھے اسے کاٹ دیتے ھیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ھیں یھی وہ لوگ ھیں جو حقیقتاً خسارہ والے ھیں“۔

رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنا ایک غیر شرعی عمل ھے اگرچہ انھوںنے کسی کو رنجیدہ خاطر بھی کیا ھو۔

رشتہ داروں کے یھاں آمد و رفت،ایک خداپسند عمل اور اخلاق حسنہ کی نشانی ھے۔

اگر چہ انسان کے بعض رشتہ دار دین و دینداری سے دور ھوں اور حق و حقیقت کے مخالف ھوں لیکن اگر ان کی ہدایت کی امید ھو تو ان کی نجات کے لئے قدم اٹھانا چاہئے اور امر بالمعروف و نھی عن المنکر کے لئے ان کے یھاں رفت و آمد کرنا چاہئے۔

صلہ رحم کے سلسلہ میں بھت سی اھم روایات رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے بیان ھوئیں ھیں جن کے حکیمانہ مطالب پر توجہ کرنا ھر مومن پر لازم و واجب ھے۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بھت سی اھم روایات صلہ رحم کے سلسلہ میں نقل ھوئی ھیں جو واقعاً بھت ھی اھم ھیں:

اِنَّ اَعْجَلَ الْخَیْرِ ثَواباً صِلَةُ الرَّحِمِ“۔[120]

بے شک ثواب کی طرف تیزی سے جانے والا کار خیر صلہ رحم ھے“۔

صِلَةُ الرَّحِمِ تُھَوِّنُ الْحِسابَ، وَتَقی میتَةَ السُّوءِ“۔[121]

صلہ رحم کے ذریعہ روز قیامت میں انسان کا حساب آسان ھوجاتا ھے، اور بُری موت سے محفوظ رھتا ھے“۔

صِلُوا اَرْحَامَکُمْ فِی الدُّنْیا وَلَوْ بِسَلامٍ“۔[122]

دنیا میں صلہ رحم کی رعایت کرو اگرچہ ایک سلام ھی کے ذریعہ کیوں نہ ھو“۔

صِلْ مَنْ قَطَعَکَ ،وَاَحْسِنْ اِلیٰ مَنْ اَساءَ اِلَیْکَ ،وَقُلِ الْحَقَّ وَلَوْعَلیٰ نَفْسِکَ“۔[123]

جن رشتہ داروں نے تجھ سے قطع تعلق کیا ھے اس کے ساتھ صلہ رحم کرو، اور جس نے تمھارے ساتھ بدی کی ھے اس کے ساتھ نیکی کرو، نیز ھمیشہ سچ بات کھو چاھے تمھارے نقصان میں تمام ھو“۔

اِنَّ الرَّجُلَ لَیَصِلُ رَحِمَہُ وَقَدْ بَقِیَ مِنْ عُمُرِہِ ثَلاثُ سِنینَ فَیُصَیِّرُھَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ثَلاثینَ سَنَةً، وَیَقْطَعُھا وَقَدْ بَقِیَ مِنْ عُمُرِہِ ثَلاثُونَ سَنَةً فَیُصَیِّرُھَا اللّٰہُ ثَلاثَ سِنینَ [124]ثُمَّ تَلا:(( یَمْحُوا اللهُ مَا یَشَاءُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَہُ اٴُمُّ الْکِتَابِ))۔[125]

بے شک جب انسان صلہ رحم کرتا ھے تو اگرچہ اس کی عمر کے تین سال باقی رہ گئے ھوں تو خداوندعالم اس کی عمر تیس سال بڑھادیتا ھے، اور جو شخص رشتہ داروں سے قطع تعلق کرتا ھے اگرچہ اس کی عمر تیس سال باقی رہ گئی ھو توبھی خداوندعالم اس کی عمر تین سال کردیتا ھے، اس کے بعد (امام علیہ السلام نے) مذکورہ بالا آیت کی تلاوت کی: (( خداوندعالم جس چیز کو چاھے مٹادے اور جس چیز کو چاھے لکھ دے))“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:

وَاٴَکْرِمْ عَشِیرَتَکَ فَاِنَّھُمْ جَناحُکَ الَّذِی بِہِ تطیر،وَاَصْلُکَ الَّذِی اِلَیْہِ تَصیرُ ،وَیَدُکَ الَّذِی بِھا تَصولُ“۔[126]

اپنے رشتہ داروں کے ساتھ لطف و کرم کرو، وہ تمھارے بال و پر ھیں جن کے ذریعہ تم پرواز کرسکتے ھو، اور وھی تمھاری اصل ھیں کہ ان کی طرف پلٹ جانا ھے، نیز تمھاری طاقت ھیں کہ انھیں کے ذریعہ اپنے دشمنوں پر حملہ کرسکتے ھو“۔

حضرت امام علی نقی علیہ السلام فرماتے ھیں: جناب موسیٰ علیہ السلام نے خداوندعالم کی بارگاہ میں عرض کیا:

فَما جَزاءُ مَنْ وَصَلَ رَحِمَہُ قَالَ:یا مُوسیٰ اُنْسِی ءُ لَہُ اَجَلَہُ ، وَاُھَوِّنَ عَلَیْہِ سَکَراتِ الْمَوْتِ“۔[127]

خداوندا! صلہ رحم کرنے والے کی جزا کیا ھے؟ جواب آیا: اس کی موت دیر سے بھیجوں گا، اور اس کے لئے موت کی سختیوں کو آسان کردوں گا“۔

[1] سورہٴ انعام ،آیت ۵۴۔

[2] سورہٴ انعام ،آیت ۵۴۔

[3] سورہٴ بقرہ ،آیت ۳۔۵۔

[4] سورہٴ ابراھیم ،آیت ۱۰۔

[5] سورہٴ بقرہ ،آیت ۲۱۔۲۲۔

[6] سورہٴ بقرہ ،آیت ۲۱۔

[7] توحید مفضل :۳۹؛بحارالانوار ،ج۳،ص۵۷،باب ۴،حدیث۱۔[8] جاء اعرابی الی النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فقال:یا رسول اللہ !علمنی من غرائب العلم۔قال:ما صنعت فی راس العلم حتی تسال عن غرائبہ۔قال الرجل :ما راس العم یا رسول اللہ ؟قال:معرفة اللہ حق معرفتہ ۔قال الاعرابی:وما معرفة اللہ حق معرفتہ؟قال:تعرفہ بلا مثل و لاشبہ ولاند،وانہ واحد اٴحد ظاھر باطن اول آخرلاکفو لہ ولا نظیر ۔فذلک حق معرفتہ۔

توحید صدوق:۲۸۴،حدیث ۵؛بحار الانوارج۳،ص۲۶۹،باب ۱۰،حدیث۴۔

[9] سورہٴ طہ،آیت ۱۱۱۔

[10] سورہٴ بقرہ،آیت ۱۶۳۔

[11] سورہٴ بقرہ،آیت ۹۸۔

[12] سورہٴ نساء ،آیت ۱۳۶۔

[13] نہج البلاغہ ، ترجمہ علامہ جوادی علیہ الرحمہ، ص ۳۱۔

[14] سورہٴ مومنون،آیت ۹۹۔۱۰۰۔

[15] آل عمران،آیت ۱۶۹۔

[16] سورہٴ غافر (مومن) :۲۶۔[17] قال (علیہ السلام): وقد رجع من صفین فاشرف علی القبور بظاھر الکوفة :یا اھل الدیار الموحشة والمحال المقفرة والقبور المظلمة! یا اھل التربةیا اھل الغربة! یا اھل الوحدة !یا اھل الوحشة!انتم لنا فرط سابق ،ونحن لکم تبع لاحق؛اماا لدور فقد سکنت ؛و اما الازواج فقد نکحت ؛واما الاموال فقد قسمت ؛ھذا خبر ما عندنا ،فما خبر ماعندکم ؟ثم التفت الی اصحابہ فقال:اما لو اذن لھم فی الکلام لا خبرو کم:ان خیر الزاد التقوی۔

نہج البلاغہ :۷۸۵،حکمت ۱۳۰؛بحار الانوار ج۳۲،ص۶۱۹،باب ۱۲،حدیث ۴۸۸۔۔

[18] نور الثقلین ،ج۲،ص۵۵۳۔

[19] نور الثقلین ،ج۲،ص۵۵۳؛بحارالانوار ج۶،ص۲۱۸،باب ۸،حدیث ۱۲۔

[20] کافی ج۳،ص۴۳،باب ماینطق بہ موضع القبر،حدیث۳؛ نور الثقلین ،ج۲،ص۵۵۴۔

[21] کافی ج۳،ص۲۴۴،باب آخر فی ارواح الموٴمنین،حدیث۴؛ بحارالانوار ،ج۶،ص۲۶۹،باب ۸،حدیث۱۲۲۔

[22] سورہٴ آل عمران ،آیت ۹۔

[23] سورہٴ آل عمران ،آیت ۲۵۔

[24] سورہٴ آل عمران ،آیت ۱۵۸۔

[25] سورہٴ مائدہ،آیت ۹۶۔

[26] سورہٴ انعام ،آیت ۱۲۔

[27] سورہٴ انعام ،آیت ۳۶۔

[28] سورہٴ توبہ آیت ۹۴۔

[29] سورہٴ موٴمنون آیت ۱۵۔۱۶۔

[30] سورہٴ قیامت آیت ۱۔۴۔

[31] تفسیر قمی ج۲،ص۲۵۳،کیفیة نفخ الصور؛بحار الانوار ج۷،ص۳۹،باب ۳،حدیث۸۔[32] عن ابی جعفر علیہ السلام قال:کان فیما وعظ بہ لقمان علیہ السلام ابنہ اٴن قال :یا بنی!ان تک فی شک من الموت فارفع عن نفسک النوم ،ولن تستطیع ذلک،وان کنت فی شک من البعث فارفع عن نفسک الانتباہ،ولن تستطیع ذلک۔فانک اذا فکرت فی ھذا علمت ان نفسک بید غیرک ،وانما النوم بمنزلة الموت ،وانما الیقظة بعد النوم بمنزلة البعث بعد الموت۔

قصص راوندی ص۱۹۰،حدیث ۲۳۹؛بحار الانوار ج۷،ص۴۲،باب۳،حدیث ۱۳۔

[33] تفسیر نوین،ص : ۱۹۔

[34] سورہٴ یس آیت ۷۷۔۷۹۔

[35] سورہٴ یس آیت ۷۹۔(( قُلْ یُحْیِیھا الَّذِی اٴَنشَاٴَھا اٴَوَّلَ مَرَّةٍ وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ))

[36] سورہٴ بقرہ آیت ۲۸۴۔

[37] سورہٴ طہ آیت ۵۲۔

[38] تفسیر نمونہ ج۱۸ ،ص۴۵۶۔

[39] سورہٴ بقرہ آیت ۲۰۱۔۲۰۲۔

[40] سورہٴ انعام آیت ۶۲۔

[41] سورہٴ انشقاق آیت ۷۔۸۔

[42] اما لی صدوق :۳۹،مجلس ۱۰ ،حدیث ۹؛بحار الانوار ج۷ ،ص۲۵۸،باب ۱۱،حدیث ۱۔[43] عن ابی جعفر علیہ السلام قال :قلت لہ: یاابن رسول اللہ ان لی حاجة ،فقال:تلقاني بمکة۔فلقت :یا ابن رسول اللہ!ان لي حاجة فقال تلقاني بمنی،فقلت :یا ابن رسول اللہ !ان لي حاجة ۔فقال:ھات حاجتک ۔فقلت یاابن رسول اللہ !اني اذنبت ذنبا بیني وبین اللہ لم یطلع علیہ احد فعظم علي واٴجلک اٴن اٴستقبلک بہ۔فقال:انہ اذاکان یوم القیامة وحاسب اللہ عبدہ الموٴمن اٴوقفہ علی ذنوبہ ذنبا ذنبا ،ثم غفر ھا لہ لا یطلع علی ذلک ملکا مقربا ولا نبیا مرسلا۔

الزھد :۹۱،باب۱۷،حدیث ۲۴۵؛بحار الانوار ج۷،ص۲۵۹،باب ۱۱،حدیث۵۔

[44] امالی طوسی ص۲۱۲،مجلس ۸ ،حدیث ۳۶۹؛بحار الانوار ج۷،ص۲۶۲،باب ۱۱،حدیث ۱۴۔

[45] عن یونس بن عمار ،قال:قال ابو عبد اللہ علیہ السلام :ان الدواوین یوم القیامة دیوان فیہ النعم ودیوان فیہ الحسنات ،ودیوان فیہ السیئات،فیقابل بین دیوان النعم ودیوان الحسنات ،فتسغرق النعم دیوان الحسنات ویبقی دیوان السیئات ،فیدعا ابن آدم الموٴمن للحساب فیتقدم القرآن اٴمامہ في احسن صورة فیقول:یارب !اٴنا القرآن وھذا عبدک الموٴمن قدکان یتعب نفسہ بتلاوتي ،و یطیل لیلہ بترتیلي ،و تفیض عیناہ اذا تھجد ،فاٴرضہ کما اٴرضاني ،قال:فیقول العزیز الجبار:ابسط یمینک فیملوٴھا من رضوان اللہ العزیز الجبار ،ویملا ٴشمالہ من رحمة اللہ ۔ثم یقال:ھذہ الجنة مباحة لک،فاقراٴ واصعد ۔فاذا قراٴ آیة صعد درجة۔

کافی ج۲،ص۶۰۲،کتاب فضل القرآن ،حدیث ۱۲؛بحارالانوار ج۷ ،ص ۲۶۷، باب۱۱،حدیث۳۴۔

[46] سورہٴ آل عمران آیت ۱۹۔

[47] سورہٴ رعد آیت ۱۸۔

[48] سورہٴ طلاق آیت ۸۔

[49] سورہٴ غاشیہ آیت ۲۳۔۲۶۔

[50] سورہٴ اسراء آیت ۳۶۔(ترجمہ آیت:”۔۔۔سماعت،بصارت اور قوت قلب سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

[51] تفسیر عیاشی ج۲،ص۲۹۲،حدیث ۷۵؛بحار الانوار ج۷،ص۲۶۷،باب ۱۱،حدیث ۳۰۔

[52] کافی ج۸،ص۱۰۴،حدیث ابی بصیر مع المراٴة ،حدیث۷۹؛بحار الانوار ج۷، ص۲۷۰، باب۱۱،حدیث۳۵۔

[53] سورہٴ نساء آیت ۴۸۔[54] الا وان الظلم ثلاثة :فظلم لا یغفر ،وطلم لا یترک ،و ظلم مغفور لا یطلب ۔فاما الظلم الذی لا یغفر :فالشرک باللہ ۔قال اللہ سبحانہ ((إِنَّ اللهَ لاَیَغْفِرُ اٴَنْ یُشْرَکَ بِہ))۔واٴما الظلم الذی یغفر:فظلم العبد نفسہ عند بعض الھنات۔واٴ ما الظلم الذی لا یترک :فظلم العباد بعضھم بعضا القصاص ھناک شدید الیس ھو جرحا بالمدی ولا ضربا بالسیاط ولکنہ ما یستصغر ذلک معہ ۔

نہج البلاغہ ص۳۹۶،خطبہ ۱۷۵؛غررالحکم ص۴۵۵،ذم الظلم ،حدیث۱۰۳۸۳؛بحار الانوار ج۷،ص۲۷۱،باب۱۱،حدیث ۶ ۳ ۔

[55] علل الشرایع ج۲،ص۵۲۸،باب ۳۱۲،حدیث۶؛بحار الانوارج۷،ص۲۷۴،باب۱۱،حدیث۴۶۔

[56] سورہٴ اعراف آیت ۸۔

[57] سورہٴ انبیاء آیت ۴۷۔

[58] معانی الاخبار ص۳۱،حدیث ۱؛بحار الانوار ج۷،ص۲۴۹،باب ۱۰،حدیث۶۔

[59] سورہٴ اعراف آیت ۸۔۹۔

[60] سورہٴ انبیاء آیت ۴۷۔

[61] سورہٴ قارعہ آیت ۶۔۱۱۔

[62] اما لی صدوق :۱۰، مجلس ۳،حدیث۳؛خصال ج۲، ص۳۶۰،حدیث ۴۹؛بحار الانوار ج۷،ص۲۴۸،باب ۱۰،حدیث ۲۔

[63] کافی ج۲،ص۹۹،باب حسن الخلق ،حدیث۲؛بحار الانوار ج۷،ص۲۴۹،باب۱۰،حدیث۷۔

[64] عیون اخبار الرضا ج۲،ص۱۲۵،باب ۳۵،حدیث ۱؛بحار الانوار ج۷، ص۲۴۹، باب۱۰،حدیث۵۔

[65] سورہٴ مائدہ آیت ۱۱۹۔

[66] سورہٴ یونس آیت ۲۷۔[67] عن ابي جعفر علیہ السلام قال:اذا کان یوم القیامة امر اللہ تبارک و تعالی منادیا ینادی بین یدیہ: این الفقراء ؟فیقوم عنق من الناس کثیر،فیقول :عبادی۔فیقولون :لبیک ربنا۔فیقول:اني لم افقرکم لھوان بکم علي،ولکن انما اخترکم لمثل ھذا الیوم تصفحوا وجوہ الناس ،فمن صنع الیکم معروفا لم یصنعہ الا في فکافوہ عني بالجنة۔

کافی ج۲،ص۲۶۳،باب فضل فقراء المسلمین،حدیث ۱۵؛بحا الانوار ج۷،ص۲۰۰،باب ۸،حدیث۷۸۔

[68] عن ابي عبداللہ علیہ السلام قال:ایما موٴمن منع موٴمنا شیئا مما یحتاج الیہ وھو یقدر علیہ من عندہ اومن عند غیرہ، اقامہ اللہ القیامة مسودا وجھہ ،مزرقة عیناہ،مغلولة یداہ الی عنقہ ،فیقال:ھذا الخائن الذین خان اللہ ورسولہ ثم یوٴمر بہ الی النار۔کافی ج۲،ص۳۶۷،باب من منع موٴمنا سیئا ، حدیث ۱؛بحا الانوار ج۷،ص۲۰۱،باب۸،حدیث ۸۴۔

[69] عن عبد اللہ بن الحسین عن اٴبیہ عن جدہ عن اٴمیرالموٴمنین علی ابن اٴبي طالب علیھم السلام قال:قال رسول اللہ(ص) : یا علي! کذب من زعم اٴنہ یحبني و یبغضک ۔یا علي!انہ اذا کان یوم القیامة نادی مناد من بطنان العرش :اٴین محبو علي و شیعتہ؟اٴین محبوا علي و من یحبہ؟اٴین المتحابون فی اللہ؟اٴین المتباذلون فی اللہ ؟اٴین الموٴثرون علی انفسھم ؟اٴین الذین جفت اٴلستنھم من العطش ؟اٴین الذین یصلون فی اللیل والناس اٴین الذین یبکون من خشیة اللہ؟لا خوف علیکم الیوم ولا؛انتم تحزنون اٴنتم رفقاء محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قروا عینا ادخلوا الجنة اٴنتم وازواجکم تحبرون۔

تفسیر فرات ص۴۰۸،حدیث ۵۴۷؛بحار الانوار ج۷،ص۲۱۱،باب۸،حدیث۱۰۹۔

[70] سورہٴ بقرہ آیت ۳۔ ،”جو لوگ غیب پر ایمان رکھتے ھیں-۔

[71] سورہٴ بقرہ آیت ۲۳۔

[72] سورہٴ اسراء آیت ۸۸۔

[73] سورہٴ بقرہ آیت ۱۱۰۔

[74] سورہٴ بقرہ آیت ۴۵۔

[75] سورہٴ انفال آیت ۲۔۳۔

[76] سورہٴ نساء آیت ۴۳۔

[77] سورہٴ مریم آیت ۵۵۔

[78] سورہٴ عنکبوت آیت ۴۵۔

[79] سورہٴ مدثر آیت ۴۳۔۴۶۔

[80] سورہٴ ماعون آیت ۴۔۶۔

[81] من لا یحضرہ الفقیہ ج۱،ص۲۰۶،باب فرض الصلاة ،حدیث ۶۱۷؛علل الشرایع ج۲،ص۳۵۶،باب ۷۰،حدیث ۱؛بحار الانوار ج۸۰،ص۹،باب ۶،حدیث۳۔

[82] امالی صدوق ص۲۰۷،مجلس ۳۷ ،حدیث ۸؛بحا ر الانوار ج۸۰،ص۹،باب۶،حدیث ۶۔

[83] مشکاة الانوار ،۵۳، الفصل الرابع عشر فی اداء الامانة ؛بحار الانوار ج۸۰،ص۱۱،باب۶،حدیث ۱۰۔

[84] خصال ج۱،ص۱۶۳،حدیث ۲۱۳؛وسائل الشیعہ ج۴،ص۱۱۲،باب ۱،حدیث ۴۶۵۱۔

[85] عیون اخبار الرضا ج۲،ص۳۱،باب۳۱، حدیث ۴۶؛بحار الانوار ج۸۰،ص۱۴،باب ۶،حدیث ۲۳۔

[86] محاسن ج۱،ص۲۵۴،باب ۳۰،حدیث۲۸۱؛بحار الانوار ج۸۰،ص۲۰،باب ۶،حدیث۳۶؛مستدرک الوسائل ج۳، ص۹۶،باب۱،حدیث۳۱۰۶۔

[87] عن جعفر بن محمد علیھما السلام قال:امتحنوا شیعتنا عند ثلاث :عند مواقیت الصلوات کیف محافظتھم علیھا ،وعند اٴسرارھم کیف حفظھم لھا عن عدونا۔والی اٴموالھم کیف مواساتھم لا خوانھم فیھا۔

خصال ج۱،ص۱۰۳،حدیث ۶۲؛وسائل الشیعہ ج۴، ص۱۱۲،باب ۱،حدیث ۴۶۵۰۔

[88] سورہٴ بقرہ آیت ۳۔

[89] سورہٴ بقرہ آیت ۱۹۵۔

[90] سورہٴ بقرہ آیت ۲۵۴۔

[91] سورہ تغابن آیت ۱۶۔

[92] سورہٴ بقرہ آیت ۲۶۱۔

[93] سورہٴ بقرہ آیت ۲۷۴۔

[94] سورہٴ فاطر آیت ۲۹۔

[95] مصباح الشریعہ :۱۵،باب الثانی والعشرون فی الزکاة؛بحار الانوار ج۹۳،ص۷،باب ۱،حدیث۱۔

[96] قولہ عزوجل:(( وَآ تُوا الزَّکوٰةَ))من المال والجاہ وقوة البدن۔فمن المال:مواساة اخوانکم الموٴمنین؛ ومن الجاہ:ایصالھم الی ما یتقا عسو ن عنہ لضعفھم عن حوائجھم المترددة في صدورھم ؛وبالقوة:معونة اٴخ لک قد سقط حمارہ اٴو جملہ في صحراء اٴو طریق ،وھو یستغیث فلا یغاث تعینہ،حتی یحمل علیہ متاعہ ،وترکبہ (علیہ)و تنھضہ حتی تلحقہ القافلہ ،واٴنت في ذلک کلہ معتقد لموالاة محمد وآلہ الطیبین ،فان اللہ یزکي اعمالک ویضاعفھا بموالاتک لھم،وبراء تک من اعدائھم۔

تفسیر امام حسن عسکری :۳۶۴،فی مدارة النواصب ،حدیث۲۵۴،ذیل سورہٴ بقرہ آیت ۸۳ ،بحار الانوار ج۹۳، ص۹، باب۱، حدیث ۵۔

[97] بصائر الدرجات ص۱۱،حدیث ۴؛بحار الانوار ج۹۳،ص۱۱۴،باب۱۴،حدیث۲۔

[98] زید بن علي عن ابیہ عن جدہ علیھم السلام قال:قال اٴمیر الموٴمنین علي ابن ابي طالب علیہ السلام :ان في الجنة لشجرة یخرج من اٴعلاھا الحلل ومن اسفلھا خیل بلق مسرجة ملجمة ذوات اٴجنحة لا تروث ولا تبول ،فیرکبھا اٴولیاء اللہ فتطیر بھم في الجنة حیث شاء وا ،فیقول الذین اسفل منھم:یا ربنا !ما بلغ بعبادک ھذہ الکرامة ؟فیقول اللہ جل جلالہ :انھم کانوا یقومون اللیل ولا ینامون ،ویصومون النھار ولا یاٴکلون ویجاھدون العدوا ولا یجبنون ،ویتصدقون ولا یبخلون۔

امالی صدوق ص۲۹۱،مجلس ۴۸،حدیث ۱۴؛بحار الانوارج۹۳،ص۱۵،باب ۱۴،حدیث ۴۔

[99] من لایحضرہ الفقیہ ج۴،ص ۱۷،باب ذکر جمل من مناھی النبی ،حدیث۴۹۶۸؛بحار الانوار ج۹۳،ص۱۱۵،باب ۱۴، حدیث ۵۔

[100] کافی ج۴،ص۲۷،باب فضل المعروف ،حدیث ۴؛بحار الانوار ج۹۳،ص۱۱۹،باب ۱۴،حدیث ۲۰۔

[101] عیون اخبار الرضا ج۲،ص۴،باب ۳۰،حدیث ۹؛وسائل الشیعہ ج۹، ص۳۹۰، باب۱۰، حدیث۱۲۳۰۹؛ بحارالانوار ج۹۳،ص۱۲۰،باب ۱۴،حدیث ۲۳۔

[102] کافی ج۴،ص۴۳،باب الانفاق ،حدیث ۵؛عیون اخبار الرضاج۲،ص۸،باب ۳۰،حدیث۲۰؛بحار الانوار ج۹۳، ص۱۲۱، باب۱۴،حدیث۲۴۔

[103] سورہٴ بقرہ آیت ۲۶۲

[104] سورہٴ بقرہ آیت ۲۶۴۔

[105] سورہٴ بقرہ آیت ۵۔

[106] سورہٴ فرقان آیت ۷۰۔

[107] سورہ ٴ بقر ہ آیت ۸۳۔

[108] سورہٴ نساء آیت ۳۶۔

[109] سورہٴ اسراء آیت ۲۳۔۲۴۔

[110] سورہٴ آل عمران آیت ۹۲۔

[111] کافی ج۲،ص۱۵۷،باب البر بالوالدین ،حدیث ۱؛بحارالانوار ج۷۱،ص۳۹،باب ۲،حدیث ۳۔

[112] عن حدید بن حکیم عن ابي عبد اللہ علیہ السلام قال اٴدنی العقوق اٴف ولو علم اللہ عز وجل شیئا اٴھون منہ لنھی عنہ۔

کافی ج۲،ص۳۴۸،باب العقوق ،حدیث ۱؛بحار الانوار ج۷۱،ص۵۹،باب۲،حدیث۲۲۔

[113] کافی ج۲،ص۳۴۹،باب العقوق ،حدیث۷۔

[114] کافی ج۲،ص۱۵۸،باب البر بالوالدین ،حدیث ۵؛بحار الانوار ج۷۱،ص۴۵،باب۲،حدیث۶۔

[115] تفسیر صافی ج۳،ص۱۸۵،ذیل سورہٴ اسراء،آیت ۲۴۔

[116] تفسیر صافی ج۳،ص۱۸۶،ذیل سورہٴ اسراء ،آیت ۲۴ ۔

[117] تفسیر امام حسن عسکری ص۳۳۰،حدیث ۱۸۹،ذیل سورہٴ اسرائآیت ۲۴ ؛بحار الانوار ج۲۳،ص۲۵۹، باب۱۵، حدیث۸۔

[118] تفسیر صافی ج۱،ص۱۵۰،ذیل سورہٴ اسرائآیت ۸۳ ،تفسیر امام حسن عسکری علیہ السلام ص۳۳۰،حدیث ۱۹۰؛بحار الانوار ج۲۳، ص۲۵۹، باب ۱۵،حدیث ۸۔

[119] سورہٴ بقرہ آیت ۲۷۔

[120] کافی ج۲،ص۱۵۲،باب صلة الرحم ،حدیث ۱۵؛بحار الانوارج۷۱،ص۱۲۱،باب۳،حدیث ۸۳۔

[121] امالی طوسی ص۴۸۰،مجلس ۱۷،حدیث ۱۰۴۹؛بحار الانوار ج۷۱،ص۹۴،باب۳،حدیث۲۱۔

[122] نوادر راوندی ص۶؛بحار الانوار ج۷۱،ص۱۰۴،باب۳،حدیث۶۲۔۳

[123] کنز الفوائد ج۲،ص۳۱،فصل من عیون الحکم ؛بحار الانوار ج۷۴،ص۱۷۳،باب۷،حدیث۷۔

[124] امالی طوسی ص۴۸۰،مجلس ۱۷ ،حدیث ۱۰۴۹؛بحار الانوار ج۷۱،ص۹۳،باب۳،حدیث۲۱۔

[125] سورہٴ رعد آیت ۳۹۔

[126] نہج البلاغہ ص۶۴۲،نامہ ۳۱،فی الراٴی فی المراٴة ؛بحار الانوار ج۷۱،ص۱۰۵،باب۳،حدیث۶۷۔

[127] امالی صدوق ص۲۰۷،مجلس ۳۷ ،حدیث ۸؛بحار الانوار ج۶۶،ص۳۸۳،باب۳۸،حدیث۴۶۔

No comments: