Tuesday, April 28, 2009

شرح دعاء کمیل ۴

”اٴَللّٰھُمَّ عَظُمَ سُلْطٰانُکَ“

”خدایا تیری سلطنت عظیم ھے“۔

خداوندعالم کی سلطنت اور بادشاھی ذاتی اور حقیقی ھے، جبکہ دوسری سلطنتیں اعتباری اور ختم ھونے والی ھیں؛ خداوندعالم کی سلطنت اور بادشاھی دائمی، ھمیشگی اور لا محدود ھے، جبکہ دوسری سلطنتیں کم مدت والی اور بہت محدود ھیں۔

خداوندعالم کی بادشاھی تمام چیزوں پر احاطہ کئے ھوئے ھے چاھے وہ ظاھری چیزیں ھوں یا پوشیدہ، حقیقت یہ ھے کہ اس کی سلطنت کے علاوہ کسی غیر کی سلطنت ھے ھی نھیں، کیونکہ اس کا غیر بھی خود اسی کا محتاج اور نیازمند ھے، اس کے پاس اپنا کچھ نھیں ھے۔

خدا کی حجت اور اس کی برھان عظیم اور مضبوط ھے، جبکہ اس کے بالمقابل کوئی دلیل، حجت اور برھان نھیں ھے۔ عقل، نبوت، قرآن اور امامت خدا کی حجتیں ھیں جن کے ذریعہ خداوندعالم تمام مخلوقات کا فیصلہ کرے گا، اور ان کے گناھوں کے ارتکاب اور عمل صالح سے دوری کے بھانوں کو ختم کردے گا۔

”وَعَلٰا مَکٰانُکَ“

”اور تیری منزلت بلندھے“۔

وہ پاک و پاکیزہ ذات جس نے اپنے کو قرآن مجید میں ”لیس کمثلہ شیء“ [1]

سے پہچنوایا ھے، وہ ھر عیب و نقص سے پاک و پاکیزہ ھے تمام صفات کمال و جلال اس میں موجود ھیں، اس کے صفات عین ذات ھیں، اعلیٰ صفات اور اسماء حسنیٰ اسی کی ذاتِ بابرکت سے مخصوص ھیں، تمام ظاھری اور پوشیدہ چیزوں کا وجود اس کی قیومیت کی وجہ سے ھے، یہ تمام کائنات اس کے علم و ارادہ اور قدرت و رحمت کا ایک جلوہ ھے، اس کے صفات کی کوئی حد نھیں، اس کی قوت تمام قوتوں سے بالاتر، اس کی قدرت تمام قدرتوں سے بلند، اس کی عظمت تمام عظمتوں سے مافوق ، اس کی سطوت تمام سطوتوں سے بلند وبالا ھے،اور اس کی شان و منزل اس کا مرتبہ ھر چیز سے اعلیٰ و ارفع ھے۔

”وَخَفِيَ مَکْرُکَ“

” اور تیری تدبیر مخفی ھے“۔

”مکر “خدا کے علاوہ حیلہ اور دھوکہ دینے کے معنی میں آتا ھے، جیسے کسی کو دھوکا دیا جائے، اس معنی میں خدا کے لئے یہ لفظ استعمال کرنا جائز نھیں ھے، کیونکہ مکر کے یہ معنی جاھل و عاجز انسان کی صفت ھے، جبکہ خداوندعالم جھل و عجزسے پاک و پاکیزہ ھے۔ اس کا وجود بے نھایتعلم، قدرت، رحمت اور کرم ھے،یہ ایک مسلّم اور ثابت حقیقت ھے کہ تمام موجودات اس کے محتاج ھیں،حالانکہ وہ سب سے بے نیاز ھے ۔

خدا کے سلسلہ میں”مکر“ کا استعمال کرنا اس کے عذاب و سزا کے معنی میں ھے یعنی جس کو مستحق عذاب سمجھے گا اس کو عذاب میں گرفتار کردے گا اور وہ اس سے بھاگ کر نکل بھی نھیں سکتا۔

گناھوںاور لذت دنیا میں غرق اور غرور و تکبر کرنے والوںکے لئے عذاب الٰھی کی مختلف صورتیں ھیں۔ جس کا پھلا مرتبہ بہ صورت استدراج و استھمال ھے یعنی:جس قدر گناھگار معصیت کا ارتکاب کرتا ھے اور گناھوںمیں بہت زیادہ غرق ھوتا جاتا ھے، تو خدا اس کی نعمتوں میں اضافہ کرتا رہتا ھے،یھاں تک کہ کثرت نعمت کی وجہ سے اس کی غفلت بڑھتی رہتی ھے،اور توبہ و استغفار کو بھول جاتا ھے، اور پھر اچانک اس پر عذاب نازل ھوجاتا ھے جس کے بارے میں وہ بالکل بھی نھیں سوچ پاتا اور وہ عذاب میں گرفتار ھوجاتا ھے، اور اس کی بے خبری کاانتقام لیا جاتا ھے، در حقیقت اس پر خفیّ طریقہ سے بلائیں نازل ھوتی ھیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ھے:

”إِذَا اٴَرَادَ اللهُ بِعَبْدٍ خَیْراً فَاٴذْنَبَ ذَنْباً اٴتْبَعَہُ بِنِعْمَةٍ وَیُذْکِّرُہُ الاسْتِغفَارَ،وَإِذَا اٴرادَ بِعَبْدٍ شَراً فَاٴَذْنَبَ ذَنْباً اٴَتْبَعَہُ بِنِعْمَةٍ لِیُنْسِیَہُ الاستِغْفارَ وَتَمَادَی بِھا وَہُوَ قولہُ: ”سَنَسْتَدْرِجُہُمْ مِنْ حَیْثُ لاَیَعْلَمُونَ۔“[2][3]

”بے شک جب خداوندعالم کسی بندے کے لئے خیرو نیکی کا ارادہ کرتا ھے تو اگرانسان گناہ کرتا ھے، تو خدا اس کو نعمت عطا کرتا ھے ، اور اس کو اس نعمت کے ذریعہ توبہ و استغفار کی طرف متوجہ کرتا ھے، اور اگر خدا کسی کے لئے شر کا ارادہ کرتا ھے ، تو خدا اس کو (بھی) نعمت عطا کرتا ھے اور انسان اس نعمت کی وجہ سے توبہ و استغفار کو بھول جاتا ھے اور اس نعمت کی وجہ سے اس کے گناہ بڑھتے جاتے ھیں۔ اور یھی معنی ھیں خداوندعالم کے (مذکورہ بالا قول کے) کہ ان کو عذاب و بلاء میں اس طرح گرفتار کردیتا ھے کہ اس کو پتہ (بھی) نھیں چلتا (کہ کس چیز کی وجہ سے بلائیں نازل ھوئی ھیں)!“

”وَظَہَرَ اٴَمْرُکَ“

” اور تیرا امر ظاھرھے“۔

خدا کا حکم ایک مرحلہ میں ”فرمان تکوینی“ ھوتا ھے کہ جس کے سبب تمام موجوات جھان ھستی میں قدم رکھتے ھیں، اور ظھور کی کرسی پر بیٹھتے ھیں۔ اس کا دوسرا حکم ”فرمان تشریعی“ ھوتا ھے جس کی برکت سے قرآن مجید قلب رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر نازل ھوا ، اور اس حکم کے جلوے قواعد و احکامات اور حلال و حرام کی شکل میں ظاھر ھوئے، جو دوسری آسمانی کتابوں،انبیاء کی نبوت اور ائمہ علیھم السلام کی امامت کے ذریعہ تمام نوع بشر کے ذریعہ نشر ھوئے ھیں۔

” وَغَلَبَ قَہْرُکَ،وَجَرَتْ قُدْرَتُکَ“

”اور تیرا قھر غالب اور تیری قدرت نافذ ھے“۔

قھر و قدرت کی وضاحت اورضروری تفسیر شروع کتاب میں بیان ھوچکی ھے۔

”وَلٰا یُمْکِنُ الْفِرٰارُمِنْ حُکُومَتِکَ“۔

” اور تیری حکومت سے فرار ناممکن ھے“۔

خداوندعالم کی ذات اقدس تمام چیزوں پر تمام موجودات پر اور ھر چیز پر محیط ھے، اور کوئی بھی چیز اس کے احاطہ سے باھر نھیں ھے۔ تمام موجودات اسی کے ارادہ سے وجود میں آئیں، لہٰذا تمام ھی چیزیں اس کے پاس موجود ھیں اور اس کی رحمت و لطف و کرم اور اس کی نعمتو ں کے زیر سایہ اپنی زندگی بسر کرتی ھیں، لہٰذا وہ ان سب کے ساتھ میں موجود ھے، اور تمام چیزیں اسی کی طرف پلٹیں گی، لہٰذا وہ سب چیزوں کے بعد میں بھی باقی رھے گا، تو پھر کونسا ایسا راستہ ھے جس کے ذریعہ کوئی بھی چیز اس کی حکومت سے فرار کرے؟!

ایک بہت اھم روایت میں بیان ھوا ھے کہ: ایک شخص حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوا اور اس نے کھا: میں ایک گناھگار شخص ھوں اورگناہ پر صبر نھیں کرسکتا، لہٰذا مجھے موعظہ فرمائیئے، تو امام علیہ السلام نے اس سے فرمایا: تو پانچ چیزوں کو انجام دے اس کے بعد جو چاھے گناہ کرنا:

اول: خداکا عطا کردہ رزق نہ کھا۔

دوم: خدا کی حکومت و ولایت سے نکل جا۔

سوم: ایسی جگہ تلاش کر جھاں تجھے خدا نہ دیکھ رھا ھوں۔

چھارم: جس وقت ملک الموت تمھاری روح قبض کرنے آئے اس کو اپنے سے دور کردینا۔

پنچم: جب (روز قیامت) تجھے مالکِ دوزخ ، دوزخ میں ڈالنا چاھے تو اس وقت دوزخ میں نہ جانا۔[4]

جی ھاں! اگر انسان بھاگنے کا ارادہ رکھتا ھے تو کیا اچھا ھو کہ انسان جھالت و نادانی سے نکل کر علم و معرفت کی طرف بھاگے، خبراور سنی ھوئی باتوں سے نکل کر مشاھدہ کی طرف فرار کرے، اور آخر کار مخلوق سے نکل کر خداوندعالم کی طرف فرار کرے، جس کے نتیجہ میں اس کو دنیاوی اور اُخروی منافع حاصل ھوں اور سعادت ابدی اس کے شامل حال ھو، در حقیقت یہ فرار ؛ھوائے نفس سے عقل و خرد ،دنیا سے آخرت نیز دوزخ سے بھشت کی طرف فرار ھو ، اور آخر کار شیطان سے خدا کی طرف فرار ھونا چاہئے۔

” اٴَللّٰھُمَّ لاٰاٴَجِدُ لِذُنِوبيغٰافِراً،وَلاٰ لِقَبٰائِحيسٰاتِراً،وَلاٰلِشَیْءٍ مِنْ عَمَلِيَ الْقَبیحِ بِالْحَسَنِ مُبَدِّلاً غَیْرَ کَ“

”خدایا میرے گناھوں کے لئے بخشنے والا۔میرے عیوب کے لئے پردہ پوشی کرنے والا،میرے قبیح اعمال کو نیکیوں میں تبدیل کرنے والا تیرے علاوہ کوئی نھیں ھے “۔

گناھوں کا بخشنے والا

خداوندعالم کے اسماء حسنیٰ اور اس کے بلند و بالا صفات میں؛ صفت ”غافر“ اور ”غفور“ ھے، یعنی بخشنے والی ذات، بلکہ بہت زیادہ بخشنے والا ھے۔ صرف شرط یہ ھے کہ انسان واقعی اور حقیقی توبہ کرے۔

گناھگار کو چاہئے کہ خدا کی صفت ”غفور“ پر توجہ کرے اور اسی سے امیدوار رھے، کہ اگر وہ اپنے گناھوں سے توبہ کرلے، برائیوں سے ھاتھ کھیچ لے، گناھوں سے دوری کرے اور ایمان و عمل صالح سے مزین ھوجائے تو یقینا خدا وندعالم اس کے تمام گناھوں کو معاف کردیتا ھے۔

اس سلسلہ میں ناامید اور مایوس ھونا ایک گناہ عظیم اور عذاب الٰھی کا سبب ھے، بلکہ قرآن مجید کے فرمان کے مطابق کفر کے برابر ھے:

”۔۔۔ لاَیَیْئَسُ مِنْ رَوْحِ اللهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الکَافِرُونَ۔“[5]

”اس کی رحمت سے کافر قوم کے علاوہ کوئی مایوس نھیں ھوتا“۔

قرآن مجید نے گناھگاروں کے بارے میں اعلان کیاھے کہ ان کوخدا کی رحمت سے ناامید اور مایوس نھیں ھونا چاہئے کیونکہ خداوند عالم تمام گناھوں کا بخشنے والا ھے۔

ارشاد الٰھی ھوتا ھے:

” قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ اٴَسْرَفُوا عَلَی اٴَنْفُسِہِمْ لاَتَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ “ ۔ [6]

”پیغمبر آپ پیغام پھنچا دیجئے کہ اے میرے بندو جنھوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ھے، رحمت خدا سے مایوس نہ ھونا، اللہ تمام گناھوں کا معاف کرنے والا ھے،اور وہ یقینا بہت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ھے “۔

قارئین کرام ! درج ذیل آیات پر غور کرنے سے معلوم ھوتا ھے کہ خدا ھر گناہ کو بخش سکتا ھے:

” إِنَّ اللهَ کَانَ غَفُورًا رَحِیمًا۔“[7]

” یقینا اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ھے “۔

”ْ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ۔“[8]

” اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ھے “۔

” فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِہِ وَاٴَصْلَحَ فَإِنَّ اللهَ یَتُوبُ عَلَیْہِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ۔“[9]

”پھر ظلم کے بعد جو شخص توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرلے تو خدا اس کی توبہ قبول کرے گا کہ اللہ بڑا بخشنے والا اور مھربان ھے“۔

”۔۔۔وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفورٌ رَحیمٌ۔“[10]

” اللہ سے ڈرو یقینا وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ھے “۔

جی ھاں! اگر کوئی شخص اپنے گناھوں سے توبہ کرے، توبہ کے بعد گناھان کبیرہ سے اجتناب کرے اور گناھان صغیرہ پر اصرار نہ کرے، اور اپنے قضا شدہ واجبات کو ادا کرے، لوگوں کے غصب شدہ مال کو ان تک لوٹادے، یقیناایسی ھی توبہ ، ”واقعی توبہ“ ھے جس کی بنا پر اس کی تمام برائیاں بخش دی جائیں گی۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) حقیقی طور پر توبہ کرنے والے کی نشانیاں بیان فرماتے ھیں:

”اٴَمَّا عَلّامةُ التّائِبِ فَاٴَربَعَةٌ:النَصِیحَةُ لِلّٰہِ فِی عَمَلِہِ،وَتَرْکُ البَاطِلِ، وَلُزُومُ الحَقِّ وَالحِرْصُ عَلَی الخَیْرِ“[11]

”توبہ کرنے والے کی چار نشانیاں ھیں: اپنے اعمال و کردار میں خدا وندعالم کی مطلق طور پر فرمانبرداری کرنا، باطل کو چھوڑ دینا، حق کا پابند ھونا اور نیکی و بھلائی میں بہت زیادہ رغبت رکھنا“۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

”خدا ایسا نھیں کرتا کہ بندے کے لئے شکر کا دروازہ کھولے رکھے اور اس پر نعمتوں کے اضافہ کا دروازہ بند کردے، اسی طرح دعا کا دروازہ کھولے رکھے، لیکن باب اجابت کوبند کردے، نیز توبہ کا دروازہ کھلا رکھے اور عفو و بخشش کا دروازہ بند کردے“۔[12]

برائیوں کو چھپانے والا

خداوندعالم کی ایک اھم صفت یہ ھے کہ جو شخص چھپ کر کسی گناہ کو انجام دیتا ھے اوریہ نھیں چاہتا کہ کوئی اس کے گناہ سے آگاہ ھوجائے، تو خدا بھی اس کو چھپاتا ھے۔

خداوندعالم نے خود کو ”ستار العیوب“ کھا ھے، تاکہ اس کے بندوں کو یہ معلوم ھوجائے کہ جب تک وہ چھپ کر او رمخفی طریقہ سے گناہ کرتے ھیں تو ان کی عزت و آبروکی حفاظت کرتا ھے، اور دوسروں کے سامنے اس کے گناہ کی فایل کو نھیں کھولتا؛ مگر یہ کہ گناہ کرنے والا اپنی بے حیائی اور جرائت کی بنا پر سب کے سامنے گناھوں میں غرق ھوجائے اور اپنی عزت و آبرو کا خیال نہ کرے، کیونکہ اس صورت میں اس کے گناھوں پرپردہ ڈالنا اور اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنے کے کوئی معنی نظر نھیں آتے۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے منقول ھے:

”مَن تَابَ، تَابَ اللهُ عَلَیْہِ،وَاُمِرَتْ جَوارِحُہُ اَنْ تَسْتُرَ عَلَیْہِ،وَبِقاعُ الاٴَرْضِ اٴَنْ تَکْتُمَ عَلَیْہُ،وَاٴُنْسِیَتِ الحَفَظَةُ مَا کانَتْ تَکْتُبُ عَلَیہِ“[13]

”جو شخص توبہ کرے، تو خداوندعالم اس کی توبہ کو قبول کرلیتا ھے، اور اس کے اعضاء کو حکم دیتا ھے کہ اس کے گناھوں پر پردہ ڈالے رھو، اور زمین کو بھی حکم ھوتا ھے کہ اس کے گناھوں کو چھپائے رکھے، اور نامہ اعمال کے لکھنے والے فرشتوں کو اس کے گناھوں کو بھلا دیتا ھے“۔

معاویہ بن وھب کہتے ھیں کہ میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سنا ھے کہ آپ نے فرمایا:

”إِذَا تَابَ العَبْدُ المُوٴْمِنُ تَوبَةً نَصوحاً اَحَبَّہُ اللهُ فَسَتَرَ عَلَیہِ فِی الدُّنْیا وَالآخِرةِ۔قُلتُ فَکَیْفَ یَسْتُرُ عَلَیہِ؟قَالَ:یُنْسِی مَلَکَیْہِ مَا کَتَبا عَلَیہِ مِنَ الذُّنوبِ۔۔۔فَیَلْقَی اللهَ حِینَ یَلْقاہُ وَلَیسَ شَیْءٌ یَشْہَدُ عَلَیہِ بِشَیْءٍ مِنَ الذُّنوبِ“[14]

”جس وقت مومن بندہ توبہ نصوح (یعنی خالص توبہ) کرتا ھے تو خدا اس سے محبت کرنے لگتا ھے، لہٰذا وہ دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرتا ھے۔

میں نے عرض کیا: خدا کس طرح اس کی پردہ پوشی کرتا ھے؟

امام علیہ السلام نے فرمایا: گناھوں کے لکھنے والے فرشتوں کو بھلا دیتا ھے، لہٰذا جب وہ خدا سے ملاقات کرے گا تو کوئی بھی چیز اس کے خلاف گواھی دینے والی نھیں ھوگی“۔

تفسیر ”منہج الصادقین “ میں منقول ھے: جب روز قیامت برپا ھوگا، ایک بندے کو خدا کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا، اس وقت حکم ھوگا: ایک قبہ (بلند جگہ) بنایا جائے اور اس پر اس بندے کو لایا جائے۔ اس کے بعد خدا وندعالم اس سے خطاب فرمائے گا: اے میرے بندے! تو نے میری نعمتوں کو گناھوں میں خرچ کیا، اور جیسے جیسے میں نعمتوں میں اضافہ کرتا چلا گیا تو بھی گناھوں میں اضافہ کرتا رھا۔ اس وقت اس بندے کا سر شرمندگی کی وجہ سے جھگ جائے گا۔

اس وقت خطاب ھو گا: اے میرے بندے اپنے سر کو اوپر اٹھالے، جس وقت تو گناہ کرتا تھا میں تیرے گناھوں کو معاف کردیتا تھا۔

اس وقت ایک دوسرے بندے کو لائے جائے گا اس پر بھی لعنت و ملامت کی جائے گا، اس کا سر بھی شرمندگی سے جھک جائے گا اور رونے لگے گا، اس وقت خطاب ھوگا: اے میرے بندے، جس وقت تو گناہ کرتا تھا اور ھنستا تھا تجھے میں نے اس وقت شرمندہ نہ کیا، آج جبکہ تو گناہ بھی نھیں کررھا ھے اور گریہ و زاری کررھا ھے، کس طرح تجھے عذاب کروں، اور تجھے رسوا کروں؟ (جا) میں نے تجھے بخش دیا اور جنت میں داخل ھونے کی اجازت دی!!

برائیوں کو نیکیوں میں بدلنے والا

خداوندعالم کی ایک صفت یہ بھی ھے کہ جب انسان اپنے گناھوں سے توبہ کرلیتا ھے، اور ایمان سے مزین ھوکر اعمال صالحہ بجالاتا ھے تو خداوندعالم اس کے گناھوں کو حسنات سے اور برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیتا ھے۔

چنانچہ ارشاد الٰھی ھوتا ھے:

” إِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاٴُوْلَئِکَ یُبَدِّلُ اللهُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَکَانَ اللهُ غَفُورًا رَحِیمًا۔“[15]

” علاوہ اس کے جوشخص توبہ کرلے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل بھی کرے کہ پروردگار اس کی برائیوں کو اچھائیوں میں تبدیل کردے گا“۔

”وَاٴَقِمِ الصَّلَوٰةَ طَرَفَیِ النَّھارِ وَزُلَفاً مِنَ الَّیْلِ اِٴنَّ الحَسَناتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئٰاتِ۔۔۔ “[16]

”اور پیغمبر آپ دن کے دونوں حصوں میں اور رات گئے نماز قائم کریں کہ نیکیاں برائیوں کو ختم کردینے والی ھیں ۔۔“۔۔

برائیوں کے نیکیوں میں بدل جانے کے سلسلہ میں اسلامی منابع میں بہت سے اھم مطالب ھیں جن میں سے بعض فلسفی ، بعض عرفانی، بعض ذوقی اور بعض روایتی پھلو رکھتی ھیں۔ اگرچہ ان کو بیان کرنا چاہئے تھا لیکن اس کتاب کے صفحات اجازت نھیں دیتے۔

صاحب ”تفسیر نمونہ“ (حضرت آیت اللہ مکارم شیرازی دام ظلہ) کہتے ھیں: برائیوں کے نیکیوں میں بدل جانے کے سلسلہ میں چند تفسیریں ھیں جن میں سے ھر ایک کو قبول کیا جاسکتا ھے۔

۱۔ جس وقت انسان توبہ کرتا ھے، اور خداپراپنے ایمان کو مضبوط کرتا ھے، تو اس کے پورے وجود میں ایک انقلاب پیدا ھوتا ھے، اور اسی اندرونی انقلاب کی بنا پربرائیاںنیکیوں میں بدل جاتی ھیں؛ اگر اس نے کسی کو قتل کیا ھے، تو پھر وہ آئندہ مظلوموں کے دفاع اور ظالم سے مقابلہ کے لئے کھڑا ھوجاتا ھے، اور اگر زنا کار تھا اس کے بعد عفیف اور پاکدامن بن جاتا ھے، اور یہ اندرونی انقلاب ؛ ایمان او رتوبہ کے زیر سایہ پیدا ھوتا ھے۔

۲۔ اگر انسان توبہ کرتا ھے تو خداوندعالم اپنے لطف و کرم اور انعام کے تحت اس کی برائیوں کو مٹا دیتا ھے اور ان کے بدلے نیکیاں لکھ دیتا ھے، جیسا کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے جناب ابوذر نے روایت کی ھے: جب روز قیامت بعض لوگوں کو محشر میں حاضر کیا جائے گا، حکم خدا ھوگا کہ (اس شخص کے) گناھان صغیرہ کو دکھادیا جائے اور گناھان کبیرہ کو چھپالیا جائے۔ اس سے کھا جائے گا: تو نے فلاں وقت فلاں گناہ صغیرہ انجام دیا تھا، اور وہ اس کو قبول کرے گا، لیکن گناھان کبیرہ کی وجہ سے اس کے دل میں خوف وھراس سے لرزہ رھے گا۔

اس موقع پر خداوندعالم اپنے لطف و کرم کی بنا پر حکم دے گا کہ اس کی برائیوں کے بدلے نیکیاں لکھ دی جائیں۔

اس وقت وہ بندہ عرض کرے گا: پروردگارا ! میں نے بہت بڑے بڑے گناہ بھی انجام دئے تھے، لیکن اب ان کو نھیں دیکھ رھا ھوں۔ جناب ابوذر کہتے ھیں کہ اس وقت پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) مسکرائے او رآپ کے دندان مبارک ظاھر ھوئے اور اس کے بعد درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:

” ۔۔۔فَاٴُوْلَئِکَ یُبَدِّلُ اللهُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ ۔۔۔“[17]

”پروردگار اس کی کی برائیوں کو اچھائیوں میں تبدیل کردے گا“۔

۳۔ برائیوں سے مراد؛ خود وہ برائیاں نہ ھوںجن کو انسان انجام دیتا ھو، بلکہ ان کے برے آثار مراد ھوں جو انسان کے جسم و روح میں رچ بس جاتے ھیں، جس وقت انسان توبہ کرتا ھے، اور اپنے ایمان کو مستحکم کرتا ھے تو برائیوں کے برے آثار اس کے جسم و روح سے دھل جاتے ھیں اور نیک آثار میں تبدیل ھوجاتے ھیں،برائیوں کے حسنات اور نیکیوںمیں بدل جانے کا یھی مطلب ھے۔[18]

”لاٰاِٴلٰہَ اِٴلاَّ اٴَنْتَ سُبْحٰانَکَ وَبِحَمْدِکَ“

” تو وحدہ لا شریک ،پاکیزہ صفات اور قابل حمد ھے“۔

کلمہ ”توحید“ یعنی ”لا إلہَ إلّاانْتَ“ کو تھلیل کھا جاتا ھے اور” سبحانک“ سے مراد تسبیح ھے اور ”بحمدک“ سے مراد حمد خدا ھے۔

جو شخص اپنی زبان سے تسبیح و تھلیل کرتا ھے ،دل کی گھرائیوں سے سچے دل سے اس کا اقرار کرتا ھے ،اس میں اخلاص سے کام لیتا ھے ، نیز عملی میدان میں دوسرے معبود کی نفی کرتا ھے توایسا ھی شخص موحّد اور خدا پرست ھے نیز خداوندعالم کی امان میں ھے، اور اس پر دنیا و آخرت کی ذلت یقیناً حرام ھے، ایسا ھی شخص روز قیامت جنت الفردوس کا ساکن اور محبوب خدا ھے، نیز انبیاء علیھم السلام، صدیقین اور شھدائے کرام کی ھمنشینی کی صلاحیت رکھتا ھے۔

انسان کے اندر تھلیل کی حقیقت اس وقت جلوہ نما ھوتی ھے جب وہ قرآن و اھل بیت علیھم السلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ھوئے خداوندعالم کے اسمائے حسنیٰ اور صفات عُلیاکی معرفت حاصل کرلے،اور اپنے دامن کو گناھوں کی کثافت و گندگی سے محفوظ رکھے اور خداوندعالم کے واجب کردہ وظائف کو صدق دل اور خلوص نیت کے ساتھ انجام دے نیز حتی الامکان خلق خدا کی خدمت میںکوشاں رھے۔

جی ھاں! اگر انسان اس راستہ کو اپناتے ھوئے آگے بڑھے تو اس کے پورے وجود سے یہ آواز نکلے گی:

اٴَلاٰ کُلُّ شَیءٍ مَا خَلَا الله بَاطِلٌ وَ کُلُّ نَعِیْمٍ لٰا مُحَالَةَ زَائِلٌ

”یقینا آگاہ ھوجاؤ کہ خدا کے علاوہ ھر چیز باطل ھے، اور لامحالہ ھر نعمت کا زوال ھے“۔

جب انسان دل کی آنکھوں سے اپنے پروردگار عالم کے نور پُر جمال کا مشاھدہ کرتا ھے تو اس کے بدن کا ھر عضو یہ کہتا ھوا نظر آتا ھے:

”لا إلہَ إلّااللهُ “ ،”لا موٴَثرَّ فی الوجود الا الله“، ”لا حول و لا قوة الا بالله“۔

کیا واقعاً اس کائنات میں خدا کے علاوہ کوئی خدا ھے جس کی بارگاہ میں اپنا سر تسلیم خم کیا جائے، یا اس سے روزی طلب کی جائے ،اپنی مشکل کشائی کی درخواست کی جائے، اور اس سے گناھوں کی بخشش اور برائیوں کے چھپانے کی التجاء کی جائے۔

حقیقت تو یہ ھے کہ دعائے کمیل کے اس حصہ میں خداوندعالم کی تسبیح و تھلیل اور مدح و ثنا کی گئی ھے، کیونکہ دعا کرنے والا اپنی ذلت و بے چارگی اور فقر و محتاجگی نیز گناھوں کے اقرار کے بعد اس کی بارگاہ میں یہ عرض کرتا ھے: میں نے اپنے گناھوں کو بخشنے والا یا ان کو چھپانے والا کسی کو نھیں پایا، چونکہ دعا کرنے والا یہ جانتا ھے کہ یہ کام خداوندعالم ھی کا ھے، اوردوسرا کوئی بھی ان امور کو انجام نھیں دے سکتا۔ لہٰذااس موقع پر ”لا الہ الا انت“، ”سبحانک“ اور ”بحمدک“ کھنا بہت مناسب ھے۔

جنت کی قیمت

جو شخص معرفت و خلوص کے ساتھ اپنے پروردگار کی تسبیح و تھلیل کرے ،عملی طور پر دوسرے معبود کا انکار کرے ، نیزخداوندعالم کے علاوہ کسی غیر کی اطاعت نہ کرے، صرف اسی کی عبادت و پرستش کرے اور اسی کے سامنے اپنا سرتسلیم خم کرے، تودر حقیقت اس کا یہ قدم جنت کی قیمت ادا کرنا ھے اور خداوندعالم کے ھر عذاب سے محفوظ ھونے کے لئے اس کے قلعہ میں داخلہ ملنا ھے۔

حضرت امام رضا علیہ السلام نے اپنے آباء و اجداد کے حوالہ سے پیغمبر اسلام :(ص) سے نقل کیا ھے کہ خداوندعالم کا ارشاد ھے:

”لا إلہَ إلّااللهُ حِصْنی فَمَنْ دَخَلَ حِصنی اٴمِنَ مِنْ عَذابی“[19]

”کلمہ توحید ”لا إلہَ إلّااللهُ “ میرا قلعہ ھے، لہٰذا جو شخص بھی اس قلعہ میں داخل ھوگیا وہ میرے عذاب سے نجات پاگیا“۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ھے:

”مَا جَزَاءُ مَن اٴَنْعَمَ الله عَزَّ وَجَلَّ عَلَیہِ بِالتَّوحیدِ إِلَّاالجَنّةَ“[20]

”جس شخص کو خداوندعالم نے” نعمت توحید“ سے نوازا ھے اس کی جزا بھشت کے علاوہ اور کچھ نھیں ھے“۔

(جو شخص خدا وندعالم کی توحید کو صدق دل سے قبول کرتا ھو اور اس کو عملی طور پر ثابت کرتا ھو تو اس کا مقام جنت ھے۔)

اسی طرح آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ھے:

”مَنْ مَاتَ وَہُوَ یَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ حَقٌّ دَخَلَ الجَنَّةَ“[21]

”جس شخص کو اس حالت میںموت آئے کہ خدا کی حقانیت پر ایمان رکھتا ھو تو اس کا مقام بھشت ھے“۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ھے:

”قَوْلُ لَا إِلہَ اِلاَّ اللهُ ثَمَنُ الجَنَّةِ“[22]

”لا الٰہ الّٰا الله“کھنا جنت کی قیمت ھے۔

اسی طرح امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ھے:

”مَنْ قَالَ لَا إِلٰہ إِلاَّ اللهُ مُخْلِصاً دَخَلَ الجَنَّةَ،وَإِخلاصُہُ اٴَنْ تَحْجُزَہُ لَا إِلہَ إِلاَّ اللهُ عَمَّا حَرَّمَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ“[23]

”جس شخص نے خلوص کے ساتھ ”لَا إِلٰہ إِلاَّ اللهُ “ کھا وہ بھشت میں داخل ھوگیا، ”لَا إِلٰہ إِلاَّ اللهُ “کا اخلاص کے ساتھ کھنے سے مراد انسان کی خدا کی حرام کردہ چیزوں سے باز رھنا ھے“۔

ایک شخص حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوکر مذکورہ حدیث کے بارے میں سوال کیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ھے، وہ شخص امام علیہ السلام کے پاس سے اٹھ کر چل پڑا جب وہ آپ کے دولت کدہ سے باھر نکل گیا،تو آپ نے فرمایااس شخص کو واپس بلاؤ، اس کے بعد فرمایا: کہ اس کلمہ ”لَا إِلٰہ إِلاَّ اللهُ “ کے شرائط ھیں اور ھم اس کے شرائط میں سے ھیں۔(کیونکہ ھم خدا کی طرف سے امامت کے لئے منتخب ھوئے ھیں اور ھماری اطاعت تمام امور میں واجب ھے)[24]

بھر حال انسان کے لئے راہ نجات صرف اور صرف توحید (خدا) اور اس کے شرائط ھیں؛ یعنی: جب انسان خدا کی معرفت حاصل کرلے اوراس کو یہ یقین حاصل ھوجائے کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نھیں ھے اور یہ تمام موجودات اس کی مِلک ھے اور اسی کا عطا کردہ رزق کھاتے ھیں،نیز انبیاء علیھم السلام کی نبوت ، ائمہ اطھار علیھم السلام کی امامت اور قرآن پر ایمان رکھے ، اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی گزارے تو ایسا انسان راہ نجات پر یقیناھے۔

لہٰذا اگر انسان توحید کا اقرار کرتے ھوئے کوئی نیک کام کرے تو اس کا وہ عمل قابل قبول ھوگااور اگر اس سے غفلت کی وجہ سے کوئی گناہ سرزد ھوجائے تو شرمندگی کے ساتھ توبہ کرنے پر اس کا گناہ معاف ھوجائے گا، لیکن اگر کوئی شخص خدا وندعالم پر ایمان ھی نہ رکھتا ھو تو اس کا کوئی بھی عمل قابل قبول نہ ھوگا اور اس کا چھوٹا سے چھوٹا گناہ بھی نھیں بخشا جائے گا۔

اگر مسلمان اپنے گناھان کبیرہ کی وجہ سے عذاب قیامت میں مبتلا ھوگا تو اسی توحید کی وجہ سے اسے نجات حاصل ھوگی۔ چنانچہ اس سلسلہ میں بہت سی اھم روایات معتبر و مستند کتابوں میں وارد ھوئی ھیں جن میں سے ھم نمونہ کے طور پر ایک حدیث نقل کرتے ھیں:

حضرت پیغمبر اکرمنے جناب جبرئیل سے فرمایا:

” (اے جبرئیل)دوزخ کے صفات بیان کرو۔ جناب جبرئیل نے دوزخ کی ایک ایک صفت کو بیان کرنا شروع کیا یھاں تک کہ (دوزخ کے )پھلے طبقہ کی بات آئی، اس وقت جناب جبرئیل خاموش ھوگئے، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: اس طبقہ میں کون لوگ رھیں گے؟ جواب دیا: اس طبقہ کا عذاب سب سے آسان ھے، اور اس طبقہ میں آپ کی امت کے گناھگار رھیں گے۔ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: کیا میری امت کے لوگ (بھی) دوزخ میں جائیں گے؟ اس وقت جناب جبرئیل نے کھا:( جی ھاں) اس میں آپ کی امت کے وہ لوگ جائیں گے جو گناہ کبیرہ سے آلودہ ھوں گے اور بغیر توبہ کئے اس دنیا سے چلے گئے ھوںگے“۔

پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) رونے لگے اور تین دن تک روتے رھے،یھاں تک کہ چوتھے روز حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا آپ کی زیارت کے لئے تشریف لائیں، اور جب آپ نے دیکھا کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) خاک پر منھ رکھے گریہ کررھے ھیں اور آنسووں سے مٹی گیلی ھوگئی ھے! تو جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نے عرض کیا: بابا جان واقعہ کیا ھے؟ (آپ اس قدر کیوں گریہ فرمارھے ھیں؟ تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: جناب جبرئیل نے مجھے خبر دی ھے کہ میری امت کے گناھگار دوزخ کے پھلے طبقہ میں رھیں گے، لہٰذا میں گریہ کررھا ھوں! جناب فاطمہ(ع) نے فرمایا: کیا آپ نے جبرئیل امین سے سوال کیا ھے کہ کس طرح آپ کے امتیوں کو دوزخ میں لے جایا جائے گا؟ تو آپ نے فرمایا: ھاں ، مردوں کے بال اور عورتوں کے گیسو پکڑ کر جھنم کی طرف کھینچا جائے گا، چنانچہ جب وہ لوگ دوزخ کے قریب پھنچادئے جائیں گے اور وہ دوزخ کے داروغہ کو دیکھےں گے تو چلائیں گے اور داروغہ جھنم سے التماس کریں گے کہ ھمیں اپنے حال پر رونے کی اجازت دیدے، اس وقت داروغہ دوزخ اجازت دے گا، چنانچہ وہ لوگ اس قدر گریہ کریں گے کہ آنسووں کے بجائے خون کے آنسو بھائیں گے، اس وقت داروغہ جھنم آواز دے گا: کیا اچھا ھوتا کہ تم لوگ اس وقت گریہ کرنے کے بجائے دنیا میں گریہ کرتے اور روز قیامت کے خوف سے آنسو بھاتے!!

اس کے بعد داروغہ ان کو جھنم میں ڈال دے گا، یہ لوگ دوزخ میں پھنچتے ھی ”لا الہ الاّ الله“ کا نعرہ بلند کریں گے، (اس وقت) آگ ان سے دور ھوجائے گی، داروغہ جھنم آوازدے گا، اے آگ ان کو پکڑلے، آگ آواز دے گی: میں کس طرح ان کو پکڑوں حالانکہ یہ لوگ اپنی زبان پر ”لا الہ الاّ الله“جاری کررھے ھیں۔ اس کے بعد پھر داروغہ جھنم آواز دے گا اے آگ ان کو پکڑلے، اس وقت آواز قدرت آئے گی کہ ان کے چھروں کو نہ جلانا کیونکہ انھوں نے میرے سامنے سجدہ کیا ھے، اور ان کے دلوں کو بھی نہ جلانا کیونکہ انھوںنے ماہ مبارک (رمضان) میں پیاس کی شدت برداشت کی ھے۔ اور جب تک حکم خدا ھوگا یہ لوگ جھنم میں رھیں گے۔ اس وقت جبرئیل کو حکم ھوگا: ان گناھگار امتیوں کا حال معلوم کرو،اس وقت داروغہ جھنم پردہ ہٹائے گا ، تو وہ جناب جبرئیل کو خوبصورت شکل میں دیکھیں گے،اور سوال کریں گے: یہ کون اتنی اچھی شکل میں ھے؟ جواب دیا جائے گا: یہ جناب جبرئیل ھیں جو دنیا میں حضرت محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی طرف وحی لے کر نازل ھوتے تھے، جیسے ھی یہ لوگ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا اسم گرامی سنےں گے ایک نعرہ بلند کریں گے کہ ھماری طرف سے حضرت محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو سلام پھنچانا اور کھنا کہ آپ کے امتی دوزخ میں گرفتار ھیں!

جب جناب جبرئیل یہ خبرآنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے پاس لے کر جائیں گے، تو آنحضرت یہ خبر سن کر بارگاہ الٰھی میں سجدہ ریز ھوجائیں گے اور عرض کریں گے (پالنے والے) تونے میرے امتیوں کو دوزخ میں ڈال دیا اب ان کو میرے حوالہ کردے، اس وقت آواز قدرت آئے گی کہ ھم نے ان کو آپ کے حوالہ کردیا۔ اس وقت رسول خدا ان لوگوں کو جھنم سے نکال لیں گے، اور چونکہ یہ لوگ جل کر کوئلہ کی مانند ھوجائیں گے ،لہٰذاان کو ”چشمہ حیات“ پر لے جایا جائے گا، اور جس وقت اس چشمہ سے شربت پئیں گے اور اس کو اپنے اوپر ڈالیں گے توان کی ظاھری اور اندرونی غلاظت دور ھوجائے گی، اور وہ پاک و پاکیزہ بن جائیں گے، اور ان کی پیشانی پر یہ تحریر ابھر آئے گی:

”عتقاء الرحمان من النار“

”یہ خدائے رحمن کی طرف سے جھنم سے آزاد شدہ ھیں“

چنانچہ جب یہ لوگ جنت میں پھنچ جائےں گے تو اھل بھشت ان لوگوں کا ایک دوسرے سے تعارف کرائیں گے کہ یہ لوگ دوزخی تھے اور اب نجات پاگئے ھیں!

اس وقت وہ لوگ کھیں گے: پالنے والے تو نے ھمیں اپنی رحمت میں لے لیا ھے اور بھشت میں داخل کردیا ھے اس تحریر کو ھماری پیشانیوں سے ہٹادے۔ ان کی یہ دعا قبول ھوجائے گی، اور وہ تحریر ان کی پیشانی سے مٹ جائے گی“۔

حمدو تسبیح

تسبیح کا مطلب خداوندعالم کی ذات کو ھر نقص و عیب سے پاک و پاکیزہ ماننا ھے، دراصل خداوندعالم کے بے نھایت کمالات کے اقرار کا نام تسبیح ھے۔

طلحہ بن عبید اللہ کہتا ھے: میں نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ”سبحان اللہ“ کی تفسیر کے بارے میں سوال کیا، تو آپ نے فرمایا: ”سبحان للہ“ کی تفسیر یہ ھے کہ خداوندعالم کو ھر نقص و عیب سے پاک سمجھا جائے۔[25]

حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے ”سبحان اللہ“ کی تفسیر کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: خدا وندعالم کے جلال کو بزرگ شمار کرنا اور اس کو ھر طرح کے شرک سے پاک و پاکیزہ جاننا، لہٰذا جس وقت انسان (اخلاص و یقین کے ساتھ) ”سبحان اللہ“ کہتا ھے تو تمام فرشتے اس پر درودبھیجتے ھیں۔[26]

قرآن مجید میں بہت سی آیات ھیں جو اس بات پر دلالت کرتی ھیں کہ دنیا کی تمام چیزیں خداوندعالم کی تسبیح کرتی ھیں:

”۔۔۔ وَإِنْ مِنْ شَیْءٍ إِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہِ وَلَکِنْ لاَتَفْقَہُونَ تَسْبِیحَہُمْ۔۔۔“[27]

”اور جو کچھ ان(زمین وآسمان) کے درمیان ھے سب اس کی تسبیح کررھے ھیںاور کوئی شئے ایسی نھیں ھے جو اس کی تسبیح نہ کرتی ھویہ اور بات ھے کہ تم ان کی تسبیح کو نھیں سمجھتے ھو“۔

دعا کمیل کے اس حصہ میں خداوندعالم کی تسبیح شاید اسی وجہ سے ھو : چونکہ دعا کرنے والا انسان گزشتہ فقرات میں اپنی خطا و غلطی اور گناہ کا اقرار کر چکا ھوتا ھے، جو خدا اور اس کے درمیان دوری اور تاریکی کے اسباب تھے، اور وہ انسان خدا کی تسبیح و تقدیس اورحمد وثناء کے ذریعہ ظلمت و تاریکی سے نجات حاصل کرسکتا ھے، لہٰذا مناسب یہ ھے کہ دعا کرنے والا روتے ھوئے صدق دل اور خلوص کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں یوں عرض کرے: ”سبحانک و بحمدک“ تاکہ جناب یونس علیہ السلام کی طرح اسے تاریکی سے نجات مل جائے اور خدا کی قربت حاصل ھوجائے۔

جی ھاں! جب جناب یونس علیہ السلام شب کی تاریکی، دریا کی تاریکی اور شکم ماھی کی تاریکی میں گرفتار ھوئے تو کہتے ھیں:

”۔۔۔فَنادَیٰ فِی الظُّلُماتِ اٴَن لَا إِلہَ إِلاَّ اٴَنْتَ سُبْحانَکَ إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظّالِمِینَ فَاسْتَجَبْنَا لَہُ وَ نَجَّیْنَاہُ مِنَ الغَمِّ وَ کَذٰالِکَ نُنجِی المُوٴ مِنینَ۔“[28]

”پھر تاریکیوںمیںجاکر آوازدی کہ پروردگارا! تیرے علاوہ کوئی خدا نھیں ھے تو پاک و بے نیاز ھے اور میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوںمیںسے تھا ،تو ھم نے ان کی دعا کو قبول کرلیا اور انھیں غم سے نجات دلا دی کہ ھم اسی طرح صاحبان ایمان کو نجات دلاتے رہتے ھیں“۔

صاحب تفسیر ”منہج الصادقین“ اس آیت کی تفسیر میں حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے یہ روایت بیان کرتے ھیں کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:

”مَا مِنْ مَکْرُوبٍ یَدْعُو بِہذا الدُّعاءِ إِلاَّ اسْتُجِیبَ لَہُ“[29]

”کوئی بھی پریشان حال ایسا نھیںجو یہ دعا پڑھے اور مستجاب نہ ھو“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام جناب امیر علیہ السلام سے روایت کرتے ھیں: اعمال کی ترازو تسبیح کے ذریعہ ثواب سے بھر جاتی ھے“۔[30]

علامہ مجلسی رحمة اللہ علیہ اپنی عظیم الشان کتاب ”بحار الانوار“ میں حمد پروردگار کے سلسلہ میں ایک اھم روایت اس طرح نقل کرتے ھیں:

”کَانَ رَسولُ اللهِ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) إِذَا وَرَدَ عَلَیہِ اٴَمْرٌ یَسرُّہُ قَالَ:الحَمْدُ لِلّٰہِ عَلی ہَذِہِ النّعْمَةِ۔وَإِذَا وَرَدَ عَلَیہِ اٴَمْرٌ یَغْتَمُّ بِہِ، قَالَ:الحَمْدُ لِلّٰہِ عَلَی کُلِّ حَالٍ“[31]

”جس وقت پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے سامنے کوئی خوش حال کرنے والا واقعہ پیش آتا تھا تو آنحضرت فرماتے تھے: ”الحَمْدُ لِلّٰہِ عَلی ہَذِہِ النّعْمَة“ اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کیا کرتے تھے اور اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آتا تھا جس سے آپ کو رنج پھنچتا تھا تو آپ فرماتے تھے:”الحَمْدُ لِلّٰہِ عَلَی کُلِّ حَالٍ“ الٰھی ھر حال میں تیرا شکر ھے“۔

”ظَلَمْتُ نَفْسي،وَتَجَرَّاٴْتُ بِجَھْلي،وَسَکَنْتُ اِٴلٰی قَدِیمِ ذِکْرِکَ لي، وَ مَنِّکَ عَلَيَّ۔“

” خدایا میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ھے۔اپنی جھالت سے جسارت کی ھے اور اس بات پر مطمئن بیٹھاھوں کہ تونے مجھے ھمیشہ یا د رکھا ھے اور ھمیشہ احسان فرمایا ھے“۔

اپنے اوپرظلم

حالانکہ میں نے اپنے غور و فکر اوراس کائنات کی حیرت انگیز چیزوں کو دیکھنے اور علماء و دانشوروں کی باتوں کو سننے او ران کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد تجھے ایک لازمی حد تک پہچان لیا ھے،لیکن تیری طرف رجوع نھیں کیا، اور تیرے حکیمانہ احکام کی اطاعت نھیں کی ،نیز تیری رضا کو اھمیت نھیں دی اور اپنے سر کو تیرے سامنے نھیں جھکایا تیری عبادت میں اپنا سر کو خاک پر نھیں رکھا اورتیرے سامنے اپنی جھولی نھیں پھیلائی ھے، المختصر اپنے تمام ھی امور میں تجھ سے غفلت کی، لہٰذا یہ وہ ستم تھا جسے میں نے اپنے اوپر ھمیشہ روا رکھا اور یہ میں نے بہت بڑا ظلم اپنے اوپر کیا ھے۔

حالانکہ میںنے علماء کی زبان اور تاریخ کے مطالعہ کے بعد تیرے انبیاء(ع)کو پہچان لیا اور یہ معلوم ھوگیا کہ وہ تیری راہ کی ھدایت کرنے والے،انسانیت کے لئے دلسوز اور مھربان ھیں اور ان کا انسان کی سعادت و خوشبختی کے علاوہ کوئی مقصد نھیں، صرف انسانیت کو گمراھی اور شیطانی و سوسوں سے نجات دلانا چاہتے ھیں ان کے امر و نھی باحکمت اور انسانیت کے لئے مفید ھوتے ھیں، اور چونکہ میں مسلمان ھوںلہٰذا میں نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی معرفت ضروری حد تک حاصل کرلی، لیکن پھر بھی میں نے انبیاء(ع)سے روگردانی کی، اپنی زندگی میں دوسروں کے دروازے پر گیااور غیروں کی تہذیب کو اپنایا، اورتیرے انبیاء علیھم السلام کی زحمتوں کی قدر نہ کی، ان کے وجود جیسی نعمت کا شکر ادا نہ کیااپنی منحوس زندگی پر بھروسہ کیاجو نور نبوت سے خالی تھی اورگمراھی و ضلالت کی راہ پر چلتا رھا،یہ ستم میں نے اپنے ھی اوپر ڈھایاھے اور یہ عظیم ظلم اپنے ھی نفس پر کیا ھے!!

حالانکہ میں مجالس و محافل اور دینی کتابوں کے مطالعہ سے کافی حد تک معارف الٰھی اور تعلیمات قرآن سے آشناھوگیا ھوں، نیز مجھے اس حقیقت کا علم ھوگیا ھے کہ یہ قرآن جس کو تو نے اپنے پیغمبرمحمد مصطفی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر نازل کیا ، تمام انسانوں کے لئے ھدایت ھے اور یہ ایک کامل ترین کتاب ھے جس میں مکمل اورمفیدمطالب سمائے ھوئے ھےں،اور ایک ایسی کتاب ھے جو حکیمانہ احکامات، اھم معارف، محکم آیات، استوار قواعد و ضوابط اور جھنجھوڑنے والے موعظوں پر مشتمل ھے، گویا قرآن ایک بلند ترین اور زیبا ترین دستور العمل ھے، لیکن میں نے اس سے منھ موڑ لیااور اس کی آیات کو چھوڑ دیااس کے حقائق سے دوری اختیار کی، اس پر عمل کرنے میں غفلت کی ،اس سے دور رہ کر زندگی بسر کی۔ یہ ستم میں نے اپنے ھی اوپر کیا ھے اور یہ عظیم ظلم اپنے ھی نفس پر کیا ھے!!

حالانکہ مختلف قسم کے وسائل کی مدد سے ائمہ طاھرین علیھم السلام کو پہچان لیااور یہ معلوم ھوگیا کہ یہ حضرات بندوں میں تیری حجت ھیں، تیرے راستہ کی ھدایت کرنے والے کامل انسان ھیں، نیز پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے بعد ان کو ولایت و رھبری کے عنوان سے پہچنوایا ھے، تاکہ لوگوں کی ھدایت و رھنمائی کریں، نیز انھوں نے دین اسلام کے حقائق کی تعلیم دی اور حق و باطل کو پہچنوایا، اور قرآن مجید کی تفسیر بتائی جبکہ ان پر دشمنوں نے بہت ظلم اور بڑے بڑے مصائب ڈھائے غرض ھر ایک کو کسی نہ کسی طریقہ سے شھید کیا؛ لیکن ان حضرات نے اپنی ذمہ داری نبھانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی، اور انسانی ھدایت سے ھاتھ نھیں کھینچا، بلکہ احکام الٰھی ، حلال و حرام اور دینی فرائض کو ھر ممکن صورت میں بیان کرتے رھے، جس کو ان کے اصحاب نے چارسو کتابوں میں جمع کیا، تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں بھی اس عظیم دریائے معرفت سے سیراب ھوسکیں، لیکن میں نے ان تمام حقائق کو نظر انداز کردیا، او رائمہ طاھرین علیھم السلام کی اطاعت نہ کی اورفیض ھدایت کے ان مراکز سے منھ موڑکر گمراہ ھوگیایا ،سیدھے راستہ پر چلنے کے بجائے ٹیڑھے راستہ کا انتخاب کیا اور میں اپنی ھوا و ھوس کا شکار ھوگیا اور اس پر بضدرھا، خدا و آخرت سے بے خبر استاد وں سے تعلیم حاصل کی اور ان جاھل و گمراہ لوگوں(جن کی ضلالت و گمراھی پوری دنیا پھیلی ھوئی ھے؛) کو عظیم الشان ائمہ پر ترجیح دی ۔ یہ ستم میں نے اپنے اوپر کیا ھے اورمیں نے اپنے نفس پر یہ عظیم ظلم کیا ھے!!

حالانکہ میں جانتا تھا کہ ”نہج البلاغہ“ جیسی عظیم الشان کتاب ؛جس میں حضرت علی علیہ السلام کے بے کراں دریائے علم کا ایک قطرہ ھے جس میں ھدایت کا بے بھا خزانہ ھے جس کے ذریعہ انسان کو خیر و سعادت اور پاک و پاکیزہ زندگی کی ھدایت ملتی ھے، جس میں خطبوں، خطوط اورحکمت آمیز کلمات کا موجیں مارتا ھوا الٰھی معرفت کا سمندر ھے ، جس کی اھمیت کے لئے یھی کافی ھے کہ اس کو ”تحت کلام الخالق فوق کلام المخلوق“ جیسا لقب دیا گیا ھے۔

حالانکہ میں جانتا تھا کہ ”صحیفہ سجادیہ“ جس میں امام عاشقین، مولائے عابدین سید الساجدین حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے ۵۴ دعاؤں میں انسان کے تمام وظائف اور ذمہ داریوں کو دعا کی زبان میں بیان فرمایا ھے، جس کے بارے میںائمہ طاھرین علیھم السلام نے توجہ دلائی ھے۔

حالانکہ میں جانتا تھا کہ احکام الٰھی، حلال و حرام اور اسلامی معارف و اخلاقی مسائل، ”اصول کافی“، ”تہذیب“، ”استبصار“، ”من لایحضرہ الفقیہ“، ”تحف العقول“،”روضة الواعظین“،”وافی“،”شافی“، ”بحارالانوار“، ”وسائل الشیعہ“، ”روضة المتقین“، ”جامع احادیث شیعہ“ اور دوسری ہزاروں کتابوں میں موجود ھیں، لیکن میں نے اپنی آخرت کو سنوار نے کے لئے ان کتابوں کو پڑھنے کی زحمت نھیں کی، ان کے مطالعہ کے بجائے بےھودہ رسالوں، اخباروں اور دین مخالف مضامین ، اور گھٹیا قسم کی کتابوں کے مطالعہ میں لگا رھا، اور اپنی زندگی کے بہترین شب و روز کو یوں ھی گزار دیا جس سے میں نے اپنا ھی نقصان کیا۔ یہ ستم میں نے اپنے ھی اوپر کیا ھے اور یہ عظیم ظلم اپنے ھی نفس پر کیا ھے!!

نادانی کی وجہ سے گناھوں پر جرائت و جسارت

چونکہ میں نے علم و آگاھی حاصل نھیں کی اور دینی تعلیمات سے محروم رھا اور حق و حقانیت سے بے خبر رہتے ھوئے اپنی زندگی بسر کرتا رھااور اپنی پُر طلاطم زندگی کو جھالت کی کشتی پر سوار کیا جس کی وجہ سے میں گناھوں کے دلدل میں پھنستا ھی چلا گیا۔

اورجھالت و نادانی کے سبب اپنی آخرت سے غافل ھوگیا اور حقائق کو سمجھنے سے قاصر رھا، جس کے انجام کے بارے میں نھیں سوچا، اور اپنے اعمال کے حساب و کتاب کی فکر نھیں کی، پل صراط اورجنت و جھنم کی پروا نھیں کی، لہٰذا میں نے تیری مخالفت کی اور مختلف گناھوں سے آلودہ ھوگیا، آخر کار اپنی نادانی کی بنا پر گناھوں کے سلسلے میں تیرے سامنے جرائت اور جسارت کی اور ادب واخلاقی متانت کے خلاف قدم اٹھایا!!

گناھوں کا اقرار

پالنے والے! جس وقت میںرحم مادر میں تھا، اس وقت سے لے کر اب تک تیرے لطف و کرم میرے شامل حال رھے۔یہ تیرا احسان و کرم ھی تو تھا جس نے ایک نجس نطفہ کو کامل انسان بنادیامیرے لئے ضروری اعضاوجوارح عطا کئے، عقل و خرد سے نوازا، دل و جان عطا کئے، گوشت، ہڈّی، نسیں، مغز،خون، سلول، تنفسی نظام آنکھیں، کان ،ھونٹ اورعقل و ھوش عطا کیا، اس کے بعد مجھے دنیا میں بھیجنے کے لئے میری والدہ کے جسم میں طاقت دی تاکہ صحیح و سالم دنیا میں آسکوں، اس کے بعد دودھ سے بھرے پستان مادر سے میرے جسم کی ضرورت پوری کی، پیار بھری آغوش مادر اور محبت سے مالا مال قلب پد ر معین کیا ، آھستہ آھستہ غذا اورتیرے محافظین خصوصاً والدین کی حفاظت میں پروان چڑھا ، اور جھاں تک پھنچنا تھا مجھے پھنچادیا، اس کے بعد میری زندگی کے لئے مختلف اسباب فراھم کئے، وغیرہ وغیرہ۔

پالنے والے! تو نے مجھ پر اب تک یہ تمام لطف و احسان کئے لیکن میں مغرور ھوگیا اور یہ سوچنے لگا کہ اگر میں گناہ بھی کرتا رھوں تو تیرا لطف و کرم پھر بھی میرے شامل حال رھے گا، اور کسی طرح کا کوئی عذاب نھیں ملے گا حالانکہ گزشتہ نعمتوں کے پیش نظر مجھے غرور نھیں کرنا چاہئے تھا اور گناھوں کی وادی میں قدم نھیں رکھنا چاہئے تھا۔

اور اب تیرے لطف و کرم سے میںخواب غفلت سے تھوڑا بیدار ھوا ھوں، اور اپنی تاریک زندگی اور ظلمت کی حالت سے آگاہ ھوا ھوں، اپنے تمام وجود سے تیرے دروازے پر آیا ھوں او رآہ وبکا ، اشک ریزی کے ساتھ ؛ اپنے گناھوں کا اقرار کرتا ھوں اور اعتراف کرتا ھوں کہ: ”ظلمتُ نفسی“ (یعنی میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا) اور یہ بھی جانتا ھوں کہ میرا یہ اقرار و اعتراف در حقیقت گناھوں کا اقرار ھے اور ایک طرح سے توبہ اور سبب نجات ھے، جیسا کہ یہ بات قرآنی آیات، انبیاء و ائمہ علیھم السلام کی تعلیمات میں موجود ھے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ھے:

”وَاللهِ مَا یَنْجُو مِنَ الذَّنْبِ إَلاَّ مَنْ اَقَرَّ بِہِ“[32]

”خدا کی قسم! انسان راہ نجات حاصل نھیں کرسکتا مگر یہ کہ وہ گناھوں کا اقرار و اعتراف کرے“۔

نیز حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ھی سے یہ روایت بھی ھے:

”لَا وَاللهِ مَا اٴَرادَ اللهُ مِنَ النَّاسِ إِلاَّ خَصْلَتَیْنِ:اَنْ یُقِرُّوا لَہُ بِالنِّعَمِ فَیَزِیدَہُم،وَبِالذُّنُوبِ فَیَغْفِرَھا لَہُمْ“[33]

”خدا کی قسم! خدا، اپنے بندوں سے دو چیزوں کے علاوہ کچھ نھیں چاہتا، ایک تو اپنی نعمتوں کا اقرار، تاکہ ان میں اضافہ کرے، اوردوسرے گناھوں پر اعتراف، تاکہ وہ ان کو بخش دے“۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

”المُقِرُّ بِالذَّنْبِ تائِبٌ“[34]

”اپنے گناھوں کا اقرار و اعتراف کرنے والا،توبہ کرنے والا شمار ھوگا“۔

نیز آپ ھی کا ارشاد گرامی ھے:

”شافِعُ المُذْنِبِ إِقْرارُہُ وَتَوْبَتُہُ اعْتِذارُہُ“[35]

”گناھگار کی شفاعت کرنے والا خود اس کا اقرار کرنا ھے، او راس کی توبہ عذر خواھی ھے“۔

کتاب ”تذکرة الاولیاء“ میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی گئی ھے:

”جس گناہ کی ابتداء خوف و وحشت کے ساتھ اور اس کا آخر عذر خواھی کے ساتھ ھو، تو اس عمل سے بندہ خدا سے نزدیک ھوجاتا ھے، اورجس اطاعت کی ابتداء خود بینی اور اس کی انتھا خود پسندی ھو توایسی اطاعت انسان کو خدا سے دور کردیتی ھے!“

ایک جوان گناھگار کا اقرار

منصور بن عمّار کہتے ھیں: ایک روز رات کے وقت میں گھر سے باھر نکلا جب ایک گھر کے نزدیک پھنچا تو مجھے دروازے سے ایک جوان کے راز و نیاز اور مناجات کی آواز سنائی دی ، میں نے غور سے سنا تووہ بارگاہ رب العزت میں اس طرح مناجات کررھا تھا:

”پالنے والے! میں جب گناہ کرتا تھا تو تیری مخالفت اور نافرمانی کے قصد سے نھیں بلکہ میرا نفس مجھ پر مسلط تھا اور شیطان نے مجھے دھوکا دیاتھا، جس کے نتیجہ میں،میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ھوگیا اور اب میں تیرے عذاب کا مستحق ھوگیا ھوں“۔

جب میں نے ان کلمات کو سنا تو اپنے سر کو دروازے پر دے مارا او رقرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت کی:

”ٰیااٴَیُّھَا الَّذِینَ ء امَنُوا قُوٓا اٴَنْفُسَکُمْ وَاٴَھْلِیکُمْ نَاراً وَقودُھَا النَّاسُ وَالحِجارَةُ عَلَیْھَا مَلَائِکَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ لَا یَعْصُونَ اللّٰہَ ما اٴَمَرَھُم وَ یَفْعَلونَ مَا یُوٴْمَرونَ۔“[36]

”(اے) ایمان لانے والو! اپنے نفس اور اپنے اھل کو اس آگ سے بچاؤ کہ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ھوں گے جس پر وہ ملائکہ معین ھوں گے جو سخت مزاج اور تند و تیز ھیںاو رخدا کے حکم کی مخالفت نھیں کرتے او رجو حکم دیا جا تا ھے اسی پر عمل کرتے ھیں“۔

جب میں نے اس آیت کی تلاوت کی تو اس جوان کے مزید رونے اور چلانے کی آوازسنائی دی ، اور میں نے وھاں سے اپنی راہ لی۔

دوسرے روزجب میں اسی گھر کے پاس سے گزرا تو وھاں پر ایک بُڑھیا کو دیکھا جو زار و قطار رورھی ھے اور فریاد کررھی ھے کہ ھائے میرا بیٹا!! جو راتوں کو خوف خدا سے رویا کرتا تھا کل رات جب وہ مناجات میں مشغول تھا تو کوئی شخص دروازے پر آیا اور اس نے عذاب الٰھی سے متعلق ایک آیت پڑھی ، جس کو سن کر اس کی ایک چیخ نکلی اور روتے روتے مرگیا۔

میں نے کھا: اماں جان! وہ آیت میں نے ھی پڑھی تھی جس کے سبب اس کی روح عالَم بقا کی طرف پرواز کرگئی، کیا مجھے اجازت ھے کہ اس کو غسل ( و کفن )دوں؟اس نے اجازت دی، جیسے ھی میں نے اس کے اوپر سے کپڑا ہٹایاتو دیکھا اس کی گردن پر ایک اورکپڑا ھے جیسے ھی میںنے اس کپڑے کو ہٹایا تو دیکھا کہ اس کے سینہ پر ھرے رنگ سے لکھا ھوا ھے:

”ھم نے اس بندے کو آبِ توبہ سے غسل دیدیا ھے!“[37]

توبہ کرنے والے گناھگار کا انجام

عبد الواحد بن زید ،ایک گناھگار، فاسق و فاجر اور بدکار شخص تھا، ایک روزوہ یوسف بن حسین نامی عابد و زاھد کی مجلس وعظ میں پھنچ گیا، دیکھا کہ وہ عابد و زاھد اس قول کے بارے میں بیان کررھے تھے:

”دَعَاہُم بِلُطْفِہِ کَاٴنَّہُ مُحْتَاجٌ إلِیْہِمْ۔“

”خداوندعالم اپنے گناھگار بندوں کو اپنے خاص لطف و کرم سے اس طرح دعوت دیتا ھے کہ گویا وہ بندوں کا محتاج ھے“۔

عبد الواحد نے جیسے ھی یہ کلام سنا، اس نے اپنے کپڑے اتارے اور روتا چلاتا قبرستان کی طرف چل پڑا۔ اسی رات یوسف بن حسین نامی اس عابد و زاھدنے عالم خواب میں دیکھا کہ خدا آواز دے رھا ھے:

”ادرک الشاب التائب“

”اس گناھوں سے توبہ کرنے والے جوان کو درک کرو“۔

یعنی اسے مغفرت و بخشش کی بشارت دیدو۔ عابد اس کی عظمت کو پہچاننے کے لئے تین دن کے بعد قبرستان میں گیا، تو دیکھاکہ وہ اپنا سرزمین پر رکھے مناجات او رگریہ و زاری میں مشغول ھے۔ پھر جب اس نے عابد کو اپنے پاس دیکھا تو کھا: آپ کو میرے پاس بھیجے ھوئے تین دن گزر گئے ھیں اور آپ اب آرھے ھیں؟! یہ کہتے ھی اس کی روح پرواز کرگئی۔!!

”اٴَللّٰھُمَّ مَوْلاٰيَ کَمْ مِنْ قَبیحٍ سَتَرْتَہُ،وَکَمْ مِنْ فٰادِحٍ مِنَ الْبَلآٰءِ اٴَقَلْتَہُ،

وَکَمْ مِنْ عِثٰارٍ وَقَیْتَہُ،وَکَمْ مِنْ مَکْرُوہٍ دَفَعْتَہُ،وَکَمْ مِنْ ثَنٰاءٍ جَمیلٍ لَسْتُ

اٴَھْلاً لَہُ نَشَرْتَہُ“۔

”خدایا میرے کتنے ھی عیب ھیںجنھیں تونے چھپا دیا ھے اور کتنی ھی عظیم بلائیں ھیں جن سے تونے بچایا ھے۔کتنی ٹھوکریں ھیں جن سے تونے سنبھالا ھے اور کتنی برائیاں ھیں جنھیں تونے ٹالا ھے۔کتنی ھی اچھی تعریفیں ھیں جن کا میں اھل نھیں تھا اور تونے میرے بارے میں انھیں نشر کیا ھے“۔

لفظ’ ’ مَوْلاٰيَ “کے ذکر میں کیا لذت ھے وہ بھی ایک محتاج کی زبان پرگریہ وزاری کی حالت میں،رات کے سناٹے میں خصوصاًشب جمعہ میں،یقینا اس طرح کی لذت اس دنیا میں نھیں پائی جاتی اور شاید اسی وجہ سے جناب موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا ھے:”إنَّ لِی فِی کَشْکُوْلِ الْفَقْرِ مَا لَیْسَ فِی خَزَانَتِکَ“

”(پالنے والے)میرے فقر و نیازمندی کے کشکول میں ایسی چیز ھے جو تیرے کسی بھی خزانہ میں نھیں پائی جاتی ھے“۔

آواز قدرت آئی کہ اے موسیٰ وہ کیا ھے؟ جناب موسی علیہ السلام نے عرض ک: تیرے مثل ایک خدا میرے کشکول میںھے۔[38]

اپنے بندوں کی برائی، بدی اور عیوب کو چھپانا خداوندعالم کی بہت بڑی نعمتوںاور اس کے عظیم احسانات میں سے ایک ھے۔ جب خداوندعالم اپنے بندے کی برائی کو دوسروںسے چھپاتا ھے اورلوگوں کے سامنے اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرتا ھے، تو پھر یقینی طور پر قیامت کے روز بھی وہ اپنے گناھگار مومن اور توبہ کرنے والے بندوں پر خاص توجہ کرے گا، چنانچہ حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ارشاد ھے:

”مَا سَتَرَ عَلَی عَبدٍ فِی الدُّنیَا إِلاَّ سَتَرَ عَلَیہِ فِی الآخِرَةِ“[39]

”کسی بندے کی کوئی بھی برائی اس دنیا میں نھیں چھپائی گئی مگر یہ کہ روز قیامت بھی اس کو چھپایا جائے گا“ ( یعنی جس گناہ کو خدا اس دنیا میں چھپاتا ھے اس کو روز قیامت بھی چھپائے گا“)

خداوندعالم کے ستّار العیوب ھونے کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے ماثور ہ دعاؤں میں وسیع پیمانہ پراشارہ ھوا ھے، جو گناھگاربندوں کے لئے ایک بشارت ھے : خداوندعالم اپنے بندے کی عزت و آبرو پائمال نھیں کرے گا، اس کی برائیوں کو چھپائے گا، اور کسی ایک کو بھی اپنے بندوں کے گناھوں سے مطلع نھیں کرے گا۔

نمونہ کے طور پرھم یھاں ایک اھم روایت نقل کرتے ھیں جس کو ابن فھد حلّی مرحوم نے اپنے کتاب ”عدة الداعی“ کے آخر میں نقل کیا ھے:

ابن فھد روایت کرتے ھیں : جبرئیل امین پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر یہ دعا لے کر نازل ھوئے جبکہ جبرئیل مسکراتے ھوئے بشارت دینے کی حالت میں تھے۔ آکر کھا: اے محمد ! تم پر سلام ھو، آنحضرت نے فرمایا: اے جبرئیل تم پر بھی سلام ھو، اس کے بعد جناب جبرئیل نے کھا: پروردگار عالم نے آپ کی خدمت میں تحفہ بھیجا ھے۔ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے سوال کیا وہ کیا ھے؟ تو جبرئیل نے عرض کیا: وہ آسمانی خزانوں کے چند کلمات ھیں جن کے ذریعہ خداوندعالم نے آسمانوں کو بلندی عطا کی ھے۔ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: وہ کلمات کیا ھےں؟ تو جناب جبرئیل نے کھا:

یَا مَنْ اٴَظْہَرَ الْجَمِیْلَ وَ سَتَرَ الْقَبِیْحَ، یَا مَنْ لَمْ یُوٴاخِذَ بِالْجَرِیْرَةِ وَلَمْ یَہْتِکِ السِّتْرَ، یَا عَظِیْمَ الْعَفْوِ یَا حَسَنَ التَّجَاوُزِ، یَا وَاسِعَ الْمَغْفِرَةِ یَا بَاسِطَ الْیَدَیْنِ بِالرَّحْمَةِ، یَا صَاحِبَ کُلِّ نَجْویٰ َومُنْتَھیٰ کُلِّ شَکْویٰ، یَا کَرِیْمَ الصَّفْحِ، یَا عَظِیْمَ الْمَّنِّ، یَا مُبْتَدِاٴً بِالنِّعَمِ قَبْلَ اسْتِحْقَاقِہَا، یَا رَبَّنَا یَا سَیِّدَنَا یَا مَوْلاٰنَا یَا غَایَةَ رَغْبَتِنَا، اٴَسْئَلُکَ یَا اللهُ اٴَنْ لاٰتُشَوِّہَ خَلْقِی بِالنَّارِ“

”اے وہ جس نے نیکیوں کو ظاھر کیا اور برائیوں کی پردہ پوشی کی، اے وہ جس نے میرے گناھوں پر عذاب نھیں کیا، اور حرمت کے پردہ کو چاک نھیں کیا، اے وہ جس کا عفو عظیم ھے، جس کی بخشش بہترین ھے اور جس کی مغفرت وسیع ھے، اے وہ جو اپنی رحمت کے دونوں ھاتھ پھیلائے ھوئے ھے، اے ھر راز کے مالک اور ھر شکایت کی حدآخر،اے گناھوں سے درگزرکرنے والے کریم، اے وہ جس کی نعمت عظیم ھے اے وہ جس نے مجھے مستحق نعمت ھونے سے پھلے مجھ پر نعمتوں کی بارش کی، اے میرے پروردگار! اے میرے مولا! اے میرے شوق و رغبت کی غایت، اے میرے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ھوں کہ میرے جسم کو آتش جھنم میں نہ جلا“۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جبرئیل سے فرمایا:ان کلمات کا ثواب کیا ھے؟ تو جبرئیل نے کھا: ھیھات! ھیھات! ان کلمات کے ثواب کا اندازہ نھیں لگایا جاسکتا، اگر ساتوں آسمان و زمین کے فرشتہ مل کر روز قیامت تک اس دعا کے ہزار اجزاء میں سے ایک جز ء کا حساب لگانا چاھیں تو نھیں لگاسکتے۔

جس وقت بندہ کہتا ھے:” یَا مَنْ لَمْ یُوٴاخِذَ بِالْجَرِیْرَةِ وَلَمْ یَہْتِکِ السِّتْرَ“،تو خدا اس کے گناھوں کو چھپالیتا ھے، دنیا میں اس پر رحمت نازل کرتا ھے، آخرت میں اس کی پریشانیوں کو دور کردے گا، اوراس کو دنیا و آخرت میں ہزار پردوں سے ڈھانپ دے گا۔

اور جس وقت بندہ کہتا ھے: ” یَا مَنْ لَمْ یُوٴاخِذِ بِالْجَرِیْرَةِ وَلَمْ یَہْتِکِ السِّتْرِ“تو خداوندعالم روز قیامت اس کا حساب نھیں لے گا، اور جب (دوسروں کے) پرد ہ اٹھائے جائیں گے تو اس وقت اس کاپردہ نھیں اٹھایا جائے گا۔

اور جس وقت بندہ کہتا ھے: ”یَا عَظِیْمَ الْعَفْوَ “تو خداوندعالم اس کے تمام گناھوں کو معاف کردیتا ھے چاھے وہ کفِ دریا کے برابر ھی کیوں نہ ھوں۔

اور جس وقت بندہ کہتا ھے: ”یَا حَسَنَ التَّجَاوُزِ“تو خدا وندعالم اس کے گناھان کبیرہ جیسے چوری ،شراب خوری وغیرہ کو بخش دیتا ھے اور دنیا کے خوف و ھراس سے نجات عطا کرتاھے۔

اور جس وقت بندہ کہتا ھے: ”یَا وَاسِعَ الْمَغْفِرَةِ “تو خداوندعالم اس رحمت کے ستّر دروازے کھول دیتا ھے، اور بندہ مرتے وقت تک رحمت خداکے زیر سایہ رہتا ھے۔

اور جس وقت بندہ کہتا ھے:” یَا بَاسِطَ الْیَدَیْنِ بِالرَّحْمَةِ، “تو خداوندعالم اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ھے۔

اور جس وقت بندہ کہتا ھے:” یَا صَاحِبَ کُلِّ نَجْویٰ َومُنْتَھیٰ کُلِّ شَکْویٰ،“تو خدا وندعالم اس کو ھر مصیبت اور بلاء چاھے وہ اس پر نازل ھوئی ھو ں یا نہ، چاھے وہ سالم ھو یا بیمار، قیامت تک ثواب عطا کرتا رھے گا۔

اور جس وقت بندہ کہتا ھے:” یَا کَرِیْمَ الصَّفْحِ، یَا عَظِیْمَ الْمَّنِّ، “تو خداوندعالم اس کی آرزوٴںکو اپنی تمام خلائق کے برابر عطا کرتا ھے۔

اور جس وقت بندہ کہتا ھے:” یَا مُبْتَدِاٴً بِالنِّعَمِ قَبْلَ اسْتِحْقَاقِہَا،“تو خداوندعالم اس کو اس شخص کے جیسا ثواب عطا کرتا ھے جو خدا کی نعمتوں کا شکرگز ار ھوتا ھے۔

اور جس وقت بندہ کہتا ھے:” یَا رَبَّنَا یَا سَیِّدَنَا“ تو خدا کہتا ھے کہ اے میرے فرشتو! گواہ رھنا کہ میں نے اس کو بخش دیا، اور اس کو تمام مخلوقات کی تعداد کے برابرچاھے وہ جنت میں ھوں یا دوزخ میں، یاساتوں زمین و آسمان میں، یا چاند و سورج اور ستاروں، یا بارش کے قطرے، تمام پھاڑھوں یا ذرات زمین ، یا کرسی و غیرہ کے برابر اجر و ثواب دیا!!

اور جس وقت بندہ کہتا ھے:” یَا مَوْلاٰنَا “تو خداوندعالم اس کے دل کو ایمان سے بھر دیتا ھے۔

اور جس وقت بندہ کہتا ھے:”یَا غَایَةَ رَغْبَتِنَا،“تو خداوندعالم روز قیامت اس کو تمام مخلوقات کی خواھشات کے برابر عطا کرے گا۔

اور جس وقت بندہ کہتا ھے:” اٴَسْئَلُکَ یَا اللهُ اٴَنْلاٰتُشَوِّہَخَلْقِی بِالنَّارِ،“تو اس وقت خداوندعالم فرماتا ھے: میرا بندہ آتش جھنم سے آزادی چاہتا ھے،اے فرشتو! گواہ رھنا میں نے اس کو، اس کے ماں باپ، بھائیوں اور اھل و اولاد اور اس کے پڑوسیوں کو آتش جھنم سے آازد کردیا ھے، اور اس شخص کو ایک ہزار لوگوں کی شفاعت کا حق دیا ھے جن پر جھنم واجب ھوچکی ھے،اور ان سب کو آتش جھنم سے امان دیدی ھے۔

اس کے بعد جناب جبرئیل عرض کرتے ھیں: اے پیغمبرخدا! ان کلمات کو متقی اور پرھیزگار لوگوں کو تعلیم دیجئے، لیکن منافقین کو ان کی تعلیم مت دیجئے گا،دعا کرنے والے کے لئے یہ دعا مستجاب ھے، اور یہ دعائے اھل بیت المعمور ھے جب وہ اس کا طواف کریں۔[40]

قارئین کرام! اس بات پر توجہ رکھنا ضروری ھے کہ مذکورہ دعا کا عظیم ثواب سن کر تعجب نھیں کرنا چاہئے اور اس کو حقیقت سے دور نھیں سمجھنا چاہئے کیونکہ خدا وندعالم کا لطف و کرم اور اس کی رحمت بے نھایت اور اس کے خزانے تمام ھونے والے نھیں ھیں۔

حضرت علی علیہ السلام ” کَمْ مِنْ قَبیحٍ سَتَرْتَہُ “پڑھتے وقت بارگاہ الٰھی میں عرض کرتے ھیں: تو نے کتنی خطرناک بلائیں مجھ سے دور کیں (جیسے زلزلہ، طوفان، سیلاب، صاعقہ، آتش سوزی، تصادم، آسمانی بلائیں، قحطی، مھنگائی، سخت مصائب، عزیزوں کا داغ وغیرہ وغیرہ)۔ اور مجھے بہت سے لغزشوں سے محفوظ کیا، (اگر ان لغزشوں سے دوچار ھوجاتا تو میرا ایمان ختم ھوجاتا، میرے اخلاق کا شجرہ طیبہ جل اٹھتا، میرے نیک اعمال تباہ و برباد ھوجاتے، مخلوقات میں میری آبرو ختم ھوجاتی وغیرہ وغیرہ) اگر میں ان لغزشوں میں گرفتار ھوجاتا تو میری زندگی کا چین و سکون اٹھ جاتااور پریشانی و اضطراب میں غرق ھوجاتا، میری آنکھوں سے نیند اڑجاتی، میرے دل و جان میں تنگی اور سختی پیدا ھوجاتی،(تو نے ان تمام پریشانیوں کو مجھ سے دور کیا،حالانکہ میرا نامہ اعمال گناھوں سے بھرا ھوا ھے، لیکن )تو نے لوگوں کے سامنے (مثلاً ماں باپ، بھائی بھن اور رشتہ داروں کے درمیان) میری بہت زیادہ تعریف اور نیکیاں پھیلادیں، اور ان کے سامنے مجھے ایسا آبرومند اور صاحب عزت بنادیا(کہ وہ مجھے سب سے اچھا سمجھتے ھیں اور میری مدح و ثنا کرتے ھیں) حالانکہ میں اس چیز کا اھل نھیں تھا!!

”اٴَللّٰھُمَّ عَظُمَ بَلاٰئِي،وَاٴَفْرَطَ بيسُوٓءُ حٰالي،وَقَصُرَتْ بياٴَعْمٰالِی،وَقَعَدَتْ بِياٴَغْلاٰلِي،“‘

” خدایا میری مصیبت عظیم ھے ۔میری بدحالی حد سے آگے بڑھی ھوئی ھے ۔میرے اعمال میں کوتاھی ھے۔مجھے کمزوریوں کی زنجیروں نے جکڑکر بٹھا دیا ھے“۔

یہ فقرات اس معنی کی نشاندھی کررھے ھیں : گناھوں کا بیمار، معصیت کا اسیر اورمادی تعلقات کی وجہ سے نھایت پریشان ؛ ماھر طبیب اور حکیم و قادر و توانا کے حضور پھنچ گیا ھے۔ ایسا مھربان طبیب جس نے اپنی رحمت و محبت کی بنا پر خود بیمار کو دعوت دی ھے تاکہ اسے شفا بخش معجون کھلائے، اس کے درد کا علاج کرے اور اس کو مادی پریشانیوں اور سختیوں سے نجات دے۔

بلاء کے معنی

صاحبان کرامت ،اھل دل اور علماء عرفان نے ”اٴَللّٰھُمَّ عَظُمَ بَلاٰئِي،وَاٴَفْرَطَ “ میں لفظ ”بلاء“ کے معنی بیان کرتے ھوئے درج ذیل حقیقت کی طرف اشارہ کیا ھے:

۱۔ گناہ و معصیت

علماء عرفان فرماتے ھیں:”بلاء“ سے مراد گناہ و معصیت ھے جو سب سے بڑی بلاء اور سب سے بڑی بیماری ھے۔ گناہ ایک ایسی خطرناک بیماری ھے کہ اگر انسان توبہ کرکے خدا کی طرف نہ پلٹے اوراعمال صالحہ بجالاکر ان کا تدارک اورعلاج نہ کرے تو اس کا دل مردہ ھوجاتا ھے اور جب انسان کادل مرجاتا ھے تو پھر خدا اور روز قیامت سے اس کا رابطہ ٹوٹ جاتا ھے، اور یہ بات واضح ھے کہ جب انسان کا خدا اور روز قیامت سے رابطہ ٹوٹ جاتا ھے تو انسان ھمیشہ ھمیشہ کے لئے بد بخت ھوجاتا ھے اور رحمت الٰھی سے محروم ھوجاتا ھے۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام ”توبہ کرنے والوں کی مناجات“ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ فرماتے ھیں:

”اٴَمَاتَ قَلْبِی عَظِیْمُ جِنَایَتِی“

”میرے عظیم ظلم و جنایت نے (جو میرے گناہ ھیں) میرے دل کو مردہ کردیا ھے“۔

جناب ابوذر ۻسے سوال کیا گیا:

کس بیماری میں مبتلا ھو؟

جواب دیا: اپنے گناھوں کی بیماری میں گرفتار ھوں۔

ایک اھم سوال و جواب

امین اسلام مرحوم طبرسی اپنی عظیم الشان تفسیر ”مجمع البیان“ میںسورہ واقعہ کی تفسیر کے مقدمہ میں روایت بیان فرماتے ھیں: عثمان بن عفان، عبد اللہ بن مسعود کی مرض الموت کے وقت عیادت کے لئے جاتے ھیں، اور عبد اللہ سے سوال کرتے ھیں: آپ کس چیز سے پریشان ھیں؟ تو انھوں نے کھا: اپنے گناھوں سے۔ سوال کیا کس چیز کی طلب ھے؟ تو انھوں نے جواب دیا: رحمت پروردگار کاطالب ھوں۔ پوچھاکیا کسی طبیب کو بلاؤں؟ تو جواب دیا: طبیب نے مجھے مزید بیمار کردیا ھے، کھا کہ کیا بیت المال سے تمھارا حق دیدوں،فرمایا: جس وقت اس کی ضرورت تھی تو تم نے نہ دیا اور اب جبکہ اس کی ضرورت نھیں ھے دینے کے لئے تیار ھو! کھا : کچھ پیش کئے دیتا ھوں تاکہ تمھاری بچیوں کے کام آسکے، توفرمایا: میری لڑکیوں کو بھی اس کی ضرورت نھیں ھے، کیونکہ میں نے ان سے کہہ رکھا ھے کہ سورہ واقعہ کو پڑھتی رھا کریں، کیونکہ میں نے رسو ل خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے سنا ھے کہ جو شخص ھر شب سورہ واقعہ کی تلاوت کرے گا،تو ھر گزوہ فقرو فاقہ میں نہ رھے گا۔

اُویس قرنی سے گفتگو

عطّار ”تذکرة الاولیاء“ میں ھرم بن حیان سے روایت کرتے ھیں : ھرم کہتا ھے کہ میں نے جس وقت اویس قرنی کی شفاعت کے بارے میں سنا تو ان کی ملاقات کے لئے بے قرار ھوا ،اورکوفہ کی طرف روانہ ھوا اور ان کو تلاش کرنے لگا، یھاں تک کہ ان کو ڈھونڈ لیا، دیکھا کہ وضو فرما رھے ھیں، مجھے دیکھتے ھی فرمایا: اے ابن حیان!تم یھاںکیوں آئے ھو؟کھا: آپ سے قربت حاصل کرنے کے لئے، اویس قرنی نے جواب دیا: میں ھر گز یہ گمان نھیں کرتا کہ جو شخص خدا سے قربت رکھتا ھو وہ اس کے علاوہ کسی غیر سے انس حاصل کرے، میں نے کھا: آپ مجھے نصیحت فرمائیں۔ ( اویس قرنی نے نصیحت کرنا شروع کی:)

”اے حیان کے بیٹے جب سونے کے لئے بستر پر جاؤ تو موت کو تکیہ کے نیچے تصور کرو، اور جب اٹھو تو موت کو اپنے اردگرد تصور کرو۔ اے ابن حیان! یہ نہ دیکھو کہ گناہ چھوٹے ھیں یا کم، بلکہ خداوندعالم کی کبریائی کو مد نظر رکھو کہ کس عظیم خدا کی مخالفت کررھے ھو، کیونکہ اگر گناہ کو سُبک سمجھ رھے ھو تو تم نے خدا کو بھی سُبک سمجھ لیا ھے!!

۲۔ مقام قرب سے دوری

فرماتے ھیں: ”بلاء“ سے مراد خداوندعالم کے مقام قرب سے دور ھونا ھے، وہ بلند مقام جو ایمان، اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ کے ذریعہ حاصل ھوتا ھے، وہ مقام جس کی وجہ سے انسان خداوندعالم کی خوشی و خوشنودی کوحاصل کرلیتا ھے، نیز اسی مقام کی بنا پر انسان روز قیامت انبیاء، صدیقین اور شھداء و صالحین کا ھم نشین قرار پائے گا۔

جو لوگ اس عظیم مقام سے ھمیشہ دوررہتے ھیں آخر کار ان کے اندر سے انسانیت اور آدمیت، ایمان و عمل صالح اور نیک کردار کا خاتمہ ھوجاتا ھے۔ جھاں پر شیطانوں، چوپایوں اور وحشی جانوروں کی جگہ ھے۔ یہ وہ جگہ ھے کہ جھاں پر انسان ظلم و ستم، فسق و فجوراور گناہ و معصیت کے علاوہ انجام ھی نھیں دیتا!!

لیکن جو افراد مقام قرب کی طرف ھمیشہ قدم بڑھاتے ھیںوہ خداوندعالم کے خاص لطف و کرم سے فیضیاب ھوتے ھیں، جس کے سبب مکمل خوشی اور شوق و رغبت کے ساتھ عبادت الٰھی اور خدمت خلق میں مشغول رہتے ھیںاور ھمیشہ نیک کاموں میں لگے رہتے ھیں۔

یہ افراد ھمیشہ اس معنوی تحریک میں ھمہ تن مشغول رہتے ھیں اور مخلصانہ بندگی کے علاوہ کوئی اور مشغلہ نھیں رکھتے، نیز معشوق کے دیدار کے علاوہ کسی چیز کی خواھش نھیں رکھتے۔

ان حضرات کا دل ھمیشہ بارگاہ الٰھی سے فیضیاب ھوتا رہتا ھے اور پھر انسان کے سارے وجود میں اس کا اثر پھنچتا رہتا ھے۔

حضرت یوسف قرب الٰھی کی طرف قدم بڑھاتے ھوئے اورفیض الٰھی کو حاصل کرتے ھوئے اپنے چھوٹے سے مکان کو مسجد اور مکان عبادت میں تبدیل کرتے ھیں، اور اپنے راستہ میں خواب کے عالم میں آئندہ زمانے کی طرف پرواز کرتے ھیںاور اپنے بلند مقام و عظمت کا مشاھدہ کرتے ھیں، وہ کنویں کی گھرائی کو اپنے معشوق سے راز و نیاز کا بہترین مکان قرار دیتے ھیں، اور عزیز مصر کے محل کو (جو زلیخاکی پسپائی و بد بختی کی جگہ تھی) اپنے لئے تقویٰ و پرھیزگاری کی معراج کا محل بناتے ھیں، زندان مصر کو اپنے لئے عبادتگاہ اور دوسروں کی ھدایت کا مرکز قرار دیتے ھیں، خزانہ کی ذمہ داری ، امانت داری کا مرکز اور عزیز مصر کے عھدہ کو بندگان خدا کی خدمت کا مقام قرار دیتے ھیں اور ان تمام چیزوں کے ذریعہ خداوندعالم کے مقام قرب کو حاصل کرلیتے ھیں۔

۳۔ جھل و نادانی

علمائے ربّانی کہتے ھیں کہ ” بلاء “ سے مراد جھل و نادانی ھے جو تمام ھی بلاؤں اور بدبختیوں کا سرچشمہ اور ابدی شقاوت کا مرکز ھے۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام ”جھل اور جاھل“ کے سلسلہ میں چند حدیث بیان فرماتے ھیں:

”الجَہْلُ داءٌ وَعَیاءٌ“[41]

”جھل بیماری اور ناتوانی ھے“۔

” الجَہْلُ اَدْوَاٴُ الدَّاءِ“[42]

”جھل و نادانی سب سے بڑی بیماری ھے“۔

”الجَہْلُ مُمیتُ الاٴَحْیاءِ وَمُخَلِّدُ الشَّقاءِ“[43]

”جھل زندگی کو تباہ کرنے والا اور ھمیشگی شقاوت و بدبختی کا باعث ھے“۔

”الجَاہِلُ لَا یَعْرِفُ تَقْصِیرَہُ وَلَا یَقبلُ مِنَ النَّصِیحِ لَہُ“[44]

”جاھل اپنی غلطی کو نھیں پہچانتا اور دوسروں کی نصیحت کو قبول نھیں کرتا“۔

”الجَاہِلُ مَیِّتٌ وَاِنْ کَانَ حَیّاً“[45]

”جاھل مردہ ھے اگرچہ (بظاھر) زندہ ھے“۔

”الجَاہِلُ صَخْرَةٌ لَا یَنْفَجِرُ مَاوٴُھا،وَشَجَرَةٌ لَا یَخْضَرُّ عُودُھا،وَاٴَرْضُ لَا یَظْہَرُ عُشْبُہَا“[46]

”جاھل ایک ایسا کوہ سنگ ھے جس سے پانی نھیں نکلتا، اور ایک ایسا درخت ھے جس کی شاخیں ھری نھیں ھوتیں، اور ایسی زمین ھے جھاں پر گھاس نھیں اُگتی“۔

حضرت علی علیہ السلام اپنی ایک دعا میں بارگاہ ربّ العزت میں عرض کرتے ھیں:

”اٴَنَا الجَاہِلُ عَصَیْتُکَ بِجِہْلِی،وَارْتَکَبتُ الذُّنُوبَ بَجَہْلِی،وَسَہَوتُ عَنْ ذِکْرِکَ بِجِہْلِی،وَرَکَنْتُ إِلَی الدُّنْیَا بِجِہْلِی“[47]

”میں وہ جاھل ھوں جس نے اپنے جھل کی بنا پر نافرمانی کی، اور اسی جھل کی بنا پر گناھوں کا مرتکب ھوا، اسی جھل کی بنا پر تجھے بھول گیا اور اسی جھل کی بنا پر دنیا سے رغبت پیدا کی“۔

بد حالی

بد حالی سے مراد اخلاقی برائیاں اور حالات کے نشیب و فراز ھیں جو خطرناک اور تباہ کن بیماریوں میں سے ایک ھے،علماء اھل بصیرت کی نظر میں یہ سب سے سخت اور سب سے بڑا پردہ ھے جس کی وجہ سے انسان حقائق اور الٰھی لطف و کرم اور خوشنودی پروردگار،راہ مستقیم پر چلنے اور قرآن و حدیث کے معنی سمجھنے سے محروم ھوجاتا ھے ،اور خداوندعالم کی بارگاہ سے دور ھوجاتا ھے!

”کَلّا اِنَّھُم عَن رَبِّھِم یَوْمَئِذٍ لَمَحجُوبونَ۔“[48]

”یاد رکھو انھیں روز قیامت پروردگار کی رحمت سے محجوب کردیا جائے گا“۔

خداوندعالم نے جس قدر برے صفات سے دوری کرنے اور نیک کردار اپنانے پر توجہ دی ھے،دوسری کسی چیز پر اتنی تاکید نھیں کی ھے۔ خداوندعالم نے قرآن مجید میں گیارہ قسمیںکھانے کے بعداھل تزکیہ کی کامیابی اور برے صفات والوں کی ناکامی کو بیان کیا ھے:

”قَد اٴَفْلَحَ مَنْ زَکَّاھَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاھَا۔“[49]

”بیشک وہ کامیاب ھوگیاجس نے نفس کو پاکیزہ بنا لیا اور وہ نامراد ھوگیا جس نے اسے آلودہ کردیا ھے“۔

بد حالی کی نشانیوں میں سے؛ چشم باطن کا اندھاپن، حقائق سے دوری،خدااور رسولکی باتوں کو سننے کے لئے بھراپن اور خداوندعالم کی رحمت کی خوشبو کو سونگھنے کے لئے قوہٴ شامہ میںخلل پیدا ھونا ھے:

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:

”خَصلَتَانِ لَا تَجْتَمِعانِ فِی مُوٴْمِنٍ:البُخلُ وَسُوءُ الخُلْقِ“[50]

”دو خصلتیں مومن میں جمع نھیں ھوسکتیں، ایک بخل اور دوسری بد اخلاقی“۔

حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ھے:

”لَا وَحْشَةَ اٴَوْ حَشُ مِن سُوءِ الخُلْقِ“[51]

”اخلاقی برائی سے ڈراؤنی کوئی چیز نھیں ھے“۔

نیز آپ ھی کا ارشاد ھے:

”سُوءُ الخُلْقِ شَرُّ قَرینٍ“[52]

”بد خلقی بد ترین ھم نشین ھے“۔

حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ارشاد فرمایا:

”اِنَّ العَبْدَ لَیَبْلُغُ مِنْ سُوءِ خُلقِہِ اٴسْفَلَ دَرَکِ جَہَنَّمَ“[53]

”بے شک انسان اپنے برے اخلاق کی وجہ سے جھنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ڈالا جائے گا“۔

عمل میں کوتاھی

اگر انسان سعادت مندی کا خواھش مند ھے، اور روحانی کمالات اور بھشت کا طالب ھے تو اس کے لئے ضروری ھے کہ قرآنی تعلیمات اور احادیث اھل بیت علیھم السلام کے مطابق عمل انجام دے۔ نیز شوق اور خلوص کے ساتھ کمر ھمت باندھے، تاکہ اپنے اعمال کی وجہ سے سعادت اُخروی، کمالات معنوی اور بھشت کے داخلہ کی قدرت حاصل کرسکے۔

انسان کے اعمال، اگر لباس معرفت سے برھنہ ھوں، رضائے الٰھی کے مطابق نہ ھوں، ان میں شوق و ھمت نہ ھو، سستی او رکاھلی کاسایہ ان پر ھو، خلوص کا نور ان پر جلوہ گر نہ ھو، اعمال کرنے والا؛ حق الناس، بخل، حسد، طمع، تکبراور غرور و نخوت سے آزاد نہ ھو تو پھر یہ اعمال کس طرح انسان کو ساحل نجات تک پھنچا سکتے ھیں اور اس کو ھلاکت سے بچا سکتے ھیں؟

حضرت علی علیہ السلام حالانکہ معنوی دولت سے مالا مال تھے، اپنی شب کی مناجات میں خداوندعالم کی بارگاہ میں گریہ و زاری کے عالم میں عرض کرتے ھیں:

”آہ مِنْ قِلَّةِ الزَّادِ وَبُعْدِ السَّفَرِ وَوَحْشَةِ الطَّریقِ!“[54]

”ھائے زاد راہ کی قلت ، طولانی سفر اور راہ کے خوف و خطر سے“۔

کبھی کبھی ضروری ھے کہ اولیاء اللہ کی عبادت کی تشریح کے سلسلہ میں گرانقدر کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تاکہ ان کے شوق عبادت اور اخلاص عمل کو دیکھ کر ھمارے اندر بھی شوق و جذبہ پیدا ھو، شاید اس طرح سے ھمارے دل میں نور کی چمک پیدا ھو اور ھماراضمیر جاگ جائے،ھمارے قدم خلوص کے ساتھ اٹھےںتاکہ منزل مقصود تک پھنچ جائیں اور معنوی حیات کی لذت کو حاصل کرسکیں۔

شھید راہ حق قاضی نور الله شوشتری اپنی کتاب ”مجالس المومنین“ میں بیان کرتے ھیں: جناب اویس قرنی نماز شب پڑھتے وقت کہتے تھے: یہ رکوع کی رات ھے،چلو اس رات کو رکوع کی حالت میںگزاردوں،دوسری رات میں کہتے تھے: یہ سجدہ کی رات ھے، چلو اس رات کو سجدہ کی حالت میں بسر کردوں! کسی نے ان سے کھا: اے اویس قرنی! تم میں اتنی لمبی رات کو عبادت کی طاقت کھاں سے آتی ھے؟

اویس قرنی جواب دیتے تھے: یہ رات کھاں طولانی ھیں، اے کاش یہ رات تا ابد رہتی تو میں اس کو سجدہ میں بسر کردیتا!!

زنجیر اور بیڑی

علمائے عرفان دعا کے اس فقرہ: ”وَقَعَدَتْ بِياٴَغْلاٰلِي،“کی وضاحت میں بیان کرتے ھیں کہ یہ احتمال پایا جاتا ھے کہ ”اغلال“ سے مراد گناہ کبیرہ ھوں جن کی وجہ سے انسان زمین گیر (اوراپاہج) ھوجاتا ھے، جوا طاعت و عبادت میں مانع ھوجاتے ھیں، اور فیض الٰھی سے محرومیت کے سبب انسان کنویں میں گرجاتا ھے۔ اس بات کے ثبوت پرحضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی ایک اھم روایت بھی ھے جس میں کسی شخص نے آکر سوال کیاکہ مولا! میں نماز شب پڑھتا تھا، لیکن ایک مدت سے نماز شب پڑھنے کی توفیق چھن گئی ھے، ! تو امام علیہ السلام نے فرمایا:

”اٴَنْتَ رَجُلٌ قَدْ قَیَّدَتْکَ ذُنُوبُکَ“[55]

”تیرے گناھوں نے تیرے پیر میںزنجیر ڈال دی ھے (اور تجھے راتوں میں عبادت کرنے سے روک دیا ھے، اور تجھے اپاہج کردیا ھے)

نیز یہ بھی احتمال ھے کہ ”اغلال“ سے دنیاوی اور مادی امور سے بہت زیادہ لگاؤمراد ھو جس کی وجہ سے انسان معنوی کمالات اور نیک کام کرنے سے رُک جاتا ھے۔

نیز یہ بھی ممکن ھے کہ اس سے وہ بے ھودہ کام مردا ھوں جن کے نتیجہ میں انسان حقیقی مقصد سے دور ھوتا چلا جاتا ھے، حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ھے:

”مِن حُسْنِ إِسلامِ المَرْءِ تَرکُہُ مَا لَا یَعْنِیہِ“[56]

”ایک مسلم مرد کے اسلام کی خوبی یہ ھے کہ وہ خود کو بے کار اور بے ھودہ امور سے روکے رکھے“۔

” وَحَبَسَنِي عَنْ نَفْعِی بُعْدُ اٴَمَلِی۔“

” اور مجھے دور دراز امیدوں نے فوائد سے روک دیا ھے۔“

طولانی آرزوئیں

امید اور آرزو وہ نعمت ھے جس کو خداوندعالم نے انسانی وجود میں قرار دیا ھے تاکہ وہ اس کے ذریعہ نیک کاموں میں مشغول رھے اور ان کے اچھے منافع و نتائج کی امید پر جیتا رھے۔ اگر یہ عظیم نعمت نہ ھوتی تو پھر کوئی انسان کسی کام میں مشغول نہ ھوتا، کسی کام میں دل نہ لگتا اور کسی طرح کی سعی و کوشش نہ کرتا۔

ایک روایت میں منقول ھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک بیابان میں بیٹھے ھوئے تھے ، انھوں نے دیکھا کہ ایک بوڑھا آدمی کھیتی کرنے میں لگاھوا ھے، جناب عیسیٰ نے دعا کے لئے ھاتھ اٹھادئے اور عرض کیا: پالنے والے! اس کے دل سے آرزوٴں کو ختم کردے! جناب عیسیٰ کی دعا قبول ھوئی تو دیکھا کہ اس بوڑھے نے بیلچہ زمین پر رکھ دیا اوروھیں پر سوگیا، اور گھنٹوں تک اسی طرح سوتا رھا، جناب عیسیٰ نے پھر دعا کی کہ خدایا! اس کی آرزو کو واپس پلٹادے، (دعا قبول ھوئی تو) وہ بوڑھا اٹھا اورپھلے کی طرح اپنے کامیں لگ گیا۔[57]

حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے:

”میری امت کے لئے آرزو رحمت ھے، اگر آرزو نہ ھوتو پھر کوئی ماں اپنے بچے کو دودھ نہ پلاتی، اور کوئی کسان کسی درخت کو نہ لگاتا“۔[58]

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام بارگاہ خداوندی میں عرض کرتے ھیں:خدایا! آرزوٴں میں جو حقیقی ترین آروزھے وہ عطا کر۔

”اَسْاٴَلُکَ مِنَ الآمَالِ اٴَوفَقُھا“[59]

”خدایا!میں تجھ سے سب سے بہتر آروز کی درخواست کرتا ھوں“۔

انسان کی نیک آروزئیں جیسے علم کے بلند درجات کی آروز، اخلاقی کمالات کی آرزو، سعادت دنیا و آخرت کی آرزو، اطاعت خدا اور خدمت خلق کی آروزاسی طرح باقیات الصالحات کی آرزو جیسے مساجد، مدرسے، امام بارگاہ، لائیبریریاں، ھاسپٹل، راستے وغیرہ بنانے کی آرزو، یہ وہ آرزوھیں جن کے ذریعہ انسان کے ایمان اور بلند ھمت کا اندازہ ھوتا ھے۔

لیکن اگر یہ آرزوئیں اور تمنائیں صرف دنیاوی اور مادی چیزوں سے متعلق ھوں اور حد سے زیادہ ان کا شیدائی ھو، اس حد تک کہ انسان کا چین و سکون چھن جائے، انسان میں حرص و لالچ اور بخل پیدا ھوجائے، حقوق الناس پامال ھونے لگے اور انسان میں خودپسندی اور غرور آجائے ، تو یہ وہ آرزوئیںھیں جو ناپسند، باطل اور ناحق ھیںاور یہ وہ شیطانی صفات ھیں، جن کی وجہ سے انسان خدا اور قیامت کو بھول جاتا ھے ، اور خدا کی اطاعت و بندگی سے محروم ھوجاتا ھے۔

اس سلسلہ میں اھل بیت علیھم السلام سے منقول روایات میں بہت سے اھم نکات کی طرف توجہ دلائی گئی ھے، لہٰذا ھر مومن کا فریضہ ھے کہ وہ ان چیزوں پر توجہ کرے (اور ان پر عمل بھی کرے ۔)

حضرت امیر المومنین علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ھیں:

”الَاٴمَلُ کَالسَّرَابٍ یَغِرُّ مَن رَآہُ وَیُخْلِفُ مِنْ رَجَاہُ“[60]

”(باطل و ناحق) آرزو،سراب کی مانند ھوتی ھےں کہ جو بھی اس کو دیکھتا ھے وہ دھوکا کھا جاتا ھے اور جو اس پر امید رکھے اس کی امید خاک میں مل جاتی ھے“۔

”اَلاٴَمَلُ خَادِعٌ غَارٌّ ضَارٌّ“[61]

”آرزوایک دھوکا دینے والی اور نقصان دہ چیز ھوتی ھیں“۔

”الاٴَمَانِیُّ تُعْمِی عُیونَ البَصَائِرِ“[62]

”آرزو ، انسان کی بصیرت کو اندھا کردیتی ھے“۔

”الاٴَمَلُ سُلْطَانُ الشَّیاطِینِ عَلَی قُلوبِ الغَافِلینَ“[63]

”آرزو، غافل لوگوں کے دلوں پر شیطانی حکمراں ھے“۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام خدا سے مناجات کرتے ھوئے آواز سنتے ھیں کہ:

”یَا مُوسَی!لَا تُطَوِّلْ فِی الدُّنْیَا اٴمَلَکَ فَیَقْسُوَ قَلْبُکَ،وَالقاسِی القلبِ مِنّی بَعیدٌ“[64]

”اے موسیٰ! دنیا میں اپنی آرزؤں کو نہ بڑھاؤ کیونکہ آرزوئیں تمھارے قلب کو سخت کردیں گی اورجو شخص سنگ دل ھوجاتا ھے وہ مجھ سے دور ھوجاتا ھے“۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام دعائے عرفہ میں بارگاہ رب العزت میں عرض کرتے ھیں:

”اٴَعوذُ بِکَ مِن دُنیا تَمْنَعُ خَیرَ الآخرَةِ، وَمِنْ حَیاةٍ تَمْنَعُ خَیرَالمَمَاتِ،وَمِن اٴَمَلٍ یَمْنَعُ خَیْرَ العَمَلِ“[65]

”پالنے والے! میں تجھ سے پناہ مانگتاھوں اس دنیا کے بارے میں جو بہترین آخرت سے روک دیتی ھے، اور اس زندگی سے جو بہترین (طریقہ سے)مرنے سے روک دیتی ھے، اور ان آرزؤں سے جو بہترین عمل سے روک دیتی ھیں“۔

حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ھے:

”مَنْ اٴیْقَنَ اٴنَّہُ یُفَارِقُ الاٴحْبَابَ وَیَسْکُنُ التُّرابَ وَیُواجِہُ الحِسَابَ وَیَسْتَغْنِی عَمّا خَلَّفَ وَیَفْتَقِرُ إِلَی مَا قَدَّمَ،کاَنَ حَرِیّاً بِقِصَرِ الاٴمَلِ وَطُولِ العَمَلِ“[66]

”جس شخص کو اس بات کا یقین ھے کہ (ایک روز یہ )موت دوستوں سے جدا کردے گی، اور مٹی کا گھر بنادے گی اور کل خداوندعالم کی بارگا ہ میں سارا حساب و کتاب دینا ھے اور جو چیزیں چھوڑکر جارھا ھے ان سے بے نیازھوگیا ھے اور جن چیزوں کو پھلے بھیج چکا ھے ان کی ضرورت ھے،تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنی آرزوٴںکو مختصر اورتلاش و جستجو کو زیادہ کرے“۔

لمبی لمبی آرزوٴں کی وجہ سے بعض اوقات انسان کوایسے ناقابل جبران نقصانات سے دوچار ھوناپڑتا ھے، جن کے ذریعہ انسان ھلاکت کے گڑھے میں گرپڑتا ھے اور خداوندعالم کے لطف و کرم سے محروم ھوجاتا ھے۔

انسان، پیدائش کے وقت ایک آمادہ کھیت کی طرح ھوتا ھے؛ اور جب تک اس کی یہ قابلیت باقی رہتی ھے تو فیض الٰھی کی بارش سے ایمان، اخلاق حسنہ اور اعمال صالحہ کے گل کھل اٹھتے ھیں ، لیکن اگر یہ صلاحیت و قابلیت غرور ، تکبر اور غفلت و حرص خصوصاً لمبی لمبی آرزؤںکی وجہ سے کھودے تو وہ بنجر زمین میں تبدیل ھوجاتا ھے،اور اس میں اخلاق حسنہ کے پھول اور عمل صالح کا شجرنھیں اگ پاتا۔

” وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُہُ بِإِذْنِ رَبِّہِ وَالَّذِی خَبُثَ لاَیَخْرُجُ إِلاَّ نَکِدًا۔۔۔“[67]

”اور پاکیزہ زمین کا سبزہ بھی اس کے پروردگار کے حکم سے خوب نکلتا ھے اور جو زمین خبیث ھوتی ھے اس کا سبزہ بھی خراب نکلتا ھے“۔

لمبی لمبی آرزوئیں جو مکڑی کے جالے اور ریشم کے کیڑے کی مانند انسان کے تمام باطن کو گھیر لیتی ھیں اور اس سے غور و فکر کی طاقت کو چھین لیتی ھیںاس وقت انسان حقائق کی طرف سے آنکھیں بند کرلیتا ھے اور خدا و قیامت کی یاد سے غافل ھوجاتا ھے۔

یقیناً انسان اپنی اس چند روزہ زندگی میں (لمبی لمبی ) آرزوٴں اور خیالات میں ڈوب جاتا ھے، اور ھر وقت آرزوٴں کے اس سراب میں اپنی امیدوں کو حاصل کرنے کے لئے، بے حساب مال و دولت اور دنیا بھر کے ساز و سامان اکٹھا کرنے میںھی اپنی پوری زندگی صرف کردیتا ھے اور اپنی تمام تر توجھات کو دنیاوی امورمیں مصروف کرلیتا ھے ،پھر ایسا انسان کس وقت خدا کو یاد کرپائے گا، اور نیک اعمال انجام دینے کے لئے وہ کس وقت فرصت پائے گا ، اور اپنی اصلاح اور گزشتہ گناھوں کی تلافی کے لئے کب وقت نکال پائے گا۔!!

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ایک بہت اھم روایت میں بیان فرماتے ھیں:

”اِنَّ اَخْوَفَ مَااَخافَ عَلَیْکُم خَصْلَتَانِ اِتِّباعُ الھَوَی وَطُولُ الاٴَمَلِ ،اٴمَّا اِتِّباعُ الھَوَی ،فَیَصُدُّ عَنِ الحَقِّ، وَاٴمَّا طُولُ الاٴَ مَلِ، فَیُنْسِی الآخِرَةَ “[68]

”میں تمھارے بارے میں دو خصلتوں سے ڈرتا ھوں: ایک ھوائے نفس کی پیروی سے دوسرے لمبی لمبی آرزوٴں سے کیونکہ ھوائے نفس کی پیروی آدمی کو حق قبول کرنے سے روکتی ھے، اور لمبی لمبی آرزوئیں آخرت کی یاد کو بھلادیتی ھیں۔

ان خطرناک زنجیروں اور تباہ کنندہ بیڑیوں سے رھائی کے لئے ضروری ھے کہ ھم گزشہ افراد کے حالات کو دیکھیں، دینی پروگراموں میں شرکت کریں، تاریخی کتابوں کی ورق گردانی کریںاور قرآن و اھل بیت علیھم السلام کی احادیث پر دقت کریں، نیز قبرستانوں میں جائیں قبروں کے درمیان سے گزریںاور قبر میں سوئے ھوئے مردوں کے حالات کے بارے میں غور و فکر کریں، یہ تمام چیزیں ان زنجیروں اور بیڑیوں سے نجات دے سکتی ھیں۔

جی ھاں! جس وقت انسان کے دل میں آرزوٴں کا سیلاب اٹھ رھا ھو اور بے جا خواھشات کا طوفان جان و دل میں ٹھاٹیں مار رھا ھو تو پھر انسان دنیا و آخرت کے حقیقی فائدوں، زندگی کے حقیقی منافع اور عقل و فکر جیسی بے بھا اشیاء کو کھو بیٹھتا ھے۔

ایک عجیب و غریب حکایت

”عطّار نیشاپوری“ روایت کرتے ھیں کہ ایک روز ”حسن بصری“کسی جگہ چلے جارھے تھے، راستہ میں ”دجلہ“سے گزرنا تھا کشتی کے انتظار میںکھڑا تھا، اچانک دیکھا کہ ”حبیب اعجمی“ (جو بہت بڑے عابد و زاھد تھے) چلے آرھے ھیں، انھوں نے کھا: آپ یھاں کیوں کھڑے ھوئے ھیں؟ جواب دیا کہ میں کشتی کے انتظار میں ھوں، حبیب نے کھا : اے استاد میں نے آپ سے تعلیم حاصل کی اور اسی کے دوران آپ سے یہ بات بھی سیکھی ھے :

”لوگوں سے حسد اور لمبی لمبی آرزؤں کو دل سے نکال دو، یھاں تک کہ دنیا (کے حصول )کی آگ تمھارے اندر خاموش ھوجائے، اس وقت (خداوندعالم اس مقام پر پھنچادے گا کہ) پانی پر پیر رکھتے ھوئے اس سے گزر جاؤ گے“۔

یہ کہہ کر حبیب نے پانی پر چلنا شروع کر دیا اور دریا کے اس طرف پھنچ گئے؛ یہ دیکھتے ھی حسن بصری بے ھوش ھوگئے، اور جب ھوش آیا تو لوگوں نے ان سے پوچھا:

”تمھیں کیا ھوگیا ھے؟ جواب دیا کہ اس شخص نے مجھ سے علم حاصل کیا اور آج مجھے ملامت کرتا ھوا پانی سے گزر گیا، اگر کل روز قیامت آواز قدرت آئے کہ پل صراط سے گزر جاؤ اور میں اسی طریقہ سے رہ جاؤں توپھر کیا ھوگا!!۔

اس کے بعد حبیب سے سوال کیا آپ اس عظیم مقام تک پھنچے ھو؟ تو انھوں نے جواب دیا: اے حسن! میں دل کو سفید کرتا ھوں اور تم کاغذ کو سیاہ کرتے ھو!! اس وقت حسن بصری نے کھا:

”عِلْمِی یَنْفَعُ غَیْرِیْ وَ لم یَنْفَعْنِی۔“

”میرا علم دوسروں کو فائدہ پھنچاتا ھے اور میں اس سے فائدہ نھیں اٹھاتا“۔

” وَخَدَعَتْنِی الدُّنِّیٰا بِغُرُورِھٰا۔“

” اور دنیا نے دھوکہ میں مبتلا رکھا ھے“

دنیا کی اچھائیوں اور برائیوں نیز اس کے مکر و فریب کو نفسانی حالات اور انسانی تفکرات کی ترازو میں تولنا چاہئے جو شخص اپنے نفس کا اسیر ھو اور اس پر بے ھودہ خیالات کا غلبہ ھو، نیز تکبر، غرور، طمع و لالچ اور بخل جیسی بری عادتوں میں غرق ھو ، اور خدا و قیامت سے غافل ھواسی طرح وہ انبیاء کی نبوت اور ائمہ علیھم السلام کی امامت سے بے خبر ھو ، دنیاوی زرق و برق مال و منال اورمقام و ریاست سے دھوکا کھائے ھوئے ھو اور یہ عقیدہ رکھتا ھو کہ یھی چیزیں بنیادی اور اصل ھیں ان کے علاوہ سب چیزیں بے حقیقت ھیںاور اپنی پوری زندگی انھیں کے لئے خرچ کردے،ایسا انسان موت کے وقت جب ان مادی نعمتوں کے چھوڑنے کا وقت آتا ھے تو بےدار ھوتا ھے، تب اسے یہ سب چیزیںبے حقیقت نظر آتی ھیںاور جن چیزوں کے لئے دن رات محنت کرتا تھا اور اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لاتا تھا وہ سب ایک دھوکا دکھائی دینے لگتی ھےںاور اس وقت وہ ایمان اور عمل صالح کی دولت سے خالی ھاتھ نظرآتا ھے اور اس دوسری دنیا میں منتقل ھوجاتا ھے ۔

تاریخ کے فرعون اور قارون پیدائش کے وقت سے فرعون و قارون نھیں تھے، بلکہ ان کے غلط تفکرات اور خواھش نفسانی نے ان کو فرعون اور قارون بنا دیاتھا۔

لیکن اگر انسان ھوائے نفس کی گندگی سے پاک ھو ، ناپاک خیالات سے دور ھو، اخلاقی برائیوں کا طوفان اس کے دل میں نہ اٹھتا ھواور خداورسول ، ائمہ(ع) اور قیامت کی معرفت رکھتا ھوتو وہ اس دنیا کو آخرت کے سنوارنے اور اعمال صالحہ بجالانے کا وسیلہ سمجھتا ھے اور اپنی تمام زندگی کوانھیں حقائق کوحاصل کرنے میں صرف کردیتا ھے۔

حضرات ائمہ معصومین اور انبیاء علیھم السلام بھی انسان تھے لیکن اس دنیا کے زرق و برق اور مادی امور میں گرفتار نھیں ھوئے اور امور دنیا سے دھوکا نھیں کھائے۔

وہ اھل بصیرت علماء جو دل کی آنکھ سے تمام چیزوں کی حقیقت کا مشاھدہ کرتے ھیں، ان حضرات نے لوگوں کو پند و نصیحت کی ھے تاکہ ان کے دل بیدار ھوجائیں ھمیں ان سے عبرت حاصل کرنا چاہئے ۔

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ھیں: میں باغ فدک کے ایک حصے میں بیلچہ سے کام کررھا تھا (وہ فدک جو جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا سے مخصوص تھا) اچانک ایک عورت کو دیکھا، جو شریف اور بزرگوار دکھائی دے رھی تھی مجھے محسوس ھوا کہ یہ ”ثنّیہ بنت عامر جمحی“ھے، جو قریش کی عورتوں میں حسن و جمال سے مشھور تھی۔

مجھے دیکھ کر وہ کھنے لگی : کہ: اے ابن ابی طالب! کیا مجھ سے شادی کروگے؟ اگر آپ چاھیں تو میں تیار ھوں، اس صورت میں، میں تمھاری مددگار ثابت ھوں گی، اور اپنی معاشی زندگی کے لئے آپ کو اس طرح کا کام نھیں کرنا پڑے گا، میں زمین کے خزانوں سے با خبر کردوں گی اور ایسے مواقع فراھم کروں گی کہ دنیا میں بادشاہ بن جائیں گے۔

میں نے کھا: تو کون ھے جو میں تجھ سے شادی کروں؟

اس نے جواب دیا: میں دنیاھوں۔

میں نے کھا: جا، میرے علاوہ کسی دوسرے کو تلاش کر، جا میں نے تجھے تین بار طلاق دی جس کے بعد رجوع کی کوئی گنجائش باقی نھیں رہتی۔[69]

قارئین کرام ! جو شخص دنیاوی امور اور اس کے زرق و برق میں کھوگیا گویا وہ ھمیشہ ھمیشہ کے لئے ھلاک ھوگیا، اور اس نے دنیا سے صحیح فائدہ نہ اٹھاکر اپنی آخرت کو تباہ کرلیا لیکن اگر کوئی شخص اس دنیا سے بے رغبت ھو تو ایسا شخص آخرت کے ابدی فائدوں اور خوشنودی خدا کے خزانہ سے مالا مال ھوجاتا ھے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

”مَنْ زَھِدَ فِی الدُّنْیَا اٴثبَتَ اللهُ الحِکمَةَ فِی قَلْبِہِ ،وَاٴَنطَقَ بِھَا لِسانَہُ، وَ بَصَّرَہُ عُیوبَ الدُّنْیَا وَ داءَ ھا وَ دَواءَ ھا ،وَ اٴَخرَجَہُ مِنَ الدُّنْیَا سَاِلماً اِلَی دارِ السَّلامِ“[70]

”جو شخص دنیا سے اعراض کرے او ر اس سے بے رغبتی دکھائے، تو خداوندعالم اس کے دل میں حکمت کو قائم کردیتا ھے، اور اس کی زبان پر حکمت کے کلمات جاری کردیتا ھے، اور اس کے دل کی آنکھوں کو دنیاوی عیوب، بیماری اوراس سے شفا کی طرف کھول دیتا ھے، اور اس کو دنیا سے صحیح وسالم اور بے عیب نکال کر دار السلام کی طرف لے جاتا ھے“۔

جناب لقمان حکیم اپنے بیٹے سے فرماتے ھیں:

”یا ُبنَیَّ! اِنَّ الدُّنْیاَ بَحْرٌ عَمیقٌ ،قَدْ غَرِقَ فِیھَا عَالَمٌ کَثیرٌ،فَلْتَکُنْ سَفِینَتُکَ فیھَا تَقْوَی اللّٰہِ ،وَحَشْوُھَا الإیمَانَ،وَ شِراعُھَا التَّوَکُّلَ ،وَ قَیِّمُھَاالعَقْلَ،وَدَلِیلُھَا العِلْمَ،وَ سُکّانُھَا الصَّبرَ“[71]

” بیٹا! یہ دنیا ایک گھرا سمندر ھے، جس میں بہت سے غرق ھوچکے ھیں، لہٰذا اس میں تقویٰ الٰھی کی کشتی بناؤ، اور اس میں ایمان (وعمل صالح) کو رکھو، اس کے بادبان کو توکل خدا قرار دو اور عقل کو اس کا ناخدابناؤاور علم و معرفت کا اس میں چراغ جلاوٴ اور صبر و استقامت کو اس کی سواری قرار دو“۔

حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے:

”کُن فِی الدُّنْیَا کَاٴنَّکَ غَرِیبٌ اٴَوْ کَاٴنَّکَ عابِرٌ سَبیلٍ،وَعِدَّ نَفسَکَ فِی اٴصحَابِ القُبورِ“[72]

”دنیا میں مسافر کی طرح رھو، یا اس دنیا میں گزرنے والے ھو، تم اپنے کو اھل قبور میں شمار کرو“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے تھے:

”یَابْنَ جُنْدَبٍ! اِنْ اٴَحْبَبْتَ اٴنْ تُجَاوِرَ الجَلیلِ فِی دَارِہِ، وَتَسْکُنَ الفِردَوْسَ فِی جَوَارِہِ فَلْتَھُنْ عَلَیْکَ الدُّنْیَا“[73]

”اے جندب کے بیٹے ! اگر تم یہ چاہتے ھو کہ آخرت میں خداوند عالم کے پڑوسی قرار پاؤ اور اس کے نزدیک جنت الفردوس میں مسکن قرار دو، تو تم دنیا کو کوئی اھمیت نہ دو“۔

قرآن مجید کی آیات اور اھل بیت علیھم السلام کی روایات سے استفادہ ھوتا ھے کہ اگر دنیا کو نیک کام کرنے اور اعمال صالحہ بجالانے کا وسیلہ قرار دیا گیا اور اس دنیا کے ذریعہ آخرت کو آباد کیا گیا تو یقینایہ دنیا ایک باارزش اور قیمتی چیز ھے، لیکن اگر اس دنیا کو ظلم و ستم اور گناہ ومعصیت کی جگہ قرار دیا گیا جس کی وجہ سے انسان کی آخرت تباہ ھوجاتی ھے تو یہ دنیا ناپسندیدہ اور بے ارزش ھے غرض یہ کہ دنیا کی خوبی اور برائی انسان کے عقائد وحالات کے لحاظ سے ھوتی ھیں، اگر انسان اس دنیا میں رہ ایمان، عمل صالح اور بلند اخلاق کو اپنا شعار بنائے تو واقعاً یہ دنیا انسان کے لئے سو فی صد مفید ھے، لیکن اگر اس دنیا میں ر ہ کر کفر و شرک ، گناہ و معصیت اور ناشکر ی و بداخلاقی میں گرفتار ھوجائے تو پھر یھی دنیا انسان کے لئے سو فی صد نقصان دہ ھے۔

قارئین کرام! انسان کے دنیا سے رابطہ رکھے بغیر دنیا کے بارے میں فیصلہ کرنا مشکل ھے، لہٰذا دنیا کے بارے میں گفتگو اسی رابطہ کی جاسکتی ھے اور اس کی اچھائیوں اور برائیوں کے بارے میں فیصلہ کیا جاسکتا ھے۔اس دنیا کے لگاؤ کی بنا پر انسانی فکر وشعور میں جو خلل واقع ھو تا ھے اسی وجہ سے اس کو مکر و فریب کا مرکز کھا جاتا ھے۔دنیا کی برائیاں ایسی ھیںکہ گویاوہ ایک مکان میں جمع ھوگئی ھیں جس کی کنجی خود اسی دنیا کی محبت ھے۔

اس دنیا میں آنا آسان ھے، لیکن اس سے صحیح و سالم چلے جانا بہت مشکل ھے،اگر آخرت مٹی کے برتن کی طرح ھوتی لیکن ھمیشہ رھنے والی ا ور یہ دنیا سونے کے برتن کی طرح ھوتی لیکن فانی توبھی دنیا کی نسبت آخرت کے بارے میںزیادہ رغبت ھونا چاہئے تھی اور جب معاملہ ھی الٹا ھو یعنی آخرت سونے کے برتن کی طرح اور باقی رھنے والی اور دنیا مٹی کے برتن کی طرح اور فانی تو پھر توآخرت کی طرف اور بھی زیادہ رغبت ھونا چائیے ۔

ابو حازم مکّی کہتے تھے: تمھیں دنیا سے بچنا چاہئے، کیونکہ مجھ تک یہ بات پھنچی ھے کہ روز قیامت بندہ کو حساب و کتاب کے لئے لایا جائے گا اور خدا کی طرف سے منادی ندا دے گا کہ یہ وہ بندہ ھے جس نے خدا کی سُبک کردہ چیزوں کو اھمیت دی ھے ا ور جس چیز کو خدا نے ناپسند فرمایا تھا اس نے اس کو دوست اور پسندیدہ قرار دیا ھے ۔

”وَنَفْسی بِجِنٰایَتِھٰاوَمِطٰالی۔“

”اور نفس نے خیانت اور ٹال مٹول میں مبتلا رکھا ھے۔“

نفس، ایک ایسی چیز ھے جس کی حقیقت کو سمجھنا یا بہت مشکل یا ناممکن ھے؛ لیکن اس کے آثار کی شناخت قرآن و حدیث کی روشنی میں کوئی مشکل کام نھیں ھے۔

اگر نفس کی تربیت و تذکیہ نہ کیا جائے تو نافرمانی اور ھواو ھوس کا شکار ھوجائے گا اور پھر اس کے ذریعہ کوئی بھی گناہ انجام دینا بہت آسان ھوجائے گا۔

”ھوا“ کے لغوی معنی :” راستہ کے انتخاب میں اوپر سے نیچے اور ھلاکت کی طرف گرنے۔“کے ھیں، جس کے معنی یہ ھوںگے کہ ”مادی یا معنوی امور سے بہت زیادہ محبت رکھنا“۔

”ھوس“ کے لغوی معنی: ”ٹوٹنا، فساد اور حیرت وپریشانی میں سرگراں ھونے“ کے ھیں۔

نفسیات کے لحاظ سے”ھوس“ کے معنی: ”اضطراب کی حالت میں کسی سلسلہ میں کوئی قدم اٹھانا جس کی بنا پر ھوس باز کو کسی طرح کا کوئی آرام نصیب نہ ھو، جیسے: حبّ، بغض، کینہ، خشم اور نفرت“۔

جو شخص ھر وقت اپنی ھوس کا شکار ھوتا ھے اسے ”بو الھوس“ اور ”دم دمی“ کھا جاتا ھے، بو الھوس اور بے قرار میں کمال کی طرف ایک قدم اٹھانے کی بھی طاقت نھیں ھوتی ھے۔

کمال و بلندی کی طرف حرکت کرنے کی شرط یہ ھے کہ انسان چین و سکون سے ھولیکن جب انسان ھوس کاشکار ھوجاتا ھے تو وہ پریشان رہتا ھے اوراس کی عقل کام نھیں کرتی۔

بچوں پر ھوس کی حکومت ھوتی ھے لہٰذا ان کی دیکھ بھال ضروری ھے تاکہ ان میں ھوس ھمیشہ کے لئے اپنی جگہ نہ بنالے اور وہ ھوس باز نہ بن جائیں۔

اسی طرح عورت پر بھی فطری لحاظ سے ھوس کا غلبہ ھوتا ھے، اور چھوٹی سے چھوٹی چیزپر نظر رکھتی ھے،اور (عورت کو )ھونا بھی ایسا ھی چاہئے، کیونکہ اس کی خلقت کی حکمت کی بنا پر گھر کے اندر کی ذمہ داری اسی پر ھوتی ھے، لہٰذا اس کو چھوٹی چھوٹی چیزوں کی طرف متوجہ رھنا چاہئے، اور عورت حسد کی وجہ سے زیادہ پریشان ھوتی ھے،پس اس سرکش خواھش کوتعلیم و تربیت اور عقل کی اطاعت کے ذریعہ ختم کیا جانا چاہئے۔

عام طور پر جب ھوس کو آزاد کردیا جاتا ھے یعنی جب ھوس پر عقل کی لگام نھیں ھوتی تو یہ شھوت میں تبدیل ھوجاتی ھے اور جب خود اپنی عقل یا دوسروں کی عقل کے ذریعہ اس پر کنٹرول نہ کیا جائے تو حد سے آگے بڑھ جاتی ھے یھاں تک کہ مرض او رجنون کی حد تک پھنچ جاتی ھے!!

بعض انسانوں میںاس مرض اور جنون کو حرص ، لالچ اور جاہ طلبی کی صورت میں اچھے طریقہ سے دیکھا جاسکتا ھے، آپ حضرات دیکھےں کہ وہ لوگ کس طریقہ سے اندھے او رگونگے بن جاتے ھیں اور اپنے مقصد تک پھنچنے کے لئے کسی بھی طرح کے ظلم و ستم اوربرائی سے باز نھیں آتے، یھاں تک کہ اسلام کے مسلّم اصول کو بھی نظر انداز کردیتے ھیں،اور یھی نھیں بلکہ وطن فروش اور دشمن کے غلام بننا پسند کرلیتے ھیں۔

اس طرح کے لوگوں سے دوستی اور عھدو پیمان کی کوئی توقع نھیں رکھنا چاہئے کیونکہ ان کا معشوق ایک ھوتا ھے جس پر تمام چیزوں یھاں تک کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی قربان کردیتے ھیں!!

ایسے لوگوں کے نزدیک وھی دوست اور مقرب ھوتا ھے جو ان کے برے مقاصد تک پھنچنے کا ذریعہ ھوتا ھے ، اور یہ لوگ دلی طور پر متقی افراد سے بیزار ھوتے ھیں۔

قارئین کرام! جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ ھوس؛ شھوت میں اور شھوت؛ جنون میں بدل جاتی ھے ، اس کی وجہ یہ ھے کہ یہ لوگ شھوت کے مقابلہ میں اپنی عقل کھوبیٹھتے ھیں، دیوانہ وھی ھوتا ھے جو اپنی عقل سے کام نھیںلے سکتا ھے، اور مریض وھی ھوتا ھے جو اپنے مرض کے مقابلہ میں مغلوب ھوجاتا ھے۔

جاہ طلبی کی خواھش، دوسری شھوتوں سے زیادہ شدید ھوتی ھے، دنیا نے اس شھوت کی بنا پر بہت زیادہ نقصان اٹھایا ھے، اس سلسلہ میں تاریخ کے خونین واقعات شاھد ھیں، باپ نے اپنی اولاد، بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں کو قتل کرڈالا ھے، اور اولاد نے بھی اپنے ماں باپ کے خون سے ھاتھ لال کئے ھیں!!

البتہ نفس کی پیروی کی ممانعت اور خواھش نفسانی کی پیروی سے رکاوٹ اسی صورت میں ھے جب انسان کا نفس بری چیزوں کی طرف رغبت رکھتا ھو اور حیوانی خواھشات لئے ھوئے ھو، نہ یہ کہ تمام خواھشات نفسانی کو پامال کردیا جائے، اور اسی غلط فھمی میں خودکشی کرلے، جیسا کہ بعض ارباب سلوک نے یھی سمجھتے ھوئے اس پر عمل بھی کیا ھے۔

علماء اور بزرگوں نے نفس اور نفسانیت کی جو اس قدر مذمت کی ھے اور خواھشات نفسانی کی پیروی سے ڈرایا ھے، ان کا مطلب بری خواھشات سے پرھیز کرنا ھے، اور چونکہ عام طور پر خواھشات نفسانی برائیوں کے سلسلہ میں ھوتی ھیں اسی وجہ سے مطلق طو رپر نفس کی مذمت کی ھے، جیسا کہ مثال مشھور ھے کہ ”بہ مرگ گرفتہ اند کہ بہ تب راضی شویم۔“(موت سے نجات ملنے پر بخار پر راضی ھوں) اسی وجہ سے اپنی تقریروں اور وعظ و نصیحت میں امید سے زیادہ ڈرایا ھے، ورنہ تو ھماری خواھشات اور رغبت تو تمام چیزوں میں انفرادی اور اجتماعی طور پر پائی جاتی ھے، یہ خواھشات انسان کی فطرت میں مختلف شکلوں میں پائی جاتی ھے،اس فطرت کو حکمت الٰھی نے ھمارے وجود میں ھمارے محفوظ رھنے اور کمال کی منزلوں کو طے کرنے لئے ودیعت کیا ھے۔

لہٰذا اس خودی کو خدا اور قیامت پر ایمان کے ذریعہ، انبیاء اور ائمہ علیھم السلام کی اطاعت اور احکامات شرعیہ پر عمل کرنے کے ذریعہ نیز حقوق الناس کی رعایت کے ذریعہ قابو میں کیا جاسکتا ھے،البتہ خودی خود خواھی کی منزل تک نہ پھنچائے، بلکہ ھم خواھشات کی پیروی اس حد اعتدال سے کریں کہ شھوت اور جنون کی منزل تک نہ پھنچ جائےں، اور خود غرض اور صرف اپنے ھی فائدے کی فکر میںنہ لگے رھےں۔

قارئین کرام! یہ خود غرضی جیسی بری صفت جس میں بھی پائی جاتی ھے تو پھلے مرحلہ میںخود اسی کے لئے نقصان دہ ثابت ھوتی ھے اور اس کے بعد معاشرہ اور سماج کے لئے ضرر رساں واقع ھوتی ھے، مثال کے طور پر غصہ خودخواھی کے لئے ایک لازمہ ھے لیکن خشم و غصہ کو صرف اپنی جان و مال اور عزت و ناموس اورحق و حقیقت نیز وطن کے دفاع کے لئے بروئے کار لائے، نہ یہ کہ کمزور اور اپنے ماتحت لوگوں پر برس بڑے، بہت زیادہ غصہ کرنا حیوانیت کی نشانی ھے، اور غصہ نہ کرنا بے پروائی اور بے غیرتی کی نشانی ھے۔ (لہٰذا اس سلسلہ میں انسان سوچ سمجھ کر قدم بڑھائے)

آزادی ، زندگی کا ایک بہترین پھل اور کمال ارادہ کی شرط ھے، کیونکہ اگر انسان آزاد ھو تو پھر وہ دوسروں کی مرضی پر نھیں چلے گا، لیکن توجہ رھے کہ یہ آزدای جو فطری چیز ھے اپنی حد اعتدال میں باقی رھے اور اس پر عقل و شعور کی حکومت ھو، کیونکہ آزادی کی افراط انسان کو طغیان اور سرکشی کی منزلوں تک پھنچادیتی ھے اور آزادی میں تفریط (کمی) ھونا اپنے کو ظلم و ستم کے حوالہ کرنا ھے۔

حبّ مال کی خواھش اچھی ھے لیکن جب تک بخل، حقوق الناس کی پامالی ،جوا، سٹہ، چوری اور دھوکا دھڑی وغیرہ کی منزل تک نہ پھنچے۔

دوسروں سے تعلقات برقرار کرنانیک کام ھے لیکن اس میں بھی میانہ روی اختیار کی جائے، ایسا نہ ھو کہ خود اپنے اوپر یا اپنے گھر والوں کے اوپر ظلم و ستم کا باعث بن جائے۔

حسن معاشرت، اور دوسروں کو خوشحال کرنا اچھا کام ھے لیکن ایسا نہ ھو کہ اس ھنسی مذاق سے کسی کی توھین ھوجائے۔ دوستوں کے اچھے صفات کا ذکر کرناان کو شوق دلانا صحیح ھے لیکن یہ کام چاپلوسی کی منزل تک نہ پھنچ جائے۔[74]

قارئین کرام! گزشتہ مطالب کے پیش نظر اگر نفس کی تربیت نہ ھو اور اخلاق اسلامی سے آراستہ نہ ھو تو پھر اس کے نقصانات اور خیانت کو اچھی طرح سے سمجھا جاسکتا ھے۔

اوصاف نفس

قرآن مجید میں نفس کے چند صفات ذکر کئے گئے ھیں، جو انسان میں واقعیات اور دینی و اخلاقی حقائق سے بے توجھی کے نتیجہ میں ظاھر ھوتے ھیں:

۱۔ نفس امّارہ۔ ۲۔ نفس دسّائی۔ ۳۔ نفس سفھی ۔ ۴۔ نفس تسویلی۔ ۵۔ نفس رھینہ ای۔ ۶۔ نفس ھوائی۔ ۷۔ نفس حسرتی۔

ان تمام اوصاف کو بیان کرنے والی آیات حسب ذیل ھیں:

”۔۔۔إِنَّ النَّفْسَ لَاٴَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّی۔۔۔“[75]

”نفس بھر حال برائیوں کا حکم دینے والا ھے“۔

”وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسَّا ھَا۔“[76]

” اور وہ نامراد ھوگیا جس نے اسے آلودہ کردیا ھے“۔

” وَمَنْ یَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاہِیمَ إِلاَّ مَنْ سَفِہَ نَفْسَہُ۔۔۔“[77]

”اور کون ھے جو ملت ابراھیم سے اعراض کرے مگر یہ کہ اپنے ھی کو بے وقوف بنائے“۔

”۔۔۔قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اٴَنفُسُکُم۔۔۔“[78]

”(یعقوب نے)کھا کہ یہ بات صرف تمھارے دل نے گھڑی ھے “۔

”کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَھِینَةٌ۔ “[79]

”ھر نفس اپنے اعمال میںگرفتار ھے“۔

”وَاٴَ مَا مَنْ خَافَ مَقامَ رَبِّہِ وِ نَھَیٰ النَّفْسَ عَنِ الھَوَیٰ فَاِنَّ الجَنَّةَ ھِیَ المَاٴْوَیٰ۔“[80]

”اور جس نے رب کی بارگاہ میںحاضری کا خوف پیداکیا ھے اور اپنے نفس کو خواھشات سے روکا ھے تو جنت اس کا ٹھکانا اور مرکز ھے“۔

” اٴَنْ تَقُولَ نَفْسٌ یَاحَسْرَتَا عَلَی مَا فَرَّطْتُ فِی جَنْبِ اللهِ۔“[81]

”پھر تم میں سے کوئی نفس یہ کھنے لگے گا کہ ھائے افسوس میں نے خدا کے حق میں بڑی کوتاھی کی ھے“۔

شیخ بھائی اپنی عظیم الشان کتاب ”اربعین“ میں تحریر فرماتے ھیں:روایات کی روشنی میں ”نفس“ سے مراد حیوانی طاقت جیسے شھوت ،غیظ و غضب اور غصہ ھے۔

غزالی اپنی کتاب ”مدارج القدس“ میں ایک جملہ میں اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ھیں:

”یُطلق النفسُ علی الجامعِ للصِّفاتِ المَذْمومةِ المُضَادَّةِ لِلْقِوَی العَقْلِیَّةِ۔“

”نفس ان تمام برے صفات پر اطلاق ھوتا ھے جو عقل کے مخالف ھو“۔

حکمائے الٰھی کہتے ھیں:”جھاد بالنفس“ کو جھاد بالنفس اس لئے کھا جاتا ھے کہ اس نفس کا بدن سے تعلق ھوتا ھے اور اس کے نتیجہ میں اس نفس سے درندگی اور شیطانی صفات پیدا ھوتے ھیں، ورنہ تو ان چیزوں کے علاوہ نفس میں عقل اورفرشتوں کے صفات پائے جاتے ھیں، اور اپنی خلقت کے اعتبارسے نفس کے ذریعہ خدا کی عبادت کی جاتی ھے، اور اسی کے ذریعہ بھشت کو حاصل کیا جاتا ھے۔ لہٰذا نفس کے برے صفات سے جھاد کیا جائے تاکہ انسان کو سکون حاصل ھوسکے اور وہ حیوانوں کے شر سے محفوظ رہ سکے، ورنہ تو اس گھر میں ھمیشہ ایک طوفان اور جنگ و جدل برپا رہتاھے!

ایران کے مشھورشاعر مرحوم سعدی کہتے ھیں:ایک شخص سے پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی اس حدیث کے بارے میں سوال کیا، جس میں آنحضرت نے ارشادفرمایا تھا کہ:

”اٴَعدَی عَدُوِّکَ نَفْسُکَ الَّتِی بَیْنَ جَنْبَیْکَ “[82]

”تیرا سب سے بڑا دشمن (خود تیرا )نفس ھے، جو تیرے ھی پھلو میں موجود ھے“۔

چنانچہ اس نے جواب دیا: کیونکہ اگر کسی بھی دشمن کے ساتھ احسان کرو گے وہ تمھارا دوست بن جائے گا، سوائے نفس کے کیونکہ جتنا اس کے ساتھ جتنا احسان کرو گے جس قدر اس کی پیروی کرو گے اور اس کا کھنا مانوگے تو وہ اتنی ھی مخالفت اور دشمنی زیادہ کرے گا۔!!

قارئین کرام ! یہ ایک حقیقت ھے کہ ھوائے نفس کی پیروی کرنے والے (چونکہ عقل سے کام نھیں لیتے، لہٰذا) پاگل اور دیوانے ھوجاتے ھیں۔

جناب بھلول سے سوال کیا گیا: شھر میں دیوانوں (اور پاگلوں) کی تعداد کتنی ھوگی؟ تو انھوں نے جواب دیا:

ان کا شمار کرنا مشکل ھے، عقلاء کے بارے میں پوچھو تومیں بتا سکتا ھوں۔

اصلاح نفس کے سلسلہ میں حضرت علی علیہ السلام کا نظریہ

حضرت علی علیہ السلام جو ھر چیزکے بارے میں مکمل بصیرت رکھتے تھے اور ان کے تمام رموز سے آگاہ تھے، آپ نے اصلاح نفس کے لئے چند چیزوں کی رھنمائی کی ھے، جن کوایک عظیم الشان شیعہ عالم دین علامہ آمدی نے اپنی گرانقدر کتاب ”غرر الحکم“ میں بیان کیا ھے:

”اَذِا رَغِبتَ فِی صَلاحٍ فَعَلَیْکَ بِالاِقْتِصادِ وَ القُنوعِ وَالتَّقَلُّلِ“[83]

”جس وقت تم اپنے نفس کی اصلاح کرنا چاھو تو میانہ روی اور قناعت کو اپنا شعار بناؤ، اور تھوڑی سی دنیا پر اکتفاء کرو“۔

”صَلاحُ النَّفْسِ مُجاھَدَةُ الھَوَی“[84]

”نفس کی اصلاح کے لئے ھوائے نفس سے جھاد کرناھوگا جس کے سبب نفس پر غلبہ حاصل ھوجائے گا۔

”سَبَبُ صَلاحِ النَّفْسِ العُزُوفُ عَنِ الدُّنْیَا “[85]

”اصلاح نفس کا طریقہ خود کو دنیا سے دور رکھنا ھے“۔

”دَواءُ النَّفْسِ الصَّوُم عَنِ الھَوَی“[86]

”نفس کا علاج اس کے بے حساب و کتاب خواھشات سے اجنتاب کیا جانا ھے“۔

”سَبَبُ صَلاحِ النَّفْسِ الوَرَعُ“[87]

”گناھوں سے دوری، اصلاح نفس کا سبب ھے“۔

”اِنَّ تَقْوَی اللّٰہِ دَواءُ دَاءِ قُلوبِکُم ۔۔۔وَ طَھُورِ دَنَسِ اٴَنْفُسِکُم“[88]

”تقویٰ الٰھی تمھارے دلوں کی بیماریوں کی دوا اور نفسانی گندگی کو پاک کرنے والا ھے“۔

”آفَةُ النَّفْسِ الوَلَہُ بِالدُّنْیَا “[89]

”دنیا کا عشق وبائے جان ھے“۔

”رَاٴْسُ الآفَاتِ الوَلَہُ بِاللَّذَّاتِ[90]

”ناجائز لذات کا شیدائی ھونا تمام مفاسد کی جڑ(اور بنیاد) ھے“۔

”طُوبَی لِمَنْ عَصَی فِرْعَوْنَ ہَوَاہُ وَاٴَطَاعَ مُوْسیٰ عَقْلِہِ“۔

”خوشا نصیب اس شخص کا جو اپنے نفس کے فرعون کی مخالفت کرے اور اپنی عقل کے موسیٰ کی اطاعت کرے“۔

لیکن ان روحانی اور ملکوتی فقرات میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ھے کہ ھر شخص کے اندر (یعنی اس عالم صغیر میں) ایک موسی اور ایک فرعون ھوتا ھے، لہٰذا اگر حضرت موسیٰ کے کمال کو اختیار کرنا چاھے تو اپنے نفس کے فرعون کی مخالفت کرنا ھوگی، ورنہ تو پھر فرعون کی طرح دریائے ھلاکت میں غرق ھونا ھوگا، لیکن اگر اپنی عقل کے موسیٰ کی اطاعت کی توانسان پھر جناب موسیٰ کی طرح پروردگار کی رحمت خاص کا حق دار اور خاص مومنین میں شمار ھوگا۔

ارشاد الٰھی ھوتا ھے:

” سَلاَمٌ عَلَی مُوسَی وَہَارُونَ۔“[91]

”سلام ھو موسیٰ اور ھارون پر“۔

”إِنَّہُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِینَ۔“[92]

”بیشک وہ دونوں ھمارے مومن بندوں میںسے تھے“۔

جو شخص اپنی عقل کے موسیٰ کی پیروی کرے تو پھرآسمانوںمیںجناب موسیٰ کا ھم پرواز ھوجائے گا، لہٰذا خوشا

نصیب ھے وہ شخص جو اپنے نفس کے فرعون کی مخالفت اور اپنی عقل کے موسیٰ کی اطاعت کرے۔

”طَھِّرُوا اٴَنْفُسَکُم مِن دَنَسِ الشَّھَواتِ تُدرِکُوا رَفِیعَ الدَّرَجاتِ“[93]

”اپنے نفس کو حرام شھوتوں اور کثافتوں سے پاک کرو، تاکہ معنوی بلند درجات تک پھنچ جاؤ“۔

جی ھاں، اگر کوئی شخص بلند مقامات اور معنوی درجات حاصل کرنا چاھے، اور اس دنیا کے تنگ پنجرے سے حکمت و معرفت کے باغوںکی طرف پرواز کرنا چاھے، تو پھر نفس کو گندگی، کثافتوں اور حیوانی شھوات سے پاک کرنا پڑے گا، اور اپنی روح کو ظاھری لذت کے شوق سے طیب و طاھر کرنا پڑے گا تاکہ شھوات سے خالی ھوکر فرشتوں کے صفات سے آراستہ ھوجائے بلکہ فرشتوں سے بھی بلند ھوجائے۔[94]

حکمائے الٰھی فرماتے ھیں: انسان درج ذیل چار طریقوں سے اپنے نفس کا تذکیہ کرسکتے ھیں: ۱۔ بے ادب لوگوں سے ادب سیکھے۔۲۔ اھل ادب حضرات کی صحبت اور ھم نشینی اختیار کرے۔۳۔ اپنے دوستوں سے اپنے عیوب کے بارے میں سوال کرے۔ ۴۔اپنے بارے میں دشمنوں سے سنے ھوئے عیوب کو دور کرے۔[95]

شرح و مطالی(ٹال مٹول)

توبہ اور برائیوں کی اصلاح،قیامت کے لئے زاد راہ کی فراھمی، اعمال صالحہ اور کار خیر کی انجام دھی، نیز گناہ اور معصیت سے دوری، اور حکمت و معرفت کے حصول کے لئے برسوںسے ”آج کل“ کررھا ھوں لیکن اپنے وعدہ پر وفادار نھیں ھوں، اور آج کل کے اس وعدہ نے مجھے دھوکا دیا ھے اور نیک کردار اپنانے سے روک دیا ھے۔

لہٰذا تجھ سے درخواست ھے کہ مجھے مستحکم ارادہ اور وفائے عھد کی قدرت اور آج کل کھنے سے نجات عطا فرما، کیونکہ یہ عدم استقلالی آخر کار مجھے سخت خسارے اور نقصان میں مبتلا کردے گی، اور تیری رحمت اور بخشش سے محروم کردے گی، نیز مجھے (نیک) بندوں کی صف سے خارج اور نافرمانوں اور گروہ شیطان میں شامل کردے گی۔

” یٰاسَیَّدِي،فَاٴَسْاٴَلُکَ بِعِزَّتِکَ اٴَنْ لاٰ یَحْجُبَ عَنْکَ دُعٰائِي سُوٓءُ عَمَلِي و َفِعٰالِي،

” میرے آقا و مولا!تجھے تیری عزت کا واسطہ ۔میری دعاوٴں کو میری بد اعمالیاں روکنے نہ پائیں۔“

اے میرے مھربان خدا! میرے برے اعمال اور میرے افعال کی برائی کو اپنی بارگاہ میں دعا قبول نہ ھونے اور باب استجابت کے بند ھونے کا سبب نہ قرار دے۔

باب استجابت کے بند ھونے کی وجہ

گناہ و معصیت ایک ایسا حجاب ھے کہ اگر انسان توبہ نہ کرے تو خدا کی بے انتھارحمت، عظیم لطف و کرم اور قبول دعا سے محروم ھوجاتا ھے۔ برے اعمال کی برائی کے سبب ھے کہ انسان دعا کی حالت کھوبیٹھتا ھے، اور خدائے مھربان کی بارگاہ میں دعا کرنے سے محروم ھوجاتا ھے، اور اگر دعا کی توفیق ھو بھی جائے تو وہ باب اجابت سے نھیں ٹکراتی ھے ۔

باب اجابت کا بند ھوجانا، اور دعاکرنے والے کی دعا قبول نہ ھونے کا مطلب یہ ھے کہ بندہ اپنے مولاکی بارگاہ میںبے وقعت اور مردود ھے۔

ایک زاھد و عارف سے نقل ھوا ھے: میرے لئے میں دعا کرنے سے محروم ھوجانا تو میرے لئے دعا قبول ھونے سے محروم کئے جانے سے سخت ھے۔

دعا کے اس حصے میں دعا کرنے والا شخص خدا وندعالم کی بارگاہ میں اس کی عزت کے توسل سے اسی سے درخواست کرتا ھے :

”اے میرے مولا و آقا ! میرے برے اعمال اور گناھوں کو دعا قبول ھونے میں مانع نہ ھونے دے، تاکہ اعمال کی برائی مجھے دعا کرنے سے نہ روک پائے، اور میں تیرے در پر سوالی بنا بیٹھا رھوں اور تو بھی اپنی رحمت سے میری دعا کو قبول فرما۔

ایک روایت میںمنقول ھے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اپنے چند اصحاب کے ساتھ ایک راستہ سے گزررھے تھے راستہ میں ایک جوان کو دیکھا کہ دیوار پر سر رکھے اپنی دعا قبول ھونے کے لئے خدا کو اس کی عزت کی قسم دے رھا ھے، تو آپ نے اس کو دیکھ کر فرمایا: ”اس قسم کے ذریعہ اس جوان کی دعا ضرور قبول ھوگی“۔

جی ھاں! خدائے مھربان و قادرموثر چیزوں کے اثرکو ختم کرنے، اور بند راستوں کو اپنے بندے کے لئے کھول دےنے کی قدرت رکھتا ھے۔ خدا وہ ھے جو جناب ابراھیم کو بچانے کے لئے آگ سے جلانے کی طاقت چھین لیتا ھے، اسی طرح جناب اسماعیل کو بچانے کے لئے تیز چاقو کے اثر کو ختم کردیتا ھے، وھی خدادعا قبول نہ ھونے میں گناہ کے اثر کو ختم کرسکتا ھے، اور اپنے بندے کی حاجتوں کو پورا کرنے اور اس کو منزل مقصود تک پھنچانے میں مدد کرسکتا ھے۔

”وَلاٰ تَفْضَحْنِي بِخَفِيِّ مَا اطَّلَعْتَ عَلَیْہِ مِنْ سِرِّي“

” اور میں اپنے مخفی عیوب کی بنا پر بر سر عام رسوانہ ھونے پاوٴں ۔“

پردہ پوشی

قارئین کرام ! ھمیں معلوم ھونا چاہئے کہ خداوندعالم کا علم ھر خشک و تر اور ھر ظاھر و باطن اور ھر ذرہ ذرہ پر احاطہ کئے ھوئے ھے، اس کے یھاں بے توجھی اور غفلت نھیں ھوتی ھے۔ وہ ماضی اور آئندہ کے تمام حوادثات اور حالات سے باخبر ھے، اس کے سامنے ماضی اور حال سبھی حاضر ھیں۔ اس کے سامنے لوگوں کی خلوت بھی ظاھر ھے، اور چاھے کھیں بھی چھپ کر کوئی کام کریں تو خدااس کو دیکھتا ھے۔ اگر وہ ھمارے گناھوں کو ماں باپ اوربیوی بچوں کے سامنے ظاھر کردے تو ھماری ساری آبرو خاک میںمل جائے گی،اگر یہ سب لوگ ھمارے مخفی گناھوں سے آگاہ ھوجائیں تو وہ اپنے پاس سے دور بھگادیں گے، اور ھماری کسی بات کا جواب دینے کے لئے تیار نہ ھوں گے۔

دعاکرنے والا دعا کے اس حصہ میں اپنے گریہ و زاری اور خواھش و درخواست کے ذریعہ اپنی آبرو کی حفاظت چاہتا ھے اور ستّار العیوب سے درخواست کرتا ھے کہ اس کو مخفی گناھوں کی بنا پر جس کو فقط وھی جانتا ھے؛ رسوا اور ذلیل نہ کرے۔

جو شخص ان عظیم فقروں کے ذریعہ بارگاہ الٰھی میں راز و نیازکررھا ھو اس کو یہ یقین ھونا چاہئے کہ خداوندعالم اپنے گناھگاربندے کو توبہ کرنے کے بعد ذلیل اور رسوا نھیں کرتا، اس کا ستّار العیوب ھونا اس حدتک ھے کہ بندوں کے حساب و کتاب کے بارے میں بیان کیا گیا ھے کہ خداوندعالم خود ان کا حساب و کتاب کرے گا، یھاں تک کہ اپنے محبوب پیغمبر جو اپنی امت پر بہت زیادہ روٴف اور مھربان ھیں، ان کے سامنے بھی بندوں کے گناھوں کو ظاھر نھیں کیا جائے گا تاکہ بندہ، رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے سامنے شرمندہ ھو۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام دعائے ابو حمزہ ثمالی میں خداوندعالم کے بعض صفات کا اس طرح تذکرہ فرماتے ھیں:

”سَتَّارُ الْعُیُوْبْ، غَفَّارُ الذُّنُوبْ، تَسْتُرُ الذَّنْبَ بِکَرَمِکَ وَ تُوٴَخِّرُ الْعُقُوبَةَ بِحِلْمِکَ“۔

”برائیوں کو چھپانے والے، گناھوں کو بخشنے والے، مخفی چیزوں کو بھی جاننے والے، تو گناھوں کو اپنے کرم سے چھپاتا ھے اور اس کی سزا کو بردباری کی بنا پر تاخیر میں ڈال دیتا ھے“۔

خدا کے بعض بندے ، حالانکہ محدود وجود رکھتے ھیں ، دوسروں کے عیوب پر پردہ ڈالنے کی اس قدر طاقت رکھتے ھیں کہ ان کے حیرت انگیز واقعات سن کر انسان تعجب کرنے لگتا ھے، لیکن وہ خدا جس کا وجود بے نھایت اور لامحدود ھے تو پھر اس کی پردہ پوشی کا کیا عالم ھوگا؟!

جب حضرت یعقوب علیہ السلام نے جناب یوسف سے اپنے بھائیوں کے ظلم و ستم کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے صرف یہ جواب سنا:

”عَفَا اللّٰہُ عَمَّا سَلَفَ۔۔۔“[96]

”اللہ نے گذشتہ معاملات کو معاف کردیاھے“۔

پردہ پوشی کے سلسلہ میں ایک عجیب و غریب واقعہ

ابو عبد الرحمن،حاتم بن یوسف اصمّ جو خراسان کے بزرگواروں اور کم نظیرصاحب علم و تقویٰ افراد میں سے تھے؛ ان کے بارے میں لکھا ھے:

ان کی شھرت ”اصم“[97] کے نام سے اس وجہ سے تھی کہ ایک عورت کوئی مسئلہ معلوم کرنے کے لئے ان کے پاس آئی ،گفتگو کے دوران اس عورت کی ریح خارج ھوگئی، اس وقت وہ عورت بہت شرمندہ اور خجالت زدہ ھوگئی، حاتم نے اپنے کان کی طرف اشارہ کیا یعنی میں کم سنتا ھوں ذرا زور سے بولو، وہ عورت بہت خوش ھوئی اور اس وجہ سے خدا کا شکر ادا کرنے لگی کہ ایک عالم دین کے سامنے اس کی عزت و آبرو بچ گئی، اس واقعہ کے بعد جس سے کوئی بھی باخبر نھیں تھا ان کا نام حاتم اصم مشھور ھوگیا، اور جب تک وہ عورت زندہ رھی انھوں نے اسی طرح (یعنی بھروں کی طرح) زندگی بسر کی ، جب وہ اس دنیا سے چلے گئے توکسی بزرگوار نے ان کو خواب میں دیکھا ان سے سوال کیا:

”مَا فَعَلَ اللّٰہُ بِکَ“

” خدا نے تمھارے ساتھ کیسے سلوک کیا“۔

تو انھوں نے کھا: چونکہ میں نے ایک سنی ھوئی بات کو اَن سنی کردی تھی، لہٰذا اس نے میرے (برے) اعمال اور تمام سنی ھوئی باتوں پر قلم عفو پھیر دیا ھے۔

”وَلاٰ تُعٰاجِلْني بِالْعُقُوبَةِ عَلٰی مٰا عَمِلْتُہُ فيخَلَوٰاتي مِنْ سُوٓءِ فِعْلِي وَاِٴسٰائَتِي،وَدَوٰامِ تَفْریطيوَجَھٰالَتِي،وَکَثْرَةِ شَھَوٰاتيوَغَفْلَتِي۔“

”اور میں نے تنھا ئیوں میں جو غلطیاں کی ھیں ان کی سزا فی الفور نہ ملنے پائے، چاھے وہ غلطیاں بد عملی کی شکل میں ھو ں یا بے ادبی کی شکل میں،مسلسل کوتاھی ھو یا جھالت یا کثرت خواھشات و غفلت“۔

اسلامی تعلیمات سے استفادہ ھوتا ھے کہ اگرخداوند عالم سزا اور عقوبت میںجلدی کرتا تو زمین پر چلنے والا کوئی بھی انسان یا حیوان باقی نہ رہتا۔ لیکن خداوندعالم نے اپنی رحمت کی بنا پر اپنے بندوں کے عذاب اور سزا میں جلدی نھیں کی ھے، اور اُس نے بندوں کو یہ فرصت اس لئے عطا کی ھے کہ گناھگار اس فرصت کو غنیمت جان کر خدا کے ساتھ اپنا رابطہ صحیح کرلیں اور اپنے گناھوںسے سچی توبہ کریں تاکہ ان کے گناھوں کے آثار ختم ھوجائیں اور اپنی گزشتہ برائیوں کی اصلاح کرلےں، اور ترک شدہ واجبات کی ادائیگی کریں۔

بندوں کی سزا میں وہ اس لئے جلدی نھیں کرتا کہ اگر اس کی نسل سے کوئی مومن پیدا ھونے والا ھوتا ھے تو یہ سزا اس کی پیدائش میں مانع نہ ھوجائے۔

یا بچوں کے گریہ و زاری ،یا مومنین کی خلوص کے ساتھ دعاوٴں، یا پھر عابدوں اور زاھدوں کاراتوں میں رونے کی بنا پر عذاب اور سزا میں تاخیر ھوتی ھے؛ یا توبہ کے ذریعہ وہ عذاب ٹل جاتا ھے، اور اگر یہ چیزیں نہ ھوں تو پھر خدا کو عذاب کرنے میںجلدی کرنے سے کوئی مانع نھیں ھوسکتا۔

بھر حال اس کے نظام کے تحت گناھگار کی بے توجھی کی بنا پر عذاب میں جلدی کرنا پایاجاتا ھے لہٰذا اس عذاب کی عجلت کو دعا گریہ و زاری اور توبہ کے ذریعہ سے روکا جاسکتا ھے، جیسا کہ قوم یونس نے عذاب کے وقت اپنے پروردگار کی بارگاہ میں توبہ اور گریہ وزاری کی جس کی وجہ سے عذاب ٹل گیا۔

قارئین کرام ! اس اھم نکتہ کی طرف بھی توجہ فرمائیںکہ کبھی کبھی اس دنیا میں عذاب الٰھی ، قحط سالی، آسمانی بلائيں ، مھنگائی، ایک دوسرے پر عدم اعتماد اور آخر کار انسان کے باطن کےمسخ ھونے کی صورت میں ظاھر ھوتا ھے۔

باطن کے مسخ ھونے کی نشانی رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے منقول روایت میں بیان ھوئی جوآنحضرت نے حضرت علی علیہ السلام کو مخاطب فرماتے ھوئے بیان فرمائی ھے:

”یَاعَلِیُّ اِنَّ القَوْمَ سَیُفْتَنُونَ (بَعْدِی) بِاٴَمْوَالِھِمْ،وَ یَمُنُّونَ بِدِینِھِمْ عَلَی رَبِّھِمْ،وَ یَتَمَنَّوْنَ رَحْمَتَہُ،وَ یَاٴْمَنُونَ سَطْوَتَہُ،وَ یَسْتَحِلُّونَ حَرَامَہُ بِالشُّبُھَاتِ الکَاذِبَةِ وَالْاٴَھْوَاءِ السَّاھِیَةِ،فَیَسْتَحِلُّونَ الخَمْرَ بِالنَّبِیذِ وَ السُّحْتَ بِالھَدِیَّةِ،وَالرِّبَا بِالْبَیْعِ“[98]

”یا علی!میری امت کا میرے بعد مال و دولت کے ذریعہ امتحان لیا جائے گا، یہ لوگ اپنے دین کو خدا کے اوپر ایک احسان سمجھتے ھیں، اور خدا کی رحمت کے متمنی رہتے ھیں، اور اپنے کو عذاب الٰھی سے محفوظ گردانتے ھیں، او راپنے جھوٹے اعتراضات اور فراموشی پیدا کرنےوالے خواھشات نفسانی سے اس کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ھیں، یہ لوگ شراب کو آب انگور یا آب خرما کہہ کر پیتے ھیں، اور مالِ حرام کو ھدیہ اور تحفہ کا نام دے کر حلال جانتے ھیں اور سود کو خرید و فروخت کا نام دے کر حلال سمجھتے ھیں“۔

واقعاً اگر انسان کا باطن گناھوں اور شیطانی وسوسوں کے ذریعہ مسخ نہ ھوتا تو پھر کس طرح خدا کی حرام کردہ چیزوں کو حلال گردانتے، اور شراب، مال حرام اور سود کو اپنے لئے حلال سمجھتے؟ یہ تمام چیزیں انسان کے باطن کےمسخ ھونے کی نشانی ھےں کیونکہ باطن کا مسخ ھونا درحقیقت عذاب الٰھی کی ایک قسم ھے؛

جیسا کہ ظاھری طور پر بنی اسرائیل کی نافرمان قوم کے لئے ایسا ھوا بھی ھے اور اس قوم کے گناھگار لوگ خدا کے عذاب آور خطاب سے مخاطب ھوئے ھیں۔

ارشاد الٰھی ھوتا ھے:

”۔۔۔کُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِینَ۔“[99]

”(تو ھم نے حکم دیدیاکہ)اب ذلت کے ساتھ بندر بن جائیں“۔

امام علیہ السلام مذکورہ جملوںاور ”مِنْ سُوٓءِ فِعْلِي وَاِٴسٰائَتِي“ کے بعد چار چیزوں کی طرف اشارہ فرماتے ھیں:

۱۔ تفریط۔ ۲۔ جھل۔

۳۔ شھوت۔ ۴۔ غفلت۔

تفریط :

یھاں پر”تفریط “ سے مراد خداوندعالم کی اطاعت و بندگی اور مخلوق خدا کی خدمت میں کوتاھی کرنا ھے۔

اسلامی تعلیمات میںتفریط سے پرھیز پر زور دیا گیاھے، اور تفریط کو خطرناک نقصان کا باعث اور فیوضات الٰھی سے محرومی کا سبب قرار دیا ھے۔

اس سلسلہ میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام بہت سی اھم روایات بیان فرماتے ھیں:

”التَفْرِیطُ مُصِیبَةُ القَادِرِ“[100]

”کوتاھی کرنا ،ایک بہت بڑی مصیبت اور بلاء ھے“۔

”ثَمَرَةُ التَّفْرِیطِ النَّدامَةُ ،وَ ثَمَرَةُ الحَزْمِ السَّلَامَةُ“[101]

”کوتاھی کرنے کا نتیجہ : پشیمانی، اور دور اندیشی کا نتیجہ: سلامتی ھے“۔

”الجَنَّةُ غَایَةُ السَّابِقینَ ،وَالنَّارُ غَایَةُ المُفَرِّطِینَ“[102]

”بھشت ، سابقین کا سرانجام ھے اور جھنم کوتاھی کرنے والوں کا انجام کار ھے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

”مَنْ فَرَّطَ تَوَرَّطَ“[103]

”کوتاھی کرنے والا شخص سخت پریشانیوں میں مبتلا ھوجاتا ھے“۔

جھل:

حقائق کے سلسلہ میں جھل و نادانی اور امور دنیا و آخرت، نیز وظائف شرعی اور حقوق الناس سے بے خبر ھونا بہت خطرناک بیماری ھے کہ اگر انسان علم و معرفت کے ذریعہ اس بیماری کا علاج نہ کرے توپھر ھمیشہ ھمیشہ کے لئے بدبختی اور رسوائی نیز ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا ھوگا۔ قارئین کرام ! جھل و نادانی سے متعلق روایات ھم ”تَجَرَّاٴْتُ بِجَہْلِی“ کی شرح میں بیان کرچکے ھیں (دوبارہ مطالعہ فرمائیں)

شھوت:

شھوت کے معنی : ”کسی چیز کو حاصل کرنے کے لئے اس میں بہت زیادہ لگاؤ اور رغبت کا اظھار کرنے کے ھیں“، اگر یہ رغبت اور شدید لگاؤ کسی ناپسند اورحرام کام کے بارے میں ھو تو اس کی بنا پر انسان گناہ اور معصیت کے گڑھے میں گرپڑتا ھے اور آخر کار انسان کی عقل و روح کا خون ھوجاتا ھے جس کے نتیجہ میں دنیا و آخرت میں عذاب کا مستحق قرار پاتا ھے۔

شھوت میں ھیجان پیدا کرنے والا سبب ، دنیا سے بے انتھا عشق و محبت ھے جو شیطانی وسوسوں، برے لوگوں کی صحبت اور خدا سے بے توجھی کے نتیجہ میں ایک درخت کی طرح رشد و نمو کرتی ھے جس پر شھوت کی شاخیں نکلتی ھیں اور شجر ملعونہ[104] میں تبدیل ھوجاتی ھیں، جس کا پھل گناھوں کے علاوہ کچھ اور نھیں ھوتا، جس کو کھاکر انسان خدا و

”اور جو خواب ھم نے آپ کو دکھلایا ھے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ھے جس طرح کہ قرآن میں قابل لعنت شجرہ بھی ایسا ھی ھے اور ھم لوگوں کوڈراتے رہتے ھیںلیکن ان کی سرکشی بڑھتی ھی جارھی ھے“۔

رسول سے دور ھوتا چلا جاتا ھے، اور اس کے نتیجہ میں رحمت خدا سے محروم ھوجاتا ھے، اوردنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کا مستحق ھوجاتا ھے نیز جھنم اس کا ٹھکانہ بن جاتا ھے۔

یہ خطرناک درخت جھنم کے درختوں خصوصاً درخت ”زقّوم“ کاایک نمونہ ھے جو وعظ و نصیحت ، خدا پر توجہ، توبہ، عاقبت کے بارے میں غور و فکر اور حوادث زمان سے عبرت حاصل کئے بغیر جڑ سے نھیں اکھڑسکتا ھے۔

علمائے دین فرماتے ھیں: اس خطرناک درخت کی سات شاخیں ھیں جو بہت سے لوگوں میں پائی جاتی ھیں، جن کی بنا پر انسان گناھوں اور برائیوںمیں مبتلا ھوجاتا ھے، شاخوں کے نام اس طرح ھیں:

۱۔ جاہ طلبی کی خواھش۔

۲۔ مال و دولت اور مُلک و منال کی خواھش۔

۳۔ بڑے بڑے محل اور عمارتیں بنانے کی خواھش۔

۴۔ خوبصورت اور ناز برادر حوروں جیسی عورتوں سے مباشرت کرنے کی شھوت۔

۵۔ لذیذ سے لذیذ کھانوں اور مست کنندہ چیزوں کو کھانے کی خواھش۔

۶۔ ریشمی، رنگ برنگے اور فاخرہ لباس پھننے کی خواھش۔

۷۔ گناھگاروں، فاسق و فاجر لوگوں کے ساتھ نشست و برخاست کرنے کی خواھش۔

یہ سات شھوتیں انسان کے اندر خواہ نخواہ درج ذیل سات شیطانی صفات پیدا کردیتی ھیں:

۱۔ تکبر۔

۲۔ ریاکاری اور خود نمائی۔

۳۔بعض و حسد ۔

۴۔حرص و طمع

۵۔بخل۔

۶۔ظلم و ستم۔

۷۔غیظ و غضب۔

ان ساتوں شھوتوں اور ضرر رساں صفات(جن کی وجہ سے انسان دوزخی بن جاتا ھے)؛ کی تشریح کرنے کے لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ھے۔

محبت دنیا کے کنویں میں گرنے والے اورشھوات کی تاریکی میں غرق ھونے والوں کے سامنے موت کا پیغام آتا ھے تو بیدار ھوتے ھیں اور دیکھتے ھیں کہ واقعاً بہت زیادہ نقصان میں ھیں، اور سمجھ جاتے ھیں کہ اس چند روزہ پریشان حال زندگی کے بدلے ھمیشہ ھمیشہ کے لئے عاقبت خراب ھوگئی ھے !!

ایک بد بخت شاہزادہ

محبت دنیاکے کنویں میں گرنے والوں اور شھوتوں کی تاریکی میں غرق ھونے والوںکا حال اس شہزادہ کی طرح ھوتا ھے کہ جب بادشاہ نے اپنے بیٹے کی شادی کرنا چاھی، اور ایک شریف خاندان سے پری جیسی خوبصورت لڑکی سے نکاح کردیا۔

جب شادی کی تیاریاں مکمل ھوگئیں، تو سب خواص و عوام نے اپنے اپنے لحاظ سے تحائف پیش کئے، بادشاہ نے بھی اپنے خزانہ کو غریبوں، محتاجوں حتی کہ مالداروں کے لئے قربان کردیا، سب لوگ خوش و خرم تھے،سبھی جاننے والے اور نہ جاننے والے شادی میں جمع تھے اور اس عجیب و غریب شادی کے سازو سامان کو دیکھ کر حیرت زدہ تھے۔

حور مانند دلھن کو اپنے تمام تر زیورات سے سجا کر ڈولی میں بٹھایا گیا، لیکن اس وقت دولھا غائب تھا، اس کو تلاش کیا جانے لگا، لیکن آخر کار وہ نہ ملا، کیونکہ اس رات میں دولھا نے بہت زیادہ شراب پی تھی جس کی بنا پر مدھوش تھا ، اسی وجہ سے سب لوگوں سے پیچھے رہ گیا اوربے بسی کے عالم میں گلیوں و کوچوں میں گھومتا ھوا مجوسیوں کے مردہ خانہ تک پھوچ گیا، مجوسی اپنے رسم و رواج کے مطابق مردوں کو وھاں رکھ کر ان کے لئے شمعیں روشن کرتے تھے، شراب کے نتیجہ میں مدھوشی کی بنا پر وہ شہزادہ مردہ خانہ کو حجلہ عروسی سمجھ بیٹھا، اور اس کے اندر جاکر دیکھا تو ایک بوڑھی عورت کا جنازہ رکھا ھوا تھا۔

اس شہزادہ نے اس مردہ بوڑھی عورت کو اپنی شھوت اور رغبت کاشکار کیا اور صبح تک مشغول رھا۔

لیکن جب صبح ھوئی، نسیم سحری نے اس کو بے ھوشی اور مستی سے بیدار کیا تو اس نے اپنے کو اس بھیانک سرداب اور مردہ بوڑھی عورت کے پاس پایا، اس کی حالت غیر ھوگئی قریب تھا کہ ھلاک ھوجائے، شرمندگی اور خجالت کی وجہ سے زمین میں دھنسا جارھا تھا۔ سوچ رھا تھا کہ کھیں ایسا نہ ھو کہ کوئی اس کے اس شرمناک فعل سے آگاہ ھوجائے اور قیامت تک کے لئے اس کا دامن داغ دار ھوجائے، اچانک دیکھا کہ بادشاہ کے نوکر اور خادم پھنچ گئے، اور انھوں نے اس منظر کا مشاھدہ کیا!!

قارئین کرام ! یہ ھے محبت دنیا کے کنویں اور شھوت کے گڑھے میںغرق ھونے والے لوگوں کا حشر، کہ آخرت کی دلھن کو دنیا کی مستی اور شھوت پرستی اور وہ بھی بد صورت مردہ بوڑھی عورت سے ؛ بدل لیتے ھیں۔!!

حضرت امام صادق علیہ السلام اپنے آباء و اجداد کے حوالے سے نقل کرتے ھیں کہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:

”طُوبَی لِمَنْ تَرَکَ شَھْوَةً حَاضِرَةً لَمَوْعُودٍ لَمْ یَرَہُ“[105]

”خوش نصیب ھے وہ شخص جو نادیدہ جنت کے بدلے دنیا کی شھوتوںکو ترک کرے “۔

نیز آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا-:

”حُفَّتِ الجَنَّةُ بِالْمَکَارِہِ وَحُفَّتِ النَّارُ بِالشَّھَوَاتِ“ [106]

”بھشت عبادت و بندگی سے احاطہ شدہ ھے اور جھنم شھوات سے محاصرہ شدہ ھے“۔

ایک شخص حضرت امام باقر علیہ السلام کی خدمت میں آکر کہتا ھے: میری عبادت ضعیف اور روزہ کی تعداد کم ھوگئی ھے، لیکن مجھے امید ھے کہ حلال روزی کے علاوہ کوئی چیز نہ کھاؤں۔ اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: کونسا عمل حرام خوری ،اور شھوات سے دوری کرنے سے بہتر ھے؟[107]

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ھے:

”اٴَکْثَرُمَا تَلِجُ بِہِ اٴُمَّتِی النَّارَ الاٴجْوَفَانِ :البَطْنُ وَ الفَرْجُ“[108]

” میری امت کے جھنم میں جانے والوں میں سب سے زیادہ شکم پرست اور شھوت پرست ھوں گے۔

غفلت

غفلت، یعنی: ھر اس چیز سے بے خبر رھنا جس پر زیادہ توجہ رکھنا چاہئے۔

دنیاوی امور اور سرگرمی میں حد سے زیادہ مشغول رھنا، صبح و شام دنیا کو حاصل کرنے کے لئے دوڑنا اور ھواوھوس کا شکار ھونا یہ تمام چیزیں خدا، قیامت ، بندگی، اطاعت او ردینداری سے غفلت کا نتیجہ ھےں۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام اپنے کلام بلاغت میں غفلت کے نقصانات اور خسارے کے سلسلہ میں فرماتے ھیں:

”الغَفْلَةُ اٴَضَرُّ الاٴَعْدَاءِ“[109]

”غفلت سب سے زیادہ خطرناک دشمن ھے“۔

”وَیْلٌ لِمَنْ غَلَبَتْ عَلَیْہِ الغَفْلَةُ فَنَسِیَ الرِّحْلَةَ وَلَمْ یَسْتَعِدَّ“[110]

””وائے ھو اس شخص پر جو غفلت کا شکار ھوجائے، جس کے تحت آخرت کے سفر کو بھول جاتا ھے اور اس کے لئے کوئی تیاری نھیں کرتا“۔

”مَنْ غَلَبَتْ عَلَیْہِ الغَفْلَةُ مَاتَ قَلْبُہُ“[111]

”جس شخص پر غفلت کا غلبہ ھوجائے تو اس کا دل مردہ ھوجاتا ھے“۔

”دَوَامُ الغَفْلَةِ یُعْمِی البَصِیرَةَ“[112]

”ھمیشہ غفلت میںرھنے سے چشم باطن نابینا ھوجاتی ھے“۔

حضرت امام حسن علیہ السلام کا ارشاد ھے:

”الغَفْلَةُ تَرکُکَ المَسْجِدَ وَ طَاعَتُکَ المُفْسِدَ“[113]

”مسجد کو ترک کرنا اور مفسد کا اطاعت کرنا غفلت ھے“۔

”وَکْنِ اللّٰھُمَّ بِعِزَّتِکَ لي فی کُلِّ الْاٴَحْوٰالِ رَؤُوفاً،وَعَلَيَّ في جَمیعِ الْاُمُورِ عَطُوفاً۔“

”خدایا مجھ پرھر حال میں مھربانی فرما اور میرے اوپر تمام معاملات میں کرم فرما“۔

خداوند عالم کی رحمت و مھربانی اس قدر زیادہ ھے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا عالم اگرچہ تمام ھی علوم کا مالک کیوں نہ ھو ؛اس کی تشریح نھیں کرسکتا۔ قرآن کریم اور احادیث معصومین علیھم لسلام میں غور و فکر کے بعد صرف اس کی رحمت کے ایک گوشہ کو دیکھا جاسکتا ھے؛ اس کے لطف و کرم اور مھربانی کو سمجھنے کے لئے سب سے آسان طریقہ یہ ھے کہ ان اعضاء کو دیکھا جائے جھاں سے لطف و مھربانی کا سر چشمہ ھے۔

حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے مروی ھے: میں نے خدا سے چند چیزوں کی درخواست کی، جن میں سے ایک یہ تھی: پالنے والے میری امت کا حساب میرے حوالے کردے۔ آواز آئی: اے میرے حبیب اگرچہ میں نے تمھیں”رحمةٌ للعالمین“ بنایا ھے لیکن ”ارحمُ الراحمین“ صرف میری ھی ذات ھے،اگرآپ کو ان لوگوں کی بعض خطاؤں اور گناھوں کا علم ھوجائے تو آپ ان سے بیزار ھوجائیں گے، چھوڑئے لہٰذا صرف مجھے ان کے گناھوں سے آگاہ رھنے دیں۔

اے میرے حبیب! ان کا حساب اس طرح کروں گا کہ آپ بھی ان کے برے اعمال سے آگاہ نہ ھوں گے، لہٰذا جب ان کے گناھوں کو آپ سے چھپاؤں گا، جبکہ آپ دونوں عالم کے لئے رحمت ھیں، تو پھر دوسروں سے بطریق اولیٰ ان کے گناھوں کو چھپاؤں گا۔

اے میرے حبیب اگر آپ ان کے اوپر نبوت کی مھربانی رکھتے ھیں تو میں ان پر رحمت خدائی رکھتا ھوں۔ اور آپ ان کے پیغمبر ھیں تو میں ان کا خدا ھوں۔ اگر آپ آج ان کو دیکھ رھے ھیں تو میں ھمیشہ ان پر نظر رکھے ھوئے ھوںاورنظر رکھوں گا۔

گناھگار اور عفو الٰھی

شیخ بھائی تحریر کرتے ھیں: میں نے ایک قابل اعتماد شخص سے سنا کہ ایک گناھگار اس دنیا سے چل بسا، اس کی بیوی نے اس کے غسل و کفن اور دفن کے لئے لوگوں سے مدد چاھی، لیکن وہ لوگ اس کے گناھوں سے اس قدر نفرت کرتے تھے کہ کوئی بھی اس کے جنازہ میں شریک نہ ھوا، مجبوراً اس عورت نے کسی مزدور کو بلایا اور اس سے کھا کہ اس کو شھر کی مسجد میں لے جاؤ، شاید مومنین اس کے جنازہ میں شریک ھوجائیں،لیکن کوئی بھی اس کام کے لئے حاضر نھیں ھوا،! اس کے بعد وہ عورت اس مزدور کے ساتھ جنگل کی طرف روانہ ھوئی تاکہ اس کو غسل و کفن اور نماز کے بغیر ھی دفن کردے۔

جیسے ھی اس جنگل میں پھنچی، وھاں ایک زاھد اور عابد کو دیکھا جواپنی پوری زندگی عبادت میںمشغول تھا، اور اس علاقہ میں ”زاھداور متقی“ کے نام سے مشھور تھا۔ جیسے ھی اس نے جنازہ کو دیکھا اپنی عبادتگاہ سے باھر نکلا، تاکہ اس کے جنازہ میں شرکت کرے، جس وقت علاقہ والوں نے اس کو دیکھا کہ وہ اس کے جنازہ میں شرکت کررھا ھے وہ بھی اس کے جنازہ میں شریک ھونے کے لئے آگئے۔

علاقہ والوں نے اس عابد و زاھد سے اس کے جنازہ میں شرکت کی وجہ پوچھی ، تو اس نے جواب دیا: مجھ سے عالم خواب میں کھا گیا کہ کل اپنی عبادتگاہ سے نکل کر فلاں جگہ پر جاؤ اور وھاں ایک جنازہ لایا جائے گا، جس کے ساتھ صرف ایک عورت ھوگی، اس کی نماز جنازہ پڑھنا، کیونکہ اس کی بخشش ھوگئی ھے۔

یہ سن کر لوگوں کو بہت تعجب ھوا ، اور دریائے تعجب میں غرق ھوگئے، اس عابد و زاھدنے اس کی زوجہ کو بلایا اور اس کے حالات معلوم کئے، اس بیوہ نے کھا: اکثر اوقات گناھوں میں ملوث رہتا تھا۔ اس عابد نے سوال کیا: کیا اس نے کبھی کوئی کار خیر (بھی) انجام دیا ھے؟ اس نے جواب دیا: جی ھاں! میرا شوھر تین کار خیر انجام دیتا تھا:

۱۔ ھر روز گناہ کرنے کے بعد اپنے لباس کو بدلتا تھا اور وضو کرکے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھتا تھا۔

۲۔ اس کا گھر کبھی بھی یتیم سے خالی نھیں رہتا تھا، اور اپنے بچوں سے زیادہ یتیم پر احسان کرتا تھا۔

۳۔ رات کے وقت جب بھی بیدار ھوتا تھا روتا تھا اور کہتا تھا: پالنے والے! اپنے اس گناھگار بندے کو دوزخ کے کس طبقہ میں رکھے گا؟!

عبد اللہ مبارک کا غلام

عطّار نیشاپوری کہتے ھیں: عبد اللہ مبارک کا ایک غلام تھا، جس سے یہ معاھدہ تھا کہ کام کرکے اپنی قیمت ادا کردو ، تاکہ میں تمھیں آزاد کردوں۔ ایک روز عبد اللہ سے کسی نے آکر کھا: تمھارا غلام رات کو قبرستان میں جاتا ھے اور قبر کھول کر مردوں کا کفن نکالتا ھے اور اس کو بازار میں بیچ کر درھم و دینار تمھیں لاکر دیتا ھے!!

عبد اللہ نے جیسے ھی یہ خبر سنی، بہت ناراض ھوئے، ایک رات چھپ کر غلام کے پیچھے پیچھے چل دئے، یھاں تک کہ قبرستان میں پھنچ گئے، دیکھا کہ غلام ایک قبر میں داخل ھوا، اور وہ ایک بوسیدہ لباس پھنے تھا او راپنی گردن میں زنجیر ڈالے تھا اس عالم میں وہ تمام تر خشوع و خضوع کے ساتھ بارگاہ الٰھی میں راز و نیاز اور مناجات و دعا اور گریہ و زاری میں مشغول ھوگیا۔

عبد اللہ نے اس کو دیکھا تو آھستہ آھستہ وہ بھی رونے لگے۔ چنانچہ وہ غلام سحرکے وقت تک مناجات اور دعا میں مشغول رھا، سحر کے وقت قبر سے نکلا اور شھر کی طرف چل دیا، اور راستہ کی پھلی مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے وارد ھوا، نماز صبح پڑھنے کے بعد کھا: اے میرے حقیقی مولا! رات دن میں بدل گئی، اب بھی میرا مجازی مولا مجھ سے درھم و دینار کا طالب ھے۔ خدا یا! تو ھی لاچارلوگوں کے لئے چارہ ساز ھے، اور فقیروں اور مفلسوں کا سرمایہ بھی توھی ھے۔ چنانچہ اس وقت ایک نور چمکا اور اس غلام کے ھاتھ میں سونے کے دیناردیدئے گئے۔

جب عبد اللہ نے یہ ماجرا دیکھا تو بے ساختہ ،اس کے پاس گئے اور اس کو اپنے سینے سے لگالیا اور کھا:

”ایسے غلام پر ہزار جانیں قربان ھوں، اے کاش تو میرا آقا ھوتا اور میں تیرا غلام!!“

غلام نے جیسے ھی ان حالات کو دیکھا تو کھا: پالنے والے! اب تک میرے راز سے کوئی آگاہ نھیںتھا، اب جبکہ میرا راز فاش ھوگیا ھے تو اب مجھے زندگی نھیں چاہئے پالنے والے! تو مجھے اپنے پاس بلالے، ابھی وہ دعا اور مناجات ھی کررھا تھا، کہ عبد اللہ کی آغوش میں اس دنیا سے رخصت ھوگیا!

عبد اللہ نے اس کو اسی پرانے لباس میں دفن کردیا، اسی رات میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو خواب میں دیکھا کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے ساتھ براق پر سوار ھیں اور اس کی طرف چلے آرھے ھیں، اور جب عبد اللہ کے نزدیک پھنچے تو کھا: اے عبد اللہ کیوں تم نے ھمارے اس محبوب اور دوست کو پرانے لباس میں دفن کردیا؟!!

جی ھاں، خداوندعالم تمام ھی حالات اور تمام ھی امور میں اپنے بندوں پر مختلف صورتوں میں لطف و کرم کرتا ھے، اور اپنے بندوں کو خصوصاً دعا و مناجات اور توبہ کے وقت خاص لطف و کرم سے نوازتا ھے۔

”اِٴلٰھي وَرَبّي مَنْ لي غَیْرُکَ،اٴَسْاٴَلُہُ کَشْفَ ضُرّي،وَالنَّظَرَ فياٴَمْرِي“

”خدایا! پروردگارا! میرے پاس تیرے علاوہ کون ھے جو میرے نقصانات کو دور کر سکے اور میرے معاملات پر توجہ فرماسکے“۔

اے میرے معبود ! اے میرے پروردگار! میرے لئے تیرے علاوہ فیض وکرم کا چشمہ کون ھے؟ لہٰذا سختیوں اور پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے، جسم و روح کی بیماریوں سے نجات کے لئے اور دنیا و آخرت کی زندگی پر لطف و کرم کرنے کے لئے تیری ھی بارگاہ اقدس میں درخواست کرتا ھے۔

اے میرے مولا و آقا! کیا کوئی ایسا توانا اور صاحب قدرت ھے جو میری مشکلات کو دور کرسکے، اور اپنے لطف و کرم کی بارش کرے، جس کے وجود میں بخل نہ پایا جاتا ھو، اور مجھ پر لطف و کرم اور احسان کرنے میںکوئی چیز رکاوٹ نہ بنے؟!! صرف تیری ھی ذات تمام کمالات کی حامل اور ھر عیب سے پاک و پاکیزہ ھے۔

پالنے والے! میں تیرے علاوہ جس کی پناہ تلاش کروں اور اپنی حاجت روائی اور مشکلات کو دور کرنے کے لئے درخواست کروں، یا تو مجھ پر مھربان اور دلسوز نھیں ھے یا اس کام کے کرنے پر وہ قادر نھیں ھے، اور مجبور و لاچار ھے، یا بخل سے کام لیتا ھے، یا تیری مشیت اور تیرا ارادہ میرے اور اس کے درمیان حائل ھے؛

لہٰذا وہ میری مشکل کو حل نھیں کرسکتا، لہٰذا مجھ پر واجب اور ضروری ھے کہ تیرے دروازے پر جھولی پھیلاؤں اور مخلوق سے بیزار ھوجاؤں، مکمل طور پر تیرے اوپر اعتماد اور بھروسہ کروں، اوراپنا کاسہٴ گدائی تیرے ھی سامنے پھیلاؤں،غیروںخصوصاً دوستوں اور رشتہ داروں سے ناامید ھوکر صرف تیری ھی ذات سے امیدوار رھوں، تیری ھی ذات بابرکت سے تواضع، انکساری اور ذلت طلب کروں، کہ ھر نقصان کومجھ سے دور فرمااور تمام پریشانیوں کی سختی کو دور فرما، اور میری بری صفات اور برے حالات کو دور کردے، اور مجھے ھر ظاھری و باطنی سختیوں سے نجات بخش دے، ھرجسمی اور روحانی بیماری کو مجھ سے دور فرما، اور ھر آسیب اور آفت کو میری زندگی سے دور فرمادے۔

جی ھاں! انسان کو چاہئے کہ دریا میں غرق ھونے والے کی طرح بے سھارا ھوکر صرف رحمت خدا کے ساحل کا امیدوار ھو، خدا کی بارگاہ میں گریہ وزاری کرے تاکہ اس کی دعامخلوق سے منقطع ھوکر باب اجابت سے ٹکرائے۔ جیسا کہ خداوندعالم نے حضرت عیسیٰ( علیہ السلام) سے فرمایا ھے:

”یَاعیسَی! اُدْعُنِی دُعاءَ الغَرِیقِ الَّذِی لَیْسَ لَہُ مُغِیثٌ“[114]

”اے عیسیٰ! مجھے اس طرح پکارو جیسے غرق ھونے والے کو کوئی بچانے والا نہ ھو“۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

”اِذَا اٴَرادَ اٴَحَدُکُم اٴَنْ لَایَساٴَلَ رَبَّہُ شَیْئاً اِلَّا اٴَعْطاہُ فَلْیَیْاٴسْ مِنَ النَّاسِ کُلِّھِم وَلَایَکُونَ لَہُ رَجاءٌ اِلاَّ عِنْدَ اللّٰہِ،فَاِذَا عَلِمَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ذَالِکَ مِنْ قَلْبِہِ لَمْ یَسْاٴَلِ اللّٰہَ شَیْئاًاِلاَّ اٴَعْطاہُ“[115]

”جب بھی تم سے کوئی یہ چاھے کہ خدا اس کی درخواست کو ردّ نہ کرے، تو تمام لوگوں سے مایوس ھوجائے اور خدا کے علاوہ کسی سے امید نہ رکھے، کیونکہ جب خداوندعالم بندہ کی اس حالت کو دیکھتا ھے تو بندہ جو چاہتا ھے اس کو عطا کردیتا ھے“۔

جو شخص بھی اپنی زبان پر ان فقرات کو جاری کرے: ”یا الٰھی وسیدی، اے میرے معبود! “ تو اپنے دل سے معبود حقیقی کے علاوہ دوسروں کی امید کو دل سے نکال دینا ضروری ھے، اور دنیا کے مال و دولت، عھد ہ اور مقام اور دنیا کی دوسری ظاھری چیزوں کو نعمت اور وسیلہ تصور کرے کہ خداوندعالم نے اس کی زندگی کے لئے وسائل فراھم کئے ھیں، اور ان میں سے کسی ایک کو بھی معبود یا حاکم کے عنوان سے انتخاب کرنے سے بہت زیادہ پرھیزکرے، کیونکہ اگرخدا کے علاوہ کسی بھی چیز کو معبود کے عنوان سے اختیار کرے تو (گویا) اس نے شرک کیا ھے، اور کسی بھی مشرک کی دعا قبول نھیں ھوگی۔

جو شخص کہتا ھے: ”رَبّی“ اے میرے مالک اور پالنے والے!تو اس کو چاہئے کہ ظاھری و باطنی فرعون جیسے معبود کی عبودیت سے دل کو آزاد کرے اور صرف الٰھی رنگ اختیار کرے، کیونکہ اگر کوئی شخص باطل ارباب کی پیروی کرے اور ان کے رنگ کو اپنائے اگرچہ وہ مضطر اور پریشان ھوکر دعا کرے،لیکن پھر بھی اس کی دعا قبول نھیں ھوگی۔

جی ھاں! کوئی بھی مخلوق اس پروردگار کے اجازت کے بغیر ذرہ برابر بھی کسی کو فائدہ نھیں پھنچا سکتی، لہٰذا دوسروں سے مایوس ھوکر خدائے رحمن کی رحمت پر امید رکھے، کیونکہ جو شخص اس طرح خدا کی اطاعت کرے گا، وہ بلند مقام پر پھنچ جائے گا، اور پھر دنیا وآخرت میں کسی بھی چیز کی کمی نہ ھوگی،اور اگر خدا اس کے ساتھ نھیں ھے یعنی وہ خدا کا مطیع و فرمانبردار بندہ نھیں ھے تو پھر دنیا وآخرت دونوں ھی میں خسارہ ھے۔

خدا کے عاشق بندے، جو خدا اور اس کی مخلوقات کی معرفت رکھتے ھیں (اور جانتے ھیں کہ مخلوقات میں اتنی طاقت نھیں ھے اس کی مشکلات کو حل کرسکے، اور نہ ھی اس دنیا کی چکی کسی غیر کے ارادہ و اختیار سے چل رھی ھے،)؛ وہ ھمیشہ اپنے محبوب اور معشوق حقیقی کی نسبت وجد اور نشاط میں ھوتے ھیں، اور زندگی کے تمام مراحل میں اپنے معبود سے راضی اور خوشحال رہتے ھیںنیز اپنی مشکلات کو حل کرنے کے لئے اس کے علاوہ کسی غیر کو حلّال مشکلات نھیں سمجھتے، اسی وجہ سے اس خدا کی بارگاہ میں عرض کرتے ھیں:

”اِٴلٰھيوَرَبّيمَنْ لي غَیْرُکَ،اٴَسْاٴَلُہُ کَشْفَ ضُرّي،وَالنَّظَرَ فياٴَمْرِي“۔

اور جناب موسیٰ علیہ السلام کی طرح عاشقانہ بارگاہ رب العزت میں عرض کرتے ھیں:

”إلٰہِی اِنَّ لِی فِی کَشْکُوْلِ الْفَقْرِ مَا لَیْسَ فِی خَزَانَتِکَ“

”پالنے والے! میرے کشکول گدائی میں ایسی چیز ھے جو تیرے خزانہ میں (بھی) نھیں ھے“۔

آواز آئی : (اے موسیٰ!) تمھارے کشکول گدائی میں کیا چیز ھے جو میرے خزانہ قدرت میں نھیں ھے، تو (جناب موسیٰ نے) عرض کیا: میرے خزانہ میں تجھ جیسا خدا ھے جو تیرے پاس نھیں ھے“۔[116]

ایک ماں بیٹے کا واقعہ

ایک عارف و زاھد سے مروی ھے: ایک ماں نے اپنے نوجوان بیٹے کو اس کی نافرمانی اور نصیحت قبول نہ کرنے کی وجہ سے گھر سے نکال دیا اور اس سے کھا: جا، تو میرا بیٹا نھیں ھے، وہ باھر چلا گیا اور گھنٹوں تک بچوں کے ساتھ کھیلتا رھا یھاں تک کہ مغرب کا وقت آگیا، سب بچے اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ جب اس نے دیکھا کہ سب دوستوں نے اسے تنھا چھوڑدیا ھے اور کسی نے بھی وفا داری نھیں کی، اپنے گھر پلٹ آیا، گھر کا دروازہ بند ملا، دروازہ کھٹکھٹانے لگا، اور گریہ و زاری کے ساتھ ماں سے کہتا تھا کہ ماں دروازہ کھول دے، لیکن ماں نے دروازہ نہ کھولا۔ ادھر سے ایک عالم بزگوار کا گزر ھوا اس نوجوان کو اس حالت میں دیکھ کر رحم آیا، دروازہ کھٹکھٹایا اور اس کی ماں سے اس کی شفاعت و سفارش کی، تاکہ اس کو گھر میں آنے کی اجازت دیدے۔

چنانچہ اس عالم کی سفارش سن کر اس کی ماں نے کھا: حضور آپ کی شفاعت کو قبول کرتی ھوں، لیکن شرط یہ ھے آپ مجھے ایک تحریر لکھ کر دیں کہ اگر اس نے دوبارہ میری مخالفت کی اور میری باتوں کو نہ سنا تو اس کو دوبارہ گھر سے نکال دوں گی اور پھر آنے نہ دوںگی، اور پھر مجھے یہ ماں کھنے کا بھی حقدار نہ ھوگا۔ اس عالم نے اسی مضمون کی ایک تحریر اس کو لکھ کر دی، اور آخر کار اس طرح ماں بیٹے دونوں میںصلح ھوگئی۔

چند روز کے بعد اس عالم کا دوبارہ وھاں سے گزر ھوا، دیکھا تو وہ نوجوان دوبارہ اسی طریقہ سے نالہ و فریاد کر رھا ھے، اور کہہ رھا ھے: اے ماں جو چاھے کرلے لیکن دروازہ کھول دے، اور مجھے اندر بلالے۔ لیکن ماں نے دروازہ نہ کھولااور کھا: میں دروازہ نھیں کھولوں گی، تجھے اندر آنے نھیں دوں گی۔

وہ عالم کہتے ھیں: کہ میں یہ ماجرا دیکھ کر وھیں کھیںبیٹھ گیا کہ آخر کار دیکھوں کہ ھوتا کیا ھے؟ دیکھا کہ وہ نوجوان روتے روتے زمین پر گرپڑا اور بے ھوش ھوگیا، ناگھاں اس کی ماں، جو دروازے کی اوٹ سے دیکھ رھی تھی، اس کی ممتا جوش میں آئی، دروازہ کھولا اور اپنے بچے کو آغوش میں اٹھایا، پیار کیا اور کھنے لگی: اے میرے نور نظر! اٹھ جا، آ گھر میں چلتے ھیں، میں تجھے گھر آنے سے جو روک رھی تھی کوئی دشمنی نھیں تھی بلکہ میں تو یہ چاہتی تھی کہ تو گناہ اور مخالفت سے باز آجا، اور مطیع و اطاعت گزار بن جا۔

قارئین کرام! اگر گریہ و زاری کے وقت بھی ھمیں یہ احساس ھو کہ اس کی دعا قبول نھیں ھوئی ھے تو ھمیں ناامید نھیں ھونا چاہئے، بلکہ اس نوجوان کی طرح مکرر بارگاہ خداوندی میں گڑگڑائیں تاکہ اس کی رحمت کو جوش آجائے، تاکہ اس کی محبت، رحمت اور مغفرت ھمارے شامل حال ھوجائے۔

خداوندعالم کی ذات اقدس اگر انسان کے امور پر نظر کرے تو چونکہ اس کی رحمت اور لطف و کرم بے انتھا اور عظیم ھے تو انسان کے حالات کی اصلاح ھوجاتی ھے ، اس کے دردکا علاج ھوجاتا ھے اور اس کا ظاھری اور باطنی فقر ختم ھوجاتا ھے۔

کارگر نظر

محمود غزنوی جس نے ایک مختصر مدت تک حکومت کی ھے، اس کی زندگی کے بارے میں ملتا ھے: ایک روز دریا کے کنارے سے اس کاگزر ھوا، دیکھا کہ ایک نوجوان رنجیدہ خاطر حزن و ملال کے ساتھ دریا میں جال ڈالے ھوئے بیٹھا ھے۔

بادشاہ نے اس کی پریشانی معلوم کی تو اس نے جواب دیا: میں کیوں رنجیدہ خاطر اور پریشان نہ ھوں، میں اور میرے سات بھائی یتیم ھیں اور ھماری ماں بہت بوڑھی ھے، باپ کے مرنے کے بعد سے گھر کا سارا خرچ میں ھی چلاتا ھوں،اپنے خرچ کے لئے ھر روز دریا سے مچھلی پکڑنے کے لئے آتاھوں، کبھی ایک مچھلی کا شکار کرتا ھوں اور کبھی دو مچھلیاں جال میں پھنستی ھیں، جس سے بمشکل اس یتیم گھر کا خرچ چلتا ھے، محمود غزنوی نے کھا: کیا تم مجھے بھی اپنے شکار میں شریک کرسکتے ھو؟ وہ جوان راضی ھوگیا، بادشاہ نے کھا: اپنے شریک کے نام سے جال دریا میں ڈالو اور باھر نکالو، چنانچہ اس جوان نے تھوڑی دیر بعد جال کو کھینچنا شروع کیا تو اس کو نھیں کھینچ سکا، بادشاہ کے ھمراہ افراد نے اس کی مدد کی اور جال باھر نکالا تو دیکھا کہ اس میں بہت سی مچھلیاں ھیں۔

بادشاہ واپس آگیا، دوسرے روز اپنے شریک کو دربار میں بلا بھیجا، اور جب وہ محمود غزنوی کے دربار میں پھنچا تو بادشاہ نے اس کو اپنے پاس بٹھایا، اس کی احوال پرسی کی اوراس کی دلجوئی کی۔ لیکن یہ دیکھ کر درباریوں نے کھنا شروع کیا: بادشاہ سلامت! یہ ایک غریب اور نادارانسان ھے، اس کو شاھی مسند پر نھیں بٹھانا چاہئے؛ یہ سن کر بادشاہ نے کھا: کچھ بھی ھو، ھے تو ھمارا شریک، لہٰذا جو بھی ھمارے پاس ھے، اس سے یہ بھی فائدہ اٹھاسکتا ھے۔

جی ھاں! اگر ایک چار دن والا غیر حقیقی بادشاہ ایک لاچار انسان کو اس طرح سے رشد ترقی کی منزل تک پھنچا سکتا ھے، اور اس کی پریشانیوں کو ختم کرسکتا ھے، تو بادشاہ حقیقی اور مالک الملک ،جس کے کمالات اور صفات بے نھایت ھےں اس کے لطف و کرم کا خزانہ بے نھایت ھے، اگر کوئی اس کی بارگاہ میں اپنی پریشانیوں اور مادی و معنو ی ضرورتوں کو پیش کرے تو کیاخداوندعالم اس کی مرادپوری نھیں کرے گا؟!

خداوندعالم کی نظر رحمت ایسی نظر ھے جس نے حضرت نوح اور ان کے ھمراہ مومنین کو اس عظیم طوفان سے نجات دی،جناب موسیٰ علیہ السلام کے ھاتھ میں خشک عصا کو اژدھا بنا کر فرعون کی ھیبت کو ختم کردیا، بنی اسرائیل کو موجیں مارتے ھوئے سمندر سے ساحل نجات تک پھنچادیتا ھے، حضرت ایوب علیہ السلام کو مصیبتوں کے پھاڑوں سے نجات عطا کی، اور جناب یوسف علیہ السلام کو اندھیرے کنویں سے نکال کر بادشاہ مصر بنادیا، و۔۔۔۔

حاتم اصمّ کی حیرت کُن داستان

حاتم اصمّ اپنے زمانے کے ایک مشھورعابد و زاھد تھے، اپنے علمی اور روحانی مقام کے بعد بھی گھر یلو خرچ کے لئے پریشانی اٹھاتے تھے، لیکن خدا وندعالم پر بے انتھا توکل اور بھروسہ رکھتے تھے۔

ایک رات کا واقعہ ھے کہ کچھ دوست اور رفقاء بیٹھے ھوئے تھے، حج اور زیارت کی گفتگو ھونے لگی، ان کے دل میں بھی حج و زیارات کا شوق ھوا،وہ سر زمین وحی جس پر حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنی پیشانی خاک پر رکھی اور خداوندعالم کی عبادت کی ، اس کی زیارت کے لئے ان کا دل بے چین ھوگیا، اور ان کے دل میں تمناؤں کا سمندر امنڈ آیا۔

گھر میں آئے تو اپنی زوجہ اور بچوں سے کھنے لگے اگر تم لوگ راضی ھو ںتو میں خانہ محبوب (خانہ کعبہ)کی زیارت کے لئے چلاجاؤں اور وھاں پر تم لوگوں کے لئے بھی دعا کروں۔ یہ سن کر ان کی زوجہ بولی: اس حالت میں جبکہ تنگدستی میں زندگی بسر کررھے ھیں آپ کس طرح حج کے لئے جارھے ھیں؟ حج تومالدار لوگوں پر واجب ھے ، اسی طرح ان کے صاحبزادہ نے بھی اپنی ماں کی باتوں کی تائید کی، لیکن ان کی چھوٹی لڑکی نے کھا: کیا پریشانی ھے کہ اگر ھم اپنے باپ کو سفر حج کی اجازت دیدیں؟ جانے دیجئے، ھمارا رزق کا ذمہ دار تو خدا ھے، باپ فقط اس میں وسیلہ ھیں، خداوندقادر ھماری روزی کسی دوسرے طریقہ سے پھنچاسکتا ھے۔ اس ھوشیاربچی کی یہ بات سن کر سب لوگ حقیقت کی طرف متوجہ ھوئے اور ان کو حج خانہ کعبہ کی اجازت دیدی، اور کھا: ھمارے لئے بھی خانہ خدا میں دعا کرنا۔

حاتم صاحب بہت خوش ھوئے، اور انھوں نے سفر کی تیاری شروع کردی، اور کاروان حج کے ساتھ روانہٴ حج ھوگئے۔ جب پڑوسیوں کو یہ معلوم ھوا کہ حاتم صاحب حج کے لئے چلے گئے ھیں تو اس لڑکی کے پاس آکر اس کی ملامت کرنے لگے، کہ کیوں تم نے اپنے باپ کو حج کی اجازت دیدی؟! جبکہ تمھاری حالت اچھی نھیں ھے، اور پھر اس سفر میں کئی مھینے لگ جاتے ھیں،اب تم ھی بتاؤ تمھارا خرچ کس طرح چلے گا؟

ان کی بیوی نے بھی اس بچی سے کھا کہ اگر تو چپ رہتی تو ھم ان کو حج کی اجازت نہ دیتے!

بچی بہت زیادہ رنجیدہ خاطر ھوگئی اور غم و اندوہ کی وجہ سے اس کی معصوم آنکھوں سے آنسو جاری ھوگئے، اور اس نے دست دعا بلند کردئے، اور کھا: پالنے والے! یہ لوگ تیرے احسان وکرم کے عادی ھوگئے ھیں، اور ھمیشہ تیری نعمتوں سے بھرہ مند ھوتے ھیں، ان کو شرمندہ نہ کر اور مجھے بھی ان کے سامنے شرمندہ نہ کر۔

سب لوگ تعجب کررھے تھے کہ ان کے لئے کھانے پینا کا سامان کون لائے گا، اچانک حاکم شھر جو شکار کرکرکے واپس لوٹ رھا تھا اور پیاس سے برا حال تھا، اس نے پانی کی تلاش میں اپنے خادموں کو بھیجا تاکہ اس کے لئے پانی کی کوئی سبیل کریں۔

چنانچہ وہ لوگ حاتم کے دروازے پر آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، حاتم کی زوجہ دروازے پر آکر کہتی ھے کہ تم کون لوگ ھو اور کیا کام ھے؟ انھوں نے کھا: تمھارے دروازہ پر حاکم آیا ھے اور پیاسا ھے پانی پینا چاہتا ھے۔ زوجہ نے تعجب سے آسمان کی طرف دیکھ کر کھا: پالنے والے! کل ھم لوگ بھوکے ھی سوگئے تھے اور آج ھمارے دروازے پر حاکم پانی مانگ رھا ھے!!

اس کے بعد مٹی کے کٹورے میں پانی بھر کر اس کو پیش کیا اور کھا کہ معاف کرنا ھمارے پاس مٹی کے ھی برتن ھیں۔

امیر نے اپنے ساتھیوں سے کھا: یہ کس کا گھر ھے؟ کھا: حاتم اصم کا، جو بہت ھی زیادہ عابد و زاھد انسان ھیں اور اس وقت حج کے لئے گئے ھوئے ھیں، ادھر ان کے بال بچے پریشانی کی زندگی بسرکر رھے ھیں۔ حاکم نے کھا: ھم نے ان سے پانی مانگ کر ان کو زحمت میں ڈال دیا ھے، یہ ھماری شان کے خلاف ھے کہ ایسے غریب لوگوں کو زحمت میں ڈالیں۔

یہ کہہ کر اس نے اپنا سونے کا کمر بند (پٹکا) نکالا اور ان کے مکان کی طرف ڈال دیا اور اپنے ساتھیوں سے کھا: جو بھی مجھے چاہتا ھے، اپنے کمربند کو یھاں ڈال دے، چنانچہ یہ سن کر سب نے اپنا اپنا کمر بند نکال کر ان کے حوالے کردیا، اور واپس لوٹتے وقت حاکم نے ان سے کھا: خدا رحمت کرے تم لوگوں پر، میں ابھی وزیر کو بھیجتا ھوں تاکہ ان کمربندوں کی قیمت لاکر تمھیں دیدے اور یہ کمر بند لے جائے، کچھ ھی دیر بعد وزیر آیا او ران کی قیمت ادا کرکے کمربندوں کو لے گیا!!

جیسے ھی اس لڑکی نے اس ماجرے کو دیکھا اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے، لڑکی کو روتے دیکھ کر سب کھنے لگے، روتی کیوں ھو؟ یہ تو خوشی کا موقع ھے، کیونکہ خداوندعالم نے تم پر اتنا لطف و کرم کیا اور ھماری بھی آنکھیں کھول دی ھیں۔ یہ سن کر وہ لڑکی بولی: میں تو اس وجہ سے رو رھی ھوں کہ کل رات ھم لوگ بھوکے سوئے تھے اور آج مخلوق خدا نے ھم پر ایک نظر کرم کیا اور ھمیں بے نیاز کردیا، لہٰذا اگر خداوندمھربان کسی پر ایک نظر کرلے تو اس کی نظر کیا کرے گی؟!

اس کے بعد اس لڑکی نے اس طرح اپنے باپ کے لئے دعا کی: پالنے والے! جیسا تو نے ھمارے ساتھ احسان کیا اور ھماری مشکل کو آسان فرمایاھے ھمارے باپ کو بھی مشکلوں سے نجات دے اور ان کے سفر کو آسان فرما۔

ادھر حاتم اصم اپنے قافلہ کے ساتھ سفر کررھے تھے، نہ سواری تھی اور نہ زیادہ خرچ، لیکن جو لوگ ان کو پہچانتے تھے راستے میں ان کی مدد کیا کرتے تھے۔

ایک رات اچانک امیر کارواں کے بہت شدید درد اٹھا، کارواں میں موجود طبیب نے اس کو لاعلاج کہہ دیا، اس موقع پر رئیس قافلہ نے کھا: کیا کوئی ھمارے قافلہ میں ایسا شخص ھے جس کی دعا اثر کر جائے، لوگوں نے بتایا : ھاں!حاتم اصم موجود ھیں، امیر کارواں نے کھا: جلد اس کو میرے پاس بلالاؤ شاید ان کی دعا کچھ اثر کرجائے، یہ سن کر اس کے ساتھی دوڑے دوڑے حاتم کے پاس آئے اور ان کو لے کر امیر کے پاس پھنچے،حاتم نے سلام کیا، امیر کارواں کے سرھانے کھڑے ھوکر اس کی شفاکے لئے دعا کی، اور ان کی دعا کی برکت سے امیر کو شفا مل گئی، جس کے بعد امیر کارواں نے ان کو بہت نوازا اور کھا: ان کو ایک سواری دی جائے، اور ان کے آنے جانے کا تمام خرچ ھمارے ذمہ ھے۔

حاتم نے امیر کارواں کا شکریہ ادا کیا اور اس رات میں ایک مخصوص حالت میں خداوندعالم کے ساتھ راز و نیاز کیا، جب بستر پر سوئے تو عالم خواب میں دیکھا کہ کوئی کہہ رھا ھے:

”اے حاتم! جو شخص اپنے کاموں کو ھمارے اوپر چھوڑ دیتا ھے اور ھم پر بھروسہ کرتا ھے، ھم بھی اس کو تنھا نھیں چھوڑتے اور اس پر اپنے لطف و کرم کی بارش کردیتے ھیں، اے حاتم! تم اپنے اھل و عیال کی طرف سے بھی فکر مند نہ رھنا ھم نے ان پر بھی اپنا خاص لطف وکرم کیا۔ حاتم جیسے ھی خواب سے بیدار ھوئے،خداوندعالم کا شکر ادا کیا اور خداوندعالم کے اس لطف و کرم سے حیرت زدہ ھوگئے۔

جس وقت وہ سفر سے لوٹے، ان کے اھل و عیال ان کے استقبال کے لئے آئے اور سب لوگ خوش و خرم تھے، لیکن حاتم سب سے زیادہ اپنی بچی سے پیار کرتے ھیں، اس کو آغوش میں لیتے ھیں اور چومتے ھیں اور کہتے ھیں: ایسا ھوسکتا ھے کہ ظاھراً چھوٹے بچے ھوں لیکن اندر سے بہت بزرگ افراد ھوں، خدا عمر کے لحاظ سے اپنے بندوں پر نظر نھیں کرتا بلکہ ان کی معرفت کے لحاظ سے نظر رحمت کرتا ھے، لہٰذا خداوندعالم کی معرفت اور اس پر اعتماد رکھنا چاہئے، کیونکہ جو شخص بھی اس پر توکل اور بھروسہ کرتا ھے وہ اس کو تنھا نھیں چھوڑتا ھے“۔[117]

نظرکیمیا اثر

فاضل بزرگوار سید جعفر مزارعی روایت کرتے ھیں: حوزہ علمیہ نجف اشرف میں ایک طالب علم معاشی زندگی کے لحاظ سے بہت زیادہ پریشان تھا۔ ایک روز اس حالت کی شکایت کرنے کے لئے حضرت علی علیہ السلام کے حرم میں مشرف ھوا ، اور عرض کیا: آپ کے روضہ مبارک پر اس قدر فانوس اورقندیلیں لگی ھوئی ھیں، ھمارے پاس کھانے کے لالے پڑے ھوئے ھیں!!

رات ھوئی تو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ فر مارھے ھیں: اگر نجف میں میرے پڑوسی بنے رھنا چاہتے ھوں تو یھی طلبگی نان و نمک ھے، اور اگر اچھی زندگی چاہتے ھو، تو ”حیدر آباد دکھن“ (ھندوستان ) فلاں شخص کے مکان پر جاؤ اور جب مالک مکان نکل کر آئے تو صاحب مکان سے کھنا:

بہ آسمان رود و کار آفتاب کند

خواب سے بیدار ھوا تو پھر حرم میں گیا اور عرض کی ، میں یھاں پریشان ھوں اور آپ مجھے ھندوستان بھیج رھے ھیں!!

دوسری رات پھر حضرت علی علیہ السلام کو خواب میں دیکھا اور کھا: بات وھی ھے جو ھم نے کھی ھے، اگر ھمارے پڑوس میں اس طرح زندگی نھیں گزارسکتے تو ھندوستان جاؤاور فلاں راجہ کو تلاش کرکے اس سے کھو:

بہ آسمان رود و کار آفتاب کند

خواب سے بیدار ھوا، صبح ھوتے ھی اپنی کتابیں اور سامان جمع کیا اور سب کو بیچ دیا تاکہ ھندوستان جانے کا زاد راہ جمع کرے، بعض دوسرے صاحبان حیثیت نے بھی اس کی مدد کی اور یہ طالب علم حیدر آباد میں اس راجہ کی تلاش میں چل دیا، جب لوگوں نے اس سیدھے سادھے طالب علم کو راجہ کی تلاش میں دیکھا تو بہت تعجب کیا۔

لیکن آخر کار تلاش کرتے کرتے اس راجہ کے مکان پر پھنچ گیا، جب اس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو دروازہ کھول کر ایک شخص باھر آیا جیسے ھی اس شخص کو دیکھا تو اس سے کھا:

بہ آسمان رود و کار آفتاب کند

یہ سنتے ھی راجہ صاحب نے اپنے نوکروں سے کھا: مولانا صاحب کو فلاں کمرے کی طرف لے کر چلو، تھوڑا آرام کرنے کے بعد ان کونھلا دھلاکر بہترین قیمتی کپڑے پھنائے گئے۔

بہترین مھمان داری ھورھی تھی، دوسرے روز دیکھا کہ شھر کے بڑے بڑے لوگ اور علماء کرام تشریف لارھے ھیں، اور سب ایک ھال میں جمع ھورھے ھیں، مولانا صاحب نے اپنے برابر میں بیٹھے ھوئے شخص سے پوچھا: کیا پروگرام ھے؟ تو اس نے بتایا: راجہ صاحب کی لڑکی کا عقد ھے، مولانا صاحب نے دل ھی دل میں کھا: جب سے اس مکان پر آیا ھوں ، تمام عیش و آرام کے وسائل موجود ھیں۔

جب محفل سج گئی، راجہ صاحب اس ھال میں تشریف لائے، ان کے احترام میں سب لوگ کھڑے ھوگئے، اور وہ اپنی مخصوص جگہ پر آکر تشریف فرما ھوگئے۔

اس وقت راجہ صاحب نے اھل محفل کی طرف مخاطب کرکے کھا: بھائیوں میں نے اپنی آدھی ملکیت، (پیسہ، محل،زمین اورباغات وغیرہ) نجف اشرف سے آنے والے ان مولانا کو ھدیہ کردی، اور آپ لوگ جانتے ھیں کہ میری دو ھی لڑکیاں ھیں ان میں سے جو زیادہ خوبصورت ھے اس کے ساتھ ان کاعقد کرتا ھوں، اور موجود علماء کرام سے خطاب کیا، آپ لوگوں میں سے کوئی ایک عقد پڑھنے کے لئے تیار ھوجائے۔

نکاح پڑھ دیا گیا،اس وقت مولانا صاحب کو بہت تعجب ھوا، اور اس واقعہ کی تفصیل کے بارے میں سوال کیا؟

راجہ صاحب نے کھا: میں نے چند سال پھلے سے حضرت علی علیہ السلام کی شان میں ایک شعر کھا ھے، لیکن اس پر مصرعہ نھیں لگاسکا، میں نے ھندوستانی فارسی شعراء سے بھی مدد مانگی، لیکن وہ بھی کوئی ڈھنگ کا مصرعہ نہ لگاسکے، ایرانی شعراء کی طرف بھی رجوع کیا، وہ بھی دل کو نہ بھایا، میں نے دل میں سوچا، میرا شعر حضرت علی علیہ السلام کی نظر کیمیا اثر میں مقبول نھیں ھے ، لہٰذا میں نے نذر کی کہ اگر کوئی اس شعر پر اچھامصرعہ لگادے تو میں اس کو اپنی آدھی دولت بخش دوں گااور اپنی لڑکی کا نکاح کردوں گا، مولانا صاحب! آپ نے میرے شعر پر مصرعہ لگادیا، میں نے دیکھا کہ واقعاً یہ مصرعہ ھر لحاظ سے بہت عمدہ اورھم آھنگ ھے، مولانا صاحب نے کھا: پھلا مصرعہ کیا تھا؟ راجہ نے جواب میں یہ مصرعہ پڑھا:

بہ ذرّہ، گر نظر لطف بوتراب کند

مولانا صاحب کہتے ھیں: یہ دوسرا مصرعہ میرا نھیں ھے، بلکہ حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب کا ھے، اس وقت راجہ نے سجدہ شکر ادا کیا اور کھا:

بہ ذرّہ، گر نظر لطف بوتراب کند

بہ آسمان رود و کار آفتاب کند

قارئین کرام! جب حضرت علی علیہ السلام کی کیمیا اثر نظر کے صدقہ میں ایک نیازمند اور پریشان حال کی مشکلات اس طرح بدل سکتی ھے تو اگر خداوند مھربان اپنے بندے پر نظر رحمت کرلے تو کیا حال ھوگا؟



[1] سورہ شوریٰ آیت ۱۱۔(ترجمہ : اس کے مانند کوئی شئے نھیں ھے)

[2] سورہ اعراف آیت ۱۸۲۔”ھم نے انھیں عنقریب اس طرح لپیٹ لیں گے کہ انھیں معلوم بھی نہ ھوگا۔

[3] نفحات اللیل:۸۱۔

[4] بحار الانوار ج۷۵، ص ۱۲۶، باب ۲۰ حدیث ۷۔

[5] سورہ یوسف آیت ۸۷۔

[6] سورہ زمر آیت ۵۳۔

[7] سورہ نساء آیت ۲۳۔

[8] سورہ نساء آیت۲۵۔

[9] سورہ مائدہ آیت ۳۹۔

[10] سورہ انفال آیت ۶۹۔

[11] تحف العقول:۱۸؛میزان الحکمہ :۶۳۸۲،التوبہ،حدیث۲۱۲۶۔

[12] نہج البلاغہ، حکمت نمبر ۴۳۵۔

[13] بحارالانوار :ج۶ ص۲۸،باب۲۰،حدیث۳۲۔

[14] کافی ،ج۲ص۴۳۰،باب توبہ، حدیث۱؛بحارالانوار :ج۶ ص۲۸،باب۲۰،حدیث۳۱۔

[15] سورہ فرقان آیت ۷۰۔

[16] سورہ ھود آیت ۱۱۴۔

[17] سورہ فرقان آیت ۷۰۔ تفسیر نور الثقلین ج۴ص ۳۳۔

[18] تفسیر نمونہ ج۱۵، ص ۱۶۰۔

[19] توحید صدوق:۲۴؛بحارالانوار :ج۳ ص۵،باب۱،حدیث۱۴۔

[20] توحید صدوق:۲۲؛بحارالانوار :ج۳ ص۵،باب۱،حدیث۱۲۔

[21] توحید صدوق:۲۹؛بحارالانوار :ج۳ ص۹،باب۱،حدیث۲۰۔

[22] توحید صدوق:۲۱؛وسائل الشیعہ:ج۷ ص۲۱۰،باب۴۴،حدیث۹۱۴۰۔

[23] توحید صدوق:۲۷؛بحارالانوار :ج۹۰ ص۱۹۷،باب۵،حدیث۲۱۔

[24] بحا ر الانوار ،ج۳ ص ۱۳، باب ۱ حدیث ۲۸ ؛ مستدرک الوسائل، ج۵ ص ۳۵۹ باب ۳۶ حدیث ۶۰۸۳۔

[25] میزان الحکمہ :ج۲۳۶۲۵،التسبیح، حدیث ۸۲۴۰۔

[26] معانی الاخبار ۹ حدیث ۳؛میزان الحکمہ :ج۲۳۶۲۵،التسبیح، حدیث ۸۲۴۱۔

[27] سورہ اسراء آیت ۴۴۔

[28] سورہ انبیاء آیت ۸۷۔۸۸۔

[29] ۔انیس اللیل:۲۲۶۔

[30] انیس اللیل:۲۲۷۔

[31] بحارالانوار :ج۶۸ ص۳۳،باب۶۱،حدیث۱۴۔

[32] بحارالانوار :ج۶ ص۳۶،باب۲۰،حدیث۵۶۔

[33] کافی ،ج۲ص۴۲۶،باب الاعتراف بالذنوب، حدیث۲؛میزان الحکمہ :ج۲ص۶۴۲،التوبہ، حدیث۲۱۵۳۔

[34] مستدرک الوسائل :ج۱۲ص۱۱۶،باب ۸۲،حدیث۱۳۶۷۱؛ میزان الحکمہ :ج۲ص۶۴۴،التوبہ، حدیث۲۱۵۵۔

[35] غررالحکم:۱۹۵،حدیث۳۸۱۱؛میزان الحکمہ :ج۲ص۶۴۴،التوبہ، حدیث۲۱۵۶۔

[36] سورہ تحریم آیت ۶

[37] انیس اللیل ص ۲۳۳۔

[38] انیس اللیل ص ۲۳۹۔

[39] مجموعہٴ ورّام:ج۱ص۱۸۹۔

[40] عدة الداعی: ص۳۳۷۔

[41] غررالحکم:۷۳،حدیث۱۰۹۴؛میزان الحکمہ: ج۲ص۸۶۸، الجھل، حدیث۲۷۹۸۔

[42] غررالحکم:۷۳،حدیث۱۰۹۵؛میزان الحکمہ :ج۲ص۸۶۸،الجھل، حدیث۲۷۹۹۔

[43] غررالحکم:۷۵،حدیث۱۱۶۴؛میزان الحکمہ :ج۲ص۸۶۸،الجھل، حدیث۲۸۰۲۔

[44] غررالحکم:۷۵،حدیث۱۱۵۲؛میزان الحکمہ :ج۲ص۸۷۰،الجھل، حدیث۲۸۱۷۔

[45] غررالحکم:۷۵،حدیث۱۱۶۳؛میزان الحکمہ :ج۲ص۸۷۰،الجھل، حدیث۲۸۱۸۔

[46] غررالحکم:۷۴،حدیث۱۱۲۳؛میزان الحکمہ:ج۲ص۸۷۰،الجھل، حدیث۲۸۲۲۔

[47] بحارالانوار :ج۹۴ ص۲۱۹،الیوم التاسع والعشرون۔

[48] سورہ مطففین آیت ۱۵۔

[49] سورہ شمس آیت ۹،۱۰۔

[50] شرح نہج البلاغہ:ج۶ص۳۳۷؛میزان الحکمہ :۱۵۳۶۴،الخلق، حدیث۵۰۹۷۔

[51] غررالحکم:۲۶۵،حدیث۵۷۲۲؛میزان الحکمہ :۱۵۳۶۴،الخلق، حدیث۵۰۹۸۔

[52] غررالحکم:۲۶۴،حدیث ۵۶۹۷؛میزان الحکمہ :ج۱۵۳۶،الخلق، حدیث۵۰۸۹۔

[53] ۔محجّةالبیضاء، ج۵،ص۹۳،کتاب ریاضة النفس ،میزان الحکمة ۴ ۱۵۳۶ الخلق، حدیث ۵۱۰۱۔

[54] المناقب:ج۲ص۳۰۱،فصل فی السابقة بالزھد؛عدة الداعی ص۲۰۹؛ بحارالانوار ج۸۴ ص ۱۵۶،باب۶،حدیث۴۱۔

[55] کافی ،ج۳ص۴۵۰،باب صلاة النوافل،حدیث ۳۴۔

[56] بحارالانوار :ج۱ص ۱۵۰،باب۴،علامات العقل۔

[57] میزان الحکمہ :۱۸۴۱، الاٴمل، حدیث ۶۷۵۔

[58] بحارالانوار :ج۷۴ص ۱۷۵،باب۷،حدیث۸۔

[59] بحارالانوار :ج۹۱ص ۱۵۵،باب۳۲،حدیث۲۲۔

[60] غررالحکم:۳۱۲،حدیث ۷۲۰۷؛میزان الحکمہ :۱۸۶۱، الاٴمل، حدیث۶۸۳۔

[61] غررالحکم:۳۱۳،حدیث ۷۲۴۵؛میزان الحکمہ :۱۸۶۱،الاٴمل، حدیث۶۸۴۔

[62] غررالحکم:۶۵،حدیث ۸۶۰؛میزان الحکمہ :۱۸۶۱،الاٴمل، حدیث۶۸۵۔

[63] غررالحکم:۳۱۲،حدیث ۷۲۰۶؛میزان الحکمہ :۱۸۶۱،الاٴمل، حدیث۶۸۶۔

[64] کافی ،ج۲ص۳۲۹،باب القسوة،حدیث۱؛میزان الحکمہ :۱۸۸۱،الاٴمل، حدیث ۸ ۷۱۔

[65] اقبال:ص۳۹۰،میزان الحکمہ :۱۸۶۱،الاٴمل، حدیث۶۹۔

[66] بحارالانوار :ج۷۰ ص۱۶۷،باب۱۲۸،حدیث۳۱۔

[67] سورہ اعراف آیت ۵۸۔

[68] کافی :۵۸۸ ،حدیث ۲۱؛بحار الانوار :۲ ۱۰۶ ،باب ۱۵،حدیث ۲۔

[69] بحارالانوار ج ۷۰ص ۸۴، باب ۱۲۳، حدیث ۴۷۔

[70] وسائل الشیعہ:۱۰۱۶،باب ۶۲،حدیث ۲۱۸۲۷۔

[71] کافی:۱ ۱۵ ،کتاب العقل و الجھل ،حدیث ۱۲۔

[72] بحار الانوار:۹۹۷۰،باب ۱۲۲،حدیث ۸۶۔

[73] تحف العقول :۳۰۳؛بحار الانوار :۲۸۱۷۵،باب ۲۴،حدیث ۱۔

[74] علم الاخلاق ص ۱۰۱۔

[75] سورہ یوسف آیت ۵۳۔

[76] سورہ شمس آیت ۱۰۔

[77] سورہ بقرة آیت ۱۳۰۔

[78] سورہ یوسف آیت ۱۸۔

[79] سورہ مدثر آیت ۳۸۔

[80] سورہ نازعات آیت ۴۰ و۴۱۔

[81] سورہ زمر آیت ۵۶۔

[82] عدة الداعی :۳۱۴؛بحار الانوار :۶۴۶۷،باب ۴۵،حدیث ۱۔

[83] غرر الحکم :۲۳۷،اصلاح النفس ،حدیث ۴۷۶۶۔

[84] غرر الحکم :۲۴۱،مخالفة الھوی،حدیث ۴۸۸۱۔

[85] غرر الحکم :۱۳۶،الدنیا آفة النفس ،حدیث ۲۳۸۶۔

[86] غرر الحکم :۲۳۵،مراقبة النفس،حدیث ۴۷۱۸۔

[87] غرر الحکم :صلاح الدین بھما ۔۔۔،حدیث ۵۹۱۲۔

[88] نہج البلاغہ:۳۱۲،خطبہ نمبر ۱۹۸، من خطبة لہ(ع)یبنّہ علی احاطة علم الله۔۔۔۔۔

[89] غرر الحکم :۱۳۶،الدنیا آفة النفس ،حدیث ۲۳۸۵۔

[90] غرر الحکم :۳۰۳،ذم اللذات ،حدیث ۶۹۲۳۔

[91] سورہ صافات آیت ۱۲۰۔

[92] سورہ صافات آیت ۱۲۲۔

[93] غرر الحکم :۳۴۰،تھذیب النفس ،حدیث ۴۸۵۱۔

[94] حکمت الٰھی ص ۳۹۸تا ۳۹۹۔

[95] نفس اور اس کے اچھے برے حالات کے بارے میں مذکورہ کتاب(حکمت الٰھی) میں تفصیل کے ساتھ مطالب بیان کئے گئے ھیں، قارئین کرام! مزید آگاھی کے لئے اس کتاب کا مطالعہ بہت مفید ھے۔

[96] سورہ مائدہ آیت ۹۵۔

[97] بھرہ، کم سننے والا۔

[98] نھج البلاغہ :۱۵۶،ومن کلام لہ(ع)اھل بصرة سے خطاب۔۔۔؛ بحار الانوار :۱۰۰ص۵۶،باب ۴،حدیث ۳۲۔

[99] سورہ بقرة آیت ۶۵۔

[100] غرر الحکم :۴۷۹۔متفرقات اجتماعی،حدیث ۱۱۰۰۹۔

[101] نہج البلاغہ:حکمت ۱۸۱۔

[102] نہج البلاغہ:۲۲۱،خطبہ ی۱۷۵، ومن خبطة لہ(ع)یحث الناس علی التقوی۔

[103] تحف العقول :۳۵۶۔

[104] شجرہ ملعونہ کے معنی ”لعنت کیا ھوا درخت “ھے ، جس کا ذکر قرآن مجید (سورہ اسراء آیت ۶۰) میں ھوا ھے، ارشاد ھوتا ھے:

”وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی اٴَرَیْنَاکَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِی الْقُرْآنِ وَنُخَوِّفُہُمْ فَمَا یَزِیدُہُمْ إِلاَّ طُغْیَانًا کَبِیرًا۔“

[105] امالی مفید:۵۱،مجلس ششم،حدیث ۱۸۔

[106] بحار الانوار :۷۲۶۸،باب ۶۲۔

[107] بحارالانوار :۲۶۹۶۸،باب۷۷،حدیث۴۔

[108] بحارالانوار :۲۶۹۶۸،باب۷۷،حدیث۵۔

[109] غررالحکم :۲۶۵، حدیث۵۷۴۴؛میزان الحکمة : ۴۳۶۲۹،الغفلة، حدیث ۱۵۱۳۵۔

[110] غررالحکم :۱۴۶، حدیث ۲۶۵۶؛ میزان الحکمة :۴۳۶۲۹،الغفلة، حدیث ۱۵۱۴۳۔

[111] غررالحکم :۲۶۶،حدیث۵۷۶۵؛میزان الحکمة :۴۳۷۲۹،الغفلة، حدیث ۱۵۲۰۷۔

[112] غررالحکم :۲۶۶،حدیث۵۷۶۲؛میزان الحکمة :۴۳۷۲۹،الغفلة، حدیث ۱۵۲۰۸۔

[113] بحار الانوار:۱۱۴۷۵،باب۱۹،حدیث۱۰؛میزان الحکمة:۴۳۷۲۹،الغفلة ،حدیث ۱۵۲۰۳۔

[114] بحار الانوار:۲۹۵۱۴،باب ۲۱۔

[115] کافی:۱۴۸۲،باب الاستغناء عن الناس ،حدیث ۲۔

[116] نفحات اللیل ص ۱۰۹۔

[117] انیس اللیل ص ۲۹۲۔

No comments: