Tuesday, April 28, 2009

توبہ آغوش رحمت

توبہ آغوش رحمت

تالیف : استاد حسین انصاریان

مترجم: اقبال حیدر حیدری

ناشر : انتشارات انصاریان

عرض ناشر

نفس کو برائیوں سے محفوظ رکھتے ھوئے اس کو امن و امان میں رکھنا، اپنی روح و فکر کو گندی افکار سے بچانا، اخلاقی خوبیوںکو حاصل کرنا، کمال کے درجات تک پہنچنا، انسانی شرافت تک دست رسی پیدا کرنا،روحانی اور معنوی کمالات کو حاصل کرنا، الٰھی حقائق کا علم حاصل کرنا، فیض و کرم کے مرکز سے متصل ھونا، قرب الٰھی کے مقام تک پھونچنا، خداوندعالم کی محبت کے دائرہ میں داخل ھوکر فنا فی اللہ ھونا، انسانی تمام فضائل و شرافت کو حاصل کرنا اور سعادتِ آخرت کے بلند درجہ تک پھونچنا، غرض یہ تمام چیزیں کسی انسان کو حاصل نھیں ھوسکتی مگر گناھوں سے پرھیز کرنے کی صورت میں۔

پس گناھگار انسان جب تک گناھوں اور معصیت سے پرھیز نھیں کرتا تو اس وقت تک وہ فیوض الٰھی اور معنوی برکات سے محروم رھے گا، لہٰذا اس دنیا کی تمام خیر و نیکی کے مجموعہ تک پھونچنا ممکن نھیں ھے مگر گناھوں کو ترک کرنے کی صورت میں،چنانچہ وہ انسان جو گناہ اور معصیت میں ھمیشہ مبتلا رھتا ھے وہ اپنی جسمانی ، روحانی اور معنوی استعداد کی صحیح پرورش نھیں کرسکتا کیونکہ اس کے گناہ اس کی معنوی ترقی میں سدّ باب بن جاتے ھیں۔

لیکن خداوندعالم نے اپنے لطف و کرم کی بنا پر گناھگار انسانوں کے لئے ایک ایسا دروازہ کھول رکھاھے، جس سے انسان اپنے ماضی کی تلافی کرسکتا ھے اور وہ اس دروازے سے داخل ھوکر نہ صرف یہ کہ اپنے نفس سے گناھوں کی آلودگی کو دور کرسکتا ھے بلکہ اس کے ذریعہ اپنے معنوی درجات میں اضافہ بھی کرسکتا ھے۔

اور یہ دروازہ جسے آسمانی اور روحانی حقیقت کھتے ھیں ”توبہ“ کے علاوہ کچھ نھیں ھے ، اور یھی توبہ ھے جو ” آغوش رحمت الٰھی“ ھے۔

اسی نورانی اور ملکوتی حقیقت” توبہ“ کے ذریعہ گناھگار انسان خداوند عالم سے قربت حاصل کرتا ھے۔

محترم قارئین ! توبہ کا رتبہ بھت بلند و بالا اور عظیم ھے، اس کتاب میں اسی عظیم الشان حقیقت کے بارے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیلی بحث کی گئی ھے ،البتہ وہ آیات و روایات جو توبہ کے موضوع پر مشتمل ھیں وضاحت طلب ھیں یعنی ان آیات و روایات کو سمجھنے کے لئے دقیق طور پر تفسیر وتوضیح کی ضرورت ھے اوران کا علمی مطالب سے مستند ھونا ضروری ھے۔

چنانچہ مشھور دانشور، محقق بزرگ عالم باعمل جناب استاد حسین انصاریان مدظلہ نے ۱۳۶۳ھ ق میں توبہ سے متعلق تحقیقی بحث کی تھی جو اس زمانہ میں طلاب کرام، اسٹوڈینس اور جوانوں کے درمیان بھت مقبول ھوئی، جس کے بھت مفید آثار ظاھر ھوئے۔

مزکز تحقیقاتی دار الصادقین کے مدیر اعلیٰ جناب حجة الاسلام حاج سید محمد جواد ھاشمی یزدی صاحب نے اس ”مجموعہ تقاریر“ کو کتابی شکل دینے کی فرمائش کی تاکہ دوسرے مومنین بالخصوص جوان طبقہ بھی اس سے فیضیاب ھوسکے۔

تقاریر کے مجموعہ کو موٴسسہ دار العرفان نے لکھا اور استاد محترم کی خدمت میں پیش کیا ،موصوف نے علمی اور دقیق مبانی کے تحت مطالب کو دیکھا اور اس کتاب کو ترتیب دیا۔

اور بعض محققین کی فرمائش پر موسسہ دار العرفان نے اس کے مدارک و منابع کی بھی تحقیق کی اورآیات و روایات کی بھی فھرست تیار کی ۔

پس یہ تحقیقی مجموعہ درحقیقت استاد محترم کے قلم سے ھے لہٰذا توبہ کے سلسلہ میں بھت مفید واقع ھوگا۔ (انشاء اللہ)

امید ھے کہ اھل تحقیق کے لئے توبہ کے موضوع میں دقیق و عمیق بحث کے لئے ایک فتح الباب ھوگا اور رحمت الٰھی کے امیدوار افراد کے لئے معنویت سے بھرا دسترخوان قرار پائے گا۔

مرکز علمی تحقیقاتی دار العرفان

عرض مولف

ھو التواب

جس وقت ایران اور عراق کے درمیان جنگ ھورھی تھی ، حقیر اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ھوئے معنویت بھری فضا ”محاذ جنگ “پر حاضر ھوا، تو وھاں کچھ روحانی اور ملکوتی شخصیتوںسے آشنائی ھوئی ان با معرفت شخصیات نے حقیر سے خواہش کی کہ جس وقت محاذ پر سکون ھو اور راہ ِعشق کے مسافر اور مجاہدین فی سبیل اللہ اپنے بعض اداری امور کے لئے تھران آئےں تو ان کے لئے ایک ایسا جلسہ منعقد ھو جس میں قرآنی آیات اور احادیث معصومین علیھم السلام کی روشنی میں عاشقانہ اور عارفانہ گفتگو ھو،تاکہ اسلامی سپاھیوں کے اندر دینی معرفت حاصل ھو اور دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اور زیادہ جوش و ولولہ پیدا ھو۔

حقیر نے اس فرمائش کو قبول کرلیااور ہفتہ میں ایک بار منگل کی رات میں جلسہ کا وقت معین کیا گیا، جلسہ میں شرکت کرنے والے شروع شروع میں بیس افراد سے زیادہ نھیں تھے ، لیکن بعد میں تعداد زیادہ ھوگئی،ھمارے اس جلسہ کا آغاز نماز جماعت سے ھوتا تھا اس کے بعد چند فقھی مسائل، معارف الٰھیہ اور ذکر مصائب اھلبیت علیھم السلام پر ختم ھوجاتا تھا،چنانچہ آہستہ آہستہ بھت سے پاک دل جوانوں کا اضافہ ھوتا رھا، اور ان کے ذریعہ اطلاع پانے والے افراد بھی اس جلسہ میں جوق در جوق آنے لگے، ان جلسوں میں ایک خاص معنویت ھوتی تھی جس میں نہ کوئی بینر ھوتا تھا او رنہ ھی کوئی صدر و سکریٹری ،بر خلاف دوسرے تمام جلسوں کے کہ جن میں مدیر،ہدایت کار، اور صدر و سکریٹری ھوتے ھیں، لیکن ھماراجلسہ جوش وولولہ ، مھر و محبت او رعشق ونورانیت سے لبریز ھوتا تھا، برادران کے درمیان وحدت اور اتحاد پایا جاتا تھا، لوگ خدا کی خوشنودی کے لئے جلسہ میں شرکت کرتے تھے، رضائے الٰھی کے لئے پڑھتے تھے اوررضائے الٰھی کے لئے سنتے تھے، خلاصہ اس جلسہ میں وجد اور حال کے علاوہ کچھ نھیں ھوتا تھا۔

آخر کار جلسہ میں شرکت کرنے والوںکی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی، اس جلسہ کی اھمیت یہ تھی کہ حقیر ایران کے کسی بھی علاقے میں جھاں کھیں بھی ھوتاتھا وھاں سے واپس آجاتا تھا اور جلسہ میں شرکت کرنے والوں کا بھی یھی دستور تھا، یھاں تک کہ اس جلسہ میں شرکت کرنے کے لئے ملک کے مغربی اور جنوبی علاقوں سے فوجی جنگجو اپنے سرداروں سے چھٹی لے لے کر شریک ھوا کرتے تھے۔

ھم یہ سوچتے تھے کہ یہ عشق و محبت اور معنویت سے بھر ایہ بھترین جلسہ سالوں سال چلتا رھے گا، لیکن بھت سے نیک اور پاک سیرت جوان درجہ شھادت پر فائز ھوگئے، اور بھت سے افراد بعثی صدامیوں کے ھاتھوں اسیر ھوگئے، ھمارے اس جلسہ کے افراد اس قدر شھید یا اسیر ھوئے کہ ھم سے ان کی خالی جگہ کو دیکھا نھیں جاتا تھا، ھمارے لئے یہ بھت گراںوقت تھا، دوسرے شرکت کرنے والے نئے لوگ ایسے افراد نھیں تھے جو ان کی خالی جگہ کو پُر کردےں، چنانچہ ھم نے غمگین حالت اور گریاں کناں آنکھوں کے ساتھ اس جلسہ کو الوداع کیا، اس طرح ھمیشہ کے لئے اس جلسہ کی تعطیل ھوگئی، ھمارے دل میں ان جیسے افراد کو دیکھنے کی تمنا آج تک باقی ھے، لیکن ابھی تک ایسے افراد نہ مل سکے اور نہ ھی اب ان جیسے افراد کے ملنے کا گمان ھے۔

ان جلسوں میں مختلف مطالب بیان ھوئے تھے منجملہ: توبہ، معرفت، عشق خدا، قیامت اور عرفان ۔اور خوش قسمتی کی بات یہ ھے کہ ان جلسات کو ٹیپ بھی کیا گیا تھا، چند سال بعد بعض افراد نے فرمائش کی کہ ان جلسوںمیں بیان شدہ مطالب کو کتابی شکل دیدی جائے تاکہ عام مومنین بھی اس کے مطالعہ سے فیضیاب ھوسکیںلہٰذاموسسہ دار العرفان کے ذریعہ توبہ سے متعلق وہ ٹیپ لکھے گئے۔

قارئین کرام! کتاب ھذا ان ھی ۲۰ / ھفتوں سے زیادہ منعقد ھوئے جلسوں کی یادگار ھے، وہ شبیں جن کی یادیں ابھی تک ھمارے لئے شیرین اور تلخ ھیں ، امید ھے کہ آپ حضرات” توبہ “کے سلسلہ میں جدید مطالب سے مستفیض ھوں گے، آخر میں خداوند منان سے دعا ھے کہ ھمیں توبہ کی توفیق عطا کرے اور اس سلسلہ میں بیان شدہ مطالب پر عمل کرنے کی سعادت عنایت فرمائے۔(آمین یا رب العالمین)

احقرالعبد : حسین انصاریان

نعمتیں اور انسان کی ذمہ داری

(فَکُلُوا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللهُ حَلاَلاً طَیِّبًا وَاشْکُرُوا نِعْمَةَ اللهِ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ۔))[1]

لہٰذا اب تم اللہ کے دئے ھوئے رزق حلال و پاکیزہ کو کھاؤ اور اس کی عبادت کرنے والے بنو، اور اس کی نعمتوں کا شکریہ بھی ادا کرتے رھواگر تم خدا کے عبادت گزار ھو“۔

خدا وندمتعال نے اپنے خاص لطف و کرم، رحمت ومحبت اور عنایت کی بنا پر انسان کو ایسی نعمتوں سے سرفراز ھونے کا اھل قرار دیا جن سے اس کائنات میں دوسری مخلوقات یھاں تک کہ مقرب فرشتوںکو بھی نھیں نوازا۔

انسان کے لئے خداوندعالم کی نعمتیں اس طرح موجود ھیں کہ اگر انسان ان کو حکم خدا کے مطابق استعمال کرے تو اس کے جسم اور روح میں رشد و نمو پیدا ھوتا ھے او ردنیاوی اور اُخروی زندگی کی سعادت و کامیابی حاصل ھوتی ھے۔

قرآن مجید نے خدا کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں کے بارے میں ۱۲/اھم نکات کی طرف توجہ دلائی ھے:

۱۔ نعمت کی فراوانی اور وسعت۔

۲۔ حصول نعمت کا راستہ۔

۳۔ نعمت پر توجہ ۔

۴۔نعمت پر شکر۔

۵۔نعمت پر ناشکری سے پرھیز۔

۶۔نعمتوں کا بے شمار ھونا۔

۷۔نعمت کی قدر کرنے والے۔

۸۔نعمتوں میں اسراف کرنا۔

۹۔نعمتوں کو خرچ کرنے میں بخل سے کام لینا۔

۱۰۔نعمت کے چھن جانے کے اسباب و علل۔

۱۱۔اتمام ِنعمت ۔

۱۲۔نعمت سے صحیح فائدہ اٹھانے کا انعام۔

اب ھم قارئین کی توجہ قرآن مجید کے بیان کردہ ان عظیم الشان بارہ نکات کی طرف مبذول کراتے ھیں:

۱۔ نعمت کی فراوانی اور وسعت

زمین و آسمان کے در میان پائی جانے والی تمام چیزیں کسی نہ کسی صورت میں انسان کی خدمت اور اس کے فائدے کے لئے ھيں، چاند، سورج، ایک جگہ رکنے والے اور گردش کرنے والے ستارے، فضا کی دکھائی دینے والی اور نہ دکھائی دینے والی تمام کی تمام چیزیں خداوندعالم کے ارادہ اور اس کے حکم سے انسان کو فائدہ پہنچارھی ھیں۔

پھاڑ، جنگل، صحرا، دریا، درخت و سبزے، باغ، چشمے، نھریں، حیوانات اور دیگر زمین پر پائی جانے والی بھت سی مخلوقات ایک طرح سے انسان کی زندگی کی ناؤ کو چلانے میں اپنی اپنی کارکردگی میں مشغول ھیں۔

خداوندعالم کی نعمتیں اس قدر وسیع ، زیادہ، کامل اور جامع ھیں کہ انسان کو عاشقانہ طور پر اپنی آغوش میں بٹھائے ھوئے ھیں، اور ایک مھربان اور دلسوز ماں کی مانند ،انسان کے رشد و نمو کے لئے ھر ممکن کوشش کررھی ھیں۔

انسان کو جن ظاھری و باطنی نعمتوں کی ضرورت تھی خداوندعالم نے اس کے لئے پھلے سے ھی تیار کررکھی ھے، اور اس وسیع دسترخوان پر کسی بھی چیز کی کمی نھیں ھے۔

چنانچہ قرآن کریم میں اس سلسلے میں بیان ھوتا ھے:

(( اٴَلَمْ تَرَوْا اٴَنَّ اللهَ سَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْاٴَرْضِ وَاٴَسْبَغَ عَلَیْکُمْ نِعَمَہُ ظَاھرةً وَبَاطِنَةً۔۔۔))۔[2]

کیا تم لوگوں نے نھیں دیکھا کہ اللہ نے زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو تمھارے لئے مسخر کر دیا ھے اور تمھارے لئے تمام ظاھری اور باطنی نعمتوں کو مکمل فرمایااور لوگوں میں بعض ایسے بھی ھیں جو علم ہدایت اور روشن کتا ب کے بغیر بھی خدا کے بارے میں بحث کرتے ھیں “۔

۲۔ حصول نعمت کا راستہ

رزق کے حصول کے لئے ھر طرح کا صحیح کام اور صحیح کوشش کرنا؛ بے شک خداوندعالم کی عبادت اور بندگی ھے؛ کیونکہ خدائے مھربان نے قرآن مجید کی بھت سی آیات میں اپنے بندوں کو زمین کے آباد کرنے اور حلال روزی حاصل کرنے، کسب معاش، جائز تجارت اورخرید و فروخت کا حکم دیا ھے، اور چونکہ خداوندعالم کے حکم کی اطاعت کرنا عبادت و بندگی لہٰذا اس عبادت و بندگی کا اجر و ثواب روز قیامت (ضرور) ملے گا۔

تجارت، خرید و فروخت، اجارہ (کرایہ)، وکالت، مساقات (سینچائی)،زراعت ،مشارکت، صنعت، تعلیم، خطاطی، خیّاطی، رنگ ریزی، دباغی ( کھال کو گلانا) اور دامداری(بھیڑ بکریاں وغیرہ پالنا)

جیسے اسلامی موضوعات اور انسانی قوانین کی رعایت کرتے ھوئے مادی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنے والاانسان خدا کی نظر میں محبوب ھے، لیکن ان راستوںکے علاوہ حصول رزق کے لئے اسلامی قوانین کے مخالف اور اخلاقی و انسانیت کے خلاف راستوں کو اپنانے والوں سے خدا نفرت کرتاھے۔

قرآن مجید اس مسئلہ کے بارے میں ارشاد فرماتا ھے:

((یَااٴَیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَاٴْکُلُوا اٴَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ اٴَنْ تَکُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْکُمْ))۔[3]

اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال کو ناحق طریقہ سے نہ کھایا کرو۔مگر یہ کہ باھمی رضامندی سے معاملہ کرلو “۔

((یَااٴَیُّھا النَّاسُ کُلُوا مِمَّا فِی الْاٴَرْضِ حَلاَلًا طَیِّبًا وَلاَتَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُبِینٌ))۔[4]

اے انسانو! زمین میں جو کچھ بھی حلال و پاکیزہ ھے اسے استعمال کرو اور شیطان کے نقش قدم پر مت چلو بے شک وہ تمھاراکھلا دشمن ھے “۔

بھر حال خداوندعالم کی طرف سے جو راستے حلال اور جائز قرار دئے گئے ھیںاگر ان جائز اور شرعی طریقوں سے روزی حاصل کی گئی ھے اور اس میں اسراف و تبذیر سے خرچ نھیں کیا گیا تو یہ حلال روزی ھے اور اگر غیر شرعی طریقہ سے حاصل ھونے والی روزی اگرچہ وہ ذاتی طور پر حلال ھو جیسے کھانے پینے کی چیزیں؛ تو وہ حرام ھے اور ان کا اپنے پاس محفوظ رکھنا منع ھے اور ان کے اصلی مالک کی طرف پلٹانا واجب ھے۔

۳۔ نعمت پر توجہ

کسی بھی نعمت سے بغیر توجہ کئے فائدہ اٹھانا، چوپاؤں، غافلوں اور پاگلوں کاکام ھے ، انسان کم از کم یہ تو سوچے کہ یہ نعمت کیسے وجود میں آئی ھے یا اسے ھمارے لئے کس مقصد کی خاطر پیدا کیا گیا؟ اس کے رنگ، بو اور ذائقہ میں کتنے اسباب و عوامل پائے گئے ھیں، المختصر یہ کہ بغیر غور و فکر کئے ایک لقمہ روٹی یا ایک لباس، یا زراعت کے لائق زمین، یا بھتا ھوا چشمہ، یا بھتی ھوئی نھر، یا مفید درختوں سے بھرا جنگل، اور یہ کہ کتنے کروڑ یا کتنے ارب عوامل و اسباب کی بنا پر کوئی چیز وجود میں آئی تاکہ انسان زندگی کے لئے مفید واقع ھو ؟!!

صاحبان عقل و فھم اور دانشور اپنے پاس موجود تمام نعمتوں کو عقل کی آنکھ اور دل کی بینائی سے دیکھتے ھیں تاکہ نعمت کے ساتھ ساتھ،نعمت عطا کرنے والے کے وجود کا احساس کریں اور نعمتوںکے فوائد تک پہنچ جائیں، نیز نعمت سے اس طرح فائدہ حاصل کریں جس طرح نعمت کے پیدا کرنے والے کی مرضی ھو۔

قرآن مجید جو کتاب ہدایت ھے ؛اس نے لوگوں کوخداوندعالم کی نعمتوں پر اس طرح متوجہ کیاھے:

(( یَااٴَیُّھاالنَّاسُ اذْکُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَیْکُمْ ھل مِنْ خَالِقٍ غَیْرُاللهِ یَرْزُقُکُمْ مِنْ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ لاَإِلَہَ إِلاَّ ہُوَ فَاٴَنَّی تُؤْفَکُونَ))۔[5]

اے لوگو! اپنے اوپر (نازل ھونے والی) اللہ کی نعمت کو یاد کرو کیا ، (کیا) اس کے علاوہ بھی کوئی خالق ھے ؟وھی تو تمھیں آسمان اور زمین سے روزی دیتا ھے اس کے علاوہ کوئی خدا نھیں ، پس تم کس طرف بہکے چلے جارھے ھو“۔

جی ھاں! تمام نعمتیں اپنے تمام تر فوائد کے ساتھ ساتھ خداوندعالم کی وحدانیت کی دلیل ، اس کی توحید ذاتی کاثبوت اور اسی کی معرفت و شناخت کے لئے آسان راستہ ھے۔

۴۔ نعمت پر شکر

بعض لوگوں کا خیال ھے کہ شکر کے معنی یہ ھیں کہ نعمت سے فائدہ اٹھانے کے بعد ”شکر لله “ (الٰھی تیرا شکر) یا ”الحمد لله“ کہہ دیا جائے ، یا اس سے بڑھ کر ”الحمد لله رب العالمین“ زبان پر جاری کردیا جائے۔

یاد رھے کہ ان بے شمار مادی اور معنوی نعمتوں کے مقابلہ میں اردو یا عربی میں ایک جملہ کہہ دینے سے حقیقی معنی میں شکر نھیں ھوتا، بلکہ شکر ، نعمت عطا کرنے والی ذات کے مقام اور نعمت سے ھم آہنگ ھونا چاہئے ، اور یہ معنی کچھ فعل و قول اور وجد بغیر متحقق نھیں ھوں گے، یعنی جب تک انسان اپنے اعضاء و اجوارح کے ذریعہ خداوندمتعال کا شکر ادا کرنے کے لئے ان افعال و اقدامات کو انجام نہ دے جن سے پتہ چل جائے کہ وہ پروردگارعالم کا اطاعت گزار بندہ ھے ، پس شکر خدا کے لئے ضروری ھے کہ انسان ایسے امور کو انجام دے جو خدا کی رضایت کا سبب قرار پائے اور اس کی یاد سے غافل نہ ھونے دیں۔

کیا خداوندعالم کے اس عظیم لطف و کرم کے مقابلہ میں صرف زبانی طور پر”الٰھی تیرا شکر “یا ”الحمد للہ“ کہہ دینے سے کسی کوشاکر کھا جاسکتا ھے؟!

بدن، اعضاء و جوارح: آنکھ کان، دل و دماغ،ھاتھ، پیر، زبان، شکم، شھوت، ہڈی اوررگ جیسی نعمتیں یا کھانے پینے، پہننے اور سونگھنے کی چیزیں یا دیدہ زیب مناظر جیسے پھاڑ، صحرا، جنگل،نھریں، دریا اور چشمے یا پھلوں، اناج اورسبزیوں کی مختلف قسمیں اور دیگر لاکھوں نعمتیں جن پر ھماری زندگی کا دارومدار ھے، کیا ان سب کے لئے ایک ”الحمد لله“ کہنے سے حقیقی شکر ھوجائے گا؟ اور کیا اسلام وایمان، ہدایت و ولایت، علم و حکمت، صحت و سلامتی، تزکیہ نفس و طھارت، قناعت و اطاعت اور محبت و عبادت جیسی نعمتوںکے مقابلہ میں ”الٰھی تیرا شکر“ کہنے سے انسان خدا کا شاکر بندہ بن سکتا ھے؟!

راغب اصفھانی اپنی عظیم الشان کتاب ”المفردات“ میں کھتے ھیں:

اَصْلُ الشُّکْرِ مِنْ عَیْنٍ شَکْریٰ“۔[6]

شکر کا مادہ ”عین شَکْریٰ“ھے؛ یعنی آنسو بھری آنکھیں یا پانی بھرا چشمہ، لہٰذا شکر کے معنی ”انسان کا یاد خدا سے بھرا ھوا ھونا ھے اور اس کی نعمتوں پر توجہ رکھنا ھے کہ یہ تمام نعمتیں کس طرح حاصل ھوئیں اور کیسے ان کو استعمال کیاجائے“۔

خواجہ نصیر الدین طوسی علیہ الرحمہ ،علامہ مجلسی علیہ الرحمہ کی روایت کی بنا پر شکر کے معنی اس طرح فرماتے ھیں:

شکر، شریف ترین اور بھترین عمل ھے، معلوم ھونا چاہئے کہ شکر کے معنی قول و فعل اور نیت کے ذریعہ نعمتوں کے مدّمقابل قرار پانا ھے، اور شکر کے لئے تین رکن ھیں:

ا۔ نعمت عطا کرنے والے کی معرفت ، اوراس کے صفات کی پہچان، نیز نعمتوں کی شناخت کرنا ضروری ھے، اور یہ جاننا بھی ضروری ھے کہ تمام ظاھری اور باطنی نعمتیں سب اسی کی طرف سے ھیں، اس کے علاوہ کوئی حقیقی منعم نھیں ھے، انسان اور نعمتوں کے درمیان تمام واسطے اسی کے فرمان کے سامنے سرِتسلیم خم کئے ھیں۔

۲۔ ایک خاص حالت کا پیدا ھونا، اور وہ یہ ھے کہ انسان عطا کرنے والے کے سامنے خشوع و خضوع اور انکساری کے ساتھ پیش آئے اور نعمتوں پر خوش رھے، اور اس بات پر یقین رکھے کہ یہ تمام نعمتیں خدا وندعالم کی طرف سے انسان کے لئے تحفے ھیں، جو اس بات کی دلیل ھيں کہ خداوندعالم انسان پر عنایت و توجہ رکھتا ھے، اس خاص حالت کی نشانی یہ ھے کہ انسان مادی چیزوں پر خوش نہ ھو مگر یہ کہ جن کے بارے میں خداوندعالم کا قرب حاصل ھو۔

۳۔ عمل، اور عمل بھی دل، زبان اور اعضاء سے ظاھر ھونا چاہئے۔

دل سے خداوندعالم کی ذات پر توجہ رکھے اس کی تعظیم اور حمدو ثناکرے، اور اس کی مخلوقات اور اس لطف و کرم کے بارے میں غور و فکر کرے، نیز اس کے تمام بندوں تک خیر و نیکی پہنچانے کا ارادہ کرے۔

زبان سے اس کا شکر و سپاس، اس کی تسبیح و تھلیل اور لوگوں کو امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرے۔

تمام ظاھری و باطنی نعمتوں کو استعمال کرتے ھوئے اس کی عبادت و اطاعت میںاعضاء کو کام میں لائے، اور اعضاء کو خدا کی معصیت و مخالفت سے روکے رکھے“۔

لہٰذا شکر کے اس حقیقی معنی کی بنا پر یہ بات روشن ھوجاتی ھے کہ شکر ،صفات کمال کے اصول میں سے ایک ھے، جو صاحبان نعمت میں بھت ھی کم ظاھر ھوتے ھیں، چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:

((وَقَلِیلٌ مِنْ عِبَادِی الشَّکُورُ))۔[7]

اور ھمارے بندوں میں شکر گزار بندے بھت کم ھیں“۔

تمام نعمتوں کے مقابلہ میں مذکورہ معنی میں شکر واجب عقلی اور واجب شرعی ھے، اور ھر نعمت کو اسی طرح استعمال کرنا شکر ھے جس طرح خداوندعالم نے حکم دیا ھے، حقیقت تو یہ ھے کہ خداوندعالم کی کامل عبادت و بندگی حقیقی شکر کے ذریعہ ھی ھوسکتی ھے:

((فَکُلُوا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللهُ حَلاَلاً طَیِّبًا وَاشْکُرُوا نِعْمَةَ اللهِ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ))۔[8]

لہٰذا اب تم اللہ کے دئے ھوئے حلال و پاکیزہ رزق کو کھاوٴ اور اس کی عبادت کرنے والے ھو تو اس کی نعمتوں کا شکریہ بھی ادا کرتے رھو“-۔

((فَابْتَغُوا عِنْدَ اللهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوہُ وَاشْکُرُوا لَہُ إِلَیْہِ تُرْجَعُونَ))۔[9]

رزق خدا کے پاس تلاش کرواور اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکربجالاؤ کہ تم سب اسی کی بارگاہ میں پلٹادئے جاوٴگے“۔

مصحف ناطق حضرت امام صادق علیہ السلام شکر کے معنی بیان فرماتے ھیں:

شُکْرُ النِّعْمَةِ اجْتِنابُ الْمَحارِمِ وَتَمامُ الشُّکْرِ قَوْلُ الرَّجُلِ :الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰالَمینَ:“[10]

نعمتوں پر شکر بجالانے کا مطلب یہ ھے کہ انسان تمام حرام چیزوں سے اجتناب کرے، اور کامل شکر یہ ھے کہ نعمت ملنے پر ”الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰالَمینَ“ کھے“۔

پس نعمت کا شکر یہ ھے کہ نعمت کو عبادت و بندگی اور بندگان خدا کی خدمت میں خرچ کرے، لوگوں کے ساتھ نیکی اوراحسان کرے اور تمام گناھوں سے پرھیز کرے۔

۵۔ نعمت پر ناشکری سے پرھیز

بعض لوگ ،حقیقی منعم سے بے خبر اورخداداد نعمتوں میں بغیر غور و فکر کئے اپنے پاس موجودتمام نعمتوں کو مفت تصور کرتے ھیں، اور خودکو ان کا اصلی مالک تصورکرتے ھیں اور جو بھی ان کا دل اور ھوائے نفس چاھتا ھے ویسے ھی ان نعمتوں کو استعمال کرتے ھیں۔

یہ لوگ جھل و غفلت اور بے خبری اور نادانی میں گرفتار ھیں ،خدائی نعمتوں کو شیطانی کاموں اور ناجائز شھوتوں میں استعمال کرتے ھیں، اور اس سے بدتر یہ ھے کہ ان تمام خداداد نعمتوں کو اپنے اھل و عیال، اھل خاندان، دوستوں او ردیگر لوگوں کو گمراہ کرنے پر بھی خرچ کرڈالتے ھیں۔

اعضاء و جوارح جیسی عظیم نعمت کو گناھوں میں، مال و دولت جیسی نعمت کو معصیت و خطا میں ، علم و دانش جیسی نعمت کو طاغوت و ظالموں کی خدمت میںاور بیان جیسی نعمت کو بندگان خدا کو گمراہ کرنے میں خرچ کرڈالتے ھیں!!

یہ لوگ خدا ئی نعمتوں کی زیبائی اور خوبصورتی کو شیطانی پلیدگی اور برائی میں تبدیل کردیتےھیں، اور اپنے ان پست کاموں کے ذریعہ خود کو بھی اور اپنے دوستوں کو بھی جہنم کے ابدی عذاب کی طرف ڈھکیلے جاتے ھیں!

((اٴَلَمْ تَرَی إِلَی الَّذِینَ بَدَّلُوا نِعْمَةَ اللهِ کُفْرًا وَاٴَحَلُّوا قَوْمَھم دَارَ الْبَوَارِ۔جَہَنَّمَ یَصْلَوْنَھا وَبِئْسَ الْقَرَارُ))[11]

کیاتم نے ان لوگوں کو نھیں دیکھا جنھوں نے اللہ کی نعمت کو کفران نعمت سے بدل دیا اور اپنے قوم کو ھلاکت کی منزل تک پہنچا دیا۔یہ لوگ واصل جہنم ھوں گے اور جہنم کتنا بُرا ٹھکانہ ھے “۔

۶۔نعمتوں کا بے شمار ھونا

اگر ھم نے قرآن کریم کی ایک آیت پر بھی توجہ کی ھو تی تو یہ بات واضح ھوجاتی کہ خداوندعالم کی مخلوق اور اس کی نعمتوں کا شمار ممکن نھیں ھے، اور شمار کرنے والے چاھے کتنی بھی قدرت رکھتے ھوں ان کے شمار کرنے سے عاجز رھے ھیں۔ جیسا کہ قر آن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:

((وَلَوْ اٴَنَّمَا فِی الْاٴَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اٴَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ یَمُدُّہُ مِنْ بَعْدِہِ سَبْعَةُ اٴَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اللهِ إِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ))[12]

اور اگر روئے زمین کے تمام درخت ،قلم بن جائیں اور سمندر میں مزید سات سمندر اور آجائیں تو بھی کلمات الٰھی تمام ھونے والے نھیں ھیں ،بیشک اللہ صاحب عزت بھی ھے اور صاحب حکمت بھی “۔

ھمیں اپنی پیدائش کے سلسلے میں غور و فکر کرنا چاہئے اور اپنے جسم کے ظاھری حصہ کو عقل کی آنکھوں سے دیکھنا چاہئے تاکہ یہ حقیقت واضح ھوجائے کہ خداوندعالم کی نعمتوں کا شمار کرنا ھمارے امکان سے باھر ھے۔

خداوندعالم ،انسان کی خلقت کے بارے میں فرماتا ھے:

(( وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِینٍ۔)) [13]

اور ھم ھی نے انسان کو گیلی مٹی سے پیدا کیا ھے“۔

((ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَةً فِی قَرَارٍ مَکِینٍ))۔[14]

پھر اسے ایک محفوظ جگہ پر نطفہ بناکر رکھا ھے“۔

((ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اٴَنشَاٴْنَاہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللهُ اٴَحْسَنُ الْخَالِقِینَ۔))[15]

پھر ھم ھی نے نطفہ کو جماھو اخون بنا یا اور منجمد خون کو گوشت کا لوتھڑا بنایا ، پھر ھم ھی نے (اس) لوتھڑے میں ہڈیاں بنائیں ، پھر ھم ھی نے ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ،پھر ھم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنادیا ھے، تو کس قدر با برکت ھے وہ خدا جو سب سے بھتر خلق کرنے والا ھے“۔

جی ھاںیھی نطفہ ان تمام مراحل سے گزرکر ایک کامل انسان اور مکمل وجود میں تبدیل ھوگیاھے۔

اب ھم اپنے عجیب و غریب جسم اور اس میں پائے جانے والے خلیوں، آنکھ، کان ،ناک ،معدہ ،گردن، خون، تنفسی نظام، مغز، اعصاب، اور دوسرے اعضاء و جوارح کو دیکھیں اور ان کے سلسلے میں غور وفکر کریں تاکہ معلوم ھوجائے کہ خود اسی جسم میں خداوندعالم کی کس قدر بے شمار نعمتیں موجود ھیں۔

کیا دانشوروں او رڈاکٹروں کایہ کہنا نھیں ھے کہ اگر انسان مسلسل( ۲۴/ گھنٹے ) ھر سیکنڈ میں بدن کے ایک ہزار خلیوں کا شمار کرتارھے تو ان تمام کو شمار کرنے کے لئے تین ہزار (۳۰۰۰) سال در کا ر ھوں گے۔

کیا دانشوروں او رڈاکٹروں کایہ کہنا نھیں ھے کہ انسان کے”معدہ“ (اس عجیب و غریب لیبریٹری کے اندر) کھانا اس قدر تجزیہ و تحلیل ھوتا ھے کہ انسان کے ھاتھوں کی بنائی ھوئی لیبریٹری میں اتنا کچھ تجزیہ و تحلیل نھیں ھوتا، اس معدہ میں یا اس لیبریٹری میں ۱۰/ لاکھ مختلف قسم کے ذرات فلٹر ھوتے ھیں جن میں سے اکثر ذرات زھریلے ھوتے ھیں۔[16]

کیا دانشوروں او رڈاکٹروں کا کہنا نھیں ھے کہ انسان کا دل ایک ”بند مٹھی “سے زیادہ بڑا نھیں ھوتا لیکن اتنی زیادہ طاقت رکھتا ھے کہ ھر منٹ میں ۷۰ /مرتبہ کھلتا اور بند ھوتا ھے، اور تیس سال کی مدت میں ایک ارب مرتبہ یہ کام انجام دیتا ھے اور ھر منٹ میں بال سے زیادہ باریک رگوں کے ذریعہ پورے بدن میں دوبار خون پہنچاتا ھے اور بدن کے اربوں کھربوں خلیوں دھوتا ھے۔[17]

اس طرح آکسیجن، ھائیڈروجن وغیرہ کے ذرات، ھوا، روشنی، زمین، درختوں کی شاخیں ، پتے اور پھل نیز زمین و آسمان کے درمیان جو کچھ ھے، ایک طرح سے انسان کی خدمت میں مشغول ھیں،اگر ھم اپنے بدن کے ساتھ ان تمام چیزوں کا اضافہ کرکے غور و فکر کریں تو کیا اس دنیا میں انسان کے لئے خداوندعالم کی نعمتوں کا شمار ممکن ھے؟!

اگر آپ ایک مٹھی خاک کود یکھیں تو یہ فقط خالص مٹی نھیں ھے، بلکہ مٹی کا اکثر حصہ معدنی مواد سے تشکیل پاتا ھے، جو چھوٹے چھوٹے سنگریزوں کی شکل میں ھوتے ھیں، یہ سنگریزے بڑے پتھروں کے ٹکڑے ھیں جو طبیعی طاقت کی وجہ سے ریزہ ریزہ ھوگئے ھیں، مٹی میں بھت سی زندہ چیزیں ھوتی ھیں، ممکن ھے کہ ایک مٹھی خاک میں لاکھوں بیکٹری موجود ھوں، بیکٹری کے علاوہ بھت سی رشد کرنے والی جڑیں، ریشے (مانند امر بیل) اوربھت سے کیڑے مکوڑے بھی پائے جاتے ھیں جن میں سے بھت سے زندہ ھوتے ھیں اور مٹی کو نرم کرتے رھتے ھیں تاکہ درختوں اور پودوں کی رشد و نمو میں مدد گار ثابت ھوسکیں۔[18]

انسان کے اندر مختلف چیزوں کے ہضم کرنے کی مشینیں پائی جاتی ھیں ،جیسے منھ، دانت، زبان،حلق،لعاب پیدا کرنے والے غدود، معدہ، لوز المعدہ[19] "Pancreas" ، چھوٹی بڑی آنتیں نیز غذا کو جذب و ہضم کرنے کے لئے ان میں سے ھر ایک کا عمل اللہ کی ایک عظیم نعمت ھے۔

اسی طرح ایک اھم مسئلہ سرخ رگوں، سیاہ رگوں، چھوٹی رگوں، دل کے درمیان حصہ، دل کے داہنا اور بایاں حصہ وغیرہ کے ذریعہ خون کا صاف کرنا اور خون کے سفید اور سرخ گلوبل ، ترکیب خون،رنگ خون، جریان خون، حرارت بدن، بدن کی کھال اور اس کے عناصر، آنکھ اور اس کے طبقات وغیرہ بھی خداوندعالم کی تعجب خیز نعمتوں میں سے ھیں۔

آسمان کی فضا ،نور کا پہنچنا، گردش، کشش اور دریاؤں کا جز رو مدّ [20]انسان کی زندگی میں کس قدراھمیت کے حامل ھیں، ان کے عناصر اتنے زیادہ ھیں کہ اگر ھم آسمان کے دکھائی دینے والے حصے کے ستاروں کو شمار کرنا چاھیں اور ھر منٹ میں ۳۰۰ /ستاروں کو شمار کریں تو اس کے لئے ۳۵۰۰سال کی عمر درکار ھوگی جن میں شب و روز ستاروں کو شمار کریں کیونکہ بڑی بڑی دوربینوں کے ذریعہ ابھی تک ان کی تعداد کے بارے میں تخمینہ لگایا گیا اس کی تعداد ایک لاکھ ملین ھے جس کے مقابلہ میں ھماری زمین ایک چھوٹے سے دانہ کی طرح ھے ، بھتر تو یہ ھے کہ ھم یہ کھیں کہ انسان ان کو شمار ھی نھیں کرسکتا!!!

جس فضا میں ستارے ھوتے ھیں وہ اس قدر وسیع و عریض ھے کہ اس کے ایک طرف سے دوسری طرف جانے کے لئے پانچ لاکھ نوری سال درکار ھیں۔

سورج اور منظومہ شمسی ،آسمان کی کرنوں کا ایک ذرہ ھے جو ۴۰۰/کیلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے حرکت کررھا ھے اور تقریباً (۰۰۰/۰۰۰/۲۰۰) سال کا وقت درکا ر ھے تاکہ اپنے مرکز کا ایک چکر لگاسکے!

عالم بالا کا تعجب خیز نظام ،سطح زمین اور زمین کے اندر اس کا اثر نیز بھت سے جانداروں کی زندگی کے لئے راستہ ھموار کرنا، یہ سب حیرت انگیز کھانیاں انسان کے لئے سمجھنا اتنا آسان نھیں ھے، انسان جس ایک قطرہ پانی کو پیتا ھے اس میں ہزاروں زندہ اور مفید جانور ھوتے ھیں اور ایک متر مکعب پانی میں ۷۵۰۰سفید گلوبل"Globule" اور پچاس لاکھ سرخ گلوبل ھوتے ھیں۔[21]

ان تمام باتوں کے پیش نظر قرآن مجیدکی عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نورانی قلب پر نازل ھونے والے قرآن مجید نے صدیوں پھلے ان حقائق کو بیان کیا ھے، لہٰذا خدا کی عطا کردہ نعمتوں کو ھرگز شمار نھیں کیا جاسکتا۔

((وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللهِ لاَتُحْصُوھا إِنَّ اللهَ لَغَفُورٌ رَحِیمٌ ))۔[22]

اور تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاھو تو شمار نھیں کرسکتے ، بیشک اللہ بڑا مھربان اور بخشنے والا ھے“۔

۷۔نعمتوںکی قدر شناسی

جن افراد نے اس کائنات ، زمین و آسمان اور مخلوقات میں صحیح غور و فکر کرنے کے بعد خالق کائنات، نظام عالم ،انسان اور قیامت کو پہچان لیا ھے وہ لوگ اپنے نفس کا تذکیہ ، اخلاق کو سنوارنے، عبادت و بندگی کے راستہ کو طے کرنے اور خدا کے بندوں پر نیکی و احسان کرنے میں سعی و کوشش کرتے ھیں، درحقیقت یھی افراد خداوندعالم کی نعمتوں کے قدر شناس ھیں۔

جی ھاں ، یھی افراد خداکی تمام ظاھری و باطنی نعمتوں سے فیضیاب ھوتے ھیں اور اس طریقہ سے خود اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے افراد دنیا و آخرت کی سعادت و خوش بختی تک پہنچ جاتے ھیں، اس پاک قافلہ کے قافلہ سالار اور اس قوم کےممتاز رھبر انبیاء اور ائمہ معصومین علیھم السلام ھیں ، تمام مومنین شب و روز کے فریضہ الٰھی یعنی نماز میں انھیں کے راستہ پر برقرار رہنے کی دعا کرتے ھیں:

((اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ ۔صِرَاطَ الَّذِینَ اٴَنْعَمْتَ عَلَیْھم غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْھم وَلاَالضَّالِّینَ))۔[23]

ھمیں سیدھے راستہ کی ہدایت فرماتا رہ ۔جو ان لوگوں کا راستہ ھے جن پر تونے نعمتیں نازل کی ھیں ،ان کا راستہ نھیں جن پر غضب نازل ھوا ھے یا جو بہکے ھوئے ھیں“۔

جی ھاں، انبیاء اور ائمہ معصومین علیھم السلام خداوندعالم کی تمام مادی و معنوی نعمتوں کا صحیح استعمال کیا کرتے تھے، اور شکر نعمت کرتے ھوئے اس عظیم مقام اور بلند مقام و مرتبت پر پہنچے ھوئے ھیں کہ انسان کی عقل درک کرنے سے عاجز ھے۔

خداوندمھربان نے قرآن مجید میں ان افراد سے وعدہ کیا ھے جو اپنی زندگی کے تمام مراحل میں خدا و رسول کے مطیع و فرمانبردار رھے ھیں، ان لوگوں کو قیامت کے دن نعمت شناس حضرات کے ساتھ محشور فرمائے گا۔

((وَمَنْ یُطِعْ اللهَ وَالرَّسُولَ فَاٴُوْلَئِکَ مَعَ الَّذِینَ اٴَنْعَمَ اللهُ عَلَیْھم مِنْ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ اٴُوْلَئِکَ رَفِیقًا))۔[24]

اور جو شخص بھی اللہ اوررسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رھے گا جن پر خدا نے نعمتیں نازل کی ھیں انبیاء،صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ اور یھی لوگ بھترین رفقاء ھیں“-۔

۸۔نعمتوں کا بےجا استعمال

مسرف (فضول خرچی کرنے والا) قرآن مجید کی رُوسے اس شخص کو کھا جاتا ھے جو اپنے مال، مقام، شھوت اور تقاضوں کو شیطانی کاموں ، غیر منطقی اور بے ھودہ کاموں میں خرچ کرتا ھے۔

خداکے عطا کردہ مال و ثروت اور فصل کے بارے میں ارشاد ھوتا ھے:

( ۔۔۔ وَآتُوا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ وَلاَتُسْرِفُوا إِنَّہُ لاَیُحِب الْمُسْرِفِینَ)۔[25]

اور جب فصل (گندم، جو خرما اور کشمش) کاٹنے کا دن آئے تو ان (غریبوں، مسکینوں، زکوٰة جمع کرنے والوں، غیر مسلم لوگوں کو اسلام کی طرف رغبت دلانے کے لئے، مقروض، فی سبیل اللہ اور راستہ میں بے خرچ ھوجانے والوں)[26] کا حق ادا کردو اور خبردار اسراف نہ کرنا کہ خدا اسراف کرنے والوں کو دوست نھیں رکھتا ھے“۔

جو لوگ اپنے مقام و منصب اور جاہ و جلال کو لوگوں پر ظلم و ستم ڈھانے، ان کے حقوق کو ضائع کرنے، معاشرہ میں رعب ودہشت پھیلانے اور قوم و ملت کو اسیر کرنے کے لئے خرچ کرتے ھیں، ان لوگوں کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے :

(( وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاٴَرْضِ وَإِنَّہُ لَمِنْ الْمُسْرِفِینَ))[27]

اور یہ فرعون (اپنے کو) بھت اونچا (خیال کرنے لگا)ھے اور وہ اسراف اور زیادتی کرنے والا بھی ھے“۔

اسی طرح جو لوگ عفت نفس نھیں رکھتے یا جولوگ اپنے کو حرام شھوت سے نھیں بچاتے اور صرف مادی و جسمانی لذت کے علاوہ کسی لذت کو نھیں پہچانتے اور ھر طرح کے ظلم سے اپنے ھاتھوں کو آلودہ کرلیتے ھیںنیز ھر قسم کی آلودگی ، ذلت اور جنسی شھوات سے پرھیز نھیں کرتے ، ان کے بارے میں بھی قرآن مجید فرماتا ھے:

((إِنَّکُمْ لَتَاٴْتُونَ الرِّجَالَ شَہْوَةً مِنْ دُونِ النِّسَاءِ بَلْ اٴَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ))۔[28]

تم از راہ شھوت عورتوں کے بجائے مردوں سے تعلقات پیدا کرتے ھو اور تم یقینا اسراف اور زیادتی کرنے والے ھو“۔

قرآن مجیدان لوگوں کے بارے میں بھی فرماتا ھے جو انبیاء علیھم السلام اور ان کے معجزات کے مقابلہ میں تواضع و انکساری اور خاکساری نھیں کرتے اور قرآن، اس کے دلائل اور خدا کے واضح براھین کا انکار کرتے ھیں اور کبر و نخوت، غرور و تکبر و خودبینی کا راستہ چلتے ھوئے خداوندعالم کے مقابل صف آرا نظر آتے ھیں، ارشاد ھوتا ھے:

(( ثُمَّ صَدَقْنٰھُمُ الْوَعْدَ فَاٴَنْجَیْنٰاھُمْ وَ مَن نَّشَآءُ وَ اٴَھْلَکْنٰا الْمُسْرِفِینَ))[29]

پھر ھم نے ان کے وعدہ کو سچ کر دکھایا اور انھیں اورا ن کے ساتھ جن کو چاھا بچالیا اور زیادتی کرنے والوں کو تباہ و بر باد کر دیا “۔

۹۔نعمتوں کے استعمال میں بخل کرنا

بخل اور اضافی نعمت کو مستحقین پر خرچ نہ کرنے کی برائی کو ایک ان پڑھ اور معمولی کسان کی زبانی بھی سن لیجئے:

حقیر تبلیغ کے لئے ایک دیھات میں گیا ھوا تھا، تقریر کے خاتمہ پر ایک محنت کش بوڑھا ھمارے پاس آیا جس کے چھرے پر دن ورات کام کرنے کے آثار ظاھر تھے جس کے ھاتھوں میں گٹھے پڑے ھوئے تھے ، اس نے کھا: ایک بزرگوار شخص آتا ھے اور ھمیں تیار زمین ، بیج اور پانی دیتا ھے اور فصل کی کٹائی کے وقت وہ بزرگوار شخص پھر آتا ھے اور اس کاشتکار کے پاس آجاتا ھے جس کو اس نے زمین، بیج، پانی، سورج کی روشنی ، بارش وغیرہ مفت اس کے اختیار میں دی تھی ،اور اس سے کھتاھے: اس فصل میں سے زیادہ تر حصہ تیرا ھے مجھے اس میں سے کچھ نھیں چاہئے لیکن ایک مختصر سا حصہ جس کو میں کھوں اس کو ہدیہ کردو، کیونکہ اس کی مجھے تو بالکل ضرورت نھیں ھے، اگر یہ کاشتکار اس زمین سے حاصل شدہ تمام فصل کو اپنا حق سمجھ لے اور ایک مختصر سا حصہ اس کریم کے بتائے ھوئے افراد کو نہ دے تو واقعاً بھت ھی بُری بات ھوگی، اور اس کا دل پتھر کی طرح مانا جائے گا، ایسے موقع پر کریم کو حق ھے کہ اس سے منھ موڑلے اور اس کے برے اخلاق کی سزا دے، اور اس کو کسی بلا میں گرفتار کردے، اس کے بعد اس شخص نے کھا: کریم سے میری مراد خداوندکریم ھے کہ اس نے ھمیں آمادہ زمین عطا کی ھے، نھریں جاری کی ھیں ، چشموں کو پانی سے بھر دیا ھے، بارش برسائی ھے، سورج اور چاند کی روشنی ھمیں دی، ھمیں یہ سب چیزیں عطا کی ھیں جن کے ذریعہ سے ھم مختلف فصلیں حاصل کرلیتے ھیں جو درحقیقت ھمیں مفت حاصل ھوئی ھیں، اس کے بعد ھم سے اپنے غریب بھائیوں کے لئے خمس و زکوٰة اور صدقہ دینے کا حکم دیا ھے، اگر ھم ان کے حقوق ادا کرنے میں بخل سے کام لیں، تو خداوندعالم کو حق ھے کہ وہ ھم پر اپنا غضب نازل کردے، اور ھمیں سخت سے سخت سزا میں مبتلا کردے۔

اس سلسلے میں قرآن مجید فرماتا ھے:

((وَلاَیَحْسَبَنَّ الَّذِینَ یَبْخَلُونَ بِمَا آتَاھم اللهُ مِنْ فَضْلِہِ ہُوَ خَیْرًا لَھم بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَھم سَیُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلِلَّہِ مِیرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ))[30]

اور خبردار جو لوگ خدا کے دیئے ھوئے میں مال میں بخل کرتے ھیں ان کے بارے میں یہ نہ سوچنا کہ اس بخل میں کچھ بھلائی ھے ۔یہ بھت برا ھے، اور عنقریب جس مال میں بخل کیا ھے وہ روز قیامت ان کی گردن میں طوق بنادیا جائے گا، اوراللہ ھی کے لئے زمین و آسمان کی ملکیت ھے اور وہ تمھارے اعمال سے خوب باخبر ھے “-۔

۱۰۔نعمت ، زائل ھونے کے اسباب و علل

قرآن مجید کی حسب ذیل آیتوں (سورہ اسراء آیت ۸۳،سورہ قصص آیت ۷۶تا۷۹، سورہ فجرآیت ۱۷ تا ۲۰، سورہ لیل آیت ۸تا۱۰) سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ درج ذیل چیزیں، نعمتوں کے زائل ھونے، فقر و فاقہ ، معاشی تنگ دستی اور ذلت و رسوائی کے اسباب ھیں:

نعمت میں مست ھونا، غفلت کا شکار ھونا، نعمت عطا کرنے والے کو بھول جانا، خداوندعالم سے منھ موڑلینا، احکام الٰھی سے مقابلہ کرنا اور خدا ، قرآن و نبوت اور امامت کے مقابل آجانا، چنانچہ اسی معنی کی طرف درج ذیل آیہ شریفہ اشارہ کرتی ھے:

((وَإِذَا اٴَنْعَمْنَا عَلَی الْإِنسَانِ اٴَعْرَضَ وَنَاٴَی بِجَانِبِہِ وَإِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ کَانَ یَئُوسًا))۔[31]

اور ھم جب انسان پر کوئی نعمت نازل کرتے ھیں تو وہ پھلو بچاکر کنارہ کش ھوجاتا ھے اور جب تکلیف ھوتی ھے تو مایوس ھو جاتا ھے“۔

نعمت پر مغرور ھونا، مال و دولت پر حد سے زیادہ خوش ھونا ، غریبوں اور مستحقوں کا حق نہ دے کر آخرت کی زادہ راہ سے بے خبر ھونا، نیکی اور احسان میں بخل سے کام لینا، نعمتوں کے ذریعہ شروفساد پھیلانا، اوریہ تصور کرنا کہ میں نے اپنی محنت ، زحمت اور ھوشیاری سے یہ مال و دولت حاصل کی ھے، لوگوں کے سامنے مال و دولت ، اور زر و زینت پر فخر کرنا اور اسی طرح کے دوسرے کام، یہ تمام باتیں سورہ قصص کی آیات ۷۶ تا ۸۳ میں بیان ھوئی ھیں۔

یتیموں کا خیال نہ رکھنا، محتاج لوگوں کے بارے میں بے توجہ ھونا، کمزور وارثوں کی میراث کو ہڑپ لینا، نیز مال و دولت کا بجاری بن جانا، یہ سب باتیں حسب ذیل آیات میں بیان ھوئی ھیں، ارشاد ھوتا ھے:

(( کَلاَّ بَلْ لاَّ تُکْرِمُونَ الْیَتِیمَ ۔وَلَا تَحٰاضُونَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِینَ۔وَتَاٴْکُلُونَ التُّرَاثَ اٴَکْلاً لَمَّا۔وَ تُحِبُّونَ الْمٰالَ حُبًّا جَمًّا))۔[32]

ایسا ھر گز نھیں ھے بلکہ تم یتیموں کا احترام نھیں کرتے ھو،اور لوگوں کو مسکینوں کے طعام دینے پر آمادہ نھیں کرتے ھو،اور میراث کے مال کو اکھٹا کرکے حلال و حرام سب کھالیتے ھو، اور مال دنیا کو بھت دوست رکھتے ھو“۔

اسی طرح خمس و زکوٰة ،صدقہ اور راہ خدا میں انفاق کرنے میں بخل سے کام لینے یا تھوڑا سا مال و دولت حاصل کرنے کے بعد خداوندعالم کے مقابل میں بے نیازی کا ڈنکا بجانے اورروز قیامت کو جھٹلانے، کے بارے میں بھی درج آیت اشارہ کرتی ھے:

(( وَاَمَّا مَنْ بَخِلَ وَ اسْتَغْنیٰ ۔وَکَذَّبَ بِالْحُسْنیٰ فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْعُسْریٰ))[33]

اور جس نے بخل کیا اور لا پرواھی برتی اور نیکی کو جھٹلایا ھے ، ھم اس کے لئے سختی کی راہ ھموار کردیں گے“۔

جس وقت انسان نعمتوں سے مالامال ھوجائے تو اس کو خداوندعالم اور اس کے بندوں کی بابت نیکی و احسان کرنے پر مزید توجہ کرنا چاہئے، خداوندعالم کی عطاکردہ نعمتوں کے شکرانہ میں اس کی عبادت اور اس کے بندوں کی خدمت میں زیادہ سے زیادہ کوشش کرنا چاہئے، تاکہ اس کی نعمتیں باقی رھیںاور خداوندعالم کی طرف سے نعمت او رلطف و کرم میں اور اضافہ ھو۔

۱۱۔اتمام ِنعمت

تفسیر طبری، تفسیر ثعلبی، تفسیر واحدی، تفسیر قرطبی، تفسیر ابو السعود، تفسیر فخر رازی، تفسیر ابن کثیر شامی، تفسیر نیشاپوری، تفسیر سیوطی اور آلوسی کی روایت کی بنا پر ،اسی طرح تاریخ بلاذری، تاریخ ابن قتیبہ، تاریخ ابن زولاق، تاریخ ابن عساکر، تاریخ ابن اثیر، تاریخ ابن ابی الحدید، تاریخ ابن خلکان، تاریخ ابن حجر اور تاریخ ابن صباغ میں، نیز شافعی، احمد بن حنبل، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی، دولابی، محب الدین طبری، ذھبی، متقی ہندی،ا بن حمزہ دمشقی اور تاج الدین مناوی نے اپنی اپنی کتب احادیث میں نیز قاضی ابو بکر باقلانی، قاضی عبد الرحمن ایجی، سید شریف جرجانی، بیضاوی، شمس الدین اصفھانی، تفتازانی اور قوشچی نے اپنی اپنی استدلالی کلامی کتب کی روایت کے مطابق[34] بیان کیا ھے کہ جس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہدایت کے تداوم اور و دین کے تحفظ نیز دنیا و آخرت میں انسان کی سعادت کے لئے خداوندعالم کے حکم سے امام و رھبر اور فکر و عقیدہ اور اخلاق و عمل میں گناھوں سے پاک شخصیت حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام جیسی عظیم شخصیت کو ۱۸/ ذی الحجہ کو غدیر خم کے میدان میں اپنے بعد خلافت و ولایت اور امت کی رھبری کے لئے منصوب فرمایا، اس وقت خداوندعالم نے اکمال دین اور اتمام نعمت اور دین اسلام سے اپنی رضایت کا اعلان فرمایا کہ یھی دین قیامت تک باقی رھے گا، ارشاد ھوا:

(( ۔۔۔الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمْ الْإِسْلاَمَ دِینًا۔۔۔))[35]

آج میں نے تمھارے لئے دین کو کامل کردیا ھے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ھے اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ھے“۔

جی ھاں، حضرت علی علیہ السلام کی ولایت ،حکومت ،رھبری اوردین و دنیا کے امور میںآپ کی طاعت کرنا اکمال دین اور اتمام نعمت ھے۔

وضو سے حاصل ھونے والی پاکیزگی و طھارت کے سلسلے میں حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ھے : ”وضو کا حکم اس لئے دیا گیا ھے اور عبادت کی ابتدا اس لئے قرار دی گئی ھے کہ جس وقت بندگان خدا اس کی بارگاہ میں کھڑے ھوتے ھیں اور اس سے راز و نیاز کرتے ھیںتو اس وقت انھیں پاک ھونا چاہئے، اس کے حکم پر عمل کریں، اور گندگی اور نجاست سے دور رھیں، اس کے علاوہ وضو کے ذریعہ نیند او رتھکاوٹ بھی دور ھوجاتی ھے، نیز عبادت خدا اور اس کی بارگاہ میں قیام و عبادت سے دل کو روشنی اور صفا حاصل ھوتی ھے“۔[36]

اسی طرح غسل و تیمم بھی موجب طھارت ھيں جن کے لئے خداوندعالم نے حکم دیا ھے، لہٰذا وضو، غسل اور تیمم اور نماز و عبادت کی حالت حاصل ھونے والے پر قرآن مجید کے مطابق اللہ کی نعمت اس پر تمام ھوجاتی ھے:

آخر میں طھارت اور نماز کے بارے میں بیان شدہ آیات پر غور و فکر کرتے ھیں:

(( ۔۔۔مَا یُرِیدُ اللهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَکِنْ یُرِیدُ لِیُطَھرکُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ))۔[37]

۔۔۔خدا تمھارے لئے کسی طرح کی زحمت نھیں چاھتا بلکہ وہ تو یہ چاھتا ھے کہ تمھیں پاک و پاکیزہ بنا دے اور تم پر اپنی نعمت کو تمام کردے شاید تم اس طرح سے اس کے شکر گزار بندے بن جاؤ“۔

اس قسم کی آیات سے نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ خداوندعالم کی طرف سے انسان پر اتمام نعمت معنوی مسائل کو انجام دینے اور احکام الٰھی کے بجالانے ،صحیح عقائد اور اخلاق حسنہ سے آراستہ ھونے کی صورت میں وقوع پذیر ھوتی ھے۔

۱۲۔نعمت سے صحیح فائدہ اٹھانے کا انعام

وہ مومنین و مومنات جن کے دل ایمان سے آراستہ اور نفس برائیوں سے پاک ھیں اور وہ اعمال صالحہ بجالانے والے، حق بات کہنے والے، اپنے مال سے جود و کرم اور سخاوت کرنے والے ، صدقہ دینے والے اور بندگان خدا کی مدد کرنے والوں والے ھیں ؛ان کے لئے اجر و ثواب اور رضوان و جنت اور ھمیشہ کے لئے عیش و آرام کا وعدہ دیا گیا ھے۔

قرآن مجید نے اپنی نورانی آیات میں یہ اعلان کردیا ھے کہ اھل ایمان کے اعمال کا اجر و ثواب ضائع نھیں کیا جائے گا۔

کتاب الٰھی بلند آواز میں یہ اعلان کرتی ھے کہ خداوندعالم کا وعدہ سچا اور حق ھے اور اس کا وعدہ خلاف نھیں ھوتا۔

قرآن مجید، اھل ایمان اور اعمال صالحہ بجالانے والے افراد یا یوں کھا جائے کہ قرآن نے مومنین، محسنین، مصلحین، متقین اورمجاہدین کے لئے کئی قسم کا اجر بیان کیا ھے:

اجر عظیم، اجر کبیر، اجر کریم، اجر غیر ممنون، اجر حسن۔چنانچہ ارشاد ھوتا ھے:

(( وَعَدَ اللهُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَھم مَغْفِرَةٌ وَاٴَجْرٌ عَظِیمٌ))۔[38]

اللہ نے صاحبان ایمان اور عمل صالح بجالانے والوں سے وعدہ کیا ھے کہ ان کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ھے “۔

(( ۔۔۔اِلاَّالَّذینَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا لصّٰالِحاتِ اُولٰئِکَ لَھُمْ مَغْفِرَةٌ وَاَجْرٌ کَبیرٌ))۔[39]

۔۔۔ وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ان کے لئے مغفرت ھے اور ”اجر عظیم“ یعنی بڑا اجرھے“۔

(( مَنْ ذَا الَّذی یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضاً حَسَناً فَیُضٰاعِفَہُ لَہُ وَلَہُ اَجْرٌ کَریمٌ ))۔[40]

کون ھے جو اللہ کو قرض الحسنہ دے تاکہ وہ اس کو دوگنا کردے اور اس کے لئے اجر کریم بھی ھو“۔

((إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَھم اٴَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُونٍ))[41]

بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے ان کے لئے ”اجر غیر ممنون“ (منقطع نہ ھونے والا اجر) ھے“۔

(( ۔۔۔فَإِنْ تُطِیعُوا یُؤْتِکُمْ اللهُ اٴَجْرًا حَسَنًا۔۔۔))۔[42]

۔۔۔تو اگر تم خدا کی اطاعت کرو گے تو وہ تمھیں ”اجر حسن“ یعنی بھترین اجر عنایت فرمائے گا۔۔۔“۔

جی ھاں، اگر دل جیسی نعمت کو ایمان کے لئے بروئے کار لایا جائے، عقل جیسی نعمت سے حقائق کو سمجھنے کے لئے مدد لی جائے، اعضاء و جوارح جیسی نعمت کو اعمال صالحہ کے لئے استعمال کیا جائے، مال و دولت جیسی نعمت کو بندگان خدا کی مشکلات حل کرنے کے خرچ کیا جائے، المختصر یہ کہ اگر تمام نعمتوں سے عبادت خدا اور اس کے بندوںکی خدمت، ان کے ساتھ نیکی و احسان اور تقویٰ و عفت میں مدد لی جائے تو انسان کی دنیاوی سعادت کے علاوہ آخرت میں مذکورہ پانچ قسم کا اجر و ثواب عطا ھو گا، ظاھر ھے کہ ان خداداد نعمتوں کو صحیح راستہ میں خرچ کرنا کوئی مشکل کام نھیں ھے، بلکہ ایک ایسی حقیقت ھے کہ ھر عورت ومرد اس کو انجام دے سکتا ھے، اور اگر انسان خدا کی نعمتوں سے صحیح فائدہ اٹھائے تو پھر انسان اور خدا میں کوئی حجاب باقی نھیں رھتا، اور انسان قرب خدا کے وصال کی لذت سے محظوظ نظر آتا ھے۔

کیا ایسا نھیں ھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام، نعمتوں کی قدر پہچانتے ھوئے ان کو صحیح طور پر استعمال کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کے سامنے سے تمام حجابات اٹھ گئے تھے یھاں تک کہ خداوندعالم اور ان کے درمیان کوئی پردہ نھیں تھا(سوائے اس کے یہ تمام بزرگوار بندگان خدا تھے)!

امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ)کی طرف سے شیخ بزرگوار ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید (قدس) کو جو توقیع شریف حاصل ھوئی تھی اس میں ھم پڑھتے ھیں:

وَآیاتِکَ وَ مَقاماتِکَ الَّتی لا تَعْطیلَ لَھا فی کُلِّ مَکانٍ ، یَعْرِفُکَ بِھا مَنْ عَرَفَکَ ،لا فَرْقَ بَیْنَکَ وَ بَیْنَھا اِلاَّ اَنَّھُمْ عِبادُکَ وَ خَلْقُکَ:[43]

خداوندا! پیغمبر اور ائمہ معصومین علیہم السلام تیری نشانیاں ھیں کہ ان سے ھر مقام پر نشانیاں ظاھر ھوں گی، اگر کوئی تیری ذات کو پہچانتا ھے تو ان کے ذریعہ پہچانتا ھے، تیرے اور ان کے درمیان کوئی جدائی اور مبانیت نھیں ھے سوائے اس کے وہ تیری مخلوق اور تیرے بندے ھیں“۔

ھمیں اس مطلب پر غور کرنا چاہئے کہ نعمتیں خود سے انسان اور خدا کے درمیان حجاب نھیں بن جاتیں، بلکہ ان کا غلط استعمال اور شیطانی کاموں میں خرچ کرنے سے انسان اور خدا کے درمیان حجاب پیدا ھوجاتا ھے، اگر نعمتوں سے صحیح فائدہ اٹھایا جائے تو یہ انسان کو مقام قرب تک پہنچنے میں مددگار ثابت ھوتی ھیں۔

انبیاء اور ائمہ علیھم السلام مختلف مادی اور معنوی نعمتوں سے فیضیاب ھوتے تھے، وہ بھی اھل و عیال رکھتے تھے، اپنی روزی کو زراعت، تجارت اوربھیڑ بکریاں چراکر حاصل کرتے تھے حالانکہ ان ذوات مقدسہ اور خدا کے درمیان کوئی حجاب نھیں تھا۔

اگر انسان کے اندر عباد ت و اطاعت اور بندگی و تسلیم کا حوصلہ مضبوط ھوجائے اور اس کا دل نور معرفت سے روشن ھوجائے اورنفس نیکیوںسے بھرجائے،تو انسان بے شک دنیاوی زندگی اور اس کے تمام وسائل و اسباب اور دوسری نعمتوں کے ذریعہ معنوی مقامات تک پہنچ سکتا ھے،لیکن جو شخص خدا کی عبادت و اطاعت کا حوصلہ نھیں رکھتا تو اس کا مطلب یہ ھے کہ وہ اس کی نعمتوں سے صحیح فائدہ حاصل نھیں کررھا ھے، اور جب بھی اس کی نعمتوں میں اضافہ ھوتا ھے تو اس میںطغیان و سرکشی ،غرور ونخوت مزید پیدا ھوتا رھتا ھے۔

دعائے کمیل میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے فرمان کے مطابق کیا یہ گمان کیا جاسکتا ھے کہ وہ دل جس میں توحید (خدا) موجود ھو، وہ دل جو معرفت کا مکان ھو، وہ زبان جس سے ذکر خدا ھو، جس کے باطن میں خدا کی محبت ھو، وہ باطن جو صادقانہ اعتراف اور خداوندعالم کی بارگاہ میں خاضع ھو، پیشانی خاک پر رکھی ھو، جس زبان سے خدا کا شکر اور اس کی توحید کا اقرار کیا ھو، جس دل سے خدا کی الوھیت کا اقرار کیا ھو، جن اعضاء و جوارح سے شوق و رغبت کے ساتھ مساجد کا رخ کیا ھو، کیا کل روز قیامت ان سب کو جہنم میں جلادیا جائے گا!!

جن نعمتوں کے ذریعہ عبادت خدا اور خدمت خلق کی گئی ھو،ان کے ذریعہ کل روز قیامت رضائے الٰھی اور خلد بریں کے دروزاے کھول دئے جائیں گے۔

قارئین کرام! آخر میں دو اھم حقائق کا خلاصہ کرتے ھوئے اس بحث کو ختم کرتے ھیں:

۱۔ مذکورہ تمام آیات سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ ”عبادت، بندگی ،اطاعت اور خدمت “ نام ھے نعمت و نعمت عطا کرنے والے کی معرفت اور معین کردہ راستے میں اس کی نعمتوں کو استعمال کرنے کا۔

۲۔ ”گناہ و معصیت، خطا و غلطی، شرک و کفر، فسق و فجور اور فحشا و منکر “ نام ھے نعمت عطا کرنے والے سے غفلت، نعمت پر غرور، ذات خدا سے بے رخی اور اس کی عطا کردہ نعمتوں کو حرام اور و غیر اخلاقی کاموں میں خرچ کرنے کا۔

………………………………………………………………………………………



[1] سورہ نحل آیت۱۱۴۔

[2] سورہ ٴ لقمان آیت ۲۰۔

[3] سورہٴ نساء آیت ۲۹۔

[4] سورہٴ بقرہ آیت ۱۶۸۔

[5] سورہٴ فاطر آیت ۳۔

[6] مفردات ،۴۶۱ مادہ شکر۔

[7] سورہٴ سباء ،آیت ۱۳۔

[8] سورہٴ نحل آیت ،۱۱۴۔

[9] سورہٴ عنکبوت آیت ،۱۷۔

[10] (۳)اصول کافی ،ج۲،ص۹۵۔باب الشکر ،حدیث ۱۰؛بحار الانوار :۶۸/۴۰ ،باب ۶۱،حدیث ۲۹۔

[11] سورہٴ ابراھیم آیت ،۲۸۔۲۹۔

[12] سورہٴ لقمان آیت ،۲۷۔

[13] سورہ مومنون آیت۱۲۔

[14] سورہٴ موٴ منون آیت ۱۳۔

[15] سورہٴ مومنون آیت ۱۴۔

[16] راز آفرینش انسان ص ۱۴۵۔

[17] راہ خدا شناسی ص ۲۱۸۔

[18] علم و زندگی ص۱۳۴۔۱۳۵۔

[19] لوز المعدہ: معدہ سے قریب ایک بڑی سرخ رنگ کی رگ ھے جس کی شکل خوشہ کی مانند ھوتی ھے۔

[20] جزر ومد : دریا کے پانی میں ھونے والی تبدیلی کو کھا جاتا ھے ، شب وروز میں دریاکا پانی ایک مرتبہ ن گھٹتا ھے اس کو ” جزر“ کھا جاتاھے اور ایک مرتبہ بڑھتا ھے جس کو ”مد“ کھا جاتاھے ، اور پانی میں یہ تبدیلی سورج اور چاندکی قوہٴ جاذبہ کی وجہ سے ھوتی ھے۔ مترجم

[21] گنجینہ ھای دانش ص ۹۲۷۔

[22] سورہٴ نحل آیت ،۱۸۔

[23] سورہٴ حمد آیت ،۶۔۷۔

[24] سورہٴ نساء آیت ۶۹۔

[25] سورہٴ انعام آیت ،۱۴۱۔

[26]سورہٴ توبہ آیت ۶۰۔

[27] سورہٴ یونس آیت ۸۳۔

[28]سورہٴ اعراف آیت ۸۱۔

[29] سورہٴ انبیاء آیت ۹۔

[30] سورہٴ آل عمران آیت ۱۸۰۔

[31] سورہٴ اسراء آیت ۸۳۔

[32]سورہٴ فجر آیت ،۱۷۔۲۰۔

[33] سورہٴ لیل آیت ۸۔۱۰۔

[34] الغدیر ،ج۱،ص۶۔۸۔

[35] سورہٴ مائدہ آیت ،۳۔

[36] (۲)عن الفضل بن شا ذان عن الرضا (علیہ السلام ) قال:انما امر بالوضوء و بداٴ بہ لان یکون العبد طاھرا اذا قام بین یدی الجبار عند مناجاتہ ایاہ مطیعا لہ فیما امرہ نقیا من الادناس و الجناسة مع ما فیہ من ذھاب الکسل وطرد النعاس و تزکیة الفوٴاد للقیام بین یدی الجبار۔۔۔“۔

عیون ا خبار الرضا ۲/۱۰۳،باب۳۴ ؛علل الشرائع ۱/۲۵۶،باب ۱۸۲ ،حدیث ۹؛وسائل الشیعہ،ج۱/۳۶۷،باب ۱، حدیث۹۶۸۔

[37] سورہٴ مائدہ آیت ۶۔

[38] سورہٴ مائدہ آیت ۹۔

[39] سورہٴ ھود آیت ۱۱۔

[40] سورہٴ حدید آیت ۱۱۔

[41] سورہٴ فصلت آیت ۸۔

[42] سورہٴ فتح آیت ،۱۶۔

[43]مفاتیح الجنان دعای ص 255، دعای هر روز ماه رجب.

No comments: