Tuesday, April 28, 2009

توبہ آغوش رحمت۵

تقویٰ و پرھیزگاری کے فوائد

(( وَاٴَمَّامَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَویٰ فَإِنَّ الْجَنَّةَ ھِیَ الْمَاویٰ))۔[1]

اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ھے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روک لیاھے، تو بیشک، اس کا ٹھکانہ جنت ھوگا“۔

انسان اور اس کی خواہشات

انسان بچپن سے آخری وقت تک دیکھتا ، سنتا ، چکھتا ، لمس کرتا، سونگھتا اور سعی و کوشش کرتا ھے۔

جس چیز کو دیکھتا، سنتا، چکھتا، لمس کرتا، سونگھتا اور کوشش کرتا ھے اسی کوچاھتا ھے۔

دیکھنے، سننے، چکھنے، لمس کرنے او رسونگھنے والی چیزوں کے مناظر بھت زیادہ دلربا ھوتے ھیں ، چنانچہ انھیں مناظر کی وجہ سے انسان کے خواہشات بھی بھت زیادہ ھوجاتی ھيں۔

دیکھی ھوئی ،اورسنی ھوئی یا مزہ دار چیزوں میں ،ان اشیاء کا استعمال کرنا جو خود اس کے لئے،یا اس کے اھل خانہ اور معاشرہ کے لئے نقصان دہ ھو، حرام اور ممنوع ھيں؛ خداوندعالم کے حکم سے حرام کردہ یہ سب چیزیں انبیاء اور ائمہ علیھم السلام کی ذریعہ بیان ھوئی ھیں، اور تمام چیزوں کا بیان کرنا رحمت پروردگار ،انبیاء اور ائمہ علیھم السلام کی محبت کا نتیجہ ھے۔

انسان روپیہ پیسہ، غذا، لباس، زمین و جائداد، گاڑی، خواہشات نفسانی اورجاہ و مقام کی آرزورکھتا ھے، لیکن یہ غور کرنا چاہئے کہ خواہشات بے قید و شرط کے نہ ھوں، ھماری خواہشات دوسروں کے حقوق کی پامالی کا سبب نہ بنیں، ھماری خواہشات کسی کا گھر یا معاشرہ کو درھم و برھم نہ کرڈالیں، ھماری خواہشات ،انسانی شرافت کونہ کھوبیٹھے ھماری، خواہشات اس حد تک نہ ھو ںکہ انسان اپنی آخرت کو کھوبیٹھے اور غضب الٰھی کا مستحق بن جائے اور ھمیشہ ھمیشہ کے لئے نار جہنم میں جلتا رھے، اس چیز کی اجازت نہ شریعت دیتی ھے اور نہ عقل و منطق، آپ کسی بھی صاحب فطرت اور صاحب وجدان اور عقل سلیم رکھنے والے شخص سے سوال کرلیں کہ میں مال و دولت، مقام ومنصب یا عورت کو حاصل کرنے کے بعد دوسرے کے حق کو پامال اور ان پر ظلم کرنا چاھتا ھوں، یا کسی کے دل کو جلانا یاکسی کا گھر برباد کرنا چاھتا ھوں تو دیکھئے وہ کیا جواب دیتا ھے، یا ان تمام سوالوں کو اپنی عقل و فکر اور وجدان سے پوچھ کر دیکھیں تو کیا جواب ملے گا؟

خود آپ اور دوسروں کی عقل صرف یھی جواب دے گی کہ ناجائز خواہشات کو ترک کردو، اور جس چیز کی خواہش ھے اسے اس طرح حاصل کرو جس طرح تمھارا حق ھے، اگر اس طرح آپ نے خواہشات پر عمل کیا تونہ کسی کا کوئی حق ضائع ھوگا اور نہ ھی کسی پر ظلم ھوگا۔

اگر یھی سوال خدا، انبیاء اور ائمہ علیھم السلام سے کریں گے تو جواب ملے گا اگر تمھارا حق ھے تو چاھو، اور اگر تمھارا حق نھیں ھے تو اس چیز کی خواہش نہ کرو، قناعت کے ساتھ ساتھ حلال طریقہ سے خواہشات کو پورا کرو لیکن اگر تمھاری خواہشات غیر شرعی طریقہ سے ھو یا اجتماعی قوانین کے خلاف ھے تو یہ ظلم و ستم ھے۔

اگر تمام خواہشات میں قوانین الٰھی اور معاشرتی حدود کی رعایت کی جائے تو زندگی کی سلامتی، حفظ آبرو، اور اخلاقی کمالات پر پہنچنے کا سبب ھیں، لیکن اگر ان خواہشات میں معاشرہ اور الٰھی قوانین کی رعایت نہ کی جائے تو انسان کی زندگی برباد ھوجاتی ھے ، اس کی عزت خاک میں مل جاتی ھے اور انسان میں شیطانی صفات اور حیوانی خصلتیں پیدا ھوجاتی ھیں۔

بھر حال انسانی زندگی میں پیش آنے والی تمام خواہشات دو قسم کی ھوتی ھیں: حساب شدہ خواہشات، اور غیر حساب شدہ خواہشات۔

حساب شدہ وہ خواہشات ھوتی ھیں جو خدا کی مرضی کے مطابق ھوں، اور اس کی مرضی کے مطابق ھی انسان آرزو کرے،جو قوانین الٰھی اور اس کے حدود کے مطابق ھوں۔ اس وقت انسان مال و دولت چاھتا ھے لیکن حلال مال و دولت، مکان چاھتا ھے لیکن حلال،شھوانی خواہشات کی آگ بجھانا چاھتا ھے لیکن شرعی نکاح کے ذریعہ، مقام و منصب چاھتا ھے لیکن رضائے الٰھی اور محتاج لوگوں کی مدد کرنے کے لئے، T.V دیکھنا چاھتا ھے لیکن صحیح او رمناسب پروگرام، ان تمام صورتوںمیں خواہشات رکھنے والا ایسا انسان موٴمن، بیدار، صاحب بصیرت، قیامت کو یاد رکھنے والا، ذمہ داری کا احساس کرنے والا، لوگوں سے نیکی اور مھربانی کرنے والا، معاشرے کے سلسلہ میں دلسوز، رضائے الٰھی کو حاصل کرنے والا، دین و دنیا کی سعادت چاہنے والا اور جھاد اکبر کرنے والاھوجاتا ھے۔

غیر حساب شدہ خواہشات وہ ھوتی ھیں جن میں صرف نفس شامل ھوتا ھے، جن میں انانیت کی بو آتی ھو، جن کی وجہ صرف تکبر و غرور اور خود خواھی ھوتی ھے اور وہ ضلالت و گمراھی سے ظاھر ھوتی ھیں۔

اس صورت میں آدمی مال و دولت چاھتا ھے لیکن جس راہ سے بھی ھو اس کے لئے کوئی مشکل نھیں چاھے سود ، چوری، غصب، مکاری، دھوکا فریب، رشوت وغیرہ کے ذریعہ ھی کیوں نہ ھو، مکان چاھتا ھے چاھے وہ اعزاء و دوستوں کے حق کو پامال کرنے سے ھو، شھوت کی آگ بجھانا چاھتا ھے چاھے استمناء، لواط زنا وغیرہ کے ذریعہ سے ھی کیوں نہ ھو، مقام و منصب چاھتا ھے، چاھے دوسروں کو ان کے حق سے نامحروم کرنے ذریعہ ھی کیوں نہ ھو، کچھ سننا چاھتا ھے چاھے غیبت، تھمت اور حرام موسیقی اور گانا ھی کیوں نہ ھو۔

ایسی خواہشات رکھنے والا شخص بے دین، ضعیف الایمان، دل کا اندھا، بے بصیرت ، آخرت کو خراب کرنے والا، غضب الٰھی کا خریدنے والا اور ظلمت و گمراھی کے میدان میں شیطان کا نوکر ھوتا ھے۔

قرآن مجید نے ایسی خواہشات رکھنے والے انسان کو ”ھوا و ھوس کے غلام“سے تعبیر کیا ھے۔

ھوا و ھوس انسان کی اس باطنی قوت کا نام ھے جو انسان پر حکومت کرتی ھے ، اور خود خدا کی جگہ قرار پاتی ھے ،خود اپنی کو معبود کھلواتی ھے، انسان کو اپنا غلام بنالیتی ھے اور انسان کو خدا کی عبادت و اطاعت کرنے کے بجائے اپنی عبادت کے لئے مجبور کرتی ھے:

((اٴَرَاٴَیْتَ مَنْ اتَّخَذَ إِلَہَہُ ہَوَاہُ اٴَفَاٴَنْتَ تَکُونُ عَلَیْہِ وَکِیلًا))۔[2]

کیا آپ نے اس شخص کودیکھاھے جس نے اپنی خواہشات ھی کو اپنا خدا بنا لیا ھے ،کیا آپ اس کی بھی ذمہ داری لینے کے لئے تیا ر ھے“۔

انسان اپنی زندگی کے آغازسے جس چیز کو دیکھتا ھے اس کو حاصل کرنا چاھتا ھے، جس چیز کو سنتا ھے اس کے پیچھے دوڑتا ھے اور جس چیز کا دل چاھتا ھے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ھے، اپنے پیٹ کو حلال و حرام کی پروا ہ کئے بغیر بھرتا ھے، شھوت کی آگ بجھانا چاھتا ھے چاھے جس طرح سے بھی ھو، مال و دولت کے حصول کے لئے، مقام و عہدہ پانے کے لئے کسی بھی حق کی رعایت نھیں کرتا، درحقیقت ایسا انسان ھوا وھوس کے بت سازکارخانہ میں داخل ھوجاتا ھے، جو کچھ ھی مدت کے بعد اپنے ھاتھوں سے بت تراشناشروع کردیتا ھے، اور اس بت کو دل میں بسالیتا ھے اور یھی نھیں بلکہ اپنے ھاتھ سے بنائے ھوئے بت کی پوجا شروع کردیتا ھے!

افسوس کی بات ھے کہ بھت لوگوں کی عمر کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ ان کا باطن بت خانہ بن جاتا ھے اور اس کی تلاش و کوشش کا ثمرہ ”ھواپرستی کا بت “ ھوتا ھے اور ان کا کام اس بت کی عبادت کرنا ھوتا ھے، ایک عارف کے بقول:

انسانی نفس خود سب سے بڑا بت ھے

اس بت کی پوجا کرنے والے یہ لوگ کسی جاندار کی جان کو جان نھیں سمجھتے، کسی کی عزت کو کوئی اھمیت نھیں دیتے، کسی کے حق کی رعایت نھیں کرتے، ایک معاشرہ کی عزت وناموس کو پامال کردیتے ھیں، ھر چیز پر اپنا حق جتاتے ھیں لیکن دوسروں کے لئے کسی بھی طرح کے حق کے قائل نھیں ھوتے۔

خداوندعالم نے تمام بندوں کو دنیا و آخرت کی خیر و بھلائی کے لئے نفس اور اس کی بے حساب و کتاب خواہشات کی پیروی نہ کرنے کا حکم دیا ھے، اگرچہ ھوائے نفس کی مخالفت ظاھراً ان کے اور دوسروں کے لئے نقصان دہ ثابت ھوتی ھو۔

((یَااٴَیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامِینَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاءَ لِلَّہِ وَلَوْ عَلَی اٴَنفُسِکُمْ اٴَوْ الْوَالِدَیْنِ وَالْاٴَقْرَبِینَ إِنْ یَکُنْ غَنِیًّا اٴَوْ فَقِیرًا فَاللهُ اٴَوْلَی بِھما فَلاَتَتَّبِعُوا الْہَوَی اٴَنْ تَعْدِلُوا۔۔۔))۔[3]

اے ایمان والو! عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرو اور اللہ کے لئے گواہ بنو چاھے اپنی ذات یا اپنے والدین اور اقرباء ھی کے خلاف کیوں نہ ھوں جس کے لئے گواھی دینا ھے وہ غنی ھو یا فقیر، اللہ دونوں کے لئے تم سے اولیٰ ھے، لہٰذا تم ھوا و ھوس کی پیروی نہ کرو، اور عدالت سے کام لو “۔

قرآن مجید نے ھوائے نفس کے بت کی پیروی کو ضلالت و گمراھی ، حق سے منحرف ھونے اورروز قیامت کو فراموش کرنے کا سبب بتایا ھے، اور قیامت کے دن درد ناک عذاب میں مبتلا ھونے کا سبب بیان کیا ھے۔

((وَلاَتَتَّبِعْ الْہَوَی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ إِنَّ الَّذِینَ یَضِلُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ لَھم عَذَابٌ شَدِیدٌ بِمَا نَسُوا یَوْمَ الْحِسَابِ))۔[4]

اور خواہشات کا اتباع نہ کرو کہ وہ راہ خدا سے منحرف کردے ،بے شک جو لوگ راہ خدا سے بھٹک جاتے ھے ان کے لئے شدید عذاب ھے کہ انھوں نے روز حساب کو بالکل نظر انداز کردیا ھے۔

قرآن مجید نے عظمت خدا سے خوف زدہ اورھوائے نفس سے مقابلہ کرنے کو بہشت میں داخل ھونے کا سبب بتایا ھے:

(( وَاٴَمَّامَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَویٰ فَإِنَّ الْجَنَّةَ ھِیَ الْمَاویٰ))۔[5]

اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ھے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ھے، تو جنت اس کا ٹھکانہ او رمرکز ھے“۔

قرآن مجید نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کے مشھور عالم ”بلعم باعورا“ کے ایمان سے ھاتھ دھونے، روحانیت اور معنویت سے جدائی، مادیت سے آلودہ ھونے اور اس کے اندر پیدا ھونے والی بُری صفات کی وجہ ،ھوائے نفس کی پیروی بتایاھے:

(( ۔۔۔ وَلَکِنَّہُ اٴَخْلَدَ إِلَی الْاٴَرْضِ وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ الْکَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَیْہِ یَلْہَثْ اٴَوْ تَتْرُکْہُ یَلْہَثْ ذَلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا۔۔۔))۔[6]

۔۔۔لیکن وہ خود زمین کی طرف جھک گیااور اس نے خواہشات کی پیروی اختیار کر لی تو اب اس کی مثال کتے جیسی ھے کہ اس پر حملہ کرو تو بھی زبان نکالے رھے اور چھوڑ دو تو بھی زبان نکالے رھے ۔یہ اس قوم کی مثال ھے جس نے ھماری آیات کی تکذیب کی ۔۔“۔

قرآن مجید نے غافلوں ،ھوائے نفس میں گرفتار اور ذلیل و پست افراد کی اطاعت کرنے سے سخت منع کیا ھے :

(( ۔۔۔ وَلاَتُطِعْ مَنْ اٴَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ وَکَانَ اٴَمْرُہُ فُرُطًا))۔[7]

۔۔۔اور ھرگز اس کی اطاعت نہ کرنا جس کے دل کو ھم نے اپنی یاد سے محروم کردیا ھے اور وہ اپنے خواہشات کا پیروکار ھے اور اس کاکام سراسر زیادتی ھے“۔

قرآن مجید کے مختلف سوروں( جیسے سورہ مائدہ، سورہ انعام، سورہ رعد، سورہ مومنون، سورہ قصص، سورہ شوریٰ، سورہ جاثیہ اور سورہ محمد[8]) کے لحاظ سے ھوائے نفس کی پیروی کتب آسمانی کی تکذیب، گمراھی، ولایت خدا سے دوری، زمین و آسمان اوران میں رہنے والوں میں فساد ، نبوت سے دوری، استقامت کو کھوبیٹھنے، غافل اور جاھل لوگوں کے جال میں پھنسنے اور ان کے دل پر مھر لگنے کا سبب ھیں۔

ھوائے نفس کی غلامی کی پہچان درج ذیل چیزیں ھیں:

بُرا اخلاق، بُرا عمل ، بے حساب و کتاب زندگی، دوسری مخلوق کے حقوق کی رعایت نہ کرنا، دوسروں پر ظلم و ستم کرنا، ترک عبادت، گناھان کبیرہ سے آلودہ ھونا، گناھان صغیرہ پر اصرار کرنا، غیظ و غضب اور غصہ سے کام لینا،لمبی لمبی آرزوئیں کرنا،نیک لوگوں کی صحبت سے دور ھونااورگناھگار او ر بُرے لوگوں کی صحبت سے لذت اٹھانا ۔

جھاد اکبر

اگر ھوائے نفس میں گرفتار شخص اپنی دنیا و آخرت کی بھلائی چاھتا ھے، اگر اپنے ماتحت لوگوں کی خیرخواھی چاھتا ھے، اگر اپنے باطن و عمل اور اخلاق کی اصلاح کرنا چاھتا ھے تو ایسے شخص کے لئے چارہ کار یہ ھے کہ ایک شجاع و بھادر فوج کی طرح ھوائے نفس سے جنگ کے لئے کھڑا ھوجائے اور اس بات پر یقین رکھے کہ اس جنگ میں خدا کی نصرت و مدد اور اس کی رحمت شامل حال ھوگی اور سو فی صد اس کی کامیابی اور ھوائے نفس کی شکست ھے۔

اگر اس جنگ میں کامیابی ممکن نہ ھوتی تو پھر انبیاء علیھم السلام کی بعثت، ائمہ علیھم السلام کی امامت اور آسمانی کتابوں کا نزول لغو اوربے ھودہ ھوجاتا۔

چونکہ اس جنگ میں شریک ھونا اور اس میں کامیابی حاصل کرنا نیز ھوائے نفس کے بت کو شکست دینا سب کے لئے ممکن ھے، لہٰذا انبیاء علیھم السلام کی بعثت، ائمہ علیھم السلام کی امامت اور آسمانی کتابوں کا نزول ھوا ، اور اس سلسلہ میں سب پر خدا کی حجت تمام ھوگئیں، اور اب کسی کے پاس دنیا میں یا آخرت میںکوئی قابل قبول عذر نھیں ھے ۔

لہٰذا انسان کو چاہئے کہ ھوائے نفس میں گرفتار ھونے اور اپنے باطن میں یہ خطرناک بت پیدا ھونے سے پھلے ھی خود اپنی حفاظت کرے اور ھمیشہ یاد خدا میں غرق رھے،اور خودکو گناھوں سے محفوظ رکھے تاکہ یہ خطرناک بت اس کے دل میں گھر نہ بنالے اگر ایساکر لیااور اپنے نفس کو محفوظ رکھ لیا تو یھی عین کرامت اور شرافت ھے جس کے ذریعہ انسان میں تقویٰ اور انسانیت پیدا ھوتی ھے۔

لیکن جب انسان کے اندر غفلت کی وجہ سے یہ بت پیدا ھوجاتا ھے، اور ایک مدت کے بعد خدائی چمک یا نفسانی الھام، یا وعظ و نصیحت، یا نیک لوگوں کی سیرت کے مطالعہ کے بعد اس بت کے پیدا ھونے سے مطلع ھوجائے ،اس کی حکومت کے خطرناک آثار سے آگاہ ھوجائے اور اس کے بعد بھی اس سے جنگ کے لئے قدم نہ اٹھائے، بلکہ ھاتھ پر ھاتھ رکھ کر بیٹھ جائے یا سستی سے کام لے توکم از کم ایک واجب کے عنوان سے یا واجب سے بھی بالاتر خداوندعالم کے حکم کی اطاعت،اور انبیاء و ائمہ علیھم السلام کی دعوت پر لبیک کھتے ھوئے اپنے اخلاق و اعمال کی اصلاح کے لئے آگے بڑھے اور اپنے گناھوں سے توبہ کرتے ھوئے واجبات کو انجام دے ،خدا کی عبادت کرے، نیک اور صالح افراد کے ساتھ بیٹھے، مال حرام سے پرھیز کرتے ھوئے ”ھوائے نفس کے بت “سے جنگ کے لئے تیار ھوجائے کہ اس جنگ میں فتح کا سھرا اسی کے سر ھوگا، اس جنگ کو دینی تعلیمات میں ”جھاد اکبر“ کھا جا تا ھے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ھے:

اِنَّ النَّبِیَّ بَعَثَ سَریَّةً، فَلَمَّا رَجَعُوا قَالَ: مَرْحَباً بِقَوْمٍ قَضَوُا االْجِھادَ الاَصْغَرَ، وَ بَقِیَ عَلَیْھم الْجِھادَ الاَکْبَرُ ۔ فَقِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللهِ! وَمَا الْجِھادُ الاَکْبَرُ؟ قَالَ: جِھادُ النَّفْسِ“۔[9]

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بعض اصحاب کو جنگ کے لئے بھیجا، جب وہ اسلامی لشکر جنگ سے واپس لوٹا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: مرحبا ،اس قوم پر جو جھاد اصغر انجام دے کر آرھی ھے، اور جھاد اکبر ان کے ذمہ باقی ھے۔ لوگوں نے سوال کیا: یا رسول اللہ! جھاد اکبر کیا چیزھے، توآپ نے فرمایا:

جھاد بالنفس“ (یعنی اپنے نفس سے جنگ کرنا)

یہ بات واضح ھے کہ ”نفس سے جنگ “،خود نفس سے جنگ کرنا نھیں ھے بلکہ اس کے خطرناک پھلو سے جنگ کرنا مراد ھے جس کو قرآن کریم نے ”ھواو ھوس“ کا نام دیا ھے۔

ھوائے نفس کے مقابل لڑنا اور جھادکرنا ھر دوسرے جھاد سے بالاتر ھے، ھوائے نفس سے ہجرت کرنے والے کی ہجرت ھر ہجرت سے افضل ھے، ا ور اس جھاد کا ثواب ھردوسرے ثواب سے بھتر ھے۔

حضرت علی علیہ السلام کہ خود آپ نفس سے جھاد کرنے والوں میں بے نظیر ھیں؛ فرماتے ھیں:

مَاالْمُجَاہِدُ الشَّہِیْدُ فِی سَبِیْلِ اللهِ بِاَعْظَمَ اَجْراً مِمَّنْ قَدَرَ فَعَفَّ، لَکَادَ الْعَفِیْفُ اَنْ یَکُونَ مَلَکاً مِنَ الْمَلاَئِکَةِ“۔[10]

راہ خدا میں جھاد کرکے شھید ھوجانے والا اس سے زیادہ اجر کا حقدار نھیں ھوتا ھے جتنا اجر اس شخص کے لئے ھے جو اختیارات کے باوجود عفت سے کام لے کہ عفیف و پاکدامن انسان قریب ھے کہ وہ صفوف ملائکہ میں شمار ھو “۔

اصلاح نفس کا طریقہ

ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیھم السلام کی بعثت کے پیش نظر ، معتبر اسلامی کتابوں اور قرآن مجید میں احکام الٰھی بیان ھوئے ھیں، اسی طرح آسمانی کتابوں کے پیش نظر خصوصاً قرآن مجید میںجو خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا زندہٴ جاوید معجزہ ھے، نیز ائمہ علیھم السلام کی امامت کہ جن کے ارشادات زندگی کے ھر پھلو کے لئے کتب حدیث میں موجود ھيں، اسی طرح انسانی فطرت، عقل اور وجدان کے پیش نظر جو انسان کے پاس الٰھی امانتیں ھیں اور دنیا و آخرت کے لئے مفید سرمایہ ھيں، لہٰذا ان تمام معنوی اور روحانی امور کے ذریعہ زندگی کے تمام پھلوؤں میں سب انسانوں پر خدا کی حجت تمام ھوچکی ھے، کیا یہ کھا جاسکتا ھے کہ انسان کے لئے اصلاح کا راستہ بندھوگیا ھے یا یہ کہ انسان میں اصلاح کے راستہ پرچلنے کی طاقت نھیں ھے، یا انسان اپنے اعمال و اعتقادات اور اخلاق میں مجبور ھے؟

مسلّم طور پر ان تمام مسائل کا جواب منفی ھے، اصلاح کا راستہ روز قیامت تک سب کے لئے کھلا ھے، اور اس راستہ پر چلنے کی طاقت ھر انسان میںموجود ھے، اور انسان کسی بھی اعتقاد و عمل اور اخلاق کے سلسلہ میں مجبور نھیں ھے۔

ھمیشہ تاریخ میں ایسے افراد ملتے ھیں جنھوں نے گناھوں میں مبتلا ھونے،معصیت سے آلودہ ھونے اور ھوائے نفس کا اسیر ھونے کے بعد اپنے گناھوں سے توبہ کی اور معصیت کی گندگی سے پاک اور ھوائے نفس کی غلامی سے آزاد ھوگئے، جو خود اس بات کی دلیل ھے کہ نہ تو اصلاح کا راستہ بند ھے اور نہ انسان بُرے کام کرنے پر مجبور ھے۔

یقینااس طرح کے بے بنیاد مسائل اور بے دلیل مطالب انسانی تہذیب میں ان لوگوں کی طرف سے داخل ھوگئے جو اپنے گناھوں پر عذر پیش کرنا چاھتے ھیں یا دنیاوی لذتوں کے شکار ھوچکے ھیں، وہ خود بھی خواہشات اور ھوا و ھوس میںگرفتار ھوچکے ھیں اور دوسرے کو بھی گمراہ کرنا چاھتے ھیں۔

یہ لوگ اپنی باتوں کے بے بنیاد ھونے سے آگاہ ھیں اور اس بات کو اچھی طرح جانتے ھیں کہ یہ باتیں بے دلیل اور علم و منطق کے برخلاف ھیں اگرچہ ان باتوں کو کبھی کبھی تہذیبی و نفسیاتی ماھرین یا مشرقی اور مغربی یونیورسٹی کے اساتید کی زبان سے سنتے ھیں جن پر شھوتوں کا بھوت سوار رھتا ھے:

((بَلْ الْإِنسَانُ عَلَی نَفْسِہِ بَصِیرَةٌ ۔وَلَوْ اٴَلْقَی مَعَاذِیرَہُ ))۔[11]

بلکہ انسان خود بھی اپنے نفس کے حالات سے خوب باخبر ھے۔چاھے وہ کتنے ھی عذر کیوں نہ پیش کرے“۔

کیا وہ افراد جو حیلہ او رمکاری، دھوکا اور فریب اور ریاکاری کرتے ھيں،اور دوسروں کو ذلیل و رسوا کرتے ھيں،یا کسی بے بنیاد مسئلہ کو علمی رنگ دے کر پیش کرتے ھیں یا اپنا واقعی چھرہ مخفی رکھتے ھیں یا عوام الناس کو دھوکہ میں ڈال کر ان پر حکومت کرنا چاھتے ھیں یا کسی قوم و ملت کو بے بنیاد مکتب لیکن علمی رنگ دے کر لوگوں کو اس کی دعوت دیتے ھیں،کیا یہ لوگ خود معاشرہ میں پیش کرنے والے مسائل کے بارے میں آشنائی نھیں رکھتے؟!

قرآن مجید کے بیان کے مطابق یہ لوگ ان تمام مسائل کو جانتے ھیں لیکن یہ وہ افراد ھیں جنھوں نے انسانی زندگی کے آب حیات کو ھمیشہ مٹی سے آلودہ کردیا ھے تاکہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے خوب مچھلی پکڑسکیں۔

بے شک اس ماحول میں گمراھی اور ضلالت پائی جاتی ھے، یھاں پر نخوت و تکبر اور جھالت کا دور دورہ ھے۔

ایسے لوگ جو حقائق کائنات اورخالق کے وجود کا انکار کرتے ھیں، اور خداوندعالم کی نشانیوں کو جھٹلاتے ھیں، ان لوگوں کایھی کام ھونا بھی چاہئے، بے بنیاد اور باطل مسائل ھی ان کے ذہن میں خطور کرسکتے ھیں، اس کے بعد اس کو ایک ”آئین و مکتب فکر“ قرار دیدیتے ھیں، تاکہ دوسرے لوگوں کو حقائق سے اور خداوندعالم سے دور کردیں۔

یہ لوگ زمین پر فتنہ و فساد، نسل کشی، تباھی و بربادی اور قوم و ملت کو گناہ و معصیت میں آلودہ کرنے کے علاوہ کوئی ہدف نھیں رکھتے۔

(( وَإِذَا تَوَلَّی سَعَی فِی الْاٴَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیھا وَیُھلکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللهُ لاَیُحِبُّ الْفَسَادَ۔)) [12]

اور جب آپ کے پاس سے منھ پھیر تے ھیں تو زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ھیں اور کھیتیوں اور نسلوں کو برباد کرتے ھیں جب کہ خدا فساد کو پسند نھیں کرتا ھے“۔

صھیونیزم کے رہنماوٴں نے اپنی ”پروٹوکل“ "Protocole"کتاب میں لکھا ھے: ھم نے ”داروین“، ”مارکس“ اور ”نیچہ “کی کامیابی کو انھیں نظریات پر بنیاد رکھی ھے، اور جس کے برے اثرات ھمارے لئے بھت واضح ھیں( جس کا اثر غیر یھودی لوگوں پر ھورھا ھے)

یھودیت کے اپنے تین دانشوروں : مارکس، فرویڈاور ڈرکائم کے ذریعہ ”داروین“ اور ”تدریجی ترقی“پیش کی گئی جس سے یورپ میں موجود فضیلت کو بالکل ختم کردیا ھے، ان تینوں دانشوروں نے ھمیشہ دین کی توھین کی ھے، ان لوگوں نے دین کی صورت کو بگاڑ کر بد صورت بنا کر پیش کیا ھے۔[13]

ان لوگوں نے اپنے سے وابستہ دانشوروں کے نظریات کی بدولت کسی بھی انسانی فضیلت کو خراب کئے بغیرنھیں چھوڑا، کیونکہ انھوں نے خالق کائنات کے رابطہ سے لے کرعالم ہستی نوع بشر کے تمام رابطوں کو فاسد او رتباہ و برباد کردیا ھے، انھیںخرافات میں بدل دیا ھے۔

ان کے اصلی انحرافات خدا کے بارے میں ھیں اسی طرح انسان کا خدا سے کیا تعلق ھے یااس کائنات کا خداسے اور خدا کا اس سے کیا ربط ھے، نیزانسان کا رابطہ دنیا سے اور دنیا کا رابطہ انسان سے کیا ھے، خلاصہ یہ کہ انھوں نے ان تمام چیزوں میں انحراف پیدا کردیا ھے۔

زندگی کا تصور ، زندگی کے اہداف و مقاصد، انسانی نفس ، ایک انسان کا دوسرے انسان سے رابطہ، بیوی شوھر کارابطہ اورمعاشرہ کا رابطہ غرض یہ کہ زندگی کے تمام پھلوؤں میں انحراف پیدا کرڈالا ھے۔

انھی غلط اور خطرناک انحرافات کا نتیجہ یہ ھوا کہ انسان کی حقیقی زندگی ھوائے نفس سے متاثر ھوگئی، انسان طاغوت کے سامنے جھک گیا ھے، شھوت میں گرفتار ھوگیا ھے ، چنانچہ ھر روز فتنہ و فساد میں اضافہ ھوتا چلا جارھا ھے، اور ان ھلاک کنندہ فساد کی انتھا اس وقت ھوگی جب ”خدا“ کو بے تاثیر معبود قرار دیا جانے لگے گا اور دوسرے باطل معبودوں کو انسانی زندگی پر قبضہ ھوجائے گا۔[14]

یہ لوگ (بقول خود)اپنی علمی چھلانگ کے ذریعہ اس جگہ پہنچ چکے ھیں کہ دنیا کے اکثر لوگوں کو یہ یقین کرادیا کہ اقتصاد، اجتماع اور تاریخ کی طاقت ھی انسان کی زندگی پر اثر انداز ھوتی ھے اور انسان کو اس کی مرضی کے بغیر اپنے تحت لے کر اس کو مسخر کرلیا ھے۔

ان بے بنیاد اور باطل گفتگو نے امریکہ اور یورپ میں بھت سے لوگوں خصوصاً جوانوں کو اس جگہ پہنچا دیا ھے کہ آج کل کے انسان کی زبان پر یہ نعرہ ھے:

میں قید و بند کی زنجیر میں جکڑا ھوا ھوں، مجھے اپنی مرضی سے اپنی زندگی کو منظم کرنا چاہئے!

میں اپنے عقائد اور طرز زندگی کو اپنی عقل کے لحاظ سے تنظیم کرنا چاھتا ھوں۔

میں اس وقت اور آئندہ کی زندگی کو مستقل طور پر اور خدا کی سرپرستی کے علاوہ ھی منظم کرنا چاھتا ھوں!“

چنانچہ انسان انھیں چیزوں کی وجہ سے خدا کی حمایت سے دور ھوتاجارھا ھے اور شیطان کے مکر و فریب میں پھنستا جارھا ھے ۔

اسی نظریہ اور غرور کی وجہ سے پوری دنیا میں ظلم و ستم کا بول بالا ھے، اور انسان مختلف غلامی کی ذلت میں گرفتار ھوگیا ھے بعض لوگ مال و دولت کے غلام، بعض لوگ حکومت کے غلام اور بعض لوگ ڈیکٹیٹری کے غلام اور بعض شھوت اور مستی کے غلام بن گئے ھیں۔

اسی وجہ سے ساری دنیا میں فسق و فجور پھیلا ھوا ھے، اور تمام جوان لڑکوں اور لڑکیوں کو گناھوں کے کھنڈر میں گرادیا ھے۔

اسی انحراف کی وجہ سے انسان جنون کی حد تک پہنچ گیاھے اور ماڈرن ممالک کے ہسپتالوںمیں ان دیوانوں کے لئے جگہ نھیں ھے،دوسری طرف سے مڈرنیزم پرستی ، فلم اور فلمی ستاروں اور دوسری شھوتوں نے انسان کو اپنی حقیقت کے بارے میں غور وفکر کرنے سے روک دیا ھے جس سے اس کی تمام عمر یونھی غفلت و تباھی میں برباد ھوتی جارھی ھے۔

اس منحوس زندگی کے نتائج نے (جس نے انسان کے ظاھر و باطن کو آلودگی، انحراف اور فسق و فجور میں غرق کردیا ھے) دنیا بھر کے بھت سے لوگوں کو مایوس کردیا ھے ان کی روح میں یاس و ناامیدی پیدا ھوگئی ھے، اپنی فطرت کو برداشت نہ کرتے ھوئے کھتے ھیںکہ انسان کے لئے اصلاح کا راستہ بند ھے اور اگر کھلا بھی ھو تو انسان میں اس راستہ پر چلنے کی طاقت نھیں ھے، اور نسبتاً اپنے سکون کے لئے کھتے ھیں: انسان اپنے تمام امور میں قضا و قدر اور جبر کاتابع ھے، یعنی انسان خودکچھ نھیں کرسکتا جیسا اس کی تقدیر میں ھوگا ویسا ھوکر ھی رھے گا۔

حقیقی اسلام کی ثقافت نے مذھب شیعہ اثناعشری میں ایک خاص روشنی پیدا کردی ھے ، قرآنی آیات اور ائمہ علیھم السلام کی تعلیمات کے پیش نظر دلیل و حکمت او رمنطق و برھان کے ساتھ یہ اعلان ھوتا ھے کہ کسی بھی انسان کے لئے ”اصلاح کا راستہ “بند نھیں ھے اور قیامت تک کسی بھی انسان کے لئے بند نھیں ھوگا، نیز اس راستہ پر چلنا ھر خاص و عام کے لئے ممکن ھے، اگرچہ مختلف گناھوں سے آلودہ ھوں، اور انسان کے اعمال و عقائد اور اس کا اخلاق قضا و قدر کے تابع نھیں ھے، بلکہ انسان اپنے اختیار سے سب کچھ کرتا ھے۔

قارئین کرام! انسان کی خیر و بھلائی ، پاکیزگی اور پاکدامنی کے لئے دینی تعلیمات کی طرف ایک اشارہ کرنا مناسب ھے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے ایک شخص سے فرمایا:

اِنَّکَ قَدْ جُعِلْتَ طَبِیبَ نَفْسِکَ ،وَبُیِّنَ لَکَ الدّاءُ ،وَعُرِّفْتَ آیَةَ الصِّحَّةِ ،وَ دُلِلْتَ عَلَی الدَّوَاءِ،فَانْظُرْکَیْفَ قِیَامُکَ عَلَی نَفْسِکَ“۔[15]

بے شک تم اپنے کو ایک طبیب کی طرح قرار دو، تمھیں مشکلات اور مرض کے بارے میں بتادیا گیا، اور صحت کی نشانیوں کو بھی بیان کردیا گیا ھے، تمھاری دوائی بھی بتادی گئی ھے ، لہٰذا نتیجہ کے بارے میں غور و فکر کرو کہ کس طرح اپنی حالت کی اصلاح کے لئے قدم بڑھاسکتے ھو“۔

جی ھاں انسان اپنی حالت سے خوب واقف ھے اس کا درد باطل عقائد ، شیطانی بد اخلاقی اور غیر صالح اعمال ھیں جن کی تفصیل قرآن و حدیث میں بیان ھوئی ھے، صحیح ایمان، اخلاق حسنہ، باطنی سکون اورعمل صالح یہ تمام چیزیں سلامتی اور صحت کی نشانی ھیں، توبہ و استغفار، تقویٰ ،عفت اور گناھوں سے مقابلہ ان تمام دردوں کی دوا ھے، لہٰذا انسان کو ان تمام حقائق کے ذریعہ مدد حاصل کرتے ھوئے اپنی اصلاح کے لئے قدم اٹھانا چاہئے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اپنے آباء و اجداد علیہم السلام کے حوالے سے نقل فرماتے ھیں کہ پیغمبر اکرم نے حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام سے فرمایا:

یَاعَلِی،اَفْضَلُ الْجِھَادِ مَنْ اَصْبَحَ لاَ یَھُمُّ بِظُلْمِ اَحَدٍ“۔[16]

یا علی! سب سے بھتر اور افضل جھاد یہ ھے کہ انسان صبح اٹھے تو کسی پر ظلم و ستم کا ارادہ نہ رکھتا ھو“۔

اگر انسان ھر روز گھر سے باھر نکلتے وقت کسی شخص پر یھاں تک کہ اپنے دشمن پر بھی ظلم کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ھو اور ان کی نسبت خیر و نیکی کی نیت ھو اور لوگوں کی خدمت کے علاوہ کوئی دوسرا قصد نہ ھو تو پھر اگر یھی صورت حال رھی تو انسان کے اندر نور ایمان پیدا ھوجاتا ھے اور ظاھری اصلاح و نیکی سے مزین ھوجاتا ھے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

مَنْ مَلَکَ نَفْسَہُ اِذَارَغِبَ ،وَاِذَا رَھِبَ،وَاِذَا شْتَھَیٰ، وَاِذَا غَضِبَ، وَاِذَا رَضِیَ،حَرَّمَ اللهُ جَسَدَہُ عَلَی النَّارِ“۔[17]

اگر انسان رغبت، خوف، خواہشات، غیظ و غضب اور خوشی و غم کے وقت اپنے کو گناہ و معصیت اور ظلم و ستم سے محفوظ رکھے تو خداوندعالم اس کے بدن کو آتش دوزخ پر حرام کردیتا ھے“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے:

نَبِّہْ بِالتَّفَکُّرِ قَلْبَکَ ،وَجَافِ عَنِ اللَّیْلِ جَنْبَکَ ،وَاتَّقِ اللهَ رَبَّکَ“۔[18]

اپنے دل کو غور و فکر کے ذریعہ بیدار رکھو، رات کو عبادت کرو، اور زندگی کے تمام امور میں تقویٰ الٰھی اختیار کرو“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ھے:

اَلتَّفَکُّرُ یَدعُوا اِلَی الْبِرِّ وَالْعَمَلِ بِہِ“۔[19]

تمام امور میں تفکر اور غور و فکر کرنے سے انسان میں نیکی اور عمل صالح کا جذبہ پیدا ھوتا ھے“۔

ایک شخص نے امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: مجھے اخلاقی کر امت اور شرافت تعلیم فرمائیں، تو اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا:

اَلْعَفْوُ عَمَّنْ ظَلَمَکَ ،وَصِلَةُ مَنْ قَطَعَکَ ،وَاِعْطَاءُ مَنْ حَرَمَکَ، وَ قَوْلُ الْحَقِّ وَلَوْ عَلَی نَفْسِکَ“۔[20]

جس نے تجھ پر ظلم کیا ھو اس کو بخش دے اور جس نے تجھ سے قطع تعلق کیا ھو اس سے صلہ رحم کر، جس نے تجھے محروم کردیا ھو اس کو عطا کر،اور حق بات کہہ اگرچہ تیرے لئے نقصان دہ ثابت ھو“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اگر کسی کے لئے بُرے کام یا حرام طریقہ سے شھوت بجھانے کا موقع آجائے لیکن خوف خدا کی وجہ سے اس کام سے اجتناب کرے تو خداوندعالم (بھی) اس پر آتش جہنم کو حرام کردیتا ھے، اور روز قیامت کی عجیب و غریب وحشت سے نجات دیدیتا ھے، اور اپنی کتاب میں دئے ھوئے وعدہ کو وفا کرتا ھے کہ جھاں ارشاد ھوتا ھے: ”جو شخص اپنے پروردگار سے ڈرتا ھے اس کے لئے دو جنت ھیں“۔

جان لو! کہ اگر کسی شخص نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی تو روز قیامت اس حال میں خدا سے ملاقات کرے گا کہ عذاب الٰھی سے نجات دلانے والی کوئی نیکی اس کے پاس نہ ھوگی، لیکن اگر کوئی آخرت کو دنیا پر ترجیح دے اور فنا ھونے والی دنیا کو اپنا معبود قرار نہ دے تو خداوندعالم اس سے راضی و خوشنود ھوجاتا ھے اور اس کی برائیوںکو بخش دیتا ھے۔[21]

راوی کھتا ھے کہ میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا:

قَوْمٌ یَعْمَلُوْنَ بِالْمَعَاصِی وَ یَقُولُونَ :نَرْجُو،فَلاَ یَزالُونَ کَذَلِکَ حَتَّی یَاتِیَھُم الْمَوتُ !فَقَالَ:ھٰوٴُلاَءِ قَومٌ یَتَرَجَّحُوْنَ فِی الْاَمَانِیَّ،کَذَبُوا،لَیْسُوا بِراجینَ،اِنَّ مَنْ رَجَا شَیْئاً طَلَبَہُ ،وَمَنْ خَافَ مِنْ شَیْءٍ ھَرَبَ مِنْہُ“۔[22]

ایک گروہ، گناھگار اور اھل معصیت ھے لیکن وہ لوگ کھتے ھیں کہ ھم ان گناھوں کے باوجود بھی امید وار ھیں، اور اسی طرح زندگی بسر کرتے ھیں اور اسی حالت میں مرجاتے ھیں! امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ لوگ امید کے اھل نھیں ھیں، کیونکہ کسی چیز کی امید کرنے والا شخص اس سلسلہ میں کوشش کرتا ھے اور جس چیز سے ڈرتا ھے اس سے دور بھاگتا ھے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے درج ذیل آیت کے بارے میں فرمایا:

(( وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ))۔[23]

مَنْ عَلِمَ اَنَّ اللهَ یَرَاہُ،وَ یَسْمَعُ مَایَقُولُ ،وَیَعْلَمُ مَا یَعْمَلُہُ مِنْ خَیْرٍاَوْ شَرٍّ، فَیَحْجُزُہُ ذَلِکَ عَنِ الْقَبِیْحِ مِنَ الاَعْمَالِ ،فَذَلِکَ الَّذِی خاَفَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الھَویٰ“۔[24]

جو شخص جانتا ھے کہ خدا مجھے دیکھتا ھے اور جو کچھ میں کھتا ھوں اس کو سنتا ھے، اور جو نیکی یا برائی انجام دیتا ھوں اس کو دیکھتا ھے، چنانچہ یھی توجہ اس کو برائیوں سے روکتی ھے، اور ایسا شخص ھی عظمت خدا سے خوف زدہ اور اپنے نفس کو ھوا و ھوس سے روکتا ھے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے عمرو بن سعید سے فرمایا:

اُوصِیکَ بِتَقَوی اللهِ وَالْوَرَعِ وَالاِجْتِھادِ،وَاعْلَمْ اَنَّہُ لاَ یَنْفَعُ اِجْتِھادٌ لاَ وَرَعَ فِیْہِ“۔[25]

میں تم کو تمام امور میں تقویٰ الٰھی ،گناھوں سے دوری ، عبادت میں کوشش، اور خدمت خلق کی سفارش کرتا ھوں، جان لو کہ جس کوشش میں گناھوں سے دوری نہ ھوں اس کا کوئی فائدہ نھیں ھے“۔

امام صادق علیہ السلام کا فرمان ھے:

عَلَیْکَ بِتَقْوَی اللهِ ،وَالْوَرَعِ ،وَالاِجْتِھَادِ،وَ صِدْقِ الْحَدِیْثِ، وَاَدَاءِ الاَمَانَةِ،وَ حُسْنِ الْخُلْقِ،وَحُسْنِ الْجِوَارِ،وَکُونُوا دُعاةً اِلَی اَنْفُسِکُمْ ِبغَیْرِ اَلْسِنَتِکُمْ،وَکُونُوا زَیْناً وَلاَتَکُونُوا شَیْناً،وَعَلَیْکُمْ بِطُولِ الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ،فَاِنَّ اَحَدَکُمْ اِذَااَطالَ الرُّکُوعَ وَالسُّجُودَ ھَتَفَ اِبْلِیْسُ مِنْ خَلْفِہِ وَقاَلَ:یَا وَیْلَہُ ،اَطَاعَ وَ عَصَیْتُ، وَسَجَدَ وَاَبَیْتُ“۔[26]

تمام امور میں تقویٰ الٰھی اختیار کرو، گناھوں سے بچو، عبادت خدا اور خدمت خلق میں کوشش کرتے رھو، صداقت و امانت کا لحاظ رکھو، حسن خلق اپناؤ ، پڑوسیوں کا خیال رکھو،اپنی زبانوں کے علاوہ اپنی نفسوں کے ذریعہ بھی دین حق کی دعوت دو، دین کے لئے باعث زینت بنو،دین کے لئے ذلت کا

باعث نھیں، نمازوں میں اپنے رکوع و سجود طولانی کرو،ایسا کرنے سے شیطان فریاد کرتا ھے: ھائے افسوس! یہ شخص اطاعت کررھا ھے ، اور میں نے خدا کی مخالفت کی ، یہ سجدہ کررھا ھے اور میں نے نھیں کیا!

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امیر المومنین علیہ السلام سے فرمایا:

ثَلاثَةٌ مَنْ لَقِیَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ بِھِنَّ فَھُومِنْ اَفْضَلِ النَّاسِ :مَن اَتَی اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ بِمَا افْتَرَضَ عَلَیْہِ فَھُوَ مِنْ اَعْبَدِ النَّاسِ ،وَمَنْ وَرِعَ عَنْ مَحارِمِ اللّٰہِ فَھُوَمِنْ اَوْرَعِ النّاسِ،وَمَنْ قَنَعَ بِمَا رَزَقَہُ اللّٰہُ فَھُوَ مِنْ اَغْنَی النَّاسِ۔ثُمَّ قالَ:یا عَلِیُّ! ثَلاثٌ مَنْ لَمْ یَکُنَّ فِیہِ لَمْ یَتِمَّ عَمَلُہُ:وَرَعٌ یَحْجُزُہُ عَنْ مَعاصِی اللّٰہِ ، وَخُلْقٌ یُداری بِہِ النَّاسَ،وَحِلْمٌ یَرُدُّ بِہِ جَھْلَ الْجاھِلِ - اِلیٰ اَنْ قَالَ - یَاعَلِیُّ!الِاسْلامُ عُرْیانٌ،وَلِباسُہُ الْحَیاءُ،وَ زِینَتُہُ الْعِفافُ، وَمُرُوَّتُہُ الْعَمَلُ الصّالِحُ ، وَعِمادُہُ الْوَرَعُ“۔[27]

جو شخص تین چیزوں کے ساتھ خدا سے ملاقات کرے گا وہ بھترین لوگوں میں سے ھوگا، جو شخص اپنے اوپر واجب چیزوں پر عمل کرے گا، وہ بھترین لوگوں میں سے ھوگا، اور جو شخص خدا کی حرام کردہ تمام چیزوں سے پرھیز کرے گا وہ بندوںمیں پارسا ترین شخص ھوگا، اور جو شخص خدا کی عطا کردہ روزی پر قناعت کرے گا، وہ سب سے بے نیاز شخص ھوگا، اس کے بعد فرمایا: یا علی! جس شخص میں یہ تین چیزیں نہ ھوں اس کا عمل تمام نھیں،انسان میں ایسی طاقت نہ ھو جس کو گناھوں کی رکاوٹ میں لگاسکے، اور ایسا اخلاق نہ ھو جس سے لوگوں کے ساتھ نیک سلوک کرسکے، اور ایسا حلم اور حوصلہ نہ ھو جس سے جاھل کے جھل کو خود اس کی طرف پلٹادے، یھاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: یاعلی! اسلام برہنہ اور عریان ھے اس کا لباس حیاء، اس کی زینت عفت و پاکدامنی، اور اس کی شجاعت عمل صالح اور اس کے ستون ورع اورتقویٰ ھيں“۔

حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:

اِنَّ اَفْضَلَ الْعِبَادَةِ عِفَّةُ الْبَطْنِ وَالْفَرْجِ“۔[28]

بے شک شکم و شھوت کو (حرام چیزوں) سے محفوظ رکھنا بھترین عبادت ھے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

اِنَّمَا شِیعَةُ جَعْفَرٍ مَنْ عَفَّ بَطْنُہُ وَ فَرْجُہُ،وَاشْتَدَّ جِھادُہُ وَعَمِلَ لِخالِقِہِ،وَرَجا ثَوابَہُ،وَخَافَ عِقابَہُ،فَاِذا رَاٴَیْتَ اٴُولٰئِکَ، فَاٴُولٰئِکَ شِیعَةُ جَعْفَرٍ“۔[29]

بے شک جعفر صادق کا شیعہ وہ ھے جو شکم اور شھوت کو حرام چیزوںسے محفوظ رکھے، راہ خدا میں اس کی سعی و کوشش زیادہ ھو ، صرف خدا کے لئے اعمال انجام دے، اس کے اجر و ثواب کا امیدوار اور اس کے عذاب سے

خوف زدہ رھے، اگر ایسے لوگوں کو دیکھو تو کھو وہ جعفرصادق کے شیعہ ھیں“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ھے:

لاَ تَزالُ اُمَّتِی بِخَیْرٍ ما تَحابُّوا وَ تَھادَوْا وَاَدُّواالاَمانَةَ،وَاجْتَنبُوا الحَرامَ ،وَ قَرَوُالضَّیْفَ ،وَاَقامُوا الصَّلاةَ ،وَآتُواالزَّکاةَ،فَاِذَا لَمْ یَفْعَلُواذٰلِکَ ابْتُلُوبِالْقَحْطِ وَالسِّنینَ“۔[30]

جب تک میری امت میں یہ اعمال باقی رھيں گے اس وقت تک ان پرکوئی مصیبت نازل نہ ھوگی: ایک دوسرے سے محبت کرنا، ایک دوسرے کو ہدیہ دینا اور دوسروں کی امانت ادا کرنا ، حرام چیزوں سے پرھیز کرنا، مھمان کی مھمان نوازی کرنا، نماز قائم کرنا، زکوٰة ادا کرنا ، لیکن ان چیزوں کے نہ ھونے کی صورت میں میری امت قحط اور خشک سالی میں مبتلا ھوجائے گی“۔

قارئین کرام! گزشتہ احادیث کے مطالعہ کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ اصلاح کا راستہ ھمیشہ ھر شخص کے لئے کھلا ھے، اور اس نورانی راستہ پر چلنا ھر شخص کے لئے ممکن ھے، انسان اپنے عمل، اعتقاد اور اخلاق میں مجبور نھیں ھے، انسان اپنے اختیار سے پاک نیت اور مصمم ارادہ کے ذریعہ مذکورہ بالا احادیث میں بیان شدہ خوبیوں سے مزین ھوسکتا ھے، ان تمام برائیوں اور شیطانی صفات کو چھوڑتے ھوئے ان تمام خیر و نیکی اور معنوی خوبیوںسے آراستہ ھوسکتا ھے، اور اپنے ھاتھوں سے البتہ خدا کی نصرت و مدد کے ساتھ ساتھ اخلاقی برائیوں اور برے اعمال کو ظاھری و باطنی نیکیوں میں تبدیل کرے، کیونکہ جوشخص بھی اصلاح کا راستہ اپناتا ھے تو خداوندعالم بھی اس کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کرنے میں مدد کرتا ھے، اور جب برائیوں کی جگہ نیکیاں آجاتی ھیںتو پھر اس کی تمام گزشتہ برائیاں بخش دی جاتی ھیں۔

((إِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاٴُوْلَئِکَ یُبَدِّلُ اللهُ سَیِّئَاتِھم حَسَنَاتٍ وَکَانَ اللهُ غَفُورًا رَحِیمًا))۔[31]

علاوہ اس شخص کے جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اور نیک عمل بھی کرے تو پروردگار اس کی برائیوں کو اچھائیوں سے تبدیل کردے گا اور خدا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ھے“۔

((إِلاَّ مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوءٍ فَإِنِّی غَفُورٌ رَحِیمٌ))۔[32]

ھاں کوئی شخص گناہ کر نے کے بعد توبہ کر لے اور اپنی برائی کو نیکی سے بد ل دے ، تو میں بخشنے والا مھربان ھوں“۔

اصلاح نفس سے متعلق مسائل کے عناوین

تمام لوگوں کی نسبت خیرو نیکی کی نیت رکھنا، رغبت ، خوف، خواہش ، خوشی اور غم کے وقت پرھیزگاری کرنا۔

تمام امور اور انجام کار کے بارے میں غور و فکر کرنا، عبادت کے لئے شب بیداری، تقویٰ و پرھیزگاری اختیار کرنا، ظلم و ستم کرنے والے سے چشم پوشی کرنا، جس نے قطع تعلق کرلیا ھو اس سے صلہ رحم کرنا، جس نے احسان نہ کیا ھو اس کے ساتھ احسان کرنا، گناھوں کو ترک کرنے کے ساتھ ساتھ خوف خدا اس دنیا کے ظاھر و باطن پر خدا کی حفاظت پر توجہ رکھنا، ( کس طرح خدا انسان یا دوسری مخلوق کی حفاظت فرماتا ھے) عفت اورپاکدامنی، عبادت خدا اور خدمت خلق میں کوشش کرنا،صداقت ، ادائے امانت اور خوش عادت ھونا، پڑوسیوں کا خیال رکھنا، خوبیوں اور نیکیوں سے آراستہ ھونا، طولانی رکوع اور سجدہ کرنا، حلال روزی پر قناعت کرنا، اپنی رفتار و گفتار میں نرم رویہ پیدا کرنا، حلم و حوصلہ، حیاء اور عفت سے کام لینا، نیک اور صالح عمل انجام دینا، شکم اور شھوت کے میدان باعفت رہنا، رضائے الٰھی کے لئے نیک عمل انجام دینا، ذات خدا سے امیدرکھنا، عذاب الٰھی سے خوف زدہ رہنا، ایک دوسرے سے محبت کرنا، ایک دوسرے کی ہدایت کرنا، برائیوں سے دور رہنا، مھمان کی عزت کرنا، نماز قائم کرنا اور زکوٰة کا ادا کرنا۔

البتہ یہ عناوین گزشتہ احادیث میں بیان ھونے والے اصلاح کے راستہ سے متعلق ھیں جن کی فھرست ھم نے یھاں بیان کی ھے، اگر ھم اپنی ، اھل خانہ اور معاشرہ کی اصلاح کے سلسلہ میں بیان ھونے والی تمام احادیث سے عناوین کو جمع کریں تو واقعاً ایک ضخیم کتاب بن جائے گی۔

اگر انسان اپنے ارادہ و اختیار سے خود کو ان تمام نیکیوں سے مزین اور آراستہ کرلے اور برے صفات خصوصاً مال حرام ، مقام حرام اور شھوت حرام سے محفوظ کرلے تواس کو دنیا و آخرت میں فائدہ ھی فائدہ نصیب ھوگا۔

اس سلسلہ میں متقی و پرھیزگار افراد کو زندگی کے بعض پھلوؤں میں ھونے والے عظیم الشان فائدوں کی طرف اشارہ کیا جائے تو ممکن ھے خیر و سعادت حاصل کرنے والوں کے لئے ہدایت کا سبب بن جائے۔

ابن سیرین اور خواب کی تعبیر

ابن سیرین کا نام محمد بن سیرین بصری ھے، وہ خواب کی تعبیر کے سلسلہ میں ایک عجیب و غریب طاقت کا مالک تھا اس کی تعبیر خواب کا سر چشمہ ذوق سالم اور بلند فکر تھی۔

خواب کو انسان سے مطابقت کرتا تھا، اور خواب کی تعبیر میں قرآن مجید اور احادیث سے الھام لیتا تھا۔

اس کے بارے میں لکھا گیا ھے کہ ایک شخص نے اس سے معلوم کیا: خواب میں اذان کہنے کی تعبیر کیا ھے؟ تو اس نے کھا: حج سے مشرف ھونا، دوسرے شخص نے اسی خواب کی تعبیر پوچھی تو کھا: چوری کرنا، لیکن جب اس سے ایک خواب کی دو مختلف تعبیروں کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس نے کھا: میں نے پھلے شخص کو دیکھا تو وہ ایک نیک اور صالح شخص دکھائی دیاتو اس کے خواب کی تعبیر کو اس آیت سے حاصل کیا: (( وَاٴَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَج۔۔۔))۔[33] لیکن دوسرے شخص کا چھرہ صحیح نھیں تھا لہٰذا اس کے خواب کی تعبیر میں اس آیت سے الھام لیا: (( اٴَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اٴَیَّتُھا الْعِیرُ إِنَّکُمْ لَسَارِقُونَ))۔[34]

ابن سیرین کھتا ھے:بازار میں میری کپڑے کی دکان تھی ، ایک خوبصورت عورت کپڑا خریدنے کے لئے میری دکان پر آئی، جبکہ میں یہ نھیں جانتا تھا کہ یہ عورت میری جوانی اور جمال کی عاشق ھوگئی ھے، تھوڑا کپڑا مجھ سے خریدا اور اپنی گٹھری میں رکھ لیا، اور اچانک کہنے لگی: اے کپڑا فروش! میں گھر سے پیسے لانا بھول گئی، یہ گٹھری لے کر تم میرے گھر تک چلو وھاں پر اپنے پیسے بھی لے لینا! مجھے مجبوراً اس کے گھر تک جانا پڑا، گھر کی چوکھٹ پر مجھے بلایا اور جیسے ھی میں نے اندر قدم رکھا اس نے فوراً دروازہ بند کرلیا، اس نے اپنے کپڑے اتار پھینکے اور اپنے جمال و خوبصورتی کو میرے لئے ظاھر کردیا، او رکھا: ایک مدت سے تیرے جمال کی عاشق ھوں ، اپنے وصال کے لئے میں نے یھی راستہ اختیار کیا ھے ، اس وقت یھاں پر تیرے اور میرے علاوہ کوئی نھیں ھے، لہٰذا میری آرزو پوری کردے ورنہ تجھے ذلیل کردوں گی۔

میں نے اس سے کھا: خدا سے ڈر ،اور زنا سے دامن آلودہ نہ کر، زنا گناہ کبیرہ ھے، جو جہنم میں جانے کا سبب ھے۔ لیکن میری نصیحت کا کوئی فائدہ نہ ھوا، میرے وعظ کا کوئی اثر نہ ھوا،اس موقع پر میں نے بیت الخلا جانے کی اجازت مانگی، اس نے سوچا واقعاً قضائے حاجت کے لئے جارھا ھے لہٰذا اس نے چھوڑدیا۔ میں بیت الخلاء میں گیا اور اپنے ایمان اور آخرت اور انسانیت کو محفوظ کرنے کے لئے نجاست کو اپنے پورے بدن پر مل لیا، جیسے ھی اس حالت میں بیت الخلاء سے نکلا، فوراً ھی اس نے گھر کا دروازہ کھولا اور مجھے باھر نکال دیا، میں ایک جگہ گیا اور نھایا دھلا،میں نے اپنے دین کی خاطر تھوڑی دیر کے لئے بدبو دار نجاست کو اپنے بدن پر ملا، اس کے بدلے میں خداوندعالم نے بھی میری بُو کو عطر کے مانند کردیا اور مجھے تعبیر خواب کا علم مرحمت فرمایا۔[35]

خداداد بے شمار دولت اور علم

عظیم الشان اصولی فقیہ ، علم و عمل اور عبادت میں مشھور شخصیت حجة الاسلام شفتی سید کے نام سے مشھور، اپنی ابتدائے تعلیم کے دوران نجف اشرف میں زندگی بسر کیا کرتے تھے، بھت زیادہ غربت اور پریشانی کی زندگی تھی، اکثر اوقات ایک وقت کے کھانے کے لالے پڑجاتے تھے، نجف اشرف میں رہنا ان کے لئے مشکل تھا، لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود تحصیل علم کے لئے حوزہ اصفھان گئے جو اس موقع پر شیعوں کاایک پُر رونق حوزہ تھا لیکن وھاں پر بھی مشکلات اور پریشانیوں میں مبتلا رھے۔

ایک روزان کے لئے ان کے لئے کھیں سے کچھ پیسہ آیا، اھل و عیال کے کھانے کے انتظام کے لئے بازار گئے، انھوں نے سوچا کہ اپنی اور اھل و عیال کی بھوک مٹانے کے لئے کوئی سستی سی غذا خریدیں۔

ایک قصائی کی دکان سے ایک جگر خریدا اور خوشی خوشی گھر کی جانب روانہ ھوگئے۔

راستہ میں ایک ٹوٹے پھوٹے مکان کی طرف سے گزر ھوا دیکھا کہ ایک ضعیف اور کمزور سی کتیا زمین پر پڑی ھوئی ھے، اور اس کے چند پلّے اس کے سینہ سے چپکے ھوئے ھیں اور دودھ مانگ رھے لیکن اس بھوکی اور کمزور کتیا کے پستان میں دودھ نھیں ھے۔

کتیا کی حالت دیکھ کراور اس کے بچوں کی فریاد سن کر سید کھڑے ھوگئے، جبکہ خود موصوف اور ان کے اھل و عیال کو بھی اس غذا کی ضرورت تھی لیکن انھوں نے خواہش نفس پر کوئی توجہ نھیں کی اور تمام جگر اس کو کھلادیا، اس کتیا نے اپنی دم ھلائی اور اپنا سر آسمان کی طرف بلند کیا گویا خداوندعالم کی بارگاہ میں اپنی بے زبانی سے اس محسن اور ایثار گر کے حق میں دعا کررھی ھے۔

سید فرماتے ھیں: اس کتیا اور اس کے بچوں پر رحم کئے ھوئے زیادہ وقت نھیں گزرا تھا کہ ”شفت“ کے علاقہ سے بھت سا مال میرے پاس لایا گیا، اور کھا: وھاں کے رہنے والے ایک شخص نے ایک صاحب کو کاروبار کرنے کے لئے پیسہ دیا اور اس سے کھا: اس کا فائدہ سید شفتی کے لئے بھیج دیا جائے، اور میرے مرنے کے بعد میرا سارا مال اور اس کے تمام منافع سید کے پاس بھیج دیئے جائےں، اس میں مال کا منافع سید کے ذاتی اخراجات کے لئے اور اصل مال ان کی مرضی کے مطابق خرچ کیا جائے!

سید نے اپنے سے متعلق مال کو تجارت میں لگادیا اور اس کے فائدے سے کچھ زمین و باغات خریدے، موصوف اس کے منافع سے غریبوںکی امداد اور طلباء کو شھریہ دیا کرتے تھے، نیز لوگوں کی مشکلات کو دور فرماتے تھے، اور ایک عظیم الشان مسجد بنائی جو آج کل اصفھان کی ایک آباد اور سید کے نام سے مشھور ھے، موصوف کی قبر بھی اسی مسجد کے کنارے ایک پُر رونق مقبرہ میںھے۔

ایک پرھیزگار اور بیدار جوان

قبیلہ انصار سے ایک شخص کھتا ھے: گرمی کے دنوں میں ایک روز رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک درخت کے سایہ میں بیٹھا ھوا تھا، ایک شخص آیا جس نے اپنا کرتہ اتار دیا، اور گرم ریت پر لوٹنا شروع کردیا، کبھی پیٹھ کے بل اور کبھی پیٹ کے بل اور کبھی اپنا چھرہ گرم ریت پر رکھتا ھے اور کھتا ھے: اے نفس! اس گرم ریت کا مزہ چکھ، کیونکہ خداوندعالم کا عذاب تو اس سے کھیں زیادہ سخت ھے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس واقعہ کو دیکھ رھے تھے، جس وقت وہ جوان وھاں سے اٹھا او راس نے اپنے کپڑے پہن کر ھماری طرف دیکھ کر جانا چاھا، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کوھاتھ کے اشارے سے بلایا، جب وہ آگیا تو آنحضرت نے اس سے فرمایا: اے بندہ خدا! میں نے اب تک کسی کو ایسا کام کرتے نھیں دیکھا اس کام کی وجہ کیا ھے؟ تو اس نے عرض کیا: خوف خدا، میں نے اپنے نفس سے یھی طے کرلیا ھے تاکہ شھوت اور طغیان سے محفوظ رھے!

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: تو نے خدا سے ڈرنے کا حق ادا کردیا ھے خداوندعالم تیرے ذریعہ اھل آسمان پرفخر و مباھات کرتا ھے، اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: سب لوگ اپنے اس دوست کے پاس جمع ھوجاؤ تاکہ یہ تمھارے لئے دعا کردے، سب اصحاب جمع ھوگئے تو اس نے اس طرح سے دعا کی:

اَللّٰھُمَّ اجْمَعْ اَمْرَنا عَلَی الْھُدیٰ وَاجْعَلِ التَّقْویٰ زادَنا وَالْجَنَّةَ مَآبَنا“۔[36]

پالنے والے! ھماری زندگی ہدایت پر گامزن رکھ، تقویٰ کو ھماری زادہ راہ، اور بہشت کو ھماری جایگاہ بناد ے“۔

ایک جوان عابد اور گناہ کے خطرہ پر توجہ

حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ھیں: بنی اسرائیل کی ایک بدکار عورت نے ایک جوان کو گمراہ کرنا چاھا، بنی اسرائیل کے بھت سے لوگ کھتے تھے: اگر فلاں عابد اس عورت کو دیکھے گا تو عبادت چھوڑ دے گا، جیسے ھی اس بدکار عورت نے ان کی باتوں کو سنا تو کہنے لگی: خدا کی قسم میں اس وقت تک اپنے گھر نہ جاؤں گی جب تک کہ اس کو گمراہ نہ کردوں، چنانچہ رات گئے اس عابد کے دروازہ پر آئی اور دروازہ کھٹکھٹایا لیکن اس عابد نے دروازہ نہ کھولا، وہ عورت چلائی او رکھا: مجھے اندر آنے دے، لیکن اس نے نہ کھولا، اس عورت نے کھا: بنی اسرائیل کے کچھ جوان مجھ سے بُرا کام کرنا چاھتے ھیں اگر تو مجھے پناہ نھیں دے گا تو میں ذلیل و رسوا ھوجاؤں گی!

جیسے اس عابد نے یہ آواز سنی دروازہ کھول دیا، وہ عورت جیسی ھی اس کے گھر میں آئی تو اس نے اپنے کپڑے اتار دئے، اس عابد نے جیسے ھی اس کی زیبائی اور خوبصورتی کو دیکھا تو وسوسہ میں پڑگیا، اس کے بدن پر ھاتھ رکھا اور پھر ایک گھری سوچ میں پڑگیا، کچھ دیر سوچ کرچولھے کی طرف گیا اور آگ میں اپنا ھاتھ ڈال دیا، وہ عورت پکاری: ارے تو کیا کرتا ھے؟ اس نے کھا: جو ھاتھ نامحرم کے بدن تک پہنچا ھے اس کو جلانا چاھتا ھوں، چنانچہ یہ دیکھ کر وہ عورت بھاگ گھڑی ھوئی اور بنی اسرائیل کے لوگوں کے پاس جاکر کھا: دوڑو اور اس جوان کو پچاؤ کیونکہ اس نے اپنا ھاتھ آگ میں رکھ دیا ھے، جیسے ھی لوگ دوڑے تو دیکھا کہ اس کا ھاتھ جل چکا ھے۔[37]

پوریائے ولی لیکن اپنے نفس سے جنگ کرنے والا

پوریائی ایک قدرتمند اور زبردست پھلوان تھا جس نے اپنے زمانہ کے تمام پھلوانوں سے کشتی لڑی اور سب کو پچھاڑ ڈالاتھا،جس وقت وہ اصفھان میں پہنچاتو اس نے اصفھان کے بھی تمام پھلوانوں سے کشتی لڑی اور سبھی پر فاتح رھا، چنانچہ اس نے شھر کے پھلوانو ں سے درخواست کی کہ میرے بازو پر بندھے ھوئے بازوبند پر مھر لگا کر میری پھلوانی کا اقرار کرتے ھوئے دستخط کرو تو شھر کے پھلوانوں کے رئیس کے علاوہ سب نے دستخط کردئے چونکہ اس نے ابھی تک اس سے کشتی نھیں لڑی تھی اس نے کھا کہ میں پوریا سے کشتی لڑوں گا اگر اس نے مجھے ھرادیا تب وقت دستخط کروں گا۔ میدان ”عالی قاپو ‘میں جمعہ کے روز کشتی کا پروگرام رکھا گیا تاکہ اس بے نظیر کشتی کو دیکھنے کے لئے لوگ جمع ھوسکیں، شب جمعہ پوریا ئی نے دیکھا کہ ایک بُڑھیاحلوا بانٹ رھی ھے اور التجا کے انداز میں کہہ رھی ھے: یہ حلوا کھاؤ او رمیرے لئے دعا کرو کہ خداوندعالم میری حاجت پوری کردے۔

پوریائی نے پوچھا! ماں تیری حاجت کیا ھے؟ اس نے کھا: میرا بیٹا اس شھر کا سب سے بڑا پھلوان ھے، وہ میری اور اپنے اھل و عیال کے لئے روزی لاتا ھے،کل اس کی کشتی پوریائی سے ھے، کچھ لوگ اس کی مدد کرتے ھیں لیکن مجھے ڈر ھے کہ اگر وہ کشتی ھار گیا تو کھیں وہ لوگ اس کو پیسہ دینا بند نہ کردیں اور ھماری زندگی سختی اور پریشانی میں گزرنے لگے!

پوریائی نے اسی وقت یہ ٹھان لی کہ شھر اصفھان کے مشھور پھلوان کو زیر کرنے کے بجائے اپنے نفس کو زیرکرے گا،چنانچہ اسی نیت سے اس نے کشتی لڑنا شروع کی، جس وقت کشتی ھونے لگی، تو اس نے اندازہ لگالیا کہ ایک وار میں اس کو زمین پر گرا سکتا ھے، لیکن اس نے اس طرح کشتی لڑی کہ خود اس پھلوان سے ھارگیا تاکہ چند لوگوں کی روزی روٹی بند نہ ھونے پائے ، اس کے علاوہ اس بُڑھیا کے دل کو بھی خوش کردے، اور خود بھی رحمت الٰھی کا مستحق ھوجائے۔

آج بھی اس کا نام تاریخ پھلوانی میں ایک بلند انسان ، شجاع اور بخشش کرنے والے کے نام سے باقی ھے، اس کی قبر گیلان میں ھے، اور لوگ اس کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے لئے جاتے ھیں۔[38]

جن لوگوں نے ھوائے نفس اور ھوا و ھوس سے جنگ کی ھے اور بلند و بالا منصب اور ملکوتی درجات پرپہنچے ھیں، ان کا نام قرآن ،حدیث اور تاریخ میں بیان ھوا ھے ان کی تعداد اتنی زیادہ ھے کہ اگر ان سب کے حالات کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو واقعاًچند جلد کتاب ھوجائے ۔

ھوائے نفس اور حرام شھوت سے مقابلہ کے سلسلہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام بھت سی احادیث بیان ھوئی ھیں، جن میں چند کی طرف اشارہ کرنا مناسب ھے۔

حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ھیں: خدا وندعالم کا فرمان ھے:

وَعَزَّتِی وَجَلَالِی وَ عَظَمَتی وَبَھائِی وَعُلُوِّارْتِفاعِی،لَایُوٴْثِرُ عَبْدٌ مُوٴْمِنٌ ھَوایَ عَلیٰ ھَواہُ فِی شَیْءٍ مِنْ اَمْرِالدُّنْیا اِلاَّ جَعَلْتُ غِناہُ فِی نَفْسِہِ،وَھِمَّتَہُ فِی آخِرَتِہِ، وَضَمَّنْتُ السَّماواتِ وَالْاَرْضَ رِزْقَہُ ، وَکُنْتُ لَہُ مِنْ وَراءِ تِجارَةِ کُلِّ تاجِرٍ“۔[39]

مجھے اپنی عزت و جلال، بزرگی و حسن اور بلند و بالا مقام کی قسم کوئی بھی میرا بندہ اپنی خواہشات پر میری مرضی کو مقدم نھیں کرے گا مگر یہ میں اس کو بے نیاز بنادوں گا، اور اس کی ھمت و قصد کو آخرت کی طرف موڑ دوں گا، زمین و آسمان کو اس کی روزی کا کفیل بنادوں گا، اور خود میں اس کے لئے ھر تاجر کی تجارت سے بھتر منافع عطا کروں گا“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ھے:

الشیعہ:ج۱۵،ص۲۷۹،باب۳۲،حدیث۲۰۵۱۰؛بحارالانوار :ج۶۷، ص۸۲، باب ۴۶، حدیث۱۶۔

اِذاکاَنَ یَوْمَ القِیامَةِ تَقومُ عُنُقٌ مِنَ النَّاسِ فَیَاٴْتُونَ بَابَ الْجَنَّةِ

فَیَضْرِبُونَہُ،فَیُقالُ لَھُم:مَنْ اَنْتُم ؟فَیَقُولُونَ:نَحْنُ اَھْلُ الصَّبْرِ،فَیُقالُ لَھُمْ:عَلی مَاصَبَرْتُم ؟فَیَقُولُونَ :کُنّا نَصْبِرُ عَلَی طاعَةِ اللّٰہِ وَنَصْبِرُ عَنْ مَعاصِی اللّٰہِ، فیقول اللہ عَزَّوَجَلَّ:صَدَقُوا،اَدْخِلُوھُمُ الجَنَّةَ۔[40]وَھُوَ قَوْلُ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ:(( ۔۔۔ إِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُونَ اٴَجْرَھم بِغَیْرِ حِسَابٍ))۔[41]

جس وقت قیامت برپا ھوگی،کچھ لوگ اٹھيں گے اور جنت کے دروازہ کی طرف جانے لگےں گے، وھاں پہنچ کر دقّ الباب کریں گے،آواز آئے گی: تم کون لوگ ھو؟ تو وہ کھيں گے: اھل صبر، سوال ھوگا: تم لوگوں نے کس چیز پر صبر کیا: جواب دیں گے: ھم نے اطاعت خدا اور اس کی معصیت پر صبر کیا، اس وقت آواز قدرت آئے گی: یہ لوگ ٹھیک کھتے ھیں، ان کو جنت میں داخل ھونے دو، اسی چیز کو خداوندعالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ھے: ”پس صبر کرنے والے ھی وہ ھيں جن کوبے حساب اجر دیا جاتا ھے“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں:

طُوبٰی لِمَنْ لَزِمَ بَیْتَہُ،وَاَکَلَ قوتَہُ،وَاشْتَغَلَ بِطاعَةِ رَبِّہِ،وَبَکیٰ عَلیٰ خَطِیئَتِہِ،فَکَانَ مِنْ نَفْسِہِ فی شُغُلٍ،وَالنّاسُ مِنْہ فِی رَاحَةٍ“۔[42]

خوش نصیب ھے وہ شخص جو اپنے گھر میں رھے، اور اپنی روزی روٹی کھاتا رھے، خدا کی اطاعت میں مشغول رھے، اپنے گناھوں پر گریہ کرتا رھے، اپنے ھی کاموں میں مشغول رھے اور دوسرے لوگوں کو پریشان نہ کرے“۔

یعقوب بن شعیب کھتے ھیں: میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا:

مَانَقَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَبْداً مِنْ ذُلِّ الْمَعاصِی اِلیٰ عِزِّالتَّقْویٰ اِلاّ اَغْناہُ مِنْ غَیْرِ مالٍ،وَاَعَزَّہُ مِنْ غَیُرِ عَشِیرَةٍ،و۱آنَسَہُ مِنْ غَیْرِ بَشَرٍ“۔[43]

خداوندعالم کسی بھی بندہ کو گناھوں کی ذلت سے تقویٰ کی عزت کی طرف نھیں پھونچاتا مگر یہ کہ اس کو بغیر مال و دولت کے بے نیاز بنادیتا ھے اور اس کو بغیر قوم و قبیلہ کے عزت دیتا ھے اور اس کو بغیر انسان کے انس دیدیتا ھے“۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ھیں:

مَنْ ذَرَفَتْ عَیْناہُ مِنْ خَشْیَةِ اللّٰہِ کَانَ لَہُ بِکُلِّ قَطْرَةٍ قَطَرَتْ مِنْ دُموعِہِ قَصْرٌ فِی الجَنَّةِ مُکَلَّلٌ بِالدُّرِّ وَ الْجَوْھَرِ ،فیہِ مَا لَا عَیْنٌ رَاٴَتْ،وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ ،وَلَا خَطَرَ عَلَی قَلْبِ بَشَرٍ“۔[44]

جو شخص خوف خدا میںآنسو بھائے،اس کے ھر قطرہ کے عوض بہشت میں ھیرے جواھرات سے بنا ھوا ایک محل ملے گا، اس قصر میں ایسی چیزیں ھیں جس کو کسی آنکھ نے نہ دیکھا ھو اورنہ ھی کسی دل میں اس کے متعلق خطور ھواھو“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

کُلُّ عَیْنٍ باکِیَةٌ یَوْمَ القِیامَةِ اِلاَّ ثَلاثَةً:عَیْنٌ غُضَّتْ عَنْ مَحَارِمِ اللّٰہِ،وَعَیْنٌ سَھِرَتْ فِی طَاعَةِ اللّٰہِ ،وَعَیْنٌ بَکَتْ فِی جَوْفِ اللَّیْلِ مِنْ خَشْیَةِ اللّٰہِ“۔[45]

یوم قیامت ھر آنگھ گریہ کرے گی سوائے تین آنکھوں کے: جس آنکھ سے حرام خدا کو نہ دیکھا ھو، جو آنکھ اطاعت و عبادت خدا میں جاگی ھو، اور وہ آنکھ جو رات کے اندھیرے میں خوف خدا سے روئی ھو“۔

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اِنَّ الصَّدَقَةَ تَزِیدُ صَاحِبَھا کَثْرَةً ،فَتَصَدَّقُوا یَرْحَمْکُمُ اللّٰہُ۔وَاِنَّ التَّواضُعَ یَزِیدُ صاحِبَہُ رِفْعَةً،فَتَواضَعُوا یَرْفَعْکُمُ اللّٰہُ۔وَاِنَّ العَفْوَ یَزِیدُ صَاحِبَہُ عِزّاً،فَاعْفُوا یُعِزَّکُمُ اللّٰہُ “۔[46]

بے شک صدقہ صاحب مال کے مال میں اضافہ کرتا ھے، پس راہ خدا میں صدقہ دیا کرو، خداوندعالم تم پر رحمت نازل کرے، تواضع و انکساری کرنے والے کی سربلندی میں اضافہ ھوتا ھے، پس تواضع و انکسار ی کرو، خداوندعالم تم کو سربلند و سرفراز فرمائے گا، عفو و بخشش کرنے والے کی عزت و سربلندی میں اضافہ ھوتا ھے، پس عفو و بخشش سے کام لو خداوندعالم تم کو عزت دےگا“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے ایک حدیث کے ضمن میں فرمایا:

اَلاٰ اِنَّہُ مَنْ یُنْصِفِ النَّاسَ مِنْ نَفْسِہِ لَمْ یَزِدْہُ اللّٰہُ اِلاَّعِزًّا“۔[47]

آگاہ ھوجاؤ کہ جو شخص دوسرے لوگوں سے انصاف کرے گا، خداوندعالم اس کی عزت و سربلندی میں اضافہ فرمادے گا“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ھیں:

طُوبیٰ لِمَنْ طابَ خُلُقُہُ،وَطَھُرَتْ سَجِیَّتُہُ ،وَصَلُحَتْ سَریرَتُہُ،وَحَسُنَتْ عَلانِیَتُہُ،وَاَنْفَقَ الْفَضْلَ مِنْ مالِہِ،وَاَمْسَکَ الْفَضْلَ مِنْ قَوْلِہِ ، وَاَنْصَفَ النَّاسَ مِنْ نَفْسِہِ“۔[48]

خوش نصیب ھے وہ شخص جس کا اخلاق اچھا ھو، جس کی طینت پاک ھو، جس کا باطن صالح اور نیک ھو، جس کا ظاھر نیک ھو، اپنے اضافی مال سے انفاق کرے، اور زیادہ گفتگو سے پرھیز کرے، اور لوگوں کے ساتھ انصاف

سے کام لے“۔

قارئین کرام! گزشتہ صفحات میں بیان شدہ احادیث میں مختلف مسائل کو ملاحظہ کیا جن کا خلاصہ یہ ھے:” آخرت کو دنیا پر ترجیح دینا، عبادت خدا میں صبر و ضبط کرنا، (یعنی عبادت کی مشکلات سے نہ گھبرانا) گناھوں کے مقابلہ میں استقامت دکھانا، حلال رزق پر قناعت کرنا، اطاعت الٰھی میں مشغول رہنا، گناھوں پر آنسو بھانا، اپنے کاموں میں مشغول رہنا، لوگوں کو اذیت دینے سے پرھیز کرنا،تقویٰ الٰھی کی رعایت کرنا، رات کے سناٹے میں خوف خدا سے آنسوبھانا، نامحرم پر نظر کرنے سے پرھیز کرنا، عبادت کے لئے شب بیداری کرنا، راہ خدا میں صدقہ دینا، تواضع و انکساری اور عفو و بخشش سے کام لینا، اپنی طرف سے تمام لوگوں کے ساتھ انصاف کرنا، اخلاق حسنہ رکھنا، پاک طبیعت رکھنا، شائستہ باطن رکھنا، پسندیدہ ظاھر رکھنا، اضافی مال کو راہ خدا میں خرچ کرنا، زیادہ گفتگو سے پرھیز کرنا“۔

اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ ان تمام چیزوں کو عملی جامہ پہنانا ،خواہشات نفسانی سے جنگ کئے بغیر ممکن نھیں ھے، جو شخص شیطانی چالوں سے دنیاوی اور مادی امور ،ھوائے نفس اور بے لگام شھوت کے ساتھ مقابلہ کرے تو واقعاً اس نے جھاد اکبر کیا ھے اوراسے اس کا بھت زیادہ فائدہ ھوگا، وہ فائدہ جس کا وعدہ خداوندعالم نے انبیاء اور ائمہ علیھم السلام سے کیا ھے۔

فرصت کو غنیمت جاننا چاہئے

فرصت کو غنیمت جاننا چاہئيے بالخصوص اپنے پاس موجود فرصت کی قدر کرنا چاہئے ، عمر کی فرصت کے بارے میں؛ خدا کا حکم، انبیاء و ائمہ علیھم السلام اور اولیاء الٰھی کی وصیت ھے، کیونکہ انسان اسی عمر کی فرصت میں اپنے گناھوں کو نیکیوں میں تبدیل کرسکتا ھے، برائیوں کی جگہ اچھائیوں کو قرار دے سکتا ھے، اور ظلمت و تاریکی کی جگہ نور و روشنی کو قرار دے سکتا ھے۔

اگر فرصت ھمارے ھاتھ سے نکل جائے،اور کوئی اچھا کام انجام نہ دیا جائے، اور موت کا پیغام پہنچ جائے، اور عمر کا چراغ اس موقع پر گل ھونے لگے کہ انسان توبہ کی فرصت نہ پاسکے، تو اس موقع پر شرمندگی اور پشیمانی کوئی فائدہ نھیں دے سکتی۔

جس وقت طلحہ جنگ جمل میں مروان بن حکم کے تیر سے زمین پر گرا، اور اس دنیا سے چلنے لگا تو کھتا ھے: میری بدبختی ھے کہ بزرگان قریش (حضرت علی علیہ السلام) کی بزرگی کو نھیں دیکھ سکا،لیکن طلحہ کو یہ احساس اس وقت ھوا جب فرصت ھاتھ نکل چکی تھی، اور اس کی زندگی کا دیا گُل ھونے والا تھا، طلحہ وہ پھلا شخص تھا جس نے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کی، لیکن حضرت علی علیہ السلام نے چونکہ اس کی ناجائز پیش کش کو قبول نھیں کیا تھا نیز اُدھر معاویہ نے اس کو بھڑکایا اور اس پر اثر ھوگیا، لہٰذا اس نے حضرت امیر کی بیعت توڑ ڈالی، اور اپنی دنیا و آخرت کو تاریک کرڈالا۔

جناب نوح اور جناب لوط علیھم السلام کی ازواج نے اپنے شوھروں کی مسلسل مخالفت کی، اور آخری لمحات اور فرصت کے ختم ھونے تک انھوں نے مخالفت جاری رکھی یھاں تک کہ دونوں پر عذاب الٰھی نازل ھوا اور اس دنیا سے چلی گئیں۔

جناب آسیہ زوجہ فرعون نے فرصت کو غنیمت شمار کیا اور خدا کی رضا کو اپنے شوھر کی رضا پر مقدم رکھا،جس کی بنا پر اسے خوشنودی خدا اور ھمیشہ کے لئے بہشت مل گئی۔

جناب خدیجہ نے فرصت کو غنیمت سمجھا، اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے راستہ میں قربانی دی اور دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرلی، ان کی قوم نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شادی کرنے کی وجہ سے قطع تعلق کرلیا، لیکن جناب خدیجہ نے خدا سے رابطہ مستحکم کرلیا، اور اس طرح سے فوز عظیم پرفائز ھوگئیں۔حر ّ بن یزید ریاحی نے باقی بچی تھوڑی سی فرصت کو غنیمت شمار کیا اور اس غنیمت کے خزانہ سے ھمیشہ کے لئے عظیم الشان منفعت حاصل کرلی۔

جی ھاں! جس شخص نے فرصت کو غنیمت شمار کیا اگرچہ تھوڑی سی فرصت کیوں نہ ھو، نور الٰھی اس کے دل میں چمک اٹھتا ھے اور اس کی نصرت و مدد کرتا ھے۔اس موقع پر کھا جانا چاہئے : وہ نور ہدایت جس نے عابد و زاہد کے دل میں راہ خدا کو واضح کیااس نے تمام طاقتوں کا اختیار اپنے ھاتھ میں لے لیا،چنانچہ اس کے کان کو نغمہ الٰھی اور سخن حق کے علاوہ کوئی دوسری آواز سنائی نھیں دیتی، جس کا ذائقہ کسی بھی حرام چیز کو چکھنے کے لئے تیار نھیں ھے، آنکھیں نامحرم کے بدن کی طرف اٹھنے سے رک گئیں،درحقیقت ایک عالم عارف کی نگاہ ایک معمولی آنکھ سے کھیں زیادہ دیکھتی ھے، کیونکہ اس کو اندر سے نور ہدایت طاقت پہنچاتا رھتا ھے، او راسی نور کے ذریعہ پھلے وہ خالق کائنات کی مخلوق کے جلال و جلووں کو دیکھتا ھے، اور اس کے بعد اپنی ظاھری آنکھوں سے اس دنیا کی چیزوں کو دیکھتا ھے۔

راہ خدا پر چلنے والا دوسروں کی طرح نھیںدیکھتا، کہ جھاںدوسرے لوگ زندگی کو لذت حاصل کرنے اور اپنے مقصد تک رسائی کے لئے دیکھتے ھیں، اور آخر کار پشیمان ھوکر فریاد کرنے لگتے ھیں: ھائے کوئی چیز کام آنے والی باقی نہ رھی اور اب اپنے یا دوسروںکی کوئی امید نھیں ھے۔

جس شخص کو نور ہدایت حاصل ھوجاتا ھے اس کی زندگی کے اغراض و مقاصد بلند وبالا ھوتے ھیں،اور وہ صرف ظاھری زندگی کی شناخت پر قناعت نھیں کرتا بلکہ زندگی کے اسرار و رموز کی گھرائی میں جاتا ھے اور اس حاصل شدہ بصیرت سے اپنی زندگی کے لمحات گزارتا ھے۔یھی وہ بصیرت ھے جس سے انسان ھمیشہ ذکر الٰھی میں مشغول رھتا ھے، یھاں تک کہ یہ کھا جاسکتا ھے کہ وہ ایک لمحہ کے لئے بھی یاد خدا سے غافل نھیں ھوتا۔اگر انسان کو عالم ہستی کی اھمیت معلوم ھوجائے تو کیا وہ ایک لمحہ کے لئے غفلت کی زندگی بسر کرسکتا ھے؟ غفلت کے معنی یہ ھیں کہ انسان اپنی غفلت کی مقدار بھر اپنے وجود میں کمی اور نقصان کا تصور کرے۔[49]



[1] سورہٴ نازعات آیت ،۴۰۔

[2] سورہٴ فرقان آیت ۴۳۔

[3] سورہٴ نساء ،آیت ۱۳۵۔

[4] سورہٴ ص،آیت ۲۶۔

[5] سورہٴ نازعات آیت ۴۰۔

[6] سورہٴ اعراف،آیت ۱۷۶۔

[7] سورہٴ کہف ،آیت ۲۸۔

[8] سوروں کی ترتیب کے لحاظ سے آیات نمبر ۷۷۔ ۱۵۰۔ ۳۷۔ ۷۱۔ ۵۰۔ ۱۵۔ ۲۳ ۔۱۶۔

[9] وسائل الشیعہ،ج۱۵،ص۱۶۱،چاپ آل البیت باب ۱ حدیث ۲۰۲۰۸۔

[10] نہج البلاغہ،حکمت ۴۷۴۔

[11] سورہٴ قیامت ،آیت ۱۴۔۱۵۔

[12] سورہ بقرہ آیت۲۰۵۔

[13] جاھلیت قرن بستم،۵۳۔

[14] جاھلیت قرن بستم،۷۸۔

[15] من لا یحضر الفقیہ: ۴/۳۵۲، باب النوادر، حدیث ۵۷۶۲؛ وسائل الشیعہ: ۱۵/۱۶۲، باب ۱، حدیث ۲۰۲۱۴۔

[16] کافی: ۲/۴۵۴، باب محاسبة العمل، حدیث ۶؛ وسائل الشیعہ: ۱۵/۱۶۱، باب ۱، حدیث ۲۰۲۱۰۔

[17] امالی صدوق: ۳۲۹،مجلس ۵۳،حدیث۷؛ ثواب الاعمال : ۱۵۹؛وسائل الشیعہ :ج۱۵،ص۱۶۲ ، باب ۱، حدیث ۲۰۲۱۵۔

[18] کافی :۲/۵۴، باب التفکر، حدیث۱؛ بحار الانوار: ۶۸/۳۱۸، باب ۸۰، حدیث۱۔

[19] کافی :۲/۵۵، باب التفکر، حدیث۵؛ وسائل الشیعہ؛ ۱۵/۱۹۶، باب ۵، حدیث ۲۰۲۶۲۔

[20] امالی صدوق: ۲۸۰، مجلس ۴۷، حدیث ۱۰؛ وسائل الشیعہ: ۱۵/۱۹۹، باب ۶، حدیث ۲۰۲۷۲۔

[21] عن رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فی حدیث المناھی، قال: من عرضت لہ فاحشة او شھوة فاجتنبھا مخافة اللہ عزوجل حرم اللہ علیہ النار، وآمنہ من الفزع الاکبر، وانجز لہ ما وعدہ فی کتابہ فی قولہ تعالیٰ (( وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ)) الا ومن عرضت لہ دنیا و آخرة فاختار الدنیا علی الاخرة، لقی الله عزوجل یوم القیامة و لیست لہ حسنة یتقی بھا النار؛ ومن اختار الآخرة وترک الدنیا، رضی اللہ عنہ و غفر لہ مساوی عملہ۔

امالی صدوق: ۴۲۹،مجلس ۶۶، حدیث۱؛ وسائل الشیعہ: ۱۵/۲۰۹، باب ۹، حدیث ۲۰۲۹۷۔

[22] کافی: ۲/۶۸، باب الخوف والرجاء، حدیث۵؛ وسائل الشیعہ: ۱۵/۲۱۶، باب ۱۳، حدیث ۳۰۳۱۲۔

[23] سورہٴ رحمن،آیت ۴۶۔

[24] کافی: ۲/۷۰، باب الخوف والرجاء حدیث ۱۰؛ بحار الانوار، ۶۷/۳۶۴، باب ۵۹، حدیث۸۔

[25] کافی: ۲/۷۸، باب الورع، حدیث۱۱؛ وسائل الشیعہ: ۱۵/۲۴۳، باب ۲۱، حدیث ۲۰۳۹۲۔

[26] کافی:۲/۷۷، باب الورع، حدیث۹؛ وسائل الشیعہ: ۱۵/۲۴۵، باب ۲۱، حدیث ۲۰۴۰۰؛ بحار الانوار: ۶۷/۲۹۹، باب ۵۷، حدیث۹۔۔

[27] وسائل الیشعہ،ج۱۵،ص۲۴۶،باب ۲۱،حدیث۲۰۴۰۵۔

[28] کافی ،ج۲،ص۷۹،باب العفة،حدیث۲؛تحف العقول :۲۹۶؛وسائل الشیعہ:۱۵،ص۲۴۹،باب ۲۲،حدیث ۲۰۴۱۴۔

[29] خصال ج ج۱،ص ۲۹۵،حدیث ۶۳؛وسائل الشیعہ،ج۱۵،ص۲۵۱،باب۲۲،حدیث۲۰۴۲۵۔

[30] عیون اخبار رضا ،ج۲ ص۲۹،باب ۳۱،حدیث ۲۵،وسائل الشیعہ ،ج۱۵،ص۲۵۴،باب ۲۳حدیث ۲۰۴۳۴۔

[31] سورہٴ فرقان ،آیت ۷۰۔

[32] سورہٴ نمل،آیت ۱۱۔

[33] سورہٴ حج ،آیت ۲۷۔

[34] سورہٴ یوسف،آیت ۷۰۔

[35] سفینة البحار ج۴، ۳۵۲ باب السین بعدہ الیاء۔

[36] امالی صدوق :ص۳۴۰،ا؛المجلس الرابع والخمسون ،حدیث ۲۶؛بحار الانوار، ج۶۷، ص۳۷۸، باب ۵۹،حدیث۲۳۔

[37] قصص راوندی ص ۸۳، حدیث ۲۲۲؛ بحار الانوار ،ج ۶۷، ص ۳۸۷، باب ۵۹، حدیث ۵۲۔

[38] جامع النورین ص ۲۳۴۔

[39] کافی،ج۲،ص۱۳۷،حدیث۲؛وسائل

[40] کافی ج۲،ص۷۵،باب الطاعة والتقوی ،حدیث ۴؛بحارالانوار ،ج۶۷،ص۱۰۱،باب ۴۷،حدیث۵۔

[41] سورہٴ زمر،آیت ۱۰ ۔

[42] نہج البلاغہ :۴۰۳،خطبہ ۱۷۵؛بحارالانوار ،ج۶۷،ص۱۱۱،باب ۴۹حدیث۱۳۔

[43] کافی ج،۲،ص۷۶،باب الطاعة والتقوی ،حدیث ۸؛وسائل الشیعہ :ج۱۵،ص۲۴۱،باب ۲۰،حدیث۲۰۳۸۵۔

[44] امالی صدوق :۴۳۱،مجلس ۶۶،حدیث ۱؛مجموعہ ٴ ورام ج، ۲ص ۲۶۳؛وسائل الشیعہ ج۱۵، ص۲۲۳، باب ۱۵،حدیث ۲۰۳۳۳۔

[45] کافی ،ج۲،ص۴۸۲،باب البکاء،حدیث۴؛عوالی اللئالی:ج۴ص۲۱،حدیث۵۹؛وسائل الشیعہ: ج۱۵، ص۲۲۸،باب ۱۵،حدیث۲۰۳۴۶۔

[46] کافی ،ج۲،ص۱۲۱،باب التواضع ،حدیث۱؛بحارالانوار ج۷۲،ص۱۲۴،باب ۵۱،حدیث۲۳۔

[47] کافی ج۲،ص۱۴۴،باب الانصاف والعدل ،حدیث ۴؛وسائل الشیعہ ،ج۱۵،ص۲۸۳،باب ۳۴،حدیث۲۰۵۲۵۔

[48] کافی ،ج۲،ص ۱۴۴،باب الانصاف والعدل ،حدیث ۱؛وسائل الشیعہ ج۱۵،ص۲۸۴،باب ۳۴،حدیث ۲۸ ۲۰۵؛ بحارالانوار ج ۷۲،ص۲۹،باب ۳۵،حدیث۲۲۔

[49] شرح نہج البلاغہ، علامہ جعفری، ج۱۴ص۹۴۔

No comments: