Tuesday, April 28, 2009

شرح دعاء کمیل۶

”قَوِّعَلٰی خِدْمَتِکَ جَوٰارِحِي،وَاشْدُدْ عَلَی الْعَزیمَةِ

جَوٰانِحِي،وَھَبْ لِيَ الْجِدَّ في خَشْیَتِکَ،وَالدَّوٰامَ

فِي الْاِٴتِّصٰالِ بِخِدْمَتِکَ،حَتّٰی اٴَسْرَحَ اِٴلَیْکَ فيمَیٰادینِ

السّٰابِقینَ،وَ اٴُسْرِعَ اِٴلَیْکَ فِي الْبٰارِزینَ،وَاٴَشْتٰاقَ اِٴلٰی

قُرْبِکَ فِي الْمُشْتٰاقینَ، وَاٴَدْنُوَ مِنْکَ دُنُوَّالْمُخْلِصینَ،

وَاٴَخٰافَکَ مَخٰافَةَ الْمُوقِنینَ،وَ اٴَجْتَمِعَ فِي جِوٰارِکَ

مَعَ الْمُوٴْ مِنینَ“۔

” اپنی خدمت کے لئے میرے اعضاء و جوارح کو مضبوط کر دے اور اپنی طرف رخ کرنے کے لئے میرے ارادہٴ دل کو مستحکم بنادے۔اپنا خوف پیدا کرنے کی کوشش اور اپنی مسلسل خدمت کرنے کا جذبہ عطا فرما تاکہ تیری طرف سابقین کے ساتھ آگے بڑھوں اور تیز رفتار افراد کے ساتھ قدم ملا کر چلوں ۔مشتاقین کے درمیان تیرے قرب کا مشتاق شمار ھوں اور مخلصین کی طرح تیری قربت اختیار کروں۔صاحبان یقین کی طرح تیرا خوف پیدا کروں اور مومنین کے ساتھ تیرے جوار میں حاضری دوں“۔

توانائی کی درخواست

عارف عاشق، حقیقی مناجات کرنے والے اور معلم معرفت حضرت امیر المومنین علیہ السلام دعا کے ان فقروں کو زمزمہ کرتے وقت اپنے اوپر رحمت خدا کے کھلے دروازے اور اپنے محبوب کی طرف سے دعا قبول ھونے کا راستہ ھموار دیکھ کر اپنی اھم اھم دعاؤں کو بارگاہ رب العزت میں پیش کرتے ھیں جو سوفی صد معنوی ھوتی ھیں، کیونکہ ان چیزوں کی درخواست سے انسان کمال کی اعلیٰ منزل تک پھنچ جاتا ھے، اور یہ تمام چیزیں دعا کرنے والے کی خدا کی نسبت عرفان،معرفت اور شناخت پر دلالت کرتی ھیں۔

خداوندمنان کی بارگاہ میں دعا ھے کہ میرے اعضاء و جوارح کو اپنی خدمت جو در واقع خالصانہ عبادت اور مکمل بندگی ھے، اور مومن بندوں کی خدمت جو حقیقت میں خدا کی خدمت ھے، کے لئے مضبوط او رقوی بنادے۔

جس وقت یہ معنوی قدرت اور روحانی طاقت خداوندعالم کی طرف سے عابد و زاھد کے ساتھ شامل ھوجاتی ھے تو پھر اس کو عبادت خدا اور خدمت خَلق میں بہت مزہ آتا ھے۔

خدا کی خاص نعمتوں کے حصول کے لئے چند شرائط

اھل ایمان اور عبادت گذار بندہ اگر چاھے کہ خداوندعالم کی خاص نعمتیں اس کے شامل حال ھوں تو درج ذیل نکات پر توجہ کرنا نھایت ضروری ھے:

۱۔ ایسے لوگوں کی بزم سے دوری اختیار کرنا جوتقویٰ کے سلسلہ میں لاؤ ابالی ھوں، اور ایمان و تقویٰ کو حاصل کرنے کے لئے کوشش بھی نہ کرتے ھوں۔ دوسری طرف اولیاء اللہ اور علمائے ربانی اور عرفاء کہ جنھوں نے اللہ کی طرف سیر و سلوک کے مراحل کو ایک حدتک طے کرلیا ھے، ان کے ساتھ ھم نشینی کرنا۔

۲۔ شبہ ناک لقمہ سے اجتناب کرنا، حرام روزی کھانا تو درکنار وہ تو بہت ھی زیادہ خطرناک ھے، اسی طرح ان لوگوں کی مھمانی میں نہ جانا جونامعلوم کس کس طرح اپنا مال و دولت اکٹھا کرتے ھیں۔

۳۔ اپنے باطن کو اخلاقی برائیوں ، نفسانی خباثت اور حیوانی شھوتوں سے پاک و پاکیزہ کرنا، اور ان کو اخلاق حسنہ اور معنوی حقائق سے آراستہ کرنا۔

۴۔ پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے پرھیز کرنا کیونکہ اس چیز کے ذریعہ شیطانی وسوسوں کا راستہ کھل جاتا ھے اور الٰھی الھام اور آسمانی درک کا دروازہ بند ھوجاتا ھے۔

۵۔ بہت زیادہ سونے اور بہت زیادہ آرام کرنے سے اجتناب کرنا، جس کی وجہ سے انسان اطاعت الٰھی کے سلسلہ میں سستی محسوس کرنے لگتا ھے اور روح انسانیت کا جنازہ نکل جاتا ھے۔

بے دین لوگوں کے ساتھ ھم نشینی، لقمہ ٴ حرام کھانا، اخلاقی پستی اور شکم پروری میں مبتلاھوجانا نیز زیادہ سونے اور بہت زیادہ آرام طلب ھونے کے سلسلہ میں اسلامی معتبر کتابوں میں بہت سی احادیث بیان ھوئی ھیں، جن میں سے ھم بعض کی طرف اشارہ کرتے ھیں:

زندگی اور زندگی بسر کرنے والا

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ھے:

”اٴوحَشُ الوَحشَةِ قَرینُ السُّوءِ“[1]

”سب سے زیادہ خطرناک بُرادوست اور ساتھی ھے“۔

حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:

”اِحذَرْ مُجَالَسةَ قَرینِ السّوءِ،فَاِنَّہُ یُھلِکُ مُقارِنَہُ وَیُردِی مُصاحِبَہُ“[2]

”برے دوست کی ھم نشینی سے پرھیز کرو، کیونکہ وہ اپنے دوست کو بھی ھلاک کردے گا اور اس کومادی و معنوی لحاظ سے نابود کردے گا“۔

حضرت امام علی نقی علیہ السلام کا ارشاد ھے:

”اِیّاکَ وَمُصَاحَبَةَ الشَّریرِ فَاِنَّہُ کاَلسَّیفِ المَسْلُولِ یَحسنُ مَنظَرُہُ وَ یَقبَحُ اٴثَرُہُ“[3]

”شریر لوگوں کی صحبت سے دور رھو کیونکہ وہ ایک تیز تلوار کی طرح ھے جو دیکھنے میں اچھی لگتی ھے لیکن اس کا نتیجہ برا ھوتا ھے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

”اِحذَرْ مِنَ النَّاسِ ثَلاثَةً:الخائِنَ وَالظَّلومَ وَالنَّمامَ،لِاٴنَّ مَن خَانَ لَکَ خَانَکَ،وَمَن ظَلَمَ لَکَ سَیَظْلِمُکَ وَمَن نَمَّ اِلَیکَ سَیَنُمُّ عَلَیکَ “[4]

”تین لوگوں کی دوستی اور صحبت سے پرھیز کرو: ۱۔ خائن۔ ۲۔ ظالم۔ ۳۔ چغل خور؛ کیونکہ اگر کسی نے تمھارے فائدہ کے لئے خیانت کی ھے تو دوسرے دن تمھارے نقصان کے لئے بھی خیانت کرسکتا ھے، اور کوئی تمھاری خاطر دوسروں پر ظلم کرسکتا ھے تو تم پربھی ظلم کرے گا،اگر کوئی تمھارے سامنے دوسروں کی چغل خوری کرے (اور تم سنتے رھو) تو وہ دوسروں کے سامنے تمھاری چغل خوری کرنے میں دریغ نہ کرے گا“۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

”صَاحِبِ الحُکَمَاءَ وَجالِسِ الحُلَمَاءَ وَاٴعرِض عَنِ الدُّنیَا تسکن جَنَّةَ المَاٴوَی“[5]

”صاحبان حکمت کے ساتھ ھم صحبت بنو، بردبار لوگوں کے پاس بیٹھو اور دنیا سے منھ موڑلو، جس کے نتیجہ میں جنت الماویٰ میں اپنی جگہ بنالو“۔

حرام روزی

اس سلسلہ میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ھیں:

”مَن اٴَکَلَ لُقمَةً مِن حَرامٍ لَم تُقبَل لَہُ صَلاةٌ اٴربَعینَ لَیلةً“[6]

”جو شخص مال حرام سے ایک لقمہ کھائے اس کی چالیس رات کی نمازیں قبول نھیں ھوں گی“۔

اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ حَرَّمَ الجَنَّةَ جَسَداً غُذِّیَ بِحَرامٍ“[7]

”بے شک خداوندعالم نے اس جسم پر جنت حرام کی ھے جس میں مال حرام بھرا گیا ھو“۔

”اِذَا وَقَعَتِ اللُّقمِةُ مِن حَرامٍ فِی جَوفِ العَبدِ لَعَنَہُ کُلُّ مَلَکِ فِی السَّماواتِ وَالاٴرضِ“[8]

”جس وقت کسی انسان کے شکم میں لقمہ حرام چلاجائے تو زمین و آسمان کے تمام فرشتے اس پر لعنت کرتے ھیں“۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:

”اِنَّ الرَّجُلَ اِذَا اٴَصابَ مَالاً مِن حَرامٍ لَم یُقبَل مِنہُ حَجٌّ وَلاعُمرَةٌ وَلاَ صِلَةُ رَحِمٍ۔۔۔[9]

”جب انسان مالِ حرام حاصل کرلےتا ھے تو اس کا حج و عمرہ اور صلہ رحم قبول نھیں ھوتا“۔

اخلاقی برائیاں

حضرت امام سجاد علیہ السلام صحیفہ (سجادیہ) کی دعا نمبر ۸ میں بہت سی اخلاقی برائیوں کو بیان کرتے ھیں اور ان سے خدا کی پناہ مانگتے ھیں: ”لالچ میں زیادتی، نظر میں سختی، حسد پر عملی اقدام، قناعت کی کمی، اخلاق کی بدی، شھوت میں افراط (زیادتی)،تعصب میں جاھلوں کا اتباع، شدت پسندی پر اصرار، ھوائے نفس کی پیروی، ھدایت کی مخالفت، خواب غفلت، اپنی طاقت سے زیادہ کسی چیز میں کوشش، حق پر باطل کو ترجیج دینا، گناھوں پر اصرار، گناھوں کو سبک سمجھنا، اطاعت کو زیادہ سمجھنا، مال و دولت پر فخر و مباھات کرنا، غریبوں اور محتاجوں کو ذلیل سمجھنا، اپنے ماتحت لوگوں کے حق میں کوتاھی کرنا، نیکی کرنے والوں کی احسان فراموشی کرنا، ظالم کی مدد کرنا اور مظلوم کو بے یار و مددگار چھوڑ دینا وغیرہ وغیرہ۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے کھا گیا: فلاں عورت دن میں روزہ رکھتی ھے اور راتوں کو نمازیں پڑھتی ھے لیکن وہ بد اخلاق ھے، اپنے پڑوسیوں کو بُرا بھلا کہتی ھے۔ تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: اس میں خیر نھیں پایا جاتا، وہ جھنمی ھے۔[10]

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے تھے:

”اِنَّ سُوءَ الخُلُقِ لَیُفسِدُ العَمَلَ کَمَا یُفسِدُ الخَلُّ العَسَلَ“[11]

”بد خلقی سے انسان کے اعمال تباہ ھوجاتے ھیں، جیسا کہ سرکہ شھد کو خراب کردیتا ھے“۔

شکم پروری

شکم پروری (زیادہ کھانا کھانے) کے سلسلہ میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

”۔۔۔مَن کَثُرَ طُعامَہُ سَقُم بَطنُہُ وَقَسا قَلبُہُ“[12]

”جو شخص زیادہ کھانا کھائے گا اس کا جسم بیمار ھوجائے گا اور اس کا دل سخت ھوجائے گا“۔

”مَنْ کَثُرَ اٴکلُہ قَلَّت صِحَّتُہُ وَثَقُلَتْ عَلی نَفسِہِ مُوٴنَتُہ“[13]

”جو شخص پُر خوری کرے گا اس کی صحت خراب ھوجائے گی اور اخراجات بڑھ جائیں گے“۔

”کَثْرَةُ الاٴکلِ مِنَ الشَّرَہِ ،وَالشَّرَہُ شَرُّ العُیُوبِ“[14]

”پُرخوری (بے جا)رغبت کی نشانی ھے، اور (بے جا )رغبت سب سے بڑا عیب ھے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

”لَیسَ شَیْءٌ اٴضَرَ لِقَلبِ المُوٴمِنِ مِن کَثْرَةِ الاٴکلِ،وَھِیَ مُورِثَةٌ لِشَیئَینِ: قَسْوَةِ القَلبِ وَھَیَجانِ الشَّھوَةِ“[15]

”مومن کے دل کے لئے سب سے خطرناک چیز پُرخوری ھے، زیادہ کھانا کھانے سے انسان سنگ دل ھوجاتا ھے اور اس کی شھوت میں طغیان پیدا ھوجاتا ھے“۔

زیادہ سونا

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ھے کہ:جناب موسیٰ نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا: (اے پالنے والے) اپنے بندوں میں سب سے زیادہ کس سے دشمنی رکھتا ھے؟ آواز آئی: جو شخص رات بھر اپنے بستر پر مردے کی طرح پڑا رھے، اور دن میں بے ھودگی اور وقت گزرانی میں مشغول رھے“۔[16]

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ھے: جناب سلیمان کی ماں نے ان سے کھا: رات میں زیادہ نہ سونا چاہئے کیونکہ زیادہ سونے سے کل روز قیامت اس کا ھاتھ خالی ھوگا۔[17]

حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ھے:

”بِئْسَ الغَریمُ النَّومُ ؛یُفنِی قَصیرَ العُمرِوَیُفَوِّتُ کَثیرَالاٴجرِ“[18]

”(زیادہ)سوناایک بہت بڑا دشمن ھے، جس سے عمر کم ھوجاتی ھے اور زیادہ ثواب کو بھی ختم کردیتا ھے“۔

اسلام کی نظر میں ناپسند زندگی سے اجتناب، لقمہ حرام سے پرھیز، اخلاقی برائیوں سے دوری، زیادہ سونے اور زیادہ کھانے سے پرھیز سے عبادت خدا کے لئے انسانی بدن قوی ھوجاتا ھے، اور اسی کے پیش نظر انسان کی آنکھ میں اتنی طاقت پیدا ھوجاتی ھے کہ وہ صرف حق اور جس کو حق پسند کرتا ھے؛ دیکھتی ھے، اسی طرح کان صرف اور صرف خداو رسول اور ائمہ علیھم السلام نیز اولیاء اللہ کی باتوں کو سنتا ھے، اسی طرح اس کی زبان سے حق و انصاف کی باتیں نکلتی ھیں، ھاتھ نیک کاموںکی طرف ھی اٹھے گا، صرف حلال روزی ھی کھائے گا،شھوت کو حلال طریقہ سے بروئے کار لائے گا، اس کے قدم راہ حق میں اٹھےں گے، مسجد امامبارگاہ کی طرف چلیں گے، المختصر وہ دل و جان سے عبادت خدا اور

عبادت حق

عبادت و بندگی کی اھمیت ھمارے لئے (پوری طرح) قابل فھم نھیں ھے چونکہ ھم اس دنیا میں زندگی بسر کرتے ھیں ۔اسی طرح دوسری چیزوں کے دروازے ھمارے لئے تا قیامت بند ھیں، (ایک معمولی انسان ان کو سمجھ نھیں سکتا)

خداوندعالم کی عبادت و بندگی انسانی رشد و کمال اور معنوی حیات نیز بھشت کے حصول کے لئے ضروری ھے۔

حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) حق عبادت و بندگی کے سلسلے میں بیان فرماتے ھیں:

”اٴفضَلُ النَّاسِ مَنْ عَشِقَ العِبادَةَ فَعَانَقَھا وَاٴحَبَّھا بِقَلبِہِ وَباشَرَھا بِجَسَدِہِ وَ تَفَرَّغَ لَھا فَھُولَا یُبالِی عَلَی مااٴصْبَحَ مِنَ الدُّنیا عَلی عُسرٍ اٴم عَلی یُسْرٍ“[19]

”لوگوں میں سب سے افضل وہ شخص ھے جو عبادت کا شیدائی ھو، ھر حال میں عبادت خدا کرتا رھے، اور دل میں عبادت سے لگاؤ ھو ، بدن کے ذریعہ بجالائے، اور عبادت کے لئے دوسرے کاموں سے فرصت حاصل کرے اور دنیاوی زندگی سختیوں اور آسانیوں میں گزرنے کا کوئی خوف نہ ھو“۔

”یَقولُ رَبُّکُم :یَابنَ آدَمَ ،تَفَرَّغْ لِعِبادَتِی اٴملَاٴ قَلبَکَ غِنًی وَاَمْلَاٴ یَدَیکَ رِزقاً،یَابنَ آدَمَ لا تَباعَد مِنِّی فَاٴملاٴ قَلبَکَ فَقراً وَ اٴمْلاٴ یَدَیکَ شُغلاً “[20]

”تمھارا پروردگار فرماتا ھے: اے اولاد آدم! میری عبادت کے لئے ھر کام سے فرصت نکالو، تاکہ تمھارے دل کو بے نیاز بنادوں اور تمھارے ھاتھوں کو روزی سے بھر دوں؛ اے اولاد آدم! مجھ سے دور نہ ھونا ورنہ تم محتاج ھوجاؤگے اور دوسرے کاموں میں مشغولیت بڑھ جائے گی“۔

(خداوندعالم نے) شب معراج فرمایا:اے احمد! جانتے ھو کہ انسان کب میری عبادت کرسکتا ھے؟

عرض کیا: نھیں، تو خداوندعالم نے فرمایا: جب انسان میں سات صفات پیدا ھوجائیں: ایسا تقویٰ جو اسے گناھوں سے دور رکھے، غیر مفید باتوں پر سکوت اختیار کرنا، ایسا خوف جس سے ھر روز اس کے رونے میں اضافہ ھو، خلوت میں مجھ سے حیا کرنے سے پرھیز کرے، وہ کھانا کھائے جس کے بغیر زندہ نھیں رہ سکتا، دنیا سے میری دشمنی کی خاطر دشمنی رکھے، نیک افراد سے میری دوستی کی بنا پر دوستی کرے۔[21]

منقول ھے کہ خداوندعالم نے بعض آسمانی کتابوں میں فرمایا:

اے اولاد آدم! میں وہ زندہ ھوں جس کے لئے موت نھیں ھے، میرے احکامات میں میری اطاعت کرو تاکہ تمھیں بھی ایسی زندگی عطا کردوں جس کے بعد موت نہ ھو۔

اے اولاد آدم! میں جس چیز کو ”کُن“ (ھوجا) کہہ دیتا ھوں وہ فوراً ھوجاتی ھے، تم میری اطاعت و بندگی کرو ، تمھیں بھی ایسا ھی بنادوں گا کہ جب تم کسی چیز کے بارے میں کھو گے تو وہ ھوجائے گی۔[22]

بعض روایات میں درج ذیل حقائق کو بہترین عبادت شمار کیا گیا ھے۔

معرفت خدا اور اس کے سامنے خشوع و خضوع کرنا، خدااور اس کی قدرت میں غور و فکر کرنا، ”لا الہ الا الله“ اور ”لا حول ولا قوة الاّ بالله“کھنا، اخلاص سے کام لینا، عفت نفس، زھد ، غور و فکر کرنا، مومن کے حق کی ادائیگی، سکوت، حج، روزہ، دعا، محرمات سے دوری کرنا، مخفی طور پر بندگی کرنا، خضوع و خشوع، واجبات کی ادائیگی، طلب حلال، نرم لہجہ اختیار کرنا اور اھل بیت علیھم السلام کی محبت و ولایت۔

خدمتِ خَلق

احادیث قدسیہ اور دیگر روایات میں مومنین کو اس قدر اھمیت دی گئی ھے کہ مومن کے احترام کوخدا کا احترام شمار کیا گیا ھے، اور ان کی توھین کو خدا کی توھین قرار دیا گیا ھے۔

حضرت رسول خدا ،جبرئیل کے واسطہ سے خداوندعالم کا قول نقل کرتے ھیں:

مَن اٴھَانَ لِی وَلِیّاً فَقَدْ بارَزَنِی بِالْمُحَارَبَةِ“[23]

”جو شخص میرے مومن بندوں کی اھانت کرے تو اس نے خدا سے جنگ کی تیاری کی ھے“۔

اسی وجہ سے مومنین کی خدمت کو خدا کی عبادت و بندگی کا عنوان دیا گیا؛ کیونکہ مومنین کی خدمت خدا کی خدمت ھے“۔

حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ارشاد ھے:

”مَن قَضی لِاٴخِیہِ المُوٴمِنِ حَاجَةً،کاَنَ کَمَنْ عَبَدَ اللّٰہَ دَھرَہُ“[24]

”جو شخص اپنے برادر مومن کی حاجتوں کو پورا کرے تو گویا اس نے پوری زندگی خدا کی عبادت کی ھے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:

”مَن قَضَی لِاٴخِیہِ المُوٴمِنِ حَاجةً قَضَی اللّٰہُ عَزَّوَ جَلَّ لَہُ یَومَ القِیامَةِ مِائَةَ اٴلفِ حاجَةٍ مِن ذالک اٴوَّلُھا الجَنَّةُ“[25]

”جو شخص کسی بندہ مومن کی ایک حاجت کوپورا کرے تو خداوندعالم روز قیامت اس کی ایک لاکھ ایسی حاجتوں کو پورا کرے گا جن میں سے پھلی بھشت ھے“۔

نیز امام صادق علیہ السلام کا فرمان ھے:

”اِنَّ العبدَ لَیَمشِی فِی حَاجَةِ اٴخِیہِ المُوٴمِنِ فَیُوکِّلُ اللّٰہُ عَزَّوَ جَلَّ بِہِ مَلَکَیْنِ وَاحِدٌ عن یمینِہ وَ آخَرُ عَن شَمالِہِ یَستَغْفِرَانِ لَہُ رَبَّہُ وَ یَدعُوانِ لَہُ بِقضَاءِ حَاجَتِہِ“[26]

”جب کوئی انسان اپنے برادر مومن کی حاجت روائی کے لئے قدم بڑھائے تو خداوند عز و جل دوفرشتوں کواس پر معین کرتا ھے، ایک داھنی طرف دوسرا بائیں طرف، اور وہ دونوں فرشے خداوندعالم سے اس شخص کے لئے طلب مغفرت کرتے ھیں اور اس کی حاجت روائی کے لئے دعا کرتے ھیں“۔

حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ھیں: حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے سوال کیا گیا کہ خدا کے نزدیک کونسا عمل سب سے زیادہ محبوب ھے؟ تو آپ نے فرمایا: ایک مردمسلمان کو خوش کرنا، عرض کیا: مسلمان کو کس طرح خوشحال کیا جائے؟ تو آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: بھوکے کو کھانا کھلانا، اس کے رنج و غم کو دور کرنا اور اس کے قرض کی ادائیگی میں مدد کرنا۔[27]

امام صادق علیہ السلام خداوندعالم کا قول نقل کیا ھے:

”الخَلْقُ عیالی فَاٴحَبُّھُم اَلَیَّ اٴلطَفَھُم بِھِم،وَاٴسعَاھُم فِی حَوَائِجِھِم“[28]

”تمام مرد و زن میرے نان خور ھیں(یعنی میرے دسترخوان پر مھمان ھےں)ان میں سے میرے نزدیک وہ شخص زیادہ محبوب ھے جو زیادہ مھربان ھو، اور ان کی حاجت روائی میں زیادہ کوشش کرتا ھے“۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام خدمت خدا کے لئے اپنے اعضاء و جوارح کی طاقت و قدرت کا سوال کرنے کے بعد اپنے دل کے استحکام اور اس خدمت کے لئے عزم و اراد ہ کے طالب ھیں،اور اس کے خوف و خشیت میں کوشش اور خداوندعالم کی پیھم خدمت کرنے کی اسی سے درخواست کرتے ھیں، تاکہ ھمیشہ اس کی عبادت و خدمت میں مشغول رھیں اورخدا سے درخواست کرتے ھیں کہ سبقت کرنے والوں کے میدان میں تیرے حضور میں آنے کے لئے آگے بڑھتارھوں اور تیری خدمت میں پھنچنے کے لئے جلدی کرنے والوں میںتیزرھوں اور مجھے تیرا قرب حاصل کرنے کا شوق رکھنے والوں کا شوق ھو اور تیری بارگاہ میں خلوص رکھنے والوں کا ساقرب حاصل ھواور تجھ پر یقین رکھنے والوں کا ساخوف مل جائے اور تیری بارگاہ میں مومنین کے ساتھ میں بھی جمع ھوجاؤں۔

یقین

فلیسوف کبیر عارف خبیر صاحب تفسیر” المیزان“ علامہ طباطبائی مرحوم یقین کی تعریف کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

یقین، وہ دانش اور علم ھے جس میں کسی طرح کا شک اور غلطی کا احتمال تک نہ پایا جائے۔[29] (مثلاً انسان ظھر کے وقت یہ یقین رکھتا ھے کہ اس وقت دن ھے، اور رات کے اندھیرے میں یقین رکھتا ھے کہ اب رات ھے اور اپنے اوپر یہ یقین رکھتا ھے کہ وہ ایک زندہ اور صاحب آثار و صفات ھے)

اسی طرح یقین کے تین درجے بیان کئے ھیں: علم الیقین ، عین الیقین اور حق الیقین ۔

ایک مثال کے ذریعہ تینوں کے درمیان فرق واضح ھوجائے گا:

اگرکسی مکان سے دھویں کو دیکھ کر آگ کے بارے میں یقین کرلے تو علم الیقین ھے اور اگر اپنی آنکھوں سے آگ کو دیکھ لے تو عین الیقین ھے اور اگر اس آگ میں چلا جائے تو حق الیقین ھے۔

حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ھیں: اھل یقین کے چھ صفات ھوتے ھیں: خدا پر یقین ھوتا ھے، اور وہ بھی ایسا یقین جو حق الیقینی ھو، لہٰذا اس پر اس یقین کے ساتھ ایمان رکھتے ھیں؛ یقین رکھتے ھیں کہ موت برحق ھے، لہٰذا اس کے آثار سے خوف زدہ رہتے ھیں؛یہ یقین رکھتے ھوں کہ مرنے کے بعد ان کو اٹھایا جانا برحق ھے، لہٰذا وہ قیامت کی ذلت و رسوائی سے ڈرتے ھیں؛ یقین رکھتے ھیں کہ بھشت حق ھے، لہٰذا اس میں جانے کے لئے مشتاق رہتے ھیں؛ یقین رکھتے ھیں دوزخ حق ھے، لہٰذا اس سے نجات کی کوشش کرتے ھیں؛ یقین رکھتے ھیں کہ حساب و کتاب حق ھے، لہٰذا وہ اپنا حساب و کتاب کرتے رہتے ھیں تاکہ اس سخت حساب میں گرفتار نہ ھوں۔[30]

یقین کے ان تینوں درجات کو قرآن و حدیث اھل بیت علیھم السلام کے ذریعہ سے معلوم کیا جاسکتا ھے، اگر کوئی یقین کے ان دونوں مرکز (قرآن و اھل بیت علیھم السلام) سے یقین کی منزل تک نہ پھنچے تو وہ پھر کسی بھی چیز کے ذریعہ یقین کی منزل تک نھیں پھنچ سکتا۔

قرآن کریم کے ذریعہ یقین حاصل کرنے کا طریقہ یہ ھے کہ: پھلے قرآنی آیات پر غور وفکر کرکے اس کی حقانیت اور اس کے وحی ھونے کا یقین کریں، اور اس حقیقت کی طرف توجہ کریں کہ قرآن فرماتا ھے: ”اگر اس کتاب (قرآن) کے بارے میں شک ھو تو ایک(ھی) سورہ اس کے مثل لے آؤ“۔[31]

دوسری آیت میں ارشاد ھوتا ھے: (اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تمام جن و انس مل کر اس قرآن کی مثل لاناچاھو تو نھیں لاسکتے، اگرچہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں“۔[32]

ان دونوں آیات کے پیش نظر انسان کو یقین حاصل ھوجاتا ھے کہ یہ کتاب (قرآن) خدا کی طرف سے بھیجی ھوئی ھے، اس کے بعد انسان پورے قرآن پر یقین حاصل کرلے گا اور اس میں موجود تمام باتو ںکا یقین حاصل کرلے گا، اسی طرح اھل بیت علیھم السلام کی تعلیمات جو قرآن کی توضیح اور تفسیر ھے؛ پر یقین حاصل ھوجائے گا، اور آخر کار انسان اھل یقین کے دائرہ میں شامل ھوجائے گا۔

”اٴَللّٰھُمَّ وَمَنْ اٴَرٰادَنِي بِسُوءٍ فَاٴَرِدْہُ وَمَنْ کٰادَنِيفَکِدْہُ،

وَاجْعَلْنِيمِنْ اٴَحْسَنِ عَبیدِکَ نَصِیباً عِنْدَکَ،وَاٴَقْرَبِھِمْ

مَنْزِلَةً مِنْکَ،وَاٴَخَصِّھِمْ زُلْفَةً لَدَیْکَ،فَاِٴنَّہُ لاٰیُنٰالُ

ذٰلِکَ اِٴلاّٰبِفَضْلِکَ،وَجُدْلِي بِجُودِکَ،وَاعْطِفْ عَلَيَّ

بِمَجْدِکَ،وَاحْفَظْنِي بِرَحْمَتِک“۔

”خدایا جو بھی کوئی میرے لئے برائی چاھے یا میرے ساتھ کوئی چال چلے تو اسے ویساھی بدلہ دینا اور مجھے بہترین حصہ پانے والا ،قریب ترین منزلت رکھنے والا اور مخصوص ترین قربت کا حامل بندہ قرار دینا کہ یہ کا م تیرے جود وکرم کے بغیر نھیں ھو سکتا،خدایا میرے اوپرکرم فرما۔اپنی بزرگی سے، رحمت نازل فرما اپنی رحمت سے میرا تحفظ فرما“۔

وہ دشمن جو انسانیت کے پیچھے پڑے ھوئے ھیںوہ شیطان، ھوائے نفس اور پست و ذلیل ھم نشین ھےں یھی انسان کے ساتھ مکر و فریب کرتے ھیں۔ ان لوگوں کی دشمنی، اغوا کرنا، وسوسہ ڈالنا اور ان کا مکر وفریب اس حد تک خطرناک ھے کہ حضرت علی علیہ السلام ان دشمنوں کو شکست دینے کے لئے خداوندعالم سے مدد طلب کرتے ھیں۔

گزشتہ صفحات میں شیطان، ھوائے نفس اور پست و ذلیل ھم صحبت کے بارے میں تفصیل بیان ھوچکی ھے۔

اگر انسان خداوندعالم سے زیادہ بھرہ مند ھونے اور اس کے قرب کے سب سے اعلیٰ درجہ پر فائز ھونے نیز اس کی بارگاہ میں مقرب ترین فرد قرار پانا چاھے تو اس کے لئے واجب اور ضروری ھے کہ یقین و اخلاص کے ساتھ ایمان رکھے، قابل قبول اعمال، نیک کردار اور تقویٰ الٰھی؛(جس کے ذریعہ انسان گناھوں سے محفوظ رہتا ھے)؛ اختیار کرے ، کیا خداوندعالم نے قرآن مجید میں ارشاد نھیں فرمایا:

”۔۔۔ إِنَّ اٴَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللهِ اٴَتْقَاکُمْ۔۔۔“[33]

”۔۔۔بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وھی ھے جو زیادہ پرھیزگار ھے۔۔۔“۔

تقویٰ الٰھی جو انسان کی دنیا و آخرت میں سعادت و خوش بختی کا ضامن ھے؛ اس کے تین مرحلہ ذکر کئے گئے ھیں: عام تقویٰ،خاصتقویٰ، اخص تقویٰ۔

عام تقویٰ: یعنی واجبات کو انجام دینا اور حرام چیزوں سے پرھیز کرنا۔

خاص تقویٰ: یعنی مکروھات بلکہ مباح چیزوں (ضرورت کے علاوہ) سے پرھیز کرنا۔

اخص تقویٰ: یعنی ھر اس چیز سے پرھیز کرنا جو یاد خدا میں رکاوٹ بنے۔

خواجہ نظام الملک اور باتقویٰ شخصیت

کتب تواریخ میں خواجہ کی سوانح عمری میں درج ھے کہ: ایک روز خواجہ کی ملاقات ایک باتقویٰ اور پرھیزگار شخص سے ھوتی ھے، اس سے کھا: مجھ سے کوئی چیز طلب کرو تو میں تمھیں عطا کروں؛ کیونکہ میں غنی اور صاحب مال ھوں، یہ سن کر اس متقی شخص نے کھا: میں خدا کے علاوہ کسی اور سے کچھ نھیں مانگتا، غیر خدا سے کوئی سوال کرنا تو واقعاً کم ظرفی ھے۔

خلاف طریقت بود کاولیا تمناکنند از خدا جز خدا

جب میں خدا سے اس کے علاوہ کچھ طلب نھیں کرتا تو آپ سے کیسے کچھ طلب کرسکتا ھوں؟

اس وقت خواجہ نے اس سے کھا: اگر تم مجھ سے کوئی چیز طلب نھیں کرسکتے تو میں آپ سے کوئی چیز طلب کروں، اس متقی شخصیت نے کھا: تمھاری کیا حاجت ھے؟ تو خواجہ نے کھا: جس وقت تم یاد خدا میں ھو اس وقت مجھے بھی یاد کرلینا، یہ سن کر اس متقی شخص نے کھا: جب میں یاد خدا میں ھوتا ھوں تو اپنے آپ کوبھول جاتا ھوں ، تو بھلا تجھے کیسے یاد کرسکتا ھوں؟!![34]

اے صاحب عزت و شرافت! اے مالک عظمت و کرامت! اے تمام صفات کمال کے مالک! ان تمام صفات کا ملازمہ یہ ھے کہ تو محبت و مھربانی کرے، اور اس محبت کا تقاضا یہ ھے کہ اپنے بندوں پر بخشش و عطا کے دروازے کھول دے، لہٰذا اے میرے معبود! میرے اوپر اپنی نظر لطف فرما، اگر اپنے لطف و کرم کی نظر مجھ پر فرمائے گا تو اپنی محبت و مھربانی سے دریغ نھیں کرے گا، اور آخر کار یہ تیرے نادار بھکاری تیری عطا و بخشش سے بے نیاز ھوجائے گا: ”وَاعْطِفْ عَلَیَّ بِمَجْدِکَ“۔

احمد خضرویہ اور ایک چور

خدا کے خاص بندے جو خدا کے اخلاق و اطوار سے مزین ھوتے ھیں وہ اسی اخلاق سے دوسرے کے ساتھ پیش آتے ھیں، درحقیقت ان کی رفتار و گفتار اخلاق الٰھی کا ایک جلوہ ھوتی ھے۔

منقول ھے کہ احمد خضرویہ کے گھر میں ایک چور آگیا، لیکن اس کو لے جانے کے لئے کوئی خاص چیز نظر نہ آئی، جب وہ خالی ھاتھ واپس جانے لگا توشیخ احمد صاحب کی بزرگواری اور محبت نے گوارا نہ کیا کہ وہ خالی ھاتھ ان کے گھر سے واپس جائے، اسے آواز دی اور کھا: اے چور! مجھے یہ گوارہ نھیں ھے کہ تو میرے یھاں سے خالی ھاتھ واپس لوٹے!! کنویں سے پانی نکالو، غسل توبہ کرو اور وضو کرکے نماز، توبہ اور استغفار کرو، شاید خداوندعالم کوئی انتظام کردے تاکہ تم خالی ھاتھ نہ جاؤ، (چنانچہ اس چور نے ایسا ھی کیا) اور جب صبح نمودار ھوئی توکوئی بزرگوار سو اشرفی شیخ کو ھدیہ دے گیا، شیخ نے وہ سو اشرفی اس چور کو دی اور کھا: یہ تمھاری ایک شب کی خالصانہ عبادت و توبہ کا ظاھری ثواب ھے۔ یہ دیکھ چور کی حالت بدل گئی، اور اپنے تمام گناھوں سے توبہ کی اور خدا کا نیک بندہ بن گیا۔

”وَاجْعَلْ لِسٰانِي بِذِکْرِکَ لَھِجاً،وَقَلْبِي بِحُبِّکَ مُتَیَّماً،

وَمُنَّ عَلَيَّ بِحُسْنِ اِٴجٰابَتِکَ،وَاٴَقِلْنِي عَثْرَتِي، وَاغْفِرْ زَلَّتِي،

فَاِٴنَّکَ قَضَیْتَ عَلٰی عِبٰادِکَ بِعِبٰادَتِکَ،وَاٴَمَرْتَھُمْ بِدُعٰائِکَ،

وَضَمِنْتَ لَھُمُ الْاِٴجٰابَةَ، فَاِٴلَیْکَ یٰارَبِّ نَصَبْتُ وَجْھِي،

وَاِٴلَیْکَ یٰارَبِّ مَدَدْتُ یَدِي،فَبِعِزَّتِکَ اسْتَجِبْ لِيدُعٰائِي،

وَبَلِّغْنِي مُنٰايَ، وَلاٰتَقْطَعْ مِنْ فَضْلِکَ رَجٰائِي،وَاکْفِنِي

شَرَّ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ مِنْ اٴَعْدٰائِي“۔

”اورمیری زبا ن کو اپنے ذکر سے گویا فرما۔میرے دل کو اپنی محبت کا عاشق

بنادے اور مجھ پر بہترین قبولیت کے ساتھ احسان فرما۔میری لغزشوں سے در گذرفرما۔تونے اپنے بندوں پر عبادت فرض کی ھے۔ انھیں دعا کا حکم دیا ھے اوران سے قبولیت کا وعدہ فرمایا ھے،اب میں تیری طرف رخ کئے ھوئے ھوں اور تیری بارگاہ میں ھاتھ پھیلائے ھوں ۔تیری عزت کا واسطہ میری دعا قبول فرما، مجھے میری مراد تک پھنچادے۔ اپنے فضل وکرم سے میری امیدوں کو منقطع نہ فرمانا۔ مجھے تمام دشمنان جن وانس کے شر سے محفوظ فرمانا“۔

زبان

خداوندعالم کی عظیم نعمتوں میں سے زبان بھی ایک عظیم نعمت ھے؛ اور اگر زبان وہ ھو جس کے ذریعہ حق بات کھی جائے اور اپنے مافی الضمیر کو ادا کرے اور(الٰھی) اھداف و مقاصد کو دوسروں تک پھنچائے۔

جس طرح زبان کے نیکیاں اور حسنات ھوسکتے ھیں اسی طرح زبان کے ذریعہ برائیاں اور بدی بھی بہت زیادہ ھیں، یھاں تک کہ اس سلسلہ میں علماء کہتے ھیں:

”اللسان جِرمةٌ صغیرةٌ و جُرمُہُ عظیمٌ“ (زبان اگرچہ چھوٹی ھوتی ھے لیکن اس کے گناہ بڑے بڑے ھوتے ھیں۔)

زبان کے سلسلہ میں محدث بزگوار صاحب فلسفہ و حکمت اور عاشق عارف ملا محسن فیض کاشانیاپنی کتاب ”محجة البیضا“ میں فرماتے ھیں: زبان کے ذریعہ تقریباً بیس گناہ کبیرہ ھوتے ھیں: جیسے غیبت، تھمت، سخن چینی،چغلی ، دوسروں کا مسخرہ کرنا، افواھیں پھیلانا، جھوٹ، لوگوں کو ذلیل کرنا وغیرہ وغیرہ۔[35]

قرآن مجید نے بھی زبان کھولنے کے لئے صرف دس چیزوں کی اجازت دی ھے۔ اگر انسان کی زبان انھیں دس باتوں کے لئے کھلتی ھے تو گویا وہ خدا کی عبادت کرتی ھے اور اگر ان دس باتوں کے علاوہ کسی اور چیز کے لئے کھلتی ھے تو وہ گناھوں سے آلودہ ھے، در حقیقت شیطان کی بندگی کرتی ھے، اور وہ دس باتیں درج ذیل ھیں:۔

۱۔ قول حسن۔

۲۔ قول احسن۔

۳۔ قول عدل۔

4-قول صدق۔

۵۔ قول کریم۔

۶۔ قول نرم۔

۷۔ قول محکم۔

۸۔قول سدید ۔[36]

۹۔ قول معروف۔

۱۰۔ قول بلیغ۔

قول حسن، عوام الناس کے ساتھ خوش زبانی ھے

قول احسن، لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دینا ھے۔[37]

قول عدل، خدا ئی عدالت میں شھادت اور گواھی دینا ھے۔[38]

قول صدق، سچی بات کھنا اور معاشرہ کے گذرے ھوئے اور موجود مومنین ذکر خیر کرنا۔[39]

قول کریم، ماں باپ سے گفتگو کرنا۔[40]

قول لیّن، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے وقت گفتگو کرنا۔[41]

قول ایمان، خدا کی وحدانیت اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی رسالت کا اقرار ھے۔[42]

قول سدید، ھر شرائط اور ھر حالات میں حق بات کھنا ھے۔[43]

قول معروف، یتیموں اور بیواؤں کے ساتھ گفتگو کرناھے۔[44]

قول بلیغ، موثر اور واضح گفتگو کرنا ھےجو موعظہ، حکمت اور برھان کے ساتھ ھو۔[45]

انسان ان دس طرح کی باتوں کے ذریعہ ایسی تجارت میں مشغول رھے کہ جس کا فائدہ صرف خداوندعالم ھی جانتا ھے۔ انھیں دس باتوں کی شرح کرنے کے لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ھے۔ ھم یھاں پر صرف قول احسن کی طرف اشارہ کرتے ھیں جس کے ذریعہ لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دی جاتی ھے، اور باقی باتوں کی تفصیل الگ کتاب کے لئے چھوڑے دیتے ھےں۔

جب رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت علی علیہ السلام کو یمن کے لوگوں کی ھدایت کے لئے بھیجا تو ان سے فرمایا:

یا علی! کسی سے بھی اس وقت تک جنگ نہ کرو جب تک اس کو حق کی دعوت نہ دیدو۔

”وَاٴیْمُ اللّٰہِ لاٴنْ یَھْدِیَ اللّٰہُ عَلَی یَدَیْکَ رَجُلاً خَیرٌ لَکَ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمسُ وَ غَرَبَتْ۔۔۔“[46]

”خدا کی قسم! اگر خدا نے تمھارے ذریعہ کسی ایک انسان کی ھدایت فرمادی تو یہ آپ کے لئے زمین و آسمان کی تمام چیزوں سے بہتر ھے“۔

زبان کے ذریعہ نماز پڑھی جاتی ھے تو یہ ذکر خدا ھے، قرآن زبان کے ذریعہ پڑھا جاتا ھے تو یہ بھی ذکر خدا ھے، اھل بیت علیھم السلام سے ماثور دعائیں اور مخصوص زمان و مکان میں پڑھی جاتی ھیں وہ بھی ذکر خدا ھیں، مذکورہ بالا دس طرح کی باتیں کرنا وہ بھی ذکر خدا ھیں، اور ان سب سے بہتر و بالاتر اور بہت زیادہ ثواب رکھنے والی چیز کسی گمراہ کی دین خدا کی طرف ھدایت کرناھے۔

بدکار عو رت کی بخشش

ثقة الاسلام شیخ کلینی اپنی کتاب ”روضہٴ کافی“ جو اس عظیم کتاب کا آخری حصہ ھے، حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ھیں: ایک عابد و زاھد بہت زیادہ عبادت کرتا تھا جس سے شیطان کی کمر ٹوٹ چکی تھی، ایک روز اپنے لشکر کو ساتھ لایا اور ان سے کھا: تم میں کون ایسا ھے جو اس شخص کو عابد سے منحرف کردے؟ کسی نے کچھ بتایا کسی نے کچھ، لیکن شیطان کو ان کا حربہ پسند نہ آیا،آخر کار ایک نے کھا: میں اس کو نمازی کے لباس میں جاکر گمراہ کرتا ھوں، شیطان نے اس کی بات کوپسند کیا اور اس کو بہکانے کے لئے بھیج دیا!!

شیطان کا وہ کارندہ اس عابد کی عبادتگاہ میں آیا اور بڑے زور و شور سے عبادت کرنے لگا، یھاں تک کہ اس عابد کو سوال کرنے تک کی فرصت نہ دی تاکہ وہ اس طرح کی عبادت کا راز پوچھے، عابد انتظار کرتا رھا تاکہ کوئی فرصت ملے اور اس سے اس انداز کی عبادت کا حال دریافت کرے، موقع غنیمت جان کر اس نے سوال کرھی دیا ، تو اس نے جواب دیا: میں نے گناہ کئے اور پشیمان ھوگیا، گناھوں سے پشیمانی نے مجھے عبادت سے اس قدر لگاؤ پیدا کردیا ھے کہ میں کبھی بھی عبادت سے تھکتا نھیں ھے، اور نہ ھی میری امنگ ختم ھوتی!!

اس عابد نے اس بات پر غور کئے بغیر کہ اگر وہ گناہ کرتے وقت ھی مرجائے تو کیا ھوگا؟ اس سے راھنمائی کی درخواست کی۔ شیطان کے اس کارندے نے اس سے کھا کہ اس شھر کی فلاں عورت بدکاری میں بہت زیادہ مشھور ھے، اس کے پاس جاؤ، چنانچہ وہ عابد اس عورت کی طرف روانہ ھوگئے، اس عورت نے جیسے ھی اس نورانی شخص کو اس محلہ میں دیکھا تو بہت تعجب کیا ، اور سوچا کہ اس سیدھے سادے عابد کو کسی نے دھوکہ دیا ھے، چنانچہ اس سے کھا: اے عابد! انسان کبھی بھی گناہ کے ذریعہ ، مقام عبادت اور مقام قرب خدا تک نھیں پھنچ سکتا، جس شخص نے بھی تمھیں اس کام کی راھنمائی کی ھے، اس کا مقصد تمھیں گمراہ کرنا تھا، گناہ ؛تنزل اور سقوط کا باعث ھے ، ترقی اور صعود کا باعث نھیں ھے، جاؤ اپنی عبادت گاہ میں جاؤ اس کام کے شوق دلانے والے کو نھیں پاؤگے،جاؤ اگر اس کو وھاںنہ پایا،تو یقین کرلینا کہ وہ شیطان تھا۔

چنانچہ وہ عابد خواب غفلت سے چونکا اور واپس پلٹا، جیسے ھی وھاں پھونچا تو اس شیطان کو نہ پایا۔ بہت خوش ھوئے کہ اس عورت نے اس کو گناہ سے بچالیا، اتفاق سے اسی رات اس عورت کا انتقال ھوگیا۔ خداوندعالم نے اس زمانہ کے پیغمبر کو حکم دیا کہ لوگوں کے ساتھ اس عورت کے جنازہ میں شریک ھو کیونکہ میں نے اپنے ایک بندہ کی ھدایت کی خاطر اس عورت کے تمام گناہ بخش دئے ھیں، اور اس کو معاف کردیا ھے، اور اس کو اپنی رحمت و بخشش میں داخل کرلیا ھے۔

استجابت دعا کی ضمانت

اگرچہ قرآن مجید نے فرمایا ھے:

” وَإِذَا سَاٴَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ اٴُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِی“[47]

”اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کرےں تو میں ان سے قریب ھوں پکارنے والے کی آواز سنتا ھوں جب بھی پکارتا ھے“۔

اسی طرح ایک دوسری جگہ فرمایا ھے:

”۔۔۔ادْعُونِی اٴَسْتَجِبْ لَکُمْ۔۔۔۔“[48]

”۔۔۔مجھ سے دعائیں کرو میں قبول کرو ں گا۔۔۔“۔

لیکن اس حقیقت پر بھی توجہ کرنا ضروری ھے کہ استجابت دعا کی ضمانت ھر دعا کے لئے نھیں ھے، بلکہ اس دعا کے لئے ھے جس دعا کا کرنے والے اور خود دعا میں تمام شرائط پائے جائیں، جن کا تذکرہ قرآن وحدیث میں ملتا ھے۔

ممکن ھے کوئی شخص گریہ و زاری کے ساتھ خدا سے یہ دعا کرے کہ ساری دنیا کا مال و دولت مجھے مل جائے،اور قیامت تک کے لئے میری عمر میں اضافہ ھوجائے، اور میری شکل و صورت کو جناب یوسف(ع) سے بھی خوبصورت قرار دیدے، میری آواز لحن داؤد سے بھی بہتر بنادے، میری شجاعت حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے بھی زیادہ کردے، اور مجھے پوری دنیا کی حکومت مل جائے، اور تمام لوگوں کو میرے حوالے کردے، تاکہ میں ان کے لئے خیر و شر کی درخواست کو قبول کروں!!

اس طرح کی دعاؤں میں دعا کرنے والے اور خود دعا کے ضروری شرائط نھیں پائے جاتے، توخداوندعالم کی طرف ایسی دعا کے مستجاب ھونے کی کوئی ضمانت نھیں ھے۔

عرفاء ، زاھدین و عابدین اور صاحب کمال جن میں دعا کے ضروری شرائط پائے جاتے ھیں اور ان کی دعائیں بھی دنیا و آخرت کی مصلحتوں کی بنا پر ھوتی ھے۔ اگر دعا کرنے والے کی دعااس دنیا میں قبول ھوجاتی ھے تو خدا کا شکر ادا کرتے ھیں اور اگر ان کی دعا اس دنیا میں قبول نہ ھو تو ان کو ذرا بھی ملال نھیں ھوتا بلکہ صبر و ضبط سے کام لیتے ھیں، اور منتظر رہتے ھیں کہ قبول ھونے کا وقت پھنچ جائے (تاکہ اس موقع پر وہ دعا قبول ھوجائے)۔

روایات میں منقول ھے: دعا انبیاء(ع)اور مومنین کا اسلحہ ھے۔دعا کے ذریعہ یقینی موت بھی ٹل جاتی ھے، اور دعامقدر کو پلٹادیتی ھے ، دعا کے ذریعہ انسان کی بلائیں دور ھوجاتی ھےں اور ھر درد و مصیبت سے شفا مل جاتی ھے۔

اھل بیت علیھم السلام کی احادیث میں دعا اور دعا کرنے والے کی شرائط اس طرح بیان کئے گئے ھیں:

دعا میں اخلاص، اور اس چیز کی معرفت رکھنا کہ تمام چیزیں اس کے قبضہ قدرت میں ھیں، اپنے واجبات پر عمل کرنا، اپنے دل کو پاک و صاف رکھنا، سچی زبان، حلال روزی کھانا، حقوق الناس کی ادائیگی، حضور قلب، رقت قلب، دعا کے شروع میں ”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“پڑھنا،محمد و آل محمد پر صلوات بھیجنا، گناھوں کا اقرار کرنا، رونا گڑگڑانا، زمین پر پیشانی رکھنا، دورکعت نماز پڑھنا، دعا قبول ھونے پر یقین رکھنا، دوسروں کے لئے اپنے سے پھلے دعا کرنا، نامناسب دعاؤں سے پرھیز کرنا، مجموعی طور پر دعا کرنا،خلوت میں دعا کرنا اور دعا کے مستجاب ھونے کی امید رکھنا۔

جس وقت دعا کرنے والے میں دعا کرنے کے شرائط جمع ھوجائیں اور دعا کے شرائط کی بھی رعایت کی جائے تو یقینا ایسی دعا ضرور قبول ھوگی۔

تین گرفتاروں کی دعا

”جابر جعفی“ حضرت امام محمد باقر اور حضرت امام صادق علیھما السلام کے زمانہ کے معتبر روایوں میں سے تھے حضرت رسول اکرمسے روایت کرتے ھیں: تین مسافر سفر کرتے ھوئے ایک پھاڑ کی غار میں پھنچے، وھاں پر عبادت میں مشغول ھوگئے ، اچانک ایک پتھر اوپر سے لڑھکا ایسا معلوم ھوتا تھا جیسے وہ دروازہ بند کرنے کے لئے بنایا گیا اور اس نے دروازہ بند کردیا، ان کے نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہ دیا!

چنانچہ وہ لوگ ایک دوسرے سے کھنے لگے: خدا کی قسم یھاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نھیں ھے، مگر یہ کہ خدا ھی کوئی لطف و کرم کرے ، کوئی نیک کام کریں خلوص کے ساتھ دعا کریں اور اپنے گناھوں سے توبہ کریں۔

ان میں سے پھلا شخص کہتا ھے: پالنے والے! تو(تو جانتا ھے)کہ میں ایک خوبصورت عورت کا عاشق ھوگیا بہت زیادہ مال و دولت اس کو دیا تاکہ وہ میرے ساتھ آئے، لیکن جونھی اس کے پاس گیا، دوزخ کی یاد آگئی جس کے نتیجہ میں اس سے الگ ھوگیا؛ پالنے والے ! اسی عمل کا واسطہ ھم سے یہ مصیبت دور فرما اور ھمارے لئے نجات کا سامان فراھم کردے ، دیکھا تو وہ پتھر توڑا سا کھسک گیا۔

دوسرے نے کھا: پالنے والے! تو جانتا ھے کہ ایک روز میں زرعی کام کے لئے کچھ مزدور لایا، آدھا درھم ان کی مزدوری معین کی، غروب کے وقت ان میں سے ایک نے کھا: میں نے دو مزدورں کے برابر کام کیا ھے لہٰذا مجھے ایک درھم دیجئے، میں نے نھیں دیا، وہ مجھ سے ناراض ھوکر چلا گیا، میں نے اس آدھے درھم کا زمین میں بیج ڈالدیا، اور اس سال بہت برکت ھوئی۔ ایک روز وہ مزدور آیا اور اس نے اپنی مزدوری کا مطالبہ کیا، تو میں نے اس کو اٹھارہ ہزار درھم دئے جو میں زراعت سے حاصل کئے تھے، اور چند سال تک اس کو رکھے رکھا تھا، اور یہ کام میں نے تیری رضا کے لئے انجام دیا تھا، تجھے اسی کام کا واسطہ ھم کو نجات دیدے۔ چنانچہ وہ پتھر تھوڑا اور کھسک گیا۔

تیسرے نے کھا: پالنے والے! (تو جانتا ھے) ایک روز میرے ماں باپ سورھے تھے میں ان کے لئے کسی ظرف میں دودھ لے کر گیا، میں نے سوچا کہ اگر وہ دودھ کا ظرف اگر زمین پر رکھ دوں تو کھیں اٹھ نہ جائے، اور میں نے ان کو خود نھیں اٹھایا بلکہ وہ دودھ کا ظرف لئے کھڑارھا تاکہ وہ خود بیدار ھوں۔ تو تو جانتا ھے کہ میں نے وہ کام وہ زحمت صرف تیرے لئے اٹھائی تھی، پالنے والے ھمیں اسی کام کے صدقہ میں اس سے نجات دیدے۔ چنانچہ اس شخص کی دعا سے پتھر او رکھسکا اور یہ تینوں اس غار سے باھر نکل آئے۔[49]

ایک گمنام غلامِ سیاہ کی دعا

منقول ھے کہ بنی اسرائیل کے زمانہ میں سات سال تک قحط پڑا، ستر ہزار لوگ دعا کی بارش کے لئے جنگل میںآئے تاکہ ان کی برکت سے باران رحمت نازل ھوجائے۔ آواز قدرت آئی:

اے موسیٰ! ان سے کہہ دو کہ میں تمھاری دعا کیسے قبول کرلوں در حالیکہ تم لوگ گناھوں میں غرق ھو، اور تمھارے باطن میں خباثت بھری ھوئی ھے۔ مجھے پکاررھے ھیں حالانکہ مجھ پر یقین نھیں رکھتے، اور میرے انتقام سے خوف امن میں نھیں ھیں۔ میرے بندوں میں سے ایک بندہ کو بلاؤ جس کا نام ”بُرخ“ ھے،تاکہ وہ دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں۔

جناب موسیٰ علیہ السلام ”بُرخ“ کی تلاش میں نکلے، لیکن وہ نہ مل سکا، یھاں تک کہ ایک روز راستہ سے چلے جارھے تھے، ایک سیاہ فام غلام کو دیکھا جس کی پیشانی پر سجدوں کے نشانات تھے اور اپنی گردن میں کوئی چیز ڈالے ھوئے ھے، جناب موسیٰ علیہ السلام نے احساس کیا کہ یھی وہ ”بُرخ“ ھے، آگے بڑھے اس کو سلام کیا اور اس سے نام معلوم کیا۔ اس نے کھا: میرا نام ”بُرخ“ ھے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام نے کھا:

ایک مدت سے تمھاری تلاش کررھا ھوں، آؤ اور ھمارے لئے باران رحمت کی دعا کرو۔

چنانچہ ”بُرخ“ ایک بیابان کی طرف نکلے اور خدا سے یوں مناجات کرنے لگے:

پالنے والے! اپنے بندوں پربارش کا بند کردینا تیرے کاموں میں سے نھیں، تیری بارگاہ میں بخل کا بھی کوئی وجود نھیں ھے، کیا تیرا لطف و کرم ناقص ھوگیا ھے یا تیری ھوا نے اطاعت سے مخالفت کی ھے یا تیرے خزانے ختم ھوگئے ھیں، یا گناھگاروں پر تیرے خشم میں جوش آگیا ھے، کیا تو خطاکاروں کی خلقت سے پھلے غفّار اور بخشنے والا نھیں تھا؟! چنانچہ سب نے دیکھا کہ وہ اسی طرح مناجات کرتا رھا یھاں تک کہ بارش ھونے لگی اور ایسی بارش ھوئی کہ بنی اسرائیل سیراب ھوگئے۔[50]

امام سجاد علیہ ا لسلام کے غلام کی دعا

سعید بن مسیب مدینہ منورہ کے بزرگ فقھاء میں سے تھے اور حضرت امام سجاد اور حضرت امام موسیٰ کاظم علیھما السلام نے آپ کی تعریف فرمائی ھے ۔

عبد الملک مروان نے مدینہ میں اپنا ایک ایلچی بھیجا تاکہ سعید کی لڑکی سے جو حسن و جمال اور صورت و سیرت میں بہت نیک تھی؛رشتہ طلب کرے، سعید نے مدینہ کے گورنر سے کھا میں ھر گز اپنی لڑکی کی شادی ملک کے بادشاہ وقت سے نھیں کروں گا!!۔

ایک روز انھوں نے اپنے شاگروں میں سے کسی اےک سے کھا: کئی روز سے آپ درس میںنھیں آرھے ھیں؟ تو اس نے کھا: میری بیوی کا انتقال ھوگیا ھے، جس کی بنا پر درس میں شرکت نھیں کرپایا ھوں۔ سعید نے کھا: ایک دوسری شادی کرلو۔ تو اس نے کھا: میرے پاس مال دنیا میں سے دو درھم سے زیادہ نھیں ھے۔ انھوں نے کھا: کیا میری لڑکی سے شادی کرو گے؟ اس نے کھا: جیسا آپ حکم کریں۔ چنانچہ استاد نے اس کا نکاح اپنی لڑکی سے کردیا۔

سعید چالیس سال سے کسی کے دروازے پر نھیں گئے تھے، شاگرد کہتا ھے: ایک روز شام کا وقت تھا، دق الباب ھوا ، میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا استاد ھیں، اور اپنے ساتھ اس لڑکی کو لے کر آئیں ھیں ، لڑکی کو میرے حوالے کیا اور واپس چلے گئے۔ میں نے اس لڑکی سے سوال کیا: تو اس نے بتایا میں ”حافظ قرآن“ ھوں، اس نے مھرکے بارے میں سوال کیا: تو اس لڑکی نے کھا:

”جِھادُ المَراٴَةِ حُسْنُ التَّبَعُّلِ“[51]

”عورت کا جھاد بہتر شوھر داری ھے“۔

جناب سعید تقویٰ و پرھیزگاری اور فضل و کرم کی اس عظیم منزل پر فائز تھے، کہتے ھیں: ایک سال مدینہ میں قحط پڑگیا اور بارشیں کم ھونے لگیں، لوگوں نے نماز و دعا پڑھنا شروع کی، میں بھی ان کے ساتھ گیالیکن اس مجمع میں کسی کی دعا قبول نہ ھوئی، ایک غلام کو دیکھا کہ ایک بلند مقام پر عبادت کررھا ھے اور اپنا سر سجدے میں رکھے ھوئے دعا کررھا ھے اس کی دعا قبول ھوئی اور بہت زیادہ بارش ھونے لگی۔ میں اس کے پیچھے چل دیا دیکھا تو وہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے گھر میں داخل ھوا، میں بھی امام کی خدمت میں حاضر ھوا، اور آپ سے اس غلام کو طلب کیا، امام علیہ السلام نے فرمایا: سب غلام جمع ھوجائیں، جب سب جمع ھوگئے تو میں نے اس سیاہ فام غلام کونھیں دیکھا، میں نے کھا: جس کو میں چاہتا ھوں وہ ان میں موجود نھیں ھے، اس وقت کھا گیا: صرف اصطبل والا غلام نھیں آیا ھے، امام علیہ السلام نے فرمایا: اس کو بھی بلایا جائے، جب وہ آیا تو وھی تھا جس کو میںچاہتا تھا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: اے غلام! میں نے تجھے سعید کو بخش دیا۔ یہ سن کر غلام بہت زیادہ رونے لگا، اور کھا: اے سعید! مجھے امام زین العابدین سے جدا نہ کر۔ جب میں نے دیکھا کہ وہ بہت زیادہ رورھا ھے ، میں نے اپنا ارادہ ترک کردیا، اور امام کے مکان سے واپس آگیا، میرے آنے کے بعد جب اس کا راز فاش ھوگیا تو اس نے اپنا سر سجدے میں رکھا، اور خدا سے ملاقات کی آرزو کی، اسی وقت اس کی دعا پوری ھوگئی ، امام علیہ السلام نے مجھ سے کھلوایا کہ اس کی تشیع جنازہ میں شرکت کے لئے آجاؤ۔

دعائے امام حسین علیہ السلام

”مناقب“ ابن شھر آشوب عظیم الشان کتاب ”تہذیب شیخ طوسی“سے روایت نقل کرتے ھیں:

ایک عورت خانہ کعبہ کا طواف کرنے میں مشغول تھی، ایک مرد بھی اسی ردیف میں طواف کررھا تھا۔ اس مرد نے بری نیت سے اس عورت کی طرف ھاتھ بڑھایا؛اس کا ھاتھ عورت کے جسم پر چپک گیا، دونوں کا طواف قطع ھوا، وھاں مامور خادموں نے ان دونوں کو امیر مکہ کے پاس پھنچادیا،یہ دیکھ کر اس نے اس عجیب و غریب واقعہ کو دیکھ کر علماء کو فتوے کے لئے بلایا۔ چنانچہ سب نے کھا کہ اس مرد نے خانہ کعبہ کے نزدیک بہت بڑی خیانت کی ھے لہٰذا اس کا ھاتھ کاٹ دیا جائے، ان میں سے ایک شخص نے کھا: اس کا ھاتھ کاٹنے سے پھلے امام حسین(ع) کا نظریہ بھی معلوم کرلیں۔ جس وقت امام حسین علیہ السلام کو خبر ملی آپ خانہ کعبہ کی طرف تشریف لائے۔ اپنے ھاتھوں کو اٹھایا اور بارگاہ رب العزت میں گریہ و زاری کی او ردعا کی اس مرد کا ھاتھ اس عورت سے الگ ھوجائے، (اور آپ کی دعا کی وجہ سے اس مرد کا ھاتھ الگ ھوگیا) لوگوں نے کھا: اس پر جرمانہ کیا جائے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: جب خداوندعالم نے اس کو بخش دیا تو تم کیا چاہتے ھو؟[52]

آدھی رات میں ایک زندانی کی دعا

”عبد اللہ بن طاھر“ کی حکومت کے زمانہ میں راستوں اور سڑکوں پر نا امنی پھیل گئی اور لوگوں کا گزرنا مشکل ھوگیا۔ امیر عبد اللہ نے بعض لوگوں کو سڑکوںپر تعینات کیا تاکہ راستہ چلنے والوں کو کوئی پریشانی نہ ھو۔ ایک راستہ سے دس چوری کی واردات میں ملوث لوگوںکو پکڑ کر دار الحکومت کی طرف بھیج دیا گیا، لیکن ان میں سے ایک رات کے وقت بھاگ نکلا۔ داروغہ نے سوچاکہ شاید امیر عبد اللہ بن طاھر یہ سوچے کہ اس نے رشوت لے کر اس کو بھاگنے کا موقع دیدیا ھے، لہٰذا اس کے بدلے میں اسی کو سز ا ھوگی، روئی دُھننے والے کو جو اپنی زندگی اسی کام سے چلاتا تھا اور ایک شھر سے دوسرے شھر میں جاکر یہ کام کیا کرتا تھا، اس بے گناہ کو پکڑ لیا اور چوروں کی تعدا پوری کرنے کے لئے ان میں شامل کردیا، ان دس چوروں کو امیر عبد اللہ بن طاھر کے پاس حاضر کیا گیا، اس نے حکم دیا کہ ان سب کو قید خانہ میں ڈال دیا جائے۔

ایک رات پولیس کا ایک سپاھی قیدخانہ آیا اور دو چوروں کو پھانسی دینے کے لئے لے گیا، اس موقع پر اس روئی دُھننے والے نے کھا: میرے بچے سوچ رھے ھوں گے کہ میں کسی جگہ کام کے لئے رک گیا ھوں لیکن ان کو کیا خبر ظالموں نے مجھے بے گناہ پکڑ کر چوری کے الزام میں قیدخانہ میں ڈال دیا ھے۔ اسی رات کے وقت اٹھا دو رکعت نماز پڑھی اور سرسجدہ میں رکھ کر بارگاہ الٰھی میں راز و نیاز اور دعا کرنے لگا۔

اسی رات میں عبد اللہ بن طاھر نے خواب دیکھا کہ اس کا تخت چار بار زمین پر گرا، اٹھا اور دو رکعت نماز پڑھی پھر سوگیا، ایک بار پھر اس نے خواب میںدیکھا کہ چار سانپ اس پر حملہ کررھے ھیں اور اس کے تخت کونیچے گرادیا ھے؛ بیدا رھوا، اپنے خادموں کو بلایااورکھا: کسی مظلوم نے اس وقت بارگاہ الٰھی میں شکایت کی ھے اس کو تلاش کیا جائے، بہت زیادہ تلاش کرنے کے بعد قیدخانہ میں پھنچے تو اس روئی دُھننے والے کو عجیب و غریب عالم میں دیکھا اس کو امیر کے پاس لایا گیا، اس نے سارا واقعہ بیان کیا، جب معاملہ واضح ھوگیا تو امیر عبد اللہ نے حکم دیا کہ اس دُھونے کو دس ہزار دینار سے نوازا جائے، اور اس سے کھا: میری تم سے تین خواھشیں ھیں: ۱۔ مجھے معاف کردو۔ ۲۔ اس تحفے کو قبول کرلو۔ ۳۔ جب بھی کوئی حاجت ھو تو میرے پاس چلے آنا، تاکہ تمھاری حاجت روائی کردوں۔

اس دُھونے نے کھا: میں آپ کی تین خواھشوں میں سے دو کو قبول کئے لیتا ھوں، آپ کو معاف کرتا ھوں اور اس تحفہ کو قبول کرتا ھوں، لیکن تیسری خواھش کو ھرگز قبول نھیں کرسکتا؛ کیونکہ یہ واقعاً بڑی بیوقوفی ھوگی کہ اس بارگاہ کو چھوڑدوں جس نے میرے نالہ و فریاد کے ذریعہ تیری حکومت کی چولیں ھلادیں اور ایک ضعیف و کمزور کی بارگاہ میں اپنا سر تسلیم خم کرلوں!!

پالنے والے! تیری بارگاہ میں میری التجا ھے کہ میرے گناھوں سے درگزر فر ما، اور توفیق دے کہ آئندہ میں گناھوں سے دور رھوں، اور تیری عبادت خلوص کے ساتھ انجام دوں، اور میرے اعضاء و جوارح کو طاقت دے تاکہ میں تیری اور تیرے بندوں کی خدمت کرسکوں، میرے دل کو اپنے عشق سے مالا مال کردے، میری روحی اور فکری بیماریوں کا علاج فرما، آخرت میں اپنے محبوب بندوں کی شفاعت اور ان کی ھم نشینی میرے نصیب میں لکھ دے۔ اے میرے محبوب اور میری تمام امید! یھی میری آرزو ھے، لہٰذا میری تمناؤں کو پورا کردے اور میری امید کو مایوسی میں تبدیل نہ کر، اے صاحب فضل و کرم۔

منقول ھے کہ ایک شخص حالت احتضار میںتھا، رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس سے کھا: اپنے آپ کو کس حالت میں پاتے ھو؟ تو اس نے کھا: یا رسول اللہ (ص)اپنے گناھوں سے خوف زدہ ھوں اور خدا کی رحمت کا امیدوار ھوں۔ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: یہ چیز کسی کے دل میں جمع نھیں ھوگی مگر یہ کہ خداوندعالم جس سے وہ خوف رکھتا ھو اس سے محفوظ کردے گا اورجس چیز کی امید رکھتا ھوگا اس کو پوری کردے گا۔

پالنے والے! تیری بارگاہ میںمیری بے جا آرزو نھیں ھے اور تیری بارگاہ میںبے جا آرزوئیں نھیں ھےں۔ تو نے خود قرآن مجید میں اپنے کو غفّار و غفور و شکور و کریم اور ارحم الراحمین و دیگر صفات سے تعارف کرایاھے۔ میں اگرچہ اپنے گناھوں کی نسبت خوف زدہ ھوں لیکن پھر بھی تیرے فضل و کرم کا امید وار ھوں۔ اگر دعائے کمیل کے ساتھ تیری بارگاہ میں آیا ھوں تو اس میں بھی تیرا لطف و کرم اور بزرگی سبب بنی ھے کہ میں تیری خدمت میں حاضر ھوں۔ میں اس بات کا یقین رکھتا ھوں کہ تیرے درسے کوئی بھی سائل خالی ھاتھ نھیں جاتا، تیری بارگاہ میں کسی کو مایوس نھیں کیا جاتا، اس دروازے سے کسی کو بھگایا نھیں جاتا۔

پالنے والے! تو نے حر بن یزید ریاحی کو ان عظیم گناھوں کے باوجود، فرعون کی بیوی کو ایمان لانے کے بعد فضیل بن عیاض کو توبہ کرنے کے بعد اور اسی طرح ہزارھا دوسرے گناھگاروں کوان کی توبہ کے بعد بخش دیا اور ان کو اجر و ثواب سے نوازا؛ لہٰذا میں کس طرح تیری بارگاہ سے ناامید ھوکر پلٹ جاؤں، حالانکہ تو نے خود قرآن مجید میں مایوسی کو کفر کے برابر مانا ھے![53]

باران رحمت

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے آباء و اجدا سے نقل کرتے ھیں: اھل کوفہ حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوئے اور بارش نہ ھونے کی شکایت کی، اور عرض کیا: ھمارے لئے خدا سے بارش کی دعا فرمائےے۔ چنانچہ آپ نے امام حسین علیہ السلام سے فرمایا: خدا سے بارش کی دعا کرو۔ امام حسین علیہ السلام نے خدا کی حمد و ثنا کی اور رسول خدا پر درود بھیجا اور خدا کی بارگاہ میں عرض کیا: اے خیر و برکت نازل کرنے والے! ھمارے لئے باران رحمت نازل فرما، تاکہ تیرے بندوں کو مشکلات سے نجات مل جائے، اور مردہ زمینیں زندہ ھوجائیں، آمین یا رب العالمین۔

جیسے ھی امام حسین علیہ السلام کی دعا ختم ھوئی اچانک بارش شروع ھوگئی، اور اتنی بارش ھوئی کہ اطراف کوفہ کے رھنے والے بعض لوگ آپ کی خدمت میں آئے اور کھا: اتنی بارش ھورھی ھے کہ پانی کی موجیں سیلاب میں تبدیل ھوا چاہتی ھیں۔[54]

پالنے والے! تونے کوفہ والوں کے لئے اپنے خاص بندے کی دعا کے صدقہ میں باران رحمت سے سیراب کردیا، ھمارے اوپر بھی رحمت و مغفرت کی بارش فرما، تاکہ ھمارے گناھوں کی گندگی اور کثافت ھمارے نامہ اعمال سے دُھل جائے اور ھمیں گناھوں کے بوجھ سے نجات عطا فرما، اور معنویت کا اوڑھنا اور عبادت و بندگی کے درخت سے ھمارے وجود کی سر زمین میں جان ڈال دے،کیونکہ ھم تیری امید پر ھی تیری بارگاہ میں حاضر ھوئے ھیں، عذر خواھی اور توبہ کرتے ھوئے تیری چوکھٹ پر سر جھکائے ھوئے ھیں اور تیرے در پر جھولی پھیلائے ھوئے ھیں اور اپنی حاجتوں کو تیرے ھی حضور میں لے کر آئے ھیں، اور اس بات کا یقین رکھتے ھیں کہ اپنے لطف و کرم کی بدولت ھمیں بخش دے گا۔

کرم کی امید

ایک جوان ایک گلی سے گزر رھا تھا، ایک درخت پر ایک شکار کو دیکھا اور اس پر ایک تیرچلایا، وہ تیر اس پرندہ کو نھیں لگا بلکہ اس سے گزر کر باغ کے مالک کے لڑکے کو جالگا، اور وہ مرگیا،باغ کے اطراف سے ھی بعض لوگوں کو پکڑلیا گیا اور آپس میں جھگڑا ھونے لگا، وہ جوان بھی وھاں پھنچا، اور سوال کیا واقعہ کیا ھے؟ تو انھوں نے بتایا کہ یہ لڑکا کسی شکاری کے تیر سے مرگیا ھے، اس نے کھا: تیر اٹھا کر لایا جائے تاکہ میں اس کو دیکھ کر فیصلہ کروں۔ تیر لایا گیا تو اس جوان نے کھا: اگر میں فیصلہ کروں تو کیا تم ان لوگوں کو چھوڑدوگے؟ تو اس باغ کے مالک نے کھا: جی ھاں۔ تب اس جوان نے کھا: یہ تیر میں نے شکار کے لئے چلایا تھا لیکن اس جوان کو جا لگا، میں اس کا قاتل ھوں، جو بھی کرنا چاھو میں حاضر ھوں۔ اس لڑکے کے غم زدہ باپ نے کھا: اے جوان جب مجھے تیری غلطی کے بارے میں علم ھوگیا ھے تو پھر تیرا اعتراف و اقرار کیا معنی رکھتا ھے؟ تو اس جوان نے کھا: تمھارے کرم کی امید، کہ اگر میں اقرار کرلوںتو تم مجھے معاف کردوگے۔ یہ سن کر اس باپ نے اس جوان کو معاف کردیا۔[55]

اے اکرم الاکرمین! اب ھم تیرے بے نھایت کرم کے امیدوار ھیں تواضع و انکساری کے ساتھ اپنے گناھوں کا اقرار کرتے ھیں اور اپنی معصیت اور غلط کاموں کا اعتراف کرتے ھیں۔(لہٰذا تو بھی ھمارے گناھوں کو بخش دے۔)

”یٰا سَریعَ الرِّضٰا،اِٴغْفِرْ لِمَنْ لاٰیَمْلِکُ اِٴلَّا الدُّعٰاءَ،فَاِٴنَّکَ فَعّٰالٌ

لِمٰا تَشٰاءُ،یٰا مَنِ اسْمُہُ دَوٰاءٌ،وَذِکْرُہُ شِفٰاءٌ،وَطٰاعَتُہُ غِنیً اِٴرْحَم

ْ مَنْ رَاٴْسُ مٰالِہِ الرَّجٰاءُ،وَسِلاٰحُہُ الْبُکٰاءُ،یٰا سٰابِغَ النِّعَمِ،یٰادٰافِعَ

النِّقَمِ،یٰا نُورَالْمُسْتَوْ حِشینَ فِي الظُّلَمِ ،یٰا عٰالِماً لاٰ یُعَلَّمُ،صَلِّ

عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَافْعَلْ بِي مٰااٴَنْتَ اٴَھْلُہُ،وَ

صَلَّی اللّٰہ عَلٰی رَسُولِہِ وَالْاٴَئِمَّةِ الْمَیٰامینَ

مِنْ آلِہِ ،وَسَلَّمَ تَسْلیماً کَثیراً“۔

”اے بہت جلد راضی ھوجانے والے! اس بندہ کو بخش دے جس کے اختیار میں سوائے دعا کے کچھ نھیں ھے کہ توھی ھر شے کا صاحب اختیار ھے۔ اے وہ پروردگار جس کانام دوا،جس کی یاد شفا اور جس کی اطاعت مالداری ھے، اس بندہ پر رحم فرماجس کا سرمایہ فقط امیداور اس کا اسلحہ فقط گریہ ھے، اے کامل نعمتیں دینے والے ۔ اے مصیبتوں کو رفع کرنے والے اور تاریکیوں میں وحشت زدوں کو روشنی دینے والے ۔محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور میرے ساتھ وہ برتاوٴ کر جس کا تواھل ھے۔اپنے رسول اور ان کی مبارک ”آل ائمہ معصومین(ع)“پر صلوات و سلام فراوان نازل فرما “۔

آسمانی اور ملکوتی حقائق

اس بندے سے خدا کا بہت جلد راضی ھوجانا جس پر خدا ناراض ھوگیا ھو اور اس کی بارگاہ سے دھتکار دیا گیا ھو اور اس توبہ و انابہ اور دعا کے ذریعہ اس کی بارگاہ میں متوسل ھوا ھو ، اس کی وجہ خداوندکریم کی بے نھایت رافت و مھربانی اور اس کا لطف و کرم ھے۔ اسی وجہ سے اگر کوئی شخص اپنی پوری زندگی گناھوں میں غرق رھا ھو اور کوئی رات بھی ایسی نہ گزری ھو جس میں گناہ نہ کیا ھو، صرف ایک پشیمانی ، شرمندگی اور توبہ کے ذریعہ اس کو بخش دیتا ھے اور اس کے تمام گناھوں سے چشم پوشی کرلیتا ھے، او راس کے قلیل عمل ھی کو قبول کرلیتا ھے اور اس کو اپنی خاص رحمت میں شامل کرلیتا ھے!

اسی وجہ سے حضرت امیر المومنین علیہ السلام ”یا سریعَ الرضا“ کے فقرے کے بعد بارگاہ الٰھی میں عرض کرتے ھیں: پالنے والے اس کو بخش دے جس کے پاس دعا کے علاوہ کچھ نھیں ھے؛ کیونکہ حقیقی دعا او رگریہ و زاری ؛ فقر و نداری، ذلت و مسکنت اور بے چارگی پر دلالت کرتی ھیں اور یہ کہ دعا کرنے والے کے پاس طاعت و عبادت اور خیرات کا ذخیرہ نھیں ھے جس کے بل بوتے پر مستحق رحمت ھوں، اپنے سے نفع و نقصان کو دور نھیں کرسکتا اور دعا و زاری کے ساتھ جو تیری بارگاہ میں حاضر ھوں یہ بھی تیری ھی توفیق اور لطف کے سبب ھے، درحقیقت یہ دعا اور گریہ و زاری تیری ھی رحمت کا ایک جلوہ ھے، کہ اگر تو مجھ پر نظر لطف نہ کرتا تو میں تیری بارگاہ میں حاضر نہ ھوتا اور میں تیری بارگاہ میں دعا کے لئے زبان نہ کھولتا، دل و جان سے تیری طرف متوجہ نہ ھوتا، اور اپنی آنکھوں سے آنسو نہ بھاتا۔

ایسا بندہ تیری رحمت و مغفرت اور محبت اور تیری چاہت کا سزاوار ھے، اور اگر تضرع و انکساری اور آہ وفغاں کے ساتھ تیری ھی بارگاہ میں عرض کیا جائے:

”کریم لوگ فقیر اور نادار سے نھیں پوچھتے کہ کیا لائے ھو بلکہ اپنے لطف و کرم کی بنا پر اس سے سوال کرتے ھیں کہ تمھیں کسی چیز کی ضرورت تو نھیں ھے“۔؟

اور یہ بھی کھاجائے: پالنے والے جیسا کہ تو نے فرمایا ھے کہ تم میری طرف ایک قدم بڑھاؤ؛ میںتمھاری طرف دس قدم بڑھاؤںگا، اے میرے مھربان مولا و آقا! میں تو اس قدر لاچار و مضطر ھوں اور ایسا زمین گیرھوں کہ تیری طرف ایک قدم بڑھانے کی بھی طاقت نھیں رکھتا، اے میرے مولا! میں غریب و نادار اور ھوائے نفس کا اسیراورشیطانی زنجیروں میں جکڑا ھوا ھوں کہ میری طرف توھی ایک قدم اوربڑھادے اور ان سے نجات دیدے تاکہ تیری رحمت و مغفرت میرے شامل حال ھوجائے۔

اے اکرم الاکرمین !(اے کریموں کے کریم!) کہتے ھیں: تیرے عاشق بندے نے جناب سلمان فارسی کے کفن پر یہ اشعار لکھے:

وَ فَدْتُ عَلَی الکَریمِ بِغَیرِ زَادٍ مِنَ الحَسَناتِ وَالقَلبِ السَّلِیمِ

وَحَملُ الزّادِ اٴقبَحُ کُلّ شَیءٍ اِذَاکاَنَ الوُفُودُ عَلَی الکَرِیمِ [56]

(خالی ھاتھ، اور نیکیوں سے خالی کشکول اور مریض دل کے ساتھ کریم کے یھاں مھمان ھوا ھوں،اور کریم کے یھاں مھمانی میں جاتے وقت کھانا پینا لے کر جانابہت زیادہ قبیح ھے۔)

پالنے والے! میں تو تیری بارگاہ میں خالی ھاتھ آیا ھوں اور میرے پاس ایسی کوئی چیز نھیں ھے جو تیری شان کے مطابق ھو، اس محتاج فقیر کو اپنے خزانہ کرم سے اس قدر نوازدے کہ تمام گناہ بخش دئے جائیں، اور اس کے بدن پر آتش دوزخ حرام ھوجائے اور جنت الفردوس کا دروازہ کھل جائے اور سعادت دنیا و آخرت وتیری مرضی و خوشنودی حاصل ھوجائے۔

اے وہ ذات پاک! جو ھر کام کو جب چاہتی ھے اپنی حکمت و مصلحت اور عدل و انصاف اور رحمت کی بنا پر انجام دے لیتی ھے،اور جس کام کو انجام دیتی ھے کسی کو چون چرا کرنے کا حق نھیں ھے۔

اے وہ ذات! جس کا نام ھمارے درد کی دوا ھے،اس مقام پر علماء عرفان اور اھل حقیقت بزرگوں نے بہت سے اھم مطالب بیان کئے ھیں، ان میں سے بعض کا کھنا ھے: شاید اس نام سے مراد یھی الفاظ ھوں کہ جن کی برکت اور خواص بہت زیادہ ھیں، جن میں سے ایک اثر یہ ھے کہ جب دعا کرنے والا عاشق اپنے محبوب کو اس کے اسماء حسنیٰ اور دیگر ناموں سے پکارتا ھے تو اس کا محبوب اپنے بہترین نام کو دیکھ کر اپنے دوست کو جواب دیتا ھے۔

”وَلِلَّہِ الْاٴَسْمَاءُ الْحُسْنَی فَادْعُوہُ بِہَا۔“[57]

”اور اللہ ھی کے لئے بہترین نام ھےں لہٰذا اسے انھیں کے ذریعہ پکارو“۔

جس وقت ایک محتاج بندہ اس کے سامنے دست دعا دراز کرے اس امید میں کہ رحمت خدا اس پر نازل ھوگی، دلسوز انداز میں اپنی پاک زبان سے چاھے خلوت ھو چاھے بزم، چاھے دوستوں کے درمیان ھو یا تنھائی کا عالم ھو، فریاد کرتا ھے:” یا الله“،” یا رحمن“،” یا کریم“، ”یا ربّ“، ”یا ارحم الراحمین“،تو پھر محال ھے کہ خدائے مھربان جیسا کریم خدا اس کی دعا کو مستجاب نہ کرے۔

روایت میں منقول ھے: ”اسماء اور نام الٰھی“ سے امام معصوم، ولی کامل اور جامع صفات انسان مراد ھے، جو اسماء کے معنی و مفھوم کے مکمل طور پر جلوہ گاہ ھیںکہ جب کوئی درد مند اور روحانی و باطنی بیماریوں میںمبتلا ھوجاتا ھے اس کے ذریعہ علاج ھوتا ھے۔

جی ھاں! انسانِ کامل(نبی اور امام) کے وسیلہ سے ھی انسان کو ھدایت اور سعادت کے دروازے کھل جاتے ھیں، اور شرک و کفر و نفاق اور اخلاق و عمل کی بیماری سے نجات مل جاتی ھے۔

انسانِ کامل ”اسم اعظم“ھے جو اس کائنات کی چکی میں محور کا کام کرتا ھے جیسا کہ حضرت بقیة اللہ الاعظم امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے بارے میں منقول ھے:

”وَھو الذِی بِبَقَائہِ بَقِیْتِ الدُّنیا، وَ بِیُمْنِہِ رُزِقَ الوَرَی، وَ بِوَجُوْدِہِ ثَبَتَتِ الٴَارْضُ وَ السَّمَاءُ“۔

”دنیا ان کے وجود کی برکت سے باقی ھے اور انسانوں کی روزی انھیں کی برکت سے بندوں تک پھنچتی ھے اور زمین و آسمان اسی کی ذات بابرکت کے وجود سے باقی ھےں“۔

بھر حال عاشق، اپنے معشوق کے نام اور وجہ تسمیہ(یعنی وجہ اسم گذاری)سے آگا ھی رکھتا ھے اور اسی کے نام کے وسیلہ سے اس کی بارگاہ میں مشرف ھوتا ھے،او راپنے دردو پریشانی کا اسی کی نظر لطف سے علاج کرتا ھے، اور اس کے معشوق کا نام لینے اور اس کا نام سننے سے بہتر اس دنیا کی کوئی چیز اس کے لئے لذت بخش نھیں ھے۔

روایت میںمنقول ھے کہ جناب ابراھیم خلیل خدا کے پاس بہت ساری گوسفند تھےں ، بعض فرشتوں نے یہ گمان کیا کہ ان کی دوستی اور مال و دولت کی دوستی میں کوئی رابطہ ھے۔ خداوندعالم نے ان کو متوجہ کرنے کے لئے جناب جبرئیل امین کو ایک بلندی پر بھیجا تاکہ اس طرح خدا کو پکارے:”سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلاٰئِکَةِ وَالرُّوْحِ“۔

حضرت ابراھیم نے جیسے ھی اپنے محبوب کا نام سنا تو بے تاب ھوگئے اور زبان حال سے کھنے لگے:

این مطرب از کجاست کہ برگفت نام دوست

تا جام و جامہ بذل کنم بر پیام دوست

(یہ آواز کھاں سے آرھی ھے یہ تو میرے محبوب کو پکارا جارھا ھے، میں اپنے محبوب کے پیام پر جان قربان کردوںگا۔) آواز کے سھارے اس بلندی کی طرف دوڑے لیکن کوئی نھیں ملا، آپ نے آواز دی : اے بہترین شیرین زبان والے! اگر ایک بار اور میرے معشوق کا نام اپنی زبان پر جاری کردے تو میں اپنی آدھی بھیڑ بکریاں تجھے دیدوں، یہ سن کر جناب جبرئیل نے ایک بار اور ”سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلاٰئِکَةِ وَالرُّوْحِ“زبان پرجاری کیا، جناب خلیل شدت اشتیاق سے وجد میں آگئے، اور جب عام حالت پر پلٹے تو آواز دی : اگر ایک بار اور میرے محبوب کا نام زبان پر جاری کردے تو میں تمھیںساری بھیڑ بکریاں بخش دوں گا،جناب جبرائیل نے ایک بار اور ”سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلاٰئِکَةِ وَالرُّوْحِ“ کھا، اس بار جناب خلیل اللہ نے اپنے محبوب کا نام سنا،تو ایک فریاد بلند کی اور کھا: اب میرے پاس کچھ نھیں جس کو اپنے محبوب کے نام پر نثار کروں آ اور میرے وجود کا مالک ھوجا!!

اے میرے مولا و آقا ! اے میرے محبوب! جس کا سرمایہ امید، اور ساز و سامان گریہ و زاری ھو، اس بندہ پر رحم کر تاکہ تیری رحمت کی بدولت ھر طرح کی ناداری سے نجات مل جائے اور تیرا نام اس کے درد کی دوا بن جائے تیری یاد اس کے درد کے لئے شفابن جائے اور تیری عبادت اس کی توانگری کا باعث بن جائے۔

” یا الله“، ”یا ربّ“،”یا کریم“، ” یا حبیب“،”یاانیس“،”یا مونس“،”یا اکرم الاکرمین“،”یا ارحم الراحمین“، ”یا سابغ النعم“، ”یا دافع القنم“، ”یا نور المستوحشین فی الظلم“ ، ”یا عالماً لایعلم“،صلّ علی محمد و آل محمد“۔

پایان شرح دعائے کمیل

۲۵ شوال ، مطابق روز شھادت امام برحق مصحف ناطق حضرت امام صادق علیہ السلام

مطابق ۱۰۱۰ ۱۳۸۱ھ ش۔

فھرست آیات

آیات سورہ صفحہ

۱”إِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَة“ سورہ آل عمران آیت ۳۲۔

۲ ”۔۔۔رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذَا بَاطِلًا۔۔۔“ سورہ آل عمران آیت۱۹۱۔

۳”فَنَجْعَل لَعْنَةَ اللّہِ عَلَی الْکاَذِبِیْنَ“ سورہ آل عمران آیت ۶۱۔

۴”لِلَّذِینَ اٴَحْسَنُوا مِنْھُمْ وَ اتَّقَوْا اٴَجْرٌ ۔۔۔۔ سورہ آل عمران آیت ۱۷۲۔

۵”۔۔۔ وَاللّہُ یُحِبُّ الْمُحسِنینَ“ سورہ آل عمران آیت۱۳۴۔

۶” وَسَارِعُوا إِلَی مَغْفِرَةٍ مِنْ ۔۔۔ سورہ آل عمران آیت ۱۳۳۔

۷۔” وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ اٴُمَّةٌ یَدْعُونَ إِلَی ۔۔۔ سورہ آل عمران آیت ۱۰۴۔

۸”وَلِلَّہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ ۔۔۔ سورہ آل عمران آیت ۱۸۹۔

۹” الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی وَہَبَ لِی ۔۔۔ سورہ ابراھیم آیت۳۹۔

۱۰”وَلَئِنْ کَفَرتُم اِٴنَّ عَذابِی لَشَدیدٌ۔۔۔ سورہ ابراھیم آیت ۷۔

۱۱ ”یَفْعَلُ اللهُ مَا یَشَاءُ“ ۔۔۔۔ سورہ ابراھیم، آیت ۲۷۔

۱۲ ” قُلْ ہُوَ اللهُ اَحَدٌ “ سورہ اخلاص آیت۱

۱۳ إِنْ اٴَحْسَنتُمْ اٴَحْسَنتُمْ لِاٴَنفُسِکُمْ ۔۔۔ سورہ اسراء آیت ۷

۱۴”اِنَّ رَبَّکَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ ۔۔۔۔ سورہ اسراء آیت ۳۰۔

۱۵” قُلْ لَئِنْ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ ۔۔۔ سورہ اسراء آیت ۸۸

۱۶”۔۔۔ وَإِن مِّن شَیْءٍ إِلاَّ یُسَبِّحُ ۔۔۔ سورہ اسراء آیت ۴۴۔

۱۷”وَاٴَوْفُوا بِالْعَھْدِ اٴِنَّ الْعَھْدَ کاَنَ ۔۔۔ سورہ اسراء آیت ۳۴۔

۱۸”رَبَّنَا ظَلَمْنَا اٴَنفُسَنَا وَإِن لَّم۔۔۔ سورہ اعراف آیت ۲۳۔

۱۹ سَنَسْتَدْرِجُہُمْ مِنْ حَیْثُ ۔۔۔۔ سورہ اعراف آیت ۱۸۲

۲۰” قَالَ اٴَنظِرْنِی إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ ۔“۔۔۔۔ سورہ اعراف آیت ۱۴۔

۲۱” وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُہُ بِإِذْنِ ۔۔۔ سورہ اعراف آیت ۵۸۔

۲۲” وَالَّذِینَ یُمَسِّکُونَ بِالْکِتَابِ ۔۔۔ سورہ اعراف آیت۱۷۰

۲۳”۔۔۔ وَرَحْمَتِی وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ۔۔۔ سورہ اعراف آیت ۱۵۶۔

۲۴”وَلِلَّہِ الْاٴَسْمَاءُ الْحُسْنَی فَادْعُوہُ بِہَا۔“ سورہ اعراف آیت ۱۸۰۔

۲۵” اٴَنِّی مَسَّنِیَ الضُّرُّوَاٴَنْتَ اٴرحَمُ الرَّاحِمِینَ سورہ انبیاء آیت ۸۳۔

۲۶”۔۔۔رَبِّ لَا تَذَرْنِی فَرْداً وَ اٴَنْتَ خَیْرُ۔۔۔ سورہ انبیاء آیت ۸۹۔

۲۷”۔۔۔فَنادَیٰ فِی الظُّلُماتِ اٴَن لاَّ ۔۔۔ سورہ انبیا ء آیت ۸۷۔۸۸۔

۲۸”۔۔۔وَاِٴن کاَنَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِن خَرْدَلٍ ۔۔۔ سورہ انبیاء آیت ۴۷۔

۲۹” إِنَّا اٴَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِینَ سَلَاسِلَاْ وَاٴ۔۔۔ سورہ انسان(دھر)آیت ۴۔

۳۰” إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ اٴَمْشَاجٍ ۔۔۔ سورہ دھر آیت۲۔

۳۱”۔۔۔ فَقُل رَّبُّکُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ ۔۔۔ سورہ انعام آیت ۱۴۷۔

۳۲” وَإِذَا جَائَکَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ ۔۔۔ سورہ انعام آیت ۵۴۔

۳۳” وَکَذَلِکَ نُرِی إِبْرَاہِیمَ مَلَکُوتَ۔۔۔ سورہ انعام آیت ۷۵۔

۳۴” وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ م۔۔۔ سورہ انعام آیت ۸۹۔

۳۵”۔۔۔وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفورٌ رَحیمٌ۔۔۔ سورہ انفال آیت ۶۹۔

۳۶”۔۔۔وَاصْبِرُوا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِینَ۔ سورہ انفال آیت ۴۶۔

۳۷ إِنَّ الاٴَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ۔۔۔ سورہ انفطار آیت ۱۳ ،۱۴۔

۳۸”وَاِنَّ عَلَیْکُم لَحَافِظینَ کِراماً۔۔۔ سورہ انفطار آیت ۱۰تا۱۲۔

۳۹” إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَالَّذِینَ ہَاجَرُوا۔۔۔ سورہ بقرہ آیت ۲۱۸۔

۴۰”اٴشَدُّ حُبّاً لله“ سورہ بقرہ آیت ۱۶۵۔

۴۱” إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ “ بقرہ آیت ۱۷۳،۱۸۲،۱۹۲،۱۹۹، مائدہ ۹۳۔

۴۱ ”اٴَنَّ اللهَ غَفُورٌ حَلِیمٌ“ سورہ بقرہ آیت ۲۳۵۔

۴۲” الَّذِینَ یَنقُضُونَ عَہْدَ اللهِ مِنْ بَعْدِ ۔۔۔ سورہ بقرہ آیت ۲۷۔

۴۳”۔۔۔کُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِینَ۔“ سورہ بقرة آیت ۶۵۔

۴۴” وَإِذَا سَاٴَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی۔۔۔ سورہ بقرہ آیت ۱۸۶۔

۴۵ ” وَإِذَا سَاٴَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی ۔۔۔ سورہ بقرہ آیت ۱۸۶۔

۴۶” وَإِذَا لَقُوا الَّذِینَ آمَنُوا قَالُوا ۔۔۔ سورہ بقرہ آیت ۱۴۔

۴۷”وَإِنْ کُنتُمْ فِی رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَی ۔۔۔ سورہ بقرہ آیت ۲۳

۴۸”وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ“ سورہ بقرہ آیت ۱۰۵۔

۴۹”وَاللهُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہِ مَنْ یَشَاءُ“ سورہ بقرہ آیت ۱۰۵۔

۵۰”ِ وَاللهُ یَدْعُو إِلَی الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ“ سورہ بقرہ آیت ۲۲۱۔

۵۱” وَمَنْ یَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاہِیمَ إِلاَّ۔۔۔ سورہ بقرة آیت ۱۳۰۔

۵۲” یَسْاٴَلُونَکَ عَنْ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِر۔۔۔ سورہ بقرہ آیت ۲۱۹۔

۵۳” وَاللهُ رَوٴوفٌ بِالْعِبَادِ“ سورہ بقرہ آیات ۲۰۷۔

۵۴”ارْجِعِیٓ اِلَیٰ رَبِّکِ رَاضِیَةً مَرْضِیَّةً“ سورہ فجر آیت ۲۸۔

۵۵”ٰیااٴَیُّھَا الَّذِینَ ء امَنُوا قُوٓا اٴَنْفُسَکُمْ ۔۔۔ سورہ تحریم آیت ۶۔

۵۶” لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمُدُ“ سورہ تغابن آیت اول

۵۷”إِنَّ اللهَ لٰایُضِیعُ اٴَجْرَ الْمُحْسِنِینَ۔“ سورہ توبہ آیت۱۲۰

۵۸”وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ ۔۔۔ سورہ توبہ آیت ۷۱

۵۹ ”وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ۔۔۔ سورہ توبہ آیت ۷۱۔

۶۰ ”وَقُلْ اعْمَلُوا فَسَیَرَی اللهُ عَمَلَکُمْ ۔۔۔ سورہ توبہ آیت ۱۰۵۔

۶۱” خُذُوہُ فَغُلُّوہُ . ثُمَّ الْجَحِیمَ۔۔۔ سورہ حاقہ آیت۳۰تا۳۳۔

۶۲”مَا اٴَغْنَی عَنِّی مَالِیَ ہَلَک۔۔۔ سورہ حاقہ آیت۲۸۔۲۹۔

۶۳” وَلَہُمْ مَقَامِعُ مِنْ حَدِیدٍ۔“ سورہ حج آیت ۲۱۔

۶۴” إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ۔۔۔ سورہ حجر آیت ۹۔

۶۵” وَإِنَّ جَہَنَّمَ لَمَوْعِدُہُمْ اٴَجْمَعِینَ . سورہ حجر آیت ۴۳۔۴۴

۶۶”۔۔۔وَاخْفِضْ جَناحَکَ لِلْمُوٴْ مِنینَ “ سورہ حجر آیت ۸۸۔

۶۷”۔۔۔ إِنَّ اٴَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللهِ اٴَتْقَاکُمْ۔۔۔“ سورہ حجرات آیت ۱۳۔

۶۸”یاَ اٴَیُّھَا الَّذِینَ ء اَمنُوا اجْتَنِبُوا کَثِیراً ۔۔۔ سور ہ حجرات آیت ۱۲۔

۶۹” إِنَّ الْمُصَّدِّقِینَ وَالْمُصَّدِّقَات۔۔۔ سورہ حدید آیت ۱۸۔

۷۰” سَابِقُوا إِلَی مَغْفِرَةٍ مِن رَّبِّکُمْ وَجَنَّةٍ ۔۔۔ سورہ حدید آیت ۲۱۔

۷۱” لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ یُحْیِ۔۔۔ سورہ حدید آیت ۲۔

۷۲”یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَآمِنُوا۔۔۔ سورہ حدید آیت ۲۸۔

۷۳” ہُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِیٴُ الْمُصَوِّرُ لَہُ۔۔۔ سورہ حشر آیت۲۴۔

۷۴”۔۔۔وَیَخافُونَ سُوٓءَ الحِسابِ“ سورہ رعد آیت ۲۱۔

۷۵”یَمْحُواْ اللهُ مَا یَشَاءُ وَیُثْبِتُ۔“ سورہ رعد آیت۳۹۔

۷۶” لِلَّہِ الْاٴَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ وَیَوْمَئِذٍ۔۔۔ سورہ روم آیت۴۔

۷۷”یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اٴَخْبَارَھَا بِاٴَنَّ رَبَّکَ ۔۔۔ سورہ زلزال آیت۴تا۵۔

۷۸”اٴِنَّ اللّہَ لا یَھْدِی مَنْ ھُوَ کاَذِبٌ کُفَّارٌ “ سورہ زمر آیت ۳۔

۷۹”۔۔۔اٴَلَیْسَ فِی جَھَنَّمَ مَثْوًی لِلْمُتَکَبِّرِینَ۔ سورہ زمر آیت ۶۰۔

۸۰” اٴَنْ تَقُولَ نَفْسٌ یَاحَسْرَتَا عَلَی مَا فَرَّطْتُ سورہ زمر آیت ۵۶۔

۸۱”قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ اٴَسْرَفُوا عَلَی اٴَنْفُسِہِمْ سورہ زمر آیت۵۳۔

۸۲” قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ اٴَسْرَفُوا عَلَی اٴَنْفُسِہِمْ سورہ زمر آیت ۵۳۔

۸۳”۔۔۔لاٰ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ ۔۔۔“ سورہ زمر آیت ۵۳۔

۸۴ ”۔۔۔لاٰ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ ۔۔۔“ سورہ زمر آیت ۵۳۔

۸۵” یَخْلُقُکُمْ فِی بُطُونِ اٴُمَّہَاتِکُمْ خَلْقًا مِنْ ۔۔۔ سورہ زمر آیت ۶۔

۸۶”۔۔۔وَقَلِیْلٌ مِن عِبَادِیَ الشَّکورُ“ سورہ سباٴ آیت ۱۳۔

۸۷” یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاٴَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ سورہ سباٴ آیت۲۔

۸۸” ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہُ مِنْ سُلاَلَةٍ مِنْ مَاءٍ مَہِینٍ ۔ سورہ سجدہ آیت۸۔

۸۹” رَبِّ ہَبْ لِی حُکْمًا وَاٴَلْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ سورہ شعراء آیت ۸۳۔

۹۰”قَد اٴَفْلَحَ مَن زَکَّاھَا وَ قَدْ خَابَ مَن دَسَّاھَا۔ سورہ شمس آیت ۹،۱۰۔

۹۱”وَ قَدْ خَابَ مَن دَسَّا ھَا۔“ سورہ شمس آیت ۱۰۔

۹۲” لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْءٌ وَہُوَ السَّمِیعُ البَصِیرُ۔ سورہ شوری آیت۱۱۔

۹۳”وَلَوْبَسَطَ اللّہُ الرِّزْقَ لِعِبَادِہِ لَبَغَوْا فِی۔۔۔ سورہ شوریٰ آیت ۲۷۔

۹۴” وَمَا اٴَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَةٍ فَبِمَا ۔۔۔ سورہ شوری آیت۳۰۔

۹۵”۔۔۔ رَبِّ اغْفِرْ لِی وَہَبْ لِی مُلْکًا لاَ۔۔۔ سورہ ص آیت ۳۵۔

۹۶” إِذَا قِیلَ لَہُمْ لاَإِلَہَ إِلاَّ اللهُ یَسْتَکْبِرُونَ ۔“ سورہ صافات آیت ۳۵۔

۹۷”إِنَّہُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِینَ۔“ سورہ صافات آیت ۱۲۲۔

۹۸” سَلاَمٌ عَلَی مُوسَی وَہَارُونَ۔“ سورہ صافات آیت ۱۲۰۔

۹۹” یَوْمَئِذٍ لاَتَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلاَّ مَنْ “ سورہ طہ آیت۱۰۹۔

۱۰۰”خَلَقَ الإنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ “ سورہ علق آیت ۲۔

۱۰۱” إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْہَی عَنْ الْفَحْشَاءِ وَ۔۔۔ سورہ عنکبوت آیت ۴۵۔

۱۰۲”۔۔۔ادْعُونِی اٴَسْتَجِبْ لَکُمْ۔۔۔۔“ سورہ غافر آیت ۶۰۔

۱۰۳” وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُونِی اٴَسْتَجِبْ ۔۔۔ سورہ غافر(مومن)آیت۶۰۔

۱۰۴”فَلِلّٰہِ الْعِزَّةُ جَمِیْعاً۔“ سورہ فاطر آیت ۱۰۔

۱۰۵”وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَات۔۔۔ سورہ فاطر آیت ۷۔

۱۰۶” یَااٴَیُّہَا النَّاسُ اٴَنْتُمْ الْفُقَرَاءُ إِلَی اللهِ و۔۔۔ سورہ فاطر آیت ۱۵۔

۱۰۷” مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ وَالَّذِینَ مَعَہُ ۔۔۔ سورہ فتح آیت ۲۹۔

۱۰۸” وَلِلَّہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْض۔۔۔ سورہ فتح آیت ۱۴۔

۱۰۹” إِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا ۔۔۔ سورہ فرقان آیت ۷۰۔

۱۱۰” ۔۔۔فَاٴُوْلَئِکَ یُبَدِّلُ اللهُ سَیِّئَاتِہِمْ ۔۔۔ سورہ فرقان آیت ۷۰۔

۱۱۱ ” قُلْ مَا یَعْبَاٴُ بِکُمْ رَبِّی لَوْلاَدُعَاؤُکُمْ۔ سوہ فرقان آیت ۷۷۔

۱۱۲” وَہُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنْ الْمَاءِ بَشَرًا ۔ سورہ فرقان آیت۵۴۔

۱۱۳” إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۔۔۔ سورہ فصلت آیت ۸۔

۱۱۴” ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَانٌ۔۔۔“ سورہ فصلت آیت۱۱۔

۱۱۵” حَتَّی إِذَا مَا جَائُوہَا شَہِدَ عَلَیْہِمْ۔۔۔ سورہ فصلت آیت ۲۰تا۲۱۔

۱۱۶” مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلاَّ لَدَیْہِ رَقِیبٌ عَتِیدٌ۔“ سورہ ق آیت ۱۸۔

۱۱۷ ”وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا ۔۔۔ سورہ ق آیت۱۶۔

۱۱۸” اِٴنَّ قَارونَ کانَ مِن قَوْمِ موسَیٰ فَبَغَیٰ۔۔۔ سورہ قصص آیت ۷۶۔

۱۱۹” اٴُوْلَئِکَ یُؤْتَوْنَ اٴَجْرَہُمْ مَرَّتَیْنِ بِمَا۔۔۔ سورہ قصص آیت ۵۴۔

۱۲۰”تِلْکَ الدَّارُ الاٴٓخِرَةُ نَجْعَلُھَا ۔۔۔ سورہ قصص آیت ۸۳۔

۱۲۱”۔۔۔ رَبِّ إِنِّی لِمَا اٴَنزَلْتَ إِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ۔۔۔ سورہ قصص آیت ۲۴۔

۱۲۲”إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ۔۔۔ سورہ کہف آیت۳۰۔

۱۲۳ ” مَا اٴَشْہَدْتُہُمْ خَلْقَ السَّمَاوَاتِ و ۔۔۔ سورہ کہف آیت۵۱۔

۱۲۴ ” إِنَّا اٴَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِیہَا ہُدًی وَنُورٌ “ سورہ مائدہ آیت ۴۴۔

۱۲۵”تِلْکَ الدَّارُ الاٴخِرَةُ ۔۔۔“ سورہ قصص آیت ۸۳

۱۲۶”عَفَا اللّٰہُ عَمَّا سَلَفَ۔۔۔“ سورہ مائدہ آیت ۹۵۔

۱۲۷” فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِہِ وَاٴَصْلَحَ ۔۔۔ سورہ مائدہ آیت ۳۹۔

۱۲۸” قَدْ جَاءَ کُمْ مِنْ اللهِ نُورٌ وَکِتَابٌ مُبِین۔ سورہ مائدہ آیت ۱۵۔

۱۲۹” وَعَدَ اللهُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا ۔۔۔ سورہ مائدہ آیت ۹۔

۱۳۰ ” وَ لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی ۔۔۔ سورہ مائدہ آیت۱۸۔

۱۳۱”یَااٴَ یُّھَا الَّذِیْنَ ء امَنُوا اٴَوْفُوا بِالْعُقُودِ۔“ سورہ مائدہ آیت اول۔

۱۳۲”فَوَیْلٌ لِلْمُصَلِّینَ الَّذِینَ ھُم عَن۔۔۔ سورہ ماعون آیت ۴۔۶۔

۱۳۳” کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِینَةٌ ۔۔۔ سورہ مدثر آیت ۳۸۔۴۸۔

۱۳۴”یا اٴُخْتَ ھارُونَ ما کاَنَ اٴَبُوکِ امْرَاٴَ ۔۔۔ سورہ مریم آیت ۲۸ ۔

۱۳۵”کَلّا اِنَّھُم عَن رَبِّھِم یَوْمَئِذٍ لَمَحجُوبونَ۔ سورہ مطففین آیت ۱۵۔

۱۳۶”وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِیْنَ.۔۔۔ سورہ مطففین آیت ۱۔۷۔

۱۳۷”۔۔۔لاَتَتَّخِذُوا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُم۔۔۔ سورہ ممتحنہ آیت ۱۔

۱۳۸” وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَکَرٍ اٴَو۔۔۔ سورہ غافر(مومن) آیت۴۰۔

۱۳۹” ثُمَّ اٴَنشَاٴْنَاہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللهُ ۔۔۔ سورہ مومنون آیت۱۴۔

۱۴۰” فَإِذَا نُفِخَ فِی الصُّورِ فَلاَاٴَنسَابَ۔۔۔ سورہ مومنون آیت۱۰۱۔

۱۴۱” وَقُلْ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاٴَنْتَ خَیْرُ ۔۔۔ سورہ موٴ منون آیت ۱۱۸۔

۱۴۲” وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِنْ سُلاَلَةٍ مِنْ ۔۔۔ سورہ مومنون آیت۱۲۔

۱۴۳”وَاٴَ مَا مَنْ خَافَ مَقامَ رَبِّہِ وِ نَھَیٰ ۔۔۔ سورہ نازعات آیت ۴۰ و۴۱۔

۱۴۴”إِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ “ سورہ نجم آیت ۳۲۔

۱۴۵”۔۔۔اٴِنَّہُ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِینَ “ سورہ نحل آیت ۲۳۔

۱۴۶”۔۔۔اٴِنَّہُ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِینَ “ سورہ نحل آیت ۲۳۔

۱۴۷”۔۔۔فَلَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِینَ“ سورہ نحل آیت ۲۹۔

۱۴۸”فَلَنُحْیَیَّنَہُ حَیَوٰةً طَیِّبَةً۔ “ سورہ نحل آیت ۹۷

۱۴۹”فِیْہِ شَفَاءٌ لِلنّٰاسِ“ سورہ نحل آیت ۶۹۔

۱۵۰”وَاٴَوْفُو ا بِعَھْدِ اللّٰہِ اِٴذَا عَاھَدتُمْ۔۔۔“ سورہ نحل آیت۹۱۔

۱۵۱”وَاللهُ اٴَخْرَجَکُمْ مِنْ بُطُونِ اٴُمَّہَاتِکُمْ۔ سورہ نحل آیت ۷۸۔

۱۵۲” وَاللهُ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ “ سورہ نحل آیت۱۹۔

۱۵۳” إِنَّ الَّذِینَ یَاٴْکُلُونَ اٴَمْوَالَ الْیَتَامَی ۔۔۔ سورہ نساء آیت ۱۰۔

۱۵۴”إِنَّ اللهَ کَانَ تَوَّابًا رَحِیمًا“ سورہ نساء آیت ۱۶۔

۱۵۵”إِنَّ اللهَ کَانَ عَفُوًّا غَفُورًا۔“ سورہ نساء آیت ۴۳۔

۱۵۶”إِنَّ اللهَ کَانَ عَفُوًّا غَفُورًا۔“ سورہ نساء آیت ۴۳۔

۱۵۷” إِنَّ اللهَ کَانَ غَفُورًا رَحِیمًا۔“ سورہ نساء آیت ۲۳۔

۱۵۸ ”إِنْ تَجْتَنِبُوا کَبَائِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ ۔۔۔ سورہ نساء آیت ۳۱۔

۱۵۹” الَّذِینَ یَبْخَلُونَ وَیَاٴْمُرُونَ النَّاسَ ۔۔۔ سورہ نساء آیت ۳۷۔

۱۶۰” فَاٴَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا بِاللهِ وَاعْتَصَمُوا ۔۔۔ سورہ نساء آیت ۱۷۵۔

۱۶۱”ْ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ۔“ سورہ نساء آیت۲۵۔

۱۶۲” وَمَنْ یُہَاجِرْ فِی سَبِیلِ اللهِ یَجِدْ فِی ۔۔۔ سورہ نساء آیت ۱۰۰۔

۱۶۳”۔۔۔ رَبِّ لاَتَذَرْ عَلَی الْاٴَرْضِ مِنْ ۔۔۔ سورہ نوح آیت ۲۶۔

۱۶۴” وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِیہِنَّ نُورًا وَجَعَلَ ۔۔۔ سورہ نوح آیت۱۶۔

۱۶۵ ” وَقَدْ خَلَقَکُمْ اٴَطْوَارًا ۔“ سورہ نوح آیت۱۴۔

۱۶۶”رِجَالٌ لاَتُلْہِیہِمْ تِجَارَةٌ وَلاَبَیْعٌ عَنْ ۔۔۔ سورہ نور آیت۳۷۔

۱۶۷”یَوْمَ تَشْہَدُ عَلَیْہِمْ اٴَلْسِنَتُہُمْ وَاٴَیْدِیہِمْ ۔۔۔ سورہ نور آیت۲۴۔

۱۶۸”وَاٴَقِمِ الصَّلَوٰةَ طَرَفَیِ النَّھارِ وَزُلَفاً مِنَ ۔۔۔ سورہ ھود آیت ۱۱۴۔

۱۶۹”وَمَا مِن دآبَّةٍ فِی الاٴَرْضِ اِلاَّ عَلَی اللّٰہ۔۔۔ سورہ ھود، آیت ۶۔

۱۷۰”الْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلَی اٴَفْوَاہِہِمْ وَتُکَلِّمُنَا۔۔۔ سورہ یس آیت ۶۵۔

۱۷۱”۔۔۔إِنَّ النَّفْسَ لَاٴَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا ۔۔۔ سورہ یوسف آیت ۵۳۔

۱۷۲”۔۔۔لاَیَیْئَسُ مِنْ رَوْحِ اللهِ إِلاَّ الْقَوْمُ۔۔۔ سورہ یوسف آیت ۸۷۔

۱۷۳”رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی مِنْ الْمُلْکِ وَعَلَّمْتَنِی ۔۔۔ سورہ یوسف آیت ۱۰۱۔

۱۷۴”۔۔۔قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اٴَنفُسُکُم۔۔۔“ سورہ یوسف آیت ۱۸۔

۱۷۵” وَلاَتَیْئَسُوا مِنْ رَوْحِ اللهِ إِنَّہُ لاَیَیْئَسُ ۔۔۔ سورہ یوسف آیت۸۷۔

۱۷۶ ” وَہُوَ اٴَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ“ سورہ یوسف آیت ۶۴۔

۱۷۷” قُلْ مَنْ یَرْزُقُکُمْ مِنْ السَّمَاءِ و۔۔۔ سورہ یونس آیت ۳۱۔

فھرست احادیث

اٴبْلَغُ مَا تُسْتَدَرُّ بِہِ الرَّحْمَةُ اٴنْ تُضْمِرَ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام اِحذَرْمُجَالَسةَ قَرینِ السّوءِ،فَاِنَّہُ ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

اِحذَرْ مِنَ النَّاسِ ثَلاثَةً:الخائِنَ ۔۔۔۔ حضرت صادق علیہ السلام

إِذَا الْتَبَسَتْ عَلَیْکُمُ الْفِتَن۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

إِذَا تَابَ العَبْدُ المُوٴْمِنُ تَوبَةً نَصوحاً ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

إِذَا تَابَ العَبْدُ المُوٴْمِنُ تَوبَةً نَصوحاً ۔۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

اِذَا اٴَرادَ اٴَحَدُکُم اٴَنْ لَایَساٴَلَ رَبَّہُ شَیْئاً۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

إِذَا اٴَرَادَ اللهُ بِعَبْدٍ خَیْراً فَاٴذْنَبَ ذَنْباً ۔۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

اَذِا رَغِبتَ فِی صَلاحِ نفسک۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

اِذَا وَقَعَتِ اللُّقمِةُ مِن حَرامٍ فِی جَوف۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

إرْ حَمْ نَفْسَکَ وَارْحَمْ خَلْقَ اللّہِ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

إِرْضَ بِما قَسَمَ اللهُ لَکَ تَکُنْ غَنِیّاً“۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

اَسْاٴَلُکَ مِنَ الآمَالِ اٴَوفَقُھا“۔۔۔ حضرت امام زین العابدین( ع)

إِسْتَحْیِ مِنَ اللَّہِ کَمَا تَسْتَحْیِی ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

اِسْتِعمالُ الاٴَمَانَةِ یَزِیدُ فِی الزِّرْقِ“۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

إسمَحْ یُسمَحْ لَکَ“ حضرت رسول خدا (ص)

إِعْلَمُوا اٴَنَّہُ مَنِ اشْتَاقَ إِلَی الجَنَّةِ۔۔۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام

اٴفضَلُ الاٴعمَالِ اِیمَانٌ بِاللّٰہ۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

اٴَفضَلُ العِبادَةِ الدُّعاءُ “۔۔۔ حضرت امام محمد باقر( ع)

اٴفضَلُ النَّاسِ مَنْ عَشِقَ۔۔۔ حضرت رسول اکرم(ص)

آفَةُ الدِّینِ الحَسَدُ وَالعُجْبُ ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

آفَةُ النَّفْسِ الوَلَہُ بِالدُّنْیَا “۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

إقنَعْ بِمَا قَسَمَ اللهُ لَکَ“۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

الاٴَمَانِیُّ تُعْمِی عُیونَ البَصَائِرِ“۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

اَلاٴَمَلُ خَادِعٌ غَارٌّ ضَارٌّ“۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

الاٴَمَلُ سُلْطَانُ الشَّیاطِینِ عَلَی۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

الَاٴمَلُ کَالسَّرَابِ یَغِرُّ مَن رَآہ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

إلٰھی ! رَضاً بِقَضَائِکَ، صَبْراً ۔۔۔ حضرت امام حسین علیہ السلام

اٴمَا تَ قَلبِی عَظیمُ جِنایَتی حضر ت امام سجاد علیہ السلام

اٴَمَّا عَلّامةُ التّائِبِ فَاٴَربَعَةٌ:۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

اِنَّ اَخْوَفَ مَااَخافُ عَلَیْکُم۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

اِنَّ الِانسانَ اِذَا کَانَ فِی الصَّلاة۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

إِنَّ الَّذِی یَطْلُبُ مِنْ فَضْلٍ یَکُفُّ۔۔۔ حضرت امام رضا علیہ السلام

إِنْتَقِمْ مِن حِرْصِکَ بِالْقُنوعِ ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

اِنَّ تَقْوَی اللّٰہِ دَواءُ دَاءِ قُلوبِکُم ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

إِنَّ التَّواضُعَ یَزِیدُ صَاحِبَہُ رِفْعَةً۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

إَنَّ الحَسَدَ یَاٴْ کُلُ الإِیمَانَ کَمَا ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

إنَّ الدُّعاءَ ھُو العِبادَةُ“ حضرت رسول خدا(ص)

اِنَّ الرَّجُلَ اِذَا اٴَصابَ مَالاً مِن۔۔۔ حضرت امام محمد باقر (ع)

انّ الرَّجُلَ یُذنِبُ الذَّنبَ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

إِن اٴَرَدتَ اٴَنْ تَقَرَّ عَیْنُکَ وَتَنالَ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

إِنَّ الرِّفْقَ لَمْ یُوضَعْ عَلی شَیْءٍ إِلَّا زَانَہُ“۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

اِٴنَّ اٴَسْرَعَ الْخَیرِ ثَوَاباً البِرُّ وَاِٴن۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

اِنَّ سُوءَ الخُلُقِ لَیُفسِدُ العَمَلَ ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

إِنَّ العَبْدَ إِذا تَخَلَّی بِسَیِّدِہِ فِی۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

اِنَّ العَبْدَ لَیَبْلُغُ مِنْ سُوءِ خُلقِہ۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

إِنَّ الْعَبْدَ لَیَدْعُو فَیَقُوْلُ اللهُ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

اِنَّ العبدَ لَیَمشِی فِی حَاجَةِ ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

إِنَّ العَبْدَ لَیُوٴمَرُ بِہِ إِلَی النَّارِ۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

إِنَّ اٴَعْظَمَ المَثوبَةِ مَثوبَةُ ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

إِنَّ اٴَفْضَلَ النَّاسِ عَبْداً مَن۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

إِنَّ فِی جَہَنَّمَ لَوَادِیاً لِلْمُتُکَبِّرِیْنَ ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

إِنْ کاَنَ الَخَلفُ مِنَ اللهَ عَزَّ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

إِنَّ اٴَکْثَرَ خَطَایَا ابْنِ آدَم۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

اِنَّکَ لَن یُتَقَبَّلَ مِن ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

اِنَّ لَا اِلہَ اِلاَّ اللّٰہُ کَلِمةٌ ۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

إِنَّ لِلّٰہِ تَعَالی مائَةَ ۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

اِنَّ لِلّہِ عَزَّ وَجَلَّ اِثْنَی۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

اِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالی حَرَّم۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

إِنَّ اللهَ تَعالیَ یَقولُ لِلْمَلائِکَة۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ حَرَّمَ الجَنَّةَ۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ یَومَ ۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

إِنَّ اللهَ یَقولُ:لا یَزَالُ عَبدٌ۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

إِنَّ مِنَ الغِرَّةِ بِاللهِ اٴَن یُصِرّ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

اٴوحَشُ الوَحشَةِ قَرینُ السُّوءِ۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

اٴُوصِیکُم بِالصَّلاةِ وَحِفْظِھَا،۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

آہ مِنْ قِلَّةِ الزَّادِ وَبُعْدِ السَّفَرِ ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

آیاتُ القُرآنِ خَزَائِنُ فَکُلَّمَا۔۔۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام

اِیّاکُم وَالکَسَلُ اِنَّ رَبَّکُم ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

إِیَّاکَ وَعَدوَاةَ الرِّجالِ ؛۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

اِیّاکَ وَمُصَاحَبَةَ الشَّریرِ فَاِنَّہُ ۔۔۔ حضرت امام محمد تقی (ع)

بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْداً ہُمَزَةً لُمَزَة۔۔۔ حضرت امام محمد باقر (ع)

بِئْسَ الغَریمُ النَّومُ ؛یُفنِی قَصیرَ ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

بِالعَفْوِ تَنْزِلُ الرَّحْمَةُ“۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

البَخِیلُ مَنْ بَخِلَ بِمَا افْتَرَضَ ۔۔۔ حضرت امام موسیٰ کاظم (ع)

البَذَاءُ مِنَ الجَفَاءُ وفی النار۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

بُکاءُ العُیُونِ وَ خَشیَةُ القُلوبِ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

تَخَلَّقُوا بِاٴخلاقِ اللهِ“۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

تَعَرَّضْ لِلرَّحْمَةِ وَعَفْوِ اللهِ۔۔۔ حضرت امام باقر علیہ السلام

تَعَرَّضُوا لِرَحْمَةِ اللهِ بِمَا۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

التَفْرِیطُ مُصِیبَةُ القَادِرِ“۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

التَواضُعُ اٴَنْ تَرضَی مِنَ ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

ثَلاثٌ مَن لَم یَکُنَّ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

ثَلٰثٌ مَن کُنَّ فِیْہِ کَانَ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

ثَمَرَةُ التَّفْرِیطِ النَّدامَةُ ،۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

ثَمَرَةُ العَقْلِ مُدَارَاةُ النَّاسِ“۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

ثَمَنُ الجَنَّةِ العَمَلُ الصَّالِحُ“۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

ثَوابُ الجِھادِ اٴَعْظَمُ الثَّوابِ“۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

ثَوابُ الصَّبرِ اٴَعْلَی الثَّوابِ“۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

ثَوابُ عَمَلِکُم اٴَفْضَلُ مِن ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

الجَاہِلُ صَخْرَةٌ لَا یَنْفَجِرُ مَاوٴُھا،۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

الجَاہِلُ لَا یَعْرِفُ تَقْصِیرَہُ ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

الجَاہِلُ مَیِّتٌ وَاِنْ کَانَ حَیّاً“۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

جَعَلَ اللَّہُ جَلَّ ثَناوٴُہُ قُرَّةَ ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

الجَنَّةُ غَایَةُ السَّابِقینَ ،وَالنَّار۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

وَاٴیْمُ اللّٰہِ لاٴنْ یَھْدِیَ اللّٰہُ ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

الجَہْلُ اَدْوَاٴُ الدَّاءِ“۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

الجَہْلُ داءٌ وَعَیاءٌ“۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

الجَہْلُ مُمیتُ الاٴَحْیاءِ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

اَحَبُّ الاٴعْمَالِ إلَی اللهِ ۔۔۔ حضرت امام باقر علیہ السلام

حَرَّمْتُ الجَنَّةَ عَلَی المَنَّانِ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

حُسْنُ الخُلُقِ یَزِیُد فِی الرِّزْقِ“۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

حُسنُ الظَّنِ اٴن تُخْلِصَ العَمَلَ،۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

حُسنُ الظَّنِ بِاللّٰہِ اٴن لَا َترجُوَ اِلاَّ اللّٰہَ ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

حُسنُ الظَنِّ بِاللّٰہِ مِن عَبادَةِ اللّٰہِ“۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

اٴَحْسَنَ العَدْلِ نُصْرَةُ المَظْلُومِ“۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

حُفَّتِ الجَنَّةُ بِالْمَکَارِہِ وَحُفَّتِ ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

اَلْحَیَاءُ مِنَ الإِیمَانِ وَالإِیمَانُ ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

خَصْلَتَانِ لَاتَجْتَمِعَانِ فِی مُسْلِمٍ ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

خَصْلَتَانِ لَاتَجْتَمِعَانِ فِی موٴمن۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

الخَلْقُ عیالی فَاٴحَبُّھُم اَلَیَّ اٴلطَفَھُم ۔۔۔ اللہ عزّوجلّ(حدیث قدسی)

خَیْرُالعِبَادَةِ قَوْلُ لاَاِلہَ اِلاَّ اللّٰہُ “۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

دَارِ النَّاسَ تَسْتَمْتِعْ بِإخائِہِم ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

دَعَا اللّٰہُ النَّاسَ فِی الدُّنیا بِآبائِھِم۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

الدُّعاءُ مُخُّ العِِبادَةِ “۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

الدُّعاءُ مَفاتِیحُ النِّجَاحِ،۔۔۔ حضرت امام باقر علیہ السلام

دُمْ عَلَی الطَّہَارَةِ یُوَسَّعْ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

دَوَامُ الغَفْلَةِ یُعْمِی البَصِیرَةَ“۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

دَواءُ النَّفْسِ الصَّوُم عَنِ الھَوَی“۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

اَلرَّاحِمُونَ یَرْحَمُہُمُ اللهُ۔إِرْحَمُوا ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

رَاٴسُ الجَھلِ مُعَاداةُ النَّاسِ “۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

الرّاضِی لاَیَسْخَطُ عَلی سَیِّدِہِ ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

رَاٴْسُ الآفَاتِ الوَلَہُ بِاللَّذَّاتِ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

رِباطُ یَوْمٍ فِی سَبِیلِ اللهِ خَیْرٌ ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

رَحِمَ اللهُ امْرُءً سَہْلَ الْبَیْعِ،۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

رَحْمَةُ الضُّعَفاءِ تَسْتَنْزِلُ الرَّحْمَةَ“۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

رَاٴَیْتُ الخَیْرَ کُلَّہُ قَدِ اجْتَمَعَ فِی ۔۔۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام

سَبَبُ صَلاحِ النَّفْسِ العُزُوفُ عَنِ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

سَبَبُ صَلاحِ النَّفْسِ الوَرَعُ“۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

سِتَّةٌ لاَتَکونُ فِی المُوٴْمِنِ:العُسْرُ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

سُکرُ الغَفْلَةِ وَالغُرورِ اٴَبْعَدُ إِفَاقَةً ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

سُوءُ الخُلْقِ شَرُّ قَرینٍ حضرت علی علیہ السلام

سَیّدُ الاٴعمَالِ ثَلاثُ خِصالٍ :۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

شافِعُ المُذْنِبِ إِقْرارُہُ وَتَوْبَتُہُ ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

شَرُّ الرِّوَایَةِ روایَةُ الکِذبِ “۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

الشَّرفُ عِندَ اللّٰہِ سُبحانَہُ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

شُکْرُ النِعْمَةِ اِجْتِنَابُ الْمَحَارِمِ“ ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

صَاحِبِ الحُکَمَاءَ وَجالِسِ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

الصَّبرُ ثَلاثةٌ:صَبرٌ عِندَ ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

اٴَلصِّدقُ اٴَمَانَةٌ وَالکِذْبُ خِیَانَةٌ “۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

اٴَلصَّدَقَةُ تَمْنَعُ سَبعِینَ نَوعاً مِن۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

صَلاحُ النَّفْسِ مُجاھَدَةُ الھَوَی“۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

الصَّلاةُ تَستَنْزِلُ الرَّحْمَةَ“۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

الصَّلاةُ عَمودُ الدِّینِ وَفِیھَا۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

الصَّلاةُ قُربَانُ کُلِّ تِقیٍّ“۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

الصَّلاةُ مِن شَرایِعِ الدِّینِ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

طَلَبُ الحَلاَلِ الجِھادُ حضرت رسول خدا (ص)

طَلَبُ الحَلَالِ فَریضَةٌ بَعْدَ ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

طَلَبُ الحَلَالِ فَریضَةٌ عَلَی ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

الطَّمَعُ سَجِیَّةٌ سَیِّئَةٌ“۔۔۔ حضرت امام علی نقی(غ)

طُوبَی لِصُورَةٍ نَظَرَ اللّٰہُ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

طُوبَی لِمَنْ تَرَکَ شَھْوَةً ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

طُوبَی لِمَنْ عَصَی فِرْعَوْنَ ہَوَاہُ ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

العِبَادَةُ عَشرَةُ اٴَجْزاءٍ تِسْعَةُ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

عَبدِی! اٴَطِعنِی حَتَّی ۔۔۔ اللہ عزّو جلّ(حدیث قدسی)

اٴَعدَی عَدُوِّکَ نَفْسُکَ ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

العِزُّ رِدَاءُ اللهِ وَالْکِبْرُ إِزَارُہُ ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

عَشرٌ مَن لَقِیَ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ ۔۔۔ حضرت امام باقر علیہ السلام

اٴَعلَی الاٴعمَالِ اِخلاصُ الإیمانِ ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

عَلَیْکَ بِالتَّواضُعِ فَإِنَّہُ مِن اٴَعْظَمِ ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

عَلَیکَ بِالدُّعاءِ؛فَإنَّ فیہِ شِفاءً ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

عَلَیْکَ بِالدُّعَاءِ لإِخْوانِکَ بِظَہْر۔۔۔ حضرت امام باقر علیہ السلام

العَمَلُ شِعارُ المُوٴمِنِ“۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

اٴَعوذُ بِکَ مِن دُنیا تَمْنَعُ خَیرَ ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

الغَفْلَةُ تَرکُکَ المَسْجِدَ وَ ۔۔۔ حضرت امام حسین علیہ السلام

اٴَغنَی النَّاسِ مَن لَمْ یَکُنْ لِلْحِرص۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

اٴلغَیْرَةُ الشَّدِیْدَةُ عَلٰی حَرَمِکَ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

الفَاجِرُ الرَّاجِی لِرَحْمَةِ اللهِ تَعالَی ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

فَإِذَا الْتَبَسَتْ عَلَیْکُمُ الفِتَنُ کَقِطَعِ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

فَإذا نَزَلَ البَلاءُ فَعَلَیکُم بِالدُّعاء۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

فَجَعَلَ اللهُ الِایمَانَ تَطھیراً۔۔۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا

فَطُوبَی لِمَن اٴخلَصَ للّٰہِ عَمَلَہُ ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

قَد نَابَذَنِی مَن اٴَذَلَّ عَبدِیَ المُوٴْمِنَ “ حضرت رسول خدا (ص)

اٴَقْرَبُ ما یَکونُ العَبدُ اِلَی الکُفْرِ حضرت امام باقر و امام صادق(ع)

اٴَقَلُّ النَّاسِ مُرُوَّةً مَن کاَنَ کاَذِباً۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

قَوْلُ لَا إِلہَ اِلاَّ اللهُ ثَمَنُ الجَنَّةِ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

قِیامُ اللَّیلِ مَصَحَّةُ البَدَنِ وَرِضَی ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

کانَ اٴبی علیہ ا لسلام إذا اٴحْزَنَہُ اٴمر۔۔۔ امام صادق علیہ السلام

اٴَکْثَرُمَا تَلِجُ بِہِ اٴُمَّتِی النَّارَ الاٴجْوَفَانِ ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

کَثْرَةُ الاٴکلِ مِنَ الشَّرَہِ ،وَالشَّرَہُ شَرّ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

کَلامُ الْمُتَّقِیْنَ بِمَنْزِلَةِ الوَحیِ مِنَ السَّمآء۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

اٴَکَلَ علِیُّ مِن تَمْرٍدَقَلٍ۔۔۔ امام صادق علیہ السلام

کُلّ اٴَمرٍ ذِی بالٍ لا یُذکَرُ بِسمِ اللهِ فِیہِ ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

کُن بِالعَمَلِ بِالتَّقوَی اٴشدَّ اھتِمَاماً۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

کُن فِی الدُّنْیَا کَاٴنَّکَ غَرِیبٌ اٴَوْ کَاٴنَّکَ ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

کُونَا لِلظَّالِمِ خَصْماً وَلِلْمُظْلُومِ عَوْناً۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

الکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَعَمِلَ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

کَیْفَ یَسْتَطِیعُ عَلی صَلاحِ نَفْسِہِ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

کَیْفَ یَکونُ المُوٴمِنُ مُوٴمِناً وَہُو۔۔۔ امام حسن علیہ السلام

لا إلہَ إلّااللهُ حِصْنی فَمَنْ دَخَلَ۔۔۔ امام رضا علیہ السلام

اٴَلاَاٴُنَبِّئُکُمْ بِاٴَکْبَرِالکَبَائِرِ؟ قُلْنَا ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

لَاتَدَابَرُوا وَلَاتَبَاغَضُوا وَلَا۔۔۔ ضرت رسول خدا (ص)

لاتَغْتَرَّنَّ بِاللهِ وَلاتَغْتَرَّنَّ بِصَلاحِکَ ۔۔۔ ضرت رسول خدا (ص)

لاَسُوءَ اٴَسْوَءُ مِنَ الکِذْبِ ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

اٴَلاَ مَن تَعَلَّمَ القُرآنَ وَعَلَّمَہُ۔۔۔ ضرت رسول خدا (ص)

اٴَلا وَإِنَّ لِلّٰہِ اٴَوانِیَ فِی اٴَرْضِہِ۔۔۔ ضرت رسول خدا (ص)

لَا وَحْشَةَ اٴَوْ حَشُ مِن الْعُجُبً شوء ۔۔ ضرت علی علیہ السلام

لَا وَاللهِ مَا اٴَرادَ اللهُ مِنَ النَّاسِ ۔۔۔ امام محمد باقر علیہ السلام

لا یَجتَمِعُ اٴربَعونَ رَجُلاً فی ۔۔۔ ضرت رسول خدا (ص)

لَایَجِدُ عَبدٌ طَعْمَ الإِیمَانِ ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

لا یَدْخُلُ الجَنَّةَ مَنْ فِی قَلْبِہِ ۔۔۔ مام محمد باقر علیہ السلام

لایُرَدُّ دُعاءٌ اٴوَّلُہُ ”بِسْمِ اللّٰہِ ۔۔۔ مام کاظم علیہ السلام

لَا یَزَالُ المُوٴمِنُ الَّذِی یَذکُرُ۔۔۔ ضرت رسول خدا (ص)

لَایَمُوتَنَّ اٴَحَدُکُم حَتَّی ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

لَا یَنْبَغِی لِلْمُوٴْمِنِ اٴَنْ یَجْلِسَ ۔۔۔ امام صادق علیہ السلام

لَتَاٴمُرُنَّ بِالمَعروفِ وَلَتَنْہَوُنَّ ۔۔۔ ضرت رسول خدا (ص)

لَوکاَنَ الرِّفْقُ خَلْقاً یُرَی مَا ۔۔۔ ضرت رسول خدا (ص)

لَوْ مَاتَ مَنْ بَیْنَ المَشْرِقِ وَ۔۔۔ مام سجاد علیہ السلام

اللّہُ تَعالیَ اٴرحَمُ بِعَبْدِہِ المُوٴمنِ رسول خدا (ص)

لَیسَ شَیْءٌ اٴضَرَ لِقَلبِ ۔۔۔ امام صادق علیہ السلام

لِی مَعَ اللهِ وَقْتٌ لَا یَسَعُنِی ۔۔۔ ضرت رسول خدا (ص)

مَااجتَمَعَ اٴَربَعَةٌ قَطُّ عَلی اٴمرٍ۔۔۔ مام صادق علیہ السلام

مَا جَزَاءُ مَن اٴَنْعَمَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ۔۔۔ حضرت رسول خدا (ص)

مَا رَاٴیْتُ شَیْئاً اِلَّا وَرَاٴیْتُ اللهَ ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

مَا سَتَرَ عَلَی عَبدٍ فِی الدُّنیَا إِلا۔۔۔ حضرت رسول اکرم (ص)

مَا کَادَ جِبرئیلُ یَاٴْتِینِی إِلاَّ قَال۔۔۔ حضرت رسول اکرم (ص)

مَالِی لاَ اٴَرَی عَلَیْکُم حَلَاوَةَ العِبَادَة۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

مَا مِن اٴَحدٍ دَہَمَہُ اٴَمرٌ ۔۔۔۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام

مَا مِن شیءٍ اٴفضَلُ عِندَاللّہِ ۔۔۔۔۔ امام باقرعلیہ السلام

مَا مِن شَیْءٍ اِلاَّ وَلَہُ کَیلٌاٴَو ۔۔۔۔ ضرت امام صادق علیہ السلام

مَا مِن شَیْءٍ اٴَعْظَمُ ثَواباً۔۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

ما مِن صَلاةٍ یَحْضُرُ وَقتُھا ۔۔۔ ضرت رسول خدا(ص)

مَا مِنْ مَکْرُوبٍ یَدْعُو بِہذا ۔۔۔ ضرت رسول خدا (ص)

مُدَارَاةُ الرِّجَالِ مِن اٴَفْضَلِ الاْ ٴَعْمالِ“۔۔۔ ضرت علی علیہ السلام

یَا مُوسیٰ !اٴَشْکُرنِی حَقَّ شُکْرِی۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

المُداوَمَةَ المُداوَمَةَ!فَاِنَّ اللّٰہ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

اٴَمَرَنِی رَبِّی بِمُدَارَاةِ النَّاسِ،۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

اٴَمرُہُ قَضاءٌ وَحِکْمَةٌ،وَرِضاہُ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

مُعاداةُ الرِّجَالِ مِنْ شِیَمِ الجُہّالِ “ حضرت علی علیہ السلام

مَعْرِفَتِی بِالنُّورانِیَّةِ مَعْرِفَةُ الله“ حضرت علی علیہ السلام

المُقِرُّ بِالذَّنْبِ تائِبٌ“ حضرت علی علیہ السلام

مَن اٴھَانَ لِی وَلِیّاً فَقَدْ بارَزَنِی بِالْمُحَارَبَةِ“ حضرت پیغمبر اکرم(ص)

مَنْ اٴیْقَنَ اٴنَّہُ یُفَارِقُ الاٴحْبَابَ ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

مَن تَابَ تاب اللّٰہُ عَلَیہِ، حضرت علی علیہ السلام

مَن تَابَ الله تاب اللّٰہُ عَلَیہِ،۔۔۔ ضرت رسول خد ا ا(ص)

مَن تَقَرَّبَ إِلَیَّ شِبْراً تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ ۔۔۔ اللہ جل جلالہ(حدیث قدسی)

مَنْ تَنَزَّہَ عَن حُرُماتِ اللهِ سارَعَ ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

مِن حُسْنِ إِسلامِ المَرْءِ تَرکُ ۔۔۔ حضرت رسول اکرم(ص)

مَنْ حَسَّنَ بِرَّہُ اٴَہْلَ بَیْتِہِ ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

مَنْ اٴَخَذَ لِلْمَظْلُومِ مِنَ الظَالِمِ کاَنَ ۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

مَن خَرَجَ مِن عَینَیہِ مِثلُ ۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

مَن دَخَلَہُ العُجبُ ہَلَکَ “ حضرت امام صادق علیہ السلام

مَنْ اٴَرَادَ اٴن یَعِیشَ حُرّاً ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

مَن رَآنِی فَقَدْ رَاٴَی الحَقَّ“ حضرت رسول خدا(ص)

مَنْ رَضِیَ مِنَ اللهِ بِمَا قَسَمَ لَہُ ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

مَنْ زَھِدَ فِی الدُّنْیَا اٴثبَتَ اللهُ ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

مَنْ اٴَصْبَحَ لَایَہْتَمُّ بِاٴُمُورِ المُسْلِمِینَ ۔۔۔ ضرت رسول خدا(ص)

مَن عَامَلَ النَّاسَ وَلَمْ یَظْلِمْہُم ،۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

مِنْ عَلامَاتِ النِّفَاقِ :قَسَاوَةُ القَلْبِ ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

مَنْ غَلَبَتْ عَلَیْہِ الغَفْلَةُ مَاتَ قَلْبُہُ“۔۔۔ حضرت امیر المومنین(ع)

مَنْ فَرَّطَ تَوَرَّطَ“ ضرت امام صادق علیہ السلام

مَنْ قَالَ لَا إِلٰہ إِلاَّ اللهُ مُخْلِصاً دَخَلَ ۔۔۔ امام صادق علیہ السلام

مَن قَبِلَ اللّٰہُ مِنْہُ صَلاةً وَاحِدَةً ۔۔۔ امام صادق علیہ السلام

مَن قَضَی لِاٴخِیہِ المُوٴمِنِ حَاجةً ۔۔۔ امام صادق علیہ السلام

مَن قَضی لِاٴخِیہِ المُوٴمِنِ حَاجَةً،۔۔۔ حضرت رسول اکرم(ص)

مَن قَعَدَ عِنْدَ سَبَّابٍ لِاٴَوْلِیَاءِ اللهِ ۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

مَنْ قَنَعَ بِمَا رَزَقَہُ اللهُ۔۔۔ مام صادق علیہ السلام

مَن کَانَ یُوٴْمِنُ بِاللهِ وَالْیُوٴْمِ الآخِر۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

مَنْ کَثُرَاٴَکلُہ قَلَّت صَحَّتُہُ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

مَن کَثُرَ طُعامَہُ سَقُم بَطنُہُ ۔۔۔ ضرت علی علیہ السلام

مَن اٴَکَلَ لُقمَةً مِن حَرامٍ لَم تُقبَل ۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

مَنْ اٴَکَلَ مِن کَدِّ یَدِہِ کاَنَ یَومَ ۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

مَنْ لَمْ یَرْضَ بِمَا قَسَمَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ ۔۔۔ ضرت امام صادق علیہ السلام

مَنْ مَاتَ وَلَا یُشْرِکْ بِاللّٰہِ شَیْئاً ۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

مَنْ مَاتَ وَھُوَ یَعْلَمُ اِنَّ اللّٰہَ حَقُّ۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

مَنْ اٴَنْظَرَ مُعْسِراً اٴَوتَرَکَ مُعَاجَلَتَہُ۔۔۔ حضرت رسول خدا(ص)

مَن اٴَہَانَ لِی وَلِیّاً فَقَد اٴَرْصَدَ۔۔۔ ضرت رسول خدا(ص)

مُواسَاةُ الاٴَخِ فِی اللهِ عَزَّوَ۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

النَّائِمُ بِمَکَّةَ کاَلْمُجْتَہِدِ ۔۔۔ حضرت امام باقر علیہ السلام

اٴَنَا الجَاہِلُ عَصَیْتُکَ بِجِہْلِی۔۔۔۔ ضرت علی علیہ السلام

اٴَنَا مَلِکٌ حَیٌّ لَااٴَمُوتُ اٴَبَداً،عَبدِی ۔۔۔ للہ جل جلالہ(حدیث قدسی)

اٴَنْتَ رَجُلٌ قَدْ قَیَّدَتْکَ ۔۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

وَالَّذِی بَعَثَنِی بِالْحَقِّ بَشِیراً لَا یُعَذِّبُ ۔۔۔ ضرت رسول اکرم (ص)

وَالَّذِی لَااِلہَ اِلاَّ ھُو ،لَا یَحُسنُ ۔۔۔۔ حضرت رسول اکرم (ص)

اٴَوحَی اللهُ عَزَّوَجَلَّ الَی نَبیٍّ ۔۔۔۔ حضرت امام رضا علیہ السلام

وَقَدَّرَ الاٴَرْزاقَ فَکَثَّرَھا وَقَلَّلَھا ۔۔۔۔ ضرت علی علیہ السلام

وَآنِسْنا بِالذِّکْرِ الخَفِیِّ وَ ۔۔۔۔ ضرت امام باقر علیہ السلام

وَلَوْ حَرَصْتُ اٴَنَا وَالعادُّونَ مِن ۔۔۔ ضرت امام حسین علیہ السلام

وَمَنْ ذَرَفَتْ عَینَاہُ مِنْ خَشْیَةِ اللّٰہ۔۔۔ حضرت رسول اکرم (ص)

وَیْلٌ لِمَنْ غَلَبَتْ عَلَیْہِ الغَفْلَةُ فَنَسِیَ ۔۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام

یَابْنَ جُنْدَبٍ! اِنْ اٴَحْبَبْتَ اٴنْ تُجَاوِرَ ۔۔۔ امام صادق علیہ السلام

یَاعَلِیُّ اِنَّ القَوْمَ سَیُفْتَنُونَ۔۔۔۔ ضرت رسول اکرم(ص)

یَا عَلِیُّ اٴنْہَاکَ عَن ثَلاثِ ۔۔۔۔ ضرت رسول اکرم(ص)

یَاعَلِیُّ اٴَفْضَلُ الجِھادِ مَنْ اٴَصْبَحَ ۔۔۔ حضرت رسول اکرم(ص)

یَاکُمیلُ!لَیسَ الشَّاٴنُ اٴن تُصَلِّیَ ۔۔۔۔ حضرت امیر المومنین ()

یَا مَعْشَرَ مَن اٴَسْلَمَ ِبلِسَانِہِ وَلَمْ یُخْلِصِ۔۔۔ حضرت رسول اکرم(ص)

الیَاٴسُ مِن رَوحِ اللهِ اٴشدُّ بَرداً ۔۔۔۔ حضرت امام صادق علیہ السلام

یَقولُ رَبُّکُم :یَابنَ آدَمَ ،تَفَرَّغْ ۔۔۔۔ ضرت رسول اکرم(ص)

یَقولُ اللهُ یَومَ القِیَامَةِ:اٴخْرِجُوا مِنَ النَّارِ ۔۔۔ حضرت رسول اکرم(ص)

اٴَیَکُونُ ِلغَیرِکَ مِنَ الظُّھورِما لَیسَ ۔۔۔۔ ضرت امام حسین علیہ السلام

.............................................................................................

فھرست منابع و مآخذ

۱۔ ختصاص، شیخ مفید، کنگرہ شیخ مفید، قم، ۱۴۱۳ھ ۔ ق۔

۲۔ ربعین، شیخ بھائی۔

۳۔ رشاد ، شیخ مفید، کنگرہ شیخ مفید ، قم ، ۱۴۱۳ھ ق۔

۴۔ ستبصار،شیخ طوسی ،دارالکتب الاسلامیہ ،تھران ، ۱۳۹۰ھ ق۔

۵۔ سرار الآیات،صدر المتالھین ۔

۶۔ اسفار،صدر المتالھین ۔

۷۔ اسلام وھیئت،سید ھبةالدین شھرستانی۔

۸۔ افق دانش، ترجمہ مقالات خارجی۔

۹۔ اقبال الاعمال،سید ابن طاووس،دار الکتب الاسلامیہ،تھران،۱۳۶۷ھ ق۔

۱۰۔ الستین الجامع۔

۱۱۔ المیزان ،علامہ طباطبائی۔

۱۲۔ الٰھی نامہ،عطارنیشاپوری۔

۱۳۔ امالی،شیخ صدوق، کتابخانہ اسلامیہ ، ۱۳۶۲۔

۱۴۔ امالی، شیخ طوسی، دار الثقافہ،قم، ۱۴۱۳ھ ق۔

۱۵۔ امالی،شیخ مفید، کنگرہ شیخ مفید ،قم ، ۱۴۱۳ھ ق ۔

۱۶۔ انجیل برنابا۔

۱۷۔ انیس اللیل، آیت اللہ شیخ محمد رضا کلباسی ،روح ،سوم۔

۱۸۔ بحارالانوار،علامہ مجلسی،الوفاء ،بیروت، ۱۴۰۴ھ ق۔

۱۹۔ بحر الحقایق،تفسیر سورہ یوسف۔

۲۰۔ بحر المعارف،ملا عبدالصمد ھمدانی ۔

۲۱۔ بلدالامین،ابراھیم بن علی عاملی کفعمی،چاپ سنگی۔

۲۳۔ بوستان،سعدی شیرازی۔

۲۴۔ تحف العقول،حسن بن شعبہ حرانی،جامعہ مدرسین،قم، ۱۴۰۴ھ ق۔

۲۵۔ تذکرہ،ابن جوزی۔

۲۶۔ تذکرة الاولیاء،عطارنیشاپوری۔

۲۷۔ تفسیر ابوالفتوح،ابوالفتوح رازی۔

۲۸۔ تفسیربرھان،سیدھاشم بحرانی۔

۲۹۔ تفسیر روح البیان،اسماعیل حقی بروسوی۔

۳۰۔ تفسیرصافی،فیض کاشانی،الاعلمی،بیروت۔

۳۱۔ تفسیرعیاشی،عیاشی،مکتبةالعلمیة الاسلامیة۔

۳۲۔ تفسیرفاتحةالکتاب،یکی ازعلمای عصر فیض کاشانی،انجمن حکمت وفلسفہ ایران۔

۳۳۔ تفسیرقمی،علی بن ابراھیم قمی،الاعلمی،بیروت۔

۳۴۔ تفسیرکشف الاسرار،میبدی۔

۳۵۔ تفسیرمعین،ھویدی۔

۳۶۔ تفسیرنمونہ،مکارم شیرازی،دارالکتب الاسلامیہ ۔

۳۷۔ تفسیرنورالثقلین،حویزی،اسماعیلیان۔

۳۸۔ تفسیرنیشاپوری،نیشاپوری۔

۳۹۔ توحید،شیخ صدوق،حیدری،اول۔

۴۰۔ توریت۔

۴۱۔ تہذیب،شیخ طوسی،دار الکتب الاسلامیہ،تھران،۱۳۶۵۔

۴۲۔ ثواب الاعمال،شیخ صدوق،شر یف رضی،قم،۱۳۶۴۔

۴۳۔ جامع احادیث شیعہ ،آیت اللہ بروجردی۔

۴۴۔ جامع الاخبار،تاج الدین شعیری،رضی،قم،۱۳۶۳۔

۴۵۔ حکمت متعالیہ،صدر المتالھین۔

۴۶۔ دانستنیھای جھان علم،ترجمہ احمد آرام۔

۴۷۔ دعوات،قطب الدین رواندی،مدرسہ امام مھدی(عج)،قم، ۱۴۰۷ھ ق۔

۴۸۔ دیوان اسرار،حاج ملاھادی سبزواری۔

۴۹۔ دیوان اشعار،الٰھی قمشہ ای۔

۵۰۔ دیوان اشعار،سنائی غزنویی۔

۵۱۔ دیوان اشعار،عطار نیشاپوری۔

۵۲۔ دیوان اشعار،ھاتف اصفھانی۔

۵۳۔ دیوان حافظ۔

۵۴۔ دیوان سعدی شیرازی۔

۵۵۔ دیوان شمس،مولوی۔

۵۶۔ دیوان فیض کاشانی۔

۵۷۔ دیوان ھمای شیرازی۔

۵۸۔ ربیع الآثار،آیت اللہ حاج شیخ علی اکبر برھان۔

۵۹۔ رجال کشی،محمد بن عمر کشی،دانشگاہ مشھد،۱۳۴۸۔

۶۰۔ رسائل،سیدمرتضی،سیدالشھداء،اول۔

۶۱۔ روضة المتقین،محمد تقی مجلسی۔

۶۲۔ روضة المذنبین،احمد جام۔

۶۳۔ روضة الواعظین،محمد بن حسن فتال نیشاپوری،رضی،قم۔

۶۴۔ زاد المعاد،علامہ مجلسی۔

۶۵۔ زبور۔

۶۶۔ زینةالمجالس،قاضی نور اللہ شوشتری۔

۶۷۔ سفینةالبحار،حاج شیخ عباس قمی۔

۶۸۔ شافی ،فیض کاشانی۔

۶۹۔ شرح صحیفہ،سید نعمت اللہ جزائری۔

۷۰۔ صافی،فیض کاشانی۔

۷۲۔ صحیفہ ٴ سجادیہ۔

۷۳۔ عدة الداعی،ابن فھد حلی،دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ھ ق۔

۷۴۔ عرشیہ،صدر المتالھین۔

۷۵۔ علل الشرائع،شیخ صدوق،مکتبة الداوری،قم۔

۷۶۔ علم اخلاق،دکتر مھدی بامداد۔

۷۷۔ علم الیقین،فیض کاشانی۔

۷۸۔ عوالی اللآلی،ابن ابی جمھور احسائی،سیدالشھداء،قم، ۱۴۰۵ ھ ق ۔

۷۹۔ عیون اخبار الرضا،شیخ صدوق،جھان،۱۳۷۸۔

۸۰۔ غرر الحکم،عبد الواحد بن محمد تمیمی آمدی،دفتر تبلیغات،قم،۱۳۶۶۔

۸۱۔ فرھاد وشیرین،وحشی بافقی۔

۸۲۔ قصص الانبیاء،ثعلبی۔

۸۳۔ قلب سلیم ،شھید دستغیب۔

۸۴۔ کافی،ثقة الاسلام کلینی، دار الکتب الاسلامیہ ،تھران، ۱۳۶۵۔

۸۵۔ کشف الاسرار،میبدی۔

۸۶۔ کلمة اللہ،سید حسن شیرازی۔

۸۷۔ کنز العمال،علی المتقی الھندی،التراث الاسلامی ،بیروت ،۱۳۸۹ ھ ق۔

۸۸۔ گذشتہ وآئندہ جھان ،بی آزار شیرازی،بعثت،سوم۔

۸۹۔ گزیدہ ہفت او رنگ،جامی۔

۹۰۔ گناھان کبیرہ،شھید دستغیب۔

۹۱۔ مثنوی معنوی،مولوی۔

۹۲۔ مجالس المؤمنین،قاضی نور اللہ شوشتری۔

۹۳۔ مجمع البیان،طبرسی،دار الاحیاء التراث العربی ،بیروت۔

۹۴۔ مجموعہ ورّام،ورام بن ابی فراس، مکتبة الفقیہ،قم۔

۹۵۔ محجةالبیضاء،فیض کاشانی ،دفتر انتشارات اسلامی۔

۹۶۔ مدارج القدس،غزالی۔

۹۷۔ مستدرکات علم الرجال،حاج شیخ علی نمازی شاھرودی،حیدریہ،تھران۔

۹۸۔ مستدرک الوسائل ،محدث نوری،آل البیت ،قم، ۱۴۰۸۔

۹۹۔ مشکاة الانوار ،ابوالفضل علی طبرسی ،حیدریہ ، نجف ، ۱۳۸۵ھ ق۔

۱۰۰۔ مصباح،ابراھیم بن علی عاملی کفعمی۔ رضی ،قم ، ۱۴۰۵ھ ق۔

۱۰۱۔ مصباح الشریعہ،امام صادق،الاعلمی للمطبوعات ، ۱۴۰۰ ھ ق۔

۱۰۲۔ معانی الاخبار،شیخ صدوق ،جامعہ مدرسین قم ، ۱۳۶۱ ۔

۱۰۳۔ مفاتیح الغیب،صدر المتالھین،خواندنیھا ،اول۔

۱۰۴۔ مقنعہ،شیخ مفید،کنگرہ شیخ مفید ،قم، ۴۱۳ ۱ھ ق۔

۱۰۵۔ مکارم الاخلاق،رضی الدین حسن بن فضل طبرسی،شریف رضی،قم۔

۱۰۶۔ منازل الآخرہ،حاج شیخ عباس قمی۔

۱۰۷۔ مناقب آل ابی طالب،ابن شھر آشوب،مطبعة العلمیہ ، قم۔

۱۰۸۔ منطق الطیر ،عطار نیشاپوری۔

۱۰۹۔ من لا یحضرہ الفقیہ،شیخ صدوق ،جامعہ مدرسین ،قم، ۱۴۱۳ ھ ق۔

۱۱۰۔ منہج الصادقین،ملا فتح اللہ کاشانی۔

۱۱۱۔ مواعظ العددیہ، مشکینی۔

۱۱۲۔ میزان الحکمہ”مترجم“محمدی ری شھری،دارالحدیث،دوم ،۱۳۷۹۔

۱۱۳۔ نشانہ ھائی ازاو،سید رضاصدر ،بعثت ،اول۔

۱۱۴۔ نفحات اللیل،آیت اللہ شیخ محمد رضاکلباسی۔

۱۱۵۔ نہج البلاغہ۔

۱۱۶۔ نیایش امام حسین(ع) در بیابان عرفات،علامہ جعفری۔

۱۱۷۔ وافی،فیض کاشانی ۔

۱۱۸۔ وسائل الشیعہ،شیخ حر عاملی ،آل البیت ،قم، ۱۴۰۹


[1] بحار الانوار:۶۶۶۷۱،باب۱۰،حدیث۳۲۔

[2] غررالحکم :۴۳۱،ذم قرین السوء،حدیث۹۸۱۶۔

[3] بحار الانوار :۱۹۸۷۱،باب۱۴۔

[4] تحف العقول:۳۱۶۔

[5] غررالحکم :۴۳۰،صاحب الحکماء و العلماء ۔حدیث۹۷۸۹۔

[6] میزان الحکمة :۱۱۲۴۳،الحرام،حدیث۱۳۶۶۰۔

[7] مجموعہ ورام:۶۱۱،باب العتاب ،میزان الحکمة: ۱۱۲۴۳۔ الحرام ،حدیث۱۳۶۶۱۔

[8] بحار الانوار :۱۲۱۰۰،باب۱،حدیث۵۲؛میزان الحکمة :۱۱۲۴۳، الحرام، حدیث ۱۳۶۶۳۔

[9] امالی طوسی:۶۸۰،مجلس ۳۷،حدیث۱۴۴۷۔

[10] بحار الانوار:۳۹۴۶۸،باب۹۲،ذیل حدیث۶۳۔

[11] کافی:۳۲۱۲،باب سوء الخلق،حدیث۱۔

[12] بحار الانوار:۳۳۸۶۳،باب۵،حدیث۳۵۔

[13] غررالحکم :۳۶۰،الفصل الرابع البطنة و آثارھا :۸۱۶۸۔

[14] غررالحکم :۳۶۱،الفصل الرابع البطنة و آثارھا :۸۱۷۸۔

[15] مستدر ک الوسائل:۲۱۱۱۶،باب۱،حدیث۱۹۶۲۷۔

[16] میزان الحکمة: ۱۳ ۶۵۵۰، النوم، حدیث ۲۰۹۱۷۔

[17] خصال شیخ صدوق ، ج۱ ص ۲۸،میزان الحکمة: ۱۳ ۶۵۵۰، النوم، حدیث ۲۰۹۱۵۔

[18] غررالحکم :۱۵۹،حدیث۳۰۳۰؛میزان الحکمة:۶۵۵۰۱۳،النوم، حدیث۲۰۹۲۴۔

خدمت خلق میں مشغول رھے گا۔

[19] کافی:۸۳۲،باب العبادة ،حدیث۳۔

[20] کنزل العمال :۴۳۶۱۴؛میزان الحکمة :۳۴۱۲۷،العبادة ،حدیث۱۱۶۰۸۔

[21]مستد رک الوسائل ج۹ ص ۱۹، باب استحباب الصمت، حدیث ۱۰۰۸۵۔

[22] مستد رک الوسائل ج۹ ص ۱۹، باب وجوب طاعه الله، حدیث 12928

[23] بحار الانوار:۱۶۶۷،باب۴۳،حدیث۸۔

[24] امالی طوسی:۴۸۱،حدیث۱۰۵۱؛میزان الحکمة: ۳ ۱۳۱۸، الحاجة ،حدیث۴۴۶۱۔

[25] کافی:۱۹۲۲،باب قضاء حاجة الموٴمن ،حدیث۱۔

[26] وسائل الشیعہ:۳۵۹۱۶،باب استحباب قضاء حاجة الموٴمن، حدیث۲۱۷۵۸۔

[27] میزان الحکمة ۹۵۲۲ المحبة (۲) حدیث ۳۱۲۶۔

[28] کافی:۱۹۹۲،باب السعي فی حاجة الموٴمن ،حدیث۱۰۔

[29] تفسیر المیزان ج۱۹ص ۱۴۰۔

[30] تحف العقول ص ۲۰۔

[31] ”وَإِنْ کُنتُمْ فِی رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَاٴْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِہ۔“

[32] ” قُلْ لَئِنْ اجْتَمَعَتْ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَی اٴَنْ یَاٴْتُوا بِمِثْلِ ہَذَا الْقُرْآنِ لاَیَاٴْتُونَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیرًا۔“

[33] سورہ حجرات آیت ۱۳۔

[34] نفحات اللیل ص ۲۳۰۔

[35] محجة البیضاء ج۶ص۱۹۰، کتاب آفات اللسان۔

[36] سورہ بقرہ آیت ۸۳۔

[37] سورہ فصلت، آیت۳۳ ۔

[38] سورہ انعام آیت ۱۵۲ ۔

[39] سورہ شعراء آیت ۸۴۔

[40] سورہ اسراء آیت ۲۳۔

[41] سورہ طٰہٰ، آیت ۴۳۔

[42] سورہ بقرہ آیت ۱۳۶۔

[43] سورہ نساء آیت ۹۔

[44] سورہ نساء آیت ۵۔

[45] سورہ نساء آیت ۶۳۔

[46] کافی:۲۸۵،باب وصیة الرسول(ص)،حدیث۴۔

[47] سورہ بقرہ آیت ۱۸۶۔

[48] سورہ غافر آیت ۶۰۔

[49] نور الثقلین، ج۳ ص ۲۴۹۔

[50] انیس اللیل ص ۴۵۳۔

[51] کافی:۹۵،باب جھاد الرجل و المراٴة،حدیث۱۔

[52] مناقب ابن شھر آشوب ج۴ ص ۵۱۔

[53] سورہ یوسف آیت ۸۷۔

[54] بحار الانوار ج ۴۴ص۱۸۷، باب ۲۵، حدیث ۶۔

[55] روضة المذنبین ص ۱۷۰۔

[56] انیس اللیل :۵۳۰۔

[57] سورہ اعراف آیت ۱۸۰۔

تمت بالخیر

No comments: